Praying at home for Safety from Pandemic, Corona Virus or in Rain کرونا وائرس خطرہ ، سرد موسم ، بارش میں گھر پر نماز یا مسجد میں دو نمازوں کو ملا کر پڑھنے کی سہولت

 (  (22:78 ) He has chosen you and has not placed upon you in the religion any difficulty.

کرونا ا ئرس کی وبا نے تمام دنیا کو خوف میں مبتلا کر رکھا ہے – ڈاکٹر اس کا واحد علاج احتیاط اور ہجوم ، ملنے جلنے سے پرہیز میں بتلا رہے ہیں-
Keep reading in ..… English
کرونا وائرس پرغلط ، گمراہ کن اور خطرناک نسخے اور ٹوٹکےکی وجہ سے سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں… مستند اہم معلومات …[…….]
حج منسوخ کر دیا گیا ہے ، دنیا بھر میں فتوے جاری ہو گیے کہ نماز گھر پڑھیں- مسلمان با جماعت نماز کا عادی ہوتا ہے اس کے کیے یہ مشکل فیصلہ ہے ، مگر مسلمان اپنی ہوس یا نفس کا غلام نہیں الله کا غلام ہے — اور الله کا فرمان ہے :
ایک زندگی بچانا انسانیت بچانا ہے  اور ایک بے گناہ کا قتل تمام انسانیت کا قتل  ( مفھوم)۔(المائیدہ 5:32  )
آپنے آپ کو قتل کرنے سے منع کرتا ہے ۔۔ (النسا 29)
اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور حاکموں کی جو تم میں سے ہوں۔۔۔ (النساء:۵۹)
بخاری میں ہے:
عن أبی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ یقول: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لاعدوی، ولاطیرۃ، ولاہامۃ ولاصفر. وفر من المجذوم کما تفر من الأسد.(رقم۵۳۸۰)
”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:نہ متعدی بیماری سے بیماری ہوتی ہے۔ نہ بدفال کوئی چیز ہے۔نہ مقتول کی روح پیاسا پرندہ بنتی ہے اور نہ پیٹ میں بھوک لگانے کا کوئی جانور ہے۔ مجذوم سے ایسے بھاگو، جیسے شیر سے بھاگتے ہو۔”
“اللہ تعالی کسی کوبھی اس کی طاقت سے زيادہ مکلف نہیں کرتا اس کو جوبھی وہ عمل کرے اس کا اجروثواب اورجوبھی وہ گناہ کرے اس کا وبال اورگناہ بھی اس پرہی ہے ” البقرۃ ( 286 )
اوراللہ سبحانہ وتعالی نے مسلمانوں پرمکلف کی گئ ہرچيز پرمشقت اورتنگی ختم کردی اوراسے اٹھا لیا ہے ۔ اللہ تعالی نے اسی کے متعلق بیان کرتے ہوۓ فرمایا :
اس اللہ تعالی نے تمہیں اختیار کرلیا ہے اور تم پرتمہارے دین میں کوئ تنگی نہیں کی  الحج ( 78 )

اِتَّخَذُوۡۤا اَحۡبَارَہُمۡ وَ رُہۡبَانَہُمۡ اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ
ان لوگوں (یہود نصاری) نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنایا ہے (قرآن 9:31)

They (Jews and Chrisitnas) have taken their scholars and monks as lords besides Allah

علماء پاکستان کی اکثریت بھی یہود نصاریٰ  کی تقلید میں قرآن و سنت کے برخلاف عوام کی زندگی خطرہ میں ڈال کر انسانیت کے قتل میں حصہ دار بن رہے ہیں ..

اہل کتاب کا اپنے علماء ومشائخ کو رب بنانا :۔ ان اہل کتاب کا دوسرا شرک یہ تھا کہ حلت و حرمت کے اختیارات انہوں نے اپنی علماء و مشائخ کو سونپ رکھے تھے۔ حالانکہ یہ اختیار صرف اللہ کو ہے۔ وہ کتاب اللہ کو دیکھتے تک نہ تھے بس جو کچھ ان کے علماء و مشائخ کہہ دیتے اسے اللہ کا حکم سمجھ لیتے تھے جبکہ ان کے علماء و مشائخ کا یہ حال تھا کہ تھوڑی سی رقم لے کر بھی فتوے ان کی مرضی کے مطابق دے دیا کرتے تھے۔ اس طرح انہوں نے اپنے علماء و مشائخ کو رب کا درجہ دے رکھا تھا جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے :۔

سیدنا عدی بن حاتم کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ کے پاس آیا میری گردن میں سونے کی صلیب تھی۔ آپ نے فرمایا عدی ! اس بت کو پرے پھینک دو ۔ اور میں نے آپ کو سورة برأت کی یہ آیت پڑھتے سنا

اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَالْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ ۚ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوْٓا اِلٰــهًا وَّاحِدًا ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۭسُبْحٰنَهٗ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ 31؀) 9 ۔ التوبہ :31)

پھر آپ نے فرمایا وہ لوگ ان مولویوں اور درویشوں کی عبادت نہیں کرتے تھے لیکن جب یہ مولوی اور درویش کسی چیز کو حلال کہہ دیتے تو وہ حلال جان لیتے اور جب حرام کہہ دیتے تو حرام سمجھ لیتے تھے (ترمذی۔ ابو اب التفسیر)

یہ دونوں آیات دراصل ان سے پہلی آیت کی تشریح کے طور پر آئی ہیں جس میں کہا گیا تھا کہ اہل کتاب اللہ پر ایمان نہیں لاتے۔ یعنی ایسے طرح طرح کے شرک کی موجودگی میں اللہ پر ایمان لانے کا دعویٰ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ ..

صدر عارف علوی نے مصر کے سفیر کی مدد سے جامع الاظہر سے کورونا وائرس کے حوالے سے باجماعت نماز اور نماز جمعہ کے اجتماعات کے حوالے سے رہنمائی طلب کی تھی۔ جامعہ الاظہر نے اس حوالے سے گزشتہ روز فتویٰ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ باجماعت نماز اور عوامی اجتماعات سے کوورنا وائرس پھیل سکتا ہے اور اسلامی ممالک کی حکومتیں اس سلسلے میں یہ اجتماعات منسوخ کرنے کا حق رکھتی ہیں۔

 

https://www.dawnnews.tv/news/1123650/

مذہبی سکالر طارق جمیل نے کہا ہے کہ جب تک کرونا وائرس کی وبا کا خطرہ موجود ہے نماز اپنے گھروں میں پڑھیں ۔نجی نیوز چینل ایکسریس نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہوکہا ”مدینہ میں بارش ہو رہی تھی ،حضرت بلالؓنے اذان دی تو آپﷺنے فرما یا بلال اعلان کرو تمام لوگ اپنے گھروں میں نماز پڑھیں ،مسجد نہ آئیں “۔مولانا طارق جمیل نے کہا کہ اس حدیث سے دلیل ملتی ہے کہ اگر مسجد آنے میں تکلیف ہے تو نماز اپنے گھر میں پڑھ لی جائے ،یہ ایمان کی کمزوری نہیں ،احتیاطی تدبیر ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال میں اپنے ایمان کو مضبوط رکھیں ،صدقہ دیں ،نماز پڑھیں اور پھر حکومت اور ڈاکٹروں کی باتوں پر عمل کریں ۔

https://dailypakistan.com.pk/16-Mar-2020/1107604

دین اسلام کو ایک آسان اور لچکدار مذہب ہے  جو معاشرے کے ہر فرد بشر ، زندگی کے تمام مراحل اور زمانے کے ہر حالات سے یگانگت رکھتا ہے- احادیث سے ظاہر ہے کہ جب بھی بارش کی وجہ سے مشقت و ضرر کا خوف ہوگا, یا تو نمازرہائش گاہ پر ادا کی جایے یا  دو نمازوں ظہر و عصر ، اور مغرب و عشاء کو جمع کرکہ مسجد میں پڑھنا جائز ہوگا ، البتہ یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ یہ مشقت و ضرر ایک نسبی چیز ہے جو لوگوں ، جگہ اور ماحول کے لحاظ سے بدلتی رہے گی چنانچہ سردی کے موسم میں بارش کاحکم گرمی کی بارش سے مختلف ہوگا ، شہر اور جہاں کے راستے صاف اورپخطہ ہیں ، دیہات سے مختلف ہوگا ، اسی طرح دور کی مسجد اور کسی عمارت کے احاطے کی مسجد سے مختلف ہوگا ، یہی وجہ ہے کہ عرب دنیا کی بارش کا حکم ہند و پاک کی بارش سے مختلف ہے کیونکہ عرب میں بارش عام طور پر سردی کے موسم میں ہوتی ہے اور بارش کے ساتھ عموما ٹھنڈی ہوا س چلتی رہتی ہے جب کہ ہمارے یہاں عموما بارش کا موسم گرمی میں ہوتا ہے اور معمولی بھیگنے سے کسی ضرر کا خطرہ کم ہوتا ہے ۔

مزید پڑھیں : اسلام آسان دین >>>>

تفصیل :
اللہ تعالی نے دین اسلام کو ایک آسان اور لچکدار مذہب بنایا ہے  جو معاشرے کے ہر فرد بشر ، زندگی کے تمام مراحل اور زمانے کے ہر حالات سے یگانگت رکھتا ہے ، یہ مذہب جہاں اصول و مقاصد کے لحاظ سے ثابت وغیر متزلزل ہے وہیں فروع و وسائل کے لحاظ سے اپنے اندر ایسی لچک رکھتا ہے جو ہر قسم کے حالات و ظروف سے میل رکھتی ہے ، اس کی ایک بڑی واضح مثال نماز ہے جس کی ادائیگی میں کوتاہی کے سلسلے میں کسی بھی قسم کی نرمی و تاخیر کو اسلام قبول نہیں کرتا ہے ، جب تک انسان کی عقل باقی ہے نماز کو ہر حالت میں ادا کرنا ہے ، بیماری ، مشغولیت ، لوگوں کی رعایت اور موسم کے بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر اسے نہ ترک کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اسے موخر کیا جاسکتا ہے ، البتہ حالات و ظروف کے پیش نظر نماز کے شرائط و آداب میں لچک رکھی گئی ہے ، علی سبیل المثال قیام نماز کا رکن ہے ، وضو نماز کے لئے شرط ہے قبلہ رخ ہونا نماز کے لئے اشد ضروری ہے لیکن اگر کوئی شخص بیماری یاکسی اور وجہ سے کھڑا نہیں ہوسکتا ، یا کسی سبب سے وضو نہیں کرسکتا یا کسی ایسی جگہ ہے کہ قبلہ کا رخ معلوم نہیں ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ نمازہی کو چھوڑ دے یا بعد میں پڑھنے کے لئے اسے موخر کردے ، نہیں ہر گز نہیں بلکہ نماز کو اس کے محدود وقت میں پڑھنا ہے کھڑا نہیں ہوسکتا تو بیٹھ کر پڑھے ، وضو نہیں کرسکتا تو تیمم سے پڑھے اور قبلہ کا رخ معلوم نہیں تو سوال و تحقیق کے بعد جس سمت قبلہ ہونے کا غالب گمان ہو اس سمت رخ کرکے نماز پڑھ لے ۔

بارش کے موسم میں گھر میں نماز پڑھنا یا مسجد میں دو نمازوں کو ایک ساتھ جمع کرکے پڑھنے کی رخصت بھی دین کی اسی آسانی کا ایک مظہر ہے ، جیسا کہ مختلف (درج ذیل) احا دیث کے مفہوم سے معلوم ہوتا ہے کہ بارش کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو نمازوں کو جمع کرکے پڑھتے تھے- اور لوگوں کو خیمہ یا رہائش میں پڑھنے کی تلقین کی، اذان میں بھی یہ ڈیکلر کیا-  نیز صحابہ و تابعین کا عمل بھی اس پر دلالت کرتا ہے ۔

سنن ابن ماجه: كِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةُ فِيهَا (بَابُ الْجَمَاعَةِ فِي اللَّيْلَةِ الْمَطِيرَةِ)
سنن ابن ماجہ: کتاب: نماز کی اقامت اور اس کا طریقہ (باب: بارش والی رات میں جماعت میں شریک ہونا)
937 . حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنَادِي مُنَادِيهِ فِي اللَّيْلَةِ الْمَطِيرَةِ أَوْ اللَّيْلَةِ الْبَارِدَةِ ذَاتِ الرِّيحِ صَلُّوا فِي رِحَالِكُمْ
حکم : صحیح
937 . سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کا مؤذن بارش اور تیز ہوا والی سرد رات میں اعلان کر دیا کرتا تھا :’’گھروں میں نماز پڑھ لو۔‘‘
سنن النسائي: كِتَابُ الْأَذَانِ (بَابُ الْأَذَانِ فِي التَّخَلُّفِ عَنْ شُهُودِ الْجَمَاعَةِ فِي اللَّيْلَةِ الْمَطِيرَةِ)
سنن نسائی: کتاب: اذان سے متعلق احکام و مسائل (باب: بارش والی رات میں جماعت کی حاضری سے رخصت کی اذان)
654 . أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَوْسٍ يَقُولُ أَنْبَأَنَا رَجُلٌ مِنْ ثَقِيفٍ أَنَّهُ سَمِعَ مُنَادِيَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْنِي فِي لَيْلَةٍ مَطِيرَةٍ فِي السَّفَرِ يَقُولُ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ صَلُّوا فِي رِحَالِكُمْ
حکم : صحیح الإسناد
654 . بنو ثقیف کے ایک آدمی سے روایت ہے کہ اس نے دوران سفر میں بارش والی رات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن کو یوں کہتے سنا: [حي علی الصلاۃ، حي علی الفلاح، صلوا فی رحالکم] یعنی ’’اپنے خیموں میں نماز پڑھ لو۔‘‘
سنن أبي داؤد: کِتَابُ تَفْرِيعِ أَبْوَابِ الْجُمُعَةِ (بَابُ التَّخَلُّفِ عَنْ الْجَمَاعَةِ فِي اللَّيْلَةِ الْبَارِدَةِ أَوْ اللَّيْلَةِ الْمَطِيرَةِ)
سنن ابو داؤد: کتاب: جمعۃ المبارک کے احکام ومسائل (باب: سردی یا بارش کی رات میں جماعت سے پیچھے رہنا؟)
1060 . حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ نَزَلَ بِضَجْنَانَ فِي لَيْلَةٍ بَارِدَةٍ، فَأَمَرَ الْمُنَادِيَ، فَنَادَى أَنِ: الصَّلَاةُ فِي الرِّحَالِ. قَالَ أَيُّوبُ وَحَدَّثَنَا نَافِعٌ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا كَانَتْ لَيْلَةٌ بَارِدَةٌ أَوْ مَطِيرَةٌ, أَمَرَ الْمُنَادِيَ، فَنَادَى: الصَّلَاةُ فِي الرِّحَالِ.
حکم : صحیح
1060 . جناب نافع سے روایت ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ( ایک سفر میں ) ضجنان مقام پر ٹھنڈی رات میں پڑاؤ کیا ۔ تو انہوں نے مؤذن کو حکم دیا ، اس نے اعلان کیا کہ نماز اپنے اپنے خیموں میں پڑھیں ۔ ایوب بیان کرتے ہیں کہ نافع نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی رات ٹھنڈی یا بارش والی ہوتی تو مؤذن کو حکم فرماتے اور وہ اعلان کرتا کہ «الصلاة في الرحال» یعنی اپنے اپنے ڈیروں میں نماز پڑھو ۔
سنن أبي داؤد: کِتَابُ تَفْرِيعِ أَبْوَابِ الْجُمُعَةِ (بَابُ التَّخَلُّفِ عَنْ الْجَمَاعَةِ فِي اللَّيْلَةِ الْبَارِدَةِ أَوْ اللَّيْلَةِ الْمَطِيرَةِ)
سنن ابو داؤد: کتاب: جمعۃ المبارک کے احکام ومسائل (باب: سردی یا بارش کی رات میں جماعت سے پیچھے رہنا؟)
1061 . حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ هِشَامٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ قَالَ نَادَى ابْنُ عُمَرَ بِالصَّلَاةِ بِضَجْنَانَ ثُمَّ نَادَى أَنْ صَلُّوا فِي رِحَالِكُمْ قَالَ فِيهِ ثُمَّ حَدَّثَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ يَأْمُرُ الْمُنَادِيَ فَيُنَادِي بِالصَّلَاةِ ثُمَّ يُنَادِي أَنْ صَلُّوا فِي رِحَالِكُمْ فِي اللَّيْلَةِ الْبَارِدَةِ وَفِي اللَّيْلَةِ الْمَطِيرَةِ فِي السَّفَرِ قَالَ أَبُو دَاوُد وَرَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ أَيُّوبَ وَعُبَيْدِ اللَّهِ قَالَ فِيهِ فِي السَّفَرِ فِي اللَّيْلَةِ الْقَرَّةِ أَوْ الْمَطِيرَةِ
حکم : صحیح
1061 . جناب نافع بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے مقام ضبحنان میں نماز کے لیے اذان کہی پھر کہا «صلوا في رحالكم» ” اپنے پڑاؤ اور خیموں میں نماز پڑھو ۔ “ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بیان کیا کہ آپ مؤذن کو حکم دیتے ، وہ اذان دیتا پھر اعلان کرتا کہ ” اپنے اپنے پڑاؤ میں نماز پڑھو ۔ “ جبکہ رات کو سردی ہوتی ، بارش ہوتی اور سفر میں ہوتے ۔ امام ابوداؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں : اس حدیث کو حماد بن سلمہ نے ایوب اور عبیداللہ سے بیان کیا تو اس میں کہا : آپ سفر میں ( ایسا اعلان کرواتے ) جبکہ رات کو سردی ہوتی یا بارش ہوتی ۔
سنن أبي داؤد: کِتَابُ تَفْرِيعِ أَبْوَابِ الْجُمُعَةِ (بَابُ التَّخَلُّفِ عَنْ الْجَمَاعَةِ فِي اللَّيْلَةِ الْبَارِدَةِ أَوْ اللَّيْلَةِ الْمَطِيرَةِ)
سنن ابو داؤد: کتاب: جمعۃ المبارک کے احکام ومسائل (باب: سردی یا بارش کی رات میں جماعت سے پیچھے رہنا؟)
1062 . حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ نَادَى بِالصَّلَاةِ بِضَجْنَانَ فِي لَيْلَةٍ ذَاتِ بَرْدٍ وَرِيحٍ، فَقَالَ فِي آخِرِ نِدَائِهِ: أَلَا صَلُّوا فِي رِحَالِكُمْ، أَلَا صَلُّوا فِي الرِّحَالِ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْمُرُ الْمُؤَذِّنَ إِذَا كَانَتْ لَيْلَةٌ بَارِدَةٌ أَوْ ذَاتُ مَطَرٍ فِي سَفَرٍ, يَقُولُ: أَلَا صَلُّوا فِي رِحَالِكُمْ.
حکم : صحیح
1062 . جناب نافع سے روایت ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے مقام ضبحنان میں نماز کے لیے اذان کہی ، رات ٹھنڈی تھی اور ہوا چل رہی تھی ۔ آپ نے اپنی اذان کے آخر میں کہا «ألا صلوا في رحالكم ، ألا صلوا في الرحال» ” خبردار ! اپنے اپنے پڑاؤ میں نماز پڑھو ۔ خبردار اپنے اپنے پڑاؤ میں نماز پڑھو ۔ “ پھر بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر کے دوران میں جب رات سرد ہوتی یا بارش والی ہوتی تو مؤذن کو حکم دیتے کہ یوں کہے «ألا صلوا في رحالكم» ” خبردار ! اپنے اپنے مقام پر نماز پڑھو ۔ “
صحيح مسلم: كِتَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا (بَابُ الصَّلَاةِ فِي الرِّحَالِ فِي الْمَطَرِ)
صحیح مسلم: کتاب: مسافرو ں کی نماز قصر کا بیان (باب: بارش کے وقت گھروں میں نماز پڑھنا)
1602 . و حَدَّثَنَاه أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ نَادَى بِالصَّلَاةِ بِضَجْنَانَ ثُمَّ ذَكَرَ بِمِثْلِهِ وَقَالَ أَلَا صَلُّوا فِي رِحَالِكُمْ وَلَمْ يُعِدْ ثَانِيَةً أَلَا صَلُّوا فِي الرِّحَالِ مِنْ قَوْلِ ابْنِ عُمَرَ
حکم : صحیح
1602 . ابو اسامہ نے کہا:ہمیں عبیداللہ نے نافع سے حدیث سنائی،انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ر وایت کی کہ انھوں نے(مکہ سے چھ میل کے فاصلے پر واقع) بضَجنانَ پہاڑ پر اذان کہی۔۔۔پھر اوپر والی حدیث کے مانند بیان کیا اور (ابو اسامہ نے) کہا:” أَلَا صَلُّوا فِي الرِّحَالِکُم ” اور انھوں نے ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دوبارہ” أَلَا صَلُّوا فِي الرِّحَالِ” کہنے کا ذکر نہیں کیا۔
بارش کی صورت میں مسجد میں نمازمغرب و عشاء کو جمع کرنا جائز ہے، لیکن گھر میں یہ جمع درست نہیں ہے۔ کیونکہ اس جمع کی حکمت مشقت کو رفع کرنا ہے اور گھر میں نماز پڑھنے کی صورت میں کوئی مشقت نہیں ہے ۔لہذا جمع کا حکم بھی نہ ہو گا اور اگر کوئی شخص  مسجد میں نماز پڑھنے جاتا ہے۔ تو جماعت کے ساتھ جمع کر سکتا ہے بشرطیکہ بارش ہو۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ : جَمَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ ، وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِالْمَدِينَةِ ، فِي غَيْرِ خَوْفٍ وَلا مَطَرٍ . قُلْتُ لابْنِ عَبَّاسٍ : لِمَ فَعَلَ ذَلِكَ ؟ قَالَ : كَيْ لا يُحْرِجَ أُمَّتَہ ۔ (صحیح مسلم، کتاب المساجد، باب الجمع بین الصلاتین فی الحضر)
حضرت سعید بن جبیر حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء کو مدینہ میں بغیر کسی خوف اور بارش کے جمع فرمایا۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ توا نہوں نے جواب دیا۔ تا کہ امت پر تنگی نہ ہو۔
لیکن اس سہولت  کے لئے شرط کیا اس پر نظر رکھنی چاہئے ، جس کے لئے:

1. بنیادی شرط یہ ہے کہ بارش ایسی ہو کہ اس میں نکلنے کی وجہ سے لوگ مشقت و پریشانی محسوس کریں ، جیسے سردی کا موسم ہے اور بارش میں بھیگ جانے کی وجہ سے مشقت کا خطرہ ہے ، یا بارش اس قدر تیز ہے کہ باہر نکلنے سے کپڑوں کے بالکل تر ہوجانے یا راستے میں سخت کیچڑ وغیرہ یا بکثرت پانی جمع جانے کا خطرہ ہے ۔
2. دوسری بنیادی شرط یہ ہے کہ آثار ایسے ہوں کہ بارش کا سلسلہ دیر تک جاری رہے گا اور دوسری نماز کا وقت ہونے تک بارش کے بند ہونے کی امید کم ہے ، یا اگر بارش بند بھی ہوگئی تو دیر تک راستہ چلنا مشکل ہوگا ۔
3. تیسری بنیادی شرط یہ ہے ان حالات سے عام لوگوں کے متاثر ہونے کا ڈر ہے ، کسی ایک دو لوگوں کی مشقت و پریشانی سے بچنے کے لئے دو نمازوں کو جمع نہ کیا جائے گا ، البتہ ایسے ضرورت مند لوگوں کو لئے اپنے گھر میں نماز پڑھ لینا کافی ہوگا ۔
4. چوتھی بنیادی شرط یہ ہے کہ یہ حکم جماعت سے نماز پڑھنے والوں کے لئے ہے اور ان مساجد کا ہے جہاں آنے کے لئے عام لوگوں کو کھلی فضا یا کھلے میدان سے گزرنا پڑتا ہے ، البتہ اپنے گھر میں نماز پڑھنے والوں ، یا اس مسجد میں نماز پڑھنے والے جن کے مسجد آنے میں بھیگنے یا کیچڑ وغیرہ کا خطرہ نہیں ہے ان کے لئے یہ رخصت نہ ہوگی ۔
خلاصہ یہ کہ جب بھی بارش کی وجہ سے مشقت و ضرر کا خوف ہوگا, یا تو نمازرہائش گاہ پر ادا کی جایے یا  دو نمازوں ظہر و عصر ، اور مغرب و عشاء کو جمع کرکے پڑھنا جائز ہوگا ، البتہ یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ یہ مشقت و ضرر ایک نسبی چیز ہے جو لوگوں ، جگہ اور ماحول کے لحاظ سے بدلتی رہے گی چنانچہ سردی کے موسم میں بارش کاحکم گرمی کی بارش سے مختلف ہوگا ، شہر اور جہاں کے راستے صاف اور ڈامر کے ہیں ، دیہات سے مختلف ہوگا ، اسی طرح دور کی مسجد اور کسی عمارت کے احاطے کی مسجد سے مختلف ہوگا ، یہی وجہ ہے کہ عرب دنیا کی بارش کا حکم ہمارے ہند و پاک کی بارش سے مختلف ہے کیونکہ یہاں بارش عام طور پر سردی کے موسم میں ہوتی ہے اور بارش کے ساتھ عموما ٹھنڈی ہوا س چلتی رہتی ہے جب کہ ہمارے یہاں عموما بارش کا موسم گرمی میں ہوتا ہے اور معمولی بھیگنے سے کسی ضرر کا خطرہ کم ہوتا ہے ۔ واللہ اعلم
Image result for prayer at home islam

بدترین مخلوق

وَعَنْ عَلِیِّ رَضِیَ اﷲُعَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ یُوْشِکُ اَنْ یَّاْتِیَ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَا یَبْقَی مِنَ الْاِسْلَامِ اِلَّا اسْمُہۤ وَلَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرْاٰنِ اِلَّا رَسْمُہ، مَسَاجِدُ ھُمْ عَامِرَۃٌ وَھِیَ خَرَابٌ مِنَ الْھُدٰی عُلَمَآءُ ھُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ اٰدِیْمِ السْمَآءِ مِنْ عِنْدِھِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَۃُ وَفِیْھِمْ تَعُوْدُ۔ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان)

” اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ عنقریب لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ اسلام میں صرف اس کا نام باقی رہ جائے گا اور قرآن میں سے صرف اس کے نقوش باقی رہیں گے۔ ان کی مسجدیں (بظاہر تو) آباد ہوں گی مگر حقیقت میں ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماء آسمان کے نیچے کی مخلوق میں سے سب سے بدتر ہوں گے۔ انہیں سے (ظالموں کی حمایت و مدد کی وجہ سے ) دین میں فتنہ پیدا ہوگا اور انہیں میں لوٹ آئے گا (یعنی انہیں پر ظالم) مسلط کر دیئے جائیں گے۔” (بیہقی)

یہ حدیث اس زمانہ کی نشان دہی کر رہی ہے جب عالم میں اسلام تو موجود رہے گا مگر مسلمانوں کے دل اسلام کی حقیقی روح سے خالی ہوں گے، کہنے کے لئے تو وہ مسلمان کہلائیں گے مگر اسلام کا جو حقیقی مدعا اور منشاء ہے اس سے کو سوں دور ہوں گے۔

قرآن جو مسلمانوں کے لئے ایک مستقل ضابطۂ حیات اور نظام علم ہے اور اس کا ایک ایک لفظ مسلمانوں کی دینی و دنیاوی زندگی کے لئے راہ نما ہے۔ صرف برکت کے لئے پڑھنے کی ایک کتاب ہو کر رہ جائے گا۔ چنانچہ یہاں ” رسم قرآن” سے مراد یہی ہے کہ تجوید و قرأت سے قرآن پڑھا جائے گا، مگر اس کے معنی و مفہوم سے ذہن قطعاً نا آشنا ہوں گے، اس کے اوامر و نواہی پر عمل بھی ہوگا مگر قلوب اخلاص کی دولت سے محروم ہوں گے۔

مسجدیں کثرت سے ہوں گی اور آباد بھی ہوں گی مگر وہ آباد اس شکل سے ہوں گی کہ مسلمان مسجدوں میں آئیں گے اور جمع ہوں گے لیکن عبادت خداوندی، ذکر اللہ اور درس و تدریس جو بناء مسجد کا اصل مقصد ہے وہ پوری طرح حاصل نہیں ہوگا

* اسی طرح وہ علماء جو اپنے آپ کو روحانی اور دنی پیشوا کہلائیں گے۔ اپنے فرائض منصبی سے ہٹ کر مذہب کے نام پر امت میں تفرقے پیدا کریں گے، ظالموں اور جابروں کی مدد و حمایت کریں گے۔ اس طرح دین میں فتنہ و فساد کا بیج بو کر اپنے ذاتی اغراض کی تکمیل کریں گے۔ (مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ علم کا بیان ۔ حدیث 263)*

افتراق کی سبب دو چیزیں ہیں، عہدہ کی محبت یا مال کی محبت۔ سیدنا کعب بن مالک انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا: ”ماذئبان جائعان أرسلا في غنم بأفسد لھا من حرص المرء علی المال و الشرف لدینہ”  ترجمہ : دو بھوکے بھیڑئیے ، بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیئے جائیں تو وہ اتنا نقصان نہیں کرتے جتنا مال اور عہدہ کی حرص کرنے والا اپنے دین کے لئے نقصان دہ ہے۔   (الترمذی:۲۳۷۶ وھو حسن)

وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَـٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا ﴿سورة الفرقان25:30﴾

اور رسول کہے گا کہ “اے میرے رب، میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو نشانہ تضحیک بنا لیا تھا” ﴿سورة الفرقان25:30﴾

ریفرنس
This post, short link: https://wp.me/p9pwXk-1cF


مزید پڑھیں:

~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~

 

~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~
Humanity, Knowledge, Religion, Culture, Tolerance, Peace

انسانیت ، علم ، اسلام ،معاشرہ ، برداشت ، سلامتی 

Books, Articles, Blogs, Magazines,  Videos, Social Media

بلاگز، ویب سائٹس،سوشل میڈیا، میگزین، ویڈیوز,کتب

سلام فورم نیٹ ورک  Peace Forum Network 
Join Millions of visitors: لاکھوں وزٹرز میں شامل ہوں 

Salaamforum.blogspot.com 

سوشل میڈیا پر جوائین کریں یا اپنا نام ، موبائل نمر923004443470+ پر“وہٹس اپپ”یا SMS کریں   

Join ‘Peace-Forum’ at Social Media, WhatsApp/SMS Name,Cell#at +923004443470
   Twitter: @AftabKhanNet  
  

Facebook: fb.me/AftabKhan.page