Concept of Jihad جہاد اور اس کی حقیقت

 

جہاد فی سبیل اللہلفظ ‘جہاد’کے معنی حق کی حمایت میں انتہائی کوشش کے ہیں۔ یہ لفظ جنگ کے مترادف نہیں ، جسے عربی میں قتال کے لیے استعمال کیاجاتاہے ۔رضائے الہی کے حصول کے لیے کی جانے والی ہر قسم کی جدوجہد لفظ ‘جہاد ‘کے معنوی حدود میں داخل ہے ۔ مجاہد وہ شخص ہے ، جو خلوص دل سے خودکو اس مقصد کے لیےوقف کردیتاہے اوراپنی تمام ترجسمانی ،ذہنی و روحانی صلاحیتوں کو اس راستے میں صرف کرتاہے اوراپنی تمام توانائیوں کو کام میں لاتے ہوئے مخالف قوتوں کو زیر کرتاہے ، حتی کہ ضرورت پڑنے پر اپنی جان تک کی پروانہیں کرتا۔جہاد فی سبیل اللہ ایسی جدوجہدکانام ہے، جواللہ تعالی کی خوش نودی کے حصول ، دین کے غلبے اوراحکامات الہی کے فروغ کے لیے کی جائے۔

What is Jihad?
(striving in the way of God) The Qur’an almost equates jihad, an important Islamic duty, with Islam. The most distinguished servants of God, whether Prophets or saints, have attained their distinction through jihad against unbelievers and against their own carnal selves (nafs). Jihad has a great worth in the sight of God, because He created us to strive so that we might discover our true being and encourage others to do likewise <<keep reading >>>
مزید برآں اس کامقصد امربالمعروف اور نھی عن المنکر بھی ہے ،تاکہ اسلام کاپیغام دنیا بھر کے انسانوں تک پہنچایا جائء اورعالم گیر بنیادوں پر اسلامی اخوت کو فروغ دیاجائے ۔اسلامی اخوت کو قرآن نے مثالی برادری کانام دیاہے ، جس کا مطالبہ ہے کہ پیغام مصطفوی کی ترویج کی ہر ممکن کوشش کی جائے اوراُسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہوکر دوسروں کے لیے عملی نمونہ پیش کیا جائے ۔ارشاد باری تعالی ہے:
 (بقرہ۲:۱۴۳)
اور اسی طرح ہم نے تم کوامت معتدل بنایاہے ،تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور پیغمبر (آخرالزماں )تم پر گواہ بنیں ۔
 
 روح جہاد اور اس کی حقیقت
 
نبی اکرم صلى الله عليه و سلم پر پہلی وحی ‘اقرا’ یعنی ‘پرھو’کاحکم لائی ۔یہ حکم ایسے وقت نازل ہوا۔جب انسان علم وآگہی سے عاری تھا ۔مقصد یہ تھا کہ تخلیق کائنات اورنظام کائنات سے متعلق مشیت ایزوی کو سمجھنے کے لیے مومن ذہنی و روحانی صلاحیتوں کو بروے کار لائے ۔جہالت کے باعث زندگی میں در آنے والے بابل عقائد کو اس معرفت کی روشنی میں اپنے قلب ونظر سے دور کرے اورمشاہدے اورتفکر کے نورسے علم وآگہی کی شمع منو رکرے ۔
 
اللہ تعالی نے انسان کو محض دماغ سے نہیں نوازا، بلکہ کئی ایک حواس بھی عطاکیے ہیں ، جو اپنی اپنی تسکین طلب ہیں، چناں چہ ایک طرف انسان کائنات میں آشکار مظاہر سے اپنے ذہن کو روشن کرے گا تو دوسری جانب اس کا دل گناہوں سے پاک ہوتا چلاجائے گا ۔اللہ کی حکمت کو تسلیم کرنے او راس سے ہر لمحہ بخشش کا طالب رہنے کی وجہ سے وہ متوازن زندگی بسر کرے گا۔ وہ اللہ سے مغفرت کاطلب گار ہوتے ہوئے خواہشات نفسانی پر قابو پالے گااور نماز کے ذریعے صراط مستقیم کی دعا کرتا رہے گا۔
 
بلاشبہ آپ صلى الله عليه و سلم ہر قسم کی آلائشوں سے مبراتھے ، تاہم ‘اقرا’کی آیت میں یہ حکم پوشید ہ تھا کہ نبی کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں سنبھالیے ۔کلام الہی لوگوں تک پہنچائیےاورکائنات میں اللہ کی نشانیوں سے انھیں آگاہ کیجیے۔یوں ان کے ذہنوں کو زمانہ جاہلیت کی ضعیف الاعتقادی اوران کے قلوب کو گناہوں سے پاک کیجیے ۔ قرآنی آیات اورکائنات میں پھیلی ہوئی اس کی نشانیوں سے ذہنی وروحانی اعتبار سے انھیں منور کیجیے ۔ارشاد باری تعالی ہے۔
 
 (بقرہ ۲:۱۵۱)
 
جس طرح (من جملہ اورنعمتوں کے)ہم نے تم میں تمھیں سےایک رسول بھیجے ہیں ، جو تم کو ہماری آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے اور تمھیں پاک بناتے اورکتاب (یعنی قرآن) اوردانائی سکھاتے ہیں اورایسی باتیں بتاتے ہیں،جوتم پہلے نہیں جانتے تھے ۔
 
انسان کو ناتر اشیدہ کرداروں کوپیغمبران خدا نے ہی درست کیاہے ، ان کے سماعتوں کے قفل کھولے ہیں اورآنکھوں سے جہالت کے پردے ہٹائے ہیں ۔انبیاکرام  کی ہدایات پر عمل کرکے ہی انسان کو قوانین فطرت کو سمجھنے اوراشیاومظاہر کی حقیقت تک رسائی حاصل کرنے کے قابل ہوا ہے ۔ان ہستیوں کی پیروی سے ہی انسان نیابت الہی کے مرتبےپر فائز ہوسکتاہے ۔علاوہ ازیں وہ کتاب و حکمت کی تعلیم بھی دیتے ہیں۔چوں کہ قرّآن اللہ کی آخری کتاب ہے ،جواس کے آخری نبی پر نازل ہوئی ، لہذا کتاب سے مراد قرآن اورحکمت سے مراد حضور صلى الله عليه و سلم کی سنت ہے ۔پس جو حقیقی رہنمائی چاہتاہے ، اسے چاہیے کہ قرآن وسنت پر عمل پیر ا ہو۔
 
حضور صلى الله عليه و سلم نے ہمیں وہ کچھ بتایا ، جوہم نہیں جانتے تھے ۔انسانیت روز قیامت تک آپ صلى الله عليه و سلم کی تعلیمات سے فیض یاب ہوتی رہے گی ۔برائیوں کی نجاست سے بچنے او رپاکیزگی حاصل کرنے کا سلیقہ آپ صلى الله عليه و سلم ہی نے بتایا ۔آپ صلى الله عليه و سلم کے اسوہ حسنہ پر عمل پیراہوکر کتنے ہی لوگ اللہ کے برگزیدہ بندوں میں شمار ہونے لگے ۔ ان میں علی بھی ہیں ، جو فرماتے ہیں کہ غیب اورمبادیات اسلام پر میرا علم ویقین اتنا مکمل ہے کہ اگر ان تمام پردوں کو ہٹابھی دیاجائے تومیرے ایمان میں سرمواضامہ نہ ہو۔ان کے علاوہ شیخ عبدالقادر جیلانی ، امام غزالی ،امام ربانی ، فضیل ابن عیاض ، ابراہیم بن ادھم اوربشر الخافی کاشمار بھی اللہ کے برگزیدہ بندوں میں ہوتاہے ۔
 
تعلیمات مصطفوی کی روشنی سے انسانی ذہن کے اُفق پر سے جہالت کے گہرے سیاہ بادل چھٹ گئے اوراسی کی چراغ کی لو میں سائنس اورٹیکنالوجی کے میدانوں میں بڑے بڑے کارنامے انجام دیےگئے ۔
 
مومن اپنے ایمان کی تازگی وتقویت کے لیے جہاد کاسہار الیتاہے ،جس طرح ایک درخت کا پھل تو اس کی لمبی لمبی شاخوں کے سروں پر ہوتاہے ،حالاں کہ اس کی خوراک زمین سے کشیدہورہی ہوتی ہے؛اسی طرح مومن کے ایمان کی تازگی اس کے جذبہ جہاد سے نموپذیر ہوتی ہے۔ جب کسی مایوس اور قنوطی شخص کو دیکھیں تویقین کرلیں کہ اس نے جدوجہد کاراستہ ترک کردیاہے ۔جذبہ جہاد کا تسلسل انسان کے جوش وخروش کو ماند نہیں پڑنے دیتا اوراسی سے اس کی سرگرمیوں کودائرہ وسیع تر ہونے لگتاہے ۔
 
جہاد کی دواقسام ہیں؛ توہمات ،نفسانی خواہشات اورترغیبات سے نبرآزمارہتے ہوئے ذہنی وروحانی صلاحیتوں کو بیدارکرنا جہاد اکبرہے،جب کہ دوسرے انسانوں کو بھی اسی راستے پر چلنے کی ترغیب دینا جہاد اصغر ۔اگرچہ اللہ کی راہ میں لڑائی کو ہی جہاد اصغر کہا جاتاہے ،تاہم اس کا دائرہ میدان جنگ تک محدود نہیں ۔جنگ کے بلاوے پرلبیک کہنے سے میدان جنگ میں پیش ہوجانے تک سبھی افعال اسی لفظ کی ذیل میں آتے ہیں ۔گویائی ، خاموشی، تبسم ، رنجیدگی ،میل ملاقات،جدائی ،غرض انفرادی یا اجتماعی طورپرعالم گیرانسانی بہبودکےلیے اٹھایاجانے والاہرقدم جہاداصغرمیں شامل ہے۔
 
جہاد اصغر کادار ومدا ر ہر قسم کے سازوسامان کی فراہمی کے ساتھ جنگی تیاری اور میدان جنگ میں کارکردگی پر ہے، جب کہ جہاد اکبر اپنے نفس کے خلاف جدوجہد سے عبارت ہے ۔ جہاد کی ان دونوں اقسام میں کوئی تضاد نہیں ۔نفسانی خواہشات پر غلبہ پانے والے ہی جہاد اصغر میں حصہ لینے کاحوصلہ رکھتے ہیں اوروہاں سے پلٹنے والے ہی جہاد اکبر میں کامران ہوسکتے ہیں۔
 
جہاد اصغر کاتارک اگرچہ روحانی انحطاط کاذمہ دار ہوتاہے ،تاہم وہ اس خسارے سے محفوظ رہ سکتاہے ۔ کائنات کی ہر شے ہر وقت اللہ کی حمد وثنا میں مصروف ہے ، جس سے اس ذات باری کی موجودگی اوروحدانیت کااظہارہوتاہے اورممکن ہے کہ ایک انسان ان نشانیوں میں سے کسی سے ہدایت حاصل کرلے اورصراط مستقیم پر چلنے لگے ، اسی لیے کہا جاتاہے کہ کائنات میں ہدایت حاصل کرنے کے اسی قدر زیادہ مواقع ہیں ،جس قدر مخلوقات کی سانسیں۔جہاد اصغر سے پلٹنے والاانسان دنیاوی خواہشات وترغیبات کاشکار ہوسکتاہے ۔کامرانی اسے فخر وغرور،آسائش پسندی اورکاہلی میں مبتلاکرسکتی ہےاورممکن ہے ،وہ یہ سمجھنے لگے کہ اب اس کےآرام وسکون کاوقت ہے ۔یہی وہ خطرات ہیں ، جو جہاد اصغر سے واپس آنے والے کو دبوچنے کے لیے تیا ر کھڑے ہوتے ہیں ، اسی لیے نبی کریم صلى الله عليه و سلم نے کسی غزوے میں فتح کے بعد مدینہ لوٹتے ہوئے صحابہ اکرم کو خبردار کردیا کہ ہم جہاد اصغر سے جہاد اکبرکی طرف لوٹ رہے ہیں ۔جہاد اکبر میں کامیابی اورحیوانی ونفسانی خواہشات کے خلاف جدوجہد کاانحصار اللہ کے دین کی حمایت پر ہے ۔اگر کوئی گم راہی سے بچنا چاہتاہے تو ضروری ہے کہ فقط رضائے الہی کاحصول ہی اس کا مقصد حیات ہو اوراس کے اعمال،حتی کہ سونے ، جاگنے ،کسی کاروبار کی منتخب کرنے یااس کی تربیت حاصل کرنے جیسے امور بھی اسی مقصد کے حصول کے لیے ہوں ۔ارشاد باری تعالی ہے:
 
 (محمد۴۷:۷)
 
اے ایمان والو!اگرتم اللہ کی مددکروگے تو وہ بھی تمھاری مددکرے گااورتم کو ثابت قدم رکھے گا۔
 
آپ صلى الله عليه و سلم کی ذات جہادکی ان دونوں اقسام سے پوری طرح مزین تھی ۔ غزواۃ میں آپ صلى الله عليه و سلم کے اس فقید المثال عزم واستقلال کااظہار ہوتا ہے ۔علی ، جو بذات خود جرات وبہادری کی علامت سمجھے جاتے ہیں، اعتراف کرتے ہیں کہ جنگ کے سنگین لمحات میں صحابہ کرام آپ صلى الله عليه و سلم کی ذات میں پناہ لیتے تھے ۔وہ مثال دیتے ہیں کہ غزوہ حنین کے پہلے مرحلے میں جب اسلامی لشکر پسپا ہونے پر مجبور ہوگیا اور اس کی صفوں میں ابتری پھیل گئی تو حضور صلى الله عليه و سلم نے اپنے گھوڑے کارخ دشمن کی صفوں کی جانب کردیااور بھاگتے ہوئے مجاہدین کو پکارا:
 
انا النبی لاکذب انا ابن المطلب
 
اس پرعباس نے پکار ا: انا معشرالانصار ،یا اصحاب الشجرہ
 
ایک طرف میدان جنگ میں جواں مردی اور بے خوفی ہیں آ پ صلى الله عليه و سلم سب سے بڑھ کرتھے تو دوسری جانب بندگی میں بھی سب سے آگے ۔ آ پ صلى الله عليه و سلم کی نماز محبت الہی اورخوف خدا کاحسین امتزاج تھی اورجن لوگوں نے آپ صلى الله عليه و سلم کی حالت نماز میں زیارت کی ہے،ان کے دل آپ صلى الله عليه و سلم کی محبت سے لبریزہوگئے ۔آپ صلى الله عليه و سلم اکثر روزے سے ہوتےاوربعض اوقات ان میں تسلسل بھی ہوتا۔یوں بھی ہوتاکہ آپ صلى الله عليه و سلم رات بھر قیام کرتے ،جس کے نتیجے میں آپ صلى الله عليه و سلم کے پاؤں مبارک میں ورم آجاتا ۔صحیح بخاری میں ہے کہ ایک دفعہ حضور صلى الله عليه و سلم کی نماز طویل ہوگئی توعائشہ نے دریافت کیا۔’حضور !جب اللہ نے آپ صلى الله عليه و سلم کی تما م کوتاہیوں کو نظر انداز کردیا ہے تو آپ صلى الله عليه و سلم خود کو مشکل میں کیوں ڈالتے ہیں۔’ آپ صلى الله عليه و سلم نے فرمایا کہ میں اللہ کا شکرگزار بندہ نہ بنوں ۔
 
بعض اوقات آپ صلى الله عليه و سلم اپنی اہلیہ کی نیند میں خلل انداز ہوئے بغیر نماز کےلیے اٹھ جاتے ۔مسلم اورترمذی میں عائشہ سے روایت ہے کہ ایک رات میں بیدار ہوئی تو حضور صلى الله عليه و سلم کوبستر پرنہ پایا ۔میں نے ہاتھ سے ٹٹول کردیکھا تو میرا ہاتھ آپ صلى الله عليه و سلم کے پاؤں مبارک پر جاپڑا ۔اس وقت آپ صلى الله عليه و سلم سجدے میں مشغول تھے اور
 
دعا کررہے تھے :
 
اے اللہ!میں تیری رضا کی پناہ مانگتا ہوں ،تیرے غصے سے؛اورتیرے عذاب سے تیری معافی کی ۔میں اس قابل نہیں کہ تیری حمد وثنا کاحق ادا کروں ،جس شان سے کہ تو خود اپنی حمد وثناکرتاہے۔
 
آپ صلى الله عليه و سلم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آپ صلى الله عليه و سلم کے صحابہ کرام بھی میدان جنگ جرات وبہادری اورخوف ودہشت کی علامت تھے ، جب کہ اللہ کے حضورنہایت ہی عاجز ولاچاربندے ۔یہ وہ فاتحین تھے ،جواپنی راتیں عبادت میں گزار دیتے تھے ۔ابن حنبل ؒ سے مروی ہے کہ ایک جنگ کے دوران جب رات ہوگئی تو مجاہدین میں سے دونے پہرہ دینے کے ذمہ داری قبول کی ۔ان میں سے ایک آرام کرتا اوردوسرا نما زپڑھنے لگتا ۔اس صورت کو بھانپنے ہوئے دشمن نے تیر چلا دیا۔نماز میں مصروف مجاہد کو تیر لگا اوروہ زخمی ہوگیا ،لیکن اس نے نماز نہ توڑی ۔نماز ختم کرنے کے بعد اس نے اپنے ساتھی کوبیدار کیا ۔اُس نے حیرانی سے پوچھا کہ تم نے مجھے پہلے کیوں نہ جگا دیا؟زخمی صحابی بولاکہ میں سورۃ کہف تلاوت کررہاتھا ،لہذا اس کی لذت سے محروم ہونے کو دل نہ چاہا۔
 
صحابہ کاہرعمل مبنی براخلاص تھا، ان کا ہر فعل اللہ کی خوش نودی کی خاطر تھا ۔ایک دفعہ عمر اپنےخطبہ میں بغیر کسی سیاق وسباق کے فرمانے لگے ۔’اے عمر !تم ایک چرواہے تھے ۔جو اپنے باپ کی بھیڑبکریاں چرایا کرتے تھا۔’ نماز سے فارغ ہوئے تو استفسار کیاگیا ۔فرمایا ۔ ‘میرے دل میں اپنی خلافت کا احساس اجاگر ہوا،لہذا مجھے اندیشہ ہواکہ مبادا میرے اندر فخریاغرور کامادہ پیداہوجائے ۔’ ایک دن آپ اپنی پیٹھ پر ایک بوری لادے جارہے تھے ۔پوچھا گیا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں ؟فرمایا ۔’مجھے خود پر فخر محسو س ہوا تو چاہا کہ اس سے نجات پاؤں۔’
 
یہی وہ عظیم ہستیاں ہیں ، جنھوں نے جہاد کی برکات سے یہ ثمرات حاصل کیے ،تاہم وہ لوگ جو فخر و مباہات ،خود نمائی اورمنافقت سے نجات نہ پاسکے ، وہی اسلام کے لیے ضرررساں ثابت ہوئے ۔جہاد ایک طرف ضبط نفس کی ضرورت پر زور دیتاہے تودوسری جانب تلقین حق کی۔وہ نفسانی وحیوانی خواہشات پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی اسی انداز میں رضائے الہی کے حصول کی ترغیب دینے کا مطالبہ کرتاہے ،کیوں کہ اول الذکر کے ترک کرنے سے معاشرے میں انارکی پھیلتی ہے تو مؤخر الذکر کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ سماج میں سستی وکاہلی کی صورت میں برآمد ہوتاہے ،حضور صلى الله عليه و سلم نے جہاد کے ان دونوں پہلوؤں کو اپنے ایک ارشا دمیں مجتمع کردیا ۔’ دو آد میوں کی آنکھیں ہرگز دوزخ کو نہ دیکھیں گی ۔ایک وہ مجاہد ،جس نے سرحدوں کی حفاظت کی اورمیدان جنگ میں رہا، دوسرا وہ ،جس کی آنکھیں خوف خدا میں اشک بار ہوگئیں ۔’
قرآن مجید میں جہاد کی ان دونوں اقسام کی یوں وضاحت کی گئی ہے :
 
 (نصر۱۱۰:۱تا۳)
 
جب اللہ کی مد دآ پہنچی اور فتح (حاصل ہوگئی )اور تم نے دیکھ لیا کہ لوگ غول کے غول اللہ کے دین میں داخل ہورہے ہیں؛ تو اپنے پرورگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرو اوراس کی مغفرت مانگو۔بے شک وہ معاف کرنے والاہے ۔
 
جب مومن جہاد اصغر میں حصہ لیتے ہیں تو وہ یاتو جنگ مسلط کرنے والوں سے لڑتے ہیں یا عبادت الہی سے روکنے والوں یابھر امربالمعروف ونہی المنکر سے منع کرنے والوں نبردآزما ہوتے ہیں ۔اللہ ان کی مدد کرتاہے ،انھیں نصر ت عطا کرتا ہے اور پھر غول کے غول انسان اسلام قبول کرلیتے ہیں ۔عین اسی لمحے اللہ نے حکم دیا کہ اس کی تسبیح بیان کی جائے اور اس سے مغفرت طلب کی جائے،کیوں کہ ہرقسم کی فتح و کامرانی اسی کی جانب سے ہے ،لہذا ہر قسم کی تعریف وتوصیف اور عبادت و بندگی کے لائق وہی ذات با برکات ہے۔
حریر فتح اللہ گولن۔۔۔۔ مڑید پڑھیں نیچے لنک پر 》》》》》جہاد کے  مراحل
    http://fgulen.com/ur/books-pk/jihad/31169-Stages-of-Jihad
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
مزید پڑھیں:

~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~