Rebuttal New Fitnah : رد فتنہ و تحریف : باطل نظریہ شہداء کی میت کی نمائش سے تبلیغ – قرآن و سنتت کے دلائل سے مسترد

باطل نظریہ مسترد : شہدائے اسلام کےچند تروتازہ اجسام کو زمین کے اوپر کافروں کو مطمئن کرنے کے لیے رکھنا قرآن و سنت کی روشنی میں دلائل کا رد :  

باطل بیانیہ : یہ ایک حقیقت ہے کہ شہدائے اسلام کے اجسام موت کا ذائقہ چکھنے کے بعدصدیوں سے خون سمیت تروتازہ حالت میں قبروں کے اندر صحیح و سالم اور تروتازہ حالت میں موجود ہیں ۔ یہ اجسام دنیا والوں کے لیے اللہ تعالیٰ کے وجود اور اسکی قدرت کو کافروں پر ثابت کرنے کے لیے ایک فطری، غیر جانبدار اور قابل مشاہدہ معجزہ یعنی اللہ کی قدرت پرواضح نشانی اور ثبوت ہے- اگر چند شہدائے اسلام کے اجسام زمین کے اوپر رکھ دیے جائیں اور دنیا بھر کے کافروں کو دعوت عام دے دی جائی تو وہ اس نشانی کو آنکھوں سے دیکھ کران شاء اللہ ضرور مطمئن ہوں گے اور جنہیں ہدایت کی تلاش ہے اجسام شہدا کے ذریعے انہیں ہدایت نصیب ہوگی۔ قرآن و سنت کی روشنی میں شہدائے اسلام کے اجسام زمین کے اوپر رکھنا بالکل جائز ہے۔اس کی دلیل میں چند باتیں :

[نوٹ : یہ تحریر اور دلائل و استدلال اس لنک سے حاصل کیا : http://www.rightfulreligion.com/ur608_fresh-dead-bodies-muslim-martyrs-earth]

استدلال اور تحقیق و تجزیہ :  ……  

http://rightfulreligion.blogspot.com

۱) حضرت عزیر علیہ السلام کی نعش مبارکہ….

۲) حضرت سلیمان علیہ السلام کی نعش مبارکہ …..


۳) زمین کھود کر نشانی نکالنے کی دعوت ….

۴) اللہ انسان کی ذات میں نشانیاں دکھائے گا….

۵) حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا جسم مبارک انتقال کے بعد ……


۶) حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی نعش زمین پر رکھنے کی خواہش….


ۧ۷) جوتے پہننے کی سنت کی خلاف ورزی

۸) لاشوں پر تبلیغ کا اجتہاد

تعارف Introduction

کوئی  نارمل مسلمان جس نے تاریخ انسانی اور قرآن و سنت کا عام سرسری سا مطالعہ بھی کیا ہوتو وہ شہداء کی میتوں کی بے حرمتی جیسی فضول بات کرنا تو دور کی بات ایسا سوچ بھی نہیں سکتا- ایسی تجویز یا عمل جو قرآن و سنت کے واضح احکامات کے  برخلاف ہو وہ بدعت ضلاله اور اسلام میں فتنہ و فساد ہے- باطل بیانیہ .(نیا فتنہ ) کے رد سے پہلے ضروری ہے کہ قرآن و سنت سے واضح کیا جائے کہ “میت کا احترام و تدفین” کوئی نا معلوم اجتہادی معاملہ نہیں بلکہ فرض ہے جو قرآن و سنت سے ثابت ہے ، اس میں مسلمانوں کو کو شک و شبہ نہیں مگر شیطان گمراہ کرنے کے لیے، آگے پیچھے ، اوپر اور نیچے سے وار کر تا ہے- مکمل دین میں وسوسے پیدا کرتا ہے :

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ

آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیےاسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے(قرآن 5:3)

دین کو مکمل کر دینے سے مُراد، اس کو ایک مستقل نظامِ فکر و عمل اور ایک ایسا مکمل نظامِ تہذیب و تمدّن بنا دینا ہے جس میں زندگی کے جُملہ مسائل کا جواب اُصُولاً یا تفصیلاً موجود ہو اور ہدایت و رہنمائی حاصل کرنے کے لیے کسی حال میں اس سے باہر جانے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ (تفہیم القرآن)

دینی اور دنیاوی معاملات اور رہنما اصول بھی قرآن و سنت سے واضح کر دیے گنے مگر کیونکہ اسلام تمام انسانیت کے لیے قیامت تک آخری دین ہے اس لیے حالات اورتبدیلی وقت کے ساتھ ساتھ نئی ضروریات کے لیے رہنمائی کے لیے اجتہاد کا طریقه تا قیامت موجود ہے- اجتہاد صرف ان معاملات میں کیا جاتا ہے جہاں قرآن و سنت سے کسی مسلہ پر ہدایت نہ ہوں، مثلا زندگی بچانے کے لیے “انتقال خون” Blood transfusion.  اجتہاد علماء کرتے ہیں اور جب علماء متفق ہوں تو اسے اجماع فقہی کھا جاتا ہے-

اگر کوئی نماز کے طریقه یا رکعت میں اپنی طرف سے کوئی تبدیلی کرنا چاہے اور تاویلیں کرے تو یہ اجتہاد نہیں تحریف اور ضلاله ہے ، گمراہی ہے- وفات پر مسلمان کو قبر میں دفن کرنے کا حکم قرآن ( 5:31، 80:21) اور سنت سے تواتر میں ثابت ہے اس میں دعوہ اور تبلیغ یکے نام پر تبدیلی قرآن و سنت کی خلاف درزی ہے اجتہاد نہیں- مرزا قادیانی نے “خاتم النبیین” کا مطلب خود نکالا ، کافر اور زندیق قرار پایا- قرآن و سنت سے انکار کفر اور گمراہی ہے، جس سے الله مسلمانوں کو محفوظ رکھے –

وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا فَأُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ (22:57)

اور جنہوں نے کفر کیا ہو گا اور ہماری آیات کو جھٹلایا ہوگا اُن کے لیے رسوا کن عذاب ہوگا-

ایک مثال:  دودھ سفید ہوتا ہے اور سنگ مر مر بھی سفید ہوتا  ہے ، لہٰذا یہ تاویل کرنا کہ سنگ مرمر کو دودھ کہہ سکتے ہیں، جہالت اور فاطرالعقل ہونے کی دلیل ہے-اس قسم کی تاویلات اسلام کی توہین ہے-

دعوہ و تبلیغ اسلام :

دعوه و تبلیغ ہر مسلمان کی ڈیوٹی ہے، کیونکہ اب کوئی نبی نہیں آنا ، ہدایت قرآن و سنت کی شکل میں موجود ہے –

معجزات کا طریقه ، تبلیغ کے لیئے اللہ نے ختم کر دیا :

وَمَا مَنَعَنَا أَن نُّرْسِلَ بِالْآيَاتِ إِلَّا أَن كَذَّبَ بِهَا الْأَوَّلُونَ ۚ وَآتَيْنَا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوا بِهَا ۚ وَمَا نُرْسِلُ بِالْآيَاتِ إِلَّا تَخْوِيفًا﴿٥٩

“اور ہم نے اس لیےمعجزات بھیجنے موقوف کر دیےکہ پہلوں نے انہیں جھٹلایا تھا اور ہم نے ثمود کو اونٹنی کا کھلا ہوا معجزہ دیا تھا پھر بھی انہوں نے اس پر ظلم کیا اور یہ معجزات تو ہم محض ڈرانے کے لیے بھیجتے ہیں “(17:59)

“ہم نے موسیٰ کو نو معجزے بالکل صاف صاف عطا فرمائے، تو خود ہی بنی اسرائیل سے پوچھ لے کہ جب وه ان کے پاس پہنچے تو فرعون بوﻻ کہ اے موسیٰ میرے خیال میں تو تجھ پر جادو کردیا گیا ہے”(17:101)

“اور ان لوگوں نے قسموں میں بڑا زور لگا کر اللہ تعالیٰ کی قسم کھائی کہ اگر ان کے پاس کوئی نشانی آ جائے تو وه ضرور ہی اس پر ایمان لے آئیں گے، آپ کہہ دیجئے کہ نشانیاں سب اللہ کے قبضے میں ہیں اور تم کو اس کی کیا خبر کہ وه نشانیاں جس وقت آجائیں گی یہ لوگ تب بھی ایمان نہ ﻻئیں گے”(6:109)

اللہ کی نشانیاں موجود ہیں ، جو اہل ایمان کے دل مظبوط کرتی ہیں اور جو اللہ کی تلاش میں سچے ہیں –

تبلیغ اسلام کا طریقه صدیوں سے رائج ہے ، تبدیلی صرف سائنسی ایجادات کے استعمال میں ہوئی – پہلے زبانی ،تقریری، تحریری پھر پریس ، ریڈیو ، ٹی وی اور اب انٹرنیٹ کا استعمال ہو رہا ہے- نشر و ابلاغ کے زریعے تبدیل ہوے- تبلیغ کی  بنیاد قرآن و سنت ہے -معجزات کا دور ختم ہوا ، عقل و فہم اور ڈائیلاگ کا طریقه قرآن نے مقرر کر دیا :

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ ۖ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ ﴿١٢٥﴾

اپنے رب کی راه کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلایئے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجئے، یقیناً آپ کا رب اپنی راه سے بہکنے والوں کو بھی بخوبی جانتا ہے اور وه راه یافتہ لوگوں سے بھی پورا واقف ہے (16:125)

وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّۃٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۱۰۴ [٣:١٠٤]
اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہئیے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اور اچھے کام کرنے کا حکم دے اور برے کاموں سے منع کرے یہی لوگ ہیں جو نجات پانے والے ہیں (اٰل عمران:۱۰۴)

مزید پڑہیں ….. … [Continue reading…]

اسلام میں میت اور قبروں کا احترام: 

انسان کو الله نے اشرف المخلوقات پیدا کیا ، انسان کی عزت و تکریم موت کے بعد ختم نہیں ہو جاتی- نعشوں اورلاشوں کے بارے میں مختلف مذاہب نے متعدد طریقوں سے احترام کی ہدایات دی ہیں، لیکن ان سب میں احترام کا سب سے بہترین  طریقہ وہ ہے جو اسلام نے اختیار کیاہے، جس میں نہ صرف انسانی میت کو بڑے احترام سے زمین میں دفنانے کا حکم دیاگیاہے بلکہ انسانی میت اور قبر کا بھی احترام لازم قرار دیا،حتی کہ قبرپر بیٹھنا بھی ممنوع ہے- البدائع میں فرمایا : لان النبش حرام، اس لئے کہ قبر اکھاڑنا حرام ہے اور یہ اللہ کا حق ہے۔

احادیث میں میت کی عزت و احترام اور تکلیف کی ممانعت:

حدیث پاک ’’لا تسبوا الأموات، فانہم قد افضوا الیٰ ما قدّموا‘‘سے یہ بھی معلوم ہوا ہے ،کہ جناب محمد رسول اﷲ ﷺ نے مردوں کو سب وشتم کرنے، لعن طعن اوربرا سلوک کرنے سے مسلمانوں کو منع فرمایا ہے، کیونکہ یہ لوگ اپنے رب کی بارگاہ میں پہنچ چکے ہیں،(صحیح بخاری،6516،بروایت حضرت عائشہ صدیقہؓ)،یاد رہے، اس حدیث کا تعلق توہین ِمعنوی سے ہے۔

’’نہیٰ رسول اﷲ عن المثلۃ‘‘،(صحاح ستہ)۔گویا آپ ﷺ نے نعش کو مسخ کرنے سے منع فرمایا۔

دشمن کی لاشوں کو بھی باعزت طریقے سے دفنانا لازمی ہے،غزوۂ بدر کی مثال اس باب میں پوری انسانیت کے لئے مشعلِ راہ ہے۔

ابوالرجال اورعمرہ بنت عبدالرحمن نے آپ ﷺ سے یہ روایت کی ہے:’’ لعن رسول اﷲﷺ المختفی والمختفیۃ،(یعنی نبّاش القبور)‘‘، کہ حضور ﷺ نے قبروں کواکھاڑنے والے مردوں اور عورتوں پر لعنت بھیجی ہے ،(التمہیدلما في الموطأ من المعانی والأسانید( موطأامام مالک)،ص:139-138)۔

آپ ﷺ نے فرمایا:’’لأن یجلس أحدکم الیٰ جمرۃ فتحرق ثیابہ،فتخلص الیٰ جلدہ،خیر من أن یجلس علیٰ قبرہ‘‘، (مسلم) ۔ یعنی آپ میں سے کوئی آگ کے انگارے پر بیٹھ جائے،جس سے اس کے کپڑے جل جائے،پھر اس کی کھال بھی جل جائے، یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ میت کی قبرپر بیٹھ جائے۔

آپ ﷺ نے ادباً و احتراماً قبور پر بیٹھنے سے سختی سے منع کیا ،ارشاد فرمایا:’’لا تجلسوا علیٰ القبور‘‘، قبروں پر نہ بیٹھا کریں،(مسلم)

قبروں پر مساجد یا قبے شبے بنانے میں بھی چونکہ اکھاڑ پچھاڑ اورقبور کو روندنے کا عمل ہوتاہے،اس لئے اسلام نے ان کوبھی ممنوع قراردیاہے۔

پوسٹ مارٹم

قرآن وسنت کی نصوص کے پیشِ نظراسلامی فقہ میں میت کے پوسٹ مارٹم کے متعلق بھی اسی احترام وتکریم کے پیشِ نظر دوآراء پیش کی گئی ہیں : اگر توہین ِمیت کا خطرہ ہویا خدا نہ خواستہ یہی مقصود ہو،تو جائز نہیں، اگرماہرین کی آراء کے مطابق طبی تعلیم کے لئے ہو ،یا وجۂ موت معلوم کرنی ہو ،اہانت کا پہلو نہ ہو، کیونکہ: ’’ ولقد کرّمنا بنی آدم․․‘‘ (سورۂ بنی اسرائیل70) یعنی بلا ریب ہم نے بنی آدم کو محترم ومکرم ٹہرایاہے-

نیزآپ ﷺ کا ارشاد ہے ،’’کسرعظم المیت ککسرہ حیّا‘‘،(مسلم)۔یعنی میت کی ہڈیوں کی توڑ تاڑ اسی طرح ممنوع ہے،جیسے زندہ انسان کی”- زندہ ومردہ ہر حال میں احترامِ آدمیت کو ملحوظ رکھاجائے، (احکام الغسل والتکفین والجنائز، شیخ خالد المصلح)۔

لاشوں کا مثلہ

جاہلیت کے زمانے میں لاشوں کا مثلہ اور مقتولین پر دل کی بھڑ اس نکالنا ایک عام عمل تھا، تاہم غزوۂ بدر کے موقع پر رسول کریم ﷺ نے مقتولین کی لاشوں کے احترام کے متعلق اسلامی اخلاق کانمونہ بہترین دکھایا اور مشرکین کے مقتولین کی لاشوں کی تدفین کا حکم دیا-

عتبہ بن عامر الجہنی رضی اﷲ عنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے پاس مشرکین کے مقتولین میں سے ایک شخص کا سر لے آئے ، اس پر حضرت ابوبکر صدیق ناراض ہوئے اور انھوں نے اپنے کمانڈ روں کو لکھا : ’’میرے پاس کوئی سرنہ لایاجائے ور نہ یہ حد سے تجاوز ہوگا، یعنی دل کی بھڑاس نکالنے میں ۔میرے لئے اﷲ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کافی ہے ۔‘‘

اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے محمد بن حسن الشیبانی فرماتے ہیں : ’’یہ مثلے کی ایک قسم ہے، کیونکہ سرلاش کا حصہ ہے ،جسے دفن کرنا واجب ہے ، نہ کہ اسے لوگوں کو دکھایا جائے ․․․ پس اﷲ تعالی کا تقوی ہمیں ایسے کام سے دور رکھے گا، جو دشمن کے ساتھ معاملہ بالمثل کے بجائے دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے ہو(السیر الکبیر،ص: 277)۔

اسلام میں میت کے حقوق :

میت کو غسل دینا،تکفین کرنا، نمازِ جنازہ میں شرکت کرنا،ایک معزز مہمان کو رخصت کرنے کی طرح لاش کے ساتھ احتراماً جنازہ گاہ اور قبرستان جانا،قبر کی تیاری میں کام کرنا، لاش کی نہایت ادب واعزاز کے ساتھ تدفین کرنا،اس کے لئے دعائیں کرنا،ایصالِ ثواب کرنا،وقتاً فوقتاً زیارت قبور کے لئے جانا، میت کی قبر اور اس کے اعضاء کا احترام کرنا۔لاش اور میت کے یہ دس حقوق قرآن وسنت سے بڑی تفصیل کے ساتھ ثابت ہیں ،جن کو یہاں اختصار کے ساتھ بیان کیا، تفصیل کے لئے احکام ِمیت، کتاب الجنائز ، حقوقِ میت اور فتاویٰ القبور کو دیکھا جاسکتا ہے۔

بین الاقوامی قانون انسانیت میں میت کا احترام

بین الاقوامی قانون انسانیت میں بھی احترامِ اموات کویوں اجاگر کیا گیاہے،’’ ان قانونی قواعد کا مجموعہ جو مسلح تصادم کے متاثرین کے حقوق متعین کرتاہے اور جنگی طاقت کے وسائل کے استعمال اور اس کے اثرات کو صرف فوجی ہدف تک محدود رکھنے کے لئے مقاتلین پر قیود عائد کرتاہے ۔ ‘‘ مسلح تصادم کے متاثرین میں بالعموم بری ، بحری یافضائی معرکوں میں قتل ،زخمی یا ڈوب جانے والے افراد(اوران کی میت ) ،نیز مریض اور قیدی کے علاوہ وہ لوگ شامل ہوتے ہیں جو مقبوضہ علاقوں میں محبوس ہوں یا وہاں وہ قانوناًتحفظ کے مستحق ہوں‘‘ (بین الاقوامی قانون انسانیت،از ڈاکٹر زمالی،ص:158)۔

حسنِ اتفاق سے اسلام اس قانون کی بنیادیں صدیوں پہلے ہی فراہم کرچکا ہے،اہلِ اسلام چونکہ اس کو اپنی مذہبی اقدار کا تسلسل سمجھتے ہیں،اس لئے وہ اس سے مکمل اتفاق کرتے ہیں ۔

1949ء کے جنیوا معاہدات نے مقتولین اور غرق ہونے والے لوگوں کی لاشوں کا احترام لازم کیاہے، نیز لاشوں یا ان کے اعضا ء کی بے حرمتی کو ناجائز ٹھہرایاہے ۔ اسی طرح ان معاہدات کی روسے ریاستوں کی ذمہ داری ہے ،کہ مقتولین کی شناخت اور ان کی تدفین کے متعلق تفصیلات متعین کرنے کے بعد متعلقہ ریاستوں تک اس کی معلومات پہنچائیں ۔

قرآن و سنت سے دلائل سے اس نظریہ کو رد کیا- 

تفصیلات اس لنک پر بھی پڑھیں  : http://SalaamOne.com/new-fitnah

تجزیہ :

قرآن و سنت اور تاریخ کے مطالعہ سے جو معلوم ہوتا ہے اس کا خلاصہ اس طرح ہے :

  1. الله اگر چاہتا تو تمام  تمام لوگوں کو راہ ہدایت پر لے آتا مگر اس کا پلان یہ نہیں کہ زبردستی ہدایت دے- ہدایت اس کو ملتی ہے جو خواہش رکھے اور کوشس کرے- مسلمانوں کا کام قرآن و سنت مے مطابق تبلیغ و دعوه کرنا ہے ، میتوں سے دعوه غیر اسلامی،  بدعت ضلالہ ہے جو برخلاف قرآن و سنت ہے، گمراہی ہے-
  2. بے تکی تاویلات سے اپنی خواہشات نفس کا مطلب نکالنا جو قرآن و سنت کے برخلاف ہو، تحریف قرآن و حدیث ہے جو گناہ کبیرہ ہے- یہ یہودیوں اور مشرکوں کا طریقہ ہے۔ فتنہ پسند لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ جو نظریہ انہوں نے گھڑ لیا ہے اس کو کسی طریقه سے قرآن و حدیث سے سند لے کر اسلام کے نام پر پیش کر سکیں-  کہیں سے کوئی ایک ایسی دلیل ڈھونڈھتے ہیں جو ان کے نقطۂ نظر کے قریب ہو، اگر نہ ملے تو زبردستی آیات اور احادیث سے سیاق و ثبات  سے ہٹ کر اپنی مرضی کا مطلب بنا لیتے ہیں اوراسی پر اڑ جاتے ہیں اگرچہ اس کے خلاف ہزار دلائل موجود ہوں لیکن وہ چونکہ ان کی شیطانی مراد کے خلاف ہوتے ہیں اس لئے انہیں قبول کرنے پر تیار نہیں ہوتے اور ان کے بارے میں طرح طرح کی الٹی سیدھی تاویلیں پیش کرنا شروع کر دیتے ہیں، جیسا کہ فتنہ پرور  مرزا قادیانی کر تا تھا- اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا کہ جہنم کا ایندھن بنانا ہے-
  3. کیا گارنٹی ہے کہ کہ کفار شہداء کی تروتازہ میتوں کو دیکھ کر ایمان لے آیئں؟
  4. اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان آپس میں مسلسل جنگیں کرتے رہے ہیں اور اب بھی کر رہے ہیں- مذہبی ، سیاسی اختلاف انسان کی فطرت میں ہے- مسیحی یورپ صدیوں سے آپس میں جنگو و جدل خون خرابہ کرتے رہے ہیں جن میں کروڑوں لوگ مارے گیے- اگر تمام انسان اسلام قبول کر لیں تو کیا دنیا میں امن قائم ہو جایئے گا؟
  5. کیا پہلی اقوام (نوح ،عاد ، ثمود ) معجزات کے بعد ایمان کے آیئں ؟
  6. حضرت موسی علیہ سلام نے نو معجزات دکھایے ، فرعون اور اس کی قوم ایمان کے آئی؟
  7. بنی اسرایئل دریا دو ٹکڑے ہوا راستہ بنا اور پھربھی تسلی نہ ہوئی توبہک کر خدا کو دیکھنے کا مطالبہ کر دیا (قرآن ٢:١٠٧)-
  8. فضول سوال کر رہے ہو جس طرح ان سے پہلے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم نے ان سے کہا تھا کہ ہمیں اعلانیہ خدا دکھا دو،  حالانکہ آیات ِ قرآنیہ کے نزول کے بعد دوسری نشانیوں کا مطالبہ کرنا سیدھے راہ سے بھٹکنا ہے۔(طبری، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ۱/۵۳۰، در منثور، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۸،  ۱/۲۶۰-۲۶۱، جلالین مع صاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ۱/۹۹-۱۰۰، ملتقطاً)
  9. پھر بنی اسرایئل بچھڑے  کی پوجا میں لگ گۓ اور عذاب کے مستحق ٹھرے-  
  10. حضرت عیسی علیہ سلام نے کتنے معجزات دکھائے ، مگر بنی اسرایئل نے ان کو مسترد کر دیا اوراپنی طرف سے تو مصلوب کر ہی دیا، الله نے ان کو اٹھا لیا-
  11. شق القمر کے بعد کیا اہل مکّہ مسلمان ہو گیے؟
  12. اسی لیے الله نے معجزات بطور دلیل و حجت بند کر دئیے، اور اسلامی تبلیغ اور دعوت کا طریقه واضح کر دیا- اگرچہ رسول اللہ (صلی الله علیہ وسلم) کےبہت سے  معجزات اسلامی رویات کی کتب میں موجود ہیں-
  13. حضرت سلیمان علیہ السلام،  حضرت عزیر علیہ السلام ،اصحاب کہف کے واقعات مخصوس تناظر میں پیش آیے ان کو سیاق و سباق سے ہٹا کر اپنے ،طلب کے خود ساختہ معانی نکالنا جو کسی نے نہ کیا اور قرآن و سنت کی تبلیغ و دعوه کی تعلیمات کے خلاف ، تحریف اور فضول تاویلات کے زمرہ میں اتے ہیں-
  14. شہداء کی حقیقت کا اصل علم صرف الله کو ہے کہ کس شخص کی جہاد میں کیا نیت تھی؟ ایسی  مثالیں ہیں کہ جس کو لوگ بہادر مجاہد سمجھ رہے ہوں وہ مال غنیمت، نام اور بہادری میں لڑ رہا ہو، جہاد فی سبیل اللہ ہوتا ہے- قبر کھود  کسی کے پردہ کو ظاہر کرنا اس کو اور عزیزوں کو اذیت دینا ہے، جو منع ہے احادیث کی رو سے اور اخلاقی طور بھی-
  15. اسلامی تاریخ کے چودہ سو سال میں کسی ایک ، کسی ایک صاحب علم نے کسی نبی ، صدیق ، صالحین یا شہداء کی میتوں کو قبرووں سے نکال  کر بطور حجت و دلیل ، دعوہ  اسلام کے لیے پیش کرنے کی جرات نہیں کی ، کیوں کہ ایسی قبیح حرکت نہ صرف انسانی تہزیب و تمدن، اقدار  کے خلاف ہے بلکہ الله کے قرآن میں واضح احکام اور سنت رسول اللہ (صلی الله علیہ وسلم) ، احادیث اور اصحابہ اکرام کے متواتر تسلسل سے عمل کے خلاف ہے- کوئی ذہنی طور پر مفلوج ، مریض ہی ایسی بات سوچ سکتا ہے-
  16. اسلام ایک برحق اور عقلی دلائل سے بھر پور دین ہے- قرآن الله کا کلام تا قیامت زندہ معجزہ ہے- جو ہر صاحب عقل کے لیے راہ  ہدایت ہے- سنت رسول اللہ (صلی الله علیہ وسلم)  ، صحابہ اکرام کے ذریعے ہمارے پاس احادیث کی شکل میں موجود ہے-   اللہ نے انسان کو عقل اور ہدایت مہیا کر دی اب ہر کوئی آزاد ہے ہدایت اختیار کرے یا گمراہی ، دین اسلام میں کوئی زبردستی نہیں-
  17. اجتہاد ان معاملات میں ہوتا جن کی سند قرآن و سنت میں نہ ہو- مسلم امہ میں اجماع اسلام کی حفاظت کا ایک طریقه ہے گمراہی سے بچنے کا-

………………………………………………………………..

قرآن و سنت :

اس سے قبل کہ مذکورہ  “بیانیہ یا نظریہ” کا تحقیقی تجزیہ اور  جائزہ لیا جائے جواس دعوی کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے کہ یہ قرآن و سنت کے مطابق ہے، مختصر طور پرجائزہ لیتے ہیں کہ در اصل قرآن و سنت سے ہدایت کا شرعی  مطلب کیا ہے؟

قرآن راہ ہدایت:

إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ (قرآن ١٧:٩)

حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راستہ دِکھاتا ہے جو سب سے زیادہ سیدھا ہے۔

قرآن کریم جو اللہ تبارک وتعالی کا عظیم ترین اورمقدس ترین کلام ہےاور رسول کریمﷺ کا حیرت انگیز ابدی ودائمی معجزہ ہے،جو ساری انسانیت کے لیے نسخہ ہدایت اوردستور حیات بنا کر نازل کیا گیا، جس سے مردہ دلوں کی مسیحائی ہوئی اورگم گشتہ راہ لوگوں کومنزلِ مقصود کا پتہ ملا، جس کی علمی ،ادبی حلاوتوں، روحانی راحتوں اور معانی و مفاہیم کے بے پناہ وسعتوں نے ہر زمانہ کے انسانوں کو متاثر کیا اورقلب و نظر کی دنیا میں انقلاب کا ذریعہ ہے، سب سے بڑا اعجاز اس کلام مبارک کا یہ بھی ہے کہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالی نے لی ہے جو اس دنیا میں ازل سے کسی اورکتاب یا صحیفہ آسمانی کو نصیب نہیں ہوا اور علوم و معارف کے اس گنجینۂ گراں مایہ کی حفاظت اورخدمت کے لیے انسانوں ہی میں سے مختلف علوم کے مختلف افراد کا انتخاب فرمایا؛ چنانچہ الفاظ قرآنی کے لیے حفاظِ کرام کوسعادت حفظِ قرآن بخشی اورمرادِ ربانی منشائے نبوی کی صحیح تعیین و تشریح کے لیے حضرات مفسرین کو منتخب کیا؛ چنانچہ مفسرین کرام نے اپنی خدادا دذہانت اورتمام تر صلاحیت کو اس کلام الہٰی کی غواصی میں لگادیا؛ لیکن آج کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ تمام تر موتیوں اورعلم وحکمت کے جواہر پاروں کو اکٹھا کیا جاسکا ،یہ کلام ایک بحر بیکراں ہے جس کی مختلف زبانوں میں علمائے امت نے اپنی صبح و شام کی محنتوں کا محور بنایا،آج انہی علماء کرام اورمفسرین عظام کی کوششوں اورکاشوں کا ثمرہ ہے کہ مختلف زبانوں میں قرآن کی تفسیر موجود ہے-

قرآن کی  تعلیم، تشریح و توضیح  

قرآن الله نے انسان کی ہدایت کے لیے  رسول الله ﷺ پر نازل فرمایا  تاکہ وہ  لوگوں کے سامنے اُس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جائیں اور وہ غور و فکر کر سکیں:

فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَىٰ ﴿١٢٣﴾ وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ ﴿١٢٤﴾

“… اب اگر میری طرف سے تمہیں کوئی ہدایت پہنچے تو جو کوئی میری اُس ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ بھٹکے گا نہ بد بختی میں مبتلا ہو گا- اور جو میرے “ذِکر”(درسِ نصیحت) سے منہ موڑے گا اُس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہو گی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اٹھائیں گے” (قرآن :20:123,124)

بِالْبَيِّنَاتِ وَالزُّبُرِ ۗ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ ﴿٤٤﴾ أَفَأَمِنَ الَّذِينَ مَكَرُوا السَّيِّئَاتِ أَن يَخْسِفَ اللَّـهُ بِهِمُ الْأَرْضَ أَوْ يَأْتِيَهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُونَ ﴿٤٥﴾

ترجمہ : “پچھلے رسولوں کو بھی ہم نے روشن نشانیاں اور کتابیں دے کر بھیجا تھا، اور اب یہ ذکر(قرآن) تم پر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اُس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جاؤ جو اُن کے لیے اتاری گئی ہے، اور تاکہ لوگ (خود بھی) غور و فکر کریں (قرآن ،16:44 النحل)

تفسیر قران:

قرآن کو سمجهنا هے تو تفاسیر کی ضرورت ہے، اپنی طرف سے قرآن کی آیات کے من گھڑت  مطلب نکلنا گناہ عظیم ہے:

“مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ”

جو شخص قرآن میں بغیر علم کے گفتگو کرے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔

“مَنْ قَالَ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِرَأْيِهِ فَأَصَابَ فَقَدْ أَخْطَأ”۔

جو شخص قرآن کے معاملے میں (محض) اپنی رائے سے گفتگو کرے اور اس میں کوئی صحیح بات بھی کہہ دے تب بھی اس نے غلطی کی۔ (ترمذی،باب ماجاء فی یفسر القرآن ،حدیث نمبر:۲۸۷۴)

قرآن کریم کی تفسیر کرنے کے لیے علم تفسیر کا جاننا ضروری ہے،کسی بھی آیت کی تفسیر اپنی رائے سے کرنے والا غلطی پر ہے،خود بھی گمراہ ہوگا اور دوسروں کو بھی گمراہ کرے گا،قرآن کریم کی تفسیرسمجھنے کے لیے مستند تفاسیر کا مطالعہ کرنا چاہیے اور علماء سے استفادہ کرنا چاہیے-

قرآن کریم کی تفسیرکے مروجہ اصول :

(1) تفسیر القرآن بالقرآن: قرآن کریم کی کسی آیت یا لفظ کی تشریح قرآن ہی کی کسی دوسری آیت یا لفظ سے کی جائے-

(2) تفسیر القرآن بالاحادیث النبویہ صلی اللہ علیہ وسلم: قرآن مجید کے کسی آیت کی وضاحت آنحضرت ﷺ کے کسی قول یا فعل سے کی جائے-

(3) تفسیر القرآن باقوال الصحابۃ رضی اللہ عنہم اجمعین: قرآن پاک کے کسی آیت کی تشریح حضرات صحابہ کرام میں سے کسی صحابی کے قول سے کی جائے،تفسیری شرائط کے ساتھ-

(4) تفسیر القرآن باقوال التابعین رحمہم الل: قرآن مجید کے کسی آیت کی وضاحت حضرات تابعین میں سے کسی تابعی کے قول سے کی جائے،تفسیری شرائط کے ساتھ-

(5) تفسیر القرآن بلغۃ العرب: قرآن مجید کے کسی آیت یا کسی لفظ کی تشریح اہل عرب کے اشعار اور عربی محاورات کے مطابق کی جائے،تفسیری شرائط کے ساتھ –

(6) تفسیرالقرآن بعقل السلیم: قرآن مجید کی تشریح وتوضیح اپنی صحیح سمجھ بوجھ اور منشائے خدا وندی کو ملحوظ رکھ کرعلوم اسلامیہ کی روشنی میں،حالات وواقعات،مواقع ومسائل پر اس کا صحیح انطباق کرنا اور اس کے اسرار ورموز کو کھولنا اور بیان کرنا تفسیرالقرآن بعقل سلیم کہلاتا ہے-

تفسیر القرآن بعقل سلیم : عقل سلیم کی اہمیت وضرورت سے کسی کو انکار نہیں ،دنیا کے ہر کام میں اسکی اہمیت ہوتی ہے اور پچھلے مآخذ سے فائدہ اٹھانا بغیر عقل سلیم کے معتبر نہیں- اہل علم نے اس معاملہ میں یہ اصول ضرور بتلایا ہے کہ عقل سلیم کے ذریعہ مستنبط ہونے والے وہی مسائل اور معارف معتبر ہوں گے جو سابق مآخذ سے متصادم نہ ہوں، یعنی ان سے نہ ٹکراتے ہوں، اصول شرعیہ کے خلاف کوئی نکتہ آفرینی کی جائے تو اسکی کوئی قدر وقیمت نہ ہوگی۔

تفسیر بالرائے:

“مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ”۔ جو شخص قرآن میں بغیر علم کے گفتگو کرے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔ “مَنْ قَالَ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِرَأْيِهِ فَأَصَابَ فَقَدْ أَخْطَأ”۔ جو شخص قرآن کے معاملے میں (محض) اپنی رائے سے گفتگو کرے اور اس میں کوئی صحیح بات بھی کہہ دے تب بھی اس نے غلطی کی۔ [ ترمذی،باب ماجاء فی یفسر القرآن ،حدیث نمبر:2874۔ ابو داؤد،الکلام فی کتاب اللہ بغیر علم،حدیث نمبر:3167]

جو شخص قرآن کریم کے معاملے میں علم کے بغیر کوئی بات کہے تو اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔ البتہ تفسیر کے اصولوں اور اسلام کے اجماعی طور پر طے شدہ ضوابط کی پابندی کرتے ہوئے اگر تفسیر میں کسی ایسی رائے کا اظہار کیا جائے جو قرآن وسنت کے خلاف نہ ہو تو وہ حدیث کی وعید میں داخل نہیں ہے؛ البتہ اس قسم کا اظہار رائے بھی قرآن وسنت کے وسیع وعمیق علم اور اسلامی علوم میں مہارت کے بغیر ممکن نہیں اور علماء نے اس کے لیے بھی کچھ کار آمد اصول مقرر فرمائے ہیں جو اصول فقہ اور اصول تفسیر میں تفصیل سے بیان ہوئے ہیں اور ان کا ایک نہایت مفید خلاصہ علامہ بدرالدین زرکشی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب “البرہان فی علوم القرآن کی نوع ۴۱ میں بالخصوص اقسام التفسیر کے زیر عنوان (صفحہ:۱۶۴۔۱۷۰)بیان فرمایا ہے-

اصول تفسیر کو نظر انداز کرنا:

اصول تفسیر کو نظر انداز کرنا کی بہت سی صورتیں ہوسکتی ہیں مثلاً:

۱۔جو شخص تفسیر قرآن کے بارے میں گفتگو کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا وہ محض اپنی رائے کے بل بوتے پر تفسیر شروع کردے۔

۲۔کسی آیت کی کوئی تفسیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ وتابعین سے ثابت ہو اور وہ اسے نظر انداز کرکے محض اپنی عقل سے کوئی معنی بیان کرنے لگے۔

۳۔ جن آیات میں صحابہ کرام وتابعین سے کوئی صر یح تفسیر منقول نہیں ان میں لغت اور زبان وادب کے اصولوں کو پامال کرکے کوئی تشریح بیان کرے۔

۴۔ قرآن وسنت سے براہ راست احکام وقوانین مستنبط کرنے کے لیے اجتہاد کی اہلیت نہ رکھتا ہو اور پھر بھی اجتہاد شروع کردے-

۵۔ قرآن کریم کے متشابہ آیات (جن کے بارے میں قرآن نے خود کہے دیا ہے کہ ان کی سو فیصد صحیح مراد سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا) ان کی جزم ووثوق کے ساتھ کوئی تفسیر بیان کرے اور اس پر مصر ہو ۔

۶۔قرآن کریم کی ایسی تفسیر بیان کرے جس سے اسلام کے دوسرے اجماعی طور پر مسلم اور طے شدہ عقائد یا احکام مجروح ہوتے ہوں-[میت کو دفن نہ کرنے کی ترغیب دینا ، میت کو دفن کرنے کے قران و سنت کے واضح احکام کے برخلاف ہے ]

۷۔ تفسیر کے معاملہ میں جہاں عقل وفکر کا استعمال جائز ہے وہاں کسی قطعی دلیل کے بغیر اپنی ذاتی رائے کو یقینی طور پر درست اور دوسرے مجتہدین کی آراء کو یقینی طور سے باطل قرار دے۔

یہ تمام صورتیں اس تفسیر بالرائے کی ہیں جن سے مذکورہ بالا حدیث میں منع کیا گیا ہے؛ چنانچہ ایک دوسری حدیث میں ان تمام صورتوں کو اس مختصر جملے میں سمیٹ دیا گیا ہے : من قال فی القرآن بغیر علم فلیتبوأ مقعدہ من لنار (ترمذی،باب ماجاء یفسر القرآن،حدیث نمبر:۲۸۷۴)

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ سَعِيدِ ابْنِ أَبِي أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي أَبُو هَانِئٍ، حُمَيْدُ بْنُ هَانِئٍ الْخَوْلانِيُّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ أُفْتِيَ بِفُتْيَا غَيْرَ ثَبَتٍ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى مَنْ أَفْتَاهُ >۔

تخريج: د/العلم ۸ (۳۶۵۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۶۱۱)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۲۱، ۳۶۵)، دي/ المقدمۃ ۲۰ (۱۶۱) (حسن)

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جسے (بغیرتحقیق کے) کوئی غلط فتویٰ دیا گیا (اور اس نے اس پر عمل کیا) تو اس کا گناہ فتویٰ دینے والے پر ہوگا” ۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الرِّجَالِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرٍو الأَوْزَاعِيِّ، عَنْ عَبْدَةَ بْنِ أَبِي لُبَابَة، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < لَمْ يَزَلْ أَمْرُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مُعْتَدِلا حَتَّى نَشَأَ فِيهِمُ الْمُوَلَّدُونَ، أَبْنَائُ سَبَايَا الأُمَمِ، فَقَالُوا بِالرَّأْيِ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا >۔

تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۸۸۲)، (مصباح الزجاجۃ: ۲۱) (ضعیف)

(سند میں سوید بن سعید ضعیف اور مدلس ہیں،اور کثرت سے تدلیس کرتے ہیں، ابن ابی الرجال کے بارے میں بوصیری نے کہا ہے کہ وہ حارثہ بن محمد عبد الرحمن ہیں، اور وہ ضعیف راوی ہیں، لیکن صحیح یہ ہے کہ وہ عبد الرحمن بن ابی الرجال محمد بن عبدالرحمن بن عبد اللہ بن حارثہ بن النعمان الانصاری المدنی ہیں، جو صدوق ہیں لیکن کبھی خطا ٔ کا بھی صدور ہوا ہے، ابن حجر فرماتے ہیں: ”صدوق ربما أخطأ”، نیز ملاحظہ ہو ”مصباح الزجاجۃ” بتحقیق د؍عوض الشہری : ۱/ ۱۱۷- ۱۱۸ )

باطل آراء اور فاسد قیاس کو معیار کتاب و سنت ٹھہرنا :

عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ”بنی اسرائیل کا معاملہ ہمیشہ ٹھیک ٹھاک رہا یہاں تک کہ ان میں وہ لوگ پیدا ہوگئے جو جنگ میں حاصل شدہ عورتوں کی اولاد تھے، انہوں نے رائے (قیاس) سے فتوی دینا شروع کیا، تووہ خود بھی گمراہ ہوئے ،اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا'(سنن ابن ماجہ ، کتاب: مقدمہ، 8- بَابُ: اجْتِنَابِ الرَّأْيِ وَالْقِيَاسِ، حدیث نمبر: 56)

یعنی بنی اسرائیل میں ساری برائی رائے کے پھیلنے سے اور وحی سے اعراض کرنے سے ہوئی، اور ہر امت کی بربادی اسی طرح ہوتی ہے کہ جب وہ اپنی رائے کو وحی الٰہی پر مقدم کرتے ہیں تو برباد ہو جاتے ہیں، اس امت میں بھی جب سے کتاب و سنت سے اعراض پیدا ہوا، اور لوگوں نے باطل آراء اور فاسد قیاس سے فتوی دینا شروع کیا، اور پچھلوں نے ان کی آراء اور قیاس کو وحی الٰہی اور ارشاد رسالت پر ترجیح دی، جب ہی سے ایک صورت انتشار اور پھوٹ کی پیدا ہوئی اور مختلف مذاہب وجود میں آ گئے، اور امت میں اتحاد و اتفاق کم ہوتا گیا، اور ہر ایک نے کتاب و سنت سے اعراض کر کے کسی ایک کو اپنا امام و پیشوا مقرر کر کے اسی کو معیار کتاب و سنت ٹھہرایا، جب کہ اصل یہ ہے کہ ہر طرح کے مسائل میں مرجع اور مآخذ کتاب و سنت اور سلف صالحین کا فہم و منہج ہے، اور اس کی طرف رجوع ہونے میں امت کے اتحاد کی ضمانت ہے، اس لئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ” «تركت فيكم أمرين لن تضلّوا ما إن تمسكتم بهما كتاب الله وسنتي» ” میں تمہارے درمیان دو چیزیں یعنی کتاب و سنت چھوڑے جا رہا ہوں جب تک تم انہیں (عملاً) پکڑے رہو گے کبھی بھی گمراہ نہیں ہو گے “۔

اس تجزیہ میں کوشش کی ہے کے محض ذاتی راۓ کی بجاۓ ، مستند علماء کی تفاسیر قرآن و  ترجمہ اور احادیث، ریفرنس (آخر میں) کے ساتھ  پیش کی جائیں تاکہ آپ خود با آسانی حق اور باطل میں تفریق کر سکیں- آپ  کمنٹس آخر میں فیس بک پوسٹ پر کر سکتے ہیں-

باطل بیانیہ , نیا فتنہ کا رد Rebuttal to the New Fitnah

۱) حضرت عزیر علیہ السلام کی نعش مبارکہ

ترجمہ ۔سورہ البقرہ 2،آیت259: یا اسی طرح اس شخص کو (نہیں دیکھا) جو ایک بستی پر سے گزرا جو اپنی چھتوں پر گری پڑی تھی تو اس نے کہا کہ اللہ اس کی موت کے بعد اسے کیسے زندہ فرمائے گا، سو (اپنی قدرت کا مشاہدہ کرانے کے لئے) اللہ نے اسے سو برس تک مردہ رکھا پھر اسے زندہ کیا، (بعد ازاں) پوچھا: تو یہاں (مرنے کے بعد) کتنی دیر ٹھہرا رہا (ہے)؟ اس نے کہا: میں ایک دن یا ایک دن کا (بھی) کچھ حصہ ٹھہرا ہوں، فرمایا: (نہیں) بلکہ توسو برس پڑا رہا (ہے) پس (اب) تو اپنے کھانے اور پینے (کی چیزوں) کو دیکھ (وہ) متغیّر (باسی) بھی نہیں ہوئیں اور (اب) اپنے گدھے کی طرف نظر کر (جس کی ہڈیاں بھی سلامت نہیں رہیں) اور یہ اس لئے کہ ہم تجھے لوگوں کے لئے (اپنی قدرت کی) نشانی بنا دیں اور (اب ان) ہڈیوں کی طرف دیکھ ہم انہیں کیسے جْنبش دیتے (اور اٹھاتے) ہیں پھر انہیں گوشت (کا لباس) پہناتے ہیں، جب یہ (معاملہ) اس پر خوب آشکار ہو گیا تو بول اٹھا: میں (مشاہداتی یقین سے) جان گیا ہوں کہ بیشک اللہ ہر چیز پر خوب قادر ہے ۔

استدلال:

اللہ تعالیٰ نے حضرت عزیر علیہ السلام کی نعش کو سوسال تک زمین پر رکھا۔ ہوسکتا ہے کہ اس وقت کے مسلمانوں نے بھی ان کی نعش کو دیکھا ہو اور غیر مسلموں نے بھی دیکھا ہو۔ بہرحال اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کو دکھانے کے لیے تروتازہ لاش کو زمین پر رکھنا جائز ہے۔ کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ سو سال تک حضرت عزیر علیہ السلام کی نعش زمین پر رکھی رہی اور کسی مسلم و غیر مسلم نے اسے نہیں دیکھا۔ اور اگر کسی نے دیکھا تو پھر ہمارا مدعا ثابت ہے کہ غیر مسلموں کو تروتازہ لاش دکھانا جائز ہے۔

رد استدلال :

  1. ١.اگر استدلال میں سرخ رنگ کے الفاظ پر غور کریں تو اس استدلال کی حقیقت کا پول کھل جاتا ہے- یہ استدلال دس (١٠) مفروضات پر قائم ہے-
  2. ہوسکتا ہے کہ….. دیکھا ہو …  دیکھا ہو۔….. ثابت ہوتا ہے…… تروتازہ لاش کو زمین پر رکھنا جائز ہے۔ …..  یہ ممکن ہی نہیں ہے …… نعش زمین پر رکھی رہی ……نہیں دیکھا۔ ..اگر ……ثابت ہے کہ اگر کوئی ان کے الٹ مفروضے قائم کرے تو کس دلیل پر اس کو رد کریں گے؟ ہر شخص اپنی سوچ کے مطابق مفروضے گھڑھ سکتا ہے- من گھڑت مفروضوں پر دین میں نئی نئی بدعات ضلاله قائم کرنا قبیح فعل ہے- میت کس حالت میں ١٠٠ سال پڑی رہی اس کا کوئی ذکر نہیں- جب اپ کو زندہ کیا گیا تو گدھے کی ہڈیاں تھیں جن پر گوشت چڑھا کر بتدریج دکھایا گیا ، کھانے پینے کی اشیاء موجود تھیں- ممکن ہے کہ میت بھی ہڈیوں کی صورت میں ہو یا لاش کی صورت میں (واللہ اعلم). جس بات کا جتنا تذکرہ ہے اس کے آگے مفروضات قائم کرنا اور ان مفروضات کی بنیاد پر  قرآن و سنت کے احکام (میت کی تدفین ) کے خلاف بدعات ضلاله قائم کرنا بہت بڑا ظلم اور فتنہ ہے ..مزید  فتوی تو کوئی مفتی ہی لگا سکتا ہے- 
  3. اس آیت (٢:٢٥٩) میں موت کے بعد زندگی عطا کرنے کی الله کی طاقت کا ثبوت دیا گیا صرف ایک بندہ (مفسرین کے مطابق، حضرت عزیر  علیہ  السلام ) کو، ” اسی طرح اس شخص کو (نہیں دیکھا) جو ایک بستی پر سے گزرا جو اپنی چھتوں پر گری پڑی تھی تو اس نے کہا کہ اللہ اس کی موت کے بعد اسے کیسے زندہ فرمائے گا، “…… . “جب یہ (معاملہ) اس پر خوب آشکار ہو گیا تو بول اٹھا: میں (مشاہداتی یقین سے) جان گیا ہوں کہ بیشک اللہ ہر چیز پر خوب قادر ہے “۔ اس آیت میں کہیں بھی کسی دوسرے انسان کا ذکر نہیں، نہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ میت کی نمائش ہوئی تاکہ لوگ ایمان لے آیئں-  دوبارہ آیت کے ترجمہ  کو پڑھیں، واضح ہو جاتا ہے- بلا جواز خیالی مفروضات کومسترد کریں کہ لوگوں نے دیکھا ہو گا-  جب آیات خود بتا رہی ہے کہ یہ واقعہ  صرف ایک شخص  (حضرت عزیر  علیہ  السلام ) کے متعلق ہے-
  4. تفسیر کنزالایمان میں واضح طور پر لکھا ہے کہ:”… اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عُزیر علیہ السلام کو دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ رکھا اور کوئی آپ کو نہ دیکھ سکا جب آپ کی وفات کو سو برس گزر گئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو زندہ کیا …… آپ نے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا مشاہدہ کیا اور فرمایا میں خوب جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہر شئے پر قادر ہے” [اقتباس- تفسیر کنزالایمان -مترجم مولانا احمد رضاخان بریلوی صاحب مفسر علامہ نعیم الدین مراد آبادی صاحب]. اللہ نے ان کی میت کی نمائش نہ فرمائی، یہ مزید واضح کرتا ہے کہ میت کی نمائش ممنوع ہے- اگلی آیت سے بھی واضح ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ  السلام کے دل می بھی مردوں کو زندہ کرنے پر سوال اٹھا اور جواب ملا صرف ان کو-
  5. ترجمہ(قرآن ٢:٢٦٠): “اور وہ واقعہ بھی پیش نظر رہے، جب ابراہیمؑ نے کہا تھا کہ: “میرے مالک، مجھے دکھا دے، تو مُردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے” فرمایا: “کیا تو ایمان نہیں رکھتا؟” اُس نے عرض کیا “ایمان تو رکھتا ہوں، مگر دل کا اطمینان درکار ہے” فرمایا: “اچھا تو چار پرندے لے اور ان کو اپنے سے مانوس کر لے پھر ان کا ایک ایک جز ایک ایک پہاڑ پر رکھ دے پھر ان کو پکار، وہ تیرے پاس دوڑے چلے آئیں گے خوب جان لے کہ اللہ نہایت با اقتدار اور حکیم ہے” (قرآن ٢:٢٦٠) 
  6. إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَىٰ مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ ۙ أُولَٰئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ (٢:١٥٩قرآن ) ترجمہ : “بیشک وہ جو ہماری اتاری ہوئی روشن باتوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں بعد اس کے کہ لوگوں کے لئے ہم اسے کتاب میں واضح فرماچکے ہیں ان پر اللہ کی لعنت ہے اور لعنت کرنے والوں کی لعنت “(٢:١٥٩قرآن )
  7. بائبل کے مطابق مصر سےخروج  پر: “موسیٰ، یوسف کی ہڈیوں کو اپنے ساتھ لے گیا۔ مرنے سے پہلے یوسف نے اسرائیل کی اولاد سے یہ کر نے کا وعدہ کر لیا تھا۔ یوسف نے کہا، “جب خدا تم لوگو ں کو بچا ئے میری ہڈیوں کو مصر کے باہر اپنے ساتھ لے جانا یاد رکھنا۔”(خروج:13:19 )
  8. اصحاب کہف کی نیند کا واقعہ بھی قرآن میں ہے، ان کو نیند کی حالت میں لوگوں سے پوشیدہ غار میں رکھا گیا- جب جاگے تو لوگوں کو علم ہوا-
  9. ایک  استثنیٰ فرعون کے لیے، جو کافر اور الله کا نافرمان تھا ، اس کی لاش کو بطور عبرت محفوظ کرنے کا ذکر ہے:  فَالْيَوْمَ نُنَجِّيْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰيَۃً ٬ وَاِنَّ کَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰٰيتِنَا لَغٰفِلُوْنَ.( قرآن، سوره یونس – 10:92).. ترجمہ : ’’پس آج ہم تيرے جسم کو بچائيں گے تاکہ تو اپنے بعد والوں کے ليے نشانی بنے اور بے شک ٬ بہت سے لوگ ہماری نشانيوں سے غافل ہی رہتے ہيں۔‘‘(سوره یونس 10:92)… اس آيات ميں الله تعالیٰ نے ايک پيشين گوئی فرمائی ہے کہ ہم فرعون کی لاش کو محفوظ رکهيں گے تاکہ بعد ميں آنے والے لوگوں کے ليے وه باعث عبرت ہو۔ اپنے آپ کو خدا کہلوانے والے کی لاش کو ديکھ  کر آنے والی نسليں سبق حاصل کريں۔ چنانچہ الله کا فرمان سچ ثابت ہوا اوراس کا ممی شده جسم 1898 ء ميں دريائے نيل کے قريب تبسيہ کے مقام پر شاہوں کی وادی سے دريافت ہوا، جہاں سے اس کو قاہره منتقل کر ديا گيا۔ اس پرتحقیق سے فرانس کے ڈاکڻر مورس بکائی اسلام کی حقانيت کے قائل ہو گئے۔ اور مشہور کتاب “قرآن ٬ سائينس اور بائيبل” لکهی۔ فرعون کی لاش کو ہم غير مسلمانوں کے سامنے رکھ کر کہ سکتے ہيں کہ قرآن سچ ہے، کيونکہ قرآن دليل ہے۔ کسی مسلمان يا شہيد کی ميت کو قبر سے نکال کر بطور ثبوت پيش کرنے کی کوئی شرعی دليل نہيں بلکہ ميت کی بے حرمتی ہے جس کی کوئی ذی عقل شخص اجازت نہيں دے سکتا۔

۲) حضرت سلیمان علیہ السلام کی نعش مبارکہ

ترجمہ ۔سورہ سبا34،آیت14: پھر جب ہم نے سلیمان (علیہ السلام) پر موت کا حکم صادر فرما دیا تو اْن (جنّات) کو ان کی موت پر کسی نے آگاہی نہ کی سوائے زمین کی دیمک کے جو اْن کے عصا کو کھاتی رہی، پھر جب آپ کا جسم زمین پر آگیا تو جنّات پر ظاہر ہوگیا کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو اس ذلّت انگیز عذاب میں نہ پڑے رہتے۔

استدلال:

  1. اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی نعش زمین پر کچھ عرصہ کے لیے موجود رہی جو کہ سڑنے گلنے سے محفوظ رہی۔
  2. لیکن قرآن کریم کی کسی بھی آیت میں یا حضور نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں کوئی ایسا ثبوت نہیں ملتا جس سے ثابت ہوتا کہ اس لاش کے زمین پر رہنے پر تنقید کی گئی یا منع کیا گیا ۔
  3. اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمان کی تروتازہ لاش کا زمین پر کسی خاص مقصد کے لیے رکھنا جائز ہے۔ لہذا ہمارے لیے بھی زمین پر چند شہدائے اسلام کی تروتازہ لاشوں کو رکھنا جائز ہے تاکہ غیر مسلموں کو دکھاکر دین اسلام کی سچائی کے بارے میں مطمئن کرسکیں۔

رد استدلال :

  1. مذکورہ آیت مبارکہ میں واضح ہے کہ : “ان (جنّات) کو ان کی موت پر کسی نے آگاہی نہ کی سوائے زمین کی دیمک کے..”..… یعنی کسی کو معلوم نہ تھا کہ حضرت سلیمان  علیہ السلام وفات پا چکے ہیں- یعنی یہ حجت یا دلیل نہیں بنتی نہ ہی ان کی میت بطور نمائش لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی دلیل بنتی ہے- کسی کو معلوم نہیں تھا بشمول جنات کہ آپ کی وفات کب ہوئی- یہ تو اللہ تعالی قرآن میں ہمیں بتلا رہے ہیں- جب دیمک نے ان کے عصا کو کھا لیا: “… پھر جب آپ کا جسم زمین پر  آگیا تو جنّات پر ظاہر ہوگیا کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو اس ذلّت انگیز عذاب میں نہ پڑے رہتے۔”… اصل بات جو ہمارے اور جنات کے علم  میں لائی جا رہی ہے کہ جنات کو غیب کا علم نہیں – اپنی طرف سے تبصرہ کی بجایے  مشہور علماء کی تفاسسر کو دیکھا کہ شاید کہیں سے میتوں کی نمائش کی سند مل جایئے مگر نہیں، کچھ تفاسیر سے اقتباسات پیش ہیں تاکہ آپ خود حقیقت سے آگاہی حاصل کریں اور گمراہی سے بچیں- اگر کسی مشہور عالم  تفسیر میں موجد فتنہ کے موقف کے حق میں کوئی دلیل ملے تو ضرورکمنٹس سے آگاہ کریں (فیس بک پوسٹ آخر میں امبیڈ embeded ہے-
  2. تفسیرتذکیرالقرآن: حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی موت کا وقت آیا تو وہ اپنا عصا ٹیکے ہوئے تھے اور جنوں سے کوئی تعمیری کام کرا رہے تھے۔ موت کے فرشتے نے آپ کی روح قبض کرلی۔ مگر آپ کا بے جان جسم عصا کے سہارے بدستور قائم رہا۔ جنات یہ سمجھ کر اپنے کام میں لگے رہے کہ آپ ان کے قریب موجود ہیں اور نگرانی کررہے ہیں۔ اس کے بعد عصا میں دیمک لگ گئی۔ ایک عرصہ کے بعد دیمک نے عصا کو کھوکھلا کردیا تو آپ کا جسم زمین پر گر پڑا۔ اس وقت جنوں کو معلوم ہوا کہ آپ وفات پا چکے ہیں۔ یہ واقعہ اس صورت میں غالباً اس لیے پیش آیا تاکہ لوگوں کے اس غلط عقیدہ کی عملی تردید ہوجائے کہ جنات غیب کا علم رکھتے ہیں۔ [تفسیرتذکیرالقرآن – مولانا وحید الدین خان]
  3. تفسیر کنزالایمان: حضرت سلیمان علیہ السلام نے بارگاہ الٰہی میں دعا کی تھی کہ ان کی وفات کا حال جِنّات پر ظاہر نہ ہو “تا کہ انسانوں کو معلوم ہو جائے کہ جن غیب نہیں جانتے” پھر آپ محراب میں داخل ہوئے اور حسب عادت نماز کے لئے اپنے عصا پر تکیہ لگا کر کھڑے ہو گئے ، جِنّات حسب دستور اپنی خدمتوں میں مشغول رہے اور یہ سمجھتے رہے کہ حضرت زندہ ہیں اور حضرت سلیمان علیہ السلام کا عرصہ دراز تک اسی حال پر رہنا ان کے لئے کچھ حیرت کا باعث نہیں ہوا کیونکہ وہ بارہا دیکھتے تھے کہ آپ ایک ماہ ، دو ٢ دو ٢ ماہ اور اس سے زیادہ عرصہ تک عبادت میں مشغول رہتے ہیں اور آپ کی نماز بہت دراز ہوتی ہے حتّٰی کہ آپ کی وفات کے پورے ایک سال بعد تک جِنّات آپ کی وفات پر مطلع نہ ہوئے اور اپنی خدمتوں میں مشغول رہے یہاں تک کہ بحکم الٰہی دیمک نے آپ کا عصا کھا لیا اور آپ کا جسم مبارک جو لاٹھی کے سہارے سے قائم تھا زمین پر آیا ، اس وقت جِنّات کو آپ کی وفات کا علم ہوا ۔[تفسیر کنزالایمان -مترجم مولانا احمد رضاخان بریلوی صاحب مفسر علامہ نعیم الدین مراد آبادی صاحب]
  4. تفسیر ضیاء القرآن: جنات غیب دانی کا دعویٰ کیا کرتے تھے اور اس وجہ سے وہ انسانوں پر اپنا رعب بٹھاتے اور انہیں طرح طرح کی ایسی باتیں بتاتے جن کا تعلق امور غیبیہ سے ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کی غیرت نے ان کا بھانڈا چوراہے میں پھوڑ دیا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کو ا س وقت موت سے ہمکنار کیا جب وہ عصا پر ٹیک لگائے مصروف عبادت تھے آپ کی روح پرواز کر گئی۔ لیکن آپ کا جسم مبارک عصا کے سہارے جوں کا توں کھڑا رہا۔ جنات جو آپ کے حکم سے بڑے کٹھن اور مشقت طلب کاموں میں جتے ہوئے تھے اور آپ کے خوف سے سستی نہ کر سکتے تھے، وہ آپ کو کھڑا دیکھتے تو سمجھتے کہ آپ زندہ وسلامت ہیں، ذرا غفلت برتی تو کھال ادھیڑ لیں گے۔ اسی طرح پورا سال گزر گیا۔ حکم الٰہی سے دیمک نے عصا کو چاٹنا شروع کر دیا۔ نیچے سے اوپر تک اسے کھوکھلا کرنے میں ایک سال کا عرصہ بیت گیا۔ جب وہ بالکل کھوکھلا ہوگیا اور آپ کا بوجھ نہ سہار سکا تو ٹوٹ گیا اور آپ نیچے زمین پر آرہے۔ تب جنات کو پتہ چلا کہ جس کے خوف سے انہوں نے اپنے آپ کو مصیبت میں مبتلا رکھا وہ تو عرصہ سے وفات پاچکا ہے تو اب ان کے دعویٰ کی حقیقت فاش ہوگئی۔ نیز وہ لوگ جو ان جنات کے غیب دانی کے دعویٰ کو سچا سمجھ رہے تھے انہیں بھی پتہ چل گیا کہ یہ اپنے دعویٰ میں سراسر جھوٹے ہیں۔ یعنی تمام جنوں پر یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ ان کے سردار جو غیب دانی کی لافیں مارا کرتے تھے وہ بالکل جھوٹے تھے اگر انہیں غیب کا علم ہوتا تو وہ سال بھر اپنی جان کو اس مصیبت میں نہ ڈالے رکھتے یا اس کا مفہوم یہ ہے کہ لوگوں پر یہ حقیقت کھل گئی کہ جنات کو غیب کا کوئی علم نہیں۔ جنات کے سر غرور کو خاک میں ملانے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے شان نبوت کا مشاہدہ بھی کرا دیا۔ عام انسان اگر عصا پر ٹیک لگا کر کھڑا ہو اور وہ اونگھ جائے تو اس کا توازن برقرار نہیں رہتا۔ اور فورا زمین پر گر پڑتا ہے۔ پھر موت کے بعد چہرے کی رنگت بدل جاتی ہے جسم میں طرح طرح کے تغیرات رونما ہونے لگتے ہیں ۔ لیکن یہاں آپ سال بھر ٹیک لگائے کھڑے رہے، چہرہ اسی طرح پھول کی طرح شگفتہ رہا۔ بدل بالکل تروتازہ رہا۔ تعفن اور بوسیدگی تو کجا لباس بھی ویسے ہی پاک صاف رہا۔ نہ موسم گرما کی حدت، لو اور حبس نے جسد اطہر کو متاثر کیا اور نہ موسم سرما کا کوئی اثر ظاہر ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے بےبصیرت لوگوں کو ظاہری آنکھوں سے مشاہدہ کرا دیا کہ نبی کی ظاہری زندگی کا جاہ وجلال تو تم دیکھتے رہے۔ اب اس کے انتقال کے بعد بھی اس کی شان رفیع کو دیکھو۔ [ تفسیر ضیاء القرآن- پیر کرم شاہ الازہری]
  5. تفسیر عشمانی: حضرت سلیمانؑ جنوں کے ہاتھ سے مسجد بیت المقدس کی تجدید کرا رہے تھے جب معلوم کیا کہ میری موت آ پہنچی جنوں کو نقشہ بتا کر آپ ایک شیشہ کے مکان میں دربند کر کے عبادت الہٰی میں مشغول ہو گئے جیسا کہ آپ کی عادت تھی کہ مہینوں خلوت میں رہ کر عبادت کیا کرتے تھے۔ اسی حالت میں فرشتہ نے روح قبض کر لی اور آپ کی نعش مبارک لکڑی کے کے سہارے کھڑی رہی۔ کسی کو آپ کی وفات کا احساس نہ ہو سکا۔ وفات کے بعد مدت تک جن بدستور تعمیر کرتے رہے۔ جب تعمیر پوری ہو گئ جس عصا پر ٹیک لگا رہے تھے گھن کھانے سے گرا۔ تب سب کو وفات کا حال معلوم ہوا۔ اس سے جنات کو خود ا پنی غیب دانی کی حقیقت کھل گئ اور ان کے معتقد انسانوں کو بھی پتہ لگ گیا کہ اگر انہیں غیب کی خبر ہوتی تو کیا اس ذلت آمیز تکلیف میں پڑے رہتے۔ حضرت سلیمانؑ کی وفات کو محسوس کرتے ہی کام چھوڑ دیتے۔ اسی سے یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ شیاطین وغیرہ کی تسخیر کچھ حضرت سلیمانؑ کا کسبی کمال نہ تھا محض فضل ایزدی تھا۔ جو اللہ چاہے تو موت کے بعد ایک لاش کے حق میں بھی قائم رکھ سکتا ہے۔ نیز سلیمانؑ پر زندگی میں جو انعامات ہوئے تھے یہ اس کی تکمیل ہوئی کہ موت کے بعد بھی ایک ضروری حد تک انہیں جاری رکھا گیا۔ اور بتلا دیا کہ پیغمبروں کے اٹھائے ہوئے کاموں کو اللہ تعالیٰ کس تدبیر سے پورا کرتا ہے۔ [تفسیر عشمانی: مولانا شبیر احمد عشمانی]
  6. واضح رہے کہ شان نبوت کا نظارہ الله تعالی نے کرایا- کبھی کبھار شہداء کی قبریں قدرتی طور پرسیلاب وغیرہ سے کھل جاتی ہیں تو ان کا دیدار ہو جاتا ہے، مگر یہ الله کی حکمت سے ہوتا ہے کسی انسانی کوشش یا عمل سے نہیں کیونکہ ہم کو حکم ہے میتوں کو دفن کریں،لہٰذا فوری طور پر قبروں کو بند کر دیا جاتا ہے-
  7. Tafsir – Jalalayn: And when We decreed for him, for Solomon, death, in other words, [when] he died — he remained supported against his staff an entire year, while the jinn continued to toil in hard labour as was customary, unaware of his death, until [finally] when a termite ate through his staff, he fell to the ground [and was seen to be] dead — nothing indicated to them that he had died except a termite [the piece of wood] was eaten away by a termite that gnawed away at his staff . And when he fell down, dead, the jinn realised, it became apparent to them, that had they known the Unseen — comprising what was hidden from them in the way of Solomon being dead — they would not have continued in the humiliating chastisement, [in] that hard labour of theirs, [in which they continued] as they supposed him to be alive, which is in contrast to what they would have supposed had they known the Unseen and the fact that he had been there an entire year, judging by how much of the staff the termite had eaten through after his death; in other words, [they would not have continued in the humiliating chastisement] for a single day or even a single night [longer].[English Tafsir – Jalalayn- By Jalal ad-Din al-Mahalli and Jalal ad-Din as-Suyuti]
  8. فتنہ کے محرک فرماتے ہیں :لیکن قرآن کریم کی کسی بھی آیت میں یا حضور نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں کوئی ایسا ثبوت نہیں ملتا جس سے ثابت ہوتا کہ اس لاش کے زمین پر رہنے پر تنقید کی گئی یا منع کیا گیا ۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمان کی تروتازہ لاش کا زمین پر کسی خاص مقصد کے لیے رکھنا جائز ہے۔
  9. ایک پیغمبر، حضرت سلیمان علیہ السلام نے بارگاہ الٰہی میں دعا کی تھی کہ ان کی وفات کا حال جِنّات پر ظاہر نہ ہو “تا کہ انسانوں کو معلوم ہو جائے کہ جن غیب نہیں جانتےالله نے پیغبر کی  دعا کو قبول فرمایا اور قرآن میں بیان فرما دیا- اللہ کے کام میں کس کو جرات ہے تنقید کرے؟  الله نے ہمیشہ کے لیے ثابت کر دیا کہ جنات کو علم غیب نہیں
  10. جہاں تک الله کا معاملہ ہے وہ کسی خاص مقصد کے لیےاپنے احکام (سنت الله) میں استثنیٰ exception فرما  دیتا ہے ہم الله پر تنقید یا سوال نہیں اٹھا سکتے اور نہ ہی اللہ کے غیر معمولی اقدام exceptions کی اپنے طور پرغلط تاویل کر سکتے ہیں (معازالله)- الله آگ کو ٹھنڈا کر دیتا ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو محفوظ کرنے کے لیے- سمندر میں حضرت موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کے لیے راستہ بنا دیتا ہے اور فرعون کو غرق کر دیتا ہے، اس کی لاش کو مقام عبرت بنا دیتا ہے: فَالْيَوْمَ نُنَجِّيْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰيَۃً ٬ وَاِنَّ کَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰٰيتِنَا لَغٰفِلُوْنَ.(قرآن، 10:92)- ترجمہ : ’’پس آج ہم تيرے جسم کو بچائيں گے تاکہ تو اپنے بعد والوں کے ليے نشانی بنے اور بے شک ٬ بہت سے لوگ ہماری نشانيوں سے غافل ہی رہتے ہيں۔‘‘….
  11. اس طرح کے غیر معمولی واقعات الله کے اپنے احکام (سنت الله) میں استثنیٰ exceptions  ہیں جو صرف الله کا اختیار ہے، غیر الله ، مخلوق کا نہیں-
  12. امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی کرنا ہے جس کا الله نے حکم دیا اور رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر عمل درآمد کر کہ عملی نمونہ پیش کیا. میت کی رسومات اور تدفین اسی میں شامل ہے- یہ وہ نمونہ کامل ہے جسے “لقد کان لکم فی رسول اﷲ اسوۃ حسنۃ” قراردیا گیا جن کے بارے میں ارشاد رب العزت ہے: كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولاً مِّنكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُواْ تَعْلَمُونَ (بقرہ ١٥١). ترجمہ : چنانچہ ہم نے تم میں تمھیں میں سے ایک رسول بھیجا جو تم کو ہماری آیتیں سناتا ہے اور تمہارا تزکیہ کرتا ہے اور تم کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور تم کو وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے۔… اسی بنا پر حضورؐ کو راہ بر و معلم انسانیت کہا گیا۔ چناںچہ آپﷺ کا فرمان ہے، مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔
  13. یہ کہنا کھلا جھوٹ اور بہتان ہے کہ: .”.حضور نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں کوئی ایسا ثبوت نہیں ملتا جس سے ثابت ہوتا کہ اس لاش کے زمین پر رہنے پر تنقید کی گئی یا منع کیا گیا” میت کو قبر میں دفن کرنے کا حکم بھی الله کا ہے( قرآن،5:31،80:21). اس فرض کو تسلسل سے رسول الله  صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا فرمایا اور ١٤٠٠ سال سے امت مسلمہ اس پر عمل کر رہی ہے- ١٤٠٠ سال میں ایک مثال بھی نہیں ملتی کہ کسی مومن کی میت کو جان بوجھ کر نہ دفنایا گیا ہو تنقید تو تب ہو جب کوئی حکم عدولی کرے، مسلمان الله اور رسول کے حکم اور تعلیمات کی خلاف درزی کا سوچ بھی نہیں سکتے-  
  14. حضرت ابوہریرہسے مروی ہے‘رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنازے کو تیز لے جایا کرو ۔اس لیے کہ اگر وہ نیک ہے تو (قبر اس کے لیے) خیر ہے، جہاں تم اس کو جلدی پہنچا دو گے اور اگر اس کے سوا کوئی اور صورت ہے تو ایک برا (بوجھ تمہارے کندھوں پر) ہے تو (تم تیز چل کر جلدی) اس کو اپنے کندھوں سے اتار دو گے۔“(بخاری). رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : ”جو آدمی ایمان کی صفت اور ثواب کی نیت سے کسی مسلمان کے جنازے کے ساتھ جائے اور اُس وقت تک جنازے کے ساتھ رہے جب تک کہ اُس پر نماز پڑھی جائے اور اس کے دفن سے فراغت ہو تو وہ ثواب کے دو قیراط لے کر واپس ہو گا‘ جس میں سے ہر قیراط گویااُحد پہاڑ کے برابر ہو گا۔ اور جو آدمی صرف نمازِ جنازہ پڑھ کر واپس آجائے تو وہ ثواب کا ایک قیراط لے کر واپس ہو گا۔ “(بخاری)
  15. اسلام میں میت کےدس حقوق جن میں قبر میں دفن کرنا ، قرآن وسنت سے بڑی تفصیل کے ساتھ ثابت ہیں: میت کو غسل دینا، تکفین کرنا، نمازِ جنازہ میں شرکت کرنا،ایک معزز مہمان کو رخصت کرنے کی طرح لاش کے ساتھ احتراماً جنازہ گاہ اور قبرستان جانا، قبر کی تیاری میں کام کرنا، لاش کی نہایت ادب واعزاز کے ساتھ تدفین کرنا،اس کے لئے دعائیں کرنا،ایصالِ ثواب کرنا،وقتاً فوقتاً زیارت قبور کے لئے جانا، میت کی قبر اور اس کے اعضاء کا احترام کرنا۔ لاش اور میت کے یہ دس حقوق قرآن وسنت سے بڑی تفصیل کے ساتھ ثابت ہیں، تفصیل کے لئے احکام ِمیت، کتاب الجنائز ، حقوقِ میت اور فتاویٰ القبور کو دیکھا جاسکتا ہے-
  16. وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا فَأُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ (22:57) ترجمہ : اور جنہوں نے کفر کیا ہو گا اور ہماری آیات کو جھٹلایا ہوگا اُن کے لیے رسوا کن عذاب ہوگا-
  17. مندرجہ بالا حقائق سے ثابت  ہوا کہ لہٰذا حضرت سلیمان علیہ السلام کی نعش زمین پر کچھ عرصہ کے لیے الله تعالی نے پیغمبر کی دعا قبول کرکہ اور جنات کو علم غائب سے محرومی کو ثابت کرنے کے لیے رکھی جو اللہ کے احکام اور سنت الله میں استثنائی عمل تھا جو مسلمانوں کے لیے میت کو کفن دفن کے بغیرتبلیغ کے لیے رکھنے کی حجت، جائز نہں – امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی کرنا ہے جس کا الله نے حکم دیا اور رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر عمل درآمد کر کہ عملی نمونہ پیش کیا. میت کی رسومات اور تدفین اسی میں شامل ہے- یہ وہ نمونہ کامل ہے جسے “لقد کان لکم فی رسول اﷲ اسوۃ حسنۃ” قراردیا گیا جن کے بارے میں ارشاد رب العزت ہے: كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولاً مِّنكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُواْ تَعْلَمُونَ (بقرہ ١٥١). ترجمہ : چنانچہ ہم نے تم میں تمھیں میں سے ایک رسول بھیجا جو تم کو ہماری آیتیں سناتا ہے اور تمہارا تزکیہ کرتا ہے اور تم کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور تم کو وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے۔… اسی بنا پر حضورؐ کو راہ بر و معلم انسانیت کہا گیا۔ چناںچہ آپﷺ کا فرمان ہے، مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔ ہم نے ان کی تعلیمات پر عمل کرنا ہے- پہلے کی امتوں کے احکام شریعت محمدی سے مشروط ،ورنہ منسوخ ہیں- میت کو دفن کا حکم عام ہے-
  18. “مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ” ….. جو شخص قرآن میں بغیر علم کے گفتگو کرے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔ .… “مَنْ قَالَ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِرَأْيِهِ فَأَصَابَ فَقَدْ أَخْطَأ”۔ ……. جو شخص قرآن کے معاملے میں (محض) اپنی رائے سے گفتگو کرے اور اس میں کوئی صحیح بات بھی کہہ دے تب بھی اس نے غلطی کی۔ (ترمذی،باب ماجاء فی یفسر القرآن ،حدیث نمبر:۲۸۷۴)

۳) زمین کھود کر نشانی نکالنے کی دعوت

ترجمہ۔ سورہ انعام6،آیت35: اور اگر ان کی روگردانی تم پر شاق گزرتی ہے تو اگر طاقت ہو تو زمین میں کوئی سرنگ ڈھونڈ نکالو یا آسمان میں سیڑھی (تلاش کرو) پھر ان کے پاس کوئی معجزہ لاؤ۔ اور اگر خدا چاہتا تو سب کو ہدایت پر جمع کردیتا پس تم ہرگز نادانوں میں نہ ہونا۔

استدلال #3:

اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ زمین سے کوئی ایسی اللہ کی قدرت کی نشانی نکالنا تاکہ غیر مسلموں کو مطمئن کرنے کے لیے انہیں دکھاسکیں جائز ہے۔ میرے نزدیک اللہ تعالیٰ کی وہ نشانی اشارتاً قبر کے اندر شہدائے اسلام کی تروتازہ لاشیں ہیں۔ جب تک یہ محفوظ لاشیں قبروں کے اندر رہیں گی تو ہم غیر مسلموں کو کیسے دکھائیں گے؟ لہذا ضروری ہے کہ چند ایسی لاشیں دفن ہی نہ کی جائیں اور زمین پر رہنے دی جائیں تاکہ غیر مسلم انہیں دیکھ کر مطمئن ہوں اور دین اسلام قبول کریں۔

تجزیہ ستدلال# 3:

آیت (6:35) میں 6 پوائنٹس ہیں ، بغیر کسی تبدیلی یا کمنٹس، اگر ، مگر کے بغیر ان  6 پوائنٹس پر غور کریں مطلب واضح ہو جاتا ہے:

(١) اور اگر ان کی روگردانی تم پر شاق گزرتی ہے تو

(٢) اگر طاقت ہو تو زمین میں کوئی سرنگ ڈھونڈ نکالو یا

(٣)آسمان میں سیڑھی (تلاش کرو)

(٤)پھر ان کے پاس کوئی معجزہ لاؤ۔

(٥) اور اگر خدا چاہتا تو سب کو ہدایت پر جمع کردیتا

(٦) پس تم ہرگز نادانوں میں نہ ہونا۔

اگر اب بھی کوئی شک رہ گیا ہے تو اس آیت (6:35) کو سیاق و ثبات میں دیکھیں توحقیقت  مزید کھل جاتی ہے، مطلب واضح ہو جاتا ہے  کہ یہ آیت فرمائشی معجزات دکھلانے کی مخالفت میں ہے:

ترجمہ :” اے محمدؐ! ہمیں معلوم ہے کہ جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ان سے تمہیں رنج ہوتا ہے، لیکن یہ لوگ تمہیں نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم دراصل اللہ کی آیات کا انکار کر رہے ہیں (33) تم سے پہلے بھی بہت سے رسول جھٹلائے جا چکے ہیں، مگر اس تکذیب پر اور اُن اذیتوں پر جو انہیں پہنچائی گئیں، انہوں نے صبر کیا، یہاں تک کہ انہیں ہماری مدد پہنچ گئی اللہ کی باتوں کو بدلنے کی طاقت کسی میں نہیں ہے، اور پچھلے رسولوں کے ساتھ جو کچھ پیش آیا اس کی خبریں تمہیں پہنچ ہی چکی ہیں (34) تاہم اگر ان لوگوں کی بے رخی تم سے برداشت نہیں ہوتی تو اگر تم میں کچھ زور ہے تو زمین میں کوئی سرنگ ڈھونڈو یا آسمان میں سیڑھی لگاؤ اور ان کے پاس کوئی نشانی لانے کی کوشش کرو اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو ہدایت پر جمع کر سکتا تھا، لہٰذا نادان مت بنو (35)دعوت حق پر لبیک وہی لوگ کہتے ہیں جو سننے والے ہیں، رہے مُردے، تو انہیں تو اللہ بس قبروں ہی سے اٹھائے گا اور پھر وہ (اس کی عدالت میں پیش ہونے کے لیے) واپس لائے جائیں گے (36) یہ لوگ کہتے ہیں کہ اِس نبی پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہیں اتری؟ کہو، اللہ نشانی اتارنے کی پوری قدرت رکھتا ہے، مگر ان میں سے اکثر لوگ نادانی میں مبتلا ہیں-(37) زمین میں چلنے والے کسی جانور اور ہوا میں پروں سے اڑنے والے کسی پرندے کو دیکھ لو، یہ سب تمہاری ہی طرح کی انواع ہیں، ہم نے ان کی تقدیر کے نوشتے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے، پھر یہ سب اپنے رب کی طرف سمیٹے جاتے ہیں (38) مگر جو لوگ ہماری نشانیوں کو جھٹلاتے ہیں وہ بہرے اور گونگے ہیں، تاریکیوں میں پڑے ہوئے ہیں اللہ جسے چاہتا ہے بھٹکا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے سیدھے رستے پر لگا دیتا ہے” ( الانعام 6:39)
کفار کا مطالبہ یہ تھا کہ یہ نبی ہیں تو ان کے ساتھ ہمیشہ ایسا نشان رہنا چاہئے جسے ہر کوئی دیکھ کر یقین کرنے اور ایمان لانے پر مجبور ہو جایا کرے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ تمام دنیا کی ہدایت پر حریص تھے شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل نے چاہا ہو گا کہ ان کا یہ مطالبہ پورا کر دیا جائے، اس لئے حق تعالیٰ نے یہ تربیت فرمائی کہ تکوینیات میں مشیت الہٰی کے تابع رہو۔ تکوینی مصالح اس کو مقتضی نہیں کہ ساری دنیا کو ایمان لانے پر مجبور کر دیا جائے ورنہ خدا تو اس پر بھی قادر تھا کہ بدون توسط پیغمبروں اور نشانوں کےشروع ہی سے سب کو سیدھی راہ پر جمع کر دیتا۔ جب الله  کی حکمت ایسے مجبور کن معجزات اور فرمائشی نشانات دکھلانے کو متقضی نہیں تو مشیت الہٰی کے خلاف کسی کو یہ طاقت کہاں ہے کہ وہ زمین یا آسمان میں سے سرنگ یا سیڑھی لگا کر ایسا فرمائشی اور مجبور کن معجزہ نکال کر دکھلا دے۔ خدا کے قوانین حکمت و تدبیر کے خلاف کسی چیز کے وقوع کی امید رکھنا نادانوں کا کام ہے-
فرمائشی معجزات نہ دکھلانے کی حکمت:
 الله  فرمائشی معجزات دکھلانے سے عاجز نہیں۔ لیکن جن قوانین حکمت و رحمت پر نظام تکوین کی بنیاد ہے، تم میں سے اکثر ان کے سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ان قوانین کا اقتضا یہ ہی ہے کہ تمام فرمائشی معجزات نہ دکھلائے جائیں- الله کی حکمتیں  ہیں جو فرمائشی نشانات نہ دکھلائے جانے میں مرعی ہیں۔ انسان جنس حیوان میں “بااختیار اور ترقی کن” حیوان ہے اسی کسب و اختیار اور ترقی کن عقل و تمیز کی موجودگی نے اس کے نظام تکوینی اور قانون حیات کو دوسرے تمام حیوانات سے ایسا اعلیٰ اور ممتاز بنا دیا ہے۔ وہ برخلاف باقی حیوانات کے دیکھنے سننے اور پوچھنےسے نئی نئی معلومات حاصل کرتا اور قوت فکریہ سے ان کو ترتیب دےکر حیات جدید کی طرف ترقی کرتا رہتا ہے وہ نیک و بد میں تمیز کرنے، نافع و ضار کے پہنچانے، آغاز و انجام سمجھنے پر قادر اور کسی عمل کے کرنے یا چھوڑنے میں فی الجملہ آزاد ہے۔ اسی لئے اس کو خدا کی جانب سے ایسے نشانات دکھلائے جاتے ہیں جن میں غور و فکر کرنے کا موقع مل سکے اور فکر و کسب کی فطری آزادی کو سلب کرنے والے نہ ہوں۔ اور اگر وہ خدا کے دیے ہوئے قوائے عقلیہ سے ٹھیک طور پر ان میں غور کرے تو اسے حق و باطل اور نیک و بد کی تمیز کرنے میں کچھ دقت نہ ہو۔ پس ایسے فرمائشی نشانات و معجزات کی درخواست کرنا جو بہمہ وجوہ ایمان لانے پر مجبور کر دیں، انسان کی فطری آزادی اور اس کے نظام ترکیبی کو تباہ کرنے بلکہ انسان کو عام حیوانات کی صف میں اتار لانے کا مرادف ہے۔ اور اگر فرمائشی نشان بہمہ وجوہ مجبور کن نہ ہوں تو ان کا دکھلانا بیکار ہے۔ کیونکہ ان میں بھی وہی غیرناشی عن دلیل شکوک و شبہات پیدا کر لئے جائیں گے جو ہزاروں غیرفرمائشی نشانات میں کئے جا چکے-( تفسیر مولانا محمود )
 
شیطان اتنا بھٹکا دیتا ہے کہ صاف  واضح ، کھلی آیات قرآن کا مطلب الٹا سمجھ اتا ہے جو سمجھنا ہی  نہیں چاہتے:

” اگر تیرے رب کی مشیت یہ ہوتی (کہ زمین میں سب مومن و فرمانبردار ہی ہوں) تو سارے اہل زمین ایمان لے آئے ہوتے پھر کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن ہو جائیں؟ (99)
کوئی متنفس اللہ کے اذن کے بغیر ایمان نہیں لا سکتا، اور اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے وہ ان پر گندگی ڈال دیتا ہے (100)
اِن سے کہو “زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے اسے آنکھیں کھول کر دیکھو” اور جو لوگ ایمان لانا ہی نہیں چاہتے ان کے لیے نشانیاں اور تنبیہیں آخر کیا مفید ہو سکتی ہیں (10:101سورة يونس)
تفسیر تفہیم القرآن : 
نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب دیکھتے تھے کہ اس قوم کو سمجھاتے  سمجھاتے مدّتیں گزر گئی ہیں اور کسی طرح یہ راستی پر  نہیں آتی تو بسا اوقات  آپ کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی تھی کہ کاش کوئی نشانی خدا کی طرف سے ایسی ظاہر ہو جس سے اِن لوگوں کا کفر ٹُوٹے اور یہ میری  صداقت تسلیم کر لیں۔ آپ کی اِسی خواہش کا جواب اس آیت میں دیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بے صبری سے کام نہ لو۔ جس ڈھنگ اور جس ترتیب و تدریج سے ہم اس کام کو چلوا رہے ہیں اسی پر صبر کے ساتھ چلے جاؤ۔ معجزوں سے کام لینا ہوتا تو کیا ہم خود نہ لے سکتے تھے؟
مگر ہم جانتے  ہیں کہ جس فکری و اخلاقی انقلاب اور جس مدنیّتِ صالحہ کی تعمیر کے کام پر تم مامور کیے گئے ہو اسے کامیابی کی منزل تک پہنچانے کا صحیح راستہ یہ نہیں ہے۔ تاہم اگر لوگوں کے موجودہ جمُود اور ان کے انکار کی سختی پر تم سے صبر نہیں ہوتا  ، اور تمہیں گمان ہے کہ اس جمُود کو توڑنے کے لیے کسی محسُوس نشانی کا مشاہدہ کرانا ہی ضروری ہے ، تو خود زور لگاؤ اور تمہارا کچھ بس چلتا ہو تو زمین میں گھُس کر یا آسمان پر چڑھ کر کوئی ایسا معجزہ لانے کی کوشش کرو جسے تم سمجھو کہ یہ بے یقینی کو یقین میں تبدیل کردینے کے لیے کافی ہوگا ۔ مگر ہم سے اُمید نہ رکھو کہ ہم تمہاری یہ خواہش پوری کریں گے کیونکہ ہماری اسکیم میں اس تدبیر کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
یعنی اگر صرف یہی بات مطلوب ہوتی کہ تمام انسان کسی نہ کسی طور پر راست رَو بن جائیں تو  نبی بھیجنے اور کتابیں نازل کرنے اور مومنوں سے کفار کے مقابلہ میں جدوجہد کرانے اور دعوتِ حق کو تدریجی تحریک کی منزلوں سے گزروانے کی حاجت ہی کیا تھی۔ یہ کام تو اللہ کے ایک ہی تخلیقی اشارہ سے انجام پا سکتا تھا۔ لیکن اللہ اس کام کو اس طریقہ پر کرنا نہیں چاہتا۔ اس کا منشاء تویہ ہے کہ حق کو دلائل کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے۔ پھر ان میں سے جو لوگ فکرِ صحیح سے کام لے کر حق کو پہچان لیں وہ اپنے آزادانہ اختیار سے اُس پر ایمان لائیں۔ اپنی سیرتوں کو اس کے سانچے میں ڈھال کر باطل پرستوں کے مقابلہ میں اپنا اخلاقی تفوّق ثابت کریں۔ انسانوں کے مجمُوعہ میں سے صالح عناصر کو اپنے طاقتور استدلال ، اپنے بلند نصب العین، اپنے بہتر اُصُولِ زندگی اور اپنی پاکیزہ سیرت کی کشش سے اپنی طرف کھینچتے چلے جائیں۔ اور باطل کے خلاف پیہم جدوجہد کر کے فطری ارتقاء کی راہ سے اقامتِ دین ِ حق کی منزل تک پہنچیں۔ اللہ اس کام میں ان کی رہنمائی کرے گا اور جس مرحلہ پر جیسی مدد اللہ سے پانے کا وہ اپنے آپ کو مستحق بنائیں گے وہ مدد بھی انہیں دیتا چلا جائے گا۔ لیکن اگر
کوئی یہ چاہے کہ اس فطری راستے کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ محض اپنی قدرتِ قاہرہ کے زور سے افکارِ فاسدہ کو مٹا کر لوگوں میں فکرِ صالح پھیلا دے اور تمدّنِ فاسد  کو نیست و نابود کر کے مدنیّتِ صالحہ تعمیر کر دے ، تو ایسا ہرگز  نہ ہوگا کیونکہ یہ اللہ کی اُس حکمت کے خلا ف ہے جس کے تحت اس نے انسان کو دنیا میں ایک ذمّہ دار مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا ہے، اسے تصرّف کے اختیارات دیے ہیں، طاعت و عصیان کی آزادی بخشی ہے، امتحان کی مُہلت عطا کی ہے، اور اس کی سعی کے مطابق جزا اور سزا  دینے کے لیے فیصلہ کا ایک وقت مقرر کر
دیا ہے۔ (تفسیر تفہیم القرآن)
 تفسیر ضیاء القرآن:
 اس آیت میں دو اہم باتوں کا ذکر ہے۔ ایک تو یہ کہ میرا محبوب ان گم کر دہ راہوں کے ہدایت پانے پر اتنا حریص ہے کہ وہ ہر کوشش کے لئے تیار ہے۔ یہاں تک کہ اگر اس کا بس چلے تو جس معجزہ کا وہ مطالبہ کریں وہ پیش کر دے۔ خواہ اس کے لئے زمین میں سرنگ لگانی پڑے یا آسمان پر زینہ لگا کر چڑھنا پڑے۔ دوسری بات یہ بتائی گئی کہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کا یہ تقاضا نہیں کہ کسی کو اتنا مجبور ومقہور کر دیا جائے کہ اسلام کو تسلیم کئے بغیر اس کے لئے کوئی چارہ کا ر نہ رہے۔ کیونکہ دین صرف چند رسوم کی ادائیگی اور چند کلمات کے تلفظ کا نام بلکہ یہ وہ ہمہ گیر انقلاب ہے جو روح، قلب اور شعورو احساس کی پرانی دنیا کو زیرو زبر کر کے نئی دنیا تعمیر کرتا ہے اور یہ انقلاب فقط اسی وقت رو پذیر ہو سکتا ہے جب کہ کوئی شخص اپنی مرضی سے خوب سوچ سمجھ کر اس نظریہ حیات کو قبول کر ے۔
اس لئے اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کو کوئی خاص دین اختیار کرنے کے لئے آزاد چھوڑ دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب (صلی اللہ علیہ وسلم) کو فرماتے ہیں کہ ہماری قدرت تو اتنی وسیع ہے کہ اگر ہم چاہیں تو سب بوذر (رض) وبلال (رض) بن جائیں لیکن ایسا کیا نہیں جاتا۔  بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ یہاں خطاب امت کے ہر فرد، ہر سننے والے کو ہے-

مندرجہ بالا دلائل سے ثابت ہوا کہ، کسی مسلمان يا شہيد کی ميت کو قبر سے نکال کر، یا دفن کیے بغیر بطور ثبوت پيش کرنے کی کوئی شرعی دليل نہيں بلکہ ایسا فعل نہ صرف ميت کی بے حرمتی ہے بلکہ میت کے قرآن و سنت سے ثابت دس حقوق و فرائض کے برخلاف ہے جس کی کوئی مسلمان اور ذی عقل شخص اجازت نہيں دے سکتا۔  پس ثابت  ہوا کہ استدلال باطل اور گمراہ کن ہے کیونکہ یہ قرآن کے پیغام کے الٹ ہے لہٰذا رد کیا جاتا ہے-
“مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ”
 جو شخص قرآن میں بغیر علم کے گفتگو کرے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔ “مَنْ قَالَ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِرَأْيِهِ فَأَصَابَ فَقَدْ أَخْطَأ”۔ جو شخص قرآن کے معاملے میں (محض) اپنی رائے سے گفتگو کرے اور اس میں کوئی صحیح بات بھی کہہ دے تب بھی اس نے غلطی کی۔ (ترمذی،باب ماجاء فی یفسرالقرآن ،حدیث نمبر:۲۸۷)
 
۴) اللہ انسان کی ذات میں نشانیاں دکھائے گا:

ترجمہ ۔سورہ فصلت41 ،آیت53: 

“ہم عنقریب انہیں اپنی نشانیاں اَطرافِ عالم میں اور خود اْن کی ذاتوں میں دِکھا دیں گے یہاں تک کہ اْن پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہی حق ہے۔ کیا آپ کا رب کافی نہیں ہے کہ وہی ہر چیز پر گواہ (بھی) ہے۔”

 استدلال# 4:

  1. اس آیت سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ شہدائے اسلام کی تروتازہ لاشوں کو زمین پر رکھنا جائز ہے تاکہ دین اسلام کی سچائی کو ثابت کرنے کے لیے انہیں غیر مسلموں کو دکھاسکیں-
  2. ۔کیونکہ اس آیت میں کہا گیا ہے کہ ہم ایسی نشانیاں انسانی جانوں میں دکھائیں گے جس سے دین اسلام کا سچا ہونا اور کفر کا باطل ہونا واضح طور سے نظر آجائے گا۔یہاں تک کہ کافر بھی بول پڑیں گے کہ واقعی اسلام ہی سچا دین ہے۔
  3. “عالم ” صاحب کی نظر میں وہ نشانی یہی تروتازہ لاشیں ہیں۔ کیونکہ دوسری جانب کسی بھی غیر مسلم کی لاش سڑنے گلنے سے محفوظ نہیں رہتی۔ اس آیت کے اندر نشانی دکھانے سے متعلق کوئی اور نشانی بھی ہوسکتی ہے لیکن لاش کی نشانی کا بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ مفتی اعظم پاکستان محمد تقی عثمانی صاحب نے اپنے سفرنامہ’ جہاں دیدہ‘ میں صفحہ نمبر  54پر خود اسی آیت سے اسلام کی سچائی پراستدلال کیا ہے جہاں پر حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ اور حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی تروتازہ نعشوں کوزمین سے نکالنے ،مسلم و غیرمسلموں کو دکھانے اور دوسری جگہ منتقل کرنے کا تذکرہ کیا ہے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تروتازہ لاشیں زمین پر رکھنا جائز ہے۔

تجزیہ استدلال # 4 :

  1. قرآن کی آیت 41:53 میں شہداء کی لاشوں کا تو کیا کسی بھی میت یا لاش کا ذکر نہیں-
  2. کیا رسول کریمﷺ کو علم نہیں تھا کہ شہداء کی لاشیں نشانیاں ہیں؟ کفارآپ سے باربارنشانیوں کا مطلبہ کرتے تھے، ان کو شہداء کی لاشیں دفن کیے بغیر دکھائی جا سکتی تھیں مگر ایسا نہیں کیا گیا ، صحابہ اکرام نے اور چودہ سو سال سے آج تک کسی مسلم نے ایسا کیوں نہ کیا؟
  3. کیونکہ …. اسلام میں میت کےدس حقوق جن میں قبر میں دفن کرنا ، قرآن وسنت سے بڑی تفصیل کے ساتھ ثابت ہیں: میت کو غسل دینا، تکفین کرنا، نمازِ جنازہ میں شرکت کرنا (فرض کفایہ) ،ایک معزز مہمان کو رخصت کرنے کی طرح لاش کے ساتھ احتراماً جنازہ گاہ اور قبرستان جانا،
  4. قبر کی تیاری میں کام کرنا، لاش کی نہایت ادب واعزاز کے ساتھ تدفین کرنا،اس کے لئے دعائیں کرنا،ایصالِ ثواب کرنا،وقتاً فوقتاً زیارت قبور کے لئے جانا، میت کی قبر اور اس کے اعضاء کا احترام کرنا۔ لاش اور میت کے یہ دس حقوق قرآن وسنت سے بڑی تفصیل کے ساتھ ثابت ہیں،تفصیل کے لئے احکام ِمیت، کتاب الجنائز ، حقوقِ میت اور فتاویٰ القبور کو دیکھا جاسکتا ہے-
  5. قرآن کی آیت 41:53 میں “آيَاتِنَا”، نشانیاں مستقبل میں دکھانے کا ذکر ہے-
  6. لفظ “أَنفُسِهِمْ ” کا مطلب ہے “ان کی  اپنی ذات”  میں [“أَنفُسِهِمْ ” , اسم مجرور و«هم» ضمير متصل في محل جر بالاضافة]. کفار  کی ذات میں ، اس سے پہلی آیت ٥٢ سے واضح ہوتا ہے کہ مخاطب وہ لوگ ہیں جو قرآن کی حقانیت کا انکار کرتے تھے یعنی “کافر”- اب دونوں آیات مل کرپڑہیں توواضح ہوتا ہے کہ مخاطب کفار ہیں:
  7. ترجمہ آیات ٤١:٥٢،٥٣: ” آپ(ص) کہہ دیجئے! اے کافرو! تم(غور کر کے)مجھے بتاؤ کہ اگر یہ (قرآن) اللہ کی طرف سے ہے پھر تم نے اس کا انکار کیا تو اس سے بڑھ کر کون گمراہ ہے جو مخالفت میں بہت دور نکل جائے؟ (52) ہم انہیں نشانیاں دکھائیں گے آفاق و کائنات میں بھی اور خود ان کی ذات میں بھی تاکہ ان پر واضح ہو جائے کہ وہ (اللہ) بالکل حق ہے۔ کیا تمہارے پروردگار کے لئے یہ امر کافی نہیں ہے کہ وہ ہر چیز پر شاہد ہے۔  (41:52,53)
  8. شہداء تو مسلمان، اہل ایمان ہیں ان کی میتیوں کا اچانک کس خاص وجہ سےالله کی طرف سے ظاہر ہونا اگرچہ بنی نوع انسانی کے لیے نشانی ہے مگر قرآن کی اس آیت( ٤١:٥٢) میں تو کفارکی ذات میں نشانیاں دکھانے کا ذکر کر رہا ہے- کفار میں سے تو صرف فرعون کی لاش کوبطور نشانی محفوظ کرنے کا ذکر ہے .(قرآن، 10:92) ، جوقرآن کے نزول کے تقریبآ تیرہ سو سال بعد ظاہر ہو چکی ہے- کفا ر کی ذات میں اگر کوئی اور مزید نشانیاں اللہ جب چاہے گا کفارپرظاہر کر دے گا- ممکن ہے کہ وہ نشانیاں سب پر ظاہر ہوں یا کفار پر مشترکہ یا انفرادی طور پراس کا علم اللہ کوہی ہے- عام مشاہدہ ہے کہ وہ کفارجو ہدایت کی خواہش رکھتے ہیں الله ان پر رحم فرماتا ہے ان کی عقل سے پردہ اٹھ جاتا ہے اور وہ کاینات میں اور اپنے آپ میں الله کی نشانیاں دیکھ سکتے ہیں اوراسلام قبول کر لیتے ہیں- ہر ایک کا تجربہ مختلف ہوسکتا ہے- اس قسم کے تجربات اہل ایمان کو بھی ہوسکتے ہیں جس سے ان کا ایمان تازہ اور مزید مستحکم ہو تا ہے- یہ روحانی تجربات مشترکہ یا انفرادی ہوسکتے ہیں جو لوگ بیان کرتے ہیں-جس پر کچھ لوگ یقین کر لیتے ہیں اور کوئی نہیں، ذاتی تجربات دوسروں کو منتقل نہیں ہو سکتے نہ دوسروں کے لیے حجت نہیں-(واللہ اعلم)
  9. مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ اور حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی تروتازہ نعشوں کوزمین سے نکالنے ،مسلم و غیر مسلموں کو دکھانے اور دوسری جگہ منتقل کرنے کا تذکرہ اپنی کتاب میں کیا  ہے۔ اس واقعہ کی تفصیل کچھ اس طرح وکی پیڈیا پر موجود ہے:
  10. جابر بن عبداللہ بن عمرو بن حرام الأنصاري  محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب میں سے ایک تھے،انہوں نے چورانوے سال کی عمر پائی اور 68 یا 78ھ میں وفات پائی۔ انہیں بغداد کے قریب مدائن میں دریائے دجلہ کے قریب دفن کیا گیا۔1932 ء میں عراق کے اس وقت کے بادشاہ شاہ فیصل کو خواب میں صحابیِ رسول حذیفہ بن یمانی (معروف بہ حذیفہ یمانی) کی زیارت ہوئی جس میں انہوں نے بادشاہ کو کہا کہ اے بادشاہ میری قبر میں دجلہ کا پانی آ گیا ہے اور جابر بن عبداللہ کی قبر میں دجلہ کا پانی آ رہا ہے چنانچہ ہماری قبر کشائی کر کے ہمیں کسی اور جگہ دفن کر دو۔ اس کے بعد ان دونوں اصحابِ رسول صلعم  کی قبریں سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں کھولی گئیں جن میں مفتیِ اعظم فلسطین، مصر کے شاہ فاروق اول اور دیگر اہم افراد شامل تھے۔ ان دونوں کے اجسام حیرت انگیز طور پر تازہ تھے، جیسے ابھی دفنائے گئے ہوں۔ ان کی کھلی آنکھوں سے ایسی روشنی خارج ہو رہی تھی کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں چکا چوند ہو گئیں۔ ہزاروں لوگوں کو ان کی زیارت بھی کروائی گئی جن کے مطابق ان دونوں کے کفن تک سلامت تھے اور یوں لگتا تھا جیسے وہ زندہ ہوں۔ ان دونوں اجسام کو سلمان فارسی کی قبر مبارک کے بالکل قریب سلمان پاک نامی جگہ پر دوبارہ دفنا دیا گیا جو بغداد سے تیس میل کے فاصلے پر ہے۔[ویکیپیڈیا ]
  11. واضح ہوا کہ اصحابہ اکرام کی قبروں کو پانی سے خطرہ لاحق تھا اس لیے ان کی میتوں کو منتقل کیا گیا- یہ واقعه اگر درست ہے، تو یہ ایک نشانی ہے جو الله کی طرف سے ظاہر ہوئی، الله چاہتا تو دریا کا پانی  صحابہ کی قبروں کی طرف نہ جاتا- مگریہ سب الله نے اپنی مشیت سے دکھایا- کسی نے تبلیغ کے لیے صحابہ کی میتوں کو نہ اس واقعہ میں نہ کسی اور جگہ کبھی نکالا- بحالت مجبوری یہ عمل ہوا- قرآن و حدیث اور صحابہ اکرام کے عمل سے یہ ثابت نہیں کہ میتوں کی نمائش کی جائے- میت کے دس حقوق و فرائض جو قرآن و سنت سے ثابت ہیں ان کو ملحوض خاطر رکھا گیا- ورنہ ان کے میتوں کو شیشہ کے کمرہ یا بکس میں عوام کے دیدار کے کے لیے رکھا جا سکتا تھا- ایسا نہیں کیا گیا کیونکہ یہ غیر شرعی ہوتا- کبھی کبھار سیلاب یا قدرتی طور پرقبریں کھل جاتی ہیں، میتوں کو احترام سے قبروں میں دفن رکھا جاتا ہے- مسلمان کا عمل شریعت  محمدی کے مطابق ہوت ہے نہ کہ خواہش نفس پر-
  12. ایک واقعہ مشہور ہے کہ 558ھ (مطابق 1142ء) میں دونصرانیوں (عیسائیوں) نےمدینه میں حجرہ مبارکہ کے پاس کسی گھر میں کھدائی کر رکھی تھی تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم مبارک قبر سے نکال لیں ـ سلطان نور الدین زنگی  نے خواب میں دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو آدمیوں کی طرف اشارہ کر رہے تھے ، بعد میں دو نصرانیوں پکڑے گئے اور انہیں قتل کر دیا گیا ـ نورالدین رحمہ اللہ نے حجرے کے چاروں طرف سیسے کی عظیم دیوار بنادی- (قصہ ضعیف ہے)
  13. مصنف کی  مرزا قادیانی کی طرح سے خود ساختہ “تفسیر بالرائے” ہے- حدیث ہے کہ :” جو شخص قرآن کریم کے معاملہ  میں علم کے بغیر کوئی بات کہے تو اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے” [ترمذی].  یہ  تفسیر کے اصولوں اور اسلام کے اجماعی طور پر طے شدہ ضوابط کے بھی خلاف یہ ایسی رائے ہے جو میت کے لیے قرآن وسنت  سے ثابت دس حقوق کے خلاف ہے، لہٰذا مسترد کی جانی چاہیے-ایسی تفسیراسلام کی ١٤٠٠ سالہ تاریخ میں  کسی مستند عالم دین سے منسوب نہیں-اگر کسی کے علم میں ہو تو پیش کرے- دو مشہور تفاسیر سے اقتباسات پیش ہیں:

تفسیر کنز الایمان:
آسمان و زمین کے اقطار میں سورج ، چاند ، ستارے ، نباتات ، حیوان ، یہ سب اس کی قدرت و حکمت پر دلالت کرنے والے ہیں ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ان آیات سے مراد گزری ہوئی امتوں کی اجڑی ہوئی بستیاں ہیں جن سے انبیاء کی تکذیب کرنے والوں کا حال معلوم ہوتا ہے ۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ ان نشانیوں سے مشرق و مغرب کی وہ فتوحات مراد ہیں جو اللہ تعالیٰ اپنے حبیب (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ان کے نیاز مندوں کو عنقریب عطا فرمانے والاہے ۔ ان کی ہستیوں میں لاکھوں لطائف صنعت اور بیشمار عجائبِ حکمت ہیں یا یہ معنی ہیں کہ بدر میں کفار کو مغلوب و مقہور کرکے خود ان کے اپنے احوال میں اپنی نشانیوں کا مشاہدہ کرادیا یا یہ معنی ہیں کہ مکہ مکرمہ فتح فرما کر ان میں اپنی نشانیاں ظاہر کر دیں گے ۔  یعنی اسلام و قرآن کی سچّائی اور حقانیّت ان پر ظاہر ہوجائے ۔[تفسیر کنزالایمان -مترجم مولانا احمد رضاخان بریلوی صاحب مفسر علامہ نعیم الدین مراد آبادی صاحب]

 تفسیر ضیاء القرآن: 
یہ کتاب انہیں مظاہر فطرت میں غوروفکر کی دعوت دے رہی ہے، لیکن لوگ ان میں غورو فکر کی زحمت برداشت نہیں کرتے۔ کائنات کے ذرہ ذرہ میں جو جہان معنی مستور ہے اس سے یہ غافل ہیں۔ اگر وہ صرف اپنی آنکھ کی ساخت پر غور کریں ، اس میں جو نزاکتیں اور لطافتیں ملحوظ رکھی گئی ہیں، جسم انسانی کے مختلف اعضا کس طرح بنائے گئے ہیں اور کیا کیا کام انجام دیتے ہیں۔ ان کی بناوٹ میں ان کاموں کو مدنظر رکھتے ہوئے جو مناسبتیں رکھی گئی ہیں صرف ہاتھ کی وضع قطع کو دیکھتے ہی یقین آجاتا ہے کہ یہ کسی علیم حکیم ہستی کی تخلیق کا شاہکار ہے۔ انسان کے اردگرد جو چھوٹی بڑی چیزیں ہیں ان میں غورکرو تمہیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ جس خداوند ذوالجلال کو ماننے کی قرآن دعوت دے رہا ہے، اس کے بغیر اور کوئی خدا نہیں، نہ پہاڑ ، نہ دریا، نہ کواکب، نہ چاند، نہ سورج اور نہ ہی کوئی بڑے سے بڑا انسان۔ [ تفسیر ضیاء القرآن،  پیر کرم شاہ الازہری]

آیات (41:52) میں قرآن کی حقانیت کا ذکر ہورہا ہے اور پھر (41:53) میں نشانیوں کا- آیات قرآن میں ایک  ہزار سے زائد ایسی آیات موجود ہیں جو سائنس کے مختلف موضوعات،مثلا فلکیات، طبیعیات، جغرافیہ، ارضیات، حیاتیات، نباتیات، حیوانیات، طب، فزیالوجی،رویان شناسی، سمندری علوم اور جنرل سائنس وغیرہ سے متعلق ہیں-ان آیات میں بیان کردہ حقائق حیرت انگیز طور پر جدید سائنس سے مکمل مطابقت رکھتے ہیں- چودہ سوسال قبل جب وحی کا نزول ہورہا تھا انسانوں کا علم ان موضوعات پرعنقا یا بہت محدود تھا, اللہ نے فرمایا:

  1. “ہم انہیں نشانیاں دکھائیں گے آفاق و کائنات میں بھی اور خود ان کی ذات میں بھی تاکہ ان پر واضح ہو جائے کہ وہ (اللہ) بالکل حق ہے۔” ( 41:53قرآن)
  2. فلکی طبیعیات کے ماہرین ابتدائے کائنات کی وضاحت ایک ایسے مظہر کے ذریعے کرتے ہیں جسے وسیع طور پر قبول کیا جاتا ہے اور جس کا جانا پہچانا  نا م ’’بگ بینگ‘‘ یعنی عظیم دھماکا ہے۔ بگ بینگ کے ثبوت میں گزشتہ کئی عشروں کے دوران مشاہدات و تجربات کے ذریعے ماہرین فلکیات و فلکی طبیعیات کی جمع کردہ معلومات موجود ہیں۔ بگ بینگ ماڈل میں ایک خیال ہے جس  کے مطابق ابتداء میں شاید یہ ساری کائنات ایک بڑی کمیت کی شکل میں تھی، (جسے Primary nebula بھی کہتے ہے) پھر ایک عظیم دھماکا یعنی بگ بینگ ہوا، جس کا نتیجہ منظم   کہکشائوں  کی شکل میں ظاہر ہوا۔ پھر یہ کہکشا ئیں  تقسیم ہو کر ستاروں، سیاروں، سورج، چاند وغیرہ کی صورت میں آئیں۔ کائنا ت کی ابتداء اس قدر منفرد اور اچھوتی تھی کہ اتفاق سے اس کے وجود میں آنے کا احتمال صفر (کچھ بھی نہیں) تھا۔ قرآن پاک درج ذیل آیات میں ابتدائے کائنا ت کے متعلق بتایا گیا ہے:
  3. ’’اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے پس ہم نے ان کو پھاڑ کر جدا کر دیا(Big Bang) ، اور ہم نے (پہلے) ہر زندہ چیز کو پانی سے پیدا کیا ہے۔ کیا یہ لوگ پھر بھی ایمان نہیں لاتے‘‘(قرآن 21:30)
  4. “پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اُس وقت محض دھواں تھا اُس نے آسمان اور زمین سے کہا “وجود میں آ جاؤ، خواہ تم چاہو یا نہ چاہو” دونوں نے کہا “ہم آ گئے فرمانبرداروں کی طرح”(قرآن41:11)
  5. ’اور آسمانی کائنات کو ہم نے بڑی قوت کے ذریعہ سے بنایا اور یقیناً ہم (اس کائنات کو) وسعت اور پھیلاؤ دیتے جا رہے ہیں‘‘(قرآن 47:51)
  6. “جس نے پیدا کیا اور تناسب قائم کیا” (قرآن 87:2)
  7. لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے یقیناً اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبرہے”(قرآن49:13)
  8. بچے کا حمل سے پیدائش تک پیچیدہ عمل ترتیب کےساتھ  حال ہی میں دریافت ہوا ہے جو درست طریقے سے قرآن میں بیان کیا گیا- (قرآن ;23:13-14)
  9. سوال اٹھتا ہے کہ؛ کس طرح 1400 سال قبل ایک ان پڑھ  شخص جس کی پرورش تہذیب اور علم کے مراکز سے بہت دورپسماندہ عرب صحرائی علاقہ میں ہوئی ہو، ایسی درست سائینسی معلومات مہیا کرے جو دورحاضر میں دریافت ہوئی ہوں؟ یہ صرف الله ، واحد خالق کائنات ہے جودرست  سائینسی معلومات مہیا کر سکتا ہے- لہٰذا اگرقرآن میں سائینسی معلومات کا تذکرہ درست  ہے تو اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ قرآن  میں موجود غیر طبیعاتی،غیبی اور روحانی معلومات مثلآ ؛ الله کا وجود، فرشتے، ايمان بالآخرة (حیات بعد ازموت،انصاف، فیصلے،جنت، جہنم، روح اور انسانوں کی حتمی تقدیر) بھی درست ہیں- ( https://goo.gl/z0jlXa)
  10. انسان قرآن سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں اگر وہ اس پر غور و فکر کریں ( قرآن 38:29)- الله فرماتا ہے: ” کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اِس میں بہت کچھ اختلاف بیانی پائی جاتی”( قرآن 4:82)
  11. قرآن کی بہت سی پیشنگوئیاں پوری ہوئیں جن  کی صداقت تاریخی روایات ، تازہ ترین تحقیق اور آثار قدیمہ سے حاصل ثبوتوں سے ثابت ہوئی-
  12. قرآن میں ربط حیرت انگیز ہےجو اس کے کلام الہی ہونے کو ثابت کرتا ہے- قرآن میں موجود بے شمار’اندرونی شواہد’  ثبوت فراہم کرتا ہے، ایک مثال پیش ہے:
  13. قرآن ایک مختصر جملے میں عیسائیوں کو آدم کے متعلق یاد دلاتا ہے:جس کا نہ باپ تھا نہ ماں، اس طرح آدم خدا کا بیٹا نہیں بن جاتا، اس طرح سے آدم اور عیسیٰ میں مماثلت ہے کہ وہ کچھ نہیں سےکچھ،  یعنی الله کے غلام بن گئے-(قرآن ;3:59)-
  1. عیسی اور آدم علیہ السلام میں ایک مساوات قائم کی گئی جس کے لیئے عربی لفظ (مثل) استعمال کیا گیا ہے جس کا مطلب کے ‘مماثلت’-  کھا گیا کہ عیسی اور آدم برابر ہیں- قرآن میں انڈیکس سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ نام ‘عیسیٰ’ قرآن میں 25 مرتبہ آیا ہے اس طرح سے نام ‘آدم’ بھی  25 مرتبہ آیا ہے- ڈاکٹرگیری ملر اپنی کتاب (‘ ‘Amazing Quran) میں اس پر مزید اضافہ کرتے ہیں کہ اگر اس طریقه کو مزید بڑھائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں 8 جگہ قرآن کی آیات میں ذکر ہوتا ہے کہ فلاں چیز فلاں کی طرح ہے، اس مماثلت (مثل) پرمزید تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر ایک کا ذکر 110 مرتبہ ہے تو اس کے مماثلت چیز یا بات کا ذکر بھی 110مرتبہ پایا جاتا ہے- اس طرح سے سکرپٹ میں  ‘ربط’ پیدا کرنا آج کے کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے دور میں بھی خاصہ مشکل ہے، مگر 1400سال قبل اس کا تصور بھی محال ہے کہ ایک ان پڑھ امی (ص) 23 سال کے طویل عرصہ میں مختلف جگہوں، مقامات اور مختلف حالات میں چھوٹے اور بڑے ٹکروں میں کتاب لکھوا رہا ہو، جب  اچانک مومنین یا کفارکے سوالات کے جواب میں وحی نازل ہو رہی ہو! یہ حیرت انگیز ہے، کوئی شک نہیں کہ قرآن ایک زندہ معجزہ ہے جو خالق واحد، الله کے وجود اور قرآن و اسلام کی حقانیت کا کھلا ثبوت ہے مگر ان کے لیے جو ہدایت حاصل کرنا چاہتے ہیں اور الله کی نشانیوں پر غور و فکر کرتے ہیں-


قرآن کی آیت (41:53 ) سے کسی طور پر بھی  یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ دین اسلام کی سچائی غیر مسلموں کو ثابت کرنے کے لیے  شہدائے اسلام کی تروتازہ لاشوں کو زمین پر رکھنا جائز ہے- یہ ایک ناجائز عمل ہے-

مندرجہ بالا دلائل سے ثابت ہوا کہ، کسی مسلمان يا شہيد کی ميت کو قبر سے نکال کر، یا دفن کیے بغیر بطور ثبوت پيش کرنے کی کوئی شرعی دليل نہيں بلکہ ایسا فعل نہ صرف ميت کی بے حرمتی ہے بلکہ میت کے قرآن و سنت سے ثابت دس حقوق و فرائض کے برخلاف ہے جس کی کوئی مسلمان اور ذی عقل شخص اجازت نہيں دے سکتا۔  پس ثابت  ہوا کہ استدلال باطل اور گمراہ کن ہے کیونکہ یہ قرآن کے پیغام کے مخالف ہے لہٰذا رد کیا جاتا ہے-

مصنف نے قرانی آیات کی  مرزا قادیانی کی طرح سے خود ساختہ “تفسیر بالرائے” کی ہے، جوسراسر گمراہی ہے- حدیث ہے کہ :” جو شخص قرآن کریم کے معاملہ  میں علم کے بغیر کوئی بات کہے تو اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے” [ترمذی].  یہ بدعت ضلالہ، فتنہ و فساد ہے اور   تفسیر کے اصولوں اور اسلام کے اجماعی طور پر طے شدہ ضوابط کے بھی خلاف یہ ایسی رائے ہے جو میت کے لیے قرآن وسنت  سے ثابت دس حقوق کے خلاف ہے، مسترد کی جانی چاہیے-

 
۵) حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم مبارک انتقال کے بعد دودن زمین پر
 
کتاب الرحیق المختوم، ترجمہ و تصنیف مولانا صفی الرحمان مبارکپوری صفحہ نمبر632-633: اس کتاب میں مذکورہ روایات کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین سے پہلے ہی آپ ﷺکی جانشینی کے معاملے میں اختلاف پڑگیا۔سقیفہ بنی ساعدہ میں مہاجرین و انصار کے درمیان بحث و مناقشہ ہوا،مجادلہ و گفتگو ہوئی،تردید و تنقید ہوئی اور بالآخر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اتفاق ہوگیا۔اس کام میں دوشنبہ کا باقیماندہ دن گزرگیا اور رات آگئی۔ یہاں جو تفصیل ذکر کی گئی ہے اس کے مطابق دوشنبہ دن کے وقت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا اور بدھ کی شب آدھی رات کو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین ہوئی۔
 
استدلال #5:

1. حضرت محمدﷺ کا جسم مبارک کم از کم دو دن تک زمین پر رکھا گیا۔

2.خلافت کے قیام کے فیصلے کے لیے- کیونکہ خلافت ایک اہم چیز ہے۔اس کے بغیر نظام سلطنت و مملکت نہیں چل سکتا۔

3.لہذا کم از کم دو دن تک تواس مقصد کے لیے شہدائے اسلام کی لاشوں کو زمین پر رکھنے کا جواز مل گیا۔

4.آج پوری دنیا جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے ایک محلہ نما بن چکی ہے ۔غیر مسلموں کو دو دن کے اندر شہدائے اسلام کی تازہ لاشیں دکھاکر مطمئن کرنا آسان ہوگا –

ممکن ہے کہ کفر ختم ہوجائے یا پھر کفر مغلوب تو بہرحال ہو جائے گا۔

5.اس کی وجہ سے جنگیں رک جائیںگی، کروڑوں معصوم انسان قتل ہونے سے بچ جائیں گے اور جو دولت مذاہب کے اختلافات کے سبب جنگوں پر خرچ ہورہی ہے وہ غربت و جہالت کے خاتمے پر خرچ ہونے لگے گی ۔ نیز پانچ ارب کافر وں کو مسلمان بناکر جہنم سے بچالینا یہ قیام خلافت کے مسئلہ سے کوئی معمولی کام نہیں ہے۔

6.لہذا اس واقعہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شہدائے اسلام کی چند لاشوں کو زمین پر رکھنا جائز ہوگا۔

7.اس سلسلے میں مردے کودفن کرنے سے متعلق یا جلد دفن کرنے سے متعلق تمام احادیث پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی طرف سے عمل نہیں کیا گیا ۔ لہذا ہم بھی اس مقصد کے لیے ان احادیث پر عمل نہیں کریں گے۔

 
 
تجزیہ # 5:

 استدلال کے سات پوانٹ آسانی کے لیے نمبر کر دیے گیے ہیں اور سرخ رنگ سے نمایاں بھی- ذرا غور کریں تو ان استدلال کا کھوکھلا پن واضح ہو جاتا ہے-

کیا ایک مخصوص بلکل نئی استثنائی کیفیت ، جب صحابہ کرام کو شدید حالت غم میں خلیفہ کا انتخاب اور رسول الله کی تدفین کی ترتیب کرنا تھی ،اس ایک مرتبہ کے عارضی عمل واحد،  اجماع کو کسی اور حالت میں استدلال کے لیے استمعال کیا جاسکتا ہے؟ جبکہ اس کے بعد اس ایک مرتبہ one time کے عارضی اجماع پر صحابہ  نے کبھی عمل نہ کیا بلکہ قرآن و سنت کے مروجہ اصول تدفین کو رائج رکھا جو آج تک رائج ہے- یہ ایک exception تھی نہ کہ rule ، کیونکہ عام حالت کا rule موجود تھا-

پير کے دن ظہر سے قبل حضور کا انتقال ہوگيا۔ مسلمان حضرت محمدﷺکی وفات پر سخت دکھ ، غم کی حالت میں پریشان تھے، اکثر کو آپ کی وفات پر یقین نہیں آ رہا تھا جن میں حضرت عمر فاروق رضی الله بھی شامل تھے-
[إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ ﴿٣٠، سورۃ الزمر) ترجمہ: یقیناً خود آپ کو بھی موت آئے گی اور یہ سب بھی مرنے والے ہیں]
مگر اس کے ساتھ دوسری تلخ حقيقت يہ تھی کہ قبائلی عصبيت سے بھرپور عرب کی نئی رياست ميں حکمرانی کا منصب خالی ہوچکا تھا اور کسی جانشين کا ابھی تک تعين نہيں ہوا تھا۔ چنانچہ وہی ہوا جو اس پس منظر ميں متوقع تھا۔ انصار کے بعض لوگ سقيفہ بنی ساعدہ ميں اکٹھے ہوکر حضور کی جانشينی کے مسئلے پر گفتگو کرنے لگے۔حضرت ابو بکر جو بلا شک و شبہ اس وقت مسلمانوں کے سب سے بڑے ليڈر تھے، ان سے اس موقع پر اگر معمولی سی بھی کوتاہی ہوجاتی تو اسلام کی تاريخ بننے سے پہلے ہی ختم ہوجاتی۔ان حالات ميں حضرت ابو بکر حضور کے انتقال کی خبر سن کر سيدھے مسجد نبوی تشريف لائے اور ان شاندا ر الفاظ سے مسلمانوں کا حوصلہ بلند کيا کہ:
” جو محمد صلی اللہ عليہ وسلم کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ ان کا انتقال ہوگياہے اور جو اللہ کی عبادت کرتا ہے تو وہ جان لے کہ اللہ ہميشہ زندہ رہنے والا ہے کبھی نہيں مرے گا”،(بخاری 640/2641)۔ 

 حضرت ابو بکر صدیق رضی الله نے جب قرآن کی یہ آیت تلاوت کی تو لوگوں کو ہوش آیا:
وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۚ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ ۚ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّـهَ شَيْئًا ۗ وَسَيَجْزِي اللَّـهُ الشَّاكِرِينَ (3:144)
ترجمہ: (حضرت) محمد ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ صرف رسول ہی ہیں، ان سے پہلے بہت سے رسول ہو چکے ہیں، اگر وہ مر جائیں یا شہید ہو جائیں، تو تم اسلام سے اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے؟ اور جو کوئی پھر جائے اپنی ایڑیوں پر تو ہرگز اللہ تعالیٰ کا کچھ نہ بگاڑے گا، عنقریب اللہ تعالیٰ شکر گزاروں کو نیک بدلہ دے گا-(3:144)

عرب ایک قبائلی معاشرہ تھا، تاریخ میں پہلی مرتبہ حضرت محمدﷺ نے ان کو ایک نظام کے تحت منظم کیا، ایک خلیفہ کا انتخاب بہت ضروری فریضہ تھا، اس میں دیر نفاق اور انتشار کا باعث ہو سکتی تھی-

اُسی پیر کی رات تک اس نازک ترین معاملہ کو حسن وخوبی کے ساتھ نمٹانے کے بعد اگلے دن منگل کو صحابہ کرام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دیا اور آپ کی تجہیز وتکفین کی۔ سيدنا علی رضی اللہ عنہ اور ديگر قريبی اعزا نے آپ کے غسل اور تجہیز وتکفین کے فرائض انجام دیے۔ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے حسب ِارشاد آپ کی قبر آپ کی وفات کی جگہ پر ہی بنائی جانی تھی۔ اس ليے تدفين اور نماز ِجنازہ کے ليے کہيں اور جانے کا سوال نہيں تھا۔ چنانچہ تمام اہل مدینہ نے گروہ در گروہ آکر سيدہ عائشہ کے اس حجرے ہی ميں نماز جنازہ ادا کی جہاں آپ کا انتقال ہوا تھا۔اوراس طرح نماز ادا کرنے ميں منگل کا پورا دن صرف ہوا۔ اورپھر رات کے درميانی اوقات ميں حضرت عائشہ کے حجرے ميں حضور کی تدفين عمل ميں-  ۔غور کیا جائے توآپ کی وفات کے بعد ان تمام معاملات کو نمٹانے میں کل دو دن صرف ہوئے-

 تدفین فرض کفایہ ہے اور مسلمانوں میں اتفاق اور اسلام کی ترویج کے لیے خلیفہ کا چناؤ بھی ایک اہم فریضہ تھا-  صحابہ فیصلے مشاورت سے کرتے تھے: 

 

”اور ان کا نظام باہمی مشورے پر مبنی ہے”،(شوریٰ38:42)

یھاں ایک اختلافی مسئلہ درپیش تھا، کہ پہلے خلیفہ کا انتخاب یا تدفین ، صحابہ اکرام کا اجماع اسی پر ہوا کہ دو فرائض میں خلافت کا فیصلہ پہلے کیا جاتا اور پھر تدفین-

 
 
“اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وه سب اس سے راضی ہوئے”(قرآن ٩:١٠٠)

یہ ایک خاص موقع تھا جس کو عام حالات سے استثنیٰ کہہ سکتے ہیں جس کی معقول وجوہات تھیں- اس کو کسی اور حالت سے زبردستی جوڑنا زیادتی ہے-

صحابہ کا اجماع صرف اس مخصوص واقعہ تک محدود تھا جس کو رسول الله ﷺ کی سند سے شرعی حثیت حاصل ہے:
” تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت سے اختلاف دیکھے گا۔  پس میری سنت اور خلفائے راشدین مہدیین کی سنت کو لازم پکڑو ۔ اس سے تمسک کرو اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لو۔ خبردار ( دین میں )  نئی باتوں سے بچنا کیونکہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت ضلالت ہے۔”  (سنن ابی داود ، کتاب السنة ، باب لزوم السنة)
اس خاص واقعہ کے بعد کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ صحابہ نے میت کی تدفین میں دیر کی ہو- رسول اللہ کے حکم کے مطابق میت کو دفن کرنے میں جلدی کرنا ١٤٠٠ سال سے تسلسل میں قائم ہے  کیونکہ:

حضرت ابوہریرہسے مروی ہے‘رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنازے کو تیز لے جایا کرو ۔اس لیے کہ اگر وہ نیک ہے تو (قبر اس کے لیے) خیر ہے، جہاں تم اس کو جلدی پہنچا دو گے اور اگر اس کے سوا کوئی اور صورت ہے تو ایک برا (بوجھ تمہارے کندھوں پر) ہے تو (تم تیز چل کر جلدی) اس کو اپنے کندھوں سے اتار دو گے۔“(بخاری)

اب ایک غیر شرعی عمل،یعنی شہید کی میت کی تدفین نہ کرنا دو دن یا زیادہ،  ایک ایسا مفروضہ قائم کرنا کہ کفار شہید کی میت کو تروتازہ دیکھ اسلام قبول کر لیں گے انتہائی لا یعنی بات ہے کیونکه :

شہید کی نیت کو صرف الله جانتا ہے، شہادت کا مرتبہ الله کے اختیار میں ہے جو عالم الغیب ہے- اگر میت دنیوی طور پر شہید ہے مگر الله کی نظر میں نہیں تو اس کی میت خراب ہو جائے گی جس کے منفی اثرات ہوں گے-میت کا پردہ ، بھید کھل جائے گا جس کی ممانعت ہے-

کیا گارنٹی ہے کہ کفار اسلام قبول کر لیں گے؟ قرآن اور تاریخ میں ایسے واقعات ہیں کہ بہت محیر العقل معجزات دیکھ کر بھی کافروں نے انکار کر دیا-
الله نے فرمایا:
وَمَا مَنَعَنَا أَن نُّرْسِلَ بِالْآيَاتِ إِلَّا أَن كَذَّبَ بِهَا الْأَوَّلُونَ.. ﴿قرآن :٥٩ :١٧ ﴾

“اور ہم نے معجزات بھیجنا اس لئے موقوف کردیا کہ اگلے لوگوں نے اس کی تکذیب کی تھی..” (قرآن ١٧:٥٩)

مشیت الله :
” اگر تیرے رب کی مشیت یہ ہوتی (کہ زمین میں سب مومن و فرمانبردار ہی ہوں) تو سارے اہل زمین ایمان لے آئے ہوتے پھر کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن ہو جائیں؟ (99) کوئی متنفس اللہ کے اذن کے بغیر ایمان نہیں لا سکتا، اور اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے وہ ان پر گندگی ڈال دیتا ہے (100) اِن سے کہو “زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے اسے آنکھیں کھول کر دیکھو” اور جو لوگ ایمان لانا ہی نہیں چاہتے ان کے لیے نشانیاں اور تنبیہیں آخر کیا مفید ہو سکتی ہیں (10:101سورة يونس)

معجزات بطور دلیل قرآن کے برخلاف ہے  (قرآن ١٧:٥٩) (10:101سورة يونس)

امن : یہ استدلال کہ تمام دنیا کے لوگ مسلمان ہو جائیں گے تو امن قائم ہو جائے گا، تاریخ ، انسانی نفسیات ، الله کے نظام اور مشیت سے لاعلمی پر مبنی ہے-  کیا مسلمان آپس میں جنگ و جدل نہیں کرتے؟ جنگ جمل . صفین ، کربلا سے لے کر اسپین ، ہندوستان ، ایران ، ترکی، یمن ، افغانستان ، شام مسلمانوں کی تاریخ  جنگوں سے بھر پور ہے- اسلام کی تبلیغ امن کا پیغام دیں مسلمانوں اور کفار کو جس کو الله ہدایت دے گا وہ راہ  راست پر آ جائیں گے- اگر نہیں تو ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا-

مندرجہ بالا دلائل سے ثابت ہوا کہ، کسی مسلمان يا شہيد کی ميت کو قبر سے نکال کر، یا دفن کیے بغیر بطور ثبوت پيش کرنے کی کوئی شرعی دليل نہيں بلکہ ایسا فعل نہ صرف ميت کی بے حرمتی ہے بلکہ میت کے قرآن و سنت سے ثابت دس حقوق و فرائض کے برخلاف ہے جس کی کوئی مسلمان اور ذی عقل شخص اجازت نہيں دے سکتا۔

رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کی تدفین اور خلیفہ کا چناؤ دو، فرائض کے ادا کرنے کی ترتیب صحابہ اکرام کے صرف عارضی ، خاص موقع پر ایک استثنائی اجماع تھا، جس کی بعد میں کوئی مثال نہیں ملتی- صحابہ کا اجماع اور عمل ہمیشہ میت کو سرعت سے دفن کرنے کے رسول الله صلعم کے فرمان کے مطابق رہا- اس سے بے بنیاد ، قرآن و سنت کے برخلاف مفروضوں کی خواہش کے لیے  غلط تاویل نکالنا گمراہی ہے-

  پس ثابت  ہوا کہ استدلال باطل اور گمراہ کن ہے کیونکہ یہ قرآن کے پیغام کے الٹ ہے لہٰذا رد کیا جاتا ہے-

“مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ” : جو شخص قرآن میں بغیر علم کے گفتگو کرے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔ (ترمذی)
 

حضرت حمزہ (رضی اللہ عنہ) کی نعش زمین پر رکھنے کی خواہش:
استدلال#6:

1. (حضرت) محمدﷺ نے خود یہ خواہش ظاہر کی کہ سید الشہدا ء حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی نعش کو زمین پر رکھ دیا جائے تاکہ چرند پرند ان کے جسم کو کھالیں-
2.اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ شہدائے اسلام کے جسم کو زمین پر رکھنا جائز ہوگا-
3.حضور ﷺ نے ایسا نہیں کیا تھا اس لیے کہ ان کی بہن اور آپﷺ کی پھوپھی کے دل کوشدید صدمہ پہنچنے اور گریہ زاری کا خوف تھا۔
4.لیکن جن شہدائے اسلام کی لاشوں کو ہم زمین پر رکھیں گے ان کے ورثا کوہم سو فیصد مطمئن کرچکے ہوں گے۔ لہذا یہاں وہ خوف نہ ہونے کی وجہ سے زمین پررکھنا صرف جائز ہی نہیں بلکہ سنت بھی ہوگا۔

5.کیونکہ محمدﷺ نے محرم الحرام کا صرف ایک روزہ رکھا تھا ۔جب آپ ﷺ کو بتایا گیا کہ یہودی بھی دس محرم کو روزہ رکھتے ہیں تو آپﷺ نے خواہش ظاہر کی تھی کہ اگر آئندہ سال زندہ رہے تو ہم دو روزے رکھیں گے۔ اور آج بھی مفتی حضرات آپ ﷺکی اسی خواہش کو سنت کا درجہ دے کر یہ فتوی صادر کرتے ہیں کہ محرم میں ایک نہیں بلکہ دوروزے رکھنا سنت ہے ۔لہذا ہم بھی محمدﷺ کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ چند شہدائے اسلام کی لاشوں کا زمین پر رکھنا مذکورہ مقصد کے لیے جائز ہوگا۔

 
تجزیہ استدلال #6:
“مولانا” اور “عالم” صاحب نے مکمل حدیث بیان نہیں  کیونکہ ان کے موقف  تردید  اس میں شامل ہے(امام ترمذی کہتے ہیںکہ انس کی حدیث حسن غریب ہے) مکمل حدیث :
جامع سنن ترمزی # 1016 صحیح
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو صَفْوَانَ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: ‏‏‏‏ أَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حَمْزَةَ يَوْمَ أُحُدٍ، ‏‏‏‏‏‏فَوَقَفَ عَلَيْهِ فَرَآهُ قَدْ مُثِّلَ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏    لَوْلَا أَنْ تَجِدَ صَفِيَّةُ فِي نَفْسِهَا لَتَرَكْتُهُ حَتَّى تَأْكُلَهُ الْعَافِيَةُ حَتَّى يُحْشَرَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ بُطُونِهَا   . قَالَ:‏‏‏‏ ثُمَّ دَعَا بِنَمِرَةٍ فَكَفَّنَهُ فِيهَا، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَتْ إِذَا مُدَّتْ عَلَى رَأْسِهِ بَدَتْ رِجْلَاهُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا مُدَّتْ عَلَى رِجْلَيْهِ بَدَا رَأْسُهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَكَثُرَ الْقَتْلَى وَقَلَّتِ الثِّيَابُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَكُفِّنَ الرَّجُلُ وَالرَّجُلَانِ وَالثَّلَاثَةُ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يُدْفَنُونَ فِي قَبْرٍ وَاحِدٍ، ‏‏‏‏‏‏فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُ عَنْهُمْ:‏‏‏‏    أَيُّهُمْ أَكْثَرُ قُرْآنًا فَيُقَدِّمُهُ إِلَى الْقِبْلَةِ   ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَدَفَنَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِمْ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ أَنَسٍ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، ‏‏‏‏‏‏النَّمِرَةُ الْكِسَاءُ الْخَلَقُ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ خُولِفَ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ فِي رِوَايَةِ هَذَا الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏فَرَوَى اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ، وَرَوَى مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ثَعْلَبَةَ، عَنْ جَابِرٍ، وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا ذَكَرَهُ عَنْ الزُّهْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ حَدِيثُ اللَّيْثِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرٍ أَصَحُّ.
مفھوم : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احد کے دن حمزہ ( کی لاش ) کے پاس آئے۔ آپ اس کے پاس رکے، آپ نے دیکھا کہ لاش کا مثلہ ۱؎ کر دیا گیا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اگر صفیہ ( حمزہ کی بہن ) اپنے دل میں برا نہ مانتیں تو میں انہیں یوں ہی ( دفن کیے بغیر ) چھوڑ دیتا یہاں تک کہ درند و پرند انہیں کھا جاتے۔ پھر وہ قیامت کے دن ان کے پیٹوں سے اٹھائے جاتے“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «نمر» ( ایک پرانی چادر ) منگوائی اور حمزہ کو اس میں کفنایا۔ جب آپ چادر ان کے سر کی طرف کھینچتے تو ان کے دونوں پیر کھل جاتے اور جب ان کے دونوں پیروں کی طرف کھینچتے تو سر کھل جاتا۔ مقتولین کی تعداد بڑھ گئی اور کپڑے کم پڑ گئے تھے، چنانچہ ایک ایک دو دو اور تین تین آدمیوں کو ایک کپڑے میں کفنایا جاتا، پھر وہ سب ایک قبر میں دفن کر دیئے جاتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بارے میں پوچھتے کہ ان میں کس کو قرآن زیادہ یاد تھا تو آپ اسے آگے قبلہ کی طرف کر دیتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مقتولین کو دفن کیا اور ان پر نماز نہیں پڑھی-
۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- انس کی حدیث حسن غریب ہے۔ ہم اسے انس کی روایت سے صرف اسی طریق سے جانتے ہیں، ۲- اس حدیث کی روایت میں اسامہ بن زید کی مخالفت کی گئی ہے۔ لیث بن سعد بسند «عن ابن شهاب عن عبدالرحمٰن بن كعب بن مالك عن جابر بن عبد الله بن زيد» ۳؎ روایت کی ہے اور معمر نے بسند «عن الزهري عن عبد الله بن ثعلبة عن جابر» روایت کی ہے۔ ہمارے علم میں سوائے اسامہ بن زید کے کوئی ایسا شخص نہیں ہے جس نے زہری کے واسطے سے انس سے روایت کی ہو، ۳- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: لیث کی حدیث بسند «عن ابن شهاب عن عبدالرحمٰن بن كعب بن مالك عن جابر» زیادہ صحیح ہے، ۴- نمرہ: پرانی چادر کو کہتے ہیں۔
الله نے اپنا کلام آپ نازل کیا اور آپ نے الله کا پیغام امت  کو بغیر کمی بیشی کے مکمل طور پر  پہنچا دیا- آخری خطبہ حج می بھی آپ نے لوگوں سے استسفار کے کہ کیا آپ نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا تو لوگوں نے اقرار کر کہ شہادت دی- میت کو دفن کرنا اور میت کے دس حقوق قرآن سنت سے ثابت  ہیں جن پر صحابہ اکرام اور امت ١٤٠٠ سال سے عمل  پیرا ہے –
حضرت حمزہ (رضی  الله)جو آپ کے چچا تھے ان کی میت کا کفار مکہ نے مثلہ کیا تھا ، جس کا آپ کو بہت غم اور افسوس تھا- اس کیفیت میں آپ نے جو کچھ فرمایا وہ ایک حالت غم میں ایک  انسانی رد عمل تھا، جو دین  شریعت  کی بنیاد نہں، بلکہ آپ کا وہ عمل سنت ہے جو آپ نے حضرت حمزہ (رضی  الله) اور دوسرے شہداء کی میتوں کے ساتھ کیا یعنی ان سب کو دفن کیا جس کی تفصیل اسی مذکورہ حدیث میں موجود ہے- اس کے بعد بھی تسلسل سے میتوں کو ہمیشہ قبر میں دفن کیا جاتا ہے- یہی شریعت ہے-
فرمانِ رسالت مآب ﷺ ہے : ” انما انا بشر اذا امرتکم بشئ من دینکم فخذوا به و اذا امرتکم بشئ من رائ فانما انا بشر۔”
مفہوم :” بلاشبہ میں انسان ہوں اگر میں دین میں کسی بات کا حکم دوں کو اسے مضبوطی سے تھام لو ، لیکن اگر اپنی رائے سے فیصلہ دوں تو میں انسان ہی ہوں۔” (صحیح مسلم ٦٠٢٢، کتاب الفضائل ، بَاب وُجُوبِ امْتِثَالِ مَا قَالَهُ شَرْعًا دُونَ  ما ذکره من معایش الدنیا علی سبیل)
اسی طرح ایک اور موقع پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
” انما ظننت ظنا و لا تواخذنی باظن و لکن اذا حدثتکم عن الله شیئاً فخذوا به فانی لم اکذب علی الله۔”
مفھوم : ” میں نے ایک گمان کیا تھا ، اس لیے میرے گمان پر نہ جاؤ لیکن جب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی بات کہوں تو اس کو لازم پکڑو کیونکہ میں اللہ پر جھوٹ نہیں باندھتا۔”( صحیح مسلم ، کتاب الفضائل ، بَاب وُجُوبِ امْتِثَالِ مَا قَالَهُ شَرْعًا دُونَ  ما ذکره من معایش الدنیا علی سبیل)
مزید وضاحت :
قرآن  اور روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کلام بھی شرع بیان کرنے کے لیے کیا ہے وہ حق ہے، حجت ہے، وحی ہے اور قابل اتباع ہے۔ لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ آپ کا ہر قول کسی شرعی حکم کو بیان کرنے کے لیے نہیں ہوتا تھا۔ بعض اوقات آپ ہماری طرح دنیاوی اُمور میں بھی گفتگو کرتے تھے اور آپ کایہ کلام کسی شرعی حکم کے استنباط کے لیے مصدر کی حیثیت نہیں رکھتا ہے ۔الدکتور عبد الکریم زیدان لکھتے ہیں :
شاہ ولی اللہ صاحب کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ اقوال جو تبلیغِ رسالت کے باب سے نہیں ہیں(یعنی دنیاوی امور سے متعلق ہیں) ، بعض حضرات کے مناقب سے متعلق اقوال،طب سے متعلق بعض اقوال ،آپ کے دور میں کسی جزئی مصلحت کے حصول کے لیے آپ کے جاری کردہ احکامات،آپ کے عادی امور، آپ کے فیصلے(یعنی قضاء) اور آپ کے بعض احکامات کا آپ کی قوم کے بعض لوگوں کے لیے خاص ہوناوغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔
شاہ صاحب نے اس موقف کی دلیل کے طور پرکہ آپ کاہر قول ہمارے لیے شریعت نہیں ہے، ایک حدیث کو بیان کیا ہے۔حضرت خارجہ بن زید بن ثابت سے روایت ہے:
آپ نے فرمایا کہ:
“تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَاتَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ رَسُوْلہِ”۔(مشکوٰۃ شریف:۲۹)”
میں تمہارے درمیان دوچیزوں کو چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم ان دونوں کومضبوطی سے تھامے رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہوگے اور وہ کتاب اللہ اور سنت رسولﷺ ہے۔ “
قرآن میں کہیں میت کو دفن نہ کرنے کا حکم ہے بلکہ دفن کرنا ہے(قرآن؛ 5:31، 80:21) ، سنت میں یہی ثابت اور مذکورہ حدیث میں بھی شہداء کو دفن کرنا ثابت ہے تو پھر آپ  ﷺ کے حالت غم میں الفاظ کو سنت کیسے کہ سکتے ہیں جن پر آپ ﷺ  نے خود بھی عمل نہیں کیا؟ ایک حسن غریب حدیث کے الفاظ کہ؛ ”اگر صفیہ ( حمزہ کی بہن ) اپنے دل میں برا نہ مانتیں تو میں انہیں یوں ہی ( دفن کیے بغیر ) چھوڑ دیتا یہاں تک کہ درند و پرند انہیں کھا جاتے۔ پھر وہ قیامت کے دن ان کے پیٹوں سے اٹھائے جاتے“… کیا رسول اللہ  ﷺ کسی حکم الہی کو تبدیل کر دیتے کہ کوئی عزیز خاتون کو برا محسوس ہو گا؟ یہ قرآن اور رسول الله ﷺ  کی شان و مرتبہ کے خلاف ہے- پس وہ الفاظ حالت رنج میں آپ کا “ظن” ہو سکتا ہے ، جس طرح کا ذکر آپ نے ایک حدیث میں کیا جو پہلے بیان کی گئی –
لہٰذا : ”اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال صرف اُس وقت مصدرِ شریعت ہوں گے جب ان سے آپ کامقصود احکامِ شرعیہ کو بیان کرنا ہو۔لیکن اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض دنیاوی امور کے بارے میں کچھ گفتگوایسی فرمائی جس کا شریعت سے کوئی تعلق نہ ہو تو آپ کا ایسا کلام احکامِ شرعیہ کے لیے کوئی دلیل نہیں بنے گا اور نہ ہی وہ مصدر شریعت ہو گاکہ جس سے احکام نکالے جائیں،اور نہ ہی آپ کے ایسے اقوال کی پیروی لازمی ہے-“
اس سے یہ استدلال کرنا کہ شہداء کی میتوں  کو دفن نہ کرنا قرآن و سنت کے برخلاف ہے-
محرم الحرام کا روزہ:
کیونکہ محمدﷺ نے محرم الحرام کا صرف ایک روزہ رکھا تھا ۔جب آپ ﷺ کو بتایا گیا کہ یہودی بھی دس محرم کو روزہ رکھتے ہیں تو آپﷺ نے خواہش ظاہر کی تھی کہ اگر آئندہ سال زندہ رہے تو ہم دو روزے رکھیں گے۔ یہ  خواہش یہودیوں سے فرق قائم کرنے کے لیے تھی،  اس خواہش پر آپ  ﷺ فوری طور پر عمل نہ کر سکتے تھے، اگلے محرم تک انتظار کرنا پڑتا-  مگر حضرت حمزہ رضی الله کی میت کو اگر آپ چاہتے تو نہ دفن کرتے مگر دفن کیا- صحابہ اکرام کا اجماع محرم کے روزہ پر ہوا اور آپ کی خواہش شریعت کا حصہ بن گیئی کیونکہ آپﷺ کا فرمان ہے :
” فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بعدی فَسَيَرَى اخْتِلافًا كَثِيرًا ، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ ، فَتَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ ، فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلالَةٌ ۔”  (سنن ابی داود ، کتاب السنة ، باب لزوم السنة)
” تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت سے اختلاف دیکھے گا۔  پس میری سنت اور خلفائے راشدین مہدیین کی سنت کو لازم پکڑو ۔ اس سے تمسک کرو اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لو۔ خبردار ( دین میں )  نئی باتوں سے بچنا کیونکہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت ضلالت ہے۔”  (سنن ابی داود ، کتاب السنة ، باب لزوم السنة)
لہٰذا ثابت  ہوا کہ میت کو قرآن و سنت کے مطابق دفن کرنا ضروری ہے اس کے برخلاف جو عمل ہو گا وہ ضلالت اور گمراہی ہے :
تفسیر القرآن بعقل سلیم :
عقل سلیم کی اہمیت وضرورت سے کسی کو انکار نہیں ،دنیا کے ہر کام میں اسکی اہمیت ہوتی ہے اور پچھلے مآخذ سے فائدہ اٹھانا بغیر عقل سلیم کے معتبر نہیں- اہل علم نے اس معاملہ میں یہ اصول ضرور بتلایا ہے کہ عقل سلیم کے ذریعہ مستنبط ہونے والے وہی مسائل اور معارف معتبر ہوں گے جو سابق مآخذ سے متصادم نہ ہوں، یعنی ان سے نہ ٹکراتے ہوں، اصول شرعیہ کے خلاف کوئی نکتہ آفرینی کی جائے تو اسکی کوئی قدر وقیمت نہ ہوگی۔
تفسیر بالرائے:
“مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ”۔ جو شخص قرآن میں بغیر علم کے گفتگو کرے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔ “مَنْ قَالَ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِرَأْيِهِ فَأَصَابَ فَقَدْ أَخْطَأ”۔ جو شخص قرآن کے معاملے میں (محض) اپنی رائے سے گفتگو کرے اور اس میں کوئی صحیح بات بھی کہہ دے تب بھی اس نے غلطی کی۔ [ ترمذی،باب ماجاء فی یفسر القرآن ،حدیث نمبر:2874۔ ابو داؤد،الکلام فی کتاب اللہ بغیر علم،حدیث نمبر:3167]
حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا بشر بن السري، حدثنا سفيان، عن عبد الاعلى، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس رضي الله عنهما، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ ” من قال في القرآن بغير علم فليتبوا مقعده من النار “، ‏‏‏‏‏‏قال ابو عيسى:‏‏‏‏ هذا حديث حسن صحيح.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے بغیر علم کے (بغیر سمجھے بوجھے) قرآن کی تفسیر کی، تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے“۔ [ترمذی،حسن صحیح ۔ حدیث نمبر: 2950]
مرزا قادیانی کی  تفسیر بالرائے کا انجام :
مرزا قادیانی نے یہ قبیح حرکت کی قرآن میں “خَاتَمَ النَّبِيِّينَ” کی تشریح اور معانی تفسیر بالرائے کرتے ھوۓ اپنی مرضی سے قرآن ،سنت ، احادیث اور  لغت  عربی  کے برخلاف مطلب نکالا تاکہ وہ اپنی جھوٹی نبوت کا جواز قرآن کی تحریف (معانی) سے حاصل کر سکے-  سیاق وسباق اور لغت  قطعی طور پر اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ خاتم النبییّن کے معنی سلسلۂ نبوّت کو ختم کر دینے والے ہیں، کہ حضورؐ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے۔ عرنی لغت اور محاورے کی رُو سے ’’ ختم‘‘ کے معنی مُہر لگانے ، بند کرنے ، آخر تک پہنچ جانے ، اور کسی کام کو پورا کر کے فارغ ہو جانے کے ہیں۔   اس بنا پر تمام اہل لغت اور اہل تفسیر نے بالاتفاق “خاتم النبییّن” کے معنی “آخر النبییّن”  کے لیے ہیں۔ عربی لُغت و محاورے کی رُو سے خاتم کے معنیٰ ڈاک خانے کی مُہر کے نہیں ہیں (جس طرح قادیانی تفسیر کرتے ہیں) جسے لگا لگا کر خطوط جاری کیے جاتے ہیں ، بلکہ اس سے مراد وہ مُہر ہے جو لفافے پر اس لیے لگائی جاتی ہے کہ نہ اس کے اندر سے کوئی چیز باہر نکلنے  نہ باہر کی کوئی چیز اندر جائے۔(تفہیم القرآن سے اقتباس)
جو شخص بھی مرزا قادیانی کی طرح اپنی مرضی سے قرآن کی تفسیر، تاویل یا  ایسا ترجمہ کرے گا یا ایسی رائے کا اظہار کرے جو قرآن وسنت کے خلاف ہو تو اس کا انجام اس دنیا میں بھی  برا ہو گا ، آخرت کا معاملہ اس حدیث سے واضح ہے:
”جس نے بغیر علم کےقرآن کی تفسیر کی، تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے“۔[ترمذی حسن صحیح]
 
۷) جوتے پہننے کی سنت کی خلاف ورزی
یہودی چونکے ننگے پیر نماز پڑھتے ہیں اس لیے ان کی مخالفت کے سبب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جوتے پہن کر بھی نماز پڑھی اور ایسا کرنا سنت ہے۔ (ابو دائود652،صحیح البانی، صحیح ابی دائود607)۔جب ڈاڑھی رکھنے کو واجب قرار دیا گیا اور مشرکین کی مخالفت کے تحت اب تک اس پر اتنا زور دیا جاتا ہے تو جوتے پہن کر نماز پڑھنے پر زور کیوں نہیں دیا جاتا؟  لہذا جب شریعت کے عمل جائز ہے تو اسی طرح لاش کا نہ دفنانا بھی جائز ہے ۔
تجزیہ استدلال #7
ایک روایت میں ہے: عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ رضی الله عنه عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يُصَلِّي حَافِيًا وَمُنْتَعِلًا.
حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ ان کے والد ماجد ان کے جد امجد نے فرمایا کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ننگے پاؤں اور نعلین مبارک پہنے ہوئے نماز پڑھتے دیکھا۔ [أبي داود، السنن، 1: 176، رقم: 653، ابن ماجه، السنن، 1: 330، رقم: 1038، بيروت: دار الفکر]
رسول اللہﷺ نے فرمایا:”جب تم میں سے کوئی آدمی مسجد کی طرف آئے تو وہ دیکھے اگر اس کے جوتوں میں کوئی گندگی وغیرہ لگی ہو تو اسے صاف کرے اور ان میں نماز پڑھے ۔
(ابو داود:٦٥٠اس حدیث کو امام ابن خزیمہ : (٧٨٦)ابن حبان (٢١٨٥)اور عبدالحق الاشبیلی
(کذا فی تفسیر قرطبی:١١/١٥٧)اور امام منذری (کذا فی عون المعبود :تحت شرح حدیث:٣٨١)
نے کہا صحیح ہے اور امام حاکم نے کہا :
حدیث صحیح علی شرط مسلم )(مستدرک حاکم) جوتے پہن کر نماز پڑھنا ایک رخصت ہے مگر جوتے کی آڑ میں مسجد میں کا احترام پامال کرنا درست نہیں ۔جوتے کو بھی دیکھا جائے گا کہ آیا اس کے ساتھ مسجد میں نماز پڑھنے سے مسجد کی صفائی کا نظام تو خراب نہیں ہوتا ۔
مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ جوتے پہن کر مسجد میں نماز ادا کی جا سکتی ہے لیکن آج کل مسجدوں میں چمکدار ٹائلیں اور بہترین قسم کے قالین بچھے ہوئے ہوتے ہیں جن پر جوتے پہن کر چلنے سے صفائی رکھنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ لہٰذا آج کل مسجد میں جوتے پہن کر نماز پڑھنا مناسب نہیں ہے اور یہ وقت کی ضرورت بھی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے گھر کو بھی باقی عمارتوں سے زیادہ صاف اور ستھرا رکھا جائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین پاک اتار کر نماز پڑھنے کی شاید حکمت بھی یہی تھی کہ زمانے گزر جانے کے بعد وقت کی ضرورت کے مطابق کوئی تبدیلی بھی آئے تو عاشقان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سنت سے محروم نہ رہیں۔
داڑھی رکھنا اور جوتوں میں نماز پڑھنا دو مختلف مسائل ہیں- داڑھی کا معامله سنت کا ہے اس میں دو رائے نہیں- جوتوں اور جوتوں کے بغیر تماز پڑھنا آپ سے ثابت ہے- داڑھی نہ رکھنے خلاف سنت ہے- اس کو لاش کو دفن کرنے کی حجت کیسے بنایا جا سکتا ہے؟
میت کو قبر میں دفن کرنے کا حکم بھی الله کا ہے( قرآن،5:31،80:21). اس فرض کو تسلسل سے رسول الله  صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا فرمایا اور ١٤٠٠ سال سے امت مسلمہ اس پر عمل کر رہی ہے- ١٤٠٠ سال میں ایک مثال بھی نہیں ملتی کہ کسی مومن کی میت کو جان بوجھ کر نہ دفنایا گیا ہو- مسلمان الله اور رسول کے حکم اور تعلیمات کی خلاف درزی کا سوچ بھی نہیں سکتے-  میت کے دس حقوق قرآن  سے ثابت ہیں جن پر مسلمان عمل کرتے ہیں-
میت کو غسل دینا،تکفین کرنا، نمازِ جنازہ میں شرکت کرنا،ایک معزز مہمان کو رخصت کرنے کی طرح لاش کے ساتھ احتراماً جنازہ گاہ اور قبرستان جانا،قبر کی تیاری میں کام کرنا، لاش کی نہایت ادب واعزاز کے ساتھ تدفین کرنا،اس کے لئے دعائیں کرنا،ایصالِ ثواب کرنا،وقتاً فوقتاً زیارت قبور کے لئے جانا، میت کی قبر اور اس کے اعضاء کا احترام کرنا۔لاش اور میت کے یہ دس حقوق قرآن وسنت سے بڑی تفصیل کے ساتھ ثابت ہیں ، تفصیل کے لئے احکام ِمیت، کتاب الجنائز ، حقوقِ میت اور فتاویٰ القبور کو دیکھا جاسکتا ہے۔
لاش کو دفن نہ کرنا قرآن و سنت کے خلاف ہی-
 

۸) اجتہاد
تمام انبیائے کرام علیہم السلام اور حضور نبی کریم محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق مردوں کو دفنانے کی تعلیم ہے۔اس کی چند حکمتیں ہیں

اگر دفن نہ کیا جائے تو:

۱) ورثا ء کا رونا دھونا تسلسل کے ساتھ برقرار رہے گا جو کہ نقصان دہ ہے۔
۲) دفن نہ کرنے سے جو لاشیں سڑگل جانے والی ہیں ان سے معاشرے میں بدبو پیدا ہوگی اور لوگوں کو تکلیف پہنچے گی۔
۳) دفن نہ کرنے کی وجہ سے جن لوگوں کے پاس اپنی زمین نہیں ہے ان کے لیے مسائل پیدا ہوتے کہ وہ ان لاشوں کو کہاں رکھتے۔
۴) اب تک زمین لاشوں سے تنگ پڑجاتی ۔
۵) گناہ گاروں کی پردہ داری بھی مقصود ہے کہ لاشوں کے سڑنے گلنے سے عوام میں ان کی خفت ہوتی۔
۶) ہم نے اخبارات میں پڑھا ہے کہ بعض جانور سے بدتر انسان لاشوں کو میڈیکل تجربات کے لیے بیچتے ہیں ،ان سے زنا کرتے ہیں،ان کا گوشت کھالیتے ہیں،ان کا کفن چرالیتے ہیں، ان کے اعضا ء کو جادو وغیرہ میں استعمال کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔

میرے  (مولانا /عالم کے ) خیال میں مذکورہ حکمتوں کی وجہ سے عمومی طور پردفن کرنے کا حکم ہے اورحضور نبی کریم محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی ہے۔


لیکن شہدائے اسلام کی چند لاشوں کو زمین پر رکھنے سے ہمارے مذکورہ نہایت ہی اہم مقاصد کے لیے بالکل جائز ہوگا۔اور بیان کرد ہ حکمتوں کی مخالفت بھی نہیں ہوگی۔اگر اہل بصیرت مسلمان غور کریں تو ہماری بیان کردہ تمام باتوں سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ شہدائے اسلام کی تازہ لاشوں کو زمین پر رکھنا تاکہ غیرمسلم انہیں میڈیاکے ذریعے آنکھوں سے دیکھ کر دین اسلام کی سچائی کے بارے میں مطمئن ہوسکیں اور اسلام میں داخل ہوںبالکل درست ہے۔


جب دین اسلام غالب ہوجائے اور میرا خیال ہے کہ چند لاشوں کو زمین پر ایک د و سال کے لیے رکھنے سے ان شاء اللہ دین اسلام غالب ہوجائے گاجو کہ ہمارا مقصد ہے ۔پھر اس کے بعد ان لاشوں کو دفن کردیا جائے تواس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔اگر ہمارا مقصد ایک ماہ میں ہی پورا ہوجاتا ہے تو ہم انہیں تب ہی دفن کردیں گے۔

لہذا اب میں آپ مفتیان کرام سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ مذکورہ باتوں کی روشنی میںہمارا ایسا کرنا آپ کی نگاہ میں کیسا ہے اور دین اسلام اس بارے میں کیا کہتا ہے۔اللہ تعالیٰ کو حاظر ناظر جانتے ہوئے سو فیصد اخلاص اور پورے غور وفکر کے ساتھ ہمارے اس سوال کا جواب دیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔

 

تجزیہ استدلال #8

اجتہاد تب کیا جائیگا جب اس نۓ مسلے/واقعہ کا واضح جواب قرآن-و-سنّت میں نہ ہو- میت کی تدفین اور دس حقوق و فرائض قرآن و سنت سے ثابت ہیں اس میں اجتہاد کی کوئی گنجائش نہیں-

اسلام میں میت کے حقوق :

میت کو قبر میں دفن کرنے کا حکم بھی الله کا ہے( قرآن،5:31،80:21). اس فرض کو تسلسل سے رسول الله  صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا فرمایا اور ١٤٠٠ سال سے امت مسلمہ اس پر عمل کر رہی ہے- ١٤٠٠ سال میں ایک مثال بھی نہیں ملتی کہ کسی مومن کی میت کو جان بوجھ کر نہ دفنایا گیا ہو تنقید تو تب ہو جب کوئی حکم عدولی کرے، مسلمان الله اور رسول کے حکم اور تعلیمات کی خلاف درزی کا سوچ بھی نہیں سکتے-  میت کے دس حقوق قرآن  سے ثابت ہیں جن پر مسلمان عمل کرتے ہیں-میت کو غسل دینا،تکفین کرنا، نمازِ جنازہ میں شرکت کرنا،ایک معزز مہمان کو رخصت کرنے کی طرح لاش کے ساتھ احتراماً جنازہ گاہ اور قبرستان جانا،قبر کی تیاری میں کام کرنا، لاش کی نہایت ادب واعزاز کے ساتھ تدفین کرنا،اس کے لئے دعائیں کرنا،ایصالِ ثواب کرنا،وقتاً فوقتاً زیارت قبور کے لئے جانا، میت کی قبر اور اس کے اعضاء کا احترام کرنا۔لاش اور میت کے یہ دس حقوق قرآن وسنت سے بڑی تفصیل کے ساتھ ثابت ہیں ،جن کو یہاں اختصار کے ساتھ بیان کیا، تفصیل کے لئے احکام ِمیت، کتاب الجنائز ، حقوقِ میت اور فتاویٰ القبور کو دیکھا جاسکتا ہے۔

اجتہاد کیا ہے ؟

اجتہاد شریعت اسلامیہ کی ایک اہم اصطلاح ہے ۔مخصوص شرائط کے ساتھ فقہی منابع میں سے عملی احکام اور وظائف کا استنباط کرنا اجتہاد کہلاتا ہے . انسان میں ایسی صلاحیت کا پایا جانا کہ جس کے ذریعے وہ اسلامی احکام کو اس کے مخصوص منابع اور مآخذوں سے اخذ کر سکے اس صلاحیت اور قابلیت کو اجتہاد کہا جا تا ہے۔جس شخص میں یہ صلاحیت پائی جائے اسے مجتہد کہا جاتا ہے. اکثر علماء کے نزدیک فقہی منابع،کتاب، سنت، اجماع اور عقل ہے۔

مشہور حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے معاذ ابنِ جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا معلم (تعلیم دینے والا) اور حاکم بناکر بھیجا؛ تاکہ وہ لوگوں کو دین کے مسائل بتائیں اور فیصلہ کریں:

عَنْ مُعَاذٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذًا إِلَى الْيَمَنِ فَقَالَ كَيْفَ تَقْضِي فَقَالَ أَقْضِي بِمَا فِي كِتَابِ اللَّهِ قَالَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ قَالَ فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَجْتَهِدُ رَأْيِي وَلَا آلُو ، فَضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدْرَهُ ، وَقَالَ : الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ لِمَا يُرْضِي رَسُولَ اللَّهِ
[ سنن ابوداؤد:جلد سوم: فیصلوں کا بیان :قضاء میں اپنی رائے سے اجتہاد کرنے کا بیان]

ترجمہ: جب حضور اکرم نےمعاذ کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجنے کا ارادہ کیا فرمایا تم کس طرح فیصلہ کرو گے جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ پیش ہو جائے انہوں نے فرمایا کہ اللہ کی کتاب سے فیصلہ کروں گا آپ نے فرمایا اگر تم اللہ کی کتاب میں وہ مسئلہ نہ پاؤ تو فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا حضور ﷺ نے فرمایا کہ اگر سنت رسول میں بھی نہ پاؤ تو اور کتاب اللہ میں بھی نہ پاؤ تو انہوں نے کہا کہ اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور اس میں کوئی کمی کوتاہی نہیں کروں گا، رسول اللہ ﷺ نے ان کے سینہ کو تھپتھپایا اور فرمایا کہ اللہ ہی کیلئے تمام تعریفیں ہیں جس نے اللہ کے رسول کے رسول (معاذ) کو اس چیز کی توفیق دی جس سے رسول اللہ راضی ہیں-
[ سنن ابوداؤد:جلد سوم: فیصلوں کا بیان :قضاء میں اپنی رائے سے اجتہاد کرنے کا بیان]

اجتہاد کب اور کیوں کیا جاتا ہے ؟

  1. قرآن میں سب مسائل کا “واضح و مفصل” حل نہیں (مگر اصول موجود ہیں)- 2. سنّت میں بھی “نئے پیش آمدہ” مسائل کا “واضح و مفصل” حل نہیں، مگراصول موجود ہیں ، سو فقہ دین (قرآن 9:122) کا انکار کرنے والے صحیح نہیں. 3. اجتہاد تب کیا جائیگا جب اس نۓ مسلے/واقعہ کا واضح جواب قرآن و سنّت میں نہ ہو- مگر اجتہاد میں قرآن و سنت سے بنیادی اصولوں کو مد نظر رکھنا چاہیے، وہ ان کے مخالف نہ ہوں-

میت کی تدفین اور دس حقوق و فرائض قرآن و سنت سے ثابت ہیں اس میں اجتہاد کی کوئی گنجائش نہیں- 4. اجتہاد کا کرنے کا “اہل” ہر عامی(عام شخص) نہیں، بلکہ کوئی علمی-شخصیت کسی کے دینی علمی سمجھ میں گہرائی اور مہارت پرکھ لینے کے بعد تائیدی اجازت دے. چنانچہ اس سے مراد وہ حاکم ہے جو عالم ہو حکم دینے کے لائق ہو اور جاہل کا حکم دینا درست نہیں، اگر وہ حکم کرے گا تو گناہگار ہوگا 5. شرعی فیصلہ/فتویٰ دینے کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے قرآن سے فیصلہ کیا جائیگا، نہ کے سنّت یا قیاس سے. قرآن کے بعد سنّت سے پھر قیاس سے. 6. جب یمن کے عربی عوام کو بلا واسطہ معلم (تعلیم دینے والا) اور قاضی (فیصلہ کرنے والے) کے بذات خود قرآن و حدیث پڑھ سمجھکر عمل کرنے اور ہر ایک کا معلم (تعلیم دینے والا) اور قاضی (فیصلہ کرنے والا) بننے کی بجاۓ وہاں کے لیے ایک رہبر (امام) معلم و قاضی بناکر بھیجنے کی احتیاج (ضرورت) تھی ، تو کسی عالم (جو علوم_انبیاء کے وارث ہوتے ہیں) کی امامت (راہبری) کی احتیاج تو مزید بڑھ جاتی ہے ان عجمی عوام کیلئے جو عربی قرآن کے صحیح ترجمہ و تفسیر اور سنّت_قائمہ (غیر منسوخہ) معلوم کرنے کو عربی احادیث میں ثابت مختلف احکام و سنّتوں میں ناسخ و منسوخ آیات اور افضل و غیر افضل احکام جاننے کے زیادہ محتاج ہیں، اور بعد کے جھوٹے لوگوں کی ملاوتوں سے صحیح و ثابت اور ضعیف و بناوٹی روایات کے پرکھنے کے اصول التفسیر القرآن اور اصول الحدیث ، جن کا ذکر قرآن و حدیث میں صراحتاً مذکور نہیں بلکہ ائمہ_مسلمین کی دینی فقہ (القرآن : 9:122) کے اجتہادی اصول الفقہ ہیں، یہ اسی اجتہاد کے اصول_شریعت سے ماخوذ ہیں.

http://rightfulreligion.blogspot.com/2018/01/rights-of-dead.html

………………………………………………….

حاصل کلام  :

  • صراط  مستقیم جو قرآن و سنت اور اصحابہ اکرام کا راستہ ہے اختیار کریں-
  • گمراہی اور فتنہ و فساد سے اجتناب
  • بدعات ضلالہ کو مسترد کریں ، امت مسلمہ کا اتحاد، فرقہ واریت سے اجتناب-
  • اجماع امت میں تفرقہ و فساد پیدا نہ کریں-
  • اسلام کے فروغ اور دعوه  کے لیے ذاتی و انفرادی تاویلات کی بجائے  1400 سال سے قرآن و سنت اور اصحابہ اکرام کا مروجہ طریقه اختیار کریں-
  • میتوں کا احترام، جلد تدفین کریں ، لان النبش حرام( قبر اکھاڑنا حرام)
  • اپنی تجاویز “اسلامی نظریاتی کونسل”، اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد ، اور معروف دینی دارالعلوموں کو تحقیق و تجزیہ کے لیے بھیجیں- ان کی سفارشات پر عمل کریں- جب تک نظریہ و تجاویز کو اجماع کی حثیت حاصل نہ ہو ان کی عوام میں تشہیر گمراہی کا باعث ہو گی.
  • کوئی انسان عقل کل نہیں، انسان سے غلطی ہو سکتی ہے مگر “اجماع امت” غلطی سے محفوظ ہے فرمان رسول الله (صلی الله علیہ وسلم) کے مطابق.

References/Links:

  1.    https://goo.gl/qNbbZy   تفصیلات حاصل کریں
  2. مشہور ٧ تفاسیر قرآن http://myonlinequran.com
  3. http://www.rightfulreligion.com/ur608_fresh-dead-bodies-muslim-martyrs-earth
  4. https://www.express.pk/story/314876/
  5. http://www.urdumajlis.net/threads/31057/
  6. https://ur.wikipedia.org/wiki/تفسیر_قرآن
  7. میت کے احکام : https://www.urduweb.org/mehfil/threads/25998
  8. http://www.farooqia.com/ur/lib/1433/11/p33.php
  9. http://mercyprophet.org/mul/ur/node/7722
  10. http://magazine.mohaddis.com/shumara/328-jan-1992/3137-tafseer-quran-majeed-aqsaam

 بدعت کیا ہے >>>>

اسلامی دعوت تبلیغ دین اور اس کے اصول

http://salaamone.com/martyrs-not-dead-alivehttp://salaamone.com/martyrs-not-dead-alive/