Aitekaf اعتکاف اور لیلة القدر

اعتکاف عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ٹھہر جانے اور خود کو روک لینے کے ہیں۔ شریعت اسلامی کی اصطلاح میں اعتکاف رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں عبادت کی غرض سے مسجد میں ٹھہرے رہنے کو کہتے ہیں۔


Iʿtikāf (Arabic: اعتكاف‎‎, also i’tikaaf or e’tikaaf) is an Islamic practice consisting of a period of staying in a mosque for a certain number of days, devoting oneself to ibadah during these days and staying away from worldly affairs. The literal meaning of the word suggests sticking and adhering to, or being regular in, something, this ‘something’ often including performing nafl prayers, reciting the Qur’an, and reading hadith. Keep reading >>>

“اور ہم نے تاکید فرمائی ابراہیم و اسماعیل کو کہ میرہ گھر خوب ستھرا کرو طواف والوں اور اعتکاف والوں اور رکوع و سجود والوں کے لئے۔”  (  ترجمہ ،سورہ بقرہ،آیت 125)

’’ حضرت محمد ﷺ کی زوجہ  حضرت عائشہ(رضی اللہ) سے روایت ہے کہ حضرت محمد ﷺ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوا۔ پھر آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات (بیویاں) اعتکاف کرتی رہیں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الاعتکاف، باب الاعتکاف في العشر الأواخر والاعتکاف في المساجد، جلد2 صفحہ713، حدیث نمبر 1922،
 مسلم في الصحيح، کتاب الاعتکاف، باب اعتکاف العشر الأواخر من رمضان،جلد 2 صفحہ831، حدیث نمبر 1172
وأبوداود في السنن، کتاب الصوم، باب الاعتکاف،جلد 2 صفحہ331، حدیث نمبر2462
الترمذي في السنن، کتاب الصوم، باب ما جاء في الاعتکاف، وقال : حديث حسن صحيح، جلد 3 صفحہ157، حدیث نمبر 790
اللہ تعالٰیٰ کی قربت و رضا کے حصول کے لئے گزشتہ امتوں نے ایسی ریاضتیں لازم کر لی تھیں، جو اللہ نے ان پر فرض نہیں کی تھیں۔ قرآن حکیم نے ان عبادت گزار گروہوں کو ’’رہبان اور احبار‘‘ سے موسوم کیا ہے۔ رسول اللہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تقرب الی اللہ کے لئے رہبانیت کو ترک کر کے اپنی امت کے لئے اعلیٰ ترین اور آسان ترین طریقہ عطا فرمایا، جو ظاہری خلوت کی بجائے باطنی خلوت کے تصور پر مبنی ہے۔ یعنی اللہ کو پانے کے لئے دنیا کو چھوڑنے کی ضرورت نہیں بلکہ دنیا میں رہتے ہوئے دنیا کی محبت کو دل سے نکال دینا اصل کمال ہے۔

اعتکاف کی بنیادی طور پر تین قسمیں ہیں ۔ نفل ‘سنت اور واجب -اعتکاف نفل کیلئے وقت کی قید نہیں‘صرف اعتکاف کی نیت ہونی چاہئے ‘تھوڑی دیر کیلئے بھی اعتکاف کی نیت سے مسجد میں قیام کرلے ‘نفل اعتکاف ہوجائے گا-
دوسری صورت واجب اعتکاف کی ہے ‘اعتکاف کے واجب ہونے کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ اعتکاف کی نذر مانا ہو ‘دوسرے یہ کہ ایک دن یا اس سے زیادہ نفل اعتکاف کی نیت سے نفل اعتکاف شروع کیا لیکن مدت پوری ہونے سے پہلے اسے توڑ دیا ‘تو اب جتنی مدت کی اس نے نیت کی تھی شروع کرنے کے بعد توڑ دینے کی وجہ سے اتنے دنوں کا اعتکاف واجب ہوگیا ۔ اعتکاف واجب کیلئے روزہ ضروری ہے اس لئے کہ اعتکاف روزہ کے ساتھ ہے ۔ 
تیسری صورت جواعتکاف کی اصل صورت ہے وہ اعتکاف سنت ہے ‘اعتکاف سنت رمضان المبارک کے آخری عشرہ اعتکاف ہے یہ سنت علی الکفایہ ہے یعنی اگر شہر کے کچھ لوگوں نے اعتکاف کرلیا تو ثواب تو اعتکاف کرنے والے کو ہوگا لیکن ترک اعتکاف کے گناہ سے سبھی لوگ بچ جائیں گے اور اگر بستی کے کسی بھی شخص نے اعتکاف نہیں کیا تو بستی کے تمام لوگ گناہ گار ہوں گے ۔ اگر ایک شہر میں کئی مسجدیں ہوں تو بہتر تو یہی ہے کہ کوئی بھی مسجد اعتکاف کرنے والوں سے خالی نہ ہو لیکن اگر ایک مسجد میں بھی اعتکاف کرلیا جائے تو تمام اہل شہر ترک سنت کے گناہ سے بچ جائیں گے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں مدینہ میں متعدد مسجدیں تھیں لیکن صرف مسجد نبوی ﷺ ہی میں اعتکاف کا ذکر ملتا ہے ۔ واللہ اعلم
خواتین گھر میں اعتکاف کا اہتمام کر سکتی ہیں جبکہ مردوں کو مسجد میں-
اعتکاف مسنون کا طریقہ یہ ہے کہ 20رمضان المبارک کو غروب آفتاب سے پہلے مسجد میں داخل ہوجائے کیوں کہ غروب آفتاب ہی سے اکیسویں تاریخ شروع ہوجاتی ہے اور اعتکاف کا ایک مقصد شب قدر کو پانا ہے اور اکیسویں شب کو شب قدر کا احتمال موجود ہے- اعتکاف کے درست ہونے سے متعلق کچھ شرطیں اعتکاف کرنے والے سے متعلق ہیں اور کچھ جگہ سے جہاں اعتکاف کیا جائے ‘اعتکاف کرنے و الے سے متعلق شرط ہے کہ وہ مسلمان ہو ‘بالغ ہو ‘فاتر العقل نہ ہو ‘ جنابت ‘حیض اور نفاس سے پاک ہو ‘نیز اعتکاف کی نیت کی جائے ۔
اگر آپ دس دن کا اعتکاف نہیں کر سکتے تو رمضان کے آخری عشرہ میں جب بھی مسجد میں داخل ہوں تو مسجد میں قیام کے دورانیہ کے لیے اعتکاف کی نیت کر لیں-  
مسائل اعتکاف >>> http://www.thefatwa.com/urdu/catID/211/
………………………………….

لیلة کے معنی رات کے ہیں اور قدر کے معنی ہیں عظمت و شرف ‘ تو اس رات کو شرف حاصل ہوا ہے کیونکہ اس میں نزول قرآن مجید ہوا ہے‘ قرآن مجید سب کتابوں مےں عظمت و شرف والی کتاب ہے اور جس نبی کریم پر یہ کتاب نازل ہوئی وہ تمام انبیاءپر عظمت و شرف رکھتے ہےں‘ اس کتاب کو لانے والے جبرائیل امینؑ بھی سب فرشتوں پر عظمت و شرف رکھتے ہےں تو یہ رات لیلة القدر بن گئی ۔
حضرت ابو بکر وراق ؒ کا فرمان ہے اس رات کو لیلة القدر اس وجہ سے کہتے ہیں جس آدمی کی اس سے قبل اپنی بے عملی کی وجہ سے قدر و منزلت نہ تھی تو اس کو توبہ استغفار اور عبادت کے ذریعہ صاحب قدر و شرف بنا دیا جاتا ہے۔
قدر کا دوسرا معنی :
قدر کے معنی تقدیر و حکم کے بھی آتے ہےں اس اعتبار سے لیلة القدر کہنے کی وجہ یہ ہوگی کہ اس رات تمام مخلوقات کیلئے جو تقدیر ازلی مےں لکھا ہے اس کا جو حصہ اس سال رمضان سے اگلے رمضان تک پیش آنے والا ہے وہ ان فرشتوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے جو کائنات کی تدبیر اور تنفیذ امور کیلئے مامور ہیں اس میں ہر انسان کی عمر اور موت اور رزق وغیرہ فرشتوں کو لکھوا دیا جاتا ہے یہاں تک کہ اس سال مےں جس شخص کو حج نصیب ہو گا وہ بھی لکھ دیا جاتا ہے اور جن فرشتوں کو یہ امور سپرد کر دیئے جاتے ہےں بقول حضرت ابن عباسؓ چار ہیں (1) حضرت جبرائیلؑ (2 ) حضرت میکائیلؑ (3) حضرت عزرائیلؑ (4) حضرت اسرافیلؑ (معارف القرآن بحولہ قرطبی جلد 8 صفحہ 792)
بعض روایات سے ثابت ہو تا کہ یہ سب فیصلے لیلة النصف من شعبان یعنی شبِ برا¿ت مےں کئے جاتے ہیں۔ 
ان دونوں روایتوں میں تطبیق دی جاتی ہے کہ ابتدائی فیصلے اجمالی طور پر شب برات میں ہو جاتے ہیں پھر اس کی تفصیلات لیلة القدر میں لکھی جاتی ہےں اور مقررہ فرشتوں کے سپر د کئے جاتے ہیں (معارف القرآن جلد 8 صفحہ 792)
قدر کا تیسرا معنی
قدر کا تیسرا معنی ٰ تنگ ہوجانا بمقابلہ فراخی ہونا ہے جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ: (ترجمہ) اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کا چاہے رزق فراخ کر دیتا ہے اور جس کا چاہے رزق تنگ کر دیتا ہے۔
تو اس معنی کی بنا پر لیلة القدر مےں آسمان سے اتنے فرشتے اترتے ہیں کہ زمین پر جگہ تنگ ہو جاتی ہے کہ ایک پاو¿ں رکھنے کی جگہ بھی نہیں ملتی ،فرشتے بھی نازل ہوتے ہیں اور روح الامین بھی تشریف لاتے ہیں ۔نیز احادیث مےں بھی اس رات کی فضیلت کو واضح کیا گیا ہے ۔
حدیث1
حضرت انس ؓ سے روایت ہے رسول اللہ نے فرمایا جب شب ِقدر ہوتی ہے تو جبرائیلؑ ملائکہ کی جماعت مےں اترتے ہیں اور ہر اس شخص کیلئے دعا رحمت اور سلامتی کر تے ہےں جو عبادت مےںمصروف ہوتا ہے۔ (بیہقی شریف صفحہ 21 )   
حدیث 2
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے آقا دوعالم نے فرمایا جس شخص نے شب قدر مےں عبادت کی ایمان اور طلب اجر کے ساتھ تو اس کے گذشتہ سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں (مسلم شریف 259)
حدیث 3
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے رسول اللہ ارشاد فرماتے ہیں کہ تمہارے اوپر ایک مہینہ آیا ہے جس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے جو اس سے محروم رہ گیا گویا ساری بھلائیوں سے محروم رہ گیا ہے (ترغیب جلد 2 صفحہ 94)
حدیث 4
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا رسول اللہ نے لیلة القدر کو رمضان المبارک آخری عشرہ کی طاق راتوں مےں تلاش کرو (ترمذی 98)
لیلة القدر ستائیسویں کو شب ترجیح ہے
حضرت اُبی بن کعبؓ نے قسم کھا کر فرمایا کہ شب قدر رمضان کی ستائیسویں رات ہوتی ہے (مسلم جلد 2591 ابو داو¿د صفحہ197) 

اسی طرح حضرت عمرؓ نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے پوچھا کہ شب قدر کونسی رات ہے تو انہوں نے عرض کی اے عمرؓ آپ نے دیکھا نہےں کہ اللہ تعالیٰ کو سات کے عدد سے بہت محبت ہے آپ نے دیکھا نہےں کہ آسمان سات ہےں زمینیں سات ہےں اور انسان کی پیدائش کے مرحلے بھی سات ہیں اور زمین سے اگنے والی چیزیں بھی سات ہیں اسی طرح آدمی سجدہ کرتا ہے تو سات اعضاءپر کر تا ہے اسی طرح سعی بین الصفاءوالمروہ کے چکر سات ہیں ‘ طواف کعبہ کے چکر بھی سات ہیں شیطان کو بھی سات سات کنکر مارے جاتے ہےں‘ سورہ فاتحہ کی آیات بھی سات ہیں جن عورتوں سے نکاح حرام ہے وہ سات ہیں تو ان سب باتوں سے معلوم ہوا کہ لیلة القدر بھی ستائیسویں کو ہے ۔
 کہتے ہیں کہ یہ رات چمکدار اور صاف ہوتی ہے نہ زیادہ گرم اور نہ زیادہ ٹھنڈی ہوتی ہے بلکہ بھینی بھینی اور معتدل ہوتی ہے ،آسمانوں کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھنے سے آنکھوں میں نور اور دل میں سرور کی کیفیت پیدا ہوتی ہے – شب قدر کی بعد والی صبح کو سورج میں تیزی نہے ہوتی- اس رات میں عبادت کی بڑی لذت محسوس ہوتی ہے اور عبادت میں خشوع و خضوع پیدا ہو تا ہے 
لیلة القدر میں ہم نے کیا دعا مانگنی ہے
لیلة القدر میں خدا تعالیٰ کی رحمتوں کے تین سو دروازے کھلے ہوتے ہےں جو بھی دعا مانگو قبول ہوتی ہے وہ کریم ذات کسی کو بھی خالی نہےں لوٹاتی اس رات خاص کر یہ دعا ضرور مانگنی چاہیے


اللہم انک عفو تحب العفو فاعف عنی ) یا اللہ ! تو معاف کرنے والا ہے اور معافی کو پسند کرتا ہے پس تو میری خطائیں معاف کردے۔ 
توبہ و استغفار کرنا چاہیے اور عجزو انکساری سے رو رو کر دعا کرنی ہے

توبہ کی شرائط
(1)  یعنی جس گناہ سے توبہ کرنی ہے اس کو ہمیشہ ہمےشہ ترک کرنے کا ارادہ کرنا ہے (2)  اس گناہ پر ندامت بھی کرنی ہے (3)  یہ پختہ عزم کرنا ہے کہ آئندہ کبھی بھی یہ گناہ نہ کروں گا ‘ اس طرح توبہ کرنے سے آدمی کے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں اگر توبہ ٹوٹ بھی جائے تو دوبارہ کر لینی چاہیے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہےں ہونا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو لیلة القدر کی برکات نصیب فرمائے۔ (آمین) 
Source-  مولانا عبدالقادر آزاد http://www.nawaiwaqt.com.pk/regional/05-Aug-2013



نوٹ: جس  وقت مکّۂ معظمہ میں رات ہوتی ہے اُس وقت دنیا کے ایک بہت بڑے حصّے میں دن ہوتاہے ، اس لیے اُن علاقوں کے لوگ کیسے شبْ قدر کو پا سکتے ہیں ؟ 
عربی زبان میں اکثر رات کا لفظ دن اور رات  کے مجموعے کے لیے بولا جاتا ہے۔ اس لیے رمضان کی اِن تاریخوں میں سے جو تاریخ بھی دنیا کے کسی حصّہ میں ہو اُس کے دن سے پہلے والی رات وہاں کے لیے شبِ قدر ہو سکتی ہے۔
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
مزید پڑھیں:

~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~

Humanity, ReligionCultureSciencePeace

 A Project of 
Peace Forum Network
Peace Forum Network Mags
BooksArticles, BlogsMagazines,  VideosSocial Media
Overall near 3 Million visits/hits