حقوق العباد ، ظلم، عبادات و نیک اعمال اور توبہ کی حقیقت  Human Obligations (Haqooq ul Ibad)

ایک عام رویہ ہے کہ لوگ دوسروں پر ظلم کرتے ہیں، چوری، کرپشن، رشوت لیتے ہیں پھر حج ، عمرے ادا کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ ایک نومولود بچہ کی طرح پاک صاف ہو گئیے، کچھ روایات کا سہارا لیتے ہیں اور کچھ کو نظر انداز کرتے ہیں ۔۔۔ قرآن و سنت کو مکمل طور پر ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔

It is in keeping with the epitome of Justice of Allah, that He has Decreed that only the one who has been wronged has the right to forgive the one who has wronged him or usurped his rights…. [Keep reading …]

ﻇﻠﻢ ﺍﻭﺭ ﺯﯾﺎﺩﺗﯽ

ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺣﻘﻮﻕ ﻣﺎﺭﻟﯿﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﭘﺮ ﻇﻠﻢ ﻭﺳﺘﻢ ﮈﮬﺎﻧﺎ ﺍﻥ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﮮ ﮔﻨﺎﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮨﮯ ﺟﻦ ﺳﮯ اسلام نے  ﻧﮩﺎﯾﺖ ﺳﺨﺘﯽ ﺳﮯ ﻣﻨﻊ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ۔ ﻗﺮﺁﻥ فرماتا ﮨﮯ:
وَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ ۚ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ [سورة إبراهيم 42]
ﯾﮧ ﻧﮧ ﺳﻤﺠﮭﻨﺎ ﮐﮧ ﺧﺪﺍ ﻇﺎﻟﻤﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﻓﻌﺎﻝ ﺳﮯ ﺑﮯ ﺧﺒﺮ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺳﺰﺍ ﺍﺱ (ﻗﯿﺎﻣﺖ ﮐﮯ) ﺩﻥ ﭘﺮ ﺍﭨﮭﺎ ﺭﮐﮭﯽ ﮨﮯ ﺟﺐ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﯽ۔

ظلم کیا ہے؟: کسی چیز کو اس کی جگہ سے ہٹاکر رکھنے اورحد سے تجاوز کرنے کو ظلم کہتے ہیں۔یعنی اگر کوئی شخص کسی دوسرے کے مال یا زمین پر ناجائز قبضہ کرلے تو وہ ظلم ہے کیونکہ اس میں مال یا زمین پر اصل مالک کا حق چھین لیا جاتا ہے۔ (حکمرانوں کی کرپشن سے عوام کا استحصال ہوتا ہے جو سراسر ناانصافی اور ظلم ہے ) اسی طرح شرک کرنا بھی ظلم ہے کیونکہ اس میں اللہ کا حق مارا جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا حق یہ ہے کہ عبادت میں اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے۔ کسی کو ناحق قتل کرنا، کسی کو گالی دینا یا برا بھلا کہنا یا کسی کو تکلیف دینا یا کسی کا حق ادا نہ کرنا یا قدرت کے باوجود قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا بھی ظلم ہے۔

ظلم حرام ہے:

قرآن وحدیث کی واضح تعلیمات کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ ظلم حرام ہے، اورسات بڑے ہلاک کرنے والے گناہوں میں سے اکثر کا تعلق ظلم ہی سے ہے۔ ظالم قیامت کے دن ذلت آمیز اندھیروں میں ہو گا اور ظالموں کو جہنم کی دہکتی آگ میں ڈالا جائے گا، چنانچہ قیامت کے دن ظالموں سے مظلوموں کے حقوق ادا کروائے جائیں گے یہاں تک کہ سینگ والی بکری سے بغیر سینگ والی بکری کو بدلہ دلوایا جائے گا اگر اُس نے بغیر سینگ والی بکری کو دنیا میں مارا ہوگا۔

غرضیکہ شریعت اسلامیہ نے نہ صرف ظلم کی حرمت ونحوست کا بار بار ذکر کیا ہے اور اس کے برے انجام سے متنبہ کیا ہے بلکہ مظلوم کی مدد کرنے کی تعلیم وترغیب بھی دی ہے اور مظلوم کی بددعا سے بھی سختی کے ساتھ بچنے کو کہا گیا ہے کیونکہ مظلوم کی بددعا اللہ کے دربار میں رد نہیں کی جاتی۔

عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ظلم کو حرام قرار دے کر سب کے ساتھ عدل وانصاف کیا جائے اور ظالموں کو سخت سے سخت سزا دی جائے ورنہ غریبوں کو دو وقت کا کھانا ملنا بھی دشوار ہوجائے گا۔

اسی وجہ سے تمام مذاہب میں ظلم کرنے سے روکا گیا ہے۔ دنیاوی قوانین بھی اس طرح بنائے گئے ہیں کہ ظلم پر روک لگائی جاسکے، لیکن ہر دور میں کچھ لوگ اپنے مذہب کی تعلیمات اور عالمی وملکی قوانین کی دھجیاں اڑاکر کمزوروں اور غریبوں پر ظلم کرکے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے کوشاں رہتے ہیں-

[بددیانت اور کرپٹ حکمران اور اہل کار رشوت ، حرام خوری سے عوامی دولت حاصل کر کہ عوام کا استحصال کرتے ہیں ، یہ سراسر ظلم ہے]

للہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’اللہ ذرّہ برابر بھی کسی پر ظلم نہیں کرتا۔‘‘ (النساء40) ۔

نبی اکرمﷺ حدیث قدسی میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’ اے میرے بندو! میں نے ظلم کو اپنے اوپر بھی حرام کیا ہے اور تم پر بھی حرام کیا ہے لہٰذا تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔ ‘‘(صحیح مسلم ۔ باب تحریم الظلم) ۔

ظلم کے اقسام:

علمائے کرام نے ظلم کی تین قسمیں بیان کی ہیں:

{1} شرک کرنا یعنی عبادت میں اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا

{2}گناہ کا ارتکاب کرکے خود اپنے اوپر ظلم کرنا

{3} دوسرے انسان پر ظلم کرنا۔

ہمیں ایسی تمام شکلوں سے بچنا چاہئے جن میں شرک کا ادنیٰ سا بھی شبہ ہو، کیونکہ شرک کو اللہ تعالیٰ نے سب سے بڑا گناہ اور ظلم قرار دیا ہے۔

 ظلم کی پہلی  دو قسموں کا تعلق حقوق اللہ سے ہے، جبکہ تیسری قسم کا تعلق حقوق العباد سے ہے۔

ظلم کی اِس قسم پر خصوصی توجہ درکار ہے کیونکہ”

اللہ تعالیٰ نے حقوق العباد کے متعلق اپنا اصول وضابطہ بیان کردیا ہے کہ جب تک بندہ سے معاملہ صاف نہیں کیا جائے گا وہ معاف نہیں کرے گا-

لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ کسی بھی انسان پر کسی بھی حال میں ظلم نہ کرے، بلکہ اپنی حیثیت کے مطابق دوسروں کی مدد کرے، ظالم کو ظلم کرنے سے حکمت کے ساتھ روکے اور مظلوم کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہو،جیسا کہ حضور کرمﷺ نے ارشاد فرمایا :

اپنے بھائی کی مدد کرو، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ ! ہم مظلوم کی تو مدد کرسکتے ہیں، لیکن ظالم ہونے کی صورت میں اس کی مدد کس طرح ہوگی؟

حضور کرمﷺ نے فرمایا: ’’(ظالم کی مدد کی صورت یہ ہے کہ) اس کا ہاتھ پکڑ لو(یعنی اسے ظلم کرنے سے روک دو)‘‘(بخاری:باب اعن اخاک ظالماً او مظلوماً) ۔

کسی انسان کے دوسرے شخص پر ظلم کرنے کی مختلف شکلیں ہوسکتی ہیں۔

یتیم کے مال کو ہڑ پنا:

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’یقین رکھو کہ جو لوگ یتیموں کا مال اُن پر ظلم کرکے کھاتے ہیں، وہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں اور انہیں جلدی ہی ایک دہکتی آگ میں داخل ہوناہوگا۔‘‘ (النساء10)۔

اسی طرح کسی بھی انسان کے مال کو ناجائز طریقہ سے حاصل کرنے کے متعلق قرآن وحدیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔

کسی کی زمین پر قبضہ کرنا:

کسی کمزور یا غریب کو دبا کر اس کی زمین پر ناجائز قبضہ کرنا بھی ظلم اور بہت بڑا گناہ ہے۔ حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: « اگر کسی شخص نے ایک بالشت زمین بھی کسی دوسرے کی ظلماً لے لی تو سات زمین کا طوق اس کی گردن میں پہنایا جائے گا (بخاری : باب اثم من ظلم شیئاً من الارض)۔

« جس شخص نے ناحق کسی زمین کا تھوڑا سا حصہ بھی لیا تو قیامت کے دن اسے سات زمینوں تک دھنسا دیا جائے گا(بخاری : باب اثم من ظلم شیئاً من الارض)۔

غیر مسلم پر ظلم کرنا:

مسلمانوں کی طرح غیر مسلموں سے بھی انسانیت کی بنیاد پر ایک ہی جیسا برتاؤ کیا جائے گا۔ کسی غیر مسلم پر بھی ظلم کرنا حرام ہے۔ حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا:

’’جو شخص ذمی (یعنی وہ غیر مسلم جو مسلمانوں کے ملک میں رہتاہے) پر ظلم وزیادتی کرے گا یا اس کی طاقت سے زیادہ اس سے کام لے گایا اس کی کوئی چیز بغیر اس کی رضا مندی کے لے گا تو اُس ذمی کی جانب سے اُس شخص کے ساتھ خصومت کرنے والا میں (نبی اکرمﷺ) خود ہوں گا۔‘‘ (ابوداؤد : باب فی اہل تعشیر اہل الخدمہ)۔

مزدورکو اجرت نہ دینا : حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’تین طرح کے لوگ ایسے ہیں جن کا قیامت میں مَیں فریق بنوں گا( یعنی میں ان کے مخالف کھڑا ہوں گا):

١.وہ شخص جس نے میرے نام پر وعدہ کیا اور پھر وعدہ خلافی کی،

٢.وہ شخص جس نے کسی آزاد کو بیچ کر اس کی قیمت کھائی ہو (اور اس طرح اس کی غلامی کا باعث بنا ہو) ،

٣. وہ شخص جس نے کسی کو مزدوری پر لیا ہو، پھر کام تو اس سے پوری طرح لیا لیکن اس کی مزدوری نہ دی ہو۔‘‘ (بخاری : باب اثم من منع اجر الاجیر) ۔

اسی طرح فرمان رسولﷺ ہے:

’’مزدور کی مزدوری اس کے پسینہ سوکھنے سے قبل دی جائے۔‘‘ (ابن ماجہ : باب اجر الاجراء)۔

لوگوں کے حق کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا:

رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’قرض کی ادائیگی پر قدرت کے باوجود وقت پر قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ ‘‘(بخاری ، مسلم) نیز رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

اللہ تعالیٰ شہید کے تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے مگر کسی کا قرضہ معاف نہیں کرتا (مسلم)۔

انسانوں پر ظلم کرنے کی متعدد شکلوں میں سے چند صورتیں ذکر کی گئے ہیں، لیکن ہمیں تمام ہی شکلوں سے بچنا چاہئے کیونکہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن بہت سی نماز، روزہ، زکاۃ (اور دوسری مقبول عبادتیں) لے کر آئے گا مگر حال یہ ہوگا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا یا کسی کو مارا پیٹا ہوگا تو اس کی نیکیوں میں سے ایک حق والے کو (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی، ایسے ہی دوسرے حق والے کو اس کی نیکیوں میں سے (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی، پھر اگر دوسروں کے حقوق چکائے جانے سے پہلے اس کی ساری نیکیاں ختم ہوجائیں گی تو (ان حقوق کے بقدر) حقداروں اور مظلوموں کے گناہ (جو انہوں نے دنیا میں کئے ہوں گے) ان سے لے کر اس شخص پر ڈال دیئے جائیںگے ، اور پھر اس شخص کو دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔ ‘‘(مسلم : باب تحریم الظلم)۔

مظلوم اور ہم کیا کریں؟

مظلوم صبر کرکے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے اور اپنی استطاعت کے مطابق ظالم کو ظلم سے روکے اور دوسروں سے مدد حاصل کرکے اپنے ملک کے قانون کے تحت کارروائی کرے۔

ہمیں مظلوم کی حتی الامکان مدد کرکے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرنی چاہئیں اور اگر ہم ظالم کو ظلم کرنے سے روک سکتے ہیں تو ملکی قوانین کو سامنے رکھ کر ضرور یہ ذمہ داری انجام دینی چاہئے۔

یہ بات اچھی طرح ذہن میں رکھنی چاہئے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتے ہیں، پھر جب اچانک اس کو پکڑتے ہیں تو اس کو بالکل نہیں چھوڑتے۔

پھر آپﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:

ترجمہ’’ اسی طرح تیرے رب کی پکڑ ہے جب وہ شہروں کو پکڑتے ہیں جبکہ وہ ظلم کا ارتکاب کرتے ہیں، یقینا اس کی پکڑ بڑی دردناک ہے(بخاری ومسلم) ۔  (ماخوز .. ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی)

کیا یہ انصاف ہے؟
کیا قرآن و سنت کی تعلیمات سے یہ ثابت ہوتا ہے؟

اَمۡ نَجۡعَلُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کَالۡمُفۡسِدِیۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ۫ اَمۡ نَجۡعَلُ الۡمُتَّقِیۡنَ کَالۡفُجَّارِ ﴿۲۸﴾
ترجمہ:
جو لوگ ایمان لائے ہیں، اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں کیا ہم ان کو ایسے لوگوں کے برابر کردیں جو زمین میں فساد مچاتے ہیں ؟ یا ہم پرہیزگاروں کو بدکاروں کے برابر کردیں گے ؟ (ص – 38 آئت نمبر 28)

جب اللہ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کو اپنے خلیفہ کی حیثیت میں یہ حکم دیا کہ وہ عدل و انصاف سے کام لیں تو کیا اللہ خود انصاف نہیں کریں گے ؟
اسی انصاف کے لیے آخرت میں حساب و کتاب ہوگا، ورنہ یہ لازم آئے گا کہ اللہ نے نیک لوگوں اور بدکاروں کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا، اور دنیا میں چاہے کوئی شخص اچھے کام کرے یا بدکاری، گناہ کا مرتکب ہو، نہ اس سے کوئی باز پرس ہونی ہے اور نہ نیک آدمی کو کوئی انعام ملنا ہے۔ ایسی بےانصافی اللہ تعالیٰ کیسے گوارا فرما سکتے ہیں؟

فضائل اعمال مثلا نماز، روزہ، حج وغيرہ جمہور علماء كرام كے ہاں يہ اعمال تو صرف صغيرہ گناہوں كا كفارہ بنتے ہيں، اور اللہ تعالى كے حقوق اللہ كا كفارہ بنتے ہيں.

اور حقوق العباد كے متعلقہ معاصى اور حقوق كے بارہ ميں يہ ہے كہ:

يہ توبہ كے بغير معاف نہيں ہوتے، اور اس سے توبہ كى شروط ميں حقوق كا حقداروں كو واپس كرنا شامل ہے.

توبہ ندامت كے معنى ميں ہے كہ جو كچھ ہو چكا اس پر ندامت اور آئندہ ايسا فعل نہ كرنے كے عزم كا نام توبہ ہے، اور يہ حقوق العباد كو ساقط كرنے كے ليے كافى نہيں، لھذا جس شخص نے كسى كا مال چورى كيا، يا مال غصب كيا، يا كسى اور طريقہ سے اس كے ساتھ ظلم اور زيادتى كى تو صرف ندامت اور اس فعل كو چھوڑ دينے اور آئندہ ايسا نہ كرنے كا عزم كرنے سے ہى اس گناہ سے چھٹكارا حاصل نہيں ہوگا، بلكہ ان مظلوموں كے حقوق واپس كرنا ضرورى ہيں، اور فقھاء كے ہاں يہى اصل اور متفق عليہ مسئلہ ہے۔

اور حقوق العباد كے متعلقہ معاصى اور حقوق كے بارہ ميں يہ ہے كہ:

يہ توبہ كے بغير معاف نہيں ہوتے، اور اس سے توبہ كى شروط ميں حقوق كا حقداروں كو واپس كرنا شامل ہے.

مسمانوں كے سارے حقوق كو شھادت اور جھاد اور دوسرے فضيلت والے اعمال معاف نہيں كرواتے اور ان كا كفارہ نہيں بنتے، بلكہ حقوق اللہ كا كفارہ بنتے ہيں۔

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” شھيد كو قرض كے علاوہ باقى سب گناہ معاف كر ديے جاتے ہيں”
)صحيح مسلم حديث نمبر 1886(

معنوى حقوق مثلا بہتان، غيبت، وغيرہ:

اگر مظلوم كو اس ظلم كا علم ہو چكا ہو تو مظلوم سے معذرت اور معافى ضرور مانگنا ہو گى، اور اگر مظلوم كے علم ميں يہ ظلم نہ آيا ہو تو اسے بتانا نہيں چاہيے بلكہ اس كے ليے اس كے ليے استغفار كرے، كيونكہ اسے بتانا نفرت كا سبب اور باعث بنے گا اور ان دونوں كے مابين عداوت و دشمنى اور بغض پيدا ہو گا.

” جس كسى كے پاس بھى اپنے كسى بھائى كا خون ميں يا مال ميں عزت ميں حق ہے تو وہ اس حق سے وہ دن آنے سے قبل ہى برى ہو جائے اور اسے ادا كردے، جس دن ميں نہ كوئى درہم ہو گا اور نہ دينار، صرف نيكياں اور برائياں ہونگى، اگر اس كے پاس نيكياں ہونگى تو صحيح وگرنہ صاحب حق كى برائياں لے كر ظالم پر ڈال دى جائيں گى اور پھر اسے جہنم ميں ڈال ديا جائے گا”

مظلوم كے ساتھ نيكى كرے مثلا اس كے ليے دعا اور استغفار اور اعمال صالحہ صدقہ كركے اس كا ثواب اسے ہديہ كرے، جو اس كى غيبت اور بہتان كے قائم مقام ہونگے.

خلاصہ یہی ہے کہ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کا معاملہ بھی انتہائی حساس ہے ، حقوق اللہ میں کوتاہی اگر اللہ چاہیں گے تو معاف کردیں گے، لیکن حقوق العباد میں عمومی حکم یہی ہے کہ اللہ تعالی بدلہ دلوائیں گے ، جب میدان مقتل میں شہادت پانے والے کو قرض جیسے حقوق العباد معاف نہیں ، توپھر ایک عام آدمی کا کیا حال ہوگا ؟
البتہ اللہ اگر چاہیں ، تو اپنے بعض نیک بندوں کی دوسرے بندوں کے حق میں کمیاں کوتاہیاں معاف کردیں گے ، اور حق والوں کو بھی اپنے فضل و کرام سے راضی کردیں گے ۔

۔۔۔۔۔۔…………..۔۔۔۔

گناہ اور سزا

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا اتَّبِعُوا سَبِيلَنَا وَلْنَحْمِلْ خَطَايَاكُمْ وَمَا هُم بِحَامِلِينَ مِنْ خَطَايَاهُم مِّن شَيْءٍ ۖ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ ﴿29:12﴾
اور جو کافر ہیں وہ مومنوں سے کہتے ہیں کہ ہمارے طریق کی پیروی کرو ہم تمہارے گناہ اُٹھالیں گے۔ حالانکہ وہ اُن کے گناہوں کا کچھ بھی بوجھ اُٹھانے والے نہیں۔ کچھ شک نہیں کہ یہ جھوٹے ہیں

وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقَالَهُمْ وَأَثْقَالًا مَّعَ أَثْقَالِهِمْ ۖ وَلَيُسْأَلُنَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَمَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ ﴿29:13﴾
اور یہ اپنے بوجھ بھی اُٹھائیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ اور (لوگوں کے) بوجھ بھی۔ اور جو بہتان یہ باندھتے رہے قیامت کے دن اُن کی اُن سے ضرور پرسش ہوگی

کفار قریش مسلمانوں کو بہکانے کے لئے ان سے یہ بھی کہتے تھے کہ تم ہمارے مذہب پر عمل کرو اگر اس میں کوئی گناہ ہو تو وہ ہم پر۔ حالانکہ یہ اصولا غلط ہے کہ کسی کا بوجھ کوئی اٹھائے۔ یہ بالکل دروغ گو ہیں ۔ کوئی اپنے قرابتداروں کے گناہ بھی اپنے اوپر نہیں لے سکتا۔ دوست دوست کو اس دن نہ پوچھے گا۔ ہاں یہ لوگ اپنے گناہوں کے بوجھ اٹھائیں گے اور جنہیں انہوں نے گمراہ کیا ہے ان کے بوجھ بھی ان پر لادے جائیں گے مگر وہ گمراہ ہلکے نہ ہوں گے۔ ان کا بوجھ ان پر ہے۔ جیسے فرمان ہے آیت :

 لِيَحْمِلُوْٓا اَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَّوْمَ الْقِيٰمَةِ  (النحل:16:25)

یعنی یہ اپنے کامل بوجھ اٹھائیں گے اور جنہیں بہکایا تھا ان کے بہکانے کا گناہ بھی ان پر ہوگا۔

صحیح حدیث میں ہے کہ جو ہدایت کی طرف لوگوں کو دعوت دے ۔ قیامت تک جو لوگ اس ہدایت پر چلیں گے ان سب کو جتنا ثواب ہوگا اتنا ہی اس ایک کو ہوگا لیکن ان کے ثوابوں میں سے گھٹ کر نہیں ۔ اسی طرح جس نے برائی پھیلائی اس پر جو بھی عمل پیراہوں ان سب کو جتنا گناہ ہوگا اتناہی اس ایک کو ہوگا لیکن ان گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔

ظلم اور ظالم کا حساب ، معافی نہیں حساب !

حضرت ابو امامہ (رض) سے فرمایا حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اللہ کی تمام رسالت پہنچا دی آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ:

ظلم سے بچو کیونکہ قیامت والے دن اللہ تبارک وتعالیٰ فرمائے گا مجھے اپنی عزت کی اور اپنے جلال کی قسم آج ایک ظالم کو بھی میں نہ چھوڑونگا۔

پھر ایک منادیٰ ندا کرے گا کہ فلاں فلاں کہاں ہے؟

وہ آئے گا اور پہاڑ کے پہاڑ نیکیوں کے اس کے ساتھ ہونگے یہاں تک کہ اہل محشر کی نگاہیں اس کی طرف اٹھنے لگیں گی۔ وہ اللہ کے سامنے آکر کھڑا ہوجائے گا پھر منادیٰ ندا کرے گا کہ اس طرف سے کسی کا کوئی حق ہو اس نے کسی پر ظلم کیا ہو وہ آجائے اور اپنا بدلہ لے لے۔

اب تو ادھر ادھر سے لوگ اٹھ کھڑے ہونگے اور اسے گھیر کر اللہ کے سامنے کھڑے ہوجائیں اللہ تعالیٰ فرمائے گا میرے ان بندوں کو ان کے حق دلواؤ۔

فرشتے کہیں گے اے اللہ کیسے دلوائیں؟

اللہ تعالیٰ فرمائے گا اس کی نیکیاں لو اور انہیں دو چنانچہ یوں ہی کیا جائے گا یہاں تک کہ ایک نیکی باقی نہیں رہے گی اور ابھی تک بعض مظلوم اور حقدار باقی رہ جائیں گے۔

اللہ تعالیٰ فرمائے گا انہیں بھی بدلہ دو فرشتے کہیں گے اب تو اس کے پاس ایک نیکی بھی نہیں رہی۔ اللہ تعالیٰ حکم دے گا ان کے گناہ اس پرلادو ۔

پھر حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے گھبرا کر اس آیت کی تلاوت فرمائی (

وَلَيَحْمِلُنَّ اَثْــقَالَهُمْ وَاَثْــقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِمْ ( العنكبوت:29:13)

ابن ابی حاتم میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا اے معاذ!(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) قیامت کے دن مومن کی تمام کوششوں سے سوال کیا جائے گا یہاں تک کہ اس کی آنکھوں کے سرمے اور اس کے مٹی کے گوندھے سے بھی۔ دیکھ ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن کوئی اور تیری نیکیاں لے جائے۔

(تفسیر ابن کثیر )

………………………………..

حقوق العباد اور حقوق الله کی معافی کا تعلق ہے – تو اس کا تعلق الله کی حکمت و قدرت سے ہے – الله کا فرمان کہ : ” شرک کے علاوہ تمام گناہ معاف کر دے گا”
إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ افْتَرَى إِثْماً عَظِيماً ۔ (النساء 4:48)
بے شک اللہ تعالیٰ اس چیز کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک ٹھہرایا جائے، اس کے سوا جو کچھ ہے، جس کے لیے چاہے گا بخش دے گا۔

اس کا حقیقی مطلب یہ ہے کہ شرک کے گناہ کا وبال اتنا شدید ہے کہ جس کی معافی کی الله کے ہاں کوئی گنجائش نہیں – البتہ شرک کے علاوہ باقی گناہوں کی معافی کی گنجائش ضرور ہے – لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ الله ان کو بغیر فیصلہ کیے معاف کردے -قرآن میں اللّہ وتبارک اعلی کا ارشاد ہے :

وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ – بِأَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ سوره تکویر ٨-٩
اور جب (زمین) میں زندہ درگور ہونے والی لڑکی سے پوچھا جائے- بتاؤ کہ کس جرم پر قتل گئی تھی؟؟
اس آیت کے مفہوم اور اس یوم آخرت کے دن کی نزاکت پر غور کرنے سے پتا چلتا ہے- ایک انسان جس نے کسی پر ظلم و زیادتی کی ہو گی- اس سے اس کے گناہ کی باز پرس نہیں ہو گی بلکہ جس پر اس نے ظلم کیا ہو گا اس سے پوچھا جائے گا کہ تم بتاؤ کہ تم پر کس نے اور کیوں ظلم کیا؟؟؟ اب یہ اس مظلوم پر ہو گا کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم اور ظالم کو معاف کرتا ہے یا پھر اس ظالم کی نیکیاں سمیٹ کر جنّت کا حقدار بن جاتا ہے- یہ الله کا بنایا ہوا ایک قانون ہے اور اسی قانون کے تحت الله قیامت کے دن فیصلہ فرماے گا -اللہ کا ارشاد پاک ہے کہ :

أَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ -وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ-وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَىٰ- ثُمَّ يُجْزَاهُ الْجَزَاءَ الْأَوْفَىٰ- سوره النجم ٣٨-٤١
(اس دن) کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور انسان کو وہی ملے گا جس کے لیے اس نے محنت کی ہوگی۔ اور اس کی یہ محنت بہت جلد دیکھی جائے گی۔ پھر اسے پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔

یعنی الله رب العزت اس بنیاد پر کسی کو بغیر سزا کے نہیں بخشے گا – جب تک کہ اس کے اعمال کی جانچ نہ کرلی جائے -خاص کر کے جب ان اعمال کا تعلق حقوق العباد سے ہو- ہم ؛نام نہاد مسلمانوں کا حال بھی یہود و نصاریٰ سے زیادہ مختلف نہیں ہے –

یہودی ہمارے جیسے ہی غلط تصورات کا شکار تھے۔ انہیں یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ اول تو انہیں عذاب دیں گے نہیں اور اگر اپنے عدل کی لاج رکھنے اور مخلوق خدا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے اگر آگ میں ڈالا گیا تو چند دن بعد انہیں باہر نکال لیا جائے گا ۔ جواب میں اللہ تعالیٰ نے اپنا دو ٹوک فیصلہ سنادیا۔ فرمایا:

وَقَالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلاَّ أَيَّاماً مَعْدُودَةً قُلْ أَاتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً فَلَنْ يُخْلِفَ اللَّهُ عَهْدَهُ أَمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لا تَعْلَمُونَ۔ بَلَى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُوْلَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ۔ (البقرہ 2:80-81)
اور وہ کہتے ہیں کہ ان کو دوزخ کی آگ نہیں چھوئے گی مگر صرف گنتی کے چند دن۔ پوچھو: کیا تم نے اللہ کے پاس اس کے لیے کوئی عہد کرالیا ہے کہ اللہ اپنے عہد کی خلاف ورزی نہیں کرے گا یا تم اللہ پر ایک ایسی تہمت باندھ رہے ہو جس کے بارے میں تمھیں کچھ علم نہیں۔ کیوں نہیں،جس نے کوئی بدی کمائی اور اس کے گناہ نے اسے اپنے گھیرے میں لے لیا وہی لوگ دوزخ والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

اور ہم بھی یہی سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے شرک نہیں کیا تو کیا ہوا – باقی گناہ تو معاف ہو سکتے ہیں اگر ہمیں عذاب ہوا بھی تو چند دنوں پر مشتمل ہو گا-

جب کہ حقیقت یہ ہے کہ روزِ قیامت اللہ کے حضور کسی کے بارے میں کسی قسم کی سفارش کی کوئی گنجائش نہیں سوائے اس کے کہ رحمن اس بات کی اجازت دے ۔خدا کے اذن کے بعد دوسری چیز یہ ہے کہ بات کہنے والا بھی وہ بات کہے جو خلافِ عدل نہ ہو۔ تیسرے یہ کہ ہر کسی کے حق میں سفارش نہیں ہوسکتی بلکہ جس کے حق میں اجازت ہو گی صرف اسی کے بارے میں بات ہوگی۔ اور یہ کوئی نہیں جانتا کہ کس کے حق میں الله سفارش قبول کرے گا اور کس کے حق میں سفارش قبول کرنے سے انکار ہوجاے گا – فرمان باری تعلیٰ
ہے –

يَوْمَئِذٍ لا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ إِلاَّ مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَنُ وَرَضِيَ لَهُ قَوْلاً ۔ (طہ 20:109)

اس دن شفاعت نفع نہ دے گی۔ سوائے خدائے رحمان جس کو اجازت دے اور جس کے لیے کوئی بات کہنے کو پسند کرے۔

یعنی شفاعت کی اجازت دینے یا نہ دینے کا سارا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ کسی کے حق میں اجازت نہ دے تو کس کی مجال ہوگی کہ وہ کچھ کہہ سکے۔

لِیُکَفِّرَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ اَسۡوَاَ الَّذِیۡ عَمِلُوۡا وَ یَجۡزِیَہُمۡ اَجۡرَہُمۡ بِاَحۡسَنِ الَّذِیۡ کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۳۵﴾
ترجمہ:
تاکہ انہوں (نیک لوگوں ) نے جو بدترین کام کئے تھے اللہ ان کا کفارہ کردے، اور جو بہترین کام کرتے رہے تھے ان کا ثواب انہیں عطا فرمائے
…………….
اقتباس
دراصل مسلمانوں کو ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے اور وہ غلط فہمی یہ ہے کہ:

اُن کے تمام گناہ عبادتوں سے دھُل سکتے ہیں، اُنہیں واعظ نے یہ یقین دلا دیا ہے کہ تم نماز پڑھو، روزہ رکھو، سال میں ایک مرتبہ حج یا عمرہ کرو اور صدقہ و خیرات مجھے دے دیا کرو اِس کے بعد اللہ تمہارے تمام گناہ معاف کر دے گا کیونکہ وہ غفور الرحیم ہے اور وہ اپنی مخلوق سے ستّر ماؤں سے بھی زیادہ محبت کرتا ہے۔

مسلمانوں کے دماغ میں یہ بات راسخ ہو چکی ہے کہ نماز چھوڑنا تو گناہ ہے البتہ ناپ تول میں کمی کرنا ایسا کوئی گناہ نہیں جس کی معافی نہیں ملے گی،

روزہ چھوڑنا تو گناہ ہے مگر افطاری کے وقت دھکم پیل کرنا، اندھا دھند گاڑی چلانا، ملکی قوانین کو پیروں تلے روندنا کوئی ایسا گناہ نہیں جس کی بخشش نہ ہوسکے اور

صاحب استطاعت ہو کر حج نہ کرنا تو گنا ہ ہے البتہ حاجی صاحب کے لئے کنڈا ڈال کر بجلی چوری کرنا یا اپنی مل کے مزدوروں کو وقت پر پوری تنخواہ نہ دینا ایسا کوئی گناہ نہیں جسے حج جیسی عبادت دھو نہیں سکتی۔

بدقسمتی سے ہمارے واعظ اس رویے کے ذمہ دار ہیں، اگر اُن سے پوچھیں کہ حضرت یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص نماز تو پڑھتا ہو مگر لوگوں کا حق بھی مارے اور بخشا جائے تو اِس براہ راست سوال کا جواب وہ یہی دیں گے کہ

نہیں وہ بخشا نہیں جائے گا مگر اپنے درس میں جب ہزاروں کا مجمع سنتا ہے، اُن کا اسٹائل کچھ اور ہوتا ہے،
اُس وقت اُن کا تمام تر زور عبادات پر ہوتا ہے اور وہ ایسی تمام روایات بتاتے ہیں جن کی رو سے رمضان کے تیس روزے ہر مسلمان کی بخشش کا سامان ہیں،

اُس وقت زور دے کر یہ نہیں بتاتے کہ یہ بخشش صرف اُن گناہوں کی ہوگی جو عبادات میں کوتاہی کی وجہ سے ہوئے نہ کہ اُن گناہوں کی جو اللہ کی مخلوق کے ساتھ کئے گئے۔ مسلمانوں کی یہ غلط فہمی جتنی جلد دور ہو جائے اچھا ہے اور یہ دور کرنے کی ذمہ داری ہمارے علما کی ہے۔
(اقتباس یاسر پیرزادہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔