اہلحدیث کے عقائد و نظریات Beliefs of Ahle Hadith

اہل حدیث ، بنیادی طور پر ایک عمومی مفہوم رکھنے والی اصطلاح ہے کیونکہ کوئی گروہ بھی مسلمانوں کا سواۓ اہل القران کے ایسا نہیں جو حدیث کا منکر ہو اور اس لحاظ سے تمام مسلمان ہی اہل حدیث کہے جاسکتے ہیں لیکن اس کے باوجود متعدد سیاسی و جغرافیائی عوامل کی وجہ سے آج یہ اصطلاح ان لوگوں کے ليے ہی مخصوص کی جاچکی ہے کہ جو غیر مقلد ہیں۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ  کے مطابق
ہم اہل حدیث سے صرف حدیث لکھنے اور سننے اور روایت کرنے والا ہی مراد نہیں لیتے ، بلکہ ہر وہ شخص جس نے حدیث کی حفاظت کی ،اس پرعمل کیا اوراس کی ظاہری وباطنی معرفت حاصل کی ، اور اسی طرح اس کی ظاہری اورباطنی طور پر اتباع وپیروی کی تو وہ اہل حديث کہلا نے کا زيادہ حقدار ہے ۔اوراسی طرح قرآن پرعمل کرنے والا بھی وہی ہے ۔اوران کی سب سے کم خصلت یہ ہے کہ وہ قرآن مجید اورحدیث نبویہ سے محبت کرتے اوراس کی اور اس کے معانی کی تلاش میں رہتے ہیں، اوراس کے موجبات پرعمل کرتے ہیں-

اس فرقہ پرستی کے دور میں بہت سے فرقے وجود میں ہیں جو سب قرآن و سنت و احادیث پر عمل کے دعوے دار ہیں مگر ایک فرقہ دوسرے فرقوں کو گمراہی پر قرار دیتا ہے .. مخالفین دعوی کرتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں غیر مقلد کہلانے والےوہ لوگ ہیں جنہوں نے انگریزوں سے وفاداری کے نتیجہ میں اپنا نام وہابی(عبد الوہاب کے پیروکار) سے تبدیل کروا کر اہلحدیث رکھوا لیا اس سلسلہ میں محمد حسین بٹالوی نے جنگ آزادی (1857ء) کے موقع پرایک کتاب الاقتصاد فی المسائل الجہاد لکھی جس میں انگریزوں سے وفاداری کا اظہار کرتے ہوئےجہاد کی ممانعت ثابت کی اور پھر اس کےصلہ میں اپنا نام وہابی سے اہلحدیث رکھوایا ایوب قادری لکھتے ہیں انہوں (محمد حسین بٹالوی) نے ارکان جماعت اہلحدیث کی ایک دستخطی درخواست لیفٹیننٹ گورنر پنجاب کے ذریعے سے وائسرائے ہند کے نام روانہ کردی اس درخواست پر سر فہرست شمس العلما ءمیاں نذیر حسین کے دستخط تھے ۔گورنر پنجاب نے وہ درخواست اپنی تائیدی تحریر کے ساتھ گورنمنٹ آف انڈیا کو بھیج دی۔وہاں سے حسب ضابطہ منظوری آگئی کہ آئیندہ وہابی کی بجائے اہلحدیث کا لفظ استعمال کیا جائے مزید پڑھیں 》》》》》》

تمام مسلمان اپنے اپنے عقائد و نظریات، [جس کو وہ قرآن و سنت کی بنیاد پر دین اسلام سمجھتے ہیں] پر قائم رہتے ہوۓ، موجودہ فرقہ وارانہ ناموں کو ختم کرکہ قرآن میں الله کے عطا کردہ نام مسلم (الۡمُسۡلِمِیۡنَ ،مُّسْلِمَةً ،مُّسْلِمُونَ،مُّسْلِمًا) کہلانے پر متفق ہو جائیں تو یہ فرقہ واریت کے خاتمہ کی طرف پہلا موثر قدم ہو گا !

“مسلم” (الله کا فرمانبردار) کی نسبت الله کے صفاتی نام “السلام ” اور دین اسلام سے بھی ہے ، اس نام کا حکم اور تاکید الله نے قرآن میں 41 آیات میں بار بار دہرایا …

یہ ابتدا ہو گی، پہلا قدم “أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ “دین کامل کی طرف … کسی فرقہ کے نام سے شناخت اور وضاحت کی ضرورت نہیں کیونکہ … ” نظریات خود اپنی شناخت رکھتے ہیں” … فرق عمل سے پڑتا ہے-

Muslim Only صرف مسلمان