Sectarianism in Islam اسلام میں فرقہ واریت – تاویلیں، دلائل اور تجزیہ

ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻧﺎﻡ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺭﮐﮭﺎ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﮨﻢ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺳﻠﻔﯽ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮩﯿﮟ؟
 
ﺍﺱ ﺷﺒﮧ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺍﻣﺎﻡ ﻋﻼﻣﮧ ﻣﺤﻤﺪ ﻧﺎﺻﺮ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺍﻟﺒﺎﻧﯽ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺗﯽ ﺳﮯ ﺩﯾﺎ۔
ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻣﻮﺿﻮﻉ ﭘﺮ ﺁﭖ ﺳﮯ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﮐﯽ ﺗﮭﯽﺟﻮ ﮐﮧ ﮐﯿﺴﭧ ﻣﯿﮟ ﺭﯾﮑﺎﺭﮈ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻋﻨﻮﺍﻥ ﮨﮯ”ﻣﯿﮟ ﺳﻠﻔﯽ ﮨﻮﮞ”۔
ﮨﻢ ﯾﮩﺎﮞ ﭘﺮ ﺍﺱ ﮐﯿﺴﭧ ﮐﮯ ﮐﭽﮫ ﺍﮨﻢ ﺣﺼﮯ ﮐﺎ ﺍﺭﺩﻭ ﺗﺮﺟﻤﮧ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
 
ﺷﯿﺦ ﺍﻟﺒﺎﻧﯽؒ:
 ﺟﺐ ﮐﻮﺋﯽ ﺁﭖ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺮﮮ ﮐﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﻣﺬﮨﺐ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺗﻢ ﮐﯿﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﻭ ﮔﮯ؟
 
ﺳﺎﺋﻞ: ﻣﯿﮟ ﻣﺴﻠﻢ ﮨﻮﮞ۔
 
ﺷﯿﺦ ﺍﻟﺒﺎﻧﯽؒ: ﯾﮧ ﮐﺎﻓﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔
 
ﺳﺎﺋﻞ: ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻧﺎﻡ ﻣﺴﻠﻢ ﺭﮐﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﻧﮯﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺍﺱ ﻓﺮﻣﺎﻥ ﮐﯽ ﺗﻼﻭﺕ ﮐﯽ: ﻫُﻮَ ﺳَﻤَّﺎﻛُﻢُ ﺍﻟْﻤُﺴْﻠِﻤِﻴﻦَ (ﺳﻮﺭﮦ ﺣﺞ۔ 78) ﺍﺳﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﻧﺎﻡ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﮯ۔
 
ﺷﯿﺦ ﺍﻟﺒﺎﻧﯽؒ:
 ﺁﭖ ﮐﺎ ﯾﮧ ﺟﻮﺍﺏ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺻﺤﯿﺢ ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﺐ ﮨﻢ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﮯ ﺍﻭﻝ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺗﮯ، ﻗﺒﻞﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﮧ ﻓﺮﻗﮯ ﺍﭨﮭﺘﮯ، ﮔﺮﻭﮦ ﺑﻨﺪﯾﺎﮞ ﮨﻮﺗﯿﮟ ﺍﻭﺭﭘﮭﯿﻞ ﺟﺎﺗﯽ۔ ﻣﮕﺮ ﺍﺏ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﮨﻢ ﮐﺴﯽ ﺍﯾﺴﮯ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﺟﻮ ﻓﺮﻗﻮﮞ ﺳﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﻮ، ﺟﻦ ﺳﮯﮨﻢ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﭘﺮ ﺍﺧﺘﻼﻑ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺮﯾﮟ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﺬﮨﺐ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟ 
ﺍﺱ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺳﮯ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﻧﮧ ﮨﻮ ﮔﺎ۔ ﻭﮦ ﯾﮩﯽ ﮐﮩﮯ ﮔﺎﮐﮧ ﻭﮦ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮨﮯ۔ ﺷﯿﻌﮧﺭﺍﻓﻀﯽ، ﺧﺎﺭﺟﯽ، ﻧﺼﯿﺮﯼ،ﻋﻠﻮﯼ ﺗﻤﺎﻡ ﮨﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺁﺝ ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺗﻨﺎ ﮐﮩﻨﺎ ﮐﺎﻓﯽ ﻧﮧ ﮨﻮ ﮔﺎ ﮐﮧ “ﻣﯿﮟ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮨﻮﮞ”۔
 
ﺳﺎﺋﻞ: ﺟﺐ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﮯ ( ﮔﻤﺮﺍﮦ ﻓﺮﻗﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯﺁﭖ ﮐﻮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ) ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﻮﮞ ﮔﺎ، ﻣﯿﮟ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮨﻮﮞ ﻗﺮﺁﻥ ﻭ ﺳﻨﺖ ﭘﮧ ﭼﻠﺘﺎ ﮨﻮﮞ۔
 
ﺷﯿﺦ ﺍﻟﺒﺎﻧﯽؒ: ﯾﮧ ﺟﻮﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﻧﺎﮐﺎﻓﯽ ﮨﮯ۔
 
ﺳﺎﺋﻞ: ﮐﯿﻮﮞ؟
 
ﺷﯿﺦ ﺍﻟﺒﺎﻧﯽؒ:
 ﺑﮭﻼ ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﺍﻥ ﻓﺮﻗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﭘﺎﺗﮯ ﮨﻮ ﺟﻮ ﯾﮧ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﻮ ﮐﮧ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺗﻮ ﮨﻮﮞ ﻣﮕﺮﻗﺮﺁﻥ ﻭ ﺳﻨﺖ ﭘﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮞ (ﮨﺮ ﻓﺮﻗﮧ ﯾﮩﯽ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯﮐﮧ ﻭﮦ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮨﮯ، ﻗﺮﺁﻥ ﻭ ﺳﻨﺖ ﭘﺮ ﮨﮯ)۔ 
ﯾﮩﺎﮞ ﭘﮩﻨﭻ ﮐﺮ ﺷﯿﺦ ﻧﮯ ﺗﻔﺼﯿﻞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻗﺮﺁﻥ ﻭ ﺳﻨﺖ ﮐﻮﺳﻠﻒ ﺻﺎﻟﺤﯿﻦ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺑﺘﺎﯾﺎ، ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﮨﻤﯿﺖ ﭘﺮ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮈﺍﻟﯽ۔
 
ﺳﺎﺋﻞ:
 ﺟﺐ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﮯ ( ﯾﻌﻨﯽ ﮨﺮ ﻓﺮﻗﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﮩﺘﺎ ﺍﻭﺭ ﻗﺮﺁﻥ ﻭ ﺣﺪﯾﺚ ﭘﺮ ﭼﻠﻨﮯ ﮐﺎ ﺩﻋﻮﯼ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ) ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﮐﮩﻮﮞ ﮔﺎ ” ﻣﯿﮟ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥﮨﻮﮞ، ﺳﻠﻒ ﺻﺎﻟﺤﯿﻦ ﮐﯽ ﺳﻤﺠﮫ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﻗﺮﺁﻥ ﻭﺳﻨﺖ ﭘﺮ ﭼﻠﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﻮﮞ”۔
 
ﺷﯿﺦ ﺍﻟﺒﺎﻧﯽؒ: 
ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺁﭖ ﺳﮯ ﺁﭖ ﮐﮯ ﻣﺬﮨﺐ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﺮﮮ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﺁﭖ ﯾﮩﯽ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ؟
 
ﺳﺎﺋﻞ: ﺟﯽ ﮨﺎﮞ
 
ﺷﯿﺦ ﺍﻟﺒﺎﻧﯽؒ :
 ﺁﭖ ﮐﯽ ﺭﺍﺋﮯ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﺍﮔﺮ ﮨﻢ ﺍﺱ ﻟﻤﺒﮯ ﻓﻘﺮﮦ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﭨﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﮟ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﻭﮨﯽ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺗﮭﻮﮌﮮ ﮨﻮﮞ ﻣﮕﺮ ﺑﻮﻟﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﮯ ﻣﻘﺼﺪ ﮐﻮ ﻇﺎﮨﺮ ﮐﺮﯾﮟ۔ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﮨﻢ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ” ﺳﻠﻔﯽ “
 
( ﺍﺱ ﺷﺒﮧ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﯾﮩﺎﮞ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺍ )

Link Reference:  An Unofficial Page For Jamia Imam Bukhari Kishanganj, Bihar, INDIA.

……………………………………………………………………………

 

تبصرہ : افسوس اور حیرت کا مقام ہے کہ فرقہ واریت کے خلاف واضح قرانی آیات کو نظرانداز کر کہ ایک آیت کو out of of context , فرقہ واریت کی دلیل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے- اس کے علاوہ یہ دلیل کہ “جماعت مسلمین” بھی قرآن میں نہیں- اگر کوئی دوسرا گروپ فرقہ بازی کر رہا ہے تو کے ان کا غلط اقدام مزید غلطی کا جواز بن سکتا ہے ؟ مسلمان صرف قرآن و سنت کا پابند ہے :
 رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ ﴿١٢٦ سورة الأعراف
 اے رب، ہم پر صبر کا فیضان کر اور ہمیں دنیا سے اٹھا تو اِس حال میں کہ ہم مسلمان  ہوں” (7:126) 
 
ف ر ق ، روٹ قرآن میں ٧٢ مرتبہ ١٤ ماخوز طریقوں سے استعمال ہوا ہے – کسی عربی لفظ کے استعمال context کے لحاظ سے مختلف معنی ہو سکتے ہیں- تفصیل ملاحظہ کریں :
The triliteral root fā rā qāf (ف ر ق) occurs 72 times in the Quran, in 14 derived forms:
  • five times as the form I verb faraq (فَرَقْ)
  • nine times as the form II verb farraqu (فَرَّقُ)
  • once as the form III verb fāriqu (فَارِقُ)
  • eight times as the form V verb tafarraqa (تَفَرَّقَ)
  • once as the noun fir’q (فِرْق)
  • once as the noun farq (فَرْق)
  • seven times as the noun fur’qān (فُرْقَان)
  • once as the noun fir’qat (فِرْقَة)
  • 33 times as the noun farīq (فَرِيق)
  • once as the active participle fāriqāt (فَٰرِقَٰت)
  • once as the form II verbal noun tafrīq (تَفْرِيق)
  • twice as the form III verbal noun firāq (فِرَاق)
  • once as the form V active participle mutafarriqūn (مُّتَفَرِّقُون)
  • once as the form V active participle mutafarriqat (مُّتَفَرِّقَة)
The translations below are brief glosses intended as a guide to meaning. An Arabic word may have a range of meanings depending on context.
…………………………………..

 

قرآن کے بنیادی احکام ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری وصیتیں، فرقہ بازی کی ممانعت: http://salaamforum.blogspot.com/2016/10/fundamentals-commandments-of-islam-for.html

……………………………….

تبصرہ :
 
اگر گستاخی معاف فرمایئں تو عرض ہے کہ جب الله نے دین کا نام   اسلام اور اس پر عمل کرنے والے کو مسلمان  کہا ، اس کے پیغمبر ،  ﺭﺳﻮﻝﷺ اور صحابہ اکرام اور سلف نے بھی یہی کیا تو اب کیا یہ بدعت نہ ہوگی کہ ایک نیا نام رکھ لیا جایے؟
بدعت کی مشهور تعریف جس کو آپ نہیں مانتے :
 ابنِ حجر عسقلانی، بدعت کی لُغوی تعریف یوں کرتے ہیں :
البدعة أصلها : ما أحدث علی غير مثال سابق.
’’بدعت کی اصل یہ ہے کہ اسے بغیر کسی سابقہ نمونہ کے ایجاد کیا گیا ہو۔‘‘ ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 4 : 253
ہر وہ نئی چیز، جو شریعت کے کسی اصول کے خلاف جا رہی ہو، وہ بدعت کے زمرے میں آتی ہے۔ رسول اکرم ﷺ کی حدیث ہے کہ ہر وہ عمل، جو کسی سنت کو ختم کر دے، وہ بدعت (سنتِ سئیہ) کے زمرے میں آجائے گا۔
ما احدث قوم بذعۃ ال رفع مثلھا من السنۃجب کوئی قوم بدعت ایجاد کرتی ہے تو اسی کی مثل سنت ختم ہو جاتی ہے۔ (مشکوۃ، ص ۳۱)
” دین میں وہ نیا عمل جو شرعیت (قرآن و سنت) کے خلاف ہو بدعت (سنتِ سئیہ) کے زمرے میں آجائے گا۔ 
مگر قرآن کے احکام واضح ہیں کہ فرقہ واریت منع ہے، اس کی اجازت کسی تاویل سے دینا قرآن کی مخالفت ہے-

 یہ فرمان کہ آج کے دور میں سب لوگ سب فرقے اپنے آپ کو قرآن و سنت پر عمل کرنے والا کہتے ہیں مگر آپ کے خیال میں ایسا نہیں تو فرق واضح کرنے کے لینے سلفی یا کچھ اور کہنا (دیوبندی ، بریلوی ، شیعہ، سنی ، وغیرہ وغیرہ ) کہنا ضروری ہوا – سبحان الله ! دوسرے لوگ آپ کے متعلق بھی ایسی رائے رکھ سکتے ہیں ؟  یہ فرقہ واریت کو فروغ دینے کا زریعہ ہے – کون قرآن و سنت پر عمل کر رہا ہے اور کون نہیں اس کا فیصلہ کا حق صرف الله کے پاس ہے – معاملہ الله پر چھوڑ دیں ، اپنا جج خود نہ بنیں : الله فرماتا ہے :
 
 إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ ۚ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّـهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ( ١٥٩ سورة الأنعام)
 
ترجمہ : “جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہ گروہ بن گئے یقیناً ان سے تمہارا کچھ واسطہ نہیں، ان کا معاملہ تو اللہ کے سپرد ہے، وہی ان کو بتائے گا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا ہے-
 
لہٰذا ہم سب کو اپنے آپ کو صرف مسلمان کہنا ہے ، الله اور ﺭﺳﻮﻝﷺ کا حکم ماننا ہے کسی دوسرے کا نہیں ، ہم کو اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ کوئی دوسرا کیا کہتا ہے کرتا ہے ، وہ ٹھیک ہے یا میں غلط؟ 

الله شرک کو پسند نہیں کرتا ، الله کی جگہ جج بننا شرک نہیں تو کیا ہے؟ 
جب کہ الله نے حکم دیا ہے کہ :
” ان کا معاملہ تو اللہ کے سپرد ہے، وہی ان کو بتائے گا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا ہے-” 
 
آیے فرض کریں کہ ہم سب اپنے آپ کو الله کے حکم کے مطابق صرف “” مسلمان ” کہ رھے ہوتے ، فقہی اختلافات کے باوجود تو کیا ہمارے اسلام یا مسلمان ہونے میں کوئی فرق پڑتا ؟
 اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ ٹھیک ہے اور آپ غلط تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ 
 
الله کو معلوم ہے کون ٹھیک ہے کون غلط – کیا ہم کو آخرت اور الله پر ایمان اتنا کمزور ہے کہ ہم اپنے حق پر ہونے کا لیبل لگانا ضروی سمجھتے ہیں؟
 
وہ لیبل جو قرآن کے حکم کے خلاف ہے ، الله ہم کو معاف فرمایے –
 
یہ لیبل صرف دنیا داری کے خود ساختہ تقاضے ہیں جو فرقہ واریت کی بنیاد ہیں- 
 
صحابہ اکرام میں بھی فقہی اختلاف ہوتا تھا مگر انہوں نے ایسے فرقہ وارانہ لیبل، غلط بدعت ایجاد نہ کییں-  سورة النور,24:31 کی تفسیر پر حضرت عبدللہ بن عبّاس رضی اللہ عنہ  اور حضرت عبدللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ  میں اختلاف ہے کہ عورت چہرہ کھلا رکھے یا کوور کرے ، بہت بنیادی اختلاف ہے مگر کیا انہوں نہے عباسی اور مسعودی فرقے بنا لیے؟ تاکہ معلوم ہو کون صحیح قرآن و سنت پر عمل کر رہا ہے اور کون نہیں؟
 
مشھور چار 4 سنی کہلانے والے مذھب اپنے آپ کو صرف سنی کہتے ہوں شافی، حنفی ، ملکی ، ہمبلی بھی کہتے ہیں مگر ایک دوسرے کو کفر یا گمراہی پر نہیں کہتے – اس مثال سے بہت سبق حاصل کیا جا سکتا ہے ، مگر پھر بہت دوکانیں بند ہو جائیں گی – 
یہودیوں اور عیسایوں  کے علماء آیات کو گھما پھرا کر اپنا مطلب نکلتے تھے:
” یہ اُن کا اپنے عہد کو توڑ ڈالنا تھا جس کی وجہ سے ہم نے ان کو اپنی رحمت سے دور پھینک دیا اور ان کے دل سخت کر دیے اب ان کا حال یہ ہے کہ الفاظ کا الٹ پھیر کر کے بات کو کہیں سے کہیں لے جاتے ہیں، جو تعلیم انہیں دی گئی تھی اُس کا بڑا حصہ بھول چکے ہیں، اور آئے دن تمہیں ان کی کسی نہ کسی خیانت کا پتہ چلتا رہتا ہے ان میں سے بہت کم لوگ اس عیب سے بچے ہوئے ہیں” (5:13قرآن )  (2:159,174)
انہوں نے تاویلیں گھڑھ کر سبت کا قانون توڑا تھا، ان کا انجام دردناک ہوا:
“پھر تمہیں اپنی قوم کے اُن لوگوں کا قصہ تو معلوم ہی ہے جنہوں نے سبت کا قانون توڑا تھا ہم نے انہیں کہہ دیا کہ بندر بن جاؤ اور اس حال میں رہو کہ ہر طرف سے تم پر دھتکار پھٹکار پڑے” (2:65قرآن)
جب تک علماء قرآن و سنت کے مطابق چلیں تو ان کی بات مانیں، جب وہ واضح طور پر قرآن و سنت کے خلاف بات کریں تو رد کریں- آیے فیصلہ کر لیں کہ الله کا حکم ماننا ہے یا کسی شیخ ، امام  کا ؟
 
 اپنے آپ کو صرف “مسلمان” کہیں ، ہاتھ باندھ کر یا چھوڑ کرنماز پڑھیں، ‘امین’ بلند آواز سے یا اہستہ کہیں جو آپ سمجھتے ہیں قرآن و سنت سے ثابت ہے اس پر عمل کریں مگر  یہ نقلی لیبل جن کی قرآن و سنت سے دلیل نہیں بلکہ قرآن و سنت کے خلاف ہیں ان کو پھینک ڈالو کوڑے دان میں … مسلمان صرف الله، اور  ﺭﺳﻮﻝﷺ کے حکم پر چلتا ہے:
 
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ ﴿١٠٢﴾ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّـهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّـهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ﴿١٠٣﴾ وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۚ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿١٠٤﴾ وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ ۚ وَأُولَـٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴿١٠٥﴾ 
سورة آل عمران
 اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے اتنا ڈرو جتنا اس سے ڈرنا چاہئیے اور دیکھو مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا (102) اللہ تعالیٰ کی رسی کو سب مل کر مضبوط تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو، اور اللہ تعالیٰ کی اس وقت کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی، پس تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پہنچ چکے تھے تو اس نے تمہیں بچا لیا۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح تمہارے لئے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ (103) تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جو بھلائی کی طرف بلائے اور نیک کاموں کا حکم کرے اور برے کاموں سے روکے، اور یہی لوگ فلاح ونجات پانے والے ہیں (104) تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے اپنے پاس روشن دلیلیں آ جانے کے بعد بھی تفرقہ ڈاﻻ، اور اختلاف کیا، انہیں لوگوں کے لئے بڑا عذاب ہے (3:105)
واللہ اعلم 
 
هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَـٰذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ ۚ  ( سورة الحج22:78)
اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام “مسلم” رکھا تھا اور اِس (قرآن) میں بھی (تمہارا یہی نام ہے) تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ –
 رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ ﴿١٢٦ سورة الأعراف
 اے رب، ہم پر صبر کا فیضان کر اور ہمیں دنیا سے اٹھا تو اِس حال میں کہ ہم مسلمان  ہوں” (7:126)
 
 الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ  (سورة المائدة 5:3)
 
آج میں نے تمہارے لئے دین کو مکمل کر دیا ہے۔ اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لئے دین کی حیثیت سے اسلام کو پسند کر لیا ہے (سورة المائدة 5:3)
……Next Page
Pages ( 2 of 7 ): « Previous1 2 34567Next »