Arguments for God(3) الله کے وجود کے عقلی دلائل

 باب – 3
خالق کاینات کے وجود کے عقلی دلائل
وجود باری تعالی پر یقین انسان کی فطرت کا حصہ ہے اور آخرت کا عقیدہ انسانی زندگی میں توازن کی بنیاد ہے- علم کی روشنی انسان کو تاریکیوں سے روشنی کی طرف لانے میں مدگار  ثابت ہوتی ہے-
“کہو بھلا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو نہیں رکھتے دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ (اور) نصیحت تو وہی پکڑتے ہیں جو عقلمند ہیں (قرآن (39:9 ؛ “اور پھر کہیں گے کہ اگر ہم بات سن لیتے اور سمجھتے ہوتے تو آج جہنّم والوں میں نہ ہوتے” (67:10 قرآن)
علم  کی دو بڑی اقسام ہیں :
1.   علم بدیہی : وہ علم جو مشاہدہ اور حواس سے بلا دلیل حاصل ہو. مثلا سامنے پہاڑ یا سورج  ہے جو موجود ہے نظر آ رہا ہے-
2.   علم نظری : وہ علم جس کے لیے ثبوت و دلیل کی ضرورت ہو جیسے کسی قائمہ زاویہ مثلث میں وتر کا مربع باقی دونوں ضلعوں کے کے مربوں کے مجموعے کے برابر ہو تا  ہے- اس کے لیے جیومٹری کا علم ضروری ہے –  
جب کوئی حقیقت تحت شعور میں داخل ہو کر راسخ ہو جائے اور عقل انسان کے فکر و عمل کو اسی طرف موڑ دے تو یہ حقیقت عقیدہ بن جاتی ہے ، جس پر اعتقاد ایمان کہلاتا ہے جو باطل  (کفر)یا  حق (اسلام ) ہو سکتا ہے-
یقین کی بنیاد:
1.   یقین جس طرح مشاہدہ  اور حواس کے ذریعہ سے ہوتا ہے اسی طرح سچی خبر بھی یقین کا  ذریعہ ہو سکتی ہے-
2.   اگر بعض حقیقتوں کا ادرک ہم حواس سے نہیں کر سکتے تو ہم کو حق نہیں پہنچتا کہ کہ ہم ان کے وجود سے ہی منکر ہوں-
3.   نفس انسانی کے اندر ذات باری تعالی کے وجود پر انتہائی راسخ ایمان فطری طور پر مرتکز اور جا گزین ہے –
4.   اس مادی دنیا کے پس پردہ ایک روحانی دنیا ہے جسے ہم نہیں جان سکتے – آخری زندگی پر ایمان ذات با ری تعالی کے موجود ہونے پر ایمان کا تقاضا ہے –
عقائداورعقل – بنیادی اصول:
شیخ علی طنطاویرح عالم اسلام کے شہرہ آفاق علماء میں شمار ہوتے ہیں- انہوں نے اپنی کتاب “تعریف عام بدین الاسلام ” میں عقائد کے آٹھ بنیادی اصول وضع کیے جن کی مدد  سے  خدا کے وجود کو عقل سے سمجھنے میں آسانی ہو سکتی ہے:
1.   جس چیز کو ہم محسوس کرتے ہیں اس کے موجود اور درست ہونے کا علم یعنی یقین حاصل ہونے کے لیئےضروری ہے کہ عقل اپنے سابق تجربہ کی بنیاد پر یہ فیصلہ نہ کر دے کہ یہ مشاہدہ وہم ہے یا حواس کا دھوکہ اور مغالطہ ہے- عقل سراب سے ایک مرتبہ دھوکہ کھا سکتی ہے مگر دوسری مرتبہ عقل سراب کو فریب نظر جان کر مسترد کر دیتی ہے –
2.   یقین جس طرح محسوس کرنے اور مشاہدہ کرنے سے حاصل ہوتا ہے اسی طرح اس شخص کی اطلاع سے بھی حاصل ہوتا ہے جس کے سچا ہونے ہمیں یقین ہو- سکندر اعظم کی فتوحات ،اہم تاریخی واقعات تسلسل سے بیان ہونے کی وجہ سے تسلیم کر لیئے گئے ہیں حالانکہ ہم نے خود مشاہدہ نہیں کیا-
3.   محض اس بنا پر کہ ہم اپنے موجودہ حواس کے زریعہ سے  بعض چیزوں کا ادرک نہیں کر سکتے ، ہمیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ ہم ان چیزوں کے وجود ہی کا انکار کر دیں- فضا میں برقی لہریں ریڈیو، ٹیلی ویژن ، انٹرنیٹ سگنلز، کاسمک ریز  وغیرہ موجود ہیں مگر ہم ان کو اپنے حواس سے محسوس نہیں کرتے ، مگر موجودہ دور میں  مخصوص  سائنسی آلہ جات کی مدد سے ان کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں-
4.   انسانی تصور و تخیل ان اشیاء کے علاوہ جو انسانی حواس کے دائرۂ ادرک میں آتی ہیں کسی اور چیز کی گرد کو بھی نہیں پا سکتا- ہم ایسی مثلث کا تصور نہیں کر سکتے جس میں زاویہ نہ ہو ، یا ایسا دائرۂ جس کا محیط نہ ہو –
5.   عقل صرف ان چیزوں کے بارے میں فیصلہ کر سکتی ہے جو زمان و مکان  (Time and Space)کی حدود کے اندر ہیں اور جو باتیں یا چیزیں ان حدود سے با ہر ہیں مثلآ روح کے مسائل ، تقدیر کے معاملات، الله تعالی کی نعمتیں اور صفات باری تعالی وغیرہ،  تو عقل ان کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں دے سکتی- عقل انسانی محدود ہے اور کوئی محدود چیز غیر محدود کے بارے میں نہ تو کوئی فیصلہ کر سکتی ہے اور نہ اس کا احاطہ کر سکتی ہے-
6.   ایمان انسان کی فطری جبلت ہے –تمام انسان کافر ہوں یا مومن ، عبادت گزار ہوں یا فاسق و فاجر اگر کسی سخت مصیبت میں پھنس جائیں تو وہ دنیا کی کسی مادی چیز کی پناہ تلاش نہیں کرتا بلکہ وہ کسی ایسی قوت کی پناہ چاہتا  ہے جو اس کائنات سے ماورا ہو، جسے وہ دیکھ تو نہیں سکتا لیکن اس کی روح اس کا دل اس کے جسم کا ہر ریشہ اس کے موجود ہونے کی گواہی دیتا ہے اس کی عظمت و جلال کا احساس رکھتا ہے ، اس سے محبت کرتا ہے ، ڈرتا ہے ، یہ اس لیے ہے کہ ایمان انسان کی جبلت ہے –
7.   نفس انسانی عقلی دلیل سے نہیں اپنے شعور باطنی کی ذہانت سے اس بات پر پورا یقین رکھتا ہے کہ یہ مادی دنیا ہی سب کچھ نہیں ہے ، بلکہ وہ نامعلوم جہان جو اس  مادی عالم کے پس پردہ پوشیدہ ہے ایک ایسی لازوال حقیقت ہے جی کی طرف روح لپکتی ہے اور چاہتی ہے کہ اڑ کر وہاں پہنچ جا ئیے  لیکن یہ جسم کثیف مانع ہے –اور یہی داخلی اور نفسیاتی احساس و شعور ایک  اُوخروی  عا لم  (Hereafter)کے موجود ہونے کا ثبوت ہے –
8.   اُوخروی زندگی (Life Hereafter)پر ایمان ذات باری تعالی پر ایمان لانے کا منطقی نتیجہ ہے-  ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں کچھ لوگ آرام و  آسائش کی زندگی گزارتے ہیں جبکہ بہت مظلوم لوگ مفلسی کی حالت میں مر جاتے ہیں- ایک منصف خدا سے یہ توقع جائز ہے کہ ظالم اور مظلوم کے ساتھ مکمل انصاف ہو – ایسا آخرت کی زندگی میں ہی ممکن ہے- یہ (concept of evil)   برائی کے وجود کی تو جیح بھی ہے-
پیغمبر وحی سے الله کے وجود اور اس کی اطاعت و عبادت کا پیغام دیتے ہیں- بہت لوگ ان کی بات پر یقین کرکہ قبول کر لیتے ہیں مگر عقلیت پسند کہتے ہیں کہ ’’خدا انسانی عقل سے ماورا ہے، کیونکہ اس کو حواس خمسہ کے ذریعے محسوس نہیں کیا جا سکتا۔ جب  ہم اپنے خالق کو دیکھ، سُن یا چھونہیں سکتےتوپھر ہم وثوق سے کیسے کہہ سکتے ہیں کہ خدا موجود ہے؟  یہ حقیقت  پہلے ہی واضح کر دی ہے کہ انسانی حواس خمسہ کی صلاحیت محدود ہے- انسانی کان 20 سے 20 کلو ہرٹز کی فریکوئنسی سن سکتا ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ 20 کلو ہرٹزسے زیادہ آواز کا وجود نہیں؟ کتا 67 ہرٹزسے 45 کلو ہرٹز تک کی فریکوئنسی سن سکتا ہے- بہت سی چیزوں کے وجود کے بارے میں جن کوانسان حواس خمسہ سے محسوس نہیں کر سکتے ان کے وجود کو  منطق اورادراک کے ذریعہ سے معلوم کیا جاتا ہے جیسے ایٹم، الیکٹران ،پروٹون وغیرہ وغیرہ-
کچھ اوراہم مسائل جو  فلسفیوں  کی توجہ کا مرکز  رہے ہیں  وہ  ‘خدا کے وجود’ اور متعلقہ مسائل یعنی ‘بدی’  (Problem of Evil)’تقدیر (Predestination) اور آزاد مرضی (Free Will)  کے بارے میں ہے-  فلسفہ میں  خدا کے وجود کے تین بڑے خالصتا عقلی دلائل مذہب کے فلسفہ کی تاریخ پر  اثر انداز ہوے  ہیں:
1. کائناتی  دلائل (Cosmological Argument)
2. دلیل غائی (Teleological Argument) یا ( Argument of Design)
3. دلیل وجودی (Ontological Argument)
  ان کے علاوہ خدا کے وجود کے ثبوت  میں  ‘اخلاقیات’ (morality)  اور’ احتمال’ (probability)سے دلائل ہیں-  جدید فلسفے میں پیش تین بڑے دلائل  کا قدیم اور جدید اسلامی فلسفیوں کی طرف سے پیش کردہ  خدا کے وجود کے دلائل کے ساتھ موازنہ کیا جا سکتا ہے-  خدا کے وجود کے خلاف بڑی دلیل ” شر  (برائی) کے وجود” (problem of evil)   کا مسئلہ رہا ہے. یہ خدا کے ما ننے والوں  کو  ایک اہم درپیش  مسئلہ ہے، اور اسلامی فلسفہ مغربی اصطلاح میں اس  مسئلہ سے نمٹنے کے لئے شروعات  کرچکا  ہے.  حال ہی میں عصر حاضر کے مغربی فلسفہ میں خدا کے وجود  کے دلائل میں سے ایک اورراستہ ‘مذہبی تجربے’ سے ثبوت ہیں. یہ موضوع اسلامی فلسفہ میں پہلے سے  موجود ہے.
1. کائناتی  دلائل  (Cosmological Argument) :
ہر چیزکے وقوع کے لیے ایک وجہ کا ہونا ضروری ہے، ہراثرeffect کے لیے ایک cause وجہ کا ہونا ضروری ہے- یہ کائناتی دلیل پہلے ارسطو ( B.C384-322) نے پیش کی اور بعد میں مشہور عیسائی ماہر الہیات تھامس Aquinas (1225-1274.CE) کی طرف سے مغربی یورپ میں یہ نظریہ مزید بہتری سے پیش کیا گیا تھا. وہ کائناتی دلیل اور انکشاف کے سوالات کو  ایک ٹیکنالوجی کے طور پر استعمال کرتا ہے جیسے کہ: ‘اس طرح کیوں ہے اور پھر وہ کیوں ؟’ یا ‘ وہاں کچھ بھی  کیوں ہے؟’ ان سوالات کے جوابات حاصل کرنے میں، کائناتی دلیل آگے  بڑھتے ہوئے اسباب  کے پھیلاؤ سے  ایک انکشاف  تک پہنچ جاتی ہے – اس سے  ‘پہلی وجہ ‘ (First Cuase) کا انکشاف ہوتا ہے جو  بعض طریقوں کو متعین کرتا ہے اور بات کر نے کے طریقوں کی  وکالت کرتا ہے –
بنیادی فرسٹ وجہ کی دلیل : (The Basic First-Cause Argument)- ‘ہر واقعہ کے لیے   ایک وجہ کا ہونا ضروری ہے، اور ہر سبب کے نتیجے میں اس کی اپنی وجہ کا ہونا ضروری ہے وغیرہ وغیرہ-  لہذا، وہاں یا تو وجوہات میں سے ایک لامتناہی دھچکا ہونا ضروری ہے یا ایک نقطہ اغاز یا پہلی وجہ کا ہونا ضروری ہے- آخر اس طرح  ایک ابتدائی عظیم حرکت میں آنے والی وجہ کا وجود ہونا ضروری ہے ، ایک ایسا  محرک جو  کسی دوسرے محرک کے بغیر تحریک کا سبب بن سکتا ہے ، خدا-
علت و معلول    (law of cause and effect)
’’سائنس کے مطابق مخلوق کی تمام شکلیں ترکیب کانتیجہ ہیں مثلاً بعض مفرد جواہر(single atoms) باہمی کشش کے قدرتی قانون کے ذریعہ اکٹھےکئے جاتےہیں اوراس کا نتیجہ انسانی ہستی اور دیگر مخلوق ہے- مخلوق کی شکل و خاصیت مختلف ہے جبکہ تمام اقسام کے (atom) کے بنیادی عناصر(,neutrons, electrons, protons) ایک طرح کے ہیں، یہ کیسے ممکن ہوا؟  اگرہم یہ اعلان کریں کہ یہ تعمیرحادثاتی (chance, acceident) ہے تو یہ منطقی طورپرایک غلط نظریہ ہے کیونکہ تب ہمیں کسی علت (cause) کے بغیر ایک معلول (effect) پریقین کرناپڑے گا؛ہماری عقل ایک علتِ اولیٰ (First Cuase) کےبغیرکسی معلول  (effect) کےبارے میں سوچنے سےانکاری ہے- زندگی کے عناصر ترکیبی, ترکیب میں اختیاری طورپرداخل ہوتے ہیں نہ کہ بے اختیاری میں اورنہ ہی حادثاتی طورپر۔ اوراس کا مطلب ہے کہ اجسام کی لامتناہی شکلوں کی ترکیب مشیت اعلیٰ، مشیتِ ابدی،ایک زندہ اور قائم بالذات خداکی مشیت کے ذریعہ ہوتی ہے۔ اگر ایک دھماکہ ہو تو اردگرد کی اشیاء ٹوٹ پھوٹ کر بکھر جاتی ہیں لیکن اگر ایسا دھماکہ ہو کہ بہت خوبصورت اشیاء، منظم کاینات وجود پذیر ہو تو یقینی طور پر اس  کا  کوئی سبب ہو گا-
ارسطو ،ابنِ سینا ، کنڈی (الكندي ( 801–873 AD اورایکویناس(Aquinas) نے  اس ہستی کی موجودگی کے بارے میں خیالات پیش کیے- ارسطو (384-322. B.C)نے منطقی توجیہات سےدلائل پیش کیے،جسےارسطو’’اٹل قوت‘‘کہتاتھا۔ یعنی تمام مخلوقات کی پہلی علت یامحرک اعظم (Supreme First Cause)۔ تھامس ایکویناس اور اسلامی فلسفی ابن سینا , کنڈی ارسطوکی اس بات سے متفق ہیں کہ کسی چیزکولازماً کائنات کی موجودگی کی وضاحت کرنا ہے- ارسطوبنیادی طورپریہ ثابت کرتاتھا کہ ہرموجود چیزکے لئے ایک علت یا سبب  کاہونالازم ہے۔
بنیادی طورپرارسطوکی دلیل سائنسی قانون علیت یاسببیت(causality)سےپہلےآتا اوراس کی پیش بینی کرتا ہے یعنی ہرمعلول یااثر(Effect) سے پہلے ایک علت یا سبب ( Cause)۔  ہوتاہے اوریہ سائنسی طریقے کے لئے بنیادبناتاہے۔ وہ منطقی راستہ کیسے کام کرتاہے یہاں بیان کیا   جارہاہے:
اگرکوئی چیزموجودہے تواس کی ایک علت یاسبب  ( Cause)ہے- کائنات اوراس میں تمام چیزیں موجودہیں- پس یہ ایک پہلی علت رکھتی تھی یعنی ’’اٹل حرکت دینےوالا‘‘، ایک وجوداعلیٰ (Supreme First Cause)- ظاہر ہے کہ کائناتی دلیل اپنے پیچھےایک کافی مضبوط معقولیت رکھتی ہے۔ آئنسٹائن کا یہ قول مشہورہے کہ ’’جب میں ٹوسٹ کا ایک ٹکڑادیکھتا ہوں توجانتاہوں کہ کہیں ایک ٹوسٹر بھی ہے۔‘‘ باالفاظ دیگرعلت ومعلول (law of cause and effect) کے آفاقی قانون کےلئےلازم ہے کہ ایک پہلی علت یا سبب موجودہو۔ فلاسفہ اورالہیات دان صدیوں سے اس دلیل کےساتھ الجھتےرہےہیں اوریہ آج بھی بہت سوں کو مسحور کرتی ہے-
مسلمان فلسفیوں کے خیالات :
مسلمان فلاسفروں میں  کندی، اور ابن رشد نےاس کی حمایت کی جبکہ امام غزالی اور اقبال کو اس  دلیل کے مخالفین  میں کےطور پر  دیکھا جاتا ہے  –  تھامس Aquinas کی دوسری دلیل اسلامی اور افلاطون علوم سے  مدد  حاصل کرتی ہے . انہوں نے کہا کہ صرف خدا  کی ہستی ناقابل تقسیم ہے، اور خدا کے علاوہ سب کچھ کسی طرح   ایک سے زیادہ اشیاء کا مرکب ہے –   کنڈی کے اصول میں صرف خدا کی وحدانیت ضروری ہے  جبکہ باقی تمام مخلوق کے وجود کا دارومدار خدا کی منشا پر ہے – لہٰذا ایک یا ایک سے زیادہ اور  دیگر تمام  قسم کی مخلوق کا  حتمی وجود صرف عظیم ترین ہستی کے وجود کی وجہ سے ہے- اس کے علاوہ یہ ضروری ہے کہ یہ  پہلا  وجود  بغیر علت (uncaused) ہو   کیونکہ  باقی سب کچھ  اس کی  وجہ سے ہے-   کنڈی کی سکیم  میں کاینات کو  ایک خالق، یا بلکہ ایک جنریٹر (mudhith) ،ایجاد کننده  کی ضرورت ہے جو کاینات کو(  ex-nihilo)کسی شئے کے بغیر  پیدا کر سکتا ہے – مختلف فلاسفہ  نےاس پر تنقید کی ہے-
.2دلیل غائی  (Teleological Argument) یا  ( Argument of Design)
ٹیلیولوجی (Teleology) قدرتی مظاہر کی وضاحت کے لیے حتمی مقصد یا ڈیزائن کو استعمال کرنا ہے- ڈیزائن سے دلیل ، تمام فطرت میں ایک ‘بڑا ذہین سبب’  تمام کارروائیوں کے پیچہے دیکھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے- اسی لیئے دلیلِ غائی کو ’’آرگومنٹ آف ڈیزائن‘‘ بھی کہتے ہیں.. اس دلیل کے مطابق اس کائنات کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ یہ کسی ذہین مخلوق کی ایجاد ہے- نظریہ بگ بینگ کا دعویٰ ہے کہ یہ کائنات ایک واحد دھماکے کے ساتھ وجود میں آئی تاہم جیساکہ  ہم جانتے ہیں کہ دھماکہ تو مادے کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے جبکہ بگ بینگ نے متضاد نتیجہ پیش کیا ہے کہ مادے کے کہکشاؤں کی صورت میں جھنڈ کے جھنڈ نمودار ہوگئے ہیں…..وہ قوانین طبیعیات جو بگ بینگ کے ساتھ ہی وجود میں آگئے تھے 14ارب سال گزر جانے کے باوجودتبدیل نہ ہوئے۔ یہ قوانین اس قدر نپے تلے حساب کے ساتھ وجود میں آئے تھے کہ ان کی جاریہ قیمتوں (Values)سے ایک ملی میٹر کا فرق بھی پوری کائنات کے مکمل ڈھانچے اور ساخت کی تباہی وبربادی کا باعث بن سکتاتھا- کائنات ایک خاص رفتار سے پھیل رہی ہے ، اگر اس رفتار میں ایک ملی میٹر کے مختصر حصہ (ریت کے ذرے کے برابر ) کمی یا زیادتی ہو تو یہ کائنات ختم ہو جاتی- ایک عام دھماکہ اور اس دھماکہ میں یہ فرق ہے کہ یہ دھماکہ ایک عظیم پلانر اور ڈیزائنر کے کنٹرول میں اس کے منصوبہ کے مطابق وقوع پزیر ہوا جس کو وہ مسلسل کنٹرول کر رہا ہے- مشہور ماہر طبیعیات پروفیسر اسٹیفن ہاکنزاپنی کتاب ”وقت کی مختصر تاریخ ”(A Brief History of Time)میں لکھتاہے کہ یہ کائنات حساب کتاب کے ساتھ طے شدہ جائزوں اورتوازنوں پر قائم کی گئی ہے اوراسے اس قدر نفاست کے ساتھ ”نوک پلک درست” کر کے رکھا گیا ہے کہ ہم اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔
قرآن نے اس کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے :
أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا ۖ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۖ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ 21:30)
” کیا کافروں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ آسمان اور زمین آپس میں گڈ مڈ تھے پھر ہم نے انہیں الگ الگ کیا اور ہر جاندار چیز کو پانی سے زندگی بخشی کیا پھر بھی یہ لوگ (اللہ تعالیٰ کی خلاقی ) پر ایمان نہیں لاتے؟”)قرآن 21:30)
إِنَّ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ لَآيَاتٍ لِّلْمُؤْمِنِينَo وَفِي خَلْقِكُمْ وَمَا يَبُثُّ مِن دَابَّةٍ آيَاتٌ لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَo وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ‌ وَمَا أَنزَلَ اللَّـهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن رِّ‌زْقٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْ‌ضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَتَصْرِ‌يفِ الرِّ‌يَاحِ آيَاتٌ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ o تِلْكَ آيَاتُ اللَّـهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ ۖ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللَّـهِ وَآيَاتِهِ يُؤْمِنُونَ (الجاثیۃ3-6)
’’ حقیقت یہ ہے کہ آسمانوں اور زمینوں میں بے شمار نشانیاں ہیں ایمان لانے والوں کے لیے۔ اور تمہاری اپنی پیدائش میں، اور ان حیوانات میں جن کو اللہ (زمین میں ) پھیلا رہا ہے بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو یقین لانے والے ہیں۔ اور شب و روز کے فرق و اختلاف میں اور اس رزق میں جسے اللہ آسمان سے نازل فرماتا ہے، پھر اس کے ذریعے مردہ زمین کو زندہ کرتاہے ، اور ہوائوں کی گردش میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ یہ اللہ کی نشانیاں ہیں جنہیں ہم تمہارے سامنے ٹھیک ٹھیک بیان کر رہے ہیں۔ اب آخر اللہ اور اس کی آیات کے بعد اور کون سی بات ہے جس پر یہ لوگ ایمان لائیں گے؟)قرآن45:3,4,5,6(
غیر معمولی ڈیزائن کائناتی سطح پر سیاروں اور کہکشاؤں سے اور کوانٹم سطح(quantum level) پر انسانی خلیات اور ایٹموں سے  واضح ہے. لہذا اس دنیا  میں ایک ذہین سپریم خالق کا ہونا ضروری ہے- اکثرمسلمان فلسفیوں نے فطرت کی یکساں اور منطقی ترتیب پر قرآنی زورکی اہمیت کو تسلیم کیا اور اس کو اسی طرح قبول کیا-
بگ بینگ سے ہونے والے کائناتی پھیلاؤ سے لے کر ایٹموں کے طبیعی توازنوں تک، چاروں کائناتی قوتوں میں مضبوطی کے فرق سے لے کر ستاروں میں بھاری عناصر کی تیاری تک، خلا کی جہتوں میں عیاں پراسراریت سے لے کر نظام شمسی کی ترتیب و تنظیم تک، ہم کائنات کے جس گوشے کی طرف بھی نظر اٹھاتے ہیں، وہاں ہمیں ایک جچا تلا اور غیر معمولی نظم و ضبط دکھائی دیتا ہے-مختصر یہ کہ ہے جب بھی ہم کائنات کا مشاہدہ کرتے ہیں تو ہمارا سامنا ایک غیر معمولی صورت گری سے ہوتا ہے۔جس کا مقصد انسانی حیات کی نشوونما کرنا اور اسے تحفظ فراہم کرنا ہے۔اس صورت گری کے نتائج بھی بہت واضح ہیں۔ کائنات کی تمام تر جزئیات میں پوشیدہ یہی ڈیزائن یقینی طور پر ایک عظیم ترین خالق کی موجودگی کا ثبوت ہے جو کائنات کے ایک ایک جز کو قابو کیے ہوئے ہے۔اور جس کی قدرت اور دانائی لامحدود ہے۔ بگ بینگ کے نظریے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ وہی خالق ہے جس نے کائنات کو عدم سے تخلیق کیا۔
یہ اہم نقطہ قابل غور ہے کہ قرآن کے مطابق اگر عقل و دانش کومناسب طریقےسے استعمال کیا جائے تو خدا کے وجود کی پہچان اور یقین ہو جاتا ہے- اس طرح یہ حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ ایک خاص منصوبہ کے مطابق تمام مخلوق تخلیق کی گیئ ہے جس میں متقی مومنوں کے لیے اجروثواب اور باغی، بے ایمان اور گنہگاروں کے لیے سزا , جس کا ان سے وعدہ تھا –
یہ بات ایک حقیقت ہے  کہ خدا کے وجود کے حق میں جدید سائنس نے اتنی شہادتیں جمع کردی ہیں کہ خدا کو کو نہ ماننا اب سائنس نہیں بلکہ توہم پرستی کی بنیادوں پر ہی ممکن ہے۔آج نوبت یہ آگئی ہے کہ مادہ پرستی بجائے خود توہمات اور غیر سائنسی عقیدے پر مشتمل نظام میں تبدیل ہوچکی ہے۔امریکی ماہرِ جینیات رابرٹ گرفتھس اس روش کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر ہمیں بحث کرنے کے لیے کسی ملحد کی ضرورت پڑی تو میں شعبۂ فلسفہ کا رخ کروں گا۔ اس کام کے لیے شعبۂ طبیعیات کچھ کام کا نہیں-
اور وہ بے ایمان بول اٹھیں گے:
“کاش ہم سنتے یا سمجھتے تو آج اِس بھڑکتی ہوئی آگ کے سزا واروں میں نہ شامل ہوتے”(67:1)
کیونکہ الله فرماتا ہے:
” ہم نے اِس آسمان اور زمین کو اور جو کچھ بھی ان میں ہے کچھ کھیل کے طور پر نہیں بنایا ہے”
(21:16)
سینٹ پال،یونانی اور رومن دنیا میں بہت سے دوسروں کے ساتھ  یقین رکھتا تھا کہ  خدا کا  وجود فطرت کے مظاہر سے  اچھی طرح ظہور پزیر ہے:
“اس کی ا ن دیکھی صفتیں یعنی اس کی ازلی قدرت اور اس کی الوہیت دنیا کی پیدائش کے وقت سے بنائی ہوئی چیزوں سے معلوم ہوکر صاف نظر آتی ہیں۔ اس لئے لوگوں کے پاس کو ئی بہانا نہیں رہا۔(رومیوں 1:20)
ملحدانہ نظریات :
ملحد کہتے ہیں کہ  خدا کا وجود  نہیں ہے ، سب کچھ فطرت نے پیدا کیا ہے , مشہور ‘  سائنسی عقیدوں ”کی فہرست  ان کے خیالات کو واضح کرتی ہے :
1.    ہر چیز لازمی طور پر میکانیکی (mechanical) ہے۔
2.       تمام مادہ شعور سے عاری ہے، یہاں تک کہ انسانی شعور بھی مادی دماغ کی کارروائیوں کا پیدا کیا ہواایک واہمہ ہے۔
3.       مادے اور توانائی کی مجموعی مقدار ہمیشہ ایک ہی رہتی ہے(سواے اس موقعے کے کہ جب تخلیق کائنات کے بگ بینگ (big bang)کے وقت تمام مادہ اور توانائی اچانک عدم سے وجود میں آگئے تھے)۔
4.       فطرت کے قوانین ہمیشہ سے اور ہمیشہ کے لیے متعین اور غیر متغیر ہیں۔
5.       فطرت کا کوئی مقصد نہیں ہے اورنہ ارتقا کی کوئی سمت ہے ۔
6.       حیاتیاتی موروثیت DNA اور اس طرح کے دوسرے مادوں کے ذریعے تکمیل پانے والا ایک خالص کیمیائی اور مادی عمل ہے۔
7.       ذہن سر کے اندر موجود دماغ کی کارکردگی کے سوا کچھ بھی نہیں۔
8.       یادیں کیمیائی مادوں کے طور پر دماغ میں جمع ہوتی ہیں اور موت پر فنا ہوجاتی ہیں۔
9.       جو باتیں سمجھی نہیں جاسکتیں، وہ واہموں کے سوا کچھ نہیں۔
10.   میکانکی طب ہی علاج کا واحدکارآمد انداز ہے۔
برٹرینڈ رسل  جیسا ایک  کٹر ملحد بھی  تسلیم کرتا ہے کہ کائنات میں ڈیزائن ہے۔اسے یہ بھی تسلیم ہے کہ ڈیزائن سے ڈیزائنر کا وجود ثابت کیا جاسکتا ہے۔ مگر جب وہ اس کو نہ ماننے کے لئے ڈارونزم(Darwinism ) کا حوالہ دیتا ہے تو گویا وہ نہایت کمزور بنیاد پر خود اپنے تسلیم شدہ مقدمہ کو رد کررہا ہے،کیونکہ ڈیزائن کا وجود تو متفقہ طور پر ایک ثابت شدہ حقیقت ہے۔مگر ڈارونزم کوئی ثابت شدہ حقیقت نہیں۔اس کا یہ پہلو یقینی طور پر اب بھی مفروضہ ہے کہ مادی عوامل سے انواع حیات میں بامعنی “ڈیزائن” پیدا ہوجاتا ہے۔اس لئے ڈیزائن کے واقعہ کی بنیاد پر ڈیزائنر کے حق میں استدلال تو خود رسل کے اعتراف کے مطابق صحیح ہے۔مگر ڈارونزم ابھی اس قابل نہیں ہوسکا ہے کہ اس کی بنیاد پر کوئی رسل اس دلیل کو رد کردے-
رچرڈ ڈاکنز (Richard Dwkins) مشہور دہریہ  (Athiest) آرگومنٹ آف ڈیزائن کی شدید مخالفت کرتاتھا لیکن اکیسویں صدی میں فلکیات کی کوانٹم کی بے پناہ تھیوریز کے بعد  ڈاکنز نے یہ تسلیم کرنا شروع کردیا ہے کہ ’’ڈیزائن تو ہو سکتا ہے لیکن وہ ڈیزائن خدا نے نہیں بنایا.. کسی اور سیّارے پر کوئی ہم سے زیادہ ذہین مخلوق ہو سکتی ہے اور وہ چاہے تو ایسا ڈیزائن بنا سکتی ہے.. (سوال ہے کہ اس ذہین مخلوق کو کس نے بنایا ؟)”ڈاکنز کے شاگرد اور جانشین اور سخت لہجے کے سپیکر ’’لارنس کراؤس‘‘سے سوال کیا گیا کہ ’’کیا ایسا ممکن نہیں ہے کہ ہم سب کسی اور کا لکھا ہوا پروگرام ہوں اور کسی کمپیوٹر کی ڈسک میں چل رہے ہوں..؟‘‘ تو انہوں نے ہنستے ہوئے جواب دیا.. ’’ممکن ہے , ضرور ممکن ہے لیکن اس سے یہ کیسے ثابت ہوگیا کہ جس نے وہ پراگرام لکھا وہ ’خدا‘ ہی ہے..؟‘‘ غرض آج کے عہد کا دہریہ (Athiest) یہ تسلیم کرتا ہے کہ ہمارا ڈیزائنر کوئی اور ہو سکتا ہے اور یہ عین سائنسی بات ہے..
ایک کوڈ کا  نظام ہمیشہ ایک ذہنی عمل کا نتیجہ ہوتا ہے … اس بات پر زور دیا جانا چاہئے کہ مادہ ایسا کوئی کوڈ کو پیدا کرنے کے قابل نہیں ہے-  تمام تجربات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ایک سوچ رکھنے والی قوت کا وجود  ضروری ہے جو رضاکارانہ طور پر اپنی مرضی، معرفت، اور تخلیقی صلاحیتوں کواستعمال کرنے جا رہی ہو … کوئی معروف قدرتی قانون موجود نہیں جس کے ذریعے مادہ معلومات کو جنم دے سکتا ہو، نہ ہی کوئی فزیکل عمل یا مادی رجحان یہ کر سکتا ہے-
[Schroeder’s book “The Hidden Face of God: Science Reveals the Ultimate Truth” and Varghese’s book “The Wonderful World.”]
اب پیچھے رہ جاتاہے وہ خدا جسے کسی نے نہیں بنایا , جو خود سے ہے ، جو ازل سے ہے اور جو ہمیشہ رہے گا ، جو حی و قیوم ہے اور جو سب سے بڑی عقل کا مالک ہے , سو اُس خدا کے وجود سے ہنوز رچرڈ ڈاکنز کو انکار ہے.. ٹیکنکلی رچرڈ ڈاکنز کے خیال اور مذہب کے خیال میں چنداں فرق نہیں..
رچرڈ ڈاکنز اس کائنات کے بارے میں یہ مانتے ہیں کہ اسے کسی نے نہیں بنایا ، یہ خود سے ہے اور اسی کائنات نے سیارے پیدا کیے اور ان میں زندگی اور ذہانت پیدا کی.. سٹرنگ تھیوری  (String Theory)کے بعد رچرڈ ڈاکنز اس امکان کو بھی رد نہیں کرسکتے کہ کائنات (عالمین) ایک نہیں کئی ہیں.. نظریہ اضافیت کے بعد رچرڈ ڈاکنز اس بات سے بھی انکار نہیں کرسکتے کہ کسی شخص کا ایک منٹ کسی اور شخص کے کئی سالوں کے برابر بھی ہوسکتا ہے.. ڈاکنز خود مائیکروبیالوجسٹ ہیں.. وہ ڈی این اے کے انٹیلیجنٹ لینگوئج ہونے ، اس میں تبدیلیوں کے امکان ، میوٹیشن کے مافوق العقل وجود اور نئی نئی مخلوقات کی پیدائش سے کب انکار کر سکتے ہیں..؟ انسان کبھی مکمل طور پر نان وائلنٹ مخلوق بن کر کسی خوشنما باغ میں ایسے رہ رہا ہو کہ اُسے ہزاروں سال موت نہ آئے ، اس امکان سے بھی ایک مائیکروبیالوجسٹ عہد حاضر میں انکار نہیں کرسکتا..
اس سب پر مستزاد یہ ایک خاصی مشہور تھیوری بھی ہے کہ یہ کائنات سانس لیتا ہوا ایک ذہین فطین جاندار ہے جو فورتھ ڈائمینشنل ہے.. علاوہ بریں ’’پین سپرمیا‘‘ (Panspermia) بھی ایک تھیوری ہے کہ کائنات حیات سے چھلک رہی ہے اور خلا میں اڑتے ہوئے پتھروں میں بھی ڈی این اے یا ابتدائی حیات کے امکانات مضمر ہیں..
ڈاکنز  اور اس جیسے  دہریوں کا اصل مسئلہ خدا نہیں ہے , نہ ہی مذہب ہے اور نہ ہی مذہبی ہونا ہے.. ڈاکنز اور اس کے ماننے والوں کا اصل مسئلہ وہ ’’سیٹ آف رُولز‘‘ ہے جسے نظامِ حیات کہتے ہیں.. مذہب بھی ایک سیٹ آف رُولز پیش کرتاہے جسے کمانڈمنٹس کہا جاتاہے.. ڈاکنز اور اس کے ماننے والوں کو اُس سیٹ آف رُولز کے ساتھ اختلاف ہے.. مزید باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ اختلاف بنیادی طور پر نظریۂ علم کا اختلاف ہے یعنی ایپسٹمالوجی کا.. مذہب کے نزدیک ’’وحی‘‘ ایک برتر سورس آف نالج یعنی ایک ایسا ذریعۂ علم ہے جو ہمارے کمتر شعور کے لیے ہمیشہ رہنما کا کام دے سکتاہے.. دہریت کو یہ خیال مکمل طور پر نان اکیڈمک لگتا ہے.. یہ بات بھی غلط نہیں کہ یہ سارا خیال حسّی علوم کی ترقی کے بعد اکیڈمک محسوس ہونے لگا ہے.. یہی کوئی سترھویں صدی عیسویں سے لے کر اب تک۔ اس سے قبل چونکہ حسّی علوم کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا تو دنیا کا ٹوٹل وژن ہی مختلف تھا.. اگر  Dawkin’sاس امکان کو رد نہیں کرتے کہ ہم کسی اور زیادہ ذہین ہستی کا بنایا ہوا ڈیزائن ہوسکتے ہیں تو وہ اس امکان کو کیوں رد کردیتے ہیں کہ ہم تک پہنچنے والی رہنمائی یعنی وحی بھی اُس برتر شعور کی جانب سے بھیجی ہوئی ہدایت ہو سکتی ہے..؟ غرض یہ مذہب نہیں جس کے پاس بھاگ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں بچا بلکہ یہ دہریت ہے جس کے پاس بھاگ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں بچا.
اگر سوچیں تو برکلے ، ہیگل، کانٹ جیسے لوگ آئن سٹائن سے کم دماغ نہ تھے.. خود آئن سٹائن کے ہی دور میں نیلز بوہر جیسے سائنسدانوں کا اعتقاد حسّیت سے اُٹھ چکا تھا.. اقبال نے تشکیل کے دیباچے میں لکھا  جس کا مفہوم ہے کہ ’’وہ دن دُور نہیں جب مذہب اور جدید سائنس میں ایسی ایسی مفاہمتیں دریافت ہونے لگیں گی کہ جو ہماری سوچ سے بھی ماروا ہیں کیونکہ جدید فزکس نے اپنی ہی بنیادوں کی تدوین شروع کردی ہے..‘‘
سر آئزک نیوٹن کے مطابق کائنا ت لازمی طور پر خدا کی تخلیق تھی کیونکہ یہ کسی بے ترتیب اور منتشر مادے سے وجود میں نہیں آسکتی تھی۔
سٹیفن  ہاکنگ نے 1988 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ’ بریف ہسٹری آف ٹائم‘ میں تخلیق کائنا ت میں خدا کے وجود کو مسترد نہیں کیا تھا بلکہ لکھا تھا کہ دنیا کی وجودیت کو سمجھنے کے لیے ایک ان دیکھے تخلیق کار کا تصور سا ئنسی قوانین سے مطابقت رکھتا ہے۔ یہ کتاب اس برس میں سب سے زیادہ بکنے والی کتاب تھی۔ مگر اب  دنیا کے وجود میں آنے کے بارے میں ان کا نظریہ تبدیل ہوا ہے تاہم ہا کنگ خدا کے وجود کے امکانات سے انکاری نہیں بلکہ خدا کے خالق کائنات ہونے کے تصور کو مسترد کرتے ہیں۔
3. دلیل وجودی (Ontological Argument)
خدا کے تصور سے خدا کی حقیقت (Ontological Argument) کی بنیاد ہے
.(1078 CE)میں کینٹبری کے اَنسلم (Anselm of Canterbury) نے اپنے ایک مضمون Proslogion  (خدا کے وجود کے بارے میں مکالمہ) میں سب سے پہلے خدا کے ہونے کے بارے میں یہ دلیل پیش کی:
انسان ایک وجود کے بارے میں سوچ سکتاہے ’’جس سے عظیم تر کوئی تصور میں نہ لایا جاسکے‘‘
یہ وجود نوع بشر کے ذہنوں میں موجودہے
اگربزرگ تریں امکانی وجود ذہن میں موجود ہے تولازم ہے کہ وہ حقیقت میں بھی موجودہو
ڈیکارٹ [René Descartes 1596-1650] نے أنسلم کی مسحورکن اورکافی بلندتخیل اور وجودیاتی بحث کو یہ کہتے ہوئے وسعت بخشاکہ خداموجود ہے کیونکہ ہم ایک اعلیٰ ترین وجود کامل کےبارےمیں ایک ’’صاف اورنمایاں‘‘ تصوررکھتے ہیں۔
اسلامی فلسفی موسٰی سدرہ اپنے اہم فلسفیانہ کتاب ’’الاسفارالاربع‘‘ (چاراسفار) میں اسی قسم کی ایک دلیل پیش کرتاہے جسے اس نے ’’نیکوں کی دلیل‘‘کا نام دیا ہے:
ایک وجود موجودہے؛ اور ہم اس سے بڑھ کر کامل وجودکا تصور نہیں کرسکتے
تعریف کے لحاظ سے خداکاملیت میں اعلی ترین ہے
وجودایک ہے یعنی کوئی مابعدالطبیعیات کثرت وجود موجودنہیں
وجود کی کاملیت کے درجات ہیں
کاملیت کے پیمانے کی ایک انتہائی حدکا ہونا لازم ہے یعنی بزرگ ترین شدت کاایک نقطہ
وہ بزرگ ترین شدت ہی اپنی تعریف کے لحاذسے خداہے
ایک وجودِ اعلیٰ کی موجودگی کے بارےمیں وہ تمام وجودیاتی دلائل عظمت اورکاملیت کے ایک لطیف نقطہ کے گرد گھومتے ہیں۔
ہم انسان ناقص مخلوق ہیں۔ ہم نے کائنات کو پیدانہیں کیا۔ اس  وسیع کائنات کی وسعت میں ہم تومحض ایک چھوٹے سےسیارے پر رہتے ہیں۔ ہم اُن تمام داستانوں جن میں وجودکی اس قدرخودمختار حالت کاخیال پیش کیا جاتا ہے،کوئی سُپرمین اورسُپرپاور نہیں ۔ہم نسبتاً کمزوراوربے اختیار افراد ہیں۔ وہ حقیقت ہماری تصریح کرتی ہے اور ہمارے لئے خالق کے تصورکوایک حدتک سمجھ پاناممکن بناتی ہےجوایک روح اعظم،ایک وجودِمطلَق ہے۔
خداکی ہستی کےدلائل میں سے ایک دلیل اورثبوت یہ حقیقت ہے کہ انسان نے خود کوپیدا نہیں کیا، بلکہ اس کاپیداکرنےوالااوربنانے والااس کے علاوہ کوئی اورہے۔ یہ بھی صحیح اور ناقابل اعتراض ہے کہ انسان کا خالق خودانسان ہی جیسا نہیں،کیونکہ ایک ناتواں مخلوق دوسری ہستی پیدا نہیں کر سکتی۔ اورایک فعال خالق کے لئےلازم ہےکہ اپنی دستکاری پیداکرنے کی خاطر وہ سب انتہائی کامل صفات کامالک ہو۔
پس عارضی دنیا نقائص ( problem of evil) کی  کان ہےاورخداکمال کا سرچشمہ۔ عارضی دنیا کے نقائص ہی خداکے کمالات کی گواہی دیتے ہیں۔ مثلاًجب ہم  انسان پر نظرڈالتےہیں تو دیکھتے ہیں کہ وہ کمزورہے اورمخلوق کی یہ کمزوری ہی اُس ذات کی قدرت پردلیل ہے جوابدی و قدیر ہے؛ کیونکہ اگرقدرت نہ ہوتی توکمزوری کے بارے میں سوچنا ہی محال تھا۔ قدرت کے بغیرکمزوری کا سوچاہی نہیں جاسکتاتھا۔ یہ کمزوری ظاہرکرتی ہے کہ دنیا میں ایک قدرت بھی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ یہ پوری عارضی دنیاایک ضابطہ اورایک قانون کے تحت ہے جس کی یہ ہرگزنافرمانی نہیں کرسکتی۔ حتیٰ کہ انسان بھی موت، نیند اور دوسرے حالات کی اطاعت پرمجبورہے یعنی بعض امورمیں وہ محکوم ہے اور یہ محکومیت ہی ایک حاکم کی موجودگی کا پتہ دیتی ہے۔
جب تک اس عارضی دنیاکی ذاتی صفت تابعداری ہے،اورجب تک یہ تابعداری اس کے بنیادی لوازمات میں سے ایک ہے، ایک خودمختار کا ہونا لازم ہے جو اپنی اصلیت میں تمام چیزوں سے آزادہے۔
سبحان اللہ! چھوٹی سے چھوٹی چیزکے ظاہری حلیہ میں تبدیلی ایک خالق کی موجودگی ثابت کرتی ہے: توکیا اس وسیع، لاانتہا کائنات نےخودہی خودکوپیداکرلیاہےاورعناصرکے باہمی بین العمل سے جودمیں آگیاہے؟ ظاہرہےکہ ایسا قیاس کرناکتناغلط ہے!‘‘
اگر عظیم ترین قابل فہم ہستی صرف خیال میں موجود ہوتی ہے تو ہم سوچ سکتے ہیں کہ ایک دوسری ہستی خیال اور حقیقت دونوں میں موجود ہو- خیال اور حقیقت میں موجود ہونا صرف خیال میں موجود ہونے سے بڑا ہے-
لہٰذا: ایک ہستی جس سے بڑا کوئی  قابل فہم وجود  نہ خیال میں نہ حقیقت میں ہو-
“یقیناً تمہارا رب سب کا خالق ہے اور سب کچھ جانتا ہے”(15:86)
” اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور وہی ہر چیز پر نگہبان ہے”(39″62)
میثاق الست: اس کی تفصیل بیان ہو چکی :”اور اے نبی، لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جبکہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا “کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟” انہوں نے کہا “ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں” یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ “ہم تو اس بات سے بے خبر تھے،”(قرآن 7:172)
.4اخلاقیات اور احتمال دلائل  (Morality and Probability Arguments):
اخلاقی دلائل ، جس کو (Anthropological Argument انسانی  معاشرہ، تقافت و ترقی) بھی کہا جاتا ہےان کی بنیاد اخلاقی شعوراورانسانی تاریخ پر ہے جو  ایک اخلاقی حکم اور مقصد پیش کرتا ہےجو صرف خدا کے وجود کے کی بنیاد پر ہی سمجھایا جا سکتا ہے- ضمیر اور انسانی تاریخ گواہ ہے:
“بے شک صادق کو اُن کا پھل ملتا ہے۔ بے شک خدا زمین پر فیصلہ کرتاہے” (زبور58:11)
“وہ انصاف پر قائم ہے اُس زبردست حکیم کے سوا فی الواقع کوئی خدا نہیں ہے ” ( قرآن 3:18)
“اس دن اللہ وہ بدلہ انہیں بھرپور دے گا جس کے وہ مستحق ہیں اور انہیں معلوم ہو جائے گا کہ اللہ ہی حق ہے سچ کو سچ کر دکھانے والا”(  قرآن24:25)
خداکے وجود کے بارےمیں اخلاقی بحث
باطنی اخلاقی سوچ تقریباً سب میں پیداہوتی ہے۔ فلاسفہ اورعلماء صدیوں سے یہ جانتے آئے ہیں کی دوسری مخلوقات کے برعکس نارمل لوگوں کی سرشت میں بظاہرایک احساس یا شعورموجودہے یا یوں کہیں کہ ایک باطنی اخلاقی سمت نما۔ وہ احساس اکثرہمیں خود اپنےبہترین مفادات کو نظراندازدینے کاعندیہ دیتا ہے اوربے غرضی سے اور اخلاقی طورپردوسروں کے مفادات کے لئے کام کرنے کی طرف پکارتاہے۔ صرف انسانوں کے لئے جوروحانی سرورمخصوص ہے اس کی وجہ سے بہت سے فلاسفہ نےیہ نتیجہ اخذکیاہےکہ ہمارے شعورکی حقیقت ایک عظیم تر اخلاقی قانون کی موجودگی ظاہر کرتی ہے اورلہٰذاہ  ایک بالاتر قانون سازکی موجودگی لازم ہے ۔
خداکی موجودگی کے لئےیہ خیال اور فلسفیانہ دلیل سب سے پہلےعظیم فلسفی ایمنوئل کینٹ  (Immanuel Kant, 1724-1804) نےپیش کیااوراُس نے لکھاکہ انسانیت کاہدف غائی مکمل خوشی کا حصول ہے جو نیکیوں سےملتی ہے۔ کینٹ نے اسے امرمطلق، ایک اخلاقی اورنیک زندگی کی خدمت میں ہماری استدلالی قوتوں کاآخری حکم قراردیا ہے۔اُس نے یہ دلیل پیش کی ہے کہ چونکہ یہ اخلاقی شعور انسانوں میں عمومی طور پرموجودہے ایک بعد کی زندگی کا وجود بھی لازم ہے اورپس خدا کابھی موجود ہونا لازم ہے۔ کینٹ کی منطق کا راستہ کچھ یوں آگے بڑھتاہے:
·         انسان فطری اخلاقی میلانات رکھتے ہیں
·         اخلاقیات صرف اخلاقی اچھائی کےایک اعلیٰ تر منبع سے آسکتی ہے
·         پس خدا موجود ہے
کینٹ (Kant) کی اخلاقی آفاقیت کا مساوات، انصاف اورانسانی حقوق سےمتعلق ہمارے جدیدانسان دوستی، سیاسی، سماجی اورقانونی تصورات پربڑاگہرااثرمرتب ہواہے۔ دوسرے فلاسفہ نے کینٹ کی استدلال کی پیروی اورتوسیع کی ہے یہ نتیجہ اخذ کرتےہوئے کہ انسانی ضمیرکی موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ معروضی اخلاقی سچائیاں موجودہیں اوریہ کہ اُن سچائیوں کا آخری منبع لازماً خداکو ہوناچاہیئے۔
کئی جدیدفلاسفہ نےاسی خیال کوکچھ مختلف اندازمیں پیش کیا ہےیعنی ہمارا ضمیراورہماری اخلاقیات ہمیں جوکچھ بھی کرنےپرمجبورکرتےہیں اس کاممکن ہونالازم ہے اورخوشی اوراخلاقی نیکی کی کامل اچھائی کا حصول صرف اسی وقت ممکن ہوتاہے جب ایک فطری اخلاقی نظام موجود ہو۔ مذہبی تعلیمات میں ایک اعلیٰ ترین ہستی کی موجودگی کے بارے میں بہت سی مختلف جگہوں پر یہ منطقی اخلاقی استدلال ملتی ہنے۔
حال ہی میں عصر حاضر کے مغربی فلسفہ میں خدا کے وجود پر دوسرے  دلائل تجویز کیے گئےوہ  ‘مذہبی تجربے’ سے ثبوت ہیں.
.  5مذہبی تجربہ  (Religious Experience)
مذہبی تجربہ’ کو خدا کے وجود کے ثبوت کے طور پر سمجھنے کے لیئے ضروری ہے کہ اسے  تجربے کی عام  تھیوری کے پس منظر میں سمجھا جانا چاہئے، یعنی دنیا کی رپورٹوں کی طرح جو حواس کے ذریعے موصول ہوتی ہیں- ‘تجربہ’ جس کو سمجھنے والے مواد کے طور پر ‘وجہ’ کے برعکس قائم کیا گیا تھا جومنطق اور ریاضی کی عملداری میں سمجھاگیا-
خاص طور پر مذہبی تجربہ مختلف مختلف طریقوں سے شناخت کیا گیا ہے: (1)مقدس ہستی کے بارے میں شعور، جس میں خوف اور احترام ہوتا ہے-(2) مطلق انحصار  کا احساس جو  انسان کی   صرف ایک مخلوق کی حیثیت کا مظہر ہے- (3) الہی کے ساتھ ایک تعلق  کا احساس (4) ایک غیبی نظام  کا تصوریا کائناتی نظام   میں مستقل اچھائی کا معیاری احساس (5) خدا کا  براہ راست احساس(6) ایک حقیقت سے  تصادم، “‘مکمل طور پر دوسرا” (7) موجودگی سے تبدیل کرنے کی طاقت کا احساس-
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ  خدا کےاحساس کا تجربہ انسان پراہم فیصلے کے طور پر نظر آتا ہے اس انکشاف کے ساتھ کہ وہ  مقدس ہستی سے علیحدہ ہے ایسا خاص طور پربائیبل (عہد نامہ قدیم) کے کے انبیاء پرواضح ہوا-  تمام سکالر متفق ہیں کہ مذہبی تجربہ میں یہ شامل ہے کہ انسان کے لیے حقیقت میں کیا  حتمی ہے اور اس کا تعلق اس یقین سے ہے کہ حقیقت کی انتہا کیا ہے-  مذہبی تجربہ، تجربے کے جمالیاتی پہلو سےاس طرح علیحدہ ہے کہ سابق میں الہی سے وابستگی اور عقیدت کی ضرورت ہوتی ہے- جبکہ مؤخر الذکر.بظاہرشکل و شباہت، خوبصورتی اور  ترتیب کی تعریف اور لطف اندوزی پر مرکوز ہے چاہے وہ قدرتی اشیاء میں ہوں یا آرٹ میں-
‘سچے متلاشی’ کی دلیل جو کہ تصوف کی روایت کے مسلمان صوفیوں کی طرف سے پیش کی جاتی ہے کہ، ہر فرد جو ہدایت کی طرف ایک خاص راستے کو اختیار کرتا ہے وہ خدا کے وجود پر یقین کی اسی منزل پر پہنچتا ہے جو خاص طور پر وحدانیت اور اسلام کے قوانین  کی منزل ہے-
یہ صرف اسی صورت میں سچ ہو سکتا ہے اگر وضائف اور دعائیں صرف ایک مخاطب خدا قبول کر رہا ہو جس کا دعویٰ  اسلامی وحی سے معلوم ہوتا ہے- اس کوباضابطہ طور پرامام ابو حامد الغزالی نے اپنے مقالات؛’خرابی سے نجات’ اور ‘خوشی کے کیمیا’ یعنی ‘کیمیائے سعادت’  ایسی قابل ذکر کتب میں منظم کیا تھا- اس طریقه کے مطابق دوسروں کو کوئی نقصان نہ  پہنچانے کے سنہری اصول پر عمل کرنا اور دوسروں سے ہمدردی، رحمدلی سے پیش آنا، خاموشی یا کم سے کم بات، اکیلاپن، روزانہ روزہ رکھنا  یا پانی اور بنیادی غذا پر انحصار کرنا، ایمانداری پر قائم رہنا اور روزانہ خالق کائنات سے ہدایت کی دعائیں کرنا شامل ہے-
عام طورپرصوفیاء خدا کی موجودگی کے تجربہ کا  اپنے انداز میں دعویٰ کرتے ہیں- اسلامی روایات میں انبیاء اس طرح کے تجربےسے گزرے ہوتے ہیں، جس (عین الیقین) کی وجہ سے ان کا ایمان پختہ ہو جاتا ہے-
حضرت محمد ﷺ کا  رات کو  سفر (معراج) ایک منفرد تجربہ ہے، اللہ تعالی فرماتے ہیں:
“وہ (ذات) پاک ہے جو ایک رات اپنے بندے کو مسجدالحرام یعنی (خانہٴ کعبہ) سے مسجد اقصیٰ (یعنی بیت المقدس) تک جس کے گردا گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں لے گیا تاکہ ہم اسے اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھائیں۔ بےشک وہ سننے والا (اور) دیکھنے والا ہے”(قرآن 17:1)
بائبل میں ہنوک کی کتاب ( 1حنوک) میں، پہلے رسالہ (ابواب 1-36) میں بھی حنوک (حضرت ادريس علیہ السلام) کےآسمانی سفرکی روداد بیان کی گئی، جس میں اسرار الہی ان پر آشکار  کئے گئے-
ایک اور مثال: ” اور وہ واقعہ بھی پیش نظر رہے، جب ابراہیمؑ نے کہا تھا کہ: “میرے مالک، مجھے دکھا دے، تو مُردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے” فرمایا: “کیا تو ایمان نہیں رکھتا؟” اُس نے عرض کیا “ایمان تو رکھتا ہوں، مگر دل کا اطمینان درکار ہے” فرمایا: “اچھا تو چار پرندے لے اور ان کو اپنے سے مانوس کر لے پھر ان کا ایک ایک جز ایک ایک پہاڑ پر رکھ دے پھر ان کو پکار، وہ تیرے پاس دوڑے چلے آئیں گے خوب جان لے کہ اللہ نہایت با اقتدار اور حکیم ہے۔”(قرآن 2:260)
. 6دیگر دلائل:
بعض چیزیں حقیقت میں وجود رکھتی ہیں مگر ان کے مخالف چیز کا وجود نہیں ہوتا، ان کو صرف خیال کی وجہ سے کسی نام سے منسوب کردیا جاتا ہے-‘روشنی، موجود ہے جس کے اہم ذرائع سورج، چاند، آگ، بجلی وغیرہ ہیں- روشنی کی شدت بہت زیادہ درمیانی یا کم ہو سکتی ہے- روشنی کی طاقت، تبدیل ہوتی ہے جو آلات کے ذریعے پیمائش کی جا سکتی ہے- تاریکی موجود ہے: ‘تاریکی’ کے طور پر کہا جاتا ہے کچھ بھی نہیں ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ اندھیرہ موجود نہیں ہے؛ ہم روشنی کے منبع کی طرح تاریکی کسی ایک ذریعے حاصل نہیں کر سکتے- اگر روشنی نہیں تو اندھیرہ ہے- روشنی کی غیر موجودگی کو “اندھیرہ” کھا جاتا ہے-  “اندھیرہ” ایک نام ہے  صرف ایک خیال ہے- اسی طرح ‘آواز’ موجود ہے، یہ کم، درمیانی ، اور اونچی آواز ہو سکتی  ہے-آوازکو پیدا کرنے والے مختلف ذرائع ہیں،اس کی پیمائش کی جا سکتی ہے، ڈیسیبل (decibel) آوازکی اس پیمائش کا یونٹ ہے- آواز کا الٹ ‘خاموشی’ ہے، جسے ناپا نہیں جا سکتا مگر کہہ سکتے ہیں کے کم یا زیادہ خاموشی ہے- دراصل یہ کم یا زیادہ آواز کم یا زیادہ خاموشی پیدا کرتی ہے- ہم  خالص خاموشی پیدا کرنے کا  ذریعہ یا آلہ  نہیں بنا سکتے- یہ نہیں کہا جا سکتا اتنی مقدار میں خاموشی لاؤ، خاموشی صرف ایک خیال ہے-
اس طرح کا معاملہ ‘حرارت’ (heat) کا ہے جوموجود ہے- حرارت پیدا کرنے کے مختلف ذرائع ہیں مثلآ؛ سورج، آگ، بجلی وغیرہ- حرارت پیمائش کرنے کے مختلف یونٹس، بی.ٹی.یو (BTU  Kelvin، Celsius) ہیں- حرارت زیادہ یا کم ہو سکتی ہے- ‘سردی’ کے بارے میں کیاخیال ہے؟ کیا سردی موجود ہے؟ سردی (273 -Celsius)  سے نیچے موجود نہیں، اس درجہ حرارت کے بعد زیادہ ٹھنڈا نہیں ہو گی- حرارت کی غیر موجودگی’سردی’ ہے جو صرف ایک خیال ہے-
خدا موجود ہے، پچھلے دلائل سے واضح ہے کہ  خدا ایک حقیقت ہے لہٰذا خدا کا انکار یا عدم وجود صرف ایک خام  خیال ہے!
. 7مظبوط دلیل:
مسلمان فلسفہ اور علماء نے وجود باری تعالی پر  اتنے دلائل پیش کیئے ہیں کہ یہاں مختصر  طور پر بھی ان کا احاطہ ممکن نہیں – قبل ازیں  چھٹے اصول میں یہ ثابت ہوا کہ  انسان کسی عقلی دلیل سے ما ننے سے پہلے ہی اپنے شعور باطنی کی فراست سے سمجھ لیتا ہے اور باوجودیکہ اس عقیدہ کی صحت کے دلائل دنیا کی ہر چیز میں نمایاں طور پر موجود ہیں قا بل دلیل ہیں- ایمان انسان کی فطری جبلت ہے –تمام انسان کافر ہوں یا مومن ، عبادت گزار ہوں یا فاسق و فاجر اگر کسی سخت مصیبت میں پھنس جائیں تو وہ دنیا کی کسی مادی چیز کی پناہ تلاش نہیں کرتا بلکہ وہ کسی ایسی قوت کی پناہ چاہتا  ہے جو اس کائنات سے ماورا ہو، جسے وہ دیکھ تو نہیں سکتا لیکن اس کی روح اس کا دل اس کے جسم کا ہر ریشہ اس کے موجود ہونے کی گواہی دیتا ہے اس کی عظمت و جلال کا احساس رکھتا ہے ، اس سے محبت کرتا ہے ، ڈرتا ہے ، یہ اس لیے ہے کہ ایمان انسان کی جبلت ہے –
لہٰذا صا حب علم اور عام انسان صاحب ایمان ہو سکتا ہے – ملحد اور کافر صرف وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا علم نصف یا چوتھائی ہوتا ہے – جنہوں نے تھوڑا علم حاصل کیا اور اپنے اس نا قص علم کی وجہ سے اپنی ”فطرت مومنہ” کو ضا ئع کر بیٹھے ، ایمان پیدا کرنے والے علم تک رسائی حاصل نہ کر سکے اور کفر میں مبتلا ہو گئے-
تمام دلائل ایک طرف اور قرآن پاک کے پیش کردہ دلائل سب پر بھاری ہیں- قرآن جو دلائل دیتا ہے وہ انتہائی واضح، صاف اور قاطع ہونے کے علاوہ ان میں بہت مختصر عبارت میں بہت ہی وزنی بات کہی گئی ہوتی ہے جسے ایک عام آدمی بھی با آسانی سمجھ سکتا ہے – اور جب کوئی عالم  غور و فکر کے بعد اس کے حقیقی مقصد و مفہوم تک پہنچتا ہے تو حیرت زدہ رہ جاتا ہے-
قرآن مجید نے ہمیں خبردار کیا ہے کہ الله تعالی کے موجود ہونے کی دلیل ہمارے اندر (نفس میں ) موجود ہے – ظاہر ہے ہم کسی ایسی حقیقت سے کس  طرح انکار کر سکتے ہیں جس کی صداقت ہمارے دل پر ثبت اس کے سچا ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہو ، الله کا فرمان ہے :
وَفِي أَنفُسِكُمْ ۚ أَفَلَا تُبْصِرُونَ ﴿ الذاريات ٢١﴾
“دلائل اور نشانیاں تو تمہارے وجود کے اندر موجود ہیں کیا تمہیں سوجھتا نہیں ؟”
انسان کے دل کی گہرائی میں پوری طرح یہ خیال راسخ ہے کہ الله موجود ہے- ہم اپنی فطرت ایمانی اور دینی جبلت کی وجہ سے مصائب و تکالیف کے وقت اسی کی پناہ ڈھونڈتے ہیں – ہمارے اندر اور پوری دنیا میں اردگرد اس کے موجود ہونے کے دلائل بکھرے پڑے ہیں- اسی لیئے ہماری شعور  باطنی یعنی دل اس کے موجود ہونے پر غیر شعوری ایمان رکھتا ہے- البتہ قوت فکر و ذہن یعنی عقل دلیل کے ذر یعہ اس کے وجود پر ایمان لاتی ہے- یہ کس قدر حیرانگی کی بات ہے کہ جس کا اپنا وجود الله کی موجودگی کا ثبوت ہو اس کے وجود سے انکاری ہو – یہ ایسے ہے کہ ایک شخص بھیگا ہو اور کہے کہ اس نے کبھی پانی نہیں دیکھا-
ایک ایسی واضح حقیقت اور دلیل کے بعد کچھ لوگ اللہ پر یقین کیوں نہیں رکھتے ؟
اس لیے کہ وہ دنیا داری کے عام روٹین میں اتنے مصروف ہیں کہ اپنی ذات پر غور و تفکر نہیں کرتے :
وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّـهَ فَأَنسَاهُمْ أَنفُسَهُمْ ۚ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ﴿١٩﴾
“وہ الله کو بھول گئے اور نتیجہ میں الله نے خود ان کی ذات بھلا دی “(الحشر 19)
انسان اپنی ابتدا ، زندگی ، مقصد حیات ، انتہا اور اختتام پر غور نہیں کرتا- کیا انسان نے اپنے آپ کو خود پیدا کیا یا جمادات نےجو خود عقل سے عاری ہیں  ، ان کو کس نے پیدا کیا ؟
أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ ﴿٣٥﴾
“یہ یہ لوگ کسی خالق کے بغیر پیدا ہو گئےہیں یا خود اپنے خالق ہیں ؟”(الطور 35)
کاینات پر غور کریں ، سب کچھ خود بخد نہیں بن گیا ، اس تخلیق کے پیچھے ایک خالق ہے جو ایک منصوبہ کے مطابق سب کچھ تخلیق کرتا ہے –
سائنس سے مزید حیرت انگیز دلائل >>>>
برقی کتاب (  html فارمٹ):  https://goo.gl/kgkTl8
برقی کتاب (Pdf فارمٹ): https://goo.gl/bsTBJt 

……………………………………………………..