فرقہ واریت کیوں ؟ Why Sectarianism?

مسلمان کئی فرقوں میں بٹ چکے ہیں اگرچہ ان کی اکثریت اسلام کے بنیادی عقائد اور عبادات پر متفق ہے مگر فروعی اختلافات کی شدت نے نفاق کے بیج اس طرح بو دیئےہیں کہ انتشار دن بدن متشدت اوراضافہ پزیرہے- اس معاملہ میں اسلام دشمن قوتیں بھی ملوث ہیں مگر ان کو جواز وہ مسلمان مہیا کر رہے ہیں جودشمنان اسلام  کے ہاتھ نادانستہ طور پرکھلونا بن چکے ہیں

قرآن پر سب مسلمانوں کا ایمان ہے، جس کو سب مسلمان مکمل طور پر کلام اللہ تسلیم کرتے ہیں، جو مسلم کا نام دیتا ہے اور قرآن وہ الله کی مظبوط رسی ہے جس کو الله تعالی مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیتا ہےاور یہی تفرقہ کے خلاف موثر ترین ڈھال ہے-

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ ﴿١٠٢﴾ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّـهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ(3:103)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو (102) سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو (3:103)

فَرِيقًا هَدَىٰ وَفَرِيقًا حَقَّ عَلَيْهِمُ الضَّلَالَةُ ۗ إِنَّهُمُ اتَّخَذُوا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ اللَّـهِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُم مُّهْتَدُونَ  (الأعراف7:30)

“ایک فریق کو تو اس نے ہدایت دی اور ایک فریق پر گمراہی ثابت ہوچکی۔ ان لوگوں نے خدا کو چھوڑ کر شیطانوں کو رفیق بنا لیا اور سمجھتے (یہ) ہیں کہ ہدایت یاب ہیں” (الأعراف7:30)

تم میں سے کوئی آدمی جب اپنے بھائی کو کافر کہے تو دونوں میں سے ایک اس کا مستحق بن جاتا ہے۔یا تو وہی (سننے والا)کافر ہوتا ہے جیسا کہ کہنے والا اسے کہتا ہے یا پھر (سننے والا) نہیں ہے تو پھر یہ کہنے والے پر پلٹ آئے گا۔ (بخاری، 5752)

فرقہ واریت کی مختلف وجوہات ہیں ابو یحیی نے ان کو  مختصر مگر مدلل انداز میں بیان کے ہے :

فرقہ واریت کی وجوہات

ایک عام انسان دین کو اپنے قلبی سکون کے لیے اختیار کرتا ہے۔ بے شک دین اسلام میں ایسی تاثیر ہے کہ وہ اپنے قبول کرنے والوں کو سکون دیتا ہے۔اللہ کی یاد اور پیغمبر علیہ السلام کی زندگی، سیرت اور اخلاق عالیہ میں ایسا اطمینان ہے کہ انسان زندگی کی ہر مشکل کو ہنس کر جھیل جاتا ہے۔ تاہم یہ سکون بخش دین اس وقت انسان میں زبردست اضطراب پیدا کردیتا ہے جب مذہبی اختلافات کی داستان انسان کے سامنے آتی ہے۔ کفر کے فتوے، گمراہی کے سرٹیفیکیٹ، سازشوں کی داستانیں غرض تنازعات اور اختلافات کی دنیا انسان کا ذہنی سکون درہم برہم کردیتی ہے۔ جن شخصیات کو انسان معتبر سمجھتا ہے وہ غیر معتبر ہوجاتی ہیں۔ جس نقطہ نظر کو انسان باعث نجات سمجھتا ہے ، وہ گمراہی اور ضلالت قرار پاتا ہے۔ جس راستے کو انسان نجات کا راستہ سمجھتا ہے وہ عذاب کا راستہ بن جاتا ہے۔ جس منزل کو وہ جنت کا نشان سمجھتا ہے وہ جہنم کی کھائی نظر آنے لگتی ہے۔

ایسے میں انسان کسی خاص نقطہ نظر کا اسیر ہے تواپنے نقطہ نظر کے خلاف دو سطریں پڑھنا بھی اس کے لیے باعث اذیت ہوجاتا ہے۔ ایسے میں اپنے بڑو ں کی طرف سے اسے آسان ترین راستہ یہ بتایا جاتا ہے کہ صرف ہماری بات سنو۔ ہمارے علاوہ ہر شخص گمراہ ہے۔ چنانچہ انسان صرف اپنے نقطہ نظر کی باتیں سنتا اور پڑھتا ہے اور اسی میں خوشی محسوس کرتا ہے۔ تاہم اس طریقے میں سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ انسان واقعی غلط جگہ کھڑا ہو ۔اور کل قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے یہ بتایا جائے کہ جس بات کو تمہیں ٹھیک بتایا گیا تھا وہ غلط تھی۔تم نے اپنے لیڈروں کی اندھی پیروی کی اور گمراہی کا راستہ اختیار کرلیا۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے مخاطبین کی مثال

اس سلسلے کی سب سے نمایاں مثال خود حیات طیبہ میں ملتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عام لوگوں کی نظروں میں غلط ثابت کرنے کے لیے کفار نے آپ پربدترین الزامات لگائے۔ مجنون، جادوگر، شاعر اور دیگر انتہائی گستاخانہ کلمات دن رات آپ کے بارے میں کہے جاتے تھے۔ آپ کی شخصیت، سیرت، افعال، ازدواجی زندگی اور جنگ و جہاد کے معاملات میں ہر پہلو سے کیڑے نکال کر آپ کو غیر معتبر کرنے کی کوشش کی گئی۔یہ سب کچھ کفاراور منافقین کی لیڈرشپ نے کیا مگر قرآن مجیدمیں واضح ہے کہ ان کی پیروی کرنے والے بھی قیامت میں عذاب میں ہوں گے اور جسمانی عذاب کے ساتھ اس روحانی اذیت کو بھی سہیں گے کہ انہوں نے کیوں اپنے لیڈروں کی پیروی کی۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

بے شک اللہ نے کافروں پر لعنت کرچھوڑی ہے اور ان کے لیے آگ کا عذاب تیار کررکھا ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ وہاں نہ ان کا کوئی کارسازہوگا اور نہ کوئی مددگار۔ جس دن ان کے چہرے آگ میں الٹے پلٹے جائیں گے ۔ وہ کہیں گے : کاش !ہم نے اللہ کی اطاعت کی ہوتی اور ہم نے رسول کی اطاعت کی ہوتی! اور کہیں گے: اے ہمارے رب ! ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کی بات مانی تو انہوں نے ہمیں راہ سے بھٹکادیا۔ اے ہمارے رب !ان کو دوگنا عذاب دے اور ان پر بہت بھاری لعنت کر! (احزاب 33:64-68)

ایک انتہائی سنگین مسئلہ

ظاہر ہے کہ مذکورہ بالا معاملہ کفار کا ہے جنھوں نے اپنے لیڈروں کی باتوں میں آکر رسول کریم علیہ الصلوۃ السلام کا انکار کیا ۔ مگر کوئی سچائی کتنی چھوٹی کیوں نہ ہو، اس کاانکار اپنی ذات میں ایک جرم ہے۔ مزید یہ کہ فرقہ وارانہ اختلافات میں نہ صرف دوسرے فریق کی بات سننے سے انکار کیا جاتا ہے بلکہ دوسرے نقطہ نظر کو باطل قرار دے کر فوراً کفر اورگمراہی کی ایک مہم شروع کردی جاتی ہے۔ جبکہ صحیح روایات کے مطابق یہ ایک انتہائی خطرناک معاملہ ہے۔ ارشاد نبوی ہے۔

تم میں سے کوئی آدمی جب اپنے بھائی کو کافر کہے تو دونوں میں سے ایک اس کا مستحق بن جاتا ہے۔یا تو وہی (سننے والا)کافر ہوتا ہے جیسا کہ کہنے والا اسے کہتا ہے یا پھر (سننے والا) نہیں ہے تو پھر یہ کہنے والے پر پلٹ آئے گا۔ (بخاری، نمبر 5752)

یہ ظاہر ہے کہ انتہائی سنگین معاملہ ہے۔کفر کا نتیجہ جہنم کی وہی آگ ہے جس کا ذکر اوپر قرآن کے حوالے سے بیان ہواہے۔پھر آخرت کے علاوہ دنیا میں بھی ہم جانتے ہیں کہ یہ اختلاف ، تعصب اورفرقہ واریت وہ آگ ہے جو ہمارے معاشرے میں نفرت، دہشت اور قتل و غارت گری پھیلارہی ہے۔ ان کے علاوہ یہ پڑھے لکھے اور با شعور لوگوں کو دین سے دور کرنے کا سبب بن رہی ہے۔

ایک غیر جانبدار شخص کا مسئلہ

اس معاملے کا ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ ایک غیر جانبدار شخص جو دین کا زیادہ علم نہیں رکھتا ، وہ بے چارہ کبھی دو فریقوں میں سچائی جاننے کی کوشش بھی کرے تو اس کا علم اس بات کی اجازت ہی نہیں دیتا کہ وہ فنی مباحث اور علمی اختلافات کو سمجھ سکے۔وہ جس فریق کی بات سنے گا، اسے لگے گا وہی ٹھیک کہہ رہا ہے۔ایک عام آدمی ان چیزوں کوسمجھنے کے لیے زیادہ وقت نہیں نکال سکتا اور اگرنکالے گا تو آخر کار وہ اہل علم کے پاس ہی جائے گا۔ اور اس بات کا امکان ہے کہ وہ اسے صرف اپنے نقطہ نظر کی درستی اور دوسروں کی غلطی پر قائل کرنے کی کوشش کریں گے ۔

ایسے میں یہ ضروری ہے کہ ایک عام آدمی کے سامنے کچھ ایسی موٹی موٹی چیزیں آجائیں جن سے وہ سمجھ سکے کہ جب اہل علم ایک دوسرے پر تنقید کرتے ہیں تو کس کی بات درست ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ وہ کون سے غیر جانبدارانہ اصول ہیں جو کسی شخص کے تعصب کو بھڑکائے بغیر اور اس کے نقطہ نظر کو چیلنج کیے بغیر اس کے سامنے وہ معیار رکھ سکتے ہیں جن کی بنیاد پر وہ اپنے لیڈروں کے دعووں کو پرکھ سکے۔ تاکہ کل قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جب اس سے سوال کرنا شروع کریں تو وہ یہ نہ کہے کہ ہم نے اپنے لیڈرو ں کی پیروی کی تھی۔ جو انہوں نے کہا وہ ہم نے مان لیا۔بلکہ وہ اپنے شعوری علم کی بنیاد پر جواب دے۔ہم کسی طور اس جواب دہی سے روز قیامت بچ نہیں سکتے۔ ایمان لانے کی آزمائش اگر غیر مسلموں کے لیے ہے تو سچائی کو سمجھنے اور اس کا انکار نہ کرنے کی ذمہ داری ایک مسلمان کی بھی ہے۔

فرقہ واریت اور گروہی تعصب کی وجوہات

ذیل میں کچھ ایسے نمایاں اصول بیان کیے جارہے ہیں جو اس معاملے میں ایک عام آدمی کی بھرپور رہنمائی کریں گے کہ مذہبی اختلافات کی شکل میں کون سا نقطہ نظر درست ہوسکتا ہے اور کون سا غلط۔

1۔فرع اور اصل کا فرق

اللہ تعالیٰ کا انسانیت پر خصوصی کرم یہ ہے کہ اس نے ختم نبوت کے بعد ہدایت کو باقی رکھنے کا بھرپور اہتمام کیا ہے۔ اس کا طریقہ یہ اختیار کیاگیا ہے کہ دین کی بنیادوں یعنی قرآن کریم اورسنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مکمل طور پرمحفوظ کردیا ہے۔یہ حقیقت قرآن مجیدمیں بھی بیان ہوئی اور متعدد احادیث میں بھی اس کا ذکر ہوا ہے۔

اس پوری فکری اور عملی دینی روایت میں کچھ اصولی اور بنیادی باتیں اور کچھ فروعی چیزیں ہیں۔کچھ اصل اور بنیادی احکام ہیں اور کچھ ان کے حصول میں مددگارہوتے ہیں۔کچھ احکام مقاصد کا درجہ رکھتے ہیں اور کچھ سدذریعہ(اصل ممانعت سے روکنے کے لیے ان ذرائع سے روکناجو اس حرام میں مبتلا کرسکتے ہیں) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کچھ چیزیں بالکل واضح، بین اور روشن ہیں اور کچھ کو جان بوجھ کر مبہم اور غیر واضح چھوڑ دیا گیا ہے۔

گروہی تعصب اور فرقہ واریت کو پیدا کرنے والی سب سے بنیادی چیز دراصل یہی ہے کہ لوگ اصل چیزوں کو چھوڑ کر یا غیر اہم سمجھ کر فروعیات کو دعوت کا موضوع بنالیتے ہیں۔یہاں رک جائیے اور میرا جملہ دوبارہ پڑھیے۔ میں نے یہ نہیں کہا کہ فروعیات پر غور نہیں کرتے۔ میں نے یہ لکھا ہے کہ فروعیات کو دعوت کا موضوع بنالیتے ہیں۔فروعیا ت پر غور کرنے اوران کو دعوت کا موضوع بنالینے اور خود اصول و فرع میں کیا فرق ہے اور ان کی باہمی جگہ بدل دینے سے کیا ہوتا ہے میں اسے ایک مثال سے واضح کرنے کی کوشش کروں گا ۔

آمین بالجہر کا معاملہ

نماز دین کا بنیادی حکم ہے۔اس کا مقصد قرآن مجید کے مطابق اللہ کی یاد قائم کرنا ہے۔اس کا عملی طریقہ ہم تک اس طرح پہنچا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے لے کر آج تک نسل درنسل لوگ نماز پڑھتے اور اپنے بچوں کو سکھاتے چلے آئے ہیں ۔ اس عملی اہتمام کے علاوہ اہل علم ہمیشہ اپنی تحریر و تقریر میں نماز پر گفتگو کرکے اس کا طریقہ واضح کرتے رہے ہیں۔ اس طریقے میں یہ بات شامل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق قیام میں سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد آمین کہی جائے۔[1] اس آمین کی آواز کتنی بلند ہو یہ سرتا سر ایک فروعی مسئلہ ہے۔اس لیے اس پر اہل علم میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس اختلاف سے نہ نمازباطل ہوتی ہے اور نہ اللہ کے ہاں اس کی قبولیت پر کوئی سوال پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے یہ بحث اگر اہل علم کے درمیان ہی رہے وہ اپنی تحریروں میں اسے موضوع بنالیں، اس پر تحقیق کریں، اپنی مجالس میں اس پرتبادلہ خیال کریں، دلائل کا تبادلہ کریں، ایک دوسرے پر اپنا نقطہ نظر واضح کرکے انہیں قائل کرنے کی کوشش کریں تو اس سے کوئی فساد برپا نہیں ہوگا۔

لیکن جیسے ہی یہ چیزیں منبروں کا موضوع بنیں گی، وعظ و تبلیغ کا مواد قرارپائیں گی، دعوتی تحریروں اور تقریروں میں زیر بحث آنے لگیں گی، ہدایت اور گمراہی کا معیار قرا رپائیں گی، یہ معاشرے میں بدترین فساد پھیلانے کا سبب بن جائیں گی۔ تھوڑے عرصے پہلے تک اس ”آمین“ کا یہی معاملہ تھا۔ مجھے اپنی نوعمری کے وہ واقعات اچھی طرح یاد ہیں کہ جب ہماری مسجد میں کوئی شخص آکر بلند آواز سے آمین کہہ بیٹھتا تھا تو نماز کے بعد لوگ اس طرح اسے گھور گھور کر دیکھتے تھے کہ اس کا مسجد میں ٹھہرنا دوبھر ہوجاتا تھا۔ مگر الحمدللہ عمرہ وحج پر بکثرت عوام کے جانے کا یہ فائدہ ہوا ہے کہ اب لوگوں کو اندازہ ہوچکا ہے کہ یہ کوئی ایسا اہم مسئلہ نہیں۔ جس نے زور سے آمین کہنا ہے وہ کہے اور جو چاہے آہستہ کہے۔ اللہ تعالیٰ دونوں صورتوں میں اس آمین کو توجہ سے سنتے ہیں۔

اس بحث سے واضح یہ ہوا کہ اس امت کے اہل علم میں اصل معاملات پر کوئی اختلاف نہیں ہوتا۔ اختلاف صرف اور صرف جزوی اور فروعی چیزوں پر ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اہل علم اپنی اپنی تحقیق کے لحاظ سے جن نتائج تک پہنچیں گے بہرحال اسے بیان کریں گے۔ اس میں کوئی حرج نہیں، بلکہ یہ ایک اچھی علمی روایت ہے۔ اسی کی بنا پر ہمارا دین ہر طرح کے حالات میں قابل عمل رہنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مگر جیسے ہی یہ نتائج فکر دعوت ِدین کا عنوان بنیں گے، مسئلہ پیدا ہوجائے گا۔ یہ مسئلہ اس وقت مزید سنگین ہوجاتا ہے جب لوگ ان فروعیات کو اصل کی جگہ لے جاتے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ اہم بنادیتے ہیں۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ فرع میں اختلاف کرنے والا اصل میں ان کے ساتھ ہی کھڑا ہے۔ان کے نزدیک فرع اتنی اہم ہوجاتی ہے کہ وہ اصل کے اتفاق کو بالکل بھول کر فروعی اختلاف کی بنا پر فتویٰ بازی کردیتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ ایک فرقہ اور متعصب گروہ وجود میں آجاتاہے۔

اکثر فرقہ وارانہ اختلافات کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ لوگ اصل کو بھول کر فرع کو اہم بنادیتے ہیں۔وہ تولہ کا سیر اورذرہ کا پہاڑ بنادیتے ہیں۔اہمیت کی یہ تبدیلی (Shift of Emphasis) جب ہوجاتی ہے توغیر اہم چیز اہم بن کر دعوت کا موضوع بنتی ہے۔ لوگ فروعی چیزوں کی طرف بلاتے ہیں۔ فروع میں ہمیشہ اختلاف ہوتا ہے، مگرایسے لوگ چونکہ فرع کو اصل بناچکے ہوتے ہیں اس لیے وہ اس اختلاف کو اصل کااختلاف قرار دے کر کفرو گمراہی کے فتوے لگانا شروع کرتے ہیں اور آخر کاربات ایک جدا فرقہ بننے پر جاکر ختم ہوتی ہے۔

اس لیے تعصبات اور فرقہ وارانہ اختلاف کو سمجھنے کا پہلابنیادی اصول یہ ہے کہ یہ اختلافات کرنے والے زیادہ ترفروعیات پر بات کرتے ہیں اور ان کو حق و باطل کر مسئلہ بنادیتے ہیں۔ جبکہ یہ رویہ سرتاسر ایک غلط رویہ ہے جو فساد اور انتشار کا باعث بنتا ہے۔

2۔جہالت اور جذباتیت

فرقہ واریت اور گروہی تعصبات کو پھیلانے کا دوسرااہم اور بنیادی سبب جذباتیت اور جہالت ہے۔ جیسا کہ پیچھے بیان ہوا ہے کہ فروعی معاملات میں اہل علم میں ان کی تحقیق کے لحاظ سے اختلاف ہوہی جاتا ہے۔مگر محقق اہل علم کی حد تک یہ اختلاف صرف علمی اختلاف رہتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ محقق علما بالعموم یہ جانتے ہیں کہ گرچہ انہوں نے ایک رائے قائم کی ہے مگر اس معاملے میں دوسروں کی مختلف آراءبھی موجو دہیں۔ نیز وہ دین کی اصل اور فرع کا فرق بالعموم اچھی طرح سمجھتے ہیں۔

بدقسمتی سے بڑے اہل علم کے رخصت ہونے کے بعد ان کی جگہ کچھ ایسے لوگ سنبھالتے ہیں جن کا علم و تحقیق سے کچھ زیادہ واسطہ نہیں ہوتا۔یہ اسلاف کا نام تو لیتے ہیں، مگر شاذ ہی کبھی اسلاف کی کتابیں انہوں نے پڑھی ہوتی ہیں۔ یہ علم کی بات تو کرتے ہیں مگر مسلمانوں کی شاندار علمی روایت کی انہیں کوئی خبر نہیں ہوتی۔ان کا کل سرمایہ علم اپنے مسلک ،اپنے گروہ، اپنی تنظیم اوراپنی جماعت کالٹریچر ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کا لٹریچر اپنے نقطہ نظر کو درست ثابت کرنے کے لیے لکھا گیا ہوتا ہے، یہ کبھی سلف و خلف کے تمام علم اور تمام اہل علم کی آراءاور ان کے دلائل کا بیان نہیں ہوتا۔ اس لٹریچر میں اگر کبھی دوسروں کی بات نقل ہوتی ہے تو صرف اس لیے کہ اس پر تنقیدکرکے اسے غلط ثابت کیا جاسکے۔ورنہ اپنی بات اور اپنے نقطہ نظر کو اس میں آخری حق بناکر پیش کیا جاتا ہے۔

یہ چیز ان لوگوں میں اپنے نقطہ نظر کے حوالے سے ایک خاص قسم کی جذباتیت پیدا کردیتی ہے۔ بلکہ ہوتا بھی یہی ہے کہ اس نقطہ نظر کو قبول کرنے والے پہلے مرحلے پر ایسے ہی جذباتی رجحان رکھتے ہیں۔ چنانچہ جہالت اور جذباتیت ملتے ہیں اور فرقہ واریت کو عروج پر پہنچادیتے ہیں۔ دوسروں کے خلاف مہم جوئی شروع ہوجاتی ہے۔ فتویٰ بازی کا بازار گرم ہوجاتا ہے۔ اپنے ناقص علم اوربودی دلیلوں کو آخری سچ کے طور پر لوگوں کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔جہاں کہیں یہ ناقص علم اور بودی دلیلیں ختم ہوجائیں وہاں جھوٹ بولنے میں بھی کوئی حرج نہیں سمجھا جاتا۔ یوں عوام الناس ایسے کم علم لوگوں کے فریب میں آکر یہ سمجھتے ہیں کہ اِنہوں نے تو قلم توڑدیا ہے۔ تاہم ایسے سطحی علم کے لوگ اپنی جہالت سے اتنے ناواقف نہیں ہوتے۔ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ کوئی بھی صاحب علم ان کی جہالت کا پردہ چاک کرکے ان کی حقیقت دنیا کو دکھاسکتا ہے۔ پھر ان کے معتقدین ان سے وہ سوالات کریں گے جن کاکوئی جواب ان کے پاس نہیں ہوگا۔ اس لیے وہ پیروکاروں کو یہ تلقین کرتے ہیں کہ کبھی کسی گمراہ آدمی کی بات نہیں سننا۔کوئی کتاب کہیں اور سے ملے تو کسی ثقہ عالم (اس سے مراد وہ خود ہی ہوتے ہیں) سے تصدیق کرواکر پڑھنا۔ بلکہ اس کی ضرورت کیا ہے ، بس ہماری ہی کتابیں پڑھو اور ہماری تقریریں سناکرو۔ یہی سامان ہدایت ہے۔کاش یہ لوگ جانتے کہ یہ تلقین کفار مکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں اپنے لوگوں کو کرتے تھے کہ معاذ اللہ اس مجنون جادوگر کی بات نہ سنو،گمراہ ہوجاؤ گے۔

اس گفتگو کو ایک سچے واقعے پر ختم کررہا ہوں۔ یہ واقعہ میرے جاننے والے دو بزرگوں کا ہے۔دونوں معروف اور بڑے عالم ہیں اس لیے نام ان کا نہیں لکھ رہا۔ لیکن امید ہے کہ قارئین اسے پڑھ کر تھوڑا سا مسکرائیں گے ضرور۔ واقعہ یوں ہے کہ ایک بڑے صاحب علم سے وابستہ ایک نوجوان جب کسی دوسرے بڑے عالم کی کتابیں پڑھنے لگے تو انہوں نے اس نوجوان کو سمجھایاکہ تم اس شخص کی کتابیں نہ پڑھو۔ نوجوان نے پوچھاکہ کیوں نہ پڑھوں۔جواب ملا تم ابھی چھوٹے ہو گمراہ ہوجاؤگے۔نوجوان حاضر جواب تھا۔ فوراً جواب دیا۔ جی میں آپ کے پاس آیا تھا تو اس سے بھی چھوٹا تھا۔۔۔۔

خلاصہ یہ کہ تعصب اور فرقہ واریت پھیلانے والے لوگ یا تو کم علم ہوتے ہیں یا جذبات کے مارے ہوتے ہیں۔ صاحبان علم اور جذبات پر قابو رکھنے والے اہل علم ہمیشہ ایسی چیزوں سے دور رہتے ہیں۔

3۔غیر علانیہ نبوت

غیر علانیہ نبوت کیا ہوتی ہے، اسے جاننے کے لیے نبوت کی حقیقت سمجھنا ضروری ہے۔ نبوت اس بات کا نام ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک انسان کا انتخاب کرکے اس پر وحی اتارتے ہیں اور اسے اپنا نمائندہ بناکر دنیا کے سامنے کھڑا کردیتے ہیں۔پھروہ خود نہیں بولتا بلکہ اس کی زبان حق ترجمان سے عالم کا پروردگارکلام فرماتا ہے۔اسی لیے اس کے کلام میں یقین ہوتا ہے، ادعا ہوتا ہے، اعتماد ہوتا ہے۔ وہ لوگوں تک حق پہنچاتا ہی نہیں ان کے حق و باطل پر ہونے کا فیصلہ بھی سنادیتا ہے۔وہ ایک دنیوی چیز کو دین بتاتا ہے تو وہ چیز عین دین بن جاتی ہے۔ وہ ایک عین دینی عمل کو غیر مطلوب قرار دے دیتا ہے تو وہ دین کے دائرہ سے نکل جاتی ہے۔دین میں اس کی اطاعت لازمی ہے۔ اس کا عمل حجت ہے۔ اس کی بات حتمی ہے۔اس کی رائے قطعی ہے۔وہ ماننے والے کو حق سمجھاتا نہیں اسے منواتا بھی ہے۔اس کا راستہ سچائی کو پانے کا واحد راستہ ہوتا ہے۔اس کے سوا ہر راستہ گمراہی کا راستہ ہے۔ نبی سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا۔اس کا انکار کفر ہوتا ہے۔اس کا فیصلہ حق ہوتا ہے۔اس کا حکم آخری ہوتا ہے۔ یہ صرف اس کا حق ہوتاہے اور اسی کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کے کفر، ضلالت اور گمراہی کا کھل کر اعلان کردے۔اس راہ میں وہ کسی کی پروا کرتا ہے اور نہ کسی کا خوف کھاتا ہے۔

نبی یہ سب کرتا ہے اور اس لیے کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ براہ راست اسے یہ کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ یہ مقام اور منصب کبھی بھی ، کسی صورت میں اور کسی قیمت پر کسی اور کو حاصل نہیں ہوسکتا۔ خاص طور پر ختم نبوت کے بعد اس کا کوئی سوال ہی نہیں ہے۔اب ہر شخص ایک طالب علم ہے۔ وہ دین سیکھے گا اور سمجھائے گا۔وہ حق سمجھے گا اور پہنچائے گا۔مگراس سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ اس کے خلاف رائے دی جاسکتی ہے۔ اس کے راستے کے سوا دوسرا راستہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔

ہمارا رویہ: اپنے ناقص علم کی بنیاد پر دوسروں کا فیصلہ

بدقسمتی سے ہمارے ہاں جو لوگ خدائی فوجدار بن کر کھڑے ہوتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ نبی نہیں ہیں۔وہ کتنے بڑے عالم کیو ں نہ ہوں وہ بہرحال عام انسان ہیں۔وہ حق و باطل کا فیصلہ نہیں سناسکتے۔ وہ دوسروں کے کفر و ضلالت کا فیصلہ نہیں سناسکتے۔اس لیے کہ نبی کی طرح انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی عصمت اور کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ان کی رائے غلط ہوسکتی ہے۔ ان کا فہم باطل ہوسکتا ہے۔ ان کی تحقیق غیر مستند ہوسکتی ہے۔ان کا اجتہاد خطا ہوسکتا ہے۔ ان کا فکر حالات اور زمانے سے متاثر ہوسکتا ہے۔ان کی سوچ خواہشا ت وتعصبات کی اسیر ہوسکتی ہے۔ان کے جذبات ان کی عقل پر غالب آسکتے ہیں۔انہیں یہ حق ہے کہ پورے اعتماد اور یقین کے ساتھ اپنی بات لوگوں کے سامنے پیش کریں۔ مگر اسے دین بتانے کے بجائے اپنی رائے کے طور پر پیش کریں۔نبی کی طرح اسے حق بناکر پیش نہ کریں۔انہیں یہ حق ہے کہ جس چیز کو غلط سمجھتے ہیں اسے غلط کہیں۔ مگر ساتھ میں دلیل دیں اور اس بات کو قبول کرنے کے لیے تیار رہیں کہ امکانی طور پر ان کی اپنی بات ہی غلط ہوسکتی ہے۔

پھر سب سے اہم بات جو یاد رکھنی چاہیے کہ اختلاف کرنے کا جو کچھ ان کا حق ہے وہ آراءکے بارے میں ہوسکتا ہے۔ کسی فرد کے بارے میں وہ کوئی رائے نہیں دے سکتے۔اس لیے کہ جس شخص کی غلطی انہوں نے دریافت کی ہے ، وہ ممکن ہے کہ اخلاص کے ساتھ اس نتیجہ فکر تک پہنچا ہو۔ ایسی صورت میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ہے کہ قیامت کے دن کسی معاملے میں حکم لگانے والا (اگرعلم اور اخلاص کے ساتھ یہ کام کرے)توغلطی کی صورت میں بھی اپنے اخلاص کی بنا پر ایک اجر کا حقدار ہوگا۔ [2]ایسے کسی شخص کے متعلق مہم جوئی کرنا، اس کے کفر وضلالت کے فتوے دینا، اس کی علمی آراءکی بنیاد پر اسے غیر ملکی ایجنٹ ثابت کرنا اس کے ایمان پر براہ راست حملہ ہے اور اس کی سزا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بیان کی ہے کہ جو کفر کا الزام لگائے گا وہ یا تو سچا ہے یا پھر خود اپنا ایمان کھودیتا ہے:

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جب کوئی آدمی اپنے بھائی کو کافر کہتا ہے تو ان دونوں میں سے کوئی ایک اس (کفر کے الزام) کا مستحق بن جاتا ہے۔“[3]

اس کا سبب بالکل سادہ ہے۔ وہ یہ کہ کوئی انسان کسی دوسرے انسان کی نیت نہیں جان سکتا۔ وہ اس کا دل چیر کر نہیں دیکھ سکتا۔ وہ اس کے ذہن کے اندر نہیں اتر سکتا۔سب سے بڑھ کرکسی دوسر ے کے متعلق رائے قائم کرنے والا خود غلط ہوسکتا ہے۔ وہ نبی نہیں۔ اس پر فرشتے نہیں اترتے۔وحی نہیں آتی۔ اسے خدائی تحفظ حاصل نہیں۔ اس لیے یہ اس کا حق ہی نہیں کہ کسی دوسرے فرد کے متعلق کوئی رائے قائم کرے۔ رائے ہمیشہ دوسرے کی رائے کے بارے میں دی جاتی ہے ۔ اس سے آگے بڑھ کر اس کی شخصیت، آخرت، ایمان اورنیت کے بارے میں کوئی فیصلہ دینا اللہ تعالیٰ کے غضب کو بھڑکانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں یہ سب ہوتا ہے اور یہ کام وہ لوگ کرتے ہیں جن کا علم انتہائی ناقص ہوتا ہے۔ وہ بے چارے ساری زندگی صرف اپنا نقطہ نظر پڑھتے اور سنتے ہیں۔ انہیں اپنے علمائ، اپنے لٹریچر، اپنے گروپ اور اپنے فرقے کے علاوہ کسی اور کی خبر نہیں ہوتی۔ وہ اسی ناقص علم ،محدود دائرے، متعصبانہ سوچ اورجذبات سے بھرپور کیفیت میں دوسرے کے حق و باطل ، صحیح و غلط اور حتیٰ کے کفر و ایما ن کا فیصلہ کرنے لگتے ہیں۔ کاش یہ لوگ جانتے کہ اس جرم کی سزا کتنی بھیانک ہے۔مگر یہ لوگ اپنے دائرے میں بند رہتے ہیں اور پورے یقین سے اپنے پیروکاروں کو بتاتے ہیں کہ ہم آخری سچ بیان کررہے ہیں اور ہماری فکر سے اختلاف کسی صورت میں ممکن نہیں ہے۔ پھر وہ آگے بڑھتے ہیں اور اختلاف کرنے والے کے کفر اور پھر اس کے قتل کا فتویٰ دینے لگتے ہیں۔ یوں خد اکی دھرتی ان کے تعصبات کے سبب ظلم اور فساد سے بھر جاتی ہے اور معصوم لوگوں کی جان مال آبرو برباد ہونے لگتی ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ

عام لوگوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ انسان جب تک انسان ہے اور سوچ رہا ہے وہ اختلاف کرے گا۔تمام اختلافات کا حتمی فیصلہ صرف قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کرنے کے مجاز ہیں۔ انسان جب تک دنیا میں ہیں تحقیق کریں گے۔ تخلیق کریں گے۔ رائے قائم کریں گے۔ اس پر نظر ثانی کریں گے۔یہ صرف نبی ہوتا ہے جو نہ تحقیق کرتا ہے نہ تفکر کرتا اور نہ ذاتی تعصبات کی بنا پر کوئی رائے قائم کرتا ہے۔ وہ اللہ سے پاکر فیصلہ سناتاہے۔ کوئی اور یہ کرنے کی کوشش کرے گا تووہ غیر علانیہ نبوت کرے گا۔ وہ جھوٹی نبوت کرے گا۔ جھوٹی نبوت ہمیشہ فرقہ واریت، تعصب اور فساد پیدا کرتی ہے۔ جبکہ سچی نبوت جو اب صرف خاتم الانبیا والمرسلین محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ہے، ہمیشہ امن، احترام، صلاح اور خیر پیدا کرے گی۔

اس نبوت کا فیصلہ ہے جسےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر یوں بیان فرمایا:

”تمہارے (مسلمانوں کے) خون، اموال اور عزتیں ایک دوسرے پر حرام ہیں، اس دن (عرفہ)، اس شہر (ذوالحجہ) اور اس شہر (مکہ) کی حرمت کی مانند۔ کیا میں نے تم تک بات پہنچادی؟ صحابہ نے (بیک آواز) عرض کیا: جی ہاں۔“

اسی موقع پر آپ نے مزید ارشاد فرمایا:

”دیکھو! میرے بعد دوبارہ کافر نہ بن جانا کہ آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں مارتے پھرو۔“

مزید ارشاد فرمایا:

مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے قتال کرنا کفر ہے۔

مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔

جس نے ہم (مسلمانوں) پر ہتھیار اٹھایا وہ ہم میں سے نہیں۔

تم میں سے کوئی اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے۔ اسے کیا معلوم کہ شاید شیطان اس کے ہاتھ سے اسے (ہتھیار کو)گرادے (یا چلادے) تو (مسلمانوں کو قتل کرنے کی وجہ سے) وہ جہنم کے ایک گڑھے میں جاگرے۔

جب دو مسلمان اپنی تلواریں لے کر ایک دوسرے سے لڑ پڑیں تو وہ دونوں جہنم میں جائیں گے۔ صحابہ نے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول! ایک تو قاتل ہے (اس لیے جہنم میں جائے گا) لیکن مقتول کا کیا قصور؟ فرمایا: اس لیے کہ اس نے اپنے (مسلمان) ساتھی کے قتل کا ارادہ کیا تھا۔

تم میں سے کوئی آدمی جب اپنے بھائی کو کافر کہے تو دونوں میں سے ایک اس کا مستحق بن جاتا ہے۔یا تو وہی (سننے والا)کافر ہوتا ہے جیسا کہ کہنے والا اسے کہتا ہے یا پھر (سننے والا) نہیں ہے تو پھر یہ کہنے والے پر پلٹ آئے گا۔

ہم نے یہ ساری روایات صحیح بخاری سے لی ہیں اور یہ واضح کرتی ہیں کہ لوگوں کا اختلاف ذاتی نوعیت کا ہو یا مذہبی نوعیت کا اسے کسی صورت جان ،مال، آبرو اور ایما ن و نیت کی طرف نہیں جانا چاہیے۔

یہی وہ اصول ہے جس پر ایک عام آدمی بآسانی یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ مذہبی اختلافات میں غلط رویہ کیا ہوتا ہے۔ جب کبھی کوئی اختلافی مسئلہ سامنے آئے ہمیشہ یہ دیکھیے کہ کہنے والا کس جگہ کھڑا ہے۔ کیا اس نے اپنی رائے کو آخری سچ کے طور پر پیش کیا ہے یا وہ محض اسے ایک رائے سمجھ کر بیان کررہا ہے۔وہ اپنی رائے بیان کررہا ہے تو اس میں غلطی کا امکان ہوسکتا ہے ۔ اور اگر اپنی اس ناقص رائے کو حق سمجھ کر اس کی بنیاد پر دوسروں کے خلاف کفر کے فتوے دے رہا ہے تو وہ غیر علانیہ نبوت کررہا ہے۔یہ جھوٹی نبوت ہے۔ یہ کرنے والے اور اس کو ماننے والے دونوں قیامت کے دن ماخوذ ہوں گے۔

4۔منافقین اورمستشرقین کا طریقہ

رویے اور سوچ کی اگلی خرابی جو فرقہ واریت اور تعصبات کے فروغ کا ذریعہ بنتی ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن منافقین مدینہ اور مستشرقین کے طریقے کی پیروی ہے۔منافقین مدینہ کا طریقہ کیا تھااسے سمجھنا ہے تو واقعہ افک کی مثال سے سمجھئے۔ایک جہاد (غزوہ بنی مصطلق ) سے واپسی پرہماری ماں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کسی وجہ سے لشکر سے پیچھے رہ گئیں۔ایک صحابی حضرت صفوان بن معطل سلمی رضی اللہ عنہ، جو لشکر کی روانگی کے بعد نگرانی پر معمور تھے وہاں سے گزرے تو آپ کو دیکھ کر صورتحال کا اندازہ کرلیا اور خاموشی سے اپنا اونٹ آپ کو پیش کردیا۔ آپ اونٹ پر سوار ہوئیں اور یہ دونوں اس طرح لشکر سے جاملے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اونٹ پر تھیں اور وہ رسی پکڑے ساتھ ساتھ آرہے تھے۔ منافقین نے یہ دیکھا اور ان دونوں پر بہتان لگاکر ایک عظیم فتنہ برپا کردیا۔ منافقین نے اتنی زبردست پروپیگنڈہ مہم چلائی کہ اچھے اچھے لوگ اس کا شکار ہوگئے۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خود سیدہ کی برات قرآن مجید میں نازل کرکے اس فتنے کا خاتمہ فرمایا۔

اس واقعے سے جو طریقہ واردات ہمارے سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ جب کوئی معاملہ ایسا سامنے آئے جس کی مثبت تاویل کرنا ممکن ہواور جیسا کہ اس معاملے میں کی جاسکتی تھی کہ نبی کی اہلیہ جن سے وہ سب سے بڑھ کر راضی ہوں ایسا کام کیسے کرسکتی تھیں اور نبی کا ایک جانثاراپنے آقا کی عزت پر ڈاکہ ڈال کر کیسے صاحب ایمان رہ سکتا تھا اور یہ کرنے کے بعد پورے اعتماد سے دونوں ایک ساتھ علانیہ لشکر میں کیسے داخل ہوسکتے ہیں جبکہ ایسے کام ہمیشہ چھپ کر کیے جاتے ہیں۔ ایسے تما م مثبت امکانات کو چھوڑ کر منفی ترین امکان کو لیا جائے چاہے وہ کتنا ہی بعید ہواور اسے حقیقت بناکر پیش کردیا جائے۔ لوگوں کی نیت،ایمان اور آبرو پرحملہ کیا جائے۔ حسن ظن کو بالائے طاق رکھ کربدگمانی سے معاملے کا آغاز کیا جائے۔موقع محل، سیرت و شخصیت، عرف و شہرت سب کو نظر انداز کرکے بدترین بہتان کو بھی باآسانی لگادیا جائے۔

اس طریقہ واردات کو اگر نقطہ عروج پر کسی نے پہنچایا ہے تو وہ مستشرقین کا گرو ہ ہے۔ مستشرقین ان مغربی اہل علم کو کہتے ہیں جو مشرقی علوم اور مشرقی تہذیب کے ماہر ہوتے ہیں۔ تاہم ان کی ایک بڑی تعداد کا موضوع اسلام، قرآن اور پیغمبر اسلام کی شخصیت رہی ہے۔اس میں سے بھی زیادہ تر لوگوں کا کام یہ رہا ہے کہ وہ اسلام اور پیغمبر اسلام کی شخصیت پر ہر ممکنہ حملے کرکے اسے لوگوں کی نگاہوں میں غیر معتبر بنانے کی کوشش کریں۔

دوربین اور خوردبین

ان مستشرقین کے طریقہ واردات کے بارے میں سب سے خوبصورت تبصرہ مولانا ابو الحسن علی ندوی نے یوں کیا ہے کہ یہ لوگ خوردبین سے دیکھتے اور دوسرے کو دوربین سے دکھاتے ہیں۔ مطلب یہ کہ ان کا مطمع نظر اسلام اور پیغمبر اسلام میں صرف خامیاں ڈھونڈنا ہوتا ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کو اٹھاتے اور دوسروں کو یہ چیزیں بہت بڑی اور اہم بناکر دکھاتے ہیں۔

اس کی ایک بڑی مثال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شادیاں ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے 25سال تک کی عمر، مکہ کے شہر میں جہاں زنا کرنا کوئی مسئلہ تھا نہ کوئی جرم ، انتہائی پاکدامنی کے ساتھ گزاری۔پھر ایک شریف اور باعزت خاتون حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا جو عمر میں بڑی تھیں اور بڑی وفاداری اور محبت سے ان کے ساتھ پچیس سال گزارے۔ پھریہ سب عرب کے اس قبائلی نظام میں رہ کر کیا جہاں دوسری شادی کوئی مسئلہ تھی نہ اس میں کوئی رکاوٹ حائل تھی۔ چالیس سال کی عمر میں پیغمبر بننے کے بعد آپ کی حیثیت اتنی غیر معمولی ہوچکی تھی کہ ایک اشارے پر ماننے والے اپنی بہنوں اور بیٹیوں کے نکاح کے لیے حاضر تھے۔ مگر آپ نے پوری جوانی نکال دی اور سیدہ کی وفات تک کوئی اور شادی نہ کی۔ان سارے حقائق کو نظر اندا ز کرکے مستشرقین محض شادیوں کی تعدادکو بنیادبناکر ایسی فتنہ انگیزی کرتے ہیں کہ غیر مسلموں کو تو چھوڑیے خود مسلمانوں کا ایمان متزلزل ہوجاتا ہے۔

یہی فتنہ پردازی سیدہ عائشہ اور سیدہ زینب رضی اللہ عنہما کے نکاح کے حوالے سے کی جاتی ہے۔اس معاملے میں جوغلاظت ان کے قلم اور زبان سے نکلتی ہے اسے ایک مومن کا قلم نقل کرنے کی ہمت بھی نہیں رکھتا۔ یہی معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جہاد کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔ مثلاً بنوقریظہ کو جنگ خندق کے موقع پر بدعہدی اور دشمنوں سے سازباز کے جرم میں یہ سزا دی گئی کہ ان کے تمام مردوں کو قتل اور تمام عورتوں بچوں کو لونڈی غلام بنالیا گیا۔یہ فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نہیں تھا بلکہ ان کے حلیف حضرت سعد بن معاذ کا تھا جنہوں نے یہودیوں کی اپنی شریعت یعنی تورات کے قانون کے مطابق یہ فیصلہ کیا تھا۔ مگر اس واقعے کے موقع محل اور پس منظر کو الگ کرکے مستشرقین اس کو خوب اچھالتے اورنبی رحمت کے متعلق ایسا پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ عقل حیران ہوجاتی ہے۔

یہ ہم نے ایک دو نمایاں مثالیں دی ہیں وگرنہ ان لوگوں نے اس طریقہ واردات کو استعمال کرکے اتنا مکروہ پروپیگنڈہ پھیلا یا ہے اور ایسی مہم جوئی کی ہے کہ حد نہیں۔

متعصب لوگوں کا طریقہ

منافقین اور مستشرقین یہود کا یہی وہ طریقہ واردات ہے جو فرقہ واریت اور گروہی تعصب پھیلانے والے لوگ اختیار کرتے ہیں۔ بظاہر یہ اللہ اور رسول کا نام لیتے اور حمیت دین کے نام پر کھڑے ہوتے ہیں، مگر ان کا طریقہ ٹھیک یہی ہوتا ہے۔کسی عالم کی پوری زندگی اور شخصیت کو نظر انداز کرکے اس کی تحریر کا ایک جز لیا، سیاق سباق سے کاٹا اور کفر کا فتویٰ ایجاد کردیا۔اپنے نقطہ نظر اور مفروضوں کو حق کا معیار سمجھااور سامنے والے کی بات کوعین باطل قرار دے دیا۔جھوٹ اور دروغ گوئی کا سہارا لیااور کسی بھی فرد ، گروہ اور کتاب کے خلاف ایسی بھرپورمہم چلائی کہ لوگ اس کا نام سن کر کانوں پر ہاتھ رکھنے پر مجبور ہوجائیں۔کسی بات یا واقعے کو لیا موقع محل اور پس منظرکو چھپالیا اور اپنے مخاطب اور ماننے والے کو یہ باور کرادیا کہ یہ بات کرنے والا گمراہ ہے اور گمراہی پھیلارہا ہے۔

یہ طریقہ واردات سیاق و سباق ، موقع محل اور پس منظر کونظر انداز کرنے اور علمی خیانت کے دیگر طریقوں ہی سے عبارت نہیں بلکہ الزام، بہتان، جھوٹ، دروغ گوئی، دھوکہ دہی،تجسس ، بدگمانی اور دین و ایمان اور نیت پر براہ راست حملوں جیسے شدید ترین ایمانی اور اخلاقی جرائم پر مشتمل ہوتا ہے۔

ایسے لوگوں کی نیت اور مقصد اگر دین کی حفاظت ہوتا تو کبھی یہ ممکن نہیں تھا کہ یہ لوگ مسلمہ دینی اور اخلاقی حدود کو پامال کرکے دین کا دفاع کرتے۔ ان لوگوں کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ یہ خدا کے دین کی بات کرتے ہیں مگر دین ہی کی بنیادی حدود کو پامال کرتے ہیں۔ یہ نبی کا نام لیتے ہیں مگر نبی کے طریقے اور ہدایات کو بھول جاتے ہیں۔یہ عشق رسول کا دم بھرتے ہیں، مگر اخلاق رسول سے آخری درجہ میں عاری ہوتے ہیں۔یہ عدل اجتماعی کا نعرہ لگاتے ہیں، مگر قلم ہاتھ میں لے کر عدل نہیں کرتے ۔ یہ دن رات دوسروں کو درس قرآن دیتے ہیں اور قرآن کی یہ بنیادی ہدایت بھول جاتے ہیں کہ کسی قوم کی دشمنی تمہیں ناانصافی پر آمادہ نہ کردے۔ اس لیے ہمیشہ عدل کرو۔[4] یہ اپنے بنائے ہوئے آئینے میں دوسروں کی تصویر دیکھتے اور دکھاتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کا آئینہ حقیقت کے بجائے ان کے تعصبات اور جذبات کا اسیر ہوسکتا ہے۔یہ مذہبی سیادت کے منصب پر فائز ہوکر اس بات سے نہیں ڈرتے کہ ان کی پرسش دوسروں سے زیادہ ہوگی۔یہ نہیں سوچتے کہ جو دھیلے کے امین نہیں پروردگار انہیں زمین کا خزانہ کیسے دے سکتا ہے۔ جو قلم ہاتھ میں لے کر عدل نہ کرسکے ان کے ہاتھ میں زمین کا اقتدار کیسے دیا جاسکتا ہے۔

بدقسمتی سے مستشرقین کا یہ طریقہ قول سدید [5] اور ہر حال میں عدل کے قرآنی احکام کی خلاف ورزی ہے مگر آج سب سے بڑھ کر مسلمان ہی اس طریقے کے علمبردار ہوچکے ہیں اور پروپیگنڈہ کی ایسی مہمیں چلاتے ہیں کہ یہودیوں کو بھی شرم آجائے۔

5۔غیر روایتی کام کی مخالفت

فرقہ واریت اور گروہی تعصبات کا ایک سبب یہ ہوتا ہے کہ لوگ اپنے سامنے کسی ایسے عالم یا محقق کو دیکھتے ہیں جس کا کام انتہائی غیر معمولی مگر غیر روایتی ہوتا ہے۔ایسے لوگ بارہا ایک ایسے نئے کام کا آغاز کرتے اور ایک ایسا نیا طریقہ اختیار کرتے ہیں جو معاصرین کے وہم و خیال سے بلند ہوتا ہے۔ یہ غیر روایتی،مختلف اور منفرد چیز خود تعصبات کو بھڑکادیتی ہے۔ ایسے اہل علم کے متعلق میں مولانا ابوالحسن علی ندوی کا ایک اقتباس یہاں نقل کررہا ہوں جو انہوں نے علامہ ابن تیمیہ کے حوالے سے لکھا تھا۔اسے پڑھیں اور دیکھیں کہ مولانا نے کس خوبی سے اُس مخالفت کی وجوہات کا تجزیہ کیا ہے جس کا سامنا ابن تیمیہ کو اس دور کی روایات سے ہٹنے کی بنا پر کرنا پڑا۔یہ وجوہات کسی فکر، فلسفہ اور نقطہ نظر کے مخالفین کی مخالفت کو سمجھنے کے لیے بہترین نمونہ ہیں۔ان کو سمجھنے کے بعد فرقہ واریت اور مذہبی اختلافات کو سمجھنا بہت آسان ہوجاتا ہے۔

میں یہاں یہ بتاتا چلوں کہ مولانا ابو الحسن علی ندوی ان بزرگوں میں سے ہیں جنھیں عالم عرب و عجم میں بہت عزت اور احترام کے ساتھ دیکھا جاتا ہے۔ ان کی علمی حیثیت یہ ہے کہ بیسویں صدی میں جو پانچ سات بزرگ عالم اسلام میں چوٹی کے علما شمار کیے جاتے تھے مولانا ان میں سے ایک تھے۔ مولانا سے ذاتی طور پر مجھے بڑی عقیدت اور محبت ہے اور میں نے ان سے علمی طور پر بہت استفادہ کیا ہے۔ اب ذرا مولانا کا درج ذیل اقتباس ملاحظہ فرمائیے جو ذرا طویل ہے، مگر زبان و بیان کے اعتبار سے کمال کی چیز ہے۔

مولانا ابوالحسن علی ندوی کا اقتباس

ان غیر معمولی علمی و ذہنی کمالات اور مسلّم اخلاص و تدیّن کے ساتھ ایک سلیم الطبع انسان کے دل میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کے معاصرین اور بعض متاخرین نے کیوں اس شدت سے ان کی مخالفت کی، اور ان کی ذات ان کے زمانہ سے لے کر اس وقت تک کیوں موضوعِ بحث بنی ہوئی ہے؟ ایسے جامع کمالات کے انسان کی عظمت و قبولیت پر تو سب کا اتفاق ہونا چاہیے! یہ سوال حق بجانب ہے، اور اس کا مستحق ہے کہ ان کی سیرت اور ان کی معاصر تاریخ کی روشنی میں سنجیدگی سے اس کا جواب دیا جائے۔

۱۔ اولاً تو یہی ان کی عظمت کی دلیل ہے کہ ان کی ذات کے بارے میں شروع سے دو فریق بنے ہوئے ہیں، اور ان میں حریفانہ کشمکش جاری ہے، تاریخ میں جو شخصیتیں بہت ممتاز، غیر معمولی اور خارق عادت کمالات کی حامل ہیں، ان کے بارے میں ہمیشہ سے یہی طرزِ عمل رہا ہے کہ ایک گروہ ان کے معتقدین کا بن گیا ہے، جو ان کی تعریف میں غلو اور مبالغہ سے کام لیتا ہے، دوسرا گروہ ناقدین و مخالفین کا ہے، جو ان کی تنقید بلکہ تنقیص میں انتہا پسند اور غالی نظر آتا ہے، عظیم الشان اور غیر معمولی شخصیتوں کے بارے میں تاریخ کا یہ ایک ایسا مسلسل اور متواتر تجربہ ہے کہ بعض فلاسفہ تاریخ اور نفسیات ”عظمت و عبقریت“ کے مبصرین نے اس کو قاعدہ کلیہ اور شرط عظمت و عبقریت قرار دیا ہے۔

۲۔ ابن تیمیہ کی ذات میں ان کے معاصرین کے لیے سب سے بڑا ابتلاءاور امتحان یہ تھا کہ وہ اس زمانہ اور اس نسل کی عام ذہنی و علمی سطح سے بلند تھے، اپنے زمانہ کی سطح سے بلند ہونا ایک نعمتِ خداداد اور ایک قابلِ رشک کمال ہے، مگر اس کمال کی صاحبِ کمال کو بہت بڑی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے، وہ صاحبِ کمال اپنے معاصرین کی طرف سے ایک مسلسل ابتلاءاور آزمائش میں رہتا ہے، اور وہ معاصرین اس صاحبِ کمال سے زندگی بھر ایک مصیبت اور زحمت میں مبتلا رہتے ہیں، وہ اس کی تازگی فکر، بلندی نظر، قوتِ اجتہاد کا ساتھ نہیں دے سکتے، اور اس کے آفاقِ علم و فکر تک ان کی رسائی نہیں ہوتی، اور وہ ان کے معین و محدود اصطلاحات اور مدرسی حدود میں مقید نہیں رہ سکتا، وہ علم و نظر کی آزاد فضاﺅں اور قرآن و حدیث کے بلند اور وسیع آفاق میں آزادانہ پرواز کرتا ہے، ان کا مبلغ علم متقدمین اور اہلِ درس کی کتابوں کا سمجھ لینا ہوتا ہے، وہ واضح علوم اور بہت سے فنون کا مجتہد و مجدد ہوتا ہے، غرض مدارک اور استعدادوں کا یہ تفاوت اس کے اور اس کے مخلص معاصرین کے درمیان ایسی کشمکش پیدا کردیتا ہے کہ یہ گتھی کبھی سلجھتی نہیں، اور وہ کبھی اپنے معاصرین کو مطمئن نہیں کرسکتا، ہر زمانہ کے صاحبِ کمال اور مجتہد الفن علما نے اس کی شکایت کی ہے کہ ان کی تحقیقات اور علوم و مضامین ان کے زمانہ کی علمی و نصابی سطح سے بلند اور ان اہلِ علم کی دسترس سے باہر ہیں، جن کی پروازِ فکر متداول کتابوں سے آگے نہیں، اور یہی بہت سے اہلِ علم کی مخالفت کا سبب اور محرک ہے۔

۳۔ مخالفین کا ایک گروہ اس بنا پر مخالف تھا کہ وہ اپنی غیر معمولی ذہانت و علم، اپنی شخصیت کی دلآویزی اور بلندی کی وجہ سے عوام و خواص میں مقبول اور حکومت کے اشخاص پر حاوی ہوتے جارہے ہیں، اور ان کے علم و تقریر کے سامنے کسی کا چراغ نہیں جلتا، وہ جہاں رہتے ہیں، سب پر چھاجاتے ہیں، درس دیتے ہیں تو درس کی دوسری محفلیں بے رونق ہوجاتی ہیں، تقریر کرتے ہیں تو علم کا دریا امنڈتا نظر آتا ہے، ذہبی نے اس معنی خیز فقرہ میں دلوں کی چھپی ہوئی بات کو آشکارا کردیا ہے: غیر انه یغترف من بحر و غیرہ من الائمة یغترفون من السواقی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ تو سمندر سے پانی لیتے ہیں، اور دوسرے اکابر علما چھوٹی چھوٹی نہروں اور نالیوں سے پانی لیتے ہیں۔

ہر زمانہ کے علما بہرحال بشر تھے، اور انسانوں ہی کا دل و دماغ اور انسانی احساسات رکھتے تھے، اس لیے کوئی تعجب کی بات نہیں کہ بہت سے لوگوں کے لیے ان کی مخالفت کا موجب یہی احساس کمتری اور انسانی طبیعت کی قدیم کمزوری تھی، جس سے بچنا بڑا مشکل کام ہے، امام ابوحنیفہؒ سے شدید اختلاف و عناد رکھنے کے اسباب کا ذکر کرتے ہوئے مورخین نے یہ شعر لکھا ہے جو ہر زمانہ پر صادق ہے: حسدو الفتی اذ لم ینالو لواسعیه فالناس اعداء له و خصوم۔

۴۔ بہت سے معاصرین کی مخالفت کا ایک قدرتی سبب شیخ الاسلام کی ایک مزاجی خصوصیت بھی تھی، جو بہت سے ان اہلِ کمال میں ہوتی ہے جو غیر معمولی طور پر ذہین، وسیع النظر اور کثیر المعلومات ہوتے ہیں، یعنی طبیعت کی تیزی اور ذکاوتِ حس، جو بعض اوقات ان کو اپنے بعض حریفوں کی سخت تنقید اور ان کے جہل اور غباوت اور قلتِ علم کے اظہار پر آمادہ کردیتی ہے، اور شدتِ تاثر میں ان کی زبان سے بعض ایسے الفاظ نکل جاتے ہیں جس سے ان کے اہلِ علم معاصرین اور ان کے معتقدین و تلامذہ کی دل شکنی اور تحقیر ہوتی ہے، اور ان کے دل میں مستقل نفرت و عناد کے بیج پڑجاتے ہیں، جو علمی و فقہی اصطلاحات، کفر و ضلال کے فتوے اور مسلسل مخالفتوں اور ریشہ دوانیوں کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں۔

۵۔ مخالفت کا ایک سبب ان کی بعض وہ تحقیقات اور ترجیحات ہیں، جن میں وہ متفرد اور مذاہب مشہورہ اور ائمہ اربعہ سے بھی بعض اوقات الگ نظر آتے ہیں، جن لوگوں کی فقہ و خلاف کی تاریخ اور ائمہ و مجتہدین کے اقوال و مسائل پر وسیع نظر ہے ان کے لیے تو یہ ”تفردات“ کوئی وحشت کی چیز اور ابن تیمیہ کے فضل و کمال کے انکار کا موجب نہیں، وہ جانتے ہیں کہ اگر ائمہ مشہورین اور اولیاے مقبولین کے تفردات اور مسائلِ غریبہ جمع کردیے جائیں تو یہ تفردات بہت ہلکے اور معمولی نظر آنے لگیں، اور ان لوگوں کا حسنِ اعتقاد جو ”تفرد“ کو مقبولیت اور حقانیت کے منافی سمجھتے ہیں، اور ان کے لیے عظمت و ولایت کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ اس کا کوئی قول اور کوئی تحقیق مشہور تحقیقات کے خلاف نہ ہو،متزلزل میں پڑجائے گا۔

۶۔ان کی مخالفت کا ایک قوی سبب یہ تھاکہ انھوں نے اس طرز کلام اور صفات و متشابہات کی تاویل کے اس طریقہ کی مخالفت کی جو ’عقیدہ اشعریہ “بلکہ عقیدہ اہل سنت کے نام سے موسوم تھا ….اس وقت تمام عالمِ اسلام پر اشعری العقیدہ علما و متکلمین کا اثر تھا، امام ابن تیمیہؒ کا یہ اختلاف جو خالص علمی بنیادوں پر تھا، ایک بدعت اور ”یتبع غیر سبیل المومنین“ کا مترادف سمجھا گیا۔….

۷۔ مخالفت کا ایک سبب شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کی مخالفت ہے، بہت سے لوگوں کے نزدیک خصوصاً جو تصوف کا مذاق رکھتے ہیں، ابن تیمیہ کا یہ جرم ناقابلِ معافی ہے، اور ان کے تمام محاسن و کمالات پر پانی پھیر دیتا ہے کہ انھوں نے شیخِ اکبر کے مشہور آراءو تحقیقات اور ان کے مسلک وحدة الوجود کی پرزور تردید کی ہے، اور وہ ان کے مخالفین میں سے ہیں۔….

۸۔ ایک گروہ کو ان کی طرف سے شدید غلط فہمیاں اور مغالطے تھے۔ بعض غیر محتاط و متعصب مصنفین نے ان کی طرف ایسے اقوال کی نسبت کی تھی، جو عام عقیدہ اہلِ سنت اور جمہور کے مسلک کے مطابق موجبِ کفر ہیں، اور بعض ایسے اقوال ان کی طرف منسوب کیے گئے جن سے مقامِ رسالت میں سوئِ ادب اور تنقیص کا پہلو نکلتا ہے۔ (اعاذنا اللہ و جمیع المسلمین منہ) یہ معاملہ تنہا ابن تیمیہ کے ساتھ نہیں کیا گیا، دوسرے اکابر امت بھی معاندین کی اس سازش کا شکار ہوئے ہیں، ان کی طرف نہ صرف ان اقوال و عقائد کی نسبت کی گئی، جن سے وہ بالکل بری تھے، بلکہ ان کی کتابوں میں ایسے مضامین شامل کیے گئے جو موجبِ کفر و ضلال تھے، ایک قدم اس سے بڑھ کر مستقل کتابیں (جو کفریہ اقوال پر مشتمل تھیں) تصنیف کرکے ان کی طرف منسوب کردی گئیں، اور ان کی وسیع پیمانے پر اشاعت کی گئی۔[6]

6۔اسلاف کا طریقہ

یہ گفتگو اب خاتمہ پر ہے، مگر ضروری محسوس ہوتا ہے کہ اس موقع پر یہ بیان کردیا جائے کہ اختلافات کے معاملے میں اسلاف کا رویہ کیا تھا۔ ہمارے ہاں اسلاف کا نام بہت لیا جاتا ہے۔ بلکہ مشاہدہ یہ ہے کہ کسی اختلافی مسئلے میں دوسروں کو مطعون کرنے کے لیے اسلاف سے اختلاف ہی کے نام کو استعمال کیا جاتا ہے ۔مگر اختلاف رائے پیش آنے کی صورت میں خود اسلاف کا رویہ کیا تھا، یہ کم ہی بیان کیا جاتا ہے۔

ہمارے نزدیک اس سلسلے کی سب سے پہلی اور بنیادی بات اس حقیقت کو سمجھنا ہے کہ اسلاف اپنے کسی کام کو حرف آخر نہیں کہا کرتے تھے۔نہ انہوں نے کبھی لوگوں کو اس بات سے منع کیا کہ وہ دلیل کی بنیاد پر ا ن سے اختلاف نہ کریں۔اس کو سادہ ترین مثال سے یوں سمجھیں کہ اگر ہمارے اسلاف کا یہ طریقہ ہوتا تو امام ابوحنیفہ ؒکے بعد فقہ میں کوئی کام نہیں ہوسکتانہ امام بخاری ؒکے بعد حدیث کی کوئی کتاب مرتب کی جاسکتی ہے۔امام ابو حنیفہ کے بعد اگر کوئی کام ہوا تو ظاہرہے کہ اس کا ایک بڑا حصہ ان دیگر ائمہ فقہ کا ہے جو ان سے قدرے مختلف اصول رکھتے تھے۔ یہی معاملہ علم حدیث کا ہے جہاں دیگر محدثین کا زاویہ نظر اور قبولیت حدیث کا معیار اما م بخاری سے مختلف تھا۔ یہ اختلاف نہ ہوتا تو حدیث اور فقہ کا ہمارا ذخیرہ بہت محدود ہوتا۔ یہی معاملہ دیگر علوم کا ہے۔ مگر اس اختلاف کی برکت سے ہمارا علم وسیع ہوگیا۔

ائمہ فن میں اس اختلاف کا سادہ سبب یہ تھا کہ یہ اپنے کام کو ایک علمی کام سمجھتے تھے ، کبھی حق قرار نہیں دیتے تھے۔ اس معاملے میں امام شافعی کے اس قول کو حرف آخر کی حیثیت حاصل ہے: رای صواب یحتمل الخطاورای غیری خطا یحتمل الصواب۔ یعنی میری رائے درست ہے گرچہ غلطی کا امکا ن رکھتی ہے اور دوسرے شخص کی بات غلط ہے گرچہ اس کے درست ہونے کا احتمال ہے۔

یہاں یہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ بعض اوقات مسئلہ صحیح اور غلط کا ہوتا ہی نہیں۔ایک ہی معاملے کو دیکھنے کے ایک سے زیادہ زاویے ہوسکتے ہیں۔بعض اوقات معروضی حالات کی بنا پر ایک بات زیادہ درست ہوسکتی ہے اور دوسرے حالات میں دوسری رائے زیادہ قابل عمل ہوجاتی ہے۔بعض اوقات تحقیق، علم اور استعداد نتائج فکر میں فرق پیدا کردیتے ہیں۔ بعض اوقات اہل علم کا مزاج اور افتاد طبع بھی رائے کے فرق کا سبب بن جاتا ہے۔ غرض فہم اور تحقیق کی صلاحیت، ذوق اور طبیعت، زاویہ نظرو فکر، علم و استعدا د اور خارجی حالات مل کررائے کے اختلاف کا سبب بن جاتے ہیں۔شاگرد استاد سے اختلاف کردیتا ہے اور اگلے والے پچھلے والوں کے برعکس ایک رائے قائم کرلیتے ہیں۔

ہمارے اسلاف ان ساری چیزوں کو سمجھتے تھے اور اسی بنیاد پر دوسروں سے اختلاف کرتے اوردوسروں کو اختلاف کرنے کی اجازت دیتے تھے۔بڑے صاحبان علم نے اس میں کبھی توحش اور پریشانی کی بات نہیں سمجھی۔کیونکہ یہ سارا اختلاف فروع میں ہورہا ہوتا ہے اصول میںنہیں۔ اس میں ابتدائی صدیوں کی بھی کوئی قید نہیں۔ امام ابن تیمیہ کی مثال اوپر گزری ہے جو قرون اولیٰ کے بہت بعد پیدا ہونے والے بہت بڑے عالم ہیں۔جیسا کہ مولانا ندوی نے اوپر فرمایا کہ انہوں بہت سے معاملات میں اگلوں سے اختلاف کیا اوربڑے ائمہ کے برعکس اپنی ایک منفرد رائے قائم کی۔ اور آج بھی ان کی آرا ءکو ماننے والے بھی کم نہیں ہیں۔

چنانچہ آج بھی جتنے مسائل ہیں وہ دراصل اسلاف کے اس اصول کو چھوڑ دینے کا نتیجہ ہے جس کے تحت ہمارے ائمہ اور اسلاف نہ صرف اختلا ف کرنے کی اجازت دیتے رہے بلکہ اپنی غلطی کا امکان بھی ہمیشہ تسلیم کرتے رہے۔ جیسا کہ امام شافعی نے فرمایا: رای صواب یحتمل الخطاورای غیری خطا یحتمل الصواب۔ ’’یعنی میری رائے درست ہے گرچہ غلطی کا امکا ن رکھتی ہے اور دوسرے شخص کی بات غلط ہے گرچہ اس کے درست ہونے کا احتمال ہے۔‘‘

7۔جھوٹے پروپیگنڈے کو بلا تحقیق پھیلانا

ان تمام وجوہات کے ساتھ کچھ اور اخلاقی کمزوریاں بھی اس گروہی تعصب اور فرقہ واریت میں اضافہ کا سبب بن جاتی ہیں۔ہوتا یہ ہے کہ الزام وبہتان تراشنے والا کوئی ایک شخص ہوتا ہے، مگر باقی لوگ کارثواب سمجھ کر اس کو پھیلانے لگتے ہیں۔اوپر واقعہ افک کی جو تفصیلات بیان ہوئیں ان کے بعد اللہ تعالیٰ نے سیدہ عائشہ کی جو براءت سورہ نور(24)آیت 11 تا 18 میں نازل کی اس میں تمام کمزوریو ں کی طرف خصوصیت کے ساتھ توجہ دلائی گئی جو معاشرے میں الزام و بہتان کی سوچ عام کرتی ہیں۔ یہ درج ذیل ہیں۔

۱۔ مسلمانوں کو ایک دوسرے کے متعلق نیک ہی گمان کرنے چاہیے ۔کیونکہ الزام و بہتان کی کسی مہم میں ایک طرف مہم جوئی کرنے والے لوگ ہوتے ہیں اور دوسری طرف اس مہم کا نشانہ بننے والا شخص۔ ایسے میں عام لوگوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ ہمیشہ حسن ظن سے کام لیں۔وہ ایسی کسی بات کو سنتے ہی کہہ دیں کہ یہ بہتان ہے اور ہمیں حق نہیں کہ ہم ایسی کوئی بات زبان پر لائیں۔ اس کے برعکس بغیر علم و تحقیق کے اس بات کو آگے پھیلانا، خود ایک منفی رائے قائم کرنا، دوسروں کی رائے سازی کرنا ایک بہت بڑی بات اوراللہ کے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ حدیث مبارکہ میں اس عمل کو جھوٹ کہا گیا ہے۔ارشاد نبوی ہے: ’’کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بیان کرنے لگے۔‘‘ یہ روایت امام مسلم اپنے صحیح کے مقدمے میں لائے ہیں اور دیگر محدثین مثلاً امام البانی نے اس کو صحیح کہا ہے۔[7]اسی مفہوم کی ایک صحیح روایت یہ ہے کہ کسی شخص کے گنہ گارہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بیان کرنے لگے۔[8]

۲۔ سیدہ کے معاملے میں بہتان تو زنا کا لگایا گیا تھا ، مگر تردید کرتے وقت قرآن مجید نے زنا کا لفظ استعمال ہی نہیں کیا۔اس کا ایک سبب یہ ہے کہ قرآن مجید الزام و بہتان کے اس رویے پر تنقید کو صرف زنا کے الزام کی حد تک محدود نہیں کرنا چاہتا بلکہ اس کے پیش نظر یہ بات ہے کہ کسی مسلمان پراگر کسی اور پہلو سے بھی کوئی سنگین الزام لگایا جائے، جیسا کہ مذہبی اختلافات میں آج کل مسلمانوں کی نیت اور ان کے ایمان پر براہ راست حملے کرکے انہیں کافر اور گمراہ قرار دیا جاتا ہے، اس رویے کی بھی حوصلہ شکنی کی جائے۔کسی کی عزت پر حملہ کرنا بڑا سنگین جرم ہے، مگر اس کے ایمان اور نیت کو ہدف بنانا اس سے بھی کہیں زیادہ سنگین جرم ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے اس چیز کو سمجھا اور اس کو بیان کیا ہے۔ چنانچہ بخاری و مسلم میں اس مفہوم کی متعدد روایات ہمیں ملتی ہیں جس میں واضح کیاگیا ہے کہ کسی مسلمان کو کافر کہنا خود اپنے کفر کا سبب بن جاتا ہے۔

۳۔ جو لوگ اس وقت الزام لگارہے تھے ان سے کہا گیا کہ وہ چار گواہ لے کر آئیں۔یہ بات عقل عام سے سمجھی جاسکتی ہے کہ زنا چھپ کر کیا جاتا ہے چار لوگوں کے سامنے نہیں۔چنانچہ بہت سے لوگ اس بنا پر قرآن کا مذاق بھی اڑاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے شرط ہی وہ رکھی ہے جو کبھی پوری نہیں کی جاسکتی۔ مگردرحقیقت الزام کو ثابت کرنے کے لیے اتنی سخت ترین شرط لگانے کا مقصد ہی یہی ہے کہ معاشرے میں الزام لگانے کی سوچ کو ختم کیا جاسکے۔ جب تک کہ ناقابل تردید ثبوت میسر نہ ہوں، کسی بھی شخص کے خلاف کسی پہلو سے زبان نہ کھولی جائے۔

چار گواہ چونکہ عدالت ہی میں پیش ہوسکتے ہیں جہاں عدالت ہر دو فریق کا فیصلہ اور گواہی طلب کرکے انصاف کے مطابق حکم لگاتی ہے، اس سے عام لوگوں کے لیے مزید یہ ہدایت نکلتی ہے کہ ایسے معاملات میں وہ بھی انصاف سے کام لیں۔انصاف کے لیے شرط ہے کہ دونوں فریقوں کا موقف سنا جائے اور پھر کسی نتیجے پر پہنچا جائے۔ کسی ایک فریق کے یکطرفہ الزامات سن کران الزامات کو آگے بڑھانا ایک بدترین جرم ہے جس کی روز قیامت جواب دہی کرنی ہوگی۔

شیطان یا فرشتہ

عام لوگوں کے اس طر ح کی چیزوں میں پڑنے کا ایک باعث ہمارے معاشرے کی یہ نفسیاتی کمزوری ہے کہ ہم جب کسی انسا ن کے متعلق رائے قائم کرتے ہیں تو اسے شیطان یا فرشتے میں سے کسی ایک انتہا پر ضرور پہنچادیتے ہیں۔ہم جس عالم سے متاثر ہوجائیں اسے تقدس اور عظمت کے اس مقام پر پہنچادیتے ہیں جہاں ہم برائے بحث یہ تو مان سکتے ہیںکہ ہمارا عالم غلطی کرسکتا ہے، مگر ہمارا پورا یقین ہوتا ہے کہ اس نے کوئی غلطی نہیں کی ہے۔

دوسری طرف جس شخص کے خلاف ہمارا عالم اور ہمارا فرقہ محاذ کھول دے، ہمیں یقین ہوجاتا ہے کہ یہ ایک شیطان ہے جس میں کسی خوبی کا پایا جانا ممکن نہیں ہے۔اس کا مکمل بائیکاٹ کرنا، اس کی بات سننے اور پڑھنے سے انکار کردینا، اس کی کسی بھی اچھائی کا اعتراف کرنا ہمارے لیے ناممکن ہوجاتا ہے۔ایسا شخص توحید پر بھی بات کرے گا تو ہم اس میں سے شرک نکالیں گے۔ وہ اسلام اور پیغمبر اسلام کا دفاع کرے گا اور ہم اسے باطل مذاہب کی خدمت تصور کریں گے۔وہ اصلاح کے لیے اٹھے گا اور ہم اسے غیر ملکی طاقتوں کا ایجنٹ قرار دے کر رد کردیں گے۔

ہم یہ تصور کرنے کے لیے تیار نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب انسان غلطی کرسکتے ہیں۔ہر کسی میں کمزوری ہوسکتی ہے۔معصوم او رمحفوظ کوئی نہیں۔ اپنے جس عالم کو ہم ہر خطا سے پاک سمجھتے ہیں، وہ ٹھوکر کھاسکتا ہے اور جس کے شیطان ہونے کا ہمیں یقین دلادیا گےا ہے وہ ایک سچا اور مخلص مسلمان ہوسکتا ہے۔یہی وہ چیز ہے جو معاشرے میں نفرت اور انتشار کو بڑھاتی چلی جاتی ہے۔

خلاصہ یہ کہ فرقہ واریت اور تعصبات پیدا کرنے والے لوگ اگر الزام وبہتان کا طوفان اٹھاتے ہیں تو اسے پھیلانے کی خدمت اپنی کمزوریوں کی بنا پر عام لوگ سر انجام دیتے ہیں۔ مگریہ سرتا سر قرآن و حدیث کی خلاف ورزی پر مبنی رویہ ہے۔یہ جھوٹ پر مبنی وہ رویہ ہے کہ جو اللہ کے غضب کو دعوت دیتا ہے ۔ اس سے بچنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔

(ابو یحیی، www.inzaar.org )

http://www.mubashirnazir.org/PD/Urdu/PU02-0083-Sectarianism.htm

مزید پڑھیں :

  1. فرقہ واریت کا خاتمہ : پہلا قدم
  2. مسلمان کون؟
  3. عمر ضائع کردی
  4. اختلاف فقه اور اتحاد مسلم
  5. بریلوی , دیو بندی‎‎ کون ہیں؟
  6. بدعت ، بدا، 1
  7. بدعت – اَحاديث و اَقوالِ اَئمہ -2
  8.    فرقہ وارانہ مذہبی بیانیوں پر مختصر تبصرہ
  9. فرقہ واریت – تاویلیں، دلائل اور تجزیہ
  10. تقلید کی شرعی حیثیت
  11. مقلدین اورغیر مقلدین
  12. اَہْلُ السُّنَّۃ وَالْجَمَاعَۃ‘‘ کون؟ 
  13. تاریخی واقعات دین اسلام کی بنیاد ؟
  14. شیعہ عقائد اور اسلام
  15. شیعیت-عقائد-و-نظریات
  16. تکفیری، خوارج فتنہ 
  17. انسداد فرقہ واریت 
  18. امام خامنہ ای – خونی ماتم ممنوع