دین اسلام کے نفاذ کی اسٹریٹجی

Image result for ‫دین اسلام نفاذ‬‎
 
یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ عالمی تحریکات اسلامی کی دعوت کا بنیادی مقصد  اقامتِ دین کے ذریعے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رضا کا حصول ہے۔ یہی وہ پہلو ہے جو تحریکات اسلامی کو دیگر تنظیموں سے ممتاز کرتا ہے ۔ بعض دعوتی تنظیمیں اپنی زیادہ توجہ عبادات پر دیتی ہیں ۔ چنانچہ ان کی نگاہ میں نماز ، روزہ، زکوٰۃ اور حج کا صحیح طور پر ادا کرنا دین داری کی دلیل سمجھا جاتا ہے۔ ان تنظیموں سے وابستہ افراد اسی غرض سے دُور دراز کے سفر کرتے ہیں کہ لوگوں کو عبادات کے فضائل سمجھائیں اور بالخصوص نماز کے فرائض اور واجبات سے آگاہ کریں۔ ان کی یہ خدمات قابلِ قدر اور دین کی اقامت کی کوشش کا ایک اہم ابتدائی حصہ ہیں۔ لیکن کیا اقامت ِ دین کی جدوجہد کی ابتدا اور انتہا بس یہی ہے؟

قرآنِ پاک کی تعلیمات اور اسوئہ رسولؐ کی روشنی میں اس پہلو کا سمجھنا بہت ضروری ہے۔ خصوصیت سے موجودہ عالمی حالات اور اسلام کے باب میں مغربی اور خود مسلم دنیا میں مغربی فکر کے زیراثر سوچنے والے دانش وروں اور نشری اداروں کے اسلام میں دین و دنیا اور مذہب و ریاست کے تعلق کے بارے میں فکری اور سیاسی یلغار کی روشنی میں کچھ عناصر اپنی سادگی میں اور کچھ دوسرے مقاصد سے دین کو مسجد، مدرسہ اور گھر کے دائرے میں محدود کرنے کی خدمت انجام دے رہے ہیں ۔ ان کا ہدف اسلام کا وہ تصور ہے جو زندگی کی تمام وسعتوں پر حاوی ہے۔ کچھ عناصر کوشش کرتے ہیں کہ تحریکاتِ اسلامی کے تصور ’اقامتِ دین‘ کی اصطلاح کو دین کی سیاسی تعبیر قرار دے کر اس سے اپنی براء ت کا اظہار کریں۔ کچھ اخلاص سے دین کو ایک محدود دائرے میں محصور کررہے اور دوسرے پوری ہوشیاری کے ساتھ دین کو اجتماعی زندگی سے خارج کرنا چاہتے ہیں۔
 
فریضہ اقامتِ دین
تحریکاتِ اسلامی ’اقامت ِ دین‘ کی اصطلاح کے استعمال پر اس لیے اصرار کرتی ہیں کہ ان کے خیال میں اسلام ایک جامع دین ہے اوردین کی جامعیت اس کے معاشرتی ، معاشی ، قانونی، ثقافتی اور سیاسی کردار کےبغیر ممکن نہیں ہو سکتی ۔
اسلام اور عیسائیت میں ایک نمایاں فرق یہی ہے کہ عیسائیت زندگی کو دوخانوں میں تقسیم کرتی ہے۔ ایک کا تعلق حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کی اخلاقی تعلیمات و عمل سے ہے اور دوسرے کا تعلق دنیاوی شان و شوکت اور معا شی اور سیاسی معاملات سے ۔چنانچہ ایک دین دار عیسائی کا مطلب یہی لیا جاتا ہے کہ وہ باقاعدگی سے چرچ جاتا ہواور اپنے پڑوسی کے ساتھ محبت سے پیش آئے، حضرت عیسیٰؑ کی طرح اگرممکن ہو تو تجرد کی زندگی اختیار کرے اور آخر کار آپ علیہ اسلا م کے اسوہ پر عمل کرتے ہوئے اپنے عقیدے کے تحفظ میں سولی پر چڑھ سکے تو یہ گویا اس کی مذہبی معراج ہوگی ۔ اسلام کا مطلوبہ معیار اس سے بالکل مختلف وہ اسوۂ حسنہؐ ہے، جس میں مکہ مکرمہ میں پیش آنے والے امتحانات ، ظلم و تشدد سے گزرنے کے بعد مدینہ منورہ میں اسلامی معاشرت، اسلامی معیشت، اسلامی ثقافت اور اسلامی طریق حکمرانی کی اعلیٰ ترین مثال آپؐ نے اپنے عمل سے پیش فرما کر دین کی تکمیل اور تفسیر فرمائی۔ اس طرح اپنے طرزِ عمل کی شکل میں زندگی کی اکائی کو غیر منقسم اور توحیدی بناکر ایک قابلِ عمل نمونہ قیامت تک کے لیے پیش فرما دیا ۔
تحریکاتِ اسلامی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی جامع تصور اسوۂ حسنہ کو اپنے لیے دین کی مستند تعبیر اورعملی مثال قرار دیتی ہیں۔اس بنا پر ان کے کارکنان راتوں کی تنہائی میں اپنے ربّ کے حضور گڑگڑا کر مدد کی درخواست کرتے ہیں اور دن کی روشنی میں اسوۂ نبویؐ کی پیروی کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر اقامتِ صلوٰۃ ، اقامتِ زکوٰۃ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کی حفاظت او ران کے نفاذ وقیام اور انسانی معاشرے میں عدل و انصاف کے قیام کو دین کا لازمی عنصر سمجھتے ہیں ۔
سوال کیا جاتا ہے کہ ’اقامتِ دین کی اصطلاح کہاں سے آگئی ؟ ہم نے بچپن سے ارکانِ اسلام کے نام سے کلمۂ شہادت ، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کے بارے میں تو سنا ہےکہ یہ دین کے ارکان ہیں ،یہ بھی سنا ہے کہ بعض فقہا جہاد کو چھٹا رکن کہتے ہیں لیکن یہ اقامتِ دین کا تصور کہاں سے آگیا؟‘ نہ صرف یہ بلکہ یہ بھی کہا جا تا ہے کہ اسلام تو دیگر مذاہب کی طرح ایک مذہب ہے اور ظاہر ہے مذاہب عالم عمو ما ًاپنے آپ کو انسان اور انسانوں کےخدا کے درمیان ایک روحانی رشتہ ہی سے تعبیر کرتے ہیں،جب کہ سیاسی اقتدار ایک مادی اور دنیاوی تصور ہے ۔ اس لیے ان کے نزدیک سیاست اور مذہب دو الگ الگ چیزیں ہیں ۔
یہی وہ بنیادی فکری انتشار ہے جو آگے چل کر یہ بھی سمجھاتا ہے کہ نہ صرف مذہب اور سیاسی سرگرمی دو مختلف چیزیں ہیں بلکہ روحانیت اور للہیت اور معاشرتی اور سیاسی سرگرمی دو متضاد چیزیں ہیں۔ اس لیے ایسے افراد کے نزدیک سچی مذہبیت اور روحانیت یہ ہو گی کہ انسان خاندانی جھمیلوں سے بچ کر رہے اور اپنے رب سے لو لگانے کے لیے کسی خانقاہ ، کسی پہاڑی کے غار ، کسی صحرا میں گو شہ نشین ہو کر اپنے آپ کو ہر طرف سے کاٹ کر اپنے رب کا ’ولی‘ بن جائے ۔ انسانی فکر کے ان لامتناہی تصورات کا سلسلہ کسی ایک مقام پر جا کر نہیں رُکتا۔ سوال یہ ہے کہ پھر حق کیا ہے ؟کیا اسلام واقعی دیگر مذاہب کی طرح ایک مذہب ہے یا اس کی اپنی کوئی پہچان اور خصوصیت ہے؟
قرآن کریم کی زبان میں اسلام اپنے آپ کو مذہب کی جگہ دین قرار دیتا ہے، اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ (اٰل عمرٰن ۳:۹)۔ اس کے ساتھ ہی اپنے بارے میں ایک حرکی تصور دیتا ہے کہ یہ انسان کو تاریکی سے نکال کر نور میں لے آتا ہے ۔ اسی بنا پر ہم اسلام کو توحید کے قیام کی تحریک کہتے ہیں ۔
 
اقامتِ دین کا مفہوم
اقامت کا لفظ جب کسی ٹھوس چیز کے لیے بولا جائے ، اس کے معنی سیدھا کر دینے کے ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں کہا گیا: يُّرِيْدُ اَنْ يَّنْقَضَّ فَاَقَامَهٗ  ط (الکہف۱۸:۷۷) ’’دیوار (ایک طرف جھک گئی تھی اور) گرا چاہتی تھی تو اسے سیدھا کر دیا‘‘، اور جب معنوی اشیا کے لیے بولا جائے تو اس کا معنی، مفہوم کاپورا کا پورا حق ادا کردینے کے لیے آتا ہے ۔
امام راغب الا صفہانی اقامتہ الشئی کے معنی ’’ کسی چیز کا پورا پورا حق ادا کرنے کے‘‘ بیان کرتے ہیں اور قرآن سے دو مثالیں وضاحت کے لیے پیش کرتے ہیں:
 قُلْ يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰي شَيْءٍ حَتّٰي تُقِيْمُوا التَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ ط وَلَيَزِيْدَنَّ كَثِيْرًا مِّنْهُمْ مَّآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ طُغْيَانًا وَّكُفْرًا ج  فَلَا تَاْسَ عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ o  (المائدہ۵:۶۸) صاف کہہ دو کہ   ’’اے اہل کتاب ! تم ہرگز کسی اصل پر نہیں ہو جب تک کہ تورات اور انجیل اور ان دوسری کتابوں کو قائم نہ کرو جو تمھاری طرف تمھارے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہیں‘‘۔ ضرور ہے کہ یہ فرمان جو تم پر نازل کیا گیا ہے ان میں سے اکثر کی سرکشی اور انکار کو اور زیادہ بڑھا دے گا، مگر انکار کرنے والوں کے حال پر کچھ افسوس نہ کرو۔ ﴿
وَلَوْ اَنَّ اَهْلَ الْكِتٰبِ اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَيِّاٰتِهِمْ وَلَاَدْخَلْنٰهُمْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ o وَلَوْ اَنَّهُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِمْ مِّنْ رَّبِّهِمْ لَاَكَلُوْا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْ  ط مِنْهُمْ اُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ  وَكَثِيْرٌ مِّنْهُمْ سَاۗءَ مَا يَعْمَلُوْنَ o  (المائدہ۵:۶۵-۶۶) اگر (اس سرکشی کے بجاے) یہ   اہل کتاب ایمان لے آتے اور خدا ترسی کی رَوش اختیار کرتے تو ہم ان کی برائیاں  ان سے دُور کردیتے اور ان کو نعمت بھری جنتوں میں پہنچاتے۔ کاش! انھوں نے تورات اور انجیل اور ان دوسری کتابوں کو قائم کیا ہوتا جو ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس بھیجی گئی تھیں۔ ایسا کرتے تو ان کے لیے اوپر سے رزق برستا اور نیچے سے اُبلتا۔  اگرچہ ان میں کچھ لوگ راست رَو بھی ہیں لیکن ان کی اکثریت سخت بد عمل ہے۔
 گویا اسلام سے قبل بنی اسرائیل کو جب قیادت کی ذمہ داری دی گئی تو ان سے بھی یہی کہا گیا کہ وہ تورات کو پورا کا پورا جیسا اس کا حق ہےسمجھیں ، نافذ اور قائم کریں اور اس میں اپنے مطلب کے اجزا الگ کر کے دین کے ٹکڑے ٹکڑے نہ کردیں ۔ قرآن کریم نے نہ صرف تورات کے حوالے سے بلکہ دین حق کے حوالے سے بھی جگہ جگہ یہ بات واضح کر دی ہے کہ صحیح اور سیدھا دین اگر ہے تو صرف اسلام ہی ہے۔ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ  (یوسف ۱۲:۴۰) ’’یہی ٹھیٹھ سیدھا طریقِ زندگی ہے‘‘۔
اسی دین کی اقامت کے لیے اُمت مسلمہ کو خیر امتہ اور امت وسط قرار دیتے ہوئے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنے پر مامور کیا گیاہے ۔ یہ کام جہاں اجتماعیت ، نظم و ضبط اور تحریک کےبغیر عقلاً ممکن نہیں ، وہاں اولین تحریک اسلامی کی تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اقامتِ دین کی جدوجہد کے لیے جن تربیت یافتہ اصحاب کی ٹیم کو تیار کیا    ان سب نے اجتماعی طور پر مدینہ منورہ میں وہ نظام قائم کیا جس نے عدل، توازن ، عبودیت اور حاکمیت ِالٰہی کی قرآنی تعلیمات و احکام کو اور قرآنی حدود و تعزیرات کو عملاً قائم کر کے دین کے کامل اور قابل عمل ہونے کو قیامت تک کے لیے جیتی جاگتی مثال بنا دیا ۔ سادہ الفاظ میں اقامتِ دین کا مفہوم اسلامی عبادات کے ساتھ دین کے معاشرتی، معاشی اور سیاسی نظام کا زمین پر نافذکرنا ہے ۔
 
اقامتِ دین کی حکمت
 سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اقامتِ دین کا مطلب پورے کے پورے دین کو قائم کرنا ہے جسے اس دور میں بظاہر’ بدنام‘کرنے کے لیے مغرب میں ’سیاسی اسلام‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے، تو یہ’ سیاسی اسلام‘ ان ممالک میں کیسے نافذ ہو گا جہاں لا دینی جمہوریت یا سرمایہ دارانہ نظام رائج ہے؟قرآن کریم میں اقامتِ دین کے لیے اُمت مسلمہ کو ذمہ داری دیتے وقت یہ بات بھی واضح کر دی گئی ہے کہ امت کی جواب دہی ہمیشہ بقدر استطاعت ہو گی۔ اگر مسلمان کسی اکثریتی ملک میں جہاں اہل ایمان کو یہ آزادی ہے کہ وہ نہ صرف اپنے گھریلو ، معاشی، معاشرتی ، ثقافتی معاملات بلکہ سیاسی معاملات میں ایسے افراد کو ذمہ داری پر مامور کریں جو اللہ تعالیٰ کے احکام کے پابند ہوں اور ان کے نفاذ کے لیے کوشاں ہوں، لیکن وہ لوگ ایسا نہ کریں تو اس دنیا میں اور آخرت میں بھی ان سےدین کی اقامت نہ کرنےپر احتساب نہ صرف عقل کا مطالبہ ہے بلکہ قرآن کے واضح احکام کی شکل میں پایا جاتا ہے ۔
اگر مسلمان کسی ایسے ملک میں ہوں جہاں وہ ’مذہبی آزادی‘کے اصول کی بنا پر دین کے ایک حصے پر عمل کر سکتے ہوں اور بغیر کسی روک ٹوک کے دین کی دعوت بھی پیش کر سکتے ہوں لیکن تبدیلیِ اقتدار ان کے اختیار میں نہ ہو، تو اقامتِ دین کے حوالے سے ان کی ذمہ داری اور آخرت میں جواب دہی اسی حد تک ہو گی جتنا انھیں عمل کرنے کی آزادی حاصل ہے۔ لیکن اس تناظر میں انھیں یہ حق حاصل نہیں ہو گا کہ وہ مقامی صورت حال کے پیش نظر دین کی من مانی تعبیر کرتے ہوئے اس کے سیاسی ، معاشی اور قانونی تعلیمات کے منکر ہوکر دین کو صرف انفرادی زندگی تک محدود کرکے عیسائیت کی طرح ایک روحانی مذہب بنا دیں۔یہ تو اللہ کے دین کے ساتھ مذا ق اورعملی بغاوت ہوگی۔ البتہ دین کو اس کی جامعیت کے ساتھ تسلیم کرتے ہوئے حالات کی روشنی میں عمل کریں اور دعوت و تبلیغ کے ذریعے اپنی بساط بھر کوشش کرتے ہیں تو یہ صراطِ مستقیم سے قریب تر ہوگا۔ دین جیسا ہے ویسا ہی رہے گا ___ ہاں، اس کے بعض مطالبات زمان و مکان کی قید کی بناپر اس وقت تک نافذ نہیں ہوں گے جب تک ان کےنفاذ کی قوت ہاتھ میں نہ آجائے۔ اس معاملے میں قرآن کریم نے ’تکلیف‘ کے اصول کو بڑے واضح الفاظ میں بیان کر دیا ہے: لَا تُکَلَّفُ نَفْسٌ اِلَّا وُسْعَھَا ج (البقرہ ۲:۲۳۳) ’’مگر کسی پر اس کی وسعت سے بڑھ کر بار نہ ڈالنا چاہیے‘‘۔
یہ آیت ہمیں یہ اصول سمجھاتی ہے کہ انسان کس حد تک ذمہ دار اور جواب دہ ہے ۔ اس کی جواب دہی بھی انھی معاملات میں ہے جن میں اسے اختیار ہے ۔ اس لیے یہ ساری بحث کہ امریکا میں یا یورپ میں اقامتِ دین کیسے ہو گی ؟ دین کے بنیادی حقائق کو صحیح طور پر نہ سمجھنے سے پیدا ہوتی ہے ۔ دین بہت سادہ ، عملی اور عقلی ہے۔ گویا اقامتِ دین سارے کے سارے دین کی تعلیمات کی دعوت اور نفاذکا نام ہے لیکن اگر صورت حال ایسی ہو کہ بعض احکام پر مکمل عمل امکان اور اختیار سے باہر ہو تو جس حد تک عمل ہو سکتا ہے اس کا اہتمام وہی دین کا مطالبہ ہوگا ۔ مثلاًایک شخص طاقت ور مومن ہو لیکن اسے زنجیروں سے اس حد تک باندھ دیا جائے کہ وہ صرف رکوع کر سکتا ہو سجدہ نہ کرسکتا ہو تو کیا اس بنا پروہ نماز ترک کر دے گا یا رکوع کرنے کے بعد جس حد تک وہ جھک سکتا ہے ، جھکے گا اور وہی اس کا سجدہ شمار کیا جائے گا اور اس طرح ادا کی گئی نماز اور ایک آزاد فرد کی نماز کی ادائیگی میں کوئی تفریق نہیں کی جائے گی کیوں کہ رب کریم کو علم ہے کہ اس کا بندہ مجبور ہے اور اسی حد تک جسم کو جھکا سکتا ہے جتنا قید و بند میں ممکن ہے ۔
 اقامتِ دین کے لیے تمام موجود ذرائع کا استعمال کرنا اور دین کی تعلیمات کو بغیر کسی کمی بیشی کے بہترین انداز میں پیش کرنا وہ اہم فریضہ ہے جس کے لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے امت مسلمہ کو پسند فرمایا ہے ۔ امت مسلمہ کے لیے اس ذمہ داری پر مقرر کیا جانا ایک ایسا اعزاز ہے ، جس کا    شکر اداکرنا اس پر فرض ہے اور یہ شکر صرف اپنے تمام وسائل کو وہ مادی ہوں ، عقلی اور ذہنی ہوں یا تنظیمی ہوں، حتی المقدور استعمال کر کے ہی ادا کیا جاسکتا ہے ۔
 بنی اسرائیل کو جب دنیا میں اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی کتاب شریعت کو قائم کرنے پر مامور کیا گیا اور انھوں نے اقامتِ دین کے فریضے کی ادایگی جیسا کہ اس کا حق ہے نہ کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی جگہ امت مسلمہ کو اپنے فضل سے یہ ذمہ داری سونپ دی ۔قرآن کریم اپنے سے پہلے کے الہامی مذاہب کا حوالہ دیتے ہوئےکئی مقامات پر وضاحت سے بیان کر تا ہےکہ تمام انبیاے کرامؑ کے آنے کا مقصد صرف اور صرف اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کا قائم کرنایا اقامتِ دین تھا۔فرمایا گیا:
وَلَوْ اَنَّهُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِمْ مِّنْ رَّبِّهِمْ لَاَكَلُوْا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْ ط ( المائدہ۵:۶۶) کاش! انھوں نے تورات اور انجیل اور ان دوسری کتابوں کو قائم کیا ہوتا جو ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس بھیجی گئی تھیں۔ ایسا کرتے تو ان کے لیے اوپر سے رزق برستا اور نیچے سے ابلتا ۔
تورات اور انجیل کے قائم کرنے یا اقا موا کا واضح مطلب ان کتابوں کو طبع کر کے لوگوں میں تقسیم کر دینا یا ان کو خوش الحانی سے پڑھنا نہیں ہے،بلکہ ان احکامات کو نافذ کرنے کے لیے  قوتِ نافذہ کا استعمال کرنا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد ؑ اور حضرت سلیمانؑ کے حوالے سے اس قوت نافذہ کو واضح الفاظ میں اپنے کلام عزیز میں بیان فرما دیا:
يٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِيْفَةً فِي الْاَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوٰى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ط (صٓ۳۸:۲۶) اے داؤدؑ ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے، لہٰذا تو لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ حکومت کر اور خواہشِ نفس کی پیروی نہ کر کہ وہ تجھے اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی۔
 یہاں حضرت داؤد ؑسے واضح طور پر جو بات کہی گئی ہے وہ نہ صرف انھیں خلافت پر مامور کرنا ہے، بلکہ قانونی معاملات میں بااختیار حاکم اور قاضی کی حیثیت سے حق پر مبنی فیصلے کرنے کے ذریعے اقامتِ دین کرنا ہے۔اسی سورہ میں آگے چل کر حضرت سلیمانؑ کی وہ دعا بیان کی گئی ہے جس میں وہ اقامتِ دین کے لیے ایسی سلطنت کی خواہش کرتے ہیں جو بے مثال ہو:
قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَهَبْ لِيْ مُلْكًا لَّا يَنْۢبَغِيْ لِاَحَدٍ مِّنْ بَعْدِيْ  اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ (صٓ۳۸:۳۵) اے میرے رب، مجھے معاف کر دے اور مجھے وہ سلطنت (مُلْکًا) دے جو میرے بعد کسی کے لیے سزاوار نہ ہو، بے شک تو ہی اصل داتا ہے۔
قرآن کریم عیسائیت اور یہودیت کےاس ذہن کی تردید کرتا ہے جس میں قانون اور روحانیت کو دو خانوں میں تقسیم کرنے کے بعد قانون کو باد شاہت کے لیے اور روحانیت کو اہل اللہ کے لیے مخصوص کر دیا گیا اور یہی تصور صدیاں گزرنے پر نہ صرف یہودونصاریٰ بلکہ خود مسلمانوں کے کچھ طبقات کے ذہنوں میں ، خصوصاًسامراجی غلامی کے دور میں ، جاگزیں کر دیا گیا، اور اس پر مزید ایک ظلم یہ کیا گیا کہ شریعت کے ایک بڑے حصے کو شریعت سے الگ کر کے خالص روحانیت کے نام سے تصورِ طریقت ٹھیرا کر مشہور کر دیا گیا ۔ قرآن کریم جب اقامتِ دین کا حکم دیتا ہے    تو وہ عبادت، تزکیہ، حب الٰہی، اطاعت رسولؐ، ادایگی حقوق اللہ و حقوق العباد، اجتماعی اصلاح، قیام عدل و احسان میں کوئی تقسیم نہیں کرتابلکہ سب کے مجموعے کو دین القیم کانام دیتا ہے :
وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ لا حُنَفَاۗءَ وَيُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَيُؤْتُوا الزَّكٰوةَ وَ ذٰلِكَ دِيْنُ الْقَيِّمَةِ  (البینۃ۹۸:۵) اور ان کو اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ اللہ کی بندگی کریں اپنے دین کو اس کے لیے خالص کر کے، بالکل یکسو ہو کر، اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃدیں۔ یہی نہایت صحیح و درست دین ہے۔
اس مختصر آیت مبارکہ میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے دین کے جامع تصورکو توحید اور اس کے دومظاہر اقامت صلوٰۃ اور اقامت زکوٰۃکے ساتھ مربوط اور واضح فرمایا ہے،یعنی یکسو ہو کر اللہ کی بندگی کا پہلا مرحلہ اقامت صلوٰۃ ہے جو اقامتِ دین کی اولین شکل ہے۔ گویا محض نماز کا پڑھنا نہیں کہ پانچ وقت نما زادا کر لی گئی یا رات کی تنہائی میں اللہ کو یاد کر لیا، بلکہ اس نظامِ عدل کا قیام جس میں نماز فحشاء اور منکرات سے بچانے کا کام کرے۔پانچ وقت اس بات کا اعلان و اعادہ کہ اللہ کی زمین پر اگر کسی کی حکومت ہے اور ہونی چاہیےتو وہ صرف مالک وخالق کائنات ہی کی ہوسکتی ہے۔وہی اکبر ہے،وہی اعلیٰ ہے، وہی ہدایت دینے والا ہے، وہی فلاح کا ضامن ہے، وہی اپنے بندوں کی دعا کو سنتا اور قبول کرتا ہےاور حکم واختیار صرف اور صرف اس کے لیے ہے۔
سورئہ حج میں اقامت ِ دین کی اس ذمہ داری اور مشن کو اس طرح بیان فرمایا گیا ہے کہ:  
اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ  ط  وَلِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ o (الحج ۲۲:۴۱) یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے منع کریں گے۔ اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
اسی طرح ایک صاحبِ مال پر فرض کر دیا گیا کہ وہ معاشرے کے ضرورت مند افراد کو ان کا حق دے۔زکوٰۃ کسی پر احسان کرنا نہیں ہے، بلکہ اپنے اوپر احسان کرنا ہےکہ ایک مستحق کا وہ حق جو صاحبِ مال کو بطور امانت دیا گیا تھا وہ اس نے اصل مالک کوپہنچا دیا۔ اس کے ساتھ یہ پیغام بھی دیا جارہا ہے کہ زکوٰۃ کے ذریعے ایک غریب شخص ایمان کی تکمیل اسی وقت کر سکتا ہےجب وہ زکوٰۃ میں حاصل کی ہوئی مدد کو اس طرح استعمال کرے کہ جلد ازجلد خود زکوٰۃ دینے کے قابل بن سکے۔ اس طرح زکوٰۃ معاشرے میں معاشی خوش حالی اور خودانحصاری پیدا کرنے کے لیے ایک شرعی محرک بن کر صاحبِ مال اور غریب دونوں کو معاشی جدوجہد کی دعوت دیتی ہے۔گویااقامت زکوٰۃ کا مطلب نظام زکوٰۃ کا قائم کرنا ہے۔ یہ محض چند افراد کی مالی امداد کا نام نہیں، نہ یہ کسی قسم کا ٹیکس ہے جو امیروں پر لگایا گیا ہے۔یہ ایک عبادت ہے۔ یہ فریضہ ہے، یہ شرعی محرک ہے تا کہ غربت دُور ہو اور معاشی استحکام پیدا ہو۔
 نماز اور زکوٰۃ کا یہ نظام دین کی اقامت کے ساتھ وابستہ اور پیوستہ ہے۔ اسلامی ریاست کے فرائض و واجبات میں یہ بات شامل کر دی گئی کہ وہ نظام صلوٰۃ اور نظام زکوٰۃ کے لیے اپنی  قوتِ نافذہ کو ، حکومت کے وسائل و اختیارات کو استعمال کرے گی۔ چنانچہ سورۃ الحج میں صاف  طور پر فرمایا گیا کہ اگر ہم تمھیں زمین میں اختیار دیں تو اقامت صلوٰۃ اور زکوٰۃ کے نظام کا قیام تمھاری سرکاری ذمہ داری ہے (الحج۲۲:۴۱)۔دین کی یہ جامعیت ہی ہے جو اسے دنیا کے تمام مذاہب سے ممتاز کرتی ہےاور جس کو نہ سمجھنے کی بنا پر مسلمان اور غیر مسلم سادہ لوحی سے یہ کہنے لگتے ہیں کہ جس طرح دیگر مذاہب میں Charity  کا تصور ہے ایسے ہی اسلام میں زکوٰۃ کی تعلیم ہے۔زکوٰۃ نہ Charity ہے نہ کوئی ٹیکس اور ذاتی عمل، بلکہ یہ ایک معاشرتی فریضہ ہے جو اجتماعیت کا لازمی حصہ ہے۔ قرآن نے اس انقلابی تصور کو بڑی خوب صورتی سے ان الفاظ میں بیان کردیا ہے کہ وَفِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ (الذاریات ۵۱:۱۹) ’’اور ان کے مالوں میں حق تھا سائل اور محروم کے لیے‘‘۔
اگر بنی اسرائیل اور نصاریٰ اس بات کو سمجھتے اور اقامتِ دین کرتے تو قرآن کریم کا فرمان ہے کہ ان پر آسمان اور زمین سے رزق کے دروازے کھل جاتے، آسمان سے رزق برستا اور زمین سے اُبلتا لیکن وہ اقامتِ دین کے فریضے سے فرار اور دین کو انفرادی اور ذاتی مذہبی عبادت سے  تعبیر کر کے ایک بڑے انحراف میں پڑ گئے۔آج اس انحراف کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔      اس انحراف سے نکالنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے خاتم النبینؐ کے ذریعے دین القیم کو اس کی اصل اور درست شکل میں دوبارہ قائم کرنے کے لیے آپؐ کو رحمۃ للعالمینؐ بنا کر مبعوث فرمایااور آپؐ کے بعد اس اقامتِ دین اور شہادت حق کی ذمہ داری کوآپ کی امت پر فرض کر دیا:
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا ط (البقرہ۲:۱۴۳) اور اسی طرح تو ہم نے تمھیں ایک ’اُمّتِ وَسَط‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔
شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ سے مرادمحض اسلام کے بعض درخشاں پہلو اچھے انداز میں بیان کردینا نہیں ہے، بلکہ اسلام کی ایک ایسی عملی مثال قائم کرنا ہے،جسے آنکھوں سے مشاہدہ کرنے کے بعد ہر دیکھنے والا اسلام کی صداقت پر شہادت دینے پر آمادہ ہو جائے۔ شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ بننے کا یہ کام صرف اللہ کی زمین پر اللہ کی ہدایت کے مطابق مکمل نظام عدل کے قیام سے ہی ممکن ہے۔
 
اقامتِ دین کا اسلوب
اقامتِ دین اور شہادت علی الناس کے فریضے کو قرآن کریم نے جگہ جگہ مختلف حوالوں سے سمجھانے کے لیے دعوتی اور تعلیمی اسلوب اختیار کیا ہے۔سورۃالحج میں اس اقامتِ دین کو چار اہم حکومتی فرائض کی شکل میں بیان فرمایا گیا۔ چنانچہ اہل ایمان کی تعریف (definition) یہ کی گئی کہ:
اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ ط  وَلِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ o (الحج ۲۲:۴۱) یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور بُرائی سے منع کریں گے۔ اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
لیکن اس سے ایک آیت قبل ان اہل ایمان کی اس ریاستی ذمہ داری کو بیان کرنے سے قبل جو بات کہی گئی تھی وہ غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ:
اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا  ط وَاِنَّ اللّٰهَ عَلٰي نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرُ o نِ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ  يَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ  ط (الحج ۲۲: ۳۹-۴۰) اجازت دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے، کیوںکہ  وہ مظلوم ہیں، اور اللہ یقینا ان کی مدد پر قادر ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے ہیں ہمارا ربّ اللہ( ہی) ہے۔
سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ کیا کسی بھی مشرکانہ اور دہریت پر مبنی نظام میں کچھ لوگ وہ چاہے کم تعداد میں ہوں یا زیادہ اگر چپکے چپکے اپنے گھر میں، اپنی مسجد میں، اپنے کلیسا یا مندر میں دن کے اوقات میں اور راتوں کی تاریکی اور تنہائی میں اپنے رب کو یاد کرتے تو اس طرح کے روحانی عمل سے اردگرد کے معاشرے میں کسی کوکیا پریشانی یا تکلیف پہنچ سکتی تھی؟ اگر مکہ مکرمہ میں مسلمان اپنے گھروں کے اندر بیٹھ کر اللہ کے نام کی تسبیح اور نمازیں ادا کرتے رہتے تو اس سے مشرکین کو کیوں پریشانی ہوتی؟ واضح بات ہے کہ مکہ میں جہاں مسلمان اقلیت میں تھے، اقامتِ دین کے معنی محض ادائیگی نماز کا نام نہ تھا بلکہ تمام جھوٹے خداؤں کی جگہ صرف اللہ وحدہ لاشریک کی حاکمیت کا قائم کرنا تھا ۔ اگر معاملہ صرف اللہ جل جلالہ پر ایمان لانے کا ہوتا تو اہل مکہ بہ آسانی اپنےبہت سے خداؤں میں ایک اللہ کا اور اضافہ کر لیتے۔
بات بڑی واضح ہے۔ اللہ کو ماننے کا مطلب ہی یہ تھا کہ وہ سارے خدا جو نسل، رنگ، لسانی، قبائلی برتری، اشرافیہ کی منزلت ، دولت کی پرستش ،جنسی آزادی، شراب نوشی اور سود خوری کی اجازت دیتےتھے صرف اللہ کو رب مانتے ہی باطل ٹھیرتے اور مادہ پرست نظامِ معیشت، معاشرت، سیاست اور قانون اور ہر شعبۂ حیات سے بے شمار خداؤں کی بےدخلی کے بعدہی توحید کا قیام ممکن تھااور یہ بات اہل مکہ کو خوب اچھی طرح معلوم تھی۔ وہ توحید کا مطلب شاید ہم سے زیادہ صحیح سمجھتے تھے۔ اسی لیے وہ اس کے شدت سے مخالف تھے۔
دین کی اقامت کا مطلب واضح طور پر توحید کی اقامت تھااور اسی بنا پر مشرکین کے لیے اہل ایمان کا وجود ناقابلِ برداشت تھا۔ یہ بات سمجھانے کے لیے سورۂ حج کی یہی آیت ایک اور اہم حقیقت سے پردہ اٹھا تی ہے کہ انسانی تاریخ میں ظالم اور شیطانی قوتوں کا ہدف ہمیشہ یہی رہا ہے کہ وہ دعوت توحید کی مخالفت کریں ۔ا س لیے توحید کے ماننے والوں پر ہر دور میں ظلم کیا گیا اور انھیں ان کے گھروں سے بے دخل کیا گیا۔اسی بنا پر ان کو جنگ کی اجازت اس لیے دی جا رہی ہے کہ وہ نہ صرف اپنے دینی شعائر بلکہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی مذہبی آزادی کا تحفظ بھی کر سکیں ۔
مذاہب عالم کی تاریخ اور کتب مقدسہ میں کوئی کتاب ایسی نہیں ہے جو اپنے ماننےوالوں پر یہ فریضہ عائد کر دے کہ نہ صرف اپنی مذہبی آزادی اوراپنے عبادت خانوں بلکہ دوسروں کے مقاماتِ عبادت کا بھی تحفظ کریں، تا کہ ان مذاہب کے ماننے والے اپنی عبادت گاہوںمیں جا کر اپنے مذہب کے مطابق اپنی مذہبی رسوم ادا کر سکیں ۔قرآن کریم وہ واحد الہامی کتاب ہے جویہ کہتی ہے کہ:
وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لِّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ يُذْكَرُ فِيْهَا اسْمُ اللّٰهِ كَثِيْرًا ط (الحج ۲۲:۴۰)  اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد اور مسجدیں، جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے، سب مسمار کر ڈالی جائیں۔
یہاں جنگ کی اجازت کا واضح مفہوم یہی ہے کہ یہ اجازت اجتماعی طور پر جنگ کرنے کی ہے ۔انفرادی طور پر بغیر کسی سیاسی اقتدار کے جنگ کا تصور پوری انسانی تاریخ میں نہیں پایا جاتا۔ اقامتِ دین نا ممکن ہو گی اگر اسے محض زبانی اور تحریری اشاعتِ تعلیمات اسلام سے تعبیر کیا جائے۔ نہ صرف یہ بلکہ اس طرح اسلام کا قیام اوراسلام میں پورے کا پورا داخل ہونا نا ممکن رہے گا جب تک قرآن کو قائم کرتے ہوئے اس کے قوانین کو حکومت کے ذریعےنافذ نہ کر دیا جائے۔یہ تمام پہلو قرآن کریم نے بغیر کسی ابہام کے واضح کر دیے ہیں اور جو لوگ قانون اور دعوت کے درمیان لکیر کھینچتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قانون تو انگریز سامراج کا ہو اور مسجد میں عبادت اللہ کی ہو ،    قرآن اس تصور کو سخت الفاظ میں چیلنج کرتاہے۔تورات کی طرف اشارہ کرتے ہوئےسورۂ مائدہ میں فرمایا کہ وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ  (المائدہ۵:۴۴) ’’جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں‘‘۔ اس بات کو اگلی آیت میں یوں کہا کہ وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ   (المائدہ۵:۴۵)   ’’اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں‘‘۔
یہاں اقامت تورات اور اقامتِ دین اور اقامت قرآن کریم کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے دوٹوک انداز میں واضح فرما دیا کہ جب تک سیاسی قوت اور قانونی قوت کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے احکام کا نفاذ نہ کیا جائے دین کی مکمل اقامت نہیں ہو سکتی ۔یہاں یہ بات دُہرانے کی ضرورت نہیں ہے کہ جن مقامات اور حالات میں مسلمان سیاسی غلبہ حاصل نہیں کر پاتے وہاں ان کی جواب دہی صرف ان کے اختیار اور قدرت کی حد تک ہے لیکن اس کے باوجودوہ دین کو مختصر نہیں کر سکتے کہ  ان تعلیمات کو نظر انداز کر دیں جو دین کا لازمی حصہ ہیں ۔
اقامتِ دین کے تصور میں یہ بات فطری طور پر شامل ہے کہ نہ صرف عبادات اور معاملات بلکہ سیاسی اقتدار اور نفاذ قانون کے بغیر دین کے قیام کا عمل مکمل نہیں ہوسکتا ۔ سورۂ یوسف نے اس پہلو کو نہایت واضح الفاظ میں ہمارے سامنے رکھا ہے۔پہلے تو حضرت یوسف ؑ اپنے جیل کے ساتھیوں سے دریافت کرتے ہیں کہ کیا بہت سے خداؤں کی بندگی اچھی ہے یا ایک مالک اور اعلیٰ ترین رب کی؟ پھر آپ ان تک وہ حق پہنچاتے ہیں جس کے لیے آپ اور تمام انبیا کرامؑ بھیجے گئے:
يٰصَاحِبَيِ السِّجْنِ ءَاَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَيْرٌ اَمِ اللّٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ o مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖٓ اِلَّآ اَسْمَاۗءً سَمَّيْتُمُوْهَآ اَنْتُمْ وَاٰبَاۗؤُكُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍ ط   اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ   ط اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ  ط ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ o (یوسف۱۲:۳۹-۴۰) اے زنداں کے ساتھیو، تم خود ہی سوچو کہ بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے ؟ اس کو چھوڑ کر تم جن کی بندگی کر رہے ہو وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم نے اور تمھارے آباو اجداد نے رکھ لیے ہیں۔ اللہ نے ان کے لیے کوئی سَنَد نازل نہیں کی۔ فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی ٹھیٹھ سیدھا طریق زندگی ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔
قرآن کریم نے حضرت داؤد ؑ، حضرت سلیمانؑ اور حضرت یوسف ؑکے حوالے سے یہ بات  وضاحت سے بیان فرمائی ہے کہ اقامتِ دین کے لیے نہ صرف ابلاغ کے ذریعےبلکہ ریاستی ذرئع کا استعمال دین کا تقاضا اور مطالبہ ہے۔پس یہی وجہ ہے کہ دین زندگی کو دین، چرچ اور بادشاہت میں تقسیم کا روادار نہیں ہے۔ چنانچہ خاتم النبینؐ کی شکل میں نبوت اور ریاست دونوں کو یک جا کرنے کے بعد ہی آپؐ کے اس مجموعی داعیانہ کردار کو اسوۂ حسنہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔جہاں آپؐ کا ہرہر قول و عمل ایک سنت ہے اور آپؐ کی دعوتی زندگی جو ۲۳سالوں پر پھیلی ہوئی ہے اور جو مکی اور مدنی دونوں اَدوار کی اپنی پوری جامعیت کے ساتھ امین ہے اور جس کا نقطۂ عروج آپؐ کا حجِ وداع کا خطبہ ہے، آپ کی سنت ِ کبریٰ ہے جس کا دوسرا عنوان اقامت ِ دین ہے۔
 سیرت پاکؐ کی پیروی اور آپؐ کے اسوہ کا قیام اسی وقت ممکن ہے جب آپؐ کے مکی اور مدنی دور دونوں پر یکساں عمل کیا جائے اور مکہ کی تیرہ سالہ آزمایش بھری زندگی کی تکمیل کے مدنی مراحل کو الگ نہ کیا جائے ۔ اسوۂ حسنہ مکہ اور مدینہ دونوں کی یک جائی کانام ہے ۔
اسوۂ حسنہ کی پیروی نامکمل ہو گی اگر صرف چند اخلاقی اصول تو اختیار کر لیے جائیں اور آپؐ کے قانونی کردار اور ریاستی معاملات میں آپؐ کےرویے کو نظر انداز کر دیا جائے۔ اقامتِ دین صرف اسی وقت صحیح طور پر ہو سکتی ہے جب یہ دونوں پہلو یک جا ہوں اور ان میں کوئی فاصلہ نہ پایا جائے۔
 
اقامتِ دین اور عصری رویـے
ان قرآنی حقائق کی روشنی میں دو اہم عصری رویوں پر غور کرنا بھی ضروری ہے۔
٭   اول یہ کہ بعض اسلامی تحریکا ت سیاسی تبدیلی کو اس حد تک اولیت دیتی ہیں اور ان کے خیال میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد ہی اُوپر سے نیچے کی طرف تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ اس کے لیے دستوری اور غیر دستوری جو ذرائع بھی ممکن ہوں ان کے استعمال کو بھی درست سمجھتی ہیں۔
٭  دوسرا رویہ یہ ہے کہ راستہ صرف ایک ہے، یعنی نچلی سطح سے اُوپر کی جانب پیش قدمی۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ اجتماعی اُمور کو متاثر کرنے اور ان کی صورت گری کی فکر کرنا بعد کی بات ہے۔ اصل اور ساری توجہ بنیادوں کو مضبوط کرنے میں صرف کرنی چاہیے جس کے لیے عوام الناس میں کام کیا جائے چاہے اقامتِ دین کی اس جدوجہد کے ذریعے انقلاب امامت و قیادت میں غیرمعمولی طویل وقت لگے۔ اس رویے کے ماننے والے مکی دور دعوت اور ابنیاے کرام کے اسوہ کی روشنی میں یہ راے قائم کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اصل چیز عقیدے کی اصلاح اور تعمیر سیرت کی جدوجہد ہے۔ اگر اس دنیا میں کامیابی حاصل ہوجائے تو یہ اللہ کا فضل ہے ، اگر یہاں کامیابی نہ بھی ہو تو آخرت کی کامیابی کا وعدہ ایک مسلمان کے لیے زندگی کا حاصل ہے ۔ اس بنا پر جدوجہد کے طویل ہونے اور نتائج کے حد نظر تک نظر نہ آنے کی بنا پر مایوس ہونا اور اپنی دعوت اور اسوۂ انبیاؑ سے اخذ کردہ طریقِ دعوت پر شک کرنا ہماری بے صبری ظاہر کرتا ہے ۔ ایک مومن کی اصل کامیابی آخرت کی کامیابی ہے۔ یہاں پر کامیابی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا انعام و فضل ہے۔
٭    ان دو رویوں کا جائزہ لیتے وقت ایک ضمنی پہلو یہ بھی ابھرتا ہے کہ جن ممالک میں مسلمان اکثریت میں نہیں ہیں یا ایسی ریاستوں میں جہاں مغربی سیکولر جمہوریت قائم ہے وہاں اقامتِ دین کس طرح کی جائے گی؟ اس اہم سوال پر غور کرنے سے قبل اگر اس بات کا جائزہ لےلیا جائے کہ دعوت دین یا دعوت حق سے مراد کیا ہے؟یہ کس قسم کی شہادت ہے جس کی دعوت قرآن کریم ہمیں دیتا ہے تو سوال کا اگلا حصہ زیادہ آسانی سے حل کیا جا سکتا ہے ۔
ہم جانتے ہیں کہ قرآن کریم کی انقلابی دعوت کا نقطۂ آغاز توحید ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ انسان صرف اور صرف اپنے خالق حقیقی اور مالک کو اپنا رب مانتےہوئےاپنے آپ کو مکمل طور پر  اس کی اطاعت میں دے دےاور اس کام کوشعوری طور پر احساس ذمہ داری کے ساتھ کیا جائے۔ اسی لیے اس عمل کے لیے شہادت کا لفظ استعمال کیا گیا ۔شہادت قولی ہو یا عملی، ہر دو صورتوں میں انسان پورے احساس ذمہ داری، اختیاراور جواب دہی کےاحساس کے ساتھ ہی شہادت دیتا ہے۔ ایک نابینا شخص کسی واقعے کی عینی شہادت نہیں دے سکتا لیکن کسی بات کی سماعت کی شہادت دے سکتا ہے۔ایک شخص جو سننے کے لیے کسی آلے کا استعمال کرتا ہوسمعی شہادت بھی صرف اس وقت دے سکتا ہے جب یہ ثابت ہو جائے کہ وہ آلۂ سماعت پہنے ہوئے تھا۔اس لیےقرآن کریم جب شہادت حق کی بات کرتا ہے تو اہل ایمان سے توقع رکھتا ہے کہ وہ اپنی زبان سے ہی نہیں بلکہ اپنے طرزعمل، طرزفکر، اپنے معاشی،سیاسی ،معاشرتی رویے سے توحید کی شہادت دیں گے۔ قرآن کریم جب کسی انسان کو ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے تو بات قولی اقرار تک نہیں رہتی فوراً اس اقرار کو ناپنے کا پیمانہ بھی پیش کر دیا جاتا ہے کہ صلوٰۃ قائم کرو اور زکوٰۃ دو۔ یہ دونوں عبادات اقامتِ دین کی اوّلین مظہر ہیں اور اسلامی معاشرت کی پہچان ہیں۔مدینہ منورہ پہنچنے پر سب سے پہلا کام جو کیا گیا وہ مسجد کے قیام کے ساتھ مدینہ کے اقتدار اعلیٰ کا فیصلہ تھا۔ چنانچہ میثاقِ مدینہ قلم بند کیا گیااور اس طرح اقامت صلوٰۃ اور اسلامی ریاست میں غیر مسلموں سے تعلقات کی نوعیت کا تعین نظامِ عدل کا قیام ، معاشرے سے فواحش اور منکرات کے خاتمے کی بنیادیں رکھی گئیں ۔چنانچہ فرمایا گیا:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ لِلّٰهِ شُهَدَاۗءَ بِالْقِسْطِز (المائدہ۵:۸)     اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بنو۔
اسی بات کو زیادہ وضاحت سے یوں فرمایا گیا:
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا ط (البقرہ ۲:۱۴۳) اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’اُمّت ِ وَسَط‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔
یہ اتنا اہم فریضہ ہے کہ اگر اسے ادا نہ کیا جائےیا اس سے رُوگردانی برتی جائےتو قرآن اس پر وعید کرتا ہے:
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهَادَةً عِنْدَهٗ مِنَ اللّٰهِ  ط (البقرہ ۲:۱۴۰) اس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہوگا، جس کے ذمے اللہ کی طرف سے ایک گواہی ہو اور وہ اسے چھپائے؟
چنانچہ جو شہادت حق کو چھپاتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر ذلت اور غلامی مسلط کر دیتا ہے:
ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَبَاۗءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ ط (البقرہ ۲:۶۱)   ذلّت و خواری اور پستی و بدحالی ان پر مسلط ہوگئی اور وہ اللہ کے غضب میں گھِر گئے۔
اقامتِ دین ہی وہ واحد عمل ہے جو ذلت و محکومی سے نجات دلا تا ہے۔لیکن یہ کس طرح ہو؟ کیا محض اجتماعات میں تقاریر سے یہ کام ہو سکتا ہے،یا سال میں تین مرتبہ کسی مقام پر چند منتخب افراد کا تین چار دن کےلیے یک جا ہو کر مطالعہ قرآن و حدیث اور نوافل کا اہتمام کرنا اس کے لیے کافی ہے،یا جب تک سیاسی اقتدار حاصل نہ کر لیا جائے؟ تزکیہ و تربیت کردار کو یکساں اہمیت دیتے ہوئے تبدیلیِ قیادت و نظام اور حصول اقتدار کی منظم جدوجہد کے ذریعے معاشرے کی تطہیر کی جدوجہد کا نام اقامتِ دین ہے ۔اقامتِ دین کا یہ قرآنی شعور ہر دور میں تحریکات اسلامی کے کارکنوں کے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کا تسلی بخش جواب فراہم کرتا ہے ۔ ایک سادہ مثال سے مزید وضاحت کی جا سکتی ہے۔ایک ڈاکٹرکے پاس جب ایک مریض آتا ہےجس کی نبض کی رفتار درست نہ ہو، قلب بھی صحت مند نہ ہو، خون کا دباؤ بھی زیادہ ہو ، سانس لینے میں بھی دقت پیش آرہی ہو، رات کو سو بھی نہیں سکتا، تو وہ اس کا مکمل جائزہ لینے کے بعد ہی یہ طے کرتا ہے کہ اصلاح کا آغاز کہاں سے  کیا جائے۔ چنانچہ معائنے کی روشنی میں ہی وہ دوائیں تجویز کرتا ہے ۔ اسی طرح اگر کسی مقام پر مسلمان اقلیت میں ہوں اور وہ دین کی تمام تعلیمات کی اقامت نہ کر سکتے ہوں تو اقامتِ دین کا آغاز انھی اقدامات سے ہو گا جن کے کرنے پر وہ آزاد اور مختار ہوں۔ بقیہ تعلیمات کو جوںکا توں مانتے ہوئے مناسب وقت آنے پر ان کا نفاذ کیا جائے گا ۔
 
اقامتِ دین کے مراحل
اقامتِ دین کا پہلا مرحلہ شعوری طور پر اسلام لانا اور تطہیر افکار یا توحید خالص کا ذہنوں میں جا گزیں کرنا ہے۔ یہ ایک طویل مرحلہ ہے۔ یہ دو چار برس کی با ت نہیں ۔جب مکہ جیسی تربیت گاہ میں کسی اور کو نہیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے منتخب کردہ خاتم النبینؐ کو ۱۳سال جدوجہد کرنی پڑی تو ہم  کیسے چار پانچ سال کی مہم میں متوقع نتائج حاصل کر سکتے ہیں (وما توفیقی الا باللہ)۔ ضرورت    اس بات کی ہے کہ نتائج سے بے پروا ہو کر پوری قوت ، حکمت اور منصوبہ بندی کے ساتھ اقامتِ دین کے پہلے نکتے پر توجہ دی جائے۔اور تطہیر ِ افکا روہ لوگ کریں جو خودنہ صرف تحریکی لٹریچر بلکہ قرآن و حدیث اور سیرت طیبہ سے سے براہ راست واقفیت رکھتے ہوں اور دعوت کو آسان اور مؤثر انداز سے پیش کر سکتے ہوں، نیز ان کی سیرت ،دعوت کی دلیل پیش کرے:
وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَى اللّٰهِ وَعَمِلَ صَالِحًـا وَّقَالَ اِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ (حم السجدہ ۴۱:۳۳) اور اس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہو گی، جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔
 تحریکاتِ اسلامی کے لیے اصل لمحۂ فکریہ تطہیر افکار اور فہم دین کے حوالے سے یہ جائزہ ہے کہ کیا ان کا ہر کارکن اپنی عملی زندگی اور معاملات سے اپنی دعوت پیش کررہا ہے ؟یا وہ عوامی نعروں سے متاثر ہو کر تحریک میں تو آگیا، لیکن اس کی اپنی زندگی ابھی تک اسی ڈگر پر ہے، جس پر دوسروں کو دیکھتا ہے؟ کیا اس کے معاملات وہ مالی نوعیت کے ہوں یا باہمی تعلقات سے متعلق ہوں، ان اصولوں کی پیروی کر رہے ہیں جن کی آسان تشریح ایک اہم تحریکی کتاب تحریک اسلامی میں کارکنوں کے باہمی تعلقات میں تحریک کے ایک خادم نے تحریر کر دی ہے، اور کیا اس نے اس تحریر کو شعوری طور پر مطالعہ کر کے جذب بھی کیا ہے؟
نتائج ہمیشہ اسباب کے تابع ہوتے ہیں۔اگر ایک دیوار کی بنیاد کمزور ہو تو عمارت کتنی بلند کیوں نہ بن جائےوہ ناپایدارہی ہو گی۔تحریک اسلامی کی کامیابی محض سیاسی کامیابی اور نشستوں کی تعداد سے نہیں ناپی جاسکتی ۔ اس کا اصل پیمانہ افراد کی اسلامی شخصیت ہے ۔ ان کا خلوص اور دین سے عملی وابستگی ہے۔ اگر یہ ٹھوس بنیاد تعمیر ہو گئی تو نتائج چاہے صدیوں میں نکلیں تحریک ایک کامیاب تحریک ہے۔ نتائج کا نکالنا تحریک کا مسئلہ نہیں،نہ وہ ان کے لیے جواب دہ ہے۔ یہ مسئلہ اس کا ہے جو اس دنیا میں اصلاح، عدل اور اپنا نظا م چاہتا ہے۔ صحیح کوشش، جدو جہد اورسعی اصل بنیاد ہے۔ کوشش اور جدوجہد ہی کا نام جہاد ہے۔ جتنی کامیابی بدر کی ہے، اتنی ہی کامیابی اُحد اور حنین کی بھی ہے۔ جو اجر بدری کو ملے گا وہی اجر احد اور حنین والے کو بھی ملے گا۔ اس لیے یہ سوال کہ اقامتِ دین کے لیے ہمیشہ اسمبلی نشستیں جیتنا کامیابی کا معیار ہے، قرآن و سنت سے مناسبت نہیں رکھتا۔لیکن  اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ سیاسی جدوجہد کو نظرانداز کیا جائے یا سیاسی جدوجہد کے نتائج کو غیراہم سمجھا جائے۔تاہم، تحریک کی کامیابی اور ناکامی کا اصل پیمانہ اور معیار محض اس کو نہیں بنایا جاسکتا۔

اقامتِ دین ایسےجامع طرزِعمل کا نام ہے جس میں زندگی کے تمام شعبوں میں انقلاب برپا کرنے کی کوشش اصل ہدف ہے۔ ظاہر ہے اس کا آغاز فکری انقلاب سے ہو گا ، سیرت کے انقلاب سے ہو گا جو آخر کار معاشرت ، معیشت اور قانون و سیاست پر جا کر مکمل ہو گا۔ اقامتِ دین کا آغاز تطہیرِ افکار اور تعمیرِ سیرت سے ہی ہو گا۔ جب یہ بنیادی مرحلہ شروع ہو جائے گا تو فطری طور پر اصلاحِ معاشرہ کے ساتھ ساتھ اصلاح اقتدار کا مرحلہ بھی آئے گا۔ چوتھا مرحلہ اوّلین تین مراحل کے ساتھ فطری طور پر جڑا ہوا ہے، ان سے الگ اور آزاد نہیں ہے۔(جاری)

(بشکریہ -اقامت ِ دین اور عملی تقاضے: ڈاکٹر انیس احمد، ترجمان القرآن )
 

http://tarjumanulquran.org/site/publication_detail/1102

………………………………………………………………….
 
نصب العین اور طریق کار:
جب ہم اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم وہ گروہِ انسانی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، جو اس دنیا میں انبیا کرام ؑ کا جانشین ہے۔ جس کے ایک ایک فرد نے اپنی منفرد حیثیت میں اور پورے گروہ نے بحیثیت مجموعی اپنے آپ کو کلیتاً اپنے رب کے حوالے کر دیا ہے اور اپنی پوری زندگی اور اس کے سارے معاملات کو غیرمشروط اور برضا و رغبت خدا کی اطاعت و بندگی میں دے دیا ہے۔
دوسرے لفظوں میں اس کے معنی یہ ہیں، کہ ہم نے ہر طرف سے منہ موڑ کر پوری یکسوئی اور طمانیت ِ قلب کے ساتھ فقط اللہ رب العالمین کو اپنا الٰہ و رب، خالق و مالک، حاکم اور واضع قانون مان لیا ہے۔ سب کو چھوڑ کر فقط محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رہنما اور قائد و پیشوا بنا لیا ہے۔ سب نظام ہاے زندگی اور نظریہ ہاے حیات کو ترک کر کے صرف اسلام اور قرآن کو بطور نظامِ زندگی اور دستورِحیات کے قبول کرلیا ہے۔ ہر دوسری بازپُرس کا خیال دل سے نکال کر محض اپنے الٰہ واحد کی بازپُرس کو قابلِ لحاظ تسلیم کرلیا ہے۔
مختصر یہ کہ ہرطریق زندگی کو ترک کر کے، ہراقتدار کو ٹھکرا کر، ہرحاکمیت و عقیدت سے بغاوت کرکے اور ہرخوف اور لالچ سے بے نیاز ہوکر صرف اللہ واحد کی غلامی و وفاداری اور اطاعت کا قلاوہ اپنی گردن میں ڈال لیا ہے۔ اور ہم چاہتے ہیں کہ باہم میل ملاپ، لین دین، نکاح و طلاق اور نماز روزے سے لے کر تنظیم و سیاست، قانون وعدالت، صلح و جنگ اور ملکی نظم و نسق تک ہمارا ہرانفرادی، اجتماعی ، تمدنی اور سیاسی معاملہ، سرتاپا خدا کی حاکمیت کے تحت، اس کے قانون کے مطابق، اس کے رسولؐ کی رہنمائی میں اور محض آخرت کی بازپُرس کا لحاظ کرتے ہوئے انجام پائے۔
لیکن، ذرا انصاف سے اور کھلے دل سے موجودہ مسلمان سوسائٹی پر تنقیدی نگاہ ڈالیے اور شمال سے جنوب تک اور مشرق سے مغرب تک ان کی کروڑوں کی آبادیاں دیکھتے چلے جایئے اور بتایئے، کیا ان میں کہیں کوئی ایسا گروہ موجود ہے جو ان اسلامی اساسات پر پورا اُترتا ہو؟ ہاں، منفرد طور پر کچھ اللہ کے بندے ضرور ایسے مل جائیں گے، جنھوں نے اسلام کے اُس حصےکو،     جو انسان کی انفرادی زندگی سے تعلق رکھتا ہے، پورے شدومد کے ساتھ اختیار کر رکھا ہوگا اور اعتقاداً بھی اللہ کے سوا کسی اور کو الٰہ و رب، محمدؐ کے سوا کسی اور کو رہنما، کتاب و سنت کے سوا کسی اور شے کو قانون اور آخرت کی بازپُرس کے سوا کسی اور بازپُرس کو قابلِ اعتنا نہ سمجھتے ہوں گے۔
 لیکن، ان بزرگوں سمیت جہاں تک مسلمانوں کی اجتماعی زندگی، ان کی تنظیموں اور جماعتی پروگراموں کا تعلق ہے، ان کو آپ اسی طرح سرتاپا غیراسلامی پائیں گے اور اسلام کے بجاے مغربی نظریہ ہاے حیات کے پابند دیکھیں گے، جس طرح اللہ کے باغیوں اور اس سے پھرے ہوئے انسانوں کی اجتماعی زندگیوں، تنظیموں اور جماعتی پروگراموں کو۔ ان سب کے نزدیک کتاب و سنت نہیں بلکہ جمہوری اصول، اسوئہ فرنگ اور مغربی قوانین و آئین ہی حجت و بُرہان اور سند و سلطان کا حکم رکھتے ہیں۔ یہ صورتِ حال اس اَمر کی بین دلیل ہے کہ اگرچہ مسلمان اور ان کے رہنما زبان سے اس کا اقرار کریں یا نہ کریں، لیکن عملاً ان کے نزدیک اب اسلام محض ایک شخصی معاملہ (Personal Affair) اور اعتقادی چیز ہے، جسے ان کی اجتماعی اور سیاسی زندگی سے کوئی سروکار نہیں۔
لیکن، جن لوگوں نے قرآنِ کریم ، اسوئہ رسولؐ اور سیرتِ صحابہؓ پر سرسری نظر بھی ہدایت حاصل کرنے کے لیے ڈالی ہے، وہ جانتے ہیں کہ اسلام موجودہ زمانے کے عام رائج الوقت مفہوم میں کوئی مذہب یا Religion نہیں ہے، جو محض عبادات، ریاضات، اور کچھ انفرادی دین دارانہ اعمال و افعال پر مشتمل ہو، بلکہ وہ ایک مستقل نظریۂ حیات ، ایک مکمل نظامِ زندگی اور ایک بین الاقوامی دستورالعمل ہے، جو افراد کی انفرادی سیرتوں سے لے کر پوری دنیا کے اجتماعی نظم تک، ہرچیز کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے، اور اپنے ماننے والوں کو حکم دیتا ہے کہ تمام کافرانہ نظام ہاے زندگی کو بیخ و بُن سے اُکھاڑ کر پوری انسانی سوسائٹی کی تعمیر سراسر میری اساس پر اور میرے نظریہ و مسلک کے مطابق کرو۔ وہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی پوری زندگی کا ایک مفصل اور متعین پروگرام پیش کر کے ایمان والوں سے مطالبہ کرتاہے کہ اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً  [البقرہ  ۲:۲۰۸] ، اسے پورے کا پورا قبول کرو۔ اس کے وضع اور مرتب کرنے والے، یعنی اللہ رب العالمین نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو صاف صاف بتا دیا کہ اُسے یہ دین د ے کر دنیا میں اس غرض سے بھیجا جا رہا ہے کہ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ [التوبہ ۹:۳۳]، تاکہ وہ اسے تمام ادیانِ باطلہ، سب نظریہ ہاے حیات اور کُل نظام ہاے زندگی پر غالب کردے اور اس وقت تک وہ اور اس کے ماننے والے دم نہ لیں، جب تک کہ اس روے زمین پر اللہ کی حاکمیت و اطاعت کے علاوہ کوئی اور حاکمیت و اطاعت بھی باقی ہے، خواہ ان کا ایسا کرنا منکرین حق کو اپنی نفس پرستی، انسان دشمنی اور حماقت و ہٹ دھرمی کی بنا پر کتنا ہی ناگوار محسوس ہو۔
اسلام کے اساسی عقائد اور اس کا پوری انسانی زندگی پر حاوی ہونا معلوم ہوجانے کے بعد مسلمانوں کی حیثیت،ان کے فرائض اور ان کی زندگی کا مقصد آپ سے آپ متعین ہوجاتا ہے، اور یہ حقیقت بالکل نکھر کر سامنے آجاتی ہے کہ: ’’مسلمان‘ نام ہے اس بین الاقوامی اصلاحی و انقلابی پارٹی کا جو اسلام کے نظریہ و مسلک کے مطابق انسانی سوسائٹی کی تعمیر کے لیے اس کارزارِ دنیا میں قدم رکھے، اور اس کام کی تکمیل کے لیے سردھڑ کی بازی لگا دے، جو ان کے آقا و مالک نے اپنے رسولؐ کے ذمے اور اس کی وساطت سے خود ان کے ذمے کیا ہے‘‘۔ لیکن، اس کام کے دین کی غایت الغایات اور اس کا اساسی کام ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس معاملے کو ہمارے اتنے سے اجتہاد پر بھی نہیں چھوڑا بلکہ صاف صاف فرما دیا کہ:
لَسْتُمْ عَلٰی شَیْءٍ  حَتّٰی تُقِیْمُوا التَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِیْلَ وَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ [المائدہ ۵:۶۸]،
شَرَعَ لَکُمَ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖٓ اِبْرٰہِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰٓی اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ [الشوریٰ ۴۲:۱۳]،
وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط [اٰل عمرٰن ۳:۱۰۴]، وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا ط[البقرہ ۲:۱۴۳]
 یعنی تمھاری یہ ساری رسمی دین داریاں اُس وقت تک ہیچ ہیں، جب تک کہ تم کتابِ الٰہی کو عملاً قائم نہ کرو، اور اس کے منشا کو پورا کرنے کے لیے سربکف نہ ہوجائو۔ تمھارے لیے وہی دین اور نظامِ زندگی مقرر کیا گیا ہے، جو نوح علیہ السلام کو دیا گیا تھا (اور اے محمدؐ! جس کی تیری طرف وحی کی گئی ہے) اور جو ابراہیم ؑ اور موسٰی اور عیسٰی ؑ (سب انبیا ؑ) کو دیا گیا تھا (اور اس کی غرض یہ ہے کہ) تم اس دین کو دنیا میں برپا کرو۔ تم میں ایک گروہ تو لازماً ایسا موجود رہنا چاہیے، جو لوگوں کو نیکی (اطاعتِ ربّ) کی طرف بلائے، معروف کا حکم دے اور منکر سے روکتا رہے۔ مسلمانو! ہم نے تمھیں دنیا کے لیے عدل و انصاف اور راست روی و حق پرستی کا نمونہ (اُمت ِ وسط) بنایا ہے، تاکہ تم دوسرے لوگوں پر دین حق کی حجت تمام کرنے کا ذریعہ بنو جس طرح ہمارا رسولؐ تم پر اتمامِ حجت کا ذریعہ بنا۔
ظاہر ہے کہ دین کو دنیا میں برپا کرنا، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینا اور بندگانِ خدا پر زندگی کے ہرشعبے میں اس کے دین کی حجت تمام کرنا منفرد اشخاص کے بس کا کام نہیں۔ ان میں سے ہرکام اجتماعی نظم اور منظم جدوجہد چاہتا ہے، جیساکہ قرآن کا منشا اور نبیؐ کا اسوہ ہے ، جس کے بقا و استحکام کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے جانیں لڑائیں اور جسے زندہ رکھنے کی خاطر خلفاے راشدین اور حضرات حسنین رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے قربانیاں کیں۔ اس کے بغیر یہ ممکن ہی نہیں کہ مسلمان اُمت ِ وسط اور خیرِ اُمت کے فرائض انجام دےسکیں، اور خدا کے [راستے سے] بھٹکے ہوئے بندوں اور گروہوں کے سامنے اس کے دین کی وہ زندہ شہادت بن سکیں کہ ان کے قول اور عمل اور برتائو ہرچیز کو دیکھ کر لوگ زندگی کے ہرشعبے میں صحیح راہ پاسکیں۔ دین کو بالفعل برپا کیے بغیر شہادت علی الناس اور اَمربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینا تو درکنار، اسلام کے احکام و ضوابط کو اپنی انفرادی زندگی میں بھی پوری طرح کارفرما کرنا ممکن نہیں۔
لہٰذا، مسلمانوں کا یہ دینی فرض ہے کہ دنیا میں ایک ایسی منظم سوسائٹی بنائیں، جو اقامت ِ دین کا یہ فرض انجام دیتی رہے، اور جس کی حدود کے اندر اللہ کی حاکمیت کے سوا کسی دوسرے اقتدارِ اعلیٰ کو، اس کے قانون کے سوا کسی دوسرے قانون کو ، اس کے رسولؐ کے سوا کسی دوسرے کی رہنمائی کو، اور آخرت کی بازپُرس کے سوا کسی دوسرے کی بازپُرس کو کوئی دخل نہ ہو۔ یہ کام ایمان کا عین تقاضا ہے، مسلمان کی زندگی کا مقصد یہی ہے اور انبیا علیہم السلام کی بعثت سے مقصود یہی تھا۔ اسی کام کے لیے جماعت اسلامی وجود میں آئی ہے اور اسی کو بالفعل انجام دینا ہمارا نصب العین ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ حالات میں، جب کہ اسلامی اصولوں کے بالکل برعکس ایک ہمہ گیر نظامِ زندگی ہم پر ہی نہیں بلکہ پوری دنیا پر چھایا ہوا ہے، اور اس نے ہمیں اپنے اندر  اس طرح جکڑ لیا ہے کہ روز کی روٹی بھی، جب تک اس کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائیں ملنی محال ہے۔ اس کام کو کیسے کیا جائے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ٹھیک اسی طرح، جس طرح اس کام کے اصل علَم برداروں، یعنی  انبیا علیہم السلام نے اسے آدم علیہ السلام سے لے کر محمدصلی اللہ علیہ وسلم تک کیا۔ یہ طریقہ ایک ہی ہے اور بلااستثنا ہر زمانے، ہر ملک اور ہرقوم میں اس کام کے لیےاسی کو اختیار کیا جاتا رہا ہے۔
آپ غور فرمائیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اجتماعی کاموں کے لیے خواہ وہ حق ہوں یا باطل، اللہ تعالیٰ نے شاید ایک ہی طریقہ خلق کیا ہے اور وہ یہ کہ انسان پہلے زیربحث نظریہ و مسلک کو سامنے رکھ کر اس کو سمجھنے، جانچنے اور پرکھنے پر اپنی ساری ذہنی اور عقلی قوتیں صرف کردے۔ پھر اگر دل و دماغ اس کے حق ہونے کی گواہی دیں اور عملاً اس پر چلنے اور نظامِ حیات تعمیر کرنے سے زندگی  کی ہرکل ٹھیک بیٹھتی چلی جاتی ہو، تو مردانہ وار اس پر ایمان لے آئے اور اپنی پوری زندگی کی باگ ڈور اس نظریہ و مسلک کے ہاتھ میں دے دے۔ جو کچھ وہ کرنے کا تقاضا اور حکم کرے، اسے پورے شدومد، خلوص و دیانت اور خوش دلی سے کرنے پر کمربستہ ہوجائے، اور جس سے وہ منع کرے یا جو کچھ اس پر ایمان کے منافی ہو، اسے بلاچون و چرا چھوڑتا چلا جائے۔
پھر جب اس نظریہ و مسلک کے ایک سے زیادہ لوگ فراہم ہوجائیں، تو وہ اس کے علَم برداروں کی حیثیت سے اس عزم کے ساتھ اُٹھیں کہ پوری سوسائٹی میں اس نظریۂ حیات کو کارفرما کرکے دم لیں گے۔ اس راہ کا اوّلین قدم یہ ہے کہ اپنے اصولوں اور نظریات کو بالکل صاف اور منزہ صورت میں دنیا کے سامنے رکھ دیا جائے اور بنی نوع انسان کو اپنی کسی غرض کے لیے نہیں، بلکہ خالصتاً ان کی فلاح و بہبود اور اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے، ان اصولوں کی طرف دعوت دی جائےاور جو لوگ ان کے قائل ہوکر داعیانہ عزم کے ساتھ انھیں قبول کرتے جائیں، ان کو ملا کر ایک منظم گروہ بناتے چلے جائیں۔
ظاہر ہے کہ اِس گروہ میں، جب کہ یہ کسی رنگ و نسل یا قوم و وطن کی بنا پر نہیں بلکہ صرف انسانی فلاح کے عالم گیر اصولوں پر منظم ہو رہا ہے، ہررنگ و نسل، ہر قوم و وطن اور ہرفن و قابلیت کے لوگ آئیں گے اور جوں جوں اس کا دائرہ اور حلقۂ اثر وسیع ہوتا جائے گا اِس کی قوت، اِس کی قابلیت، اس کے ذرائع و وسائل اور اس کے سازوسامان ہرچیز میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا، اور یہ اس منظم سوسائٹی کو جنم دے گا، جس کی اُٹھان اوّل سے آخر تک ہرانفرادی اور اجتماعی معاملے میں اسلامی اساس پر ہوئی ہوگی اور جو فطرتاً اُس صاحب ِ اختیار اجتماعی نظم پر منتج ہوگی، جو اَمربالمعروف اور نہی عن المنکر اور شہادت علی الناس کے فرائض کو کماحقہٗ انجام دے سکے گا۔
اس دوران میں منفرد اشخاص کو بھی اور پورے گروہ کو بھی بہت سے مراحل (stages) میں سے گزرنا پڑے گا اور کئی رکاوٹیں پیش آئیں گی، جن سے ہرمرحلے کے حالات کے مطابق نمٹنا ہوگا۔
ہمارا نصب العین اور طریق کار، میاں طفیل محمد، (ماہ نامہ ترجمان القرآن  ، مئی ۱۹۴۶ء)
……………………………………………………………………….
 
اصلاحِ معاشرہ اور انتخابات
ہم جس لائحۂ عمل پر برسوں سے کام کر رہے ہیں، اس کے چار میں سے تین اجزا اصلاحِ معاشرہ ہی کی تدابیر پر مشتمل ہیں۔ یہ ہمارا دائمی پروگرام ہے جس پر ہمیں سال کے ۳۶۵ دن کام کرنا ہے، خواہ انتخابات ہوں یا نہ ہوں۔ اس لیے یہاں اصل بحث یہ نہیں ہے کہ آیا تبدیلیِ قیادت کے لیے اصلاحِ معاشرہ کا کام کیا جائے یا صرف انتخاب لڑے جائیں، بلکہ یہ ہے کہ آیا اصلاحِ معاشرہ کی یہ ساری کوشش جاری رکھنے کے ساتھ انتخابات میں بھی حصہ لیا جائے یا نہیں؟ ہماری اسکیم یہ ہے کہ یہ دونوں کام ایک ساتھ ہونے چاہییں…. [ایک] غلط بات یہ فرض کی گئی ہے کہ انتخاب صرف ووٹ لینے اور دینے کا کام ہے،  معاشرے کے بنائو اور بگاڑ سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ حالاں کہ دراصل معاشرے کو بنانے اور بگاڑنے میں اس کا بہت بڑا حصہ ہے۔ اور کوئی ایسا شخص جو ’اصلاحِ معاشرہ‘ کا محض لفظ ہی نہیں بلکہ اس کے معنی بھی جانتا ہو، اُن اثرات کو نظرانداز نہیں کرسکتا، جو انتخابات سے معاشرے پر پڑتے ہیں…. کیوں کہ معاشرے کا ہربالغ شخص اس میں ووٹر ہوتا ہے۔ ان ووٹروں سے اگر روپے کے عوض ووٹ خریدے جائیں، یا طرح طرح کے دبائو ڈال کر، یا لالچ دے کر ان کے ووٹ حاصل کیے جائیں، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ کے گردوپیش ایک ضمیرفروش، لالچی اور دَبُّو معاشرہ تیار ہورہا ہے، اور ساتھ کے ساتھ اسی معاشرے میں اُن دلالوں، غنڈوں اور بدکردار طالبینِ اقتدار کی تربیت بھی ہورہی ہے، جو اپنی قوم کی اِن اخلاقی کمزوریوں سے ناجائز فائدہ اُٹھانے والے ہوں۔
دوسری طرف اگر ان ووٹروں سے برادریوں اور قبیلوں اور [علاقوں، نسلوں] کے نام پر بھی ووٹ لیے جائیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے معاشرے کو تنگ نظری، جاہلانہ تعصبات اور افتراق و انتشار کی تربیت بھی دی جارہی ہے،اور اس کے ساتھ آپ ہی کی قوم کے کچھ ذہین اور بااثر عناصر کو یہ تعلیم مل رہی ہے کہ اپنی ذاتی ترقی کے لیے وہ یہ ہتھکنڈے بھی استعمال کریں۔تیسری طرف اگر معاشی مفادات کے نام پر یا کچھ دوسرے لادینی اصولوں اور نظریات کی تبلیغ کرکے بھی ووٹ لیے جائیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے پورے معاشرے کو مادہ پرستی ، دنیا پرستی اور لادینی نظریۂ حیات کے حق میں راے دینے کے لیے بھی تیار کیا جارہا ہے۔ ان عناصر کو اس تخریب معاشرہ کے لیے کھلی چھٹی دے دینا اور یہ کہنا کہ ہم تو انتخابات کو چھوڑ کر صرف اصلاحِ معاشرہ کریں گے، آخر کیا معنی رکھتا ہے؟ (’اشارات‘ ،سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۴۹، عدد۱-۲، محرم، صفر ۱۳۷۷ھ، اکتوبر، نومبر ۱۹۵۷ء، ص ۱۱-۱۲)