Marriages of Prophet (pbuh) حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم نے متعدد نکاح کیوں فرمائے؟

*حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے متعدد نکاح کیوں فرمائے
 

Why Was the Prophet (pbuh)Polygamous? 》》

 1⃣ پیا رے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عالم شبا ب میں (25 سال کی عمر میں )ایک سن رسیدہ بیوہ خاتون حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی ۔ 
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر 40 سال تھی اور جب تک حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا زندہ رہیں آپ نے دوسری شادی نہیں کی۔  50 سال کی عمر تک آپ نے ایک بیوی پر قناعت کی ۔ (اگر کسی شخص میں نفسانی خواہشات کا غلبہ ہو تو وہ عالم ِ شباب کے 25 سال ایک بیوہ خاتون کے ساتھ گزارنے پر اکتفا نہیں کرتا ) حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفا ت کے بعد مختلف وجوہات کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکا ح کئے ۔ 
جو شادیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہیں سوائے ایک کے، باقی سب بیوگان تھیں ۔ 
 جنگ اُحد میں ستر صحابہ رضی اللہ عنہم شہید ہوئے ۔ نصف سے زیادہ گھرانے بے آسرا ہوگئے ، بیوگان اور یتیموں کا کوئی سہارا نہ رہا۔ 
اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بیوگان سے شادی کرنے کو کہا ، لو گو ں کو تر غیب دینے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا ، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا سے مختلف اوقات میں نکاح کیے ۔
 آپ کی دیکھا دیکھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بیوگان سے شادیاں کیں جس کی وجہ سے بے آسرا گھرانے آباد ہوگئے – 
 
2⃣ عربو ں میں دستور تھا کہ جو شخص ان کا داماد بن جاتا اس کے خلاف جنگ کرنا اپنی عزت کے خلاف سمجھتے۔  
ابوسفیان رضی اللہ عنہ اسلام لانے سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا شدید ترین مخالف تھا۔ مگر جب ان کی بیٹی ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح ہوا تو یہ دشمنی کم ہو گئی۔ 
ہوا یہ کہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا شروع میں مسلمان ہو کر اپنے مسلمان شوہر کے ساتھ حبشہ ہجر ت کر گئیں ، وہا ں ان کا خاوند نصرانی ہو گیا ۔
 حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے اس سے علیحدگی اختیار کی اور بہت مشکلا ت سے گھر پہنچیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دل جوئی فرمائی اور بادشاہ حبشہ کے ذریعے ان سے نکاح کیا.
 
3⃣ حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کا والد قبیلہ معطلق کا سردار تھا۔ یہ قبیلہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان رہتا تھا ۔
 حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قبیلہ سے جہاد کیا ، ان کا سردار مارا گیا ۔ حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا قید ہو کر ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مشورہ کر کے سر دار کی بیٹی کا نکاح حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دیا اور اس نکاح کی برکت سے اس قبیلہ کے سو گھرانے آزاد ہوئے اور سب مسلمان ہو گئے ۔
 
4⃣ خیبر کی لڑائی میں یہودی سردار کی بیٹی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا قید ہو کر ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مشورے سے ا ن کا نکاح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کرادیا ۔ 
اسی طر ح میمونہ رضی الله عنہ سے نکاح کی وجہ سے نجد کے علاقہ میں اسلام پھیلا ۔ ان شادیوں کا مقصد یہ بھی تھا کہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آسکیں ، اخلاقِ نبی کا مطالعہ کر سکیں تاکہ انہیں راہ ہدایت نصیب ہو ۔ 
 
5⃣ حضرت زینب بنت حجش سے نکاح مبتنی کی رسم توڑنے کے لیے کیا ۔ حضرت زید رضی الله عنہ حضور صلی الله علیہ وسلم کے متبنی کہلائے تھے، ان کا نکاح حضرت زینب بنت حجش سے ہوا ۔ 
منا سبت نہ ہونے پر حضرت زید رضی الله عنہ نے طلا ق دے دی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کر لیا اور ثابت کر دیا کہ متبنی ہرگز حقیقی بیٹے کے ذیل میں نہیں آتا.
علوم اسلامیہ کا سر چشمہ قرآنِ پاک اور حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کی سیرت پاک ہے۔
 آپ صلی الله علیہ وسلم کی سیرت پاک کا ہر ایک پہلو محفوظ کرنے کے لیے مردوں میں خاص کر اصحاب ِ صفہ رضی الله عنہ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ 
عورتوں میں اس کام کے لیے ایک جما عت کی ضرورت تھی۔ ایک صحابیہ سے کام کرنا مشکل تھا ۔ 
اس کام کی تکمیل کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی نکاح کیے ۔ آپ نے حکما ً ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کو ارشاد فرمایا تھا کہ ہر اس بات کو نوٹ کریں جو رات کے اندھیرے میں دیکھیں ۔ 
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جو بہت ذہین ، زیرک اور فہیم تھیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نسوانی احکام و مسائل کے متعلق آپ کو خاص طور پر تعلیم دی ۔ 
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا 45 سال تک زندہ رہیں اور 2210 احادیث آپ رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں ۔
 صحابہ کرام رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں کہ جب کسی مسئلے میں شک ہوتا ہے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس کا علم ہوتا ۔ اسی طرح حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایات کی تعداد 368 ہے ۔ ان حالا ت سے ظاہر ہوا کہ ازدواجِ مطہرات رضی اللہ عنہ کے گھر، عورتوں کی دینی درسگاہیں تھیں کیونکہ یہ تعلیم قیامت تک کے لیے تھی اور سار ی دنیا کے لیے  تھی اور ذرائع ابلاغ محدود تھے، اس لیے کتنا جانفشانی سے یہ کام کیا گیا ہو گا، اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ 
 ہدایت دینا تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ۔ اگر پڑھے لکھے مسلمان ان نکات کو یاد کر لیں اور کوئی بدبخت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر حملہ کرے تو ہم سب اس کا دفاع کریں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے اور عمل کرنے والا بنائے ۔ (آمین )
منقول

~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~