Good deeds, sins, charity and Mercy اعمال ، گناہ، صدقات، اور بخشش


وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا عَسَى اللَّهُ أَنْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ ﴿009:102﴾

And (there are) others who have acknowledged their sins, they have mixed a deed that was righteous with another that was evil. Perhaps Allah will turn unto them in forgiveness. Surely, Allah is Oft-Forgiving, Most Merciful.)


‏ ‏ اور کچھ اور لوگ ہیں کہ اپنے گناہوں کا (صاف) اقرار کرتے ہیں۔ انہوں نے اچھے اور برے عملوں کو ملا جُلا دیا تھا۔ قریب ہے کہ خدا ان پر مہربانی سے توجہ فرمائے۔ بیشک خدا بخشنے والا مہربان ہے۔



ہر مسلمان جو نیکی کے ساتھ بدی میں بھی ملوث ہو وہ اللہ کے سپرد ہے۔
بخاری شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” میرے پاس آج رات کو دو آنے والے آئے جو مجھے اٹھا کر لے چلے۔ ہم ایک شہر میں پہنچے جو سونے چاندی کی اینٹوں سے بنا ہوا تھا۔ وہاں ہمیں چند ایسے لوگ ملے جنکا آدھا دھڑ تو بہت ہی سڈول، نہایت خوشنما اور خوبصورت تھا اور آدھا نہایت ہی برا اور بدصورت۔ ان دونوں نے ان سے کہا جاؤ اس اس نہر میں غوطہ لگاؤ ۔ وہ گئے اور غوطہ لگا کر واپس آئے وہ برائی ان سے دور ہو گئی تھی اور وہ نہایت خوبصورت اور اچھے ہوگئے تھے۔ پھر ان دونوں نے مجھ سے فرمایا کہ یہ جنت عدن ہے۔ یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی منزل ہے۔ اور جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابھی دیکھا یہ وہ لوگ ہیں جو نیکیوں کے ساتھ بدیاں بھی ملائے ہوئے تھے۔ اللہ تعالٰی نے ان سے درگذر فرما لیا اور انہیں معاف فرمایا۔ ” امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کی تفسیر میں اس حدیث کو اسی طرح مختصراً ہی روایت کیا ہے۔

خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿009:103﴾ ‏ان کے مال میں سے(صَدَقَةً) زکوۃ قبول کرلو کہ اس سے تم ان کو (ظاہر میں بھی) پاک اور (باطن میں بھی) پاکیزہ کرتے ہو اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لیے موجب تسکین ہے۔ اور خدا سُننے والا اور جاننے والا ہے۔ ‏
صدقہ مال کا تزکیہ ہے اللہ تعالٰی اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرماتا ہے کہ “آپ ان کے مالوں کا صدقہ لیا کریں۔ تاکہ اس وجہ سے انہیں پاکی اور ستھرائی حاصل ہو۔ ” اس کی ضمیر کا مرجع بعض کے نزدیک وہ مسلمان ہیں جنہوں نے اپنی نیکیوں کے ساتھ کچھ برائیاں بھی کرلیں تھیں۔ لیکن حکم اس کا عام ہے۔

صحیح مسلم شریف میں ہے کہ جب حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کے والد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنا صدقہ لے کر آئے تو حسب عادت آپ نے دعا کی کہ اے اللہ آل ابی اوفی پر اپنی رحمتیں نازل فرما۔ اسی طرح جب آپ کے پاس کسی قسم کا صدقہ آتا تو آپ ان کے لئے دعا فرماتے۔ ایک عورت نے آپ سے آ کر درخواست کی کہ یا رسول اللہ میرے لئے اور میرے خاوند کے لئے دعا کیجئے۔ آپ نے فرمایا صلی اللہ علیک وعلی زوجک صلواتک کی اور قرأات صلواتک ہے۔ پہلی قرأت مفرد کی ہے دوسری جمع کی ہے۔ فرماتا ہے کہ تیری دعا ان کے لئے اللہ کی رحمت کا باعث ہے۔ اور ان کے وقار وعزت کا سبب ہے۔ اللہ تعالٰی تیری دعاؤں کا سننے والا ہے۔ اور اسے بھی وہ بخوبی جانتا ہے کہ کون ان دعاؤں کا مستحق ہے اور کون اس کا اہل ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کے لئے دعا کرتے تو اسے اور اسکی اولاد کو اور اس کی اولاد کی اولاد کو پہنچتی تھی۔ پھر فرمایا۔ کیا انہیں اتنا بھی علم نہیں کہ اللہ تعالٰی اپنے بندوں کی توبہ قبول فرمانے والا ہے؟ اور وہی ان کے صدقات لیتا ہے؟

اس نے بندوں کو توبہ اور صدقے کی طرف بہت زیادہ رغبت دلائی ہے۔ یہ دونوں چیزیں گناہوں کو دور کردینے والی، انہیں معاف کرانے والی اور انکو مٹا دینے والی ہیں۔ توبہ کرنے والوں کی توبہ اللہ عزوجل قبول فرماتا ہے اور حلال کمائی سے صدقہ دینے والوں کا صدقہ اللہ تعالٰی اپنے دائیں ہاتھ میں لے کر صدقہ کرنے والے کے لئے اسے پالتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک کھجور کو احد کے پہاڑ کے برابر کر دیتا ہے۔
چنانچہ ترمذی وغیرہ میں ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالٰی صدقہ قبول فرماتا ہے اپنے دائیں ہاتھ سے اسے لیتا ہے اور جس طرح تم اپنے کو پالتے ہو اسی طرح اللہ تعالٰی اسے بڑھاتا رہتا ہے یہاں تک کہ ایک ایک کھجور احد پہاڑ کے برابر ہو جاتی ہے۔ اس کی تصدیق اللہ تعالیٰ عزوجل کی کتاب میں بھی موجود ہے پھر اسی آیت کا یہی جملہ آپ نے تلاوت فرمایا۔
اور اللہ تعالٰی کا یہ فرمان بھی۔( یمحق اللہ الربوا ویربی الصدقات) یعنی سود کو اللہ تعالٰی گھٹاتا ہے اور صدقے کو بڑھاتا ہے۔ صدقہ اللہ عزوجل کے ہاتھ میں جاتا ہے، اس سے پہلے کہ وہ سائل کے ہاتھ میں جاۓ۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی۔

ابن عساکر میں ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں مسلمانوں نے جہاد کیا جس میں ان پر حضرت عبدالرحمن بن خالد امام تھے۔ مسلمانوں میں سے ایک شخص نے مال غنیمت میں سے ایک سو رومی دینار چرا لئے جب لشکر وہاں سے لوٹ کر واپس آ گیا تو اسے سخت ندامت ہوئی وہ ان دیناروں کو لے کر امام کے پاس آیا لیکن انہوں نے ان سے لینے سے انکار کر دیا کہ میں اب لے کر کیا کروں؟ لشکر تو متفرق ہوگیا کیسے بانٹ سکتا ہوں؟ اب تو تو اسے اپنے پاس ہی رہنے دے۔ قیامت کے دن اللہ تعالٰی کے پاس ہی لانا۔ اس نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے پوچھنا شروع کیا لیکن ہر ایک یہی جواب دیتا رہا۔ یہ مسکین ان دیناروں کو حضرت معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس لایا اور ہر چند کہا کہ آپ انہیں لے لیجئے لیکن آپ نے بھی نہ لئے۔ اب تو یہ روتا پیٹتا وہاں سے نکلا۔ راستے میں اسے حضرت عبداللہ بن شاعر سکسکی رحمۃ اللہ علیہ ملے۔ یہ مشہور دمشقی ہیں اور اصل میں حمص کے ہیں۔ یہ بہت بڑے فقیہ تھے۔ انہوں نے پوچھا کہ کیوں رو رہے ہو؟ اس شخص نے اپنا تمام واقعہ بیان کیا۔ آپ نے فرمایا جو میں کہوں گا وہ کرو گے بھی؟ اس نے کہا یقینا۔ آپ نے فرمایا جاؤ اور خمس تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو دے آؤ۔ یعنی بیس دینار۔ اور باقی کے اسی دینار اللہ کی راہ میں اس پورے لشکر کی طرف سے خیرات کردو۔ اللہ تعالیٰ ان سب کے نام اور مکان جانتا ہے اور وہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے۔ اس شخص نے یہی کیا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو جب یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا و اللہ مجھے اگر یہ مسئلہ سوجھ جاتا اور میں اسے یہ فتویٰ دے دیتا تو مجھے اس ساری سلطنت اور ملکیت سے زیادہ محبوب تھا۔ اس نے نہایت اچھا فتویٰ دیا۔

أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ هُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَأْخُذُ الصَّدَقَاتِ وَأَنَّ اللَّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ
﴿009:104﴾

‏‏ کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ خدا ہی اپنے بندوں سے توبہ قبول فرماتا اور صدقات (وخیرات) لیتا ہے؟ اور بیشک خدا ہی توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔ ‏

وَقُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ ۖ وَسَتُرَدُّونَ إِلَى عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ
﴿009:105﴾

‏ ‏ اور (ان سے) کہہ دو کہ عمل کئے جاؤ۔ خدا اور اس کا رسول اور مومن (سب) تمہارے عملوں کو دیکھ لیں گے۔ اور تم غائب وحاضر کے جاننے والے (خدائے واحد) کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ پھر جو کچھ تم کرتے رہے ہو (سب) تم کو بتائے گا۔ ‏

اپنے اعمال سے ہوشیار رہو۔ جو لوگ اللہ تعالٰی کے احکامات کے خلاف کرتے ہیں انہیں اللہ تعالٰی ڈرا رہا ہے کہ ان کے اعمال اللہ کے سامنے ہیں۔ اور اس کے رسول اور تمام مسلمانوں کے سامنے قیامت کے دن کھلنے والے ہیں۔ چھوٹے سے چھوٹا اور پوشیدہ سے پوشیدہ عمل بھی اس دن سب پر ظاہر ہو جائے گا۔ تمام اسرار کھل جائیں گے دلوں کے بھید ظاہر ہو جائیں گے-
صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب تجھے کسی شخص کے نیک اعمال بہت اچھے لگیں تو تو کہہ دے کہ اچھا ہے عمل کئے چلے جاؤ اللہ اور اس کا رسول اور مومن تمہارے اعمال عنقریب دیکھ لیں گے۔ ایک مرفوع حدیث بھی اسی مضمون کی آئی ہے اس میں ہے کسی کے اعمال پر خوش نہ ہو جاؤ جب تک یہ نہ دیکھ لو کہ اس کا خاتمہ کس پر ہوتا ہے؟ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان ایک زمانہ دراز تک نیک عمل کرتا رہتا ہے کہ اگر وہ اس وقت مرتا تو قطعاً جنتی ہو جاتا۔ لیکن پھر اس کی حالت بدل جاتی ہے اور وہ بداعمالیوں میں پھنس جاتا ہے۔ اور بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان ایک لمبی مدت تک برائیاں کرتا رہتا ہے کہ اگر اسی حالت میں مرے تو جہنم میں ہی جائے لیکن پھر اس کا حال بدل جاتا ہے اور نیک عمل شروع کر دیتا ہے۔ اللہ تعالٰی جب کسی بندے کے ساتھ بھلا ارادہ کرتا ہے تو اسے اس کی موت سے پہلے عامل بنا دیتا ہے۔ لوگوں نے کہا ہم اس کا مطلب نہیں سمجھے آپ نے فرمایا مطلب یہ ہے کہ اسے توفیق خیر عطا فرماتا ہے اور اس پر اسے موت آتی ہے۔

وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّهِ إِمَّا يُعَذِّبُهُمْ وَإِمَّا يَتُوبُ عَلَيْهِمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
﴿009:106﴾

‏‏ اور کچھ اور لوگ ہیں جن کا کام خدا کے حکم پر موقوف ہے۔ چاہے اُنکو عذاب دے اور چاہے معاف کر دے۔ اور خدا جاننے والا حکمت والا ہے۔ ‏

یہاں فرماتا ہے کہ وہ اللہ کے ارادے پر ہیں اگر چاہیں سزا دے اگر چاہیں معافی دے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ سزا کے لائق کون ہے۔ اور مستحق معافی کون ہے؟ وہ اپنے اقوال و افعال میں حکیم ہے۔ اس کے سوا نہ تو کوئی معبود نہ اس کے سوا کوئی مربی۔

(تفسیر ابن كثیر سے ماخوذ)

وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالسَّيِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ وَقَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمُ الْمَثُلَاتُ ۗ وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ لِلنَّاسِ عَلَى ظُلْمِهِمْ ۖ وَإِنَّ رَبَّكَ لَشَدِيدُ الْعِقَابِ  (13:6 الراعد)
” اور یہ لوگ بھلائی سے پہلے تم سے برائی کے جلد خواستگار (یعنی طالب عذاب ہیں) حالانکہ ان سے پہلے عذاب (واقع) ہو چکے ہیں۔ اور تمہارا پروردگار لوگوں کو باوجود انکی بے انصافیوں کے معاف کرنے والا ہے اور بیشک تمہارا پروردگار سخت عذاب دینے والا ہے۔ ‏”  (13:6 الراعد)

ابن ابی حاتم میں ہے اس میں ہے اس آیت کے اترنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر اللہ تعالٰی کا معاف فرمانا اور درگزر فرمانا نہ ہوتا تو کسی کی زندگی کا لطف باقی نہ رہتا اور اگر اس کا دھمکانا ڈرانا اور سما کرنا نہ ہوتا تو ہر شخص بےپرواہی سے ظلم وزیادتی میں مشغول ہو جاتا.
(تفسیر ابن كثیر)


مزید پڑھیں:
~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~

~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~
Humanity, Knowledge, Religion, Culture, Tolerance, Peace

انسانیت ، علم ، اسلام ،معاشرہ ، برداشت ، سلامتی 

Books, Articles, Blogs, Magazines,  Videos, Social Media

بلاگز، ویب سائٹس،سوشل میڈیا، میگزین، ویڈیوز,کتب

سلام فورم نیٹ ورک  Peace Forum Network 
Join Millions of visitors: لاکھوں وزٹرز میں شامل ہوں 

Salaamforum.blogspot.com 

سوشل میڈیا پر جوائین کریں یا اپنا نام ، موبائل نمر923004443470+ پر“وہٹس اپپ”یا SMS کریں   

Join ‘Peace-Forum’ at Social Media, WhatsApp/SMS Name,Cell#at +923004443470
   Twitter: @AftabKhanNet  
  

Facebook: fb.me/AftabKhan.page