Islam and Modernity اسلام کو زمانے سے’ہم آہنگ‘ کرنے کی خواہش

Image result for islam and modernity
ہر دور کے کچھ مخصوص نعرے ہوتے ہیں، جن کا چلن آہستہ آہستہ بڑھتا چلا جاتا ہے، حتیٰ کہ وہ ہرشخص کی زبان پر رواں ہوجاتے ہیں اور ہرکس و ناکس بلاادنیٰ غوروفکر، انھی کے انداز میں سوچنے اور انھی کی زبان میں بولنے لگتا ہے۔
ان نعروں کا رواجِ عام ہونا، عقل و فہم کی موت کے مترادف ہے۔ جب یہ ذہنوں پر چھا جاتے ہیں تو آزادیِ فکر باقی نہیں رہتی۔ عامی اور عالم، اَن پڑھ اور پڑھے لکھے، سب انھی کا سہارا لینے لگتے ہیں اور سمجھ بوجھ کی صلاحیتیں اِس آکاس بیل کے تحت مرجھا جاتی ہیں۔


……………………………………………………..

Islam and modernity is a topic of discussion in contemporary sociology of religion. The history of Islam chronicles different interpretations and approaches.

Islam and Modernity – IslamiCity

Modernity signifies “both a historical period as well as the ensemble of particular socio-cultural norms, 
attitudes and practices that arose in post-medieval Europe …


……………………………………………………….

’زمانے کے ساتھ چلو‘
ہمارے دور میں بھی کچھ خاص نعرے ہیں، جو رواجِ عام اختیار کرتے جارہے ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں نعرہ ہے: ’با زمانہ بساز‘۔ آئے دن یہ بات زورشور سے دُہرائی جارہی ہے کہ:
زمانہ بدل چکا ہے۔ 
مذہب کو زمانے کی تبدیلیوں کا ساتھ دیتے ہوئے نئے حالات کے مطابق بدلنا چاہیے۔ اگر مذہب دورِ حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ کیا گیا ، تو اس کے خلاف بغاوت ہوجائے گی اور وہ زندگی سے بے دخل ہوجائے گا۔ جمود کا نتیجہ موت ہے۔ ہم کو زمانے کی تبدیلی کے ساتھ بدلنا ہوگا، ورنہ موت کے لیے تیار ہو جانا چاہیے۔
آج جسے دیکھو وہ کسی نہ کسی عنوان سے یہی درس دیتا نظر آتا ہے۔ ضرورت ہے کہ اس نعرے پر ’ایمان بالغیب‘ لانے کے بجاے اس کے تمام پہلوئوں پر عقل و تجربے کی روشنی میں غور کیا جائے اور محض اس لیے کسی بات کو قبول کرنے کی غلطی نہ کی جائے کہ اس کا اظہار بہ تکرار ہو رہا ہے۔
کیا ہر تبدیلی خیر ہے؟
اس امر میں شبہے کی کوئی گنجایش نہیں کہ زمانہ ہمیشہ بدلتا رہا ہے، بہت کچھ بدل چکا ہے اورمزید رنگ بدلے گا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جمود ایک مصیبت ہے ، جو قوم کی تخلیقی قوتوں کو  یخ بستہ کردیتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہر تبدیلی صحت مند ہے؟ کیا ہرخیر باعث ِ تغیر ہے؟ کیاتاریخ کا ہر قدم عروج ہی کی طرف اُٹھتا ہے؟ اور کیا ہر حرکت بلندی ہی کی سمت جاتی ہے؟
ان سوالات پر جب آپ تاریخ کی روشنی میں غور کریں گے، تو لازماً اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ان کا جواب نفی میں ہے۔ ہرحرکت لازماً ترقی کے مترادف نہیں۔ ایک نوع کی حرکت اگر آپ کو ثریا کی بلندیوں تک لے جاسکتی ہے، تو ایک دوسری قسم کی حرکت تحت الثریٰ کی پستیوں تک گرا دیتی ہے ۔ مطلوبِ نفس،محض حرکت نہیں بلکہ صحیح سمت میں حرکت ہے۔

ترقی ایک نسبتی یا اضافی (relative) اصطلاح ہے۔ ترقی اور تنزل کا فیصلہ منزل کے لحاظ ہی سے ہوسکتا ہے۔ ہم صرف اسی حرکت کو ’ترقی‘ کہہ سکتے ہیں، جو صحیح راستے سے ہمیں اپنی منزل کی طرف لے جارہی ہو۔ جو حرکت منزل کے برعکس سمت میں لے جائے، وہ ترقی نہیں بلکہ تنزل ہے۔

اس سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ حرکت سے پہلے سمت ِ حرکت اور منزلِ مقصود کا تعین ہونا چاہیے، ورنہ محض جمود کو توڑنے کے شوق میں کوئی حرکت کرکے آپ اپنی منزل سے اور دُور بھی ہٹ سکتے ہیں۔ تمدنی اور تہذیبی زندگی میں اصل معیار وہ مقصد ہوتا ہے، جو آپ حاصل کرنا چاہیں۔ اگر آپ کا مقصد اور آپ کی منزل اسلام ہے، تو پھر ہر وہ حرکت جو اس کی مخالف سمت میں لے جائے، خواہ وہ کتنی ہی سبک خرام کیوں نہ ہو، ترقیِ معکوس ہوگی، بلکہ یہ حرکت جتنی تیز ہوگی، تنزل اتنا ہی تیز رفتار ہوگا۔
اندھی تقلید ، تقلید اِتباع‘ :

’تقلید‘ اور ’اِتباع‘ میں فرق ہے۔ اگرچہ آج کل علما’ تقلید‘ کو مجرد پیروی کے معنی میں بولنے لگے ہیں، مگر قدیم زمانے کے علما ’تقلید‘ اور ’اتباع‘ میں فرق کیا کرتے تھے۔ ’تقلید‘ کے معنی ہیں دلائل سے قطع نظر کرتے ہوئے کسی شخص کے قول و فعل کی پیروی کرنا، اور ’اتباع‘ سے مراد ہے کسی شخص کے طریقے کو بربناے دلیل پسند کر کے اس کی پیروی کرنا۔
پہلی چیز ’عامی‘ کے لیے ہے اور دوسری ’عالم‘ کے لیے۔ ’عالم‘ کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ کسی امام کی پیروی کی قسم کھالے اور اگر کسی مسئلے میں اس امام کے مسلک کو اپنے علم کی حد تک کتاب و سنت سے اوفق اور اقرب نہ پائے، تب بھی اس کی پیروی کرتا رہے…..

 بزرگوں  ( حضرت سیّد عبدالقادر جیلانی ؒ، حضرت امام غزالیؒ ، حضرت مجدد الف ثانیؒ، حضرت شاہ ولی اللہؒ اور حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ) میں سے اکثر کی کتابوں میں یہی بات پائی ہے کہ وہ جس امام کی پیروی بھی کرتے ہیں، دلائلِ شرعیہ کی بناپر مطمئن ہوکر کرتے ہیں اور اپنے     اس اتباع کے حق میں دلائل پیش فرماتے ہیں۔ باقی بزرگ جو کسی خاص مسلک کی پیروی کرتے ہیں، ان کے متعلق بھی یہی حُسنِ ظن رکھتا ہوں کہ وہ بھی اِسی طرز کا اتباع کرتے ہوں گے۔ (سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۴۷، عدد۱، محرم ۱۳۷۶ھ،اکتوبر ۱۹۵۶ء، ص ۱۳۷-۱۳۸)

اسی طرح اندھی تقلید اور کورانہ نقالی صرف ماضی ہی کی نہیں ہوتی۔ یہ حال کے مروّجہ طریقوں اور ضابطوں کی بھی ہوسکتی ہے۔ اور کسی فرد یا قوم کی خودی اور اس کے صحت مندانہ ارتقا کے لیے جتنی مہلک ماضی کے بتوں کی اندھی پرستش ہے، اتنی ہی مہلک حال کے نئے بتوں کی پوجا بھی ہے، بلکہ اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو نقالی دراصل ’جمود‘ ہی کی ایک شکل ہے۔ اگرچہ ہے بڑی پُرفریب! عقل و فکر کو دونوں ہی صورتوں میں معطل کر دیا جاتا ہے۔ ’جمود‘ میں آپ ماضی کی پرستش کرتے ہیں اور لکیر کے فقیر بنے رہتے ہیں، تو نقالی میں آپ ماضی کے بجاے کسی نئے سورج کی پرستش شروع کر دیتے ہیں۔ آپ کی خودی کے لیے دونوں تباہ کُن ہیں۔

جو لوگ زمانے کے چلن کی پیروی کا بلاوا دیتے ہیں، وہ بھول جاتے ہیں کہ شعوری یا غیرشعوری طور پر وہ دراصل دوسروں کی تقلید ہی کی دعوت دے رہے ہیں، اور ’جدید‘ کی تقلید اگر کی جائے تو وہ کوئی فخر کے قابل چیز نہیں بن جاتی۔ اُس کے نقصانات علیٰ حالہٖ قائم رہتے ہیں، جن کی بناپر قوم کی اپنی تخلیقی صلاحیتیں کبھی اُبھرنے نہیں پاتیں۔ اس کی وجہ سے انسان کی روح میں جمود اور احساسِ کمتری پیوست ہوجاتا ہے۔ انجام کار، پوری قوم زمانے کو بدلنے کے بجاے بس خود اپنے ہی آپ کو بدلنے میں لگی رہتی ہے اور دوسروں کی ’شاگردی‘ کے مقام سے آگے بڑھنا کبھی اسے نصیب نہیں ہوتا۔
پھر زمانے کی تبدیلی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے اس امر کو بھی ملحوظ نہیں رکھتے کہ زمانہ تو بدلنے ہی کے لیے بنا ہے۔ آج وہ ایک خاص سمت میں تبدیل ہورہا ہے تو کل کسی دوسری سمت میں تبدیل ہوجائے گا۔ چڑھتے سورج کی پوجا کرنے والے ہمیشہ اپنے ہی دور کی غالب تہذیب کو ترقی کا کمال سمجھتے رہتے ہیں۔
ہر ’عظیم‘ اور قدیم تبدیل ہوا
چشمِ تاریخ نے اس امر کا بارہا مشاہدہ کیا ہے کہ بڑی سے بڑی طاقت ور تہذیب بھی ایک دن زوال کی نذر ہوجاتی ہے:
  •  یونانی تہذیب کے غلبے کے زمانے میں یونانیت زدہ لوگ اسی کو تہذیب انسانی کا    حرفِ آخر سمجھتے تھے اور اس سے انحراف و اختلاف کو دیوانگی، پریشان خیالی اور کفرخیالی کرتے تھے۔ لیکن پھر ایک دن اس تہذیب کی اینٹ سے اینٹ بج گئی، اور اب اس کی حیثیت محض آثارِ قدیمہ کی سی ہے۔
  •  روم کے دورِ عروج میں یہی مقام رومی تہذیب کو حاصل ہوا۔ لیکن، بالآخر اس تہذیب کے بھی پرخچے اُڑ گئے، اور آج اس کے آثار بالاے زمین نہیں بلکہ زیرزمین ڈھونڈے جارہے ہیں۔
  •  ایرانی تہذیب کی قسمت بھی اس سے مختلف نہ ہوئی۔ بابلی، مصری، آشوری، چینی، گندھارا اور ہڑپا کے ساتھ ساتھ اُن ۲۹تہذیبوں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوگزرا، جو اپنے اپنے زمانے میں غالب اور ناقابلِ تسخیر یا ’ترقی یافتہ‘ سمجھی جاتی تھیں۔
اگر ماضی کی تمام غالب تہذیبیں قابلِ تسخیر ثابت ہوئیں، اور ایک دن کامیاب وہی لوگ ہوئے جو ان کی نقالی نہیں کرتے تھے، بلکہ ان کی جگہ ایک دوسرا نظام پیش کرتے تھے تو مستقبل کے متعلق یہ کیوں تصور کرلیا جائے کہ جدید مغربی تہذیب کوباوجود اس کے موجودہ غلبے کے،مسخر نہیں کیا جاسکتا؟

محض یہ چیز کہ آج ایک خاص تہذیب کو غلبہ حاصل ہے، اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ: ’’یہی تہذیب مبنی برحق بھی ہے۔ نہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ اسی کو ہمیشہ قائم رہنا ہے اور نوعِ انسانی کے لیے اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اپنے آپ کو اسی کے مطابق ڈھال لے‘‘۔

طاقت اور غلبہ، حق کے معیارات کو تبدیل نہیں کردیتے اور اقتدار کسی چیز کو محاسن کا پیکر نہیں بنا دیتا۔ نہ ہر رائج شدہ چیز ناقابلِ تغیر اور ناقابلِ تسخیر ہوتی ہے۔ یہ کمزوروں کی روش دکھائی دیتی ہے کہ وہ طاقت کی پوجا کرتے ہیں اور ہرچڑھتے سورج کے آگے جھک جاتے ہیں۔ یہ کم نظروں کا طریقہ ہے کہ وہ محض اس بناپر کسی مسلک کو اختیار کرلیتے ہیں کہ اسے اقتدار اور غلبہ حاصل ہے اوریہ نہیں دیکھتے کہ وہ کہاں تک صحیح ہے اور کہاں تک غلط؟
اصل قدر غلبہ نہیں، سچائی ہے
حالاںکہ دیکھنے کی اصل چیز غلبہ اور طاقت نہیں بلکہ کسی چیز کا حق یا باطل ہونا ہے۔ اگر زمانہ بدل رہا ہے تو اس کو مزید بھی بدلا جاسکتا ہے۔ لیکن محض زمین و آسمان کی گردش اور ماہ و سال کی آمدورفت کی وجہ سے زندگی کے اصول، خیروشر کی تمیز اور حق و باطل کے معیار نہیں بدلے جاسکتے۔
جدید ذہن کی تعمیر جن عوامل نے کی ہے، ان میں وہ فکروفلسفہ بھی شامل ہے، جو ہرنئی چیز کو خوب تر اور قابلِ احترام اور لائقِ اختیار سمجھتا ہے۔ مغرب کے ذہن کو ہیومنزم (Humanism) کے فلسفے نے بہت متاثر کیا ہے۔ اس فلسفے کی اساس، تاریخ میں ناگزیر ترقی کا اصول (Inevitability of progress)ہے۔ اس کی رُو سے:’’ہر آنے والا دن، گزرے ہوئے دن سے بہتر ہے۔ انسان کا ورثہ روز بروز بڑھ رہا ہے۔ حال، ماضی سے اچھا ہے اور مستقبل، حال سے بہتر ہوگا۔ ہمارے قدم لازماً ترقی کی طرف اُٹھ رہے ہیں اور اب پیچھے ہٹنے کا کوئی امکان نہیں‘‘۔
اس اصول کو فریڈرک ہیگل کے’ فلسفۂ جدلیاتی تاریخ‘ اور کارل مارکس کی ’معاشی تعبیرتاریخ‘ نے بڑی تقویت پہنچائی۔ یہ اسی اندازِ فکر کا نتیجہ ہے کہ ماضی کی ہرچیز کو کم مایہ اور حقیر، اور حال کی ہرشے کو قابلِ قدر سمجھا جا رہا ہے۔ ترقی کا لازمی تقاضا یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ تغیر زمانہ کے نام پر ہرقدیم چیز کو بدل ڈالا جائے۔

یہ نظریہ بدیہی، منطقی اور عقلی طور پر غلط ہے۔ ہمیں انسانی تاریخ میں ارتقا کی کوئی سیدھی لکیر نظر نہیں آتی۔ یہ ’تاریخ‘ بڑی کج رو واقع ہوئی ہے: اس میں ترقی بھی ہے اور تنزل بھی، عروج بھی ہے اور زوال بھی، ارتقا بھی ہے اور انحطاط بھی، فراز بھی ہے اور نشیب بھی۔ ہربعد کے دور کو پچھلے دُور سے بہتر سمجھنا تاریخی لحاظ سے ایک بالکل غلط مفروضہ ہے، جسے ہرگز صحیح ثابت نہیں کیا جاسکتا۔

جدید تاریخ کے فلسفیوں میں سے کوئی ایک بھی ہیگل اور مارکس کی اس توجیہ کو صحیح نہیں سمجھتا اور خود تاریخی حقائق اس کی توثیق کرنے سے انکاری ہیں۔ ’مسلسل ارتقا‘ کا نظریہ آج علمی حیثیت سے ایک متروک نظریہ ہے۔ لیکن اس کے بطن سے جس فاسد تصور نے جنم لیا ہے، وہ عام پڑھے لکھے لوگوں کے دماغ پر مسلط ہے۔ وہ اپنی ترقی پسندی کا ڈھول پیٹنے کے لیے محض فیشن کے طور پر ہرقدیم چیز پر ناک بھوں چڑھاتے اور ہرنئی چیز کی طرف بے سوچے سمجھے لپک پڑتے ہیں۔ حالانکہ قدیم کو لازماً بُرا اور جدید کو لازماً اچھا سمجھنا اور تمام قدیم چیزوں کو تبدیلی کے خراد پر چڑھا دینا،   ایک غلط روش ہے، جس کے لیے کوئی معقول دلیل موجود نہیں۔
تغیر  اور تبدیلی کی بنیاد؟
اسی طرح سوال یہ بھی ہے کہ:
’’زمانے کے تغیر کی نوعیت کیا ہے؟ 
اور یہ تغیر زندگی کے کس دائرے میں واقع ہو رہا ہے؟‘‘
کائنات کا وہ دور جو زمین پر انسان کی آمد سے شروع ہوا ہے، اب تک جاری ہے۔ ارتقاے کائنات کے نقطۂ نظر سے اگر غور کیا جائے، تو یہ امر صاف ظاہر ہے کہ موجودہ دَور اپنی چند متعین خصوصیات رکھتا ہے، جو انسانی تہذیب کے سارے ہی مرحلوں میں نمایاں نظر آتی ہیں۔ ان خصوصیات میں کوئی اساسی تبدیلی اسی وقت واقع ہوگی، جب یہ دَور ختم ہوجائے گا اور کوئی دوسرا دَور شروع ہوگا، یعنی دورِ آخرت۔
اس پورے زمانے میں انسان کی فطرت، کائنات کے فطری قوانین، انسانی زندگی کے اساسی اصول، حیات و موت کے ضابطے، انفرادی اور اجتماعی زندگی کی بنیادیں، ہدایت و ضلالت کے قواعد، یہ تمام ایک ہی رہے ہیں اور ایک ہی رہیں گے۔ افراد پیدا ہوتے ہیں اور مرتے ہیں۔ تہذیبیں اُبھرتی ہیں اور معدوم ہوجاتی ہیں۔ سلطنتیں بنتی ہیں اور بگڑکر ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتی ہیں: کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ(الرحمٰن۵۵:۲۶)، لیکن قدرتِ حق کے تحت فطرت کے قوانین غیرمتبدل ہیں۔ زندگی کی اصل غیرمتغیر ہے، اور اجتماع و تمدن کے اساسی ضابطے ثابت و مستحکم ہیں۔ ایک ہی اصول ہے جو کارفرما ہے، ایک ہی حقیقت ہے جو جلوہ گر ہے۔
تغیر و تبدل صرف ظاہری اور سطحی چیزوں میں ہے، بنیادی اور اساسی چیزوں میں نہیں۔ اس لیے یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ زندگی کے موجودہ دور میں جو تغیرات بھی واقع ہو رہے ہیں، وہ ایک محدود دائرے میں ہیں۔ بنیادوں میں نہیں۔ صرف فروع میں ہیں، اور ان کی بناپر قدیم و جدید کا جھگڑا بجز کوتاہ نظری کے اور کچھ نہیں۔ بقولِ علامہ محمد اقبال    ؎
زمانہ ایک، حیات ایک، کائنات بھی ایک
دلیلِ کم نظری، قصۂ جدید و قدیم
محض تبدیلی مذموم نہیں
ہم تغیر کے وجود کے منکر نہیں ہیں۔ یہ تو ایک ایسی حقیقت ہے، جس سے انکار ممکن ہی نہیں۔ لیکن جس چیز کا سمجھنا ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ اس تغیر کی نوعیت کیا ہے؟ اس لیے کہ اس کی نوعیت کو سمجھے بغیر کوئی صحت مند اجتماعی پالیسی اختیار نہیں کی جاسکتی۔
انسان کی اجتماعی زندگی میں جو تبدیلی بھی آرہی ہے، وہ ذرائع اور رسل کی دنیا میں ہے، مقاصد اور اصول و اَخلاق کی دنیا میں نہیں۔ فنی ایجادات اور تکنیکی انکشافات، انسان کے وسائل اور فطری قوتوں پر اس کے اختیار کو برابر بڑھا رہے ہیں۔ زمان و مکان کی رکاوٹیں دُور ہورہی ہیں اور انسان کا اقتدار بڑھ رہا ہے۔ لیکن یہ ساری تبدیلی ذرائع اوروسائل ہی کی حد تک ہورہی ہے۔ اس تبدیلی کا یہ تقاضا ہرگز نہیں ہے کہ مقاصد ِ زندگی، اُصولِ اخلاق اور اقدارِ حیات کو بھی تبدیل کر دیا جائے۔
اگر ہوائی جہاز، جیٹ اور راکٹ کے استعمال سے زمین کی طنابیں کھنچ گئی ہیں، تو اس کے یہ معنی کب ہیں کہ زنا جو کل تک حرام تھا، آج حلال ہوجائے؟ اگر برقی قوت کے ذریعے انسان کے پاس وہ طاقتیں آگئی ہیں، جو پہلے صرف جنوں اور فرشتوں سے منسوب تھیں، تو اس کا آخر کیا اثر خیروشر کے اصولوں کی صداقت پر پڑتا ہے؟ میزائل اور خلائی راکٹوں کے استعمال کا آخر یہ تقاضا کب ہے کہ جھوٹ، سُود، سٹہ، دھوکا دہی، شراب اور دوسرے منکرات کو جائز قرار دے دیا جائے؟ صنعتی ترقی کا آخر یہ تقاضا کب ہے کہ اصولِ انصاف کو بھی بدل دیا جائے؟
ایجادات کی غلامی نہیں
جو حضرات سطحی نظر رکھتے ہیں، وہی اس قسم کی باتیں کرتے ہیں کہ یہ تغیرات اصولوں میں ردّوبدل کے مقتضی ہیں۔ درحقیقت تمام ایجادات و اکتشافات انسان کے لیے ہیں، انسان ان کے لیے نہیں۔ تمام مادی ترقیات اسی وقت مفید ہوسکتی ہیں، جب وہ انسان کی بھلائی کے لیے استعمال ہوں۔ خود بھلائی اور بُرائی کے اصول، ان کی خاطر نہ بدل جائیں۔ یہ قوتیں جو انسان کو حاصل ہوئی ہیں، اُسی وقت نافع ہیں جب وہ اعلیٰ مقاصد ِ حیات کے تابع ہوں، اپنے ریلے میں وہ ان      اعلیٰ مقاصد ِ زندگی کو بہا کر نہ لے جائیں۔ مقاصد اور اصول کو ان کے مطابق نہیں، بلکہ ان کو مقاصد و اصول کے مطابق بدلنا چاہیے۔ مقاصد اور اصولوں کی حیثیت تو اُن معیارات کی ہے،  جن سے تکنیکی ترقیات کے حُسن و قبح کو ناپا جائے گا۔ اگر ان ترقیات کے باوجود انسان ہی  پریشان و مضطرب رہتا ہے، تو پھر ساری مادی ترقی بے کار ہے    ؎
نہ کلی ہے وجہ نظر کشی، نہ کنول کے پھول میں تازگی
فقط ایک دل کی شگفتگی، سببِ نشاطِ بہار ہے
انسانی زندگی میں تغیر کا منہاج (methodology)کچھ ایسا ہے کہ تبدیلی کے ساتھ ساتھ ثبات اور دوام کا بھی ایک پہلو موجود ہے۔ تبدیلی ہرلحظہ آتی ہے، لیکن بنیادی حقیقت کو متاثر کیے بغیر۔

مثال کے طور پر انسان کے جسم اور اس کی ذات ہی کو لیجیے:میڈیکل سائنس کے مشاہدات ہمیں بتاتے ہیں کہ انسان کے جسمانی نظام میں ہرلمحہ تغیرات ہورہے ہیں۔ ایک بچے کے جسم کا ایک ایک ریشہ جوان ہونے تک بدل جاتا ہے۔ اس کے بعد بھی یہ سلسلہ برابر جاری رہتا ہے، حتیٰ کہ ایک خاص مدت میں ہر انسان کا جسم اپنے کو بالکل تبدیل کر کے ایک نیا جسم بن جاتا ہے، لیکن اس تبدیلی میں بنیادی نظام وہی رہتا ہے اور ہرشخص کی اساسی شخصیت اور اس کی اَنا (ego) جوہری طور پر غیرمتبدل رہتی ہے۔

اسی کیفیت کو نکولائی بردائیف (Nicoli Berdyve) نے ان الفاظ سے تعبیر کیا ہے: Personality is Changelessness in Change(انسانی ذات، تغیرات کے جلو میں عدم تغیر کا نام ہے)۔
اور برگسان نے اس بات کو یوں بیان کیا ہے:’’ہم میں تغیر تو آتا ہے، لیکن ہماری بنیادی حقیقت معدوم نہیں ہوتی‘‘۔
اسی طرح درختوں کو دیکھیے: ایک درخت، ایک خاص مدت میں اپنے پھول پتّے بالکل تبدیل کر لیتا ہے۔ اس کی نباتاتی زندگی میں تبدیلیاں واقع ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن یہ تبدیلی اس کی اصل کو نہیں بدلتی بلکہ اس سے ہم آہنگ رہتی ہے۔ اس درخت کا ایک بنیادی رنگ اور ایک بنیادی تاثیر ہوتی ہے ،جو بہرصورت غالب رہتے ہیں اور یہی اس درخت کی انفرادیت ہے   ؎
صبحِ بہار آئی ہے لے کر، رُت بھی نئی، شاخیں بھی نئی
غنچۂ و گل کے رُخ پر لیکن، رنگ قدامت آج بھی ہے
زندگی محض تغیر نہیں
یہ فطرت کا قانون ہے جو ہر شعبۂ زندگی میں جاری و ساری ہے۔ انسان کی اجتماعی اورتہذیبی زندگی میں بھی ہمیں یہی جلوہ گر نظر آتا ہے۔ اسی بنیاد پر علامہ محمداقبال نے کہا تھا:
ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ زندگی محض تغیر ہی نہیں، اس میں حفظ و ثبات کا ایک عنصر بھی موجود ہے… لہٰذا، اس ہرلحظہ آگے ہی آگے بڑھنے والی حرکت میں، انسان اپنے ماضی کو نظرانداز نہیں کرسکتا… اسی بات کو ہم دوسرے لفظوں میں یوں ادا کریں گے کہ زندگی چونکہ ماضی کا بوجھ اُٹھائے آگے بڑھتی ہے، اس لیے ہمیں چاہیے کہ جماعت میں تغیر و تبدل کا جو نقشہ بھی ہم نے قائم کیا ہو، اس میں قدامت پسند قوتوں کی قدروقیمت اور وظائف کو فراموش نہ کریں۔(ڈاکٹر محمد اقبال، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ ، ترجمہ:سید نذیر نیازی، ص۲۵۷)

مندرجہ بالا بحث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ:

  • ہر تبدیلی موجب ِ خیر ہی نہیں ہوتی ہے۔ اس لیے جوچیز مطلوب ہے، وہ محض تبدیلی نہیں بلکہ صحیح سمت میں تبدیلی ہے۔
  • محض زمانے کے چلن کا اتباع کسی فرد یا قوم کے لیے فلاح کا باعث نہیں ہوسکتا۔
  • کسی چیز کے غالب ہونے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ لازماً اچھی اور صحیح بھی ہے، یا یہ کہ وہ ناقابلِ تسخیر ہے۔
  • ناگزیر ترقی کا اصول ایک فاسد اصول ہے، جس کی تائید تاریخ سے نہیں ہوتی۔
  • زمانے کے تغیر کی نوعیت بڑی غورطلب ہے۔ تبدیلی کا دائرہ بڑا محدود ہے۔ تبدیلی بنیادوں میں نہیں، صرف فروع اور ظواہر میں ہوتی ہے۔ انسانی فطرت، کائنات کے بنیادی قوانین اور ہدایت و ضلالت کے ضابطے میں کسی تغیر کا سوال نہیں۔
  • زندگی صرف ’تغیر‘ کا نام نہیں ہے، بلکہ وہ تغیر اور ثبات دونوں کے توازن سے قائم ہے اور صحت مند نظام وہی ہوسکتا ہے، جو دونوں پہلوئوں میں کامل توازن قائم کرے۔
ان اُمور کے واضح ہو جانے کے بعد اب مسئلے کا سمجھنابہت آسان ہوجاتا ہے۔
ہدایتِ الٰہی میں تبدیلی، ناممکن

اسلام، اللہ تعالیٰ کی اس ہدایت کا نام ہے، جو اس نے اپنے برگزیدہ نبیوں کے ذریعے انسان کی رہنمائی کے لیے وقتاً فوقتاً بھیجی ہے اور جو اپنی آخری اور مکمل شکل میں ہم کو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے پہنچی ہے۔ یہ وہ ضابطۂ حیات ہے، جو عین فطرت کے اصولوں پر قائم ہے اورانسان اسی کے ذریعے سے دنیاوی اور اُخروی دونوں کامیابیاں حاصل کرسکتا ہے۔ یہ زندگی کا مکمل قانون ہے۔ اس قانون کو انسان نے نہیںاللہ تعالیٰ نے بنایا ہے۔ یہ ابدالآباد تک کے لیے ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔

  • لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ ط (یونس۱۰:۶۴)اللہ کی باتیں (یعنی اس کے احکام و فرامین) بدل نہیں سکتیں۔
  • لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ ج (الانعام ۶:۳۴)اور اللہ کی باتوں کو بدلنے کی طاقت کسی میں نہیں ہے۔
  • لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ط ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ لا وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ o (الروم ۳۰:۳۰) اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جاسکتی، یہی بالکل راست اور درست دین ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں۔ 

  •  فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا ج (فاطر۳۵:۴۳)اور تم اللہ کے طریقے میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پائو گے۔

قرآن پاک کی یہ آیات بالکل صاف اور واضح ہیں، اور اس امر کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ اللہ کا دین، اس کے احکام اور قوانین ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہیں اور محض زمانے کی تبدیلی کی وجہ سے ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ تبدیلی زمانے میں کرنی ہوگی، اللہ کے قانون میں نہیں۔ اس پس منظر میں مردود وہ ہیں جو  ع
خود بدلتے نہیں ، قرآں کو بدل دیتے ہیں

نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ: فَمَنْ أَحْدَثَ حَدَثًا أو آوَی مُحْدِثًا فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَالْمَلَائِکَۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ (بخاری:۳۱۷۹) ’’جو بدعت نکالے یابدعتی کو پناہ دے اس پر اللہ اور فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت ہے‘‘۔
اگر اس مسئلے پر عقلِ سلیم کی روشنی میں غور کیا جائے،تو فکرونظر کا ہر گوشہ اس بات پر گواہی دیتا ہے کہ اللہ  کے قانون میں کسی تبدیلی کی نہ ضرورت ہے اور نہ گنجایش۔ اور اس کی وجہ بھی بہت واضح ہے۔ زمانے کی تبدیلی کا اثر اُس قانون اور اصول پر پڑتا ہے، جسے انسان نے بنایا ہو۔
انسانی فکر کی تنگی
انسانی فکر زمان و مکان [time and space]کی حدود میں مقید ہے۔ وہ ماضی، حال اور مستقبل کے تمام حقائق سے واقف نہیں۔ وہ ایک محدود بصیرت کے ساتھ آج ایک چیز کو صحیح سمجھ کر پیش کرتی ہے، مگر کل جب وہ حالات سامنے آتے ہیں، جن کا کوئی تصور پہلے موجود نہ تھا، تو وہ    غلط ثابت ہوجاتی ہے۔ لیکن اللہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اس کا علم ہرشے پر محیط ہے۔ زمان و مکان کی قیود اس کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ جو قانون ایسے اللہ کی طرف سے ہو،  اس کا کسی ایک مخصوص زمانے کے ساتھ محدود ہوجانا کیسے ممکن ہے۔ اللہ کے علم اور دیے ہوئے قانون کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ کبھی ازکار رفتہ ہوجائے۔ وہ تو ہمیشہ اتنا ہی تازہ رہے گا،  جتنی صبحِ نو!

ثانیاً: اللہ کا یہ قانون بنیادی طور پر ہدایت و ضلالت کی حقیقت کو واضح کرتا ہے اور اُن اصولوں اور اُن اقدار کو بیان کرتا ہے جن پر وقت کے تغیرات، تہذیبوں کے عروج و زوال اور ماہ و سال کی آمدورفت کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ یہ فطرت کے اصولوں کو بیان کرتا ہے اور فطرت کا قانون قائم و مستحکم ہے۔

ثالثاً: قرآن و سنت اصولی رہنمائی دیتے ہیں، انفرادی اور اجتماعی زندگی کی بنیادیں فراہم کرتے ہیں اور ان اساسی اداروں کو قائم کرتے ہیں، جنھیں ہر زمانے میں قائم رہنا چاہیے۔ ان چیزوں پر زمان و مکان کے تغیر کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ یہ اصول غیرمتبدل ہیں اور ان میں تبدیلی فطرت کے قانون کے خلاف ہوگی۔
اسلام میں تبدیلی کی بنیاد  زمانہ نہیں
ان وجوہ کی بنا پر زمانے کی تبدیلی کے مطابق اسلام میں تبدیلی کا قطعاً کوئی امکان نہیں۔
یہی چیز ہے،جو انبیاؑ کی سنت اور صلحا کی کی قابل قدر زندگیوں کے مطالعے سے معلوم ہوتی ہے۔ ہر نبی ایسے حالات میں مبعوث ہوا، جب زمانے کا بگاڑ اپنی انتہا کو پہنچ گیا تھا اور زندگی کا دریا بالکل غلط رُخ پر رواں دواں تھا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ کسی بھی نبی نے زمانے کے چلن کے مطابق اسلام کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ زمانے کے رنگ سے متاثر نہ ہوئے، بلکہ زمانے کو اپنے رنگ میں رنگنے کی سعی میں مصروف ہوگئے، اور بالآخر اس پر صبغۃ اللہ کو غالب کردیا۔ قرآن میں اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ یوں بیان فرماتا ہے:

ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ o(الصف ۶۱:۹)وہی تو ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کردے، خواہ مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔
ہدایت اور دینِ حق ہیں ہی اس لیے، کہ انبیاؑ ان کو دنیا کے باقی تمام نظاموں اورطریقوں پر غالب کریں۔ اللہ کا دین اس لیے نہیں ہے کہ اسے زمانے کے چلن کے مطابق بدلا جائے بلکہ اس لیے ہے کہ زمانے کو اس کے مطابق بدلا جائے اور اس کو غلبہ و اختیار کا مقام حاصل ہو۔ مشرکوں، کافروں اور منافقوں کی تو دلی تمنا ہی یہ ہوتی ہے کہ دین کو ان کے منشا کے مطابق بدلا جائے، لیکن اللہ اس بات کو صاف کردیتا ہے کہ ان کی ناخوشی کا ہرگز کوئی خیال نہیں کیا جاسکتا۔ سربلندی دین کو حاصل ہونی چاہیے اور زمانے پر اس کی حکمرانی قائم ہونی چاہیے۔

زمانہ نہیں، حق ہے بنیاد
انبیاؑ کی سیرت اسی حقیقت پر شاہد ہے ۔ حضرت نوحؑ ^کی قوم بغاوت پر تلی رہی۔ آپ نے ساڑھے نو سو سال تک دینِ حق کی دعوت دی، لیکن ایک دن کے لیے بھی وہ ’وقت کے تقاضوں‘ کے مطابق دین کو تبدیل کرنے پر راضی نہ ہوئے۔ ان کی دعوت یہی رہی کہ:

  • یٰـقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ  ط(الاعراف۷:۶۵)اے برادرانِ قوم! اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمھارا کوئی خدا نہیں ہے۔
  •  ابوالانبیا حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے زمانے کی تہذیب کے کئی بڑے مراکز پر دعوتِ حق دی، لیکن کہیں بھی زمانے کے تقاضوں کے مطابق دین کو نہیں ڈھالا۔ انھوں نے آگ اور جلاوطنی کے مصائب کو انگیز کیا، لیکن دین پر حرف نہ آنے دیا۔
  • حضرت لوط ؑکی قوم شدید قسم کی اخلاقی برائیوں میں مبتلا تھی، مگر آپ نے زمانے کے چلن کو دیکھ کر دین میں ترمیم نہیں کی بلکہ زمانے کے خلاف بغاوت کی۔
  • حضرت ہودؑ نے اپنی قوم کے طور طریقوں کو اختیار کرنے کے بجاے، اسے اللہ کے غیرمتبدل قانون کی پیروی کے لیے پکارا۔
  • ضرت صالح ؑ نے اپنی قوم کی سرکشی کے لیے کوئی الائونس نہ دیا اور انھیں خوش کرنے کے لیے دین میں کسی کمی بیشی کو گوارا نہ کیا۔
  • حضرت شعیبؑ نے اپنی قوم کی معاشی ’ترقی‘ کی خاطر ان کے ظالمانہ معاشی نظام کو قبول کر کے دین میں ترمیمات نہ کیں، بلکہ ان کو کامل اطاعت کی دعوت دی۔
تمام انبیاؑ کی سنت یہی رہی ہے۔ نبی اکرمؐ کے زمانے میں مشرق سے مغرب تک جو نظام چل رہا تھا، اسے قبول کرنے اور اس کے مطابق اپنے آپ کو اور اپنے دین کو ڈھالنے کے بجاے آپ نے اسے ایک فاسد نظام قرار دیا: ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم۳۰  :۴۱) ’’خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا ہے‘‘ لیکن اللہ کے نبیؐ نے زمانے کے تقاضوں سے compromise اور اس کے ساتھ مصالحت کرنے کے بجاے اس کی ہرہر خرابی کے خلاف جنگ لڑی۔

زمانے کے آگے جھکنے کا مشورہ دینے والوں کو آپؐ کا صاف جواب یہ تھا کہ:
وَاللّٰہِ لَوْ وَضَعُوا الشَّمْسَ فِی یَمِیْـنِی وَالْقَمَر فِی یَسَارِیْ عَلٰی اَنْ اَتَرُکَ ہٰذَا الْاَمْرَ مَا تَرَکْتُہٗ حَتٰی یظہر اللّٰہ اَوْ اہلک فیہ (سیرۃ ابن ہشام، جلد اول، استمرار رسول اللہ فی دعوتک، ص۲۶۶) خدا کی قسم! اگر یہ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ کر کہیں کہ آفتاب و مہتاب کے عوض میں اس دعوت کو ترک کردوں، تو میں ہرگز اسے ترک نہ کروں گا، یہاں تک کہ یا تو اللہ اس دعوت کو غالب کردے یا مَیں اس راہ میں جان دے دوں۔
پیغمبرانہ سنت، جھکنا نہیں ہے
انبیاؑ کا طریقہ یہ نہیں رہا کہ وہ زمانے کے آگے جھکیں اور لوگوں کو راضی کرنے کے لیے اللہ کے دین کو بدلیں۔ وہ حق کے پیغامبر ہوتے ہیں اور زمانے کی رُو کے خلاف اپنی دعوت پیش کرکے اسے تبدیل کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ اگر وہی زمانے سے مطابقت اختیار کرلیں تو پھر انسانیت کی فلاح و اصلاح کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔
اِس اسوئہ انبیاؑ کے اتباع کی بہترین مثال ہمیں حضرت ابوبکرؓ کی زندگی میں نظر آتی ہے۔ حضور اکرمؐ کے وصال کے بعد یکایک عرب کا نقشہ پلٹ گیا۔ ہر طرف سے بغاوتوں نے سراُٹھالیا۔ جھوٹے نبی اُٹھ کھڑے ہوئے۔ بہت سے قبائل نے زکوٰۃ ادا کرنے سے انکار کردیا۔ صحابۂ کبار تک اس صورتِ حال پر پریشان ہوگئے اور لوگ یہ راے پیش کرنے لگے کہ: ’’وقتی مصلحت کا تقاضا ہے کہ قبائل کے ساتھ نرمی برتی جائے اور وقت کی نزاکت کا لحاظ کیا جائے‘‘ مگر حضرت صدیق اکبرؓ کا جواب یہ تھا کہ:
واللہ، مجھ پر یہ فرض ہے کہ جو کام میں رسولؐ اللہ کو کرتے دیکھ چکا ہوں، خود بھی وہی کروں اور اس سے سرِمو انحراف نہ کروں۔ اگر جنگل کے بھیڑیے مدینہ میں داخل ہوکر مجھے اُٹھا لے جائیں تو بھی مَیں وہ کام کرنے سے باز نہ آئوں گا، جسے رسولؐ اللہ نے کرنے کا حکم دیا ہے۔ واللہ، اگر مانعینِ زکوٰۃ اُونٹ باندھنے کی ایک رسّی دینے سے بھی انکار کریں گے، جسے وہ رسولؐ اللہ کے زمانے میں ادا کرتے تھے، تو بھی مَیں ان سے جنگ کروں گا۔ اللہ کی قسم! میں زکوٰۃ اور نمازمیں فرق کرنے والے لوگوں سے ضرور لڑوں گا۔
اسلام عبارت ہی نبیؐ کی سنت کی پیروی سے ہے۔ اگر زمانے کی سنت نبیؐ کی سنت سے متصادم ہے تو وہ شخص اپنے دعواے ایمان میں جھوٹا ہے، جو نبیؐ کی سنت کو چھوڑ کر زمانے کی سنت اپناتا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ کا دین ثابت و محکم ہے اور محض زمانے کے انداز دیکھ کر اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔ لیکن یہ خیال کرنا بھی غلط ہوگا کہ زمانے کے تغیرات کو دین اسلام   کلّی طور پر نظرانداز کرتا ہے۔ اسلام کا طریق کار یہ ہے کہ وہ ہدایت و ضلالت کے بنیادی اصول بتادیتا ہے۔ انفرادی و اجتماعی زندگی کے لیے وہ حدود واضح کردیتا ہے، جو انسان کو صراطِ مستقیم پر قائم رکھنے کے لیے درکار ہیں۔ رہے جزوی اور وقتی اُمور، تو ان کو شریعت کے دیے ہوئے بنیادی اصولوں کی روشنی میں اور اس کے مقرر کیے ہوئے حدود کے اندر ہروقت اور ہر زمانے میں طے کرنے کی اجازت ہے۔ یہ کام اجتہاد کے ذریعے انجام پاتا ہے اور اسی کے ذریعے نظامِ دین میں حرکت و ارتقا کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا ہے۔
تجدّد نہیں، تجدید

زمانے کے تغیرات پر دو قسم کے جواب (response) اسلامی تاریخ میں نظر آتے ہیں۔ ایک کا نام ’تجدید‘ ہے اور دوسرے کا ’تجدّد‘۔
’تجدید‘ یہ ہے کہ زمانے کے تغیرات کو ملحوظ رکھتے ہوئے اصل دین کو بلاکم و کاست پیش کیا جائے اور اپنے دور، اپنے زمانے کی زبان میں محکم استدلال کے ساتھ پیش کیا جائے۔ نیز تدبر و اجتہاد کے ذریعے دین کو اپنے دور کے حالات پر نافذ کرنے کی عملی جدوجہد کی جائے۔ اُن تمام ذرائع سے پورا پورا فائدہ اٹھایا جائے، جو قدرت نے انسان کو فراہم کیے ہیں، اور اسلامی بصیرت کے ساتھ نئے پیش آمدہ مسائل کو قرآن و سنت کی روشنی میں طے کیا جائے۔
’تجدید‘ کے ذریعے ہر زمانے میں دین کی تعلیمات اور زندگی کے بہائو کے درمیان تعلق اوررابطہ گہرا ہوتا جاتا ہے اور زندگی کا دریا اسلام کی شاہراہ سے ہٹ کر چلنے نہیں پاتا۔ یہاںمخلصانہ اجتہاد کے ذریعے نئے مسائل اور نئی مشکلات کو حل کیا جاتا ہے اور دین اپنے رنگ پر قائم رہتا ہے۔
’تجدّد‘ اس کے مقابلے میں وہ کوشش ہے، جو زمانے کے تقاضوں کے نام پر خود دین کو بدل ڈالنے کے لیے کی جاتی ہے۔ زندگی اور زمانے کے درمیان ربط اس طریقے سے بھی قائم ہوجاتا ہے، لیکن یہ ربط اسلام کی سرزمین پر نہیں غیراسلام کی سرزمین پر قائم ہوتا ہے۔ اس میں اسلام کو اصل قرار دے کر،حالات کو اس کے مطابق ڈھالنے کے بجاے زمانے کی چلتی ہوئی تہذیب کو اصل مان کر اُس کے پیدا کیے ہوئے حالات پر اسلام کو ڈھال دیا جاتا ہے۔ اس طریق کار کو اگر مسلمان ہر زمانے میں اختیار کرتے چلے جائیں، تو اسلام کی کوئی چیز بھی اپنی جگہ پر باقی نہیں رہ سکتی، بلکہ اسلام سرے سے کسی متعین مذہب و مسلک اور نظریہ و نظام کا نام ہی نہیں رہتا۔
اسلام میں ’تجدید‘ کے دروازے ہمیشہ کھلے رہے ہیں اور پوری تاریخ میں اسلام کے سچے خادم یہ کارنامہ انجام دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ لیکن ’تجدّد‘ کی اس میں کوئی گنجایش نہیں۔ ماضی میں جب بھی ’تجدّد‘ نے سر اُٹھایا ہے، مسلمانوں نے سختی کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا ہے اور ہر ایسی تخریبی کوشش ملّت کی راے عام سے ٹکرا کر آخرکار ختم ہوگئی ہے۔
تجدّد اور تجدید میں کش مکش
آج بھی بنیادی کش مکش ’تجدید‘ اور ’تجدّد‘ ہی کے درمیان ہے اور ہماری پوری تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ دین کو متجدّدین کی خاطر نہ کبھی ماضی میں بدلا گیا ہے اور نہ آج بدلا جاسکتا ہے۔ کسی مصطفیٰ کمال، کسی جمال ناصر، یاکسی اور حکمران یا صاحب ِ اثر شخصیت کی یہ طاقت نہیں ہے کہ زمانے کے تقاضوں کا نام لے کر اسلام کو بدل سکے۔ اس معاملے میں جو انجام مغل بادشاہ اکبر کی کوششوں کا ہوچکا ہے، وہی انجام اِن نئے متجدّدین کے لیے بھی مقدر ہے۔
دین میں مسخ و تحریف کی کوئی تدبیر اگر طاقت کے بل پر زبردستی نافذ کر بھی دی جائے، تواسے مسلمانوں کے اجتماعی ضمیر نے نہ ماضی میں کبھی قبول کیا ہے اور نہ آج قبول کرسکتا ہے۔ اس دین کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ نے لی ہے اور اُس نے ایسے ذرائع بھی پیدا کر دیے ہیں کہ اس کی حفاظت ہوتی رہے:
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَo(الحجر۱۵:۹) ہم نے ہی اس ذکرکو نازل کیا ہے، اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
زمانے کو پیچھے چلاؤ
آخر میں ہم ایک اور بات کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں۔ پوری انسانی تاریخ اس امر پر گواہ ہے کہ ہمیشہ عظیم کارنامے انھی لوگوں نے انجام دیے ہیں، جو حالات کی رُو پر بہنے کے بجاے ان کا مقابلہ کرنے اُٹھے ہیں۔ زندگی پر اَنمٹ نقوش انھوں نے نہیں چھوڑے جو مرغ بادِ نما کی طرح ہوا کے رُخ پر مڑتے اور دوسروں کی نقالی کرتے رہے، بلکہ ان لوگوں نے چھوڑے ہیں جو ہوا کے رُخ سے لڑے ہیں اور زندگی کے دھارے کو موڑ کر رکھ دیا ہے۔ بڑے کام مکھی پر مکھی مارنے والوں نے نہیں کیے، اپنی راہ آپ نکالنے والوں نے کیے ہیں۔ بہادر وہ نہیں ہے جو دوسرے کے مارے ہوئے شکار کو کھاتا ہے۔ بہادر وہ ہے جو اپنا شکار خود کرتا ہے۔ قابلِ تقلید وہ نہیں ہے جو گرگٹ کی طرح صبح و شام رنگ بدلتا ہے، بلکہ وہ ہے جو خود اپنا کوئی رنگ رکھتا ہے اوردنیا کو اپنے رنگ میں رنگ دیتا ہے۔
مسلمان دنیا میں زمانے کے پیچھے چلنے کے لیے پیدا نہیں کیے گئے ہیں، وہ تو پوری انسانیت کی طرف اس لیے بھیجے گئے ہیں کہ جسے اللہ تعالیٰ نیکی کہتا ہے: اس کا حکم دیں، جسے     اللہ تعالیٰ بدی کہتا ہے اسے مٹائیں اور دنیا میں اللہ کی اطاعت کی روش کو عام کردیں۔ وہ دوسروں کے رنگ میں رنگے جانے کے لیے نہیں ہیں، دوسروں کو اپنے رنگ میں رنگنے کے لیے ہیں:
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰) اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
یہ ہے مسلمانوں کا اصل مقام …مگر انھیں ڈالا کس راہ پر جا رہا ہے؟ بقولِ اقبال   ؎
کرسکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت
وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو
درحقیقت، مسلمان کے لیے اس سے بڑی ذلّت کوئی نہیں ہوسکتی کہ وہ اللہ کے پیغام کا امین ہونے کے باوجود، زمانے کو اپنے دین کے مطابق بدلنے کے بجاے خود زمانے کی رُو پر بہنے لگے اور اس کے ساتھ اپنے دین کو بھی مسخ کرنے کی کوشش کرے۔ یہ بزدلوں اور کم نظر لوگوں کا طریقہ ہے۔ یہ ان لوگوں کا طریقہ ہے جنھیں ہوائیں خس و خاشاک کی طرح اُڑائے لیے پھرتی ہیں، جن کی اپنی کوئی جڑ نہیں ہے کہ وہ اس پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہوسکیں۔ یہ مسلمان کا شیوہ نہیں ہے، مسلمان کا شیوہ تو یہ ہے کہ  ع
زمانہ با تو نہ سازد ، تو بازمانہ ستیز

Tariq Ramadan Islam and Modernity – YouTube

https://www.youtube.com/watch?v=n1a7Dcw7M7w

Saturday, November 7, 2009 American Academy of Religion Annual Meeting 

Islam and Modernity | August 7, 2009 | Religion & Ethics NewsWeekly …

Islam and Modernity. August 7, 2009. KATE SEELYE: Here at al Azhar, one of the Muslim world’s oldest and …
Books
  1. Islam and Modernism: By Mufti Taqi Usmani
  2. Books by Fazulr Rahman (modern scholar)
  3. Religion cause Wars?
  4. Tribulation and Discord in Muslim World & Future
  5. Islamic Society & Culture
  6. Women in Islam
  7. Rise & Decline of Muslims   
  8. Caliphate: Redundant or Relevant?
  9. Sectarianism
  10. Learning & Science
  11. Dual Islam  دو اسلام : ڈاکٹر غلام جیلانی برق کی شہرہ آفاق کتاب ……  Are there two Islams, one in theory and one in practice. The Original Message of Allah (Quran) remained a theory and a parallel Islam emerged centuries ago?.. >>>
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
مزید پڑھیں:

Also Related:

~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~

Humanity, Religion, Culture, Science, Peace

A Project of Peace Forum Network: Overall 3 Million visits/hits