محمد علی جناح جیسے ماڈرن شخص کومسلمانوں اور(کچھ) علماء نے کیوں اپنا ” قائد اعظم“ مانا ؟

Image result for jinnah family

قائد اعظم قیادت کے اس معیار پر پورا نہیں اترتے تھے جو مذہبی فکر میں تشکیل پاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کے باوجود کیا سبب ہے کہ وہ مولانا اشرف علی تھانوی سے لے کر جماعت علی شاہ تک، مسلکی تقسیم سے ماورا، اہل مذہب کے لیے قابل قبول بن گئے؟ 

ہماری مذہبی فکر کی تشکیل میں بنیادی پتھر روایت ہے۔ یہ فکر کے اعتبار سے ہے اور تہذیبی اعتبار سے بھی۔ عرب کلچر، مذہبی لاشعور میں، مذہب ہی کا ایک حصہ ہے۔ اس لیے ہماری مذہبی روایت میں اس سے قریب تر رہنے کی شعوری کوشش کی جاتی ہے۔ دینی مدارس میں جو شخصیات ڈھلتی ہیں، وہ فکر ہی نہیں حلیے کے اعتبار سے بھی غیر مذہبی لوگوں سے مختلف ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر سر پر ٹوپی رکھنا اس روایت کا ایک حصہ ہے۔ ایک طالب علم سے لے کر معلم تک، سب اس کا لحاظ رکھتے ہیں۔ مدرسے میں ٹوپی پہننا لازم ہے۔ داڑھی کی بات دوسری ہے کہ ہماری روایتی مذہبی فکر میں یہ دین کا حصہ ہے، لیکن ٹوپی کا معاملہ یہ نہیں ہے۔ اس کے باوجود مدرسے میں ٹوپی پہننا لازم ہے۔ یہ اس لیے کہ یہ نظام تہذیبی اعتبار سے بھی جو انسان پیدا کرنا چاہتا ہے وہ ٹوپی سے بے نیاز نہیں ہوتا۔ 

قائد اعظم تہذیبی اعتبار سے سے بالکل مختلف تھے۔ وہ جدید آدمی تھے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ان کا لباس اور رہن سہن کیسا تھا۔ یہ ظاہری لبادہ ایک مذہبی فکر کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ حتیٰ کہ مولانا مودودی کے لیے بھی نہیں، جو نسبتاً ایک جدید عالم دین تھے۔ انہیں بھی مسلم لیگ کی صفوں میں ایک ایسا آدمی دکھائی نہیں دیا‘ جو اسلامی کردار کا نمونہ ہو۔ اس کے باوجود اگر اہل مذہب کے ایک بڑے طبقے نے قائد اعظم کو اپنی سیاسی قیادت کے لیے منتخب کیا تو کیوں؟ اس کا جواب جماعت علی شاہ صاحب نے دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت مسلمان قوم کو ایک مقدمہ درپیش ہے اور اسے ایک وکیل کی ضرورت ہے۔ وکیل میں یہ صفات ہونی چاہئیں کہ وہ دیانت دار ہو اور اہل ہو۔ قائد اعظم میں یہ دونوں خصوصیات موجود ہیں۔ 

میرا احساس ہے کہ یہی خیال قائد اعظم کے بارے میں دیگر علماء کا بھی تھا‘ جنہوں نے تحریک پاکستان میں ان کی قیادت کو قبول کیا۔ جن کا خیال یہ تھا کہ تقسیم ہند ہی مسلمانوں کے مسائل کا حل ہے، انہوں نے محمد علی جناح کو قائد اعظم مان لیا۔ گویا سیاست کا مسئلہ مثالی اور غیر مثالی میں تقسیم کا نہیں ہے۔ اس باب میں حقیقت پسندی کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ مولانا شبیر احمد عثمانی، شخصی اعتبار سے، جس میں سرفہرست علم و فضل ہے، ممکن ہے مولانا ابوالکلام آزاد کو ترجیح دیتے ہوں، لیکن سیاسی میدان میں ان کا انتخاب قائد اعظم ہی تھے۔ آج پاکستان کے عوام کو بھی ایک مقدمہ درپیش ہے۔ یہ پاکستان کا مقدمہ ہے …… [بشکریہ ، خورشید ندیم . دنیا] http://dunya.com.pk/index.php/author/khursheed-nadeem/2016-04-30/15274/
  1. مسلما نوں اور علماء کے نام کھلا خط : آج کے حالات میں مسلم معاشرہ نظریاتی  ابتری اور انحطاط کا شکار ہے. مادہ پرستی، دہشت گردی، عدم برداشت، اور جہالت انسانیت، امن اور مذھب کے لیے خطرہ بن چکے ہیں- ان حالات میں صاحب علم و ذی فہم حضرات سے ممکنہ حل کی توقع کی جا سکتی ہے. ہمارا مقصد ہے کہ آپ کی توجہ ضروری حل پذیر مسائل کی طرف مبذول کرنا ہے تاکہ جلد حل تلاش کیا جا سکے- آپ کی توجہ اور مدد سے ہم کوشش کر سکتے ہیں کہ معاشرہ کو اس  گہری دلدل سے نکال سکیں. مکمل خط اس لنک پر پڑھیں : http://goo.gl/y2VWNE
  2. نظریاتی اور فکری کنفیوژن اور ممکنہ حل

~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~

Humanity, ReligionCultureSciencePeace