Sectarianism in Islam اسلام میں فرقہ واریت – تاویلیں، دلائل اور تجزیہ

 
مولانا ابوالحسن علی ندوی کا اقتباس
 
ان غیر معمولی علمی و ذہنی کمالات اور مسلّم اخلاص و تدیّن کے ساتھ ایک سلیم الطبع انسان کے دل میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کے معاصرین اور بعض متاخرین نے کیوں اس شدت سے ان کی مخالفت کی، اور ان کی ذات ان کے زمانہ سے لے کر اس وقت تک کیوں موضوعِ بحث بنی ہوئی ہے؟ ایسے جامع کمالات کے انسان کی عظمت و قبولیت پر تو سب کا اتفاق ہونا چاہیے! یہ سوال حق بجانب ہے، اور اس کا مستحق ہے کہ ان کی سیرت اور ان کی معاصر تاریخ کی روشنی میں سنجیدگی سے اس کا جواب دیا جائے۔
 
۱۔ اولاً تو یہی ان کی عظمت کی دلیل ہے کہ ان کی ذات کے بارے میں شروع سے دو فریق بنے ہوئے ہیں، اور ان میں حریفانہ کشمکش جاری ہے، تاریخ میں جو شخصیتیں بہت ممتاز، غیر معمولی اور خارق عادت کمالات کی حامل ہیں، ان کے بارے میں ہمیشہ سے یہی طرزِ عمل رہا ہے کہ ایک گروہ ان کے معتقدین کا بن گیا ہے، جو ان کی تعریف میں غلو اور مبالغہ سے کام لیتا ہے، دوسرا گروہ ناقدین و مخالفین کا ہے، جو ان کی تنقید بلکہ تنقیص میں انتہا پسند اور غالی نظر آتا ہے، عظیم الشان اور غیر معمولی شخصیتوں کے بارے میں تاریخ کا یہ ایک ایسا مسلسل اور متواتر تجربہ ہے کہ بعض فلاسفہ تاریخ اور نفسیات ”عظمت و عبقریت“ کے مبصرین نے اس کو قاعدہ کلیہ اور شرط عظمت و عبقریت قرار دیا ہے۔
 
۲۔ ابن تیمیہ کی ذات میں ان کے معاصرین کے لیے سب سے بڑا ابتلاءاور امتحان یہ تھا کہ وہ اس زمانہ اور اس نسل کی عام ذہنی و علمی سطح سے بلند تھے، اپنے زمانہ کی سطح سے بلند ہونا ایک نعمتِ خداداد اور ایک قابلِ رشک کمال ہے، مگر اس کمال کی صاحبِ کمال کو بہت بڑی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے، وہ صاحبِ کمال اپنے معاصرین کی طرف سے ایک مسلسل ابتلاءاور آزمائش میں رہتا ہے، اور وہ معاصرین اس صاحبِ کمال سے زندگی بھر ایک مصیبت اور زحمت میں مبتلا رہتے ہیں، وہ اس کی تازگی فکر، بلندی نظر، قوتِ اجتہاد کا ساتھ نہیں دے سکتے، اور اس کے آفاقِ علم و فکر تک ان کی رسائی نہیں ہوتی، اور وہ ان کے معین و محدود اصطلاحات اور مدرسی حدود میں مقید نہیں رہ سکتا، وہ علم و نظر کی آزاد فضاﺅں اور قرآن و حدیث کے بلند اور وسیع آفاق میں آزادانہ پرواز کرتا ہے، ان کا مبلغ علم متقدمین اور اہلِ درس کی کتابوں کا سمجھ لینا ہوتا ہے، وہ واضح علوم اور بہت سے فنون کا مجتہد و مجدد ہوتا ہے، غرض مدارک اور استعدادوں کا یہ تفاوت اس کے اور اس کے مخلص معاصرین کے درمیان ایسی کشمکش پیدا کردیتا ہے کہ یہ گتھی کبھی سلجھتی نہیں، اور وہ کبھی اپنے معاصرین کو مطمئن نہیں کرسکتا، ہر زمانہ کے صاحبِ کمال اور مجتہد الفن علما نے اس کی شکایت کی ہے کہ ان کی تحقیقات اور علوم و مضامین ان کے زمانہ کی علمی و نصابی سطح سے بلند اور ان اہلِ علم کی دسترس سے باہر ہیں، جن کی پروازِ فکر متداول کتابوں سے آگے نہیں، اور یہی بہت سے اہلِ علم کی مخالفت کا سبب اور محرک ہے۔
 
۳۔ مخالفین کا ایک گروہ اس بنا پر مخالف تھا کہ وہ اپنی غیر معمولی ذہانت و علم، اپنی شخصیت کی دلآویزی اور بلندی کی وجہ سے عوام و خواص میں مقبول اور حکومت کے اشخاص پر حاوی ہوتے جارہے ہیں، اور ان کے علم و تقریر کے سامنے کسی کا چراغ نہیں جلتا، وہ جہاں رہتے ہیں، سب پر چھاجاتے ہیں، درس دیتے ہیں تو درس کی دوسری محفلیں بے رونق ہوجاتی ہیں، تقریر کرتے ہیں تو علم کا دریا امنڈتا نظر آتا ہے، ذہبی نے اس معنی خیز فقرہ میں دلوں کی چھپی ہوئی بات کو آشکارا کردیا ہے: غیر انه یغترف من بحر و غیرہ من الائمة یغترفون من السواقی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ تو سمندر سے پانی لیتے ہیں، اور دوسرے اکابر علما چھوٹی چھوٹی نہروں اور نالیوں سے پانی لیتے ہیں۔
 
ہر زمانہ کے علما بہرحال بشر تھے، اور انسانوں ہی کا دل و دماغ اور انسانی احساسات رکھتے تھے، اس لیے کوئی تعجب کی بات نہیں کہ بہت سے لوگوں کے لیے ان کی مخالفت کا موجب یہی احساس کمتری اور انسانی طبیعت کی قدیم کمزوری تھی، جس سے بچنا بڑا مشکل کام ہے، امام ابوحنیفہؒ سے شدید اختلاف و عناد رکھنے کے اسباب کا ذکر کرتے ہوئے مورخین نے یہ شعر لکھا ہے جو ہر زمانہ پر صادق ہے: حسدو الفتی اذ لم ینالو لواسعیه فالناس اعداء له و خصوم۔
 
۴۔ بہت سے معاصرین کی مخالفت کا ایک قدرتی سبب شیخ الاسلام کی ایک مزاجی خصوصیت بھی تھی، جو بہت سے ان اہلِ کمال میں ہوتی ہے جو غیر معمولی طور پر ذہین، وسیع النظر اور کثیر المعلومات ہوتے ہیں، یعنی طبیعت کی تیزی اور ذکاوتِ حس، جو بعض اوقات ان کو اپنے بعض حریفوں کی سخت تنقید اور ان کے جہل اور غباوت اور قلتِ علم کے اظہار پر آمادہ کردیتی ہے، اور شدتِ تاثر میں ان کی زبان سے بعض ایسے الفاظ نکل جاتے ہیں جس سے ان کے اہلِ علم معاصرین اور ان کے معتقدین و تلامذہ کی دل شکنی اور تحقیر ہوتی ہے، اور ان کے دل میں مستقل نفرت و عناد کے بیج پڑجاتے ہیں، جو علمی و فقہی اصطلاحات، کفر و ضلال کے فتوے اور مسلسل مخالفتوں اور ریشہ دوانیوں کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں۔
 
۵۔ مخالفت کا ایک سبب ان کی بعض وہ تحقیقات اور ترجیحات ہیں، جن میں وہ متفرد اور مذاہب مشہورہ اور ائمہ اربعہ سے بھی بعض اوقات الگ نظر آتے ہیں، جن لوگوں کی فقہ و خلاف کی تاریخ اور ائمہ و مجتہدین کے اقوال و مسائل پر وسیع نظر ہے ان کے لیے تو یہ ”تفردات“ کوئی وحشت کی چیز اور ابن تیمیہ کے فضل و کمال کے انکار کا موجب نہیں، وہ جانتے ہیں کہ اگر ائمہ مشہورین اور اولیاے مقبولین کے تفردات اور مسائلِ غریبہ جمع کردیے جائیں تو یہ تفردات بہت ہلکے اور معمولی نظر آنے لگیں، اور ان لوگوں کا حسنِ اعتقاد جو ”تفرد“ کو مقبولیت اور حقانیت کے منافی سمجھتے ہیں، اور ان کے لیے عظمت و ولایت کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ اس کا کوئی قول اور کوئی تحقیق مشہور تحقیقات کے خلاف نہ ہو،متزلزل میں پڑجائے گا۔
 
۶۔ان کی مخالفت کا ایک قوی سبب یہ تھاکہ انھوں نے اس طرز کلام اور صفات و متشابہات کی تاویل کے اس طریقہ کی مخالفت کی جو ’عقیدہ اشعریہ “بلکہ عقیدہ اہل سنت کے نام سے موسوم تھا ….اس وقت تمام عالمِ اسلام پر اشعری العقیدہ علما و متکلمین کا اثر تھا، امام ابن تیمیہؒ کا یہ اختلاف جو خالص علمی بنیادوں پر تھا، ایک بدعت اور ”یتبع غیر سبیل المومنین“ کا مترادف سمجھا گیا۔….
 
۷۔ مخالفت کا ایک سبب شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کی مخالفت ہے، بہت سے لوگوں کے نزدیک خصوصاً جو تصوف کا مذاق رکھتے ہیں، ابن تیمیہ کا یہ جرم ناقابلِ معافی ہے، اور ان کے تمام محاسن و کمالات پر پانی پھیر دیتا ہے کہ انھوں نے شیخِ اکبر کے مشہور آراءو تحقیقات اور ان کے مسلک وحدة الوجود کی پرزور تردید کی ہے، اور وہ ان کے مخالفین میں سے ہیں۔….
 
۸۔ ایک گروہ کو ان کی طرف سے شدید غلط فہمیاں اور مغالطے تھے۔ بعض غیر محتاط و متعصب مصنفین نے ان کی طرف ایسے اقوال کی نسبت کی تھی، جو عام عقیدہ اہلِ سنت اور جمہور کے مسلک کے مطابق موجبِ کفر ہیں، اور بعض ایسے اقوال ان کی طرف منسوب کیے گئے جن سے مقامِ رسالت میں سوئِ ادب اور تنقیص کا پہلو نکلتا ہے۔ (اعاذنا اللہ و جمیع المسلمین منہ) یہ معاملہ تنہا ابن تیمیہ کے ساتھ نہیں کیا گیا، دوسرے اکابر امت بھی معاندین کی اس سازش کا شکار ہوئے ہیں، ان کی طرف نہ صرف ان اقوال و عقائد کی نسبت کی گئی، جن سے وہ بالکل بری تھے، بلکہ ان کی کتابوں میں ایسے مضامین شامل کیے گئے جو موجبِ کفر و ضلال تھے، ایک قدم اس سے بڑھ کر مستقل کتابیں (جو کفریہ اقوال پر مشتمل تھیں) تصنیف کرکے ان کی طرف منسوب کردی گئیں، اور ان کی وسیع پیمانے پر اشاعت کی گئی۔[6]
 
6۔اسلاف کا طریقہ
 
یہ گفتگو اب خاتمہ پر ہے، مگر ضروری محسوس ہوتا ہے کہ اس موقع پر یہ بیان کردیا جائے کہ اختلافات کے معاملے میں اسلاف کا رویہ کیا تھا۔  ہمارے ہاں اسلاف کا نام بہت لیا جاتا ہے۔ بلکہ مشاہدہ یہ ہے کہ کسی اختلافی مسئلے میں دوسروں کو مطعون کرنے کے لیے اسلاف سے اختلاف ہی کے نام کو استعمال کیا جاتا ہے ۔مگر اختلاف رائے پیش آنے کی صورت میں خود اسلاف کا رویہ کیا تھا، یہ کم ہی بیان کیا جاتا ہے۔
 
ہمارے نزدیک اس سلسلے کی سب سے پہلی اور بنیادی بات اس حقیقت کو سمجھنا ہے کہ اسلاف اپنے کسی کام کو حرف آخر نہیں کہا کرتے تھے۔نہ انہوں نے کبھی لوگوں کو اس بات سے منع کیا کہ وہ دلیل کی بنیاد پر ا ن سے اختلاف نہ کریں۔اس کو سادہ ترین مثال سے یوں سمجھیں کہ اگر ہمارے اسلاف کا یہ طریقہ ہوتا تو امام ابوحنیفہ ؒکے بعد فقہ میں کوئی کام نہیں ہوسکتانہ امام بخاری ؒکے بعد حدیث کی کوئی کتاب مرتب کی جاسکتی ہے۔امام ابو حنیفہ کے بعد اگر کوئی کام ہوا تو ظاہرہے کہ اس کا ایک بڑا حصہ ان دیگر ائمہ فقہ کا ہے جو ان سے قدرے مختلف اصول رکھتے تھے۔ یہی معاملہ علم حدیث کا ہے جہاں دیگر محدثین کا زاویہ نظر اور قبولیت حدیث کا معیار اما م بخاری سے مختلف تھا۔ یہ اختلاف نہ ہوتا تو حدیث اور فقہ کا ہمارا ذخیرہ بہت محدود ہوتا۔ یہی معاملہ دیگر علوم کا ہے۔ مگر اس اختلاف کی برکت سے ہمارا علم وسیع ہوگیا۔
 
ائمہ فن میں اس اختلاف کا سادہ سبب یہ تھا کہ یہ اپنے کام کو ایک علمی کام سمجھتے تھے ، کبھی حق قرار نہیں دیتے تھے۔ اس معاملے میں امام شافعی کے اس قول کو حرف آخر کی حیثیت حاصل ہے: رای صواب یحتمل الخطاورای غیری خطا یحتمل الصواب۔ یعنی میری رائے درست ہے گرچہ غلطی کا امکا ن رکھتی ہے اور دوسرے شخص کی بات غلط ہے گرچہ اس کے درست ہونے کا احتمال ہے۔
 
یہاں یہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ بعض اوقات مسئلہ صحیح اور غلط کا ہوتا ہی نہیں۔ایک ہی معاملے کو دیکھنے کے ایک سے زیادہ زاویے ہوسکتے ہیں۔بعض اوقات معروضی حالات کی بنا پر ایک بات زیادہ درست ہوسکتی ہے اور دوسرے حالات میں دوسری رائے زیادہ قابل عمل ہوجاتی ہے۔بعض اوقات تحقیق، علم اور استعداد نتائج فکر میں فرق پیدا کردیتے ہیں۔ بعض اوقات اہل علم کا مزاج اور افتاد طبع بھی رائے کے فرق کا سبب بن جاتا ہے۔ غرض فہم اور تحقیق کی صلاحیت، ذوق اور طبیعت، زاویہ نظرو فکر، علم و استعدا د اور خارجی حالات مل کررائے کے اختلاف کا سبب بن جاتے ہیں۔شاگرد استاد سے اختلاف کردیتا ہے اور اگلے والے پچھلے والوں کے برعکس ایک رائے قائم کرلیتے ہیں۔
 
ہمارے اسلاف ان ساری چیزوں کو سمجھتے تھے اور اسی بنیاد پر دوسروں سے اختلاف کرتے اوردوسروں کو اختلاف کرنے کی اجازت دیتے تھے۔بڑے صاحبان علم نے اس میں کبھی توحش اور پریشانی کی بات نہیں سمجھی۔کیونکہ یہ سارا اختلاف فروع میں ہورہا ہوتا ہے اصول میںنہیں۔ اس میں ابتدائی صدیوں کی بھی کوئی قید نہیں۔ امام ابن تیمیہ کی مثال اوپر گزری ہے جو قرون اولیٰ کے بہت بعد پیدا ہونے والے بہت بڑے عالم ہیں۔جیسا کہ مولانا ندوی نے اوپر فرمایا کہ انہوں بہت سے معاملات میں اگلوں سے اختلاف کیا اوربڑے ائمہ کے برعکس اپنی ایک منفرد رائے قائم کی۔ اور آج بھی ان کی آرا ءکو ماننے والے بھی کم نہیں ہیں۔
 
چنانچہ آج بھی جتنے مسائل ہیں وہ دراصل اسلاف کے اس اصول کو چھوڑ دینے کا نتیجہ ہے جس کے تحت ہمارے ائمہ اور اسلاف نہ صرف اختلا ف کرنے کی اجازت دیتے رہے بلکہ اپنی غلطی کا امکان بھی ہمیشہ تسلیم کرتے رہے۔ جیسا کہ امام شافعی نے فرمایا: رای صواب یحتمل الخطاورای غیری خطا یحتمل الصواب۔ ’’یعنی میری رائے درست ہے گرچہ غلطی کا امکا ن رکھتی ہے اور دوسرے شخص کی بات غلط ہے گرچہ اس کے درست ہونے کا احتمال ہے۔‘‘
 
7۔جھوٹے پروپیگنڈے کو بلا تحقیق پھیلانا
 
ان تمام وجوہات کے ساتھ کچھ اور اخلاقی کمزوریاں بھی اس گروہی تعصب اور فرقہ واریت میں اضافہ کا سبب بن جاتی ہیں۔ہوتا یہ ہے کہ الزام وبہتان تراشنے والا کوئی ایک شخص ہوتا ہے، مگر باقی لوگ کارثواب سمجھ کر اس کو پھیلانے لگتے ہیں۔اوپر واقعہ افک کی جو تفصیلات بیان ہوئیں ان کے بعد اللہ تعالیٰ نے سیدہ عائشہ کی جو براءت سورہ نور(24)آیت 11 تا 18 میں نازل کی اس میں تمام کمزوریو ں کی طرف خصوصیت کے ساتھ توجہ دلائی گئی جو معاشرے میں الزام و بہتان کی سوچ عام کرتی ہیں۔ یہ درج ذیل ہیں۔
 
۱۔ مسلمانوں کو ایک دوسرے کے متعلق نیک ہی گمان کرنے چاہیے ۔کیونکہ الزام و بہتان کی کسی مہم میں ایک طرف مہم جوئی کرنے والے لوگ ہوتے ہیں اور دوسری طرف اس مہم کا نشانہ بننے والا شخص۔ ایسے میں عام لوگوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ ہمیشہ حسن ظن سے کام لیں۔وہ ایسی کسی بات کو سنتے ہی کہہ دیں کہ یہ بہتان ہے اور ہمیں حق نہیں کہ ہم ایسی کوئی بات زبان پر لائیں۔ اس کے برعکس بغیر علم و تحقیق کے اس بات کو آگے پھیلانا، خود ایک منفی رائے قائم کرنا، دوسروں کی رائے سازی کرنا ایک بہت بڑی بات اوراللہ کے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ حدیث مبارکہ میں اس عمل کو جھوٹ کہا گیا ہے۔ارشاد نبوی ہے: ’’کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بیان کرنے لگے۔‘‘ یہ روایت امام مسلم اپنے صحیح کے مقدمے میں لائے ہیں اور دیگر محدثین مثلاً امام البانی نے اس کو صحیح کہا ہے۔[7]اسی مفہوم کی ایک صحیح روایت یہ ہے کہ کسی شخص کے گنہ گارہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بیان کرنے لگے۔[8]
 
۲۔ سیدہ کے معاملے میں بہتان تو زنا کا لگایا گیا تھا ، مگر تردید کرتے وقت قرآن مجید نے زنا کا لفظ استعمال ہی نہیں کیا۔اس کا ایک سبب یہ ہے کہ قرآن مجید الزام و بہتان کے اس رویے پر تنقید کو صرف زنا کے الزام کی حد تک محدود نہیں کرنا چاہتا بلکہ اس کے پیش نظر یہ بات ہے کہ کسی مسلمان پراگر کسی اور پہلو سے بھی کوئی سنگین الزام لگایا جائے، جیسا کہ مذہبی اختلافات میں آج کل مسلمانوں کی نیت اور ان کے ایمان پر براہ راست حملے کرکے انہیں کافر اور گمراہ قرار دیا جاتا ہے، اس رویے کی بھی حوصلہ شکنی کی جائے۔کسی کی عزت پر حملہ کرنا بڑا سنگین جرم ہے، مگر اس کے ایمان اور نیت کو ہدف بنانا اس سے بھی کہیں زیادہ سنگین جرم ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے اس چیز کو سمجھا اور اس کو بیان کیا ہے۔ چنانچہ بخاری و مسلم میں اس مفہوم کی متعدد روایات ہمیں ملتی ہیں جس میں واضح کیاگیا ہے کہ کسی مسلمان کو کافر کہنا خود اپنے کفر کا سبب بن جاتا ہے۔
 
۳۔ جو لوگ اس وقت الزام لگارہے تھے ان سے کہا گیا کہ وہ چار گواہ لے کر آئیں۔یہ بات عقل عام سے سمجھی جاسکتی ہے کہ زنا چھپ کر کیا جاتا ہے چار لوگوں کے سامنے نہیں۔چنانچہ بہت سے لوگ اس بنا پر قرآن کا مذاق بھی اڑاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے شرط ہی وہ رکھی ہے جو کبھی پوری نہیں کی جاسکتی۔ مگردرحقیقت الزام کو ثابت کرنے کے لیے اتنی سخت ترین شرط لگانے کا مقصد ہی یہی ہے کہ معاشرے میں الزام لگانے کی سوچ کو ختم کیا جاسکے۔ جب تک کہ ناقابل تردید ثبوت میسر نہ ہوں، کسی بھی شخص کے خلاف کسی پہلو سے زبان نہ کھولی جائے۔
 
چار گواہ چونکہ عدالت ہی میں پیش ہوسکتے ہیں جہاں عدالت ہر دو فریق کا فیصلہ اور گواہی طلب کرکے انصاف کے مطابق حکم لگاتی ہے، اس سے عام لوگوں کے لیے مزید یہ ہدایت نکلتی ہے کہ ایسے معاملات میں وہ بھی انصاف سے کام لیں۔انصاف کے لیے شرط ہے کہ دونوں فریقوں کا موقف سنا جائے اور پھر کسی نتیجے پر پہنچا جائے۔ کسی ایک فریق کے یکطرفہ الزامات سن کران الزامات کو آگے بڑھانا ایک بدترین جرم ہے جس کی روز قیامت جواب دہی کرنی ہوگی۔
 
شیطان یا فرشتہ
 
عام لوگوں کے اس طر ح کی چیزوں میں پڑنے کا ایک باعث ہمارے معاشرے کی یہ نفسیاتی کمزوری ہے کہ ہم جب کسی انسا ن کے متعلق رائے قائم کرتے ہیں تو اسے شیطان یا فرشتے میں سے کسی ایک انتہا پر ضرور پہنچادیتے ہیں۔ہم جس عالم سے متاثر ہوجائیں اسے تقدس اور عظمت کے اس مقام پر پہنچادیتے ہیں جہاں ہم برائے بحث یہ تو مان سکتے ہیںکہ ہمارا عالم غلطی کرسکتا ہے، مگر ہمارا پورا یقین ہوتا ہے کہ اس نے کوئی غلطی نہیں کی ہے۔
 
دوسری طرف جس شخص کے خلاف ہمارا عالم اور ہمارا فرقہ محاذ کھول دے، ہمیں یقین ہوجاتا ہے کہ یہ ایک شیطان ہے جس میں کسی خوبی کا پایا جانا ممکن نہیں ہے۔اس کا مکمل بائیکاٹ کرنا، اس کی بات سننے اور پڑھنے سے انکار کردینا، اس کی کسی بھی اچھائی کا اعتراف کرنا ہمارے لیے ناممکن ہوجاتا ہے۔ایسا شخص توحید پر بھی بات کرے گا تو ہم اس میں سے شرک نکالیں گے۔ وہ اسلام اور پیغمبر اسلام کا دفاع کرے گا اور ہم اسے باطل مذاہب کی خدمت تصور کریں گے۔وہ اصلاح کے لیے اٹھے گا اور ہم اسے غیر ملکی طاقتوں کا ایجنٹ قرار دے کر رد کردیں گے۔
 
ہم یہ تصور کرنے کے لیے تیار نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب انسان غلطی کرسکتے ہیں۔ہر کسی میں کمزوری ہوسکتی ہے۔معصوم او رمحفوظ کوئی نہیں۔ اپنے جس عالم کو ہم ہر خطا سے پاک سمجھتے ہیں، وہ ٹھوکر کھاسکتا ہے اور جس کے شیطان ہونے کا ہمیں یقین دلادیا گےا ہے وہ ایک سچا اور مخلص مسلمان ہوسکتا ہے۔یہی وہ چیز ہے جو معاشرے میں نفرت اور انتشار کو بڑھاتی چلی جاتی ہے۔
 
خلاصہ یہ کہ فرقہ واریت اور تعصبات پیدا کرنے والے لوگ اگر الزام وبہتان کا طوفان اٹھاتے ہیں تو اسے پھیلانے کی خدمت اپنی کمزوریوں کی بنا پر عام لوگ سر انجام دیتے ہیں۔ مگریہ سرتا سر قرآن و حدیث کی خلاف ورزی پر مبنی رویہ ہے۔یہ جھوٹ پر مبنی وہ رویہ ہے کہ جو اللہ کے غضب کو دعوت دیتا ہے ۔ اس سے بچنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔
 
 (ابو یحیی، www.inzaar.org )
 
غور فرمائیے!!!
 
۱۔ تعصبات کے جو اسباب مصنف نے بیان کیے ہیں، ان کی فہرست تیار کیجیے اور ان میں تین مزید اسباب کا اضافہ کیجیے۔
 
۲۔ اپنے رویے کا جائزہ لیجیے کہ کیا آپ بھی کسی تعصب کا شکار تو نہیں؟
………………………………………………………….

Next Page ….

Pages ( 5 of 7 ): « Previous1234 5 67Next »