Turkey Turmoil Golen ترکی میں طاقت کی کشمکش اور اسلام

   
Disciples of Bediüzzaman Said Nursi ! stand united against enemies 
View my Flipboard Magazine.ترکی میں اردوان کی فتح کیا ‘سیاسی اسلام ‘کی فتح ہے؟
موجودہ حالات بظاھر صدر اردگان اور فتح اللہ گولن کے درمیان سیاسی قوت کی رسہ کشی کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو عظیم ترک اسلامی اسکالر بدیع الزمان سعید نورسی کے ان دونوں پیرو کاروں کے اصل مقصد کے حصول کے لیے نقصان دہ ہے- اسلام دشمن قوتیں مغرب کی مدد سے اس نفاق کا فایدہ اٹھا کر ترکی کو اپنے تسلط میں جکڑنا چاہتے ہیں-  
ترکی میں اردوان کی فتح کیا ‘سیاسی اسلام ‘کی فتح ہے؟
یہ سوال اس وقت عالمی سطح پر زیرِ بحث ہے۔ ہمارے لیے بھی یہ سوال اہم ہے۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ بعض اسلامی تحریکیں ‘بعد ازسیاسی اسلام‘ (Post Islamism) کے عہد میں داخل ہو گئی ہیں تو ترکی میں اردوان صاحب کے حق میں اٹھنے والی اس لہر کو کیا نام دیا جائے؟ پھر جب ان کی تنقید کا رخ فتح اللہ گولن کی طرف ہے، جنہوں نے ترکی سماج کے اسلامی تشخص کو زندہ کرنے کے لیے کم و بیش پچاس سال جدو جہدکی تو یہ سوال مزید اہمیت اختیا رکر لیتا ہے۔ اگر سیکولر جماعتیں فوجی اقدام کی مخالفت میں اردوان کے ساتھ ہیں اور ایک مسلم احیائی تحریک اس سارے معاملے میں ولن ہے تو پھر حقیقتِ واقعہ کیا ہے؟

ترکی کے معاشرے میں، سیاست و مذہب کے باب میں چار طرح کے نظریات موجود رہے۔

(١) ایک ‘کمال ازم‘ ہے جو مذہب پر ریاستی کنٹرول کا علم بردار ہے۔ یہ نظریہ کہتا ہے کہ ‘تبدیلی اوپر سے آتی ہے‘۔ اگر ریاست سماج کے مذہبی معاملات پر اختیار حاصل کر لے تو اجتماعی سوچ کو بدلا جا سکتا ہے۔ مصطفیٰ کمال اسی کے قائل تھے۔ ان کی جماعت پیپلز ریپبلکن پارٹی 1923ء سے1950ء تک ترکی کی حکمران رہی اور یہ کوشش کی کہ ریاست کی قوت سے مذہب کو سیاسی و اجتماعی معاملات سے دیس نکالا دیا جائے۔ اسے سیاسیات کی زبان میں (Laicism) کہا جا تا ہے۔

(٢) دوسرا نظریہ سیکولرزم ہے۔ یہ ریاست پر مذہب کی حاکمیت قبول نہیں کرتا مگر ریاست کو بھی یہ حق نہیں دیتا کہ وہ لوگوں کی مذہبی آزادی کو سلب کرے۔ ترکی کی بعض موجودہ سیاسی جماعتیں اس کی علم بردار ہیں جن میں اردوان صاحب کی ‘اے کے پی‘ کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔

(٣) تیسرا نظریہ ‘سیاسی اسلام‘ ہے۔ یہ ریاستی و سیاسی اداروں کی،اسلامی تعلیمات کی روشنی میں صورت گری کرنا چاہتا ہے۔ نجم الدین کی ملی نظام پارٹی یا رفاہ اس کے علم بردار تھے۔ 

(4) چوتھا نظریہ ‘سماجی اسلام‘(social Islam) ہے۔ یہ اسلام کو ایک روحانی اور تہذیبی روایت کے طور پر قبول کرتا ہے۔ یہ ریاست و سیاست کے معاملات سے لاتعلق رہ کر فرد اور سماج کو ایک نظام ِاقدار کے تابع کرتا ہے جس کی اساس اسلام کی تعلیمات ہیں۔ تصوف کے سلاسل، فتح اللہ گولن کی تحریک اور اس سے پہلے سعید نورسی بھی اسی کے علم بردار تھے۔ 

اوپر سے تبدیلی کا نظریہ، ‘کمال ازم‘ ناکام ہوگیا۔ سماج کے رگ و پے میں دوڑتے اسلام کو دیس نکالا نہیں دیا جا سکا۔ ‘سیاسی اسلام‘ کو مقبولیت ملی اور اس کا ظہور اس وقت ہوا، جب نجم الدین اربکان وزیراعظم بن گئے۔ تاہم یہ مقبولیت اتنی توانا نہیں تھی کہ وہ اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط رکھ سکتے۔ ‘سماجی اسلام‘ سب سے کامیاب رہا۔ آج اسلام ترکی کے تہذیبی وجود کا جزوِ اعظم ہے۔ مساجدِ اورخانقاہیں آباد ہیں۔ 2002ء میں ‘سیاسی اسلام‘ اور ‘سماجی اسلام‘ کا ایک امتزاج وجود میں آیا جس نے جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی) کو جنم دیا۔ اے کے پی کا ظہور ترکی کے کئی تجربات کا حاصل ہے جن میں کمال ازم کی ناکامی، سماجی اور انفرادی سطح پر اسلام کی نمایاں مو جودگی، فری مارکیٹ اکانومی، انطولیہ میں ایک نئے متوسط کاروباری طبقے کا ظہور،گلوبلائزیشن اور اس کے نتیجے میں یورپین یونین میں شمولیت کی خواہش شامل ہیں۔ سب سے بڑھ کر طیب اردوان کی کرشماتی شخصیت تھی جس نے اسے کامیابی دلائی۔
 2002 ء میں اے کے پی کی کامیابی میں فتح اللہ گولن بھی کی حمایت و نصرت بھی شامل رہے۔ اردوان نے ابتدا میں ‘سیاسی اسلام ‘ کی بات کبھی نہیں کی۔ 2003ء میں انہوں نے خود کو ‘قدامت پسند جمہوری‘ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا:
 ”ہماری قدامت پسند جمہوریت خود کو سماج کے رسم و رواج سے وابستہ رکھتی ہے جس کی اساس خاندان کا ادارہ ہے۔۔۔۔ یہ جمہوری مقدمہ ہے، مذہبی نہیں‘‘(فنانشل ٹائمز،3۔ دسمبر2004ئ)۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا:
 ”ایک سیاسی جماعت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، مذہب فرد کا ہوتا ہے۔۔۔۔ مذہب اس سے بالاتر تصور ہے کہ اس کا سیاسی استحصال کیا جائے یا اسے(دنیاوی) فائدے کے لیے استعمال کیا جائے‘‘۔(11۔ مئی 2003ء نیویارک ٹائمز)
ایک رائے یہ رہی ہے کہ اردوان اصلاً سیاسی اسلام ہی کے علم برادر ہیں۔ انہوں نے یہ خیالات، نظریہ ضرورت کے تحت اختیار کیے۔ انہیں جب مو قع ملا، ان کے اندر کا ‘سیاسی اسلام‘ ظہورکرے گا۔ مغرب کے حلقے اکثر اس خدشے کا اظہار کرتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ‘انٹرنیشنل نیورک ٹائمز‘ نے 19جولائی کو اردوان کی کامیابی کو سیاسی اسلام کی فتح قرار دیا ہے۔ 
یہ محض اندیشہ ہے۔ اردوان کو اگر ‘سیاسی اسلام‘ ہی کی طرف جانا تھا تو نجم الدین اربکان کی پارٹی سے راستے جدا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟
 وہ اسرائیل سے تعلقات کو ایک بار بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہیں اور یورپی یونین میں بھی شامل ہونا چاہتے ہیں۔ تاہم حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے کہ وہ کبھی کبھی خلافتِ عثمانیہ کے احیاء کے علم برادر بھی دکھائی دیتے ہیں۔

فتح اللہ گولن کے ساتھ ان کے تعلقات میں جو خرابی آئی، وہ البتہ معنی خیز ہے۔ بظاہر یہ شخصیات کا تصادم ہے جو حصولِ اقتدارکی دوڑ میں غیر متوقع نہیں۔ توکیاایک صوفی منش آ دمی، اردوان کا حریف ہے؟

اس سوال کا جواب مشکل ہے۔ گولن تحریک کے اردگرد پُراسراریت کا ایک ہالہ ہے۔ 19جولائی کونیویارک ٹائمز میں ترکی کے ایک سیکولر خیالات کے حامل دانش ور مصطفیٰ اخول کا مضمون شائع ہوا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ گولن کے کردارکو ترکی کے سیکولر حلقے بھی شک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور انہیں گولن صاحب کی یہ تردید قبول کرنے میں تامل ہے کہ اس بغاوت میں ان کا کوئی حصہ نہیں۔ مضمون نگارکا امریکہ کو مشورہ ہے کہ وہ اردوان کی بات کو نظر انداز نہ کرے۔ 
اردوان صاحب کو اب پہلے سے بڑا چیلنج درپیش ہے۔ یہ ان جمہوری روایات کی پاس داری ہے، وہ جس کے نمائندہ ہیں۔

گولن تحریک سے معاملہ کرتے وقت اردگان کو سب سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے کہ ترک عوام کا وہی طبقہ ان کی قوت کی اساس ہے جو سماجی و تہذیبی اسلام کا قائل ہے۔ یہ جذبات پیدا کرنے میں فتح اللہ گولن کی تحریک کا غیر معمولی کردار ہے۔ اگر وہ ان کے اداروں کو برباد کریںگے تو اس سے ترک معاشرے میں اسلام کو نقصان پہنچے گا۔ 
دوسرا یہ کہ انہیں ایسی سیکولر جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا ہے جنہوں نے جمہوریت کی اس جنگ میں ان کا ساتھ دیا۔ اگر وہ ترک عوام میں ایک وسیع تر اتفاق رائے پیدا کر نے میں کامیاب رہے تو اس سے ترکی مستحکم ہوگا اور اس کے ساتھ ان کی قیادت بھی۔
خورشید ندیم – دنیا 
See more at: http://dunya.com.pk/index.php/author/khursheed-nadeem/2016-07-20/16174/92019365#tab2

مزید پڑھیں>>>

  • …………………………………………….

فتح اللہ گولن کون ہیں؟
(عامر ہاشم خاکوانی)
ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترک سکالر فتح اللہ گولن ایک بڑے ولن کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ ترک مرد آہن اور صدر طیب اردوان نے بغاوت کی تمام تر ذمہ داری گولن پر ڈال دی ہے اور باقاعدہ طور پر امریکہ سے ان کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔ سوشل میڈیا پر اسلامسٹ حلقوں میں فتح اللہ گولن کو ایک خطرناک اسلام دشمن، ترک دشمن کردار کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ان پر الزامات کی بوچھاڑ ہو رہی ہے۔

فتح اللہ گولن کی گولن موومنٹ یا خدمت تحریک جسے ترکی میں حزمت تحریک کہا جاتا ہے، کو ہمیں قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا۔ تین چار سال پہلے رومی فورم کے تحت سینئر پاکستانی صحافیوں کا ایک وفد ایک ہفتے کے مطالعاتی دورے پر استنبول گیا تھا۔ مجیب الرحمن شامی، عطاالحق قاسمی، رئوف طاہر اور محمد رئوف کے ساتھ خاکسار کو بھی اس وفد میں شامل کیا گیا۔ استنبول میں گولن موومنٹ کے مختلف پروجیکٹس کا وزٹ کیا، گولن کے دیرینہ نظریاتی ساتھیوں سے تفصیلی مکالمہ ہوا، ان کے مختلف شعبوں میں سرگرم افراد سے بات چیت کا موقعہ ملتا رہا۔ اپنے طور پر بعد میں گولن صاحب کی فکر کو سمجھنے کی کوشش بھی کی۔ ان کی کئی کتابیں اردو میں ترجمہ ہو چکی ہیں، وہ پڑھیں۔ طیب اردوان اور گولن کے اختلافات کو بھی پچھلے تین برسوں سے مانیٹر کر رہا ہوں۔ مجھے لگ رہا ہے کہ ترکی کے حالیہ افسوسناک واقعے کے بعد فتح اللہ گولن، ان کی فکر اور حزمت تحریک کے حوالے سے یک رُخا موقف غلبہ پا رہا ہے۔ ضرورت اس کی ہے کہ تصویر کے دونوں رخ دیکھے جائیں۔ 

سب سے پہلے کچھ فتح اللہ گولن کے بارے میں۔
 گولن کا تعلق ایک مذہبی خاندان سے ہے۔ ان کے والد امام تھے۔ والدہ بھی قرآن پڑھاتی تھیں۔ انہوں نے خود ایک مدرسے تعلیم پائی اورمسجد کے امام/ خطیب کے طور پر اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ یاد رہے کہ ترکی میں مساجد کے لئے مقرر کردہ امام اور جمعہ کا خطبہ دینے والے خطیب حضرات‘ سرکاری ملازم ہوتے ہیں۔ فتح اللہ گولن خاصا عرصہ ازمیر میں خطیب رہے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے وہیں سے اپنے دینی، دعوتی کام کا آغاز کیا۔ فتح اللہ گولن مشہور ترک صوفی سکالر بدیع الزماں سعید نورسی کے پیروکار ہیں۔ سعید نورسی کو ترکی کے اسلامسٹوں یا مذہبی لوگوں میں غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ نورس مشرقی اناطولیہ کا ایک کرد گائوں ہے۔ سعید نورسی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ نسلاً کرد تھے، مگر ان کی شخصیت ترک، کرد نسلی تقسیم سے بالاتر تھی۔ سعید نورسی کی مشہور کتاب رسالہ نور ہے، جسے نورسی تحریک کے لوگ میں مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ نورسی صاحب دینی مدارس میں سائنسی مضامین پڑھانے کے قائل تھے اور ان کا کہنا تھا کہ سیکولر اداروں میں مذہبی تعلیم بھی شامل ہو۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ترکی مشہور اسلامسٹ لیڈر نجم الدین اربکان بھی سعید نورسی کے پیروکار اور ان سے متاثر تھے۔ اس لحاظ سے طیب اردوان جو پہلے نجم الدین اربکان ہی کی فکر سے متاثر تھے، وہ اور ان کی پارٹی کے لوگ بھی سعید نورسی کی فکر کے مداح رہے ہیں۔ فتح اللہ گولن اور ان کی تحریک بھی سعید نورسی کی فکر کے علمبردار اور ان کی سوچ کو ساتھ لے کر چلنے کے دعوے دار ہیں، گولن صاحب نے سعید نورسی پر ایک کتاب بھی لکھی ہے۔

فتح اللہ گولن نے ترکی کے سیکولر معاشرے میں دینی، دعوتی کام کے لئے ایک منفرد طریقہ سوچا۔ استنبول میں ایک صاحب سے ہماری ملاقات ہوئی، سادہ سے چھوٹے سے فلیٹ میں مقیم وہ شخص گولن کے ابتدائی ساتھیوں میں تھا۔ ان دنوں ترکی میں سخت گیر الٹرا سیکولر کمالسٹ سوچ کا غلبہ تھا۔ مذہبی سرگرمیاں ممنوع تھیں اور کسی مذہبی تحریک کے لئے کام کرنا ناممکن ہو چکا تھا۔ گولن نے ٹیوشن سنٹرز یا اکیڈمیز قائم کیں، جس کا مقصد طلبہ کی عمدہ تعلیم و تربیت کرنا تھا۔ مخیر حضرات سے مدد لے کر انہوں نے اگلے مرحلے پر ہاسٹلز بنائے، جن میں دیہات سے شہر آ کر پڑھنے والے بچوں کو مفت قیام و طعام کا موقعہ فراہم کیا جاتا۔ ریاستی جبر کے باعث کھل کر دینی تعلیم دینا ممکن نہیں تھا، اس لئے بڑے سلیقے سے ان اکیڈمیز اور ہاسٹلز میں طلبہ کو نماز باجماعت پڑھنے اور دیگر اخلاقی امور پر تربیت دی جاتی رہی۔ نماز کے لئے کسی کو کہا نہ جاتا اور استاد خود خاموشی سے ایک کمرے میں نماز پڑھنے لگ جاتا، ایک دو شاگرد اس کے پیچھے کھڑے ہو جاتے۔ دوسرے طلبہ پوچھتے کہ یہ کیا ہے تو انہیں کہا جاتا کہ یہ عبادت کا طریقہ ہے جسے ترک مسلمان ادا کرتے ہیں۔ اس طرح سچ بولنے، فواحش و منکرات سے دور رہنا، بڑوں کا ادب، شرم و حیا کی پاسداری ، معاملات میں کھرا ہونے جیسے امور پر قرینے سے بات کی جاتی۔ بچوں کو براہ راست واعظ کے بجائے عملی نمونہ سے اس جانب راغب کیا جاتا اور کوئی پوچھتا تو اسے کہا جاتا کہ یہ تو ترک کلچر ہے، ترک اخلاقی روایات اور اصول ہیں جن کی وجہ سے ترک دنیا بھر میں پہچانے جاتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔

فتح اللہ گولن کا دعوتی کام ساٹھ کے عشرے کے وسط میں شروع ہوا۔ ستر کا عشرہ دنیا بھر میں اخلاقی اعتبار سے ہنگامہ خیز رہا۔ ہپی تحریک مغرب میں نمودار ہوئی جس نے ترکی کا رخ بھی کیا۔ نوجوانوں بلکہ نوعمر لڑکوں میں منشیات استعمال کرنا عام رواج بن گیا، میلے کچیلے کپڑوں کے ساتھ بکھرے بالوں والے لڑکے چرس بھرے سگریٹ پیتے عام نظر آتے۔ گولن ہاسٹلز اور اکیڈمیز کے طلبہ البتہ ان سب سے یکسر مختلف اور ممتاز تھے۔ ان طلبہ کے شفاف کردار اور مہذب اطوار نے گولن اکیڈمیز کو شہرت دی۔ پڑھی لکھی مڈل کلاس اور خوشحال طبقات نے اپنے بچے ان ہاسٹلز اور اکیڈمیز میں بھیجنا شروع کر دیے۔ یاد رہے کہ ترکی میں اس وقت تک نجی سکول قائم کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ ان اکیڈمیز کی تعداد سینکڑوں میں پہنچ گئی۔ فتح اللہ گولن نے یہ سب کام بڑی حکمت سے کیا۔ گولن کی دینی سوچ میں خدمت کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ ان کے مطابق مسلمان کا فرض ہے کہ وہ معاشرے کی خدمت کرے، لوگوں کے کام آئے اور یہ خدمت کا کام نہ صرف مسلم سماج بلکہ غیر مسلم آبادی کے لئے بھی کیا جائے۔ گولن فکر کا دوسرا اہم جز یہ ہے کہ مسلمان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے دین کو دلیل اور شائستگی کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرے۔ اہل کتاب (یہودیوں اور عیسائیوں)کے علاوہ دیگر مذاہب بلکہ لادین اور ملحدین کے ساتھ بھی مسلمان مکالمہ کریں اور علمی سطح پر اللہ اور اس کے آخری رسولﷺکی دعوت اور مقدمہ کو پیش کریں۔ اس مقصد کے لئے گولن نے خدمت تحریک قائم کی۔ ترکی میں خ کا حرف موجود نہیں، خدمت وہاں حزمت کہلاتی ہے اور خلیل کو حلیل بولا اور لکھا جاتا ہے۔ 

استنبول میں حزمت تحریک کے مختلف شعبوںکے مشاہدے کا موقعہ ملا تو اس پر حیرت ہوئی کہ پورے ترکی میں کہیں پر حزمت تحریک کا کوئی باقاعدہ دفتر موجود نہیں۔ یعنی حزمت تحریک کی کوئی باضابطہ شکل، سٹرکچر، سٹیشنری، ملازمین وغیرہ نہیں ہیں، یہ ایک غیر رسمی تحریک ہے۔ ایسا غالباً سیکولر حکومت کے جبر سے بچنے کے لئے کیا گیا۔ حزمت کے تحت مختلف فورمز ہیں جو اپنا اپنا کام کر رہے ہیں، یہ سب گولن فکر سے متاثر ہیں، اپنے اہداف میں لگے ہوئے ہیں اور جہاں ضرورت پڑے، ایک دوسرے کو مدد بہم پہنچاتے ہیں۔ کچھ لوگوں نے ترکی کا سب سے بڑا اخبار زمان قائم کر لیا، سمان یولوم یڈیا ہائوس بن گیا، جس کے تحت سات چینلز کا م کر رہے تھے، کاروباری افراد پر مشتمل ایک بزنس کارپوریشن بن گئی، سکولوں کا بہت بڑا نیٹ ورک تھا جس کے ساتھ پری یونیورسٹی سکولز اور یونیورسٹیاں بھی کا م کر رہی تھیں۔ رومی فورم تھا جس کا مقصد دنیا بھر سے دانشوروں، صحافیوں کو ترکی کا وزٹ کرانا اور حزمت تحریک کے کام سے روشناس کرانا تھا۔ ایک اور فورم ترکی کے اندر مختلف مسالک کے درمیان مکالمہ کراتا اور امن و یک جہتی کا علمبردار تھا۔ الگ سے ایک دوسرا فورم مختلف مذاہب کے مابین مکالمہ کے لئے وقف تھا۔ ایک بڑی چیریٹی تنظیم تھی، جس کے تحت ہسپتال، ڈسپنسریاں قائم تھیں۔ پاکستان میں زلزلے کے بعد اسی تنظیم نے یہاں آ کر کروڑوں ڈالر کا چیریٹی کام کیا اور زلزلہ متاثرین کو مفت گھر بنا کر دیے۔
ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ طیب اردوان اور فتح اللہ گولن میں ٹکرائو کیوں ہوا، اس کے اسباب کیا تھے اور کیا حالیہ بغاوت میں گولن کا ہاتھ ہے۔ اگلی نشست میں انشا اللہ اس پر بات کریں گے۔ 
– See more at: http://dunya.com.pk/index.php/author/amir-khakwani/2016-07-19/16162/96959422#tab2

کیا فتح اللہ گولن ولن ہیں؟

(عامر ہاشم خاکوانی)
ترکی کی حالیہ ناکام فوجی بغاوت کے بعد جب سے جناب طیب اردوان نے سارا ملبہ امریکہ میں مقیم ترک سکالر فتح اللہ گولن پر ڈال دیا ہے، اس وقت سے پرو اردوان حلقے پورے زور شور سے گولن کو ولن قرار دے رہے ہیں۔ ترکی کے اندر اس پر مباحث تو جاری ہوں گے ، مگر پاکستانی صحافتی اور سوشل میڈیا کے حلقوں میں اس پر بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔ فتح اللہ گولن کے حوالے سے ہمارے ہاں تین چار قسم کے نقطہ نظر پائے جاتے ہیں۔ بعض اسے ڈاکٹر طاہر القادری سے تشبیہہ دے رہے ہیں، شائد گولن تحریک کے سکول اور تعلیمی نیٹ ورک کی بنا پر یہ مماثلت ڈھونڈی گئی ہے یا وکی پیڈیا وغیرہ میں فتح اللہ گولن کے ساتھ صوفی کا نام لکھا دیکھ کر یہ سمجھا جا رہا ہے کہ گولن بھی شائد” بریلوی ‘‘ٹائپ سکالر ہیں۔گولن کے بارے میں انٹرنیٹ پر سرچ کی جائے تو بیشتر جگہوں پر انہیں ماڈریٹ یا معتدل سکالر کہا جاتا ہے۔ اس ”کامن فیکٹر ‘‘ کی بنا پر سوشل میڈیا پر بعض لوگ انہیں ترکی کا جاوید غامدی کہہ رہے ہیں۔ ایک حلقہ جو زیادہ شدت پسندانہ تعبیر کی طرف مائل ہے،سازشی نظریات ان کا من بھاتا فکری کھاجا (خوراک )ہیں۔ ان لوگوں نے فتح اللہ گولن کو فری میسن تک قرار دے ڈالا۔ یہ ویسے اتنا خوفناک الزام ہے کہ آدمی سوچ کر ہی کانپ جاتا ہے ۔ یاد رہے کہ فری میسن وہ بدنام زمانہ خفیہ تنظیم ہے، جس کے تانے بانے یہودیوں سے ملائے جاتے ہیں اورمبینہ طور پر یہ یہودی ہی تھے، جو مختلف مذاہب کے ماننے والوں کا روپ دھار کر سازشوں میں مصروف رہے ۔ 
مجھے ان لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جو کمال دیدہ دلیری سے کسی مسلمان کو نہایت کمزور ثبوت بلکہ مفروضوں کی بنا پر ملحد، زندیق قرار دے دیتے ہیں، ایدھی صاحب
کے حوالے سے ایک نام نہاد مفتی کی ویڈیو بھی پچھلے دنوں گردش کرتی رہی، جس میںان مولوی صاحب نے ایک جگمگاتی شخصیت پر تھوکنے کی کوشش میں اپنا ہی چہرہ داغدار کر لیا۔کسی مسلم سکالر کو فری میسن قرار دینے کے لئے تو اس سے بھی زیادہ ”جرات‘‘درکار ہے ۔اللہ ایسے بھیانک الزامات لگانے والوں کو ہدایت دے ۔ ہم مختلف شخصیات، گروہ، تنظیموں یا نظریات کے بارے میں اپنے آرا بناتے ہیں،مگر اپنی رائے کو اس خوفناک قطعیت سے پیش کرنا مناسب نہیں۔ کسی بھی دوسرے مسلمان کو ، خاص طور پر جب و ہ دینی ، دعوتی کام میں مصروف ہے اور برملا ایسے الزامات کی تردید کرتا ہے، اسے حسن ظن کی رعایت ضرور دیں۔ گولن موومنٹ یا حذمت تحریک کے لوگ البتہ پاکستان میں بھی موجود ہیں اور جیسا کہ میں نے پچھلی نشست میں عرض کیا کہ اتفاق سے تین چار سال پہلے ایک صحافتی وفد کے ساتھ مجھے بھی استنبول جانے اور اس تحریک کے مختلف پہلوئوں، پراجیکٹس کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا۔ ان کے ساتھیوں کے ساتھ ایک ہفتہ سفر میں گزرا، گھنٹوں گپ شپ اور ڈسکشن میں رہے، پاکستان میں ان کے سکول موجود ہیں۔گولن صاحب پر لکھنے والے صحافیوں یا سکالرز کو میرا مشورہ ہے کہ وہ پہلے یہاں لاہور ، اسلام آباد میں موجود ترکوں سے بھی مل لیں، رومی فورم کا وزٹ کر لیں۔پنجاب یونیورسٹی میں اردو سیکھنے کے لئے بعض ترک طالب علم یہاں مقیم ہیں، ان سے گپ شپ کریں اور ان کا نقطہ نظر بھی جانیں۔ میرا انٹرایکشن اگرچہ محدود سا ہی ہے ، مگر بہرحال کچھ نہ کچھ فرسٹ ہینڈ انفارمیشن حاصل ہوئیں جو وکی پیڈیا یا نیٹ کے کسی اور سورس کی نسبت زیادہ قابل اعتماد ہیں۔ جو کچھ دیکھا، جو سمجھ میں آیا، ان کالموں کا مقصد اس تاثر کو قارئین کے سامنے پیش کرنا ہے۔ واللہ اعلم ۔ 
فتح اللہ گولن کو ڈاکٹر طاہر القادری سے ملانا قطعی طور پر مناسب اور درست نہیں۔ قادری صاحب بنیادی طور پر ایک خطیب اور عالم دین ہیں، جلد ہی وہ سیاست میں آگئے ، ایک سیاسی جماعت کے وہ باقاعدہ سربراہ ہیں، رکن اسمبلی بھی رہے ، اقتدار میں آنے کے خواہش مند ہیں، عوامی انقلاب کے ذریعے عوام کی تقدیر بدلنے کے دعوے دار ہیں ،پاکستانی صحافتی حلقوں میں ان کا تاثر ایک بڑ بولے، سیاسی کرتب دکھانے والے شخص کا ہے، جس کی کریڈیبلٹی نہ ہونے کے برابر ہے ، ان کے خواب یا ”مکاشفات ‘‘کا ہمارے ہاں مذاق اڑایا جاتا رہا ہے اور وہ مکمل طور پر غلط ثابت ہوئے ہیں۔ فتح اللہ گولن مکمل طور پر غیر سیاسی شخصیت ہیں۔ وہ کبھی سیاست میں آئے ، نہ ہی ان کا کوئی ایسا ارادہ ہے۔ ان کی حذمت تحریک ایک غیر سیاسی تنظیم ہے، جسے وہ غیر سیاسی ہی رکھنے کے دعوے دار ہیں۔ حذمت تحریک کے لوگ الیکشن میں حصہ بھی نہیں لیتے۔ کسی بھی الیکشن کے موقعہ پر فتح اللہ گولن نے کسی بھی سیاسی جماعت کی حمایت کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا۔ استنبول میں ترکوں سے ہم نے پوچھا کہ گولن صاحب کوئی سیاسی پوزیشن کیوں نہیںلیتے۔ ان کا جواب تھا چونکہ ہم لوگ سماجی کام کر رہے ہیں، اس لئے گولن کا خیال ہے کہ حکومتیں بدلنے سے سماجی تحریک کو نقصان نہ پہنچے ۔ ایک انٹرویو میں گولن سے یہی سوال پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اپنے کسی پڑھنے والے یا دوست کو یہ کہنا کہ فلاں جماعت کو ووٹ دیا جائے، میں ان کی عقل اور ذہانت کی توہین سمجھتا ہوں۔ یہ فیصلہ ہر ایک کو خود کرنا چاہیے۔ زیادہ سے زیادہ میں یہ کہتا اور لکھتا ہوں کہ اچھے، دیانت دار اور اہل لوگوں کا انتخاب کیا جائے۔
مزے کی بات ہے کہ فتح اللہ گولن کو صوفی کہا جاتا ہے، مگر یہ ہماری طرز کے صوفی یا بریلوی طرز فکر کا معاملہ نہیں۔ ترکوں کا صوفی ہونا دراصل ان کا یہ بتانا ہے کہ ایسا شخص رواداری، برداشت اور تحمل پر یقین رکھتا ہے۔ استنبول کے سفر میں ایک ترک گائیڈ سے میں نے پوچھا کہ فتح اللہ گولن صاحب نے آپ لوگوں کو کوئی مخصوص وظیفہ وغیرہ بتایا ہے ، جس کا ورد کیا جاسکے یا کچھ اور۔ ترک ساتھی نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور کہا کہ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا۔ وظائف، ذکر خفی یا جلی یا مراقبہ جات وغیرہ کچھ نہیں۔ فتح اللہ گولن البتہ نماز پنجگانہ کی ادائیگی ، تلاوت قرآن اور کلام اللہ کو سمجھنے کی تلقین کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہیے ، عبادت میں خضوع وخشوع ہواور مسنون دعائیں مانگنی چاہئیں جو رسول اللہ ﷺ سے روایت ہیں۔ یہ سن کرخاکسار کو خاصی مایوسی ہوئی، جو اس چکر میں تھا کہ چلو ترک صوفیوں سے کوئی مجرب وظیفہ ہاتھ آ جائے گا۔ اس لئے جو فتح اللہ گولن کو بریلوی سمجھتے ہیں اور جن کا خیال ہے کہ میرے جیسے لوگ تصوف سے اپنی دلچسپی کی وجہ سے گولن کی حمایت کر رہے ہیں، انہیں فی الفور اپنا خیال بدل دینا چاہیے ۔ 
فتح اللہ گولن کو جاوید احمد غامدی بھی نہیں کہا جا سکتا۔ غامدی صاحب کا ہم احترام کرتے ہیں،علمی شائستگی ، حلم اورمہذب انداز تکلم ان پر ختم ہے ۔ غامدی صاحب مگر ہمارے ہاں متنازع اس لئے ہوئے کہ انہوں نے کئی معاملات میں اپنی وہ رائے بنائی جو پچھلے چودہ سو سالہ مسلم فکر سے مختلف تھی۔ غامدی صاحب کے تفردات کی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں،جن پر ہمارے روایتی دینی حلقے ان سے شدید اختلاف کرتے ہیں۔ فتح اللہ گولن کے ایسے کوئی تفردات نہیں ہیں۔ ان کی فکر کی تعبیر وتشریح پر ترک حلقوں میں کچھ اختلاف نہیں ۔ انہیں معتدل سکالر صرف اس لئے کہا اورمانا جاتا ہے کہ وہ برداشت اور رواداری کے قائل ہیں۔ دوسرے مذاہب کے لوگوں سے بھی مکالمہ کے حامی ہیں، پوپ سمیت دیگر مذاہب کے رہنمائوں سے مل بھی چکے ہیں اور ان کے خیال میں دیگر مذاہب کے سامنے اسلام کا مقدمہ دلیل کے ساتھ رکھنا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ہاں امریکہ میں مقیم رہنا ان کا جرم ضرور ہے، مگر یہ” گناہ ‘‘ تو ہمارے ہاں کے بے شماردینی، علمی لوگوں سے سرزد ہوا ہے، ان سب پر بھی غیر محب وطن اور امریکہ کا یار ہونے کا الزام لگا دیا جائے ؟ ترک فوجی ڈکٹیٹروں کے گولن مخالف رہے ہیں بلکہ انہوں نے ترکی کے سخت گیر سیکولر معاشرے میں رہ کر دینی تعلیم وتربیت کا راستہ نکالا ۔ سیکولر حلقے ان کے مخالف رہے ہیں، ان پر قاتلانہ حملے ہوئے، جن کے بعد ان کو امریکہ جانا پڑا ۔ ان کی عدم موجودگی میں ترکی کی سیکولر عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے دبائو پر انہیں سزا بھی سنائی گئی جو برسوں بعد میں طیب اردوان کی وجہ سے ختم ہوئی ۔
فتح اللہ گولن اور طیب اردوان میں تصادم کیوں ہوا اور یہ معاملہ کس رخ جا رہا ہے، اس پر اگلی نشست میں بات ہوسکتی ہے۔ بات طویل ہوگئی، مگر اس کے بغیر 
پوری طرح سمجھنا شائد ممکن نہ ہوتا۔ 
(عامر ہاشم خاکوانی)
– See more at: http://m.dunya.com.pk/index.php/author/amir-khakwani/2016-07-21/16185/12057867#sthash.H1Vaa46e.dpuf
 گولن کی اردو ویب سائٹ : http://fgulen.com/ur/

تبصرہ:
ایک متوازن اور انفارمیشن سے بھرپور بے لاگ تجزیہ جو کہ عامر ہاشم خاکوانی کا ترہ امتیاز ہے – اکثریت لاعلمی میں گم جذباتی طور پر اسلام کی محبت میں اردگان کے گن گا رہی ہے ایسے تجزیے کی سخت ضرورت ہے – ترکی کو پاور سٹرگل اور اسلامی فکری سوچ کو واضح کرنا ضروری ہے- اسلام کے خیر خواہوں کو آپس کی لڑائی سے گریز کرنا ہوگا اس کا فائدہ سیکولر اور اسلام دشمن قوتیں اٹھائیں گی-
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
مزید پڑھیں:

~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~

Humanity, ReligionCultureSciencePeace

 A Project of 
Peace Forum Network
Peace Forum Network Mags
BooksArticles, BlogsMagazines,  VideosSocial Media
Overall near 3 Million visits/hits