Wahdat ul Wajood وحدت الوجود

Image result for ‫وحدت وجود اور  قرآن‬‎
وحدت الوجود ایک صوفیانہ عقیدہ ہے جس کی رو سے جو کچھ اس دنیا میں نظر آتا ہے وہ خالق حقیقی کی ہی مختلف شکلیں ہیں اور خالق حقیقی کے وجود کا ایک حصہ ہے۔ اس عقیدے کا اسلام کی  اساس سے کوئی تعلق نہیں ، قران و حدیث میں اس کا کوئی حوالہ نہیں ملتا اور اکثر مسلمان علماء اس عقیدے کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ چونکہ اس عقیدے کی ابتدا مسلم صوفیا کے یہاں سے ہوئی اس لیے اسے اسلام سے متعلق سمجھا جاتا ہے: مزید  >>>>>

…………………………………

اس نظریے کہ باطل ہونے کے دلائل قرآن و حدیث اور عقلِ سلیم  سے بے شمار تعداد میں ملتے ہیں، ان میں سے چند ایک یہ ہیں :

اللہ عزوجل فرماتا ہے:
{ وَجَعَلُوا لَهُ مِنْ عِبَادِهِ جُزْءاً إِنَّ الإِنسَانَ لَكَفُورٌ مُبِينٌ} 
ترجمہ :اور ان لوگوں نے اللہ کے بندوں میں سے بعض کو اس کا جزو بنا ڈالا، بلاشبہ انسان صریح کفر کا مرتکب ہے ۔ [الزخرف:15]

ایک جگہ فرمایا:
{ وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَبًا وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ إِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ. سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ }
ترجمہ: نیز ان لوگوں نے اللہ اور جنوں کے درمیان رشتہ داری بنا ڈالی، حالانکہ جن خوب جانتے ہیں کہ وہ[مجرم کی حیثیت سے]پیش کئے جائیں گے ، اللہ ان سب باتوں سے پاک ہے جو یہ لوگ بیان کرتے ہیں ۔[الصافات:159]
{وَقَدْ خَلَقْتُكَ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ تَكُ شَيْئاً}
ترجمہ: پہلے میں نے تمہیں پیدا کیا حالانکہ تم معدوم تھے [مریم :9]

اور اللہ سبحانہ تعالی فرماتا ہے:
{ أَوَلا يَذْكُرُ الإِنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ يَكُ شَيْئًا }
ترجمہ: کیا انسان کو یہ یاد نہیں ہے کہ پہلے بھی ہم نے اسے پیدا کیا حالانکہ وہ معدوم تھا [مریم:67]

قرآن کریم کا مطالعہ کرنے والا قرآن مجید کے نظم اور خطاب میں موجود مسلمہ واضح حقائق جان لے گا کہ مخلوق  اور خالق ایک چیز نہیں ہو سکتے؛ جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقًا مِنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ شَيْئًا وَلَا يَسْتَطِيعُونَ}
ترجمہ: اللہ کے سوا جن چیزوں کو وہ پوجتے ہیں وہ چیزیں آسمانوں اور زمیں سے رزق مہیا کرنے کا بالکل اختیار نہیں رکھتیں [النحل : 73]

………………………………
معرفت اور وحدت وجود
معرفت اس دنیا کی سب سے بڑی یافت ہے-مگر میرا احساس ہے کہ پوری تاریخ میں معرفت کے بارے میں لوگوں کو ایک شدید مغالطہ هوا ہے-انسان کو جب اعلی معرفت حاصل هوتی ہے،تو یہ اس کے لیے ایک ناقابل بیان تجربہ هوتا ہے-انسانی زبان میں اس کو بیان کرنا ممکن نہیں- اس معرفت کا ایک پہلو یہ ہے کہ کسی انسان کو اس کا تجربہ هوتا ہے تو وه محسوس کرتا ہے کہ وه خدا کے اتنا قریب آ گیا ہے جیسے کہ اس کی ہستی خدا کی ہستی میں شامل هو گئ ہے-

تا هم یہ تمام تر ایک نفسیاتی تجربہ هوتا ہے-لوگوں نے شدید غلط فہمی کی بنا پر اس تجربہ کو وجودی قربت(physical nearness(،یا وجودی اتحاد)physical emergence (کی معنی میں لے لیا – اسی سے وحدت وجود کا نظریہ پیدا هوا-نفسیاتی قربت کی حد تک یہ حقیقت اعلی کے ادراک کی بات تهی،لیکن وحدت وجود کے نظریے کی صورت میں وه سر تا پا ایک باطل چیز بن گئ-اس مشکل کو حل کرنے کے لیے شیخ احمد سر ہندی نے وحدت شہود کا نظریہ ایجاد کیا-اسی طرح ابن عربی نے کہا:
العبد عبد،وان ترقی
والرب رب ،وان تنزل
مگر میرے نزدیک،یہ دونوں باتیں صرف کنفیوژن کا کیس ہیں،وه اصل معاملے کی حقیقی توضیح نہیں-حقیقت صرف یہ ہے کہ خدا نے اپنے تخلیقی نقشے کے مطابق،انسان کی فطرت میں ربانی شعور پیوست کر دیا ہے-وه انسان کی لاشعور میں مسلسل موجود رہتا ہے-اسی لاشعور کو شعور میں لانے کا نام معرفت ہے-یہ صرف ایک دریافت ہے،اس سے زیاده اور کچهہ نہیں-

حقیقت یہ ہے کہ خدا اور بندے کے درمیان کسی بهی قسم کی کوئی مماثلت نہیں-معرفت کا معاملہ تمام تر دریافت کا معاملہ ہے-معرفت ایک خارجی حقیقت کی شعوری دریافت ہے-تاهم یہ دریافت سائنسی دریافت کی طرح محض ایک ٹیکنیکل دریافت نہیں-یہ دریافت آدمی کو حقیقت کے سمندر میں غرق کر دیتی ہے-اسی نفسیاتی معاملے کی غلط توجیہہ کے نتیجے میں وحدت وجود کا نظریہ پیدا هوا-
مولانا وحیدالدین خان، الرسالہ،مارچ 2009
…………………………………
بعض لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ انسان عبادت اور ریاضت کے زریعے اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اسے کائنات کی ہر چیز میں اللہ نظر آنے لگتا ہے یا وہ ہر چیز کو اللہ کی ذات کا جزء سمجھنے لگتا ہے ،تصوف کی اصلاح میں اس عقیدہ کو وحدت الوجود کہا جاتا ہے،عبادت و ریاضت میں مزید ترقی کرنے کے بعد انسان کی ہستی اللہ کی ہستی میں مدغم ہو جاتی ہے۔(نعوذباللہ)اور وہ دونوں (اللہ اور انسان)ایک ہو جاتے ہیں۔(نعوذباللہ)اس عقیدے کو وحدت الشہود یا فنا فی اللہ کہا جاتا ہے۔عبادت اور ریاضت میں مزید ترقی کرنے سے انسان کا آئینہ اور دل اس قدر لطیف اور صاف ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات خود اس انسان میں داخل ہو جاتی ہے،جسے حلول کہا جاتا ہے۔(نعوذباللہ)
غور کیا جائے تو ان تینوں اصلاحات کے الفاظ میں کچھ نہ کچھ فرق ضرور ہے لیکن نتیجے کے اعتبار سے ان میں کوئی فرق نہیں اور یہ کہ انسان اللہ کی ذات کا جزء اور حصہ ہے۔(نعوذباللہ) 
غور کیا جائے تو ان تینوں اصلاحات کے الفاظ میں کچھ نہ کچھ فرق ضرور ہے لیکن نتیجے کے اعتبار سے ان میں کوئی فرق نہیں اور یہ کہ انسان اللہ کی ذات کا جزء اور حصہ ہے۔(نعوذباللہ)
یہ عقیدہ ہر زمانے میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا ہے ۔قدیم و جدید صوفیاء نے فلسفہ وحدت الوجود اور حلول کو درست ثابت کرنے کے لئے بڑی طویل بحثیں کی ہیں ،لیکن سچی بات یہ ہے کہ آج کے سائنسی دور میں عقل اسے تسلیم کرنے کے لئے قطعا تیار نہیں۔جس طرح عیسائیوں کا عقیدہ تثلیث” ایک میں سے تین اور تین میں سے ایک “عام آدمی کے لئے ناقابل فہم ہے اسی طرح صوفیاء کا یہ فلسفہ کہ انسان اللہ میں یا اللہ انسان میں حلول کئے ہوئے ہے۔ناقابل فہم ہے،اگریہ فلسفہ درست ہے تو اس کا سیدھا سادھا مطلب یہ ہے کہ انسان ہی درحقیقت اللہ اور اللہ ہی درحقیقت انسان ہے،اگرامر واقعہ یہ ہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ عابد کون ہے ،معبود کون؟ساجد کون ہے مسجود کون؟خالق کون ہے ،خلوق کون؟حاجت مند کون ہے،حاجت روا کون؟مرنےوالا کون ہے ،مارنے والا کون؟زندہ ہونے والا کون ہے اور زندہ کرنے والا کون؟گنہگار کون ہے،اور بخشنے والا کون؟روز جزا حساب لینے والا کون ہے۔اور دینے والا کون؟اور پھر جزا یا سزا کے طور پر جنت یا جہنم میں جانے والے کون ہیں،اور بھیجنے والا کون؟اس فلسفے کو تسلیم کرنے کے بعد انسان ،انسان کا مقصد تخلیق اور آخرت یہ ساری چیزیں کیا ایک معمہ اور چیستاں نہیں بن جاتیں؟اگر اللہ تعالیٰ کے ہاں واقعی مسلمانوں کا یہ عقیدہ قابل قبول ہے تو پھر یہودیوں اور عیسائیوں کا عقیدہ ابن اللہ کیوں قابل قبول نہیں؟مشرکین مکہ کا یہ عقیدہ ہے کہ انسان اللہ کا جزء ہے کیوں قابل قبول نہیں؟وحدت الوجود کے قائل بت پرستوں کی بت پرستی کیوں قابل قبول نہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ کسی انسان کو اللہ تعالیٰ کی ذات کا جزاء سمجھنا (یا اللہ کی ذات میں مدغم سمجھنا)یا اللہ تعالیٰ کو کسی انسان میں مدغم سمجھناایسا کھلا اور عریاں شرک فی الذات ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا شدید غضب بھڑک سکتا ہے۔عیسائیوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا (جزء)قرار دیا تو اس پر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جو تبصرہ فرمایا اس کا ایک ایک لفظ قابل غور ہے۔  >>>>>>>

وحدت الوجود – آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا

https://ur.wikipedia.org/wiki/وحدت_الوجود


وحدت الوجود ایک صوفیانہ عقیدہ ہے جس کی رو سے جو کچھ اس دنیا میں نظر آتا ہے وہ خالق حقیقی کی ہی مختلف شکلیں ہیں اورخالق حقیقی کے وجود کا ایک حصہ ہے۔ … اسلام کی اساس سے کوئی تعلق نہیں ، قران و حدیث میں اس کا کوئی حوالہ نہیں ملتا اوراکثر … وحدت الوجود اور اللہ تعالٰی کا کسی مخلوق میں حلول کرنا یا مخلوق اور خالق کے …

مسلئہ وحدت الوجود اور وحدت الشہود | اردو محفل فورم – Urdu Web

www.urduweb.org › … › فورم › حالات حاضرہ › تاریخ کا مطالعہ

سالک کے قلب و ذہن سے ما سوا اللہ یکسر دور ہو جاتے ہیں اور صرف وجود حق کا ادراک و احساس ہی باقی رہ جاتا ہے …. پس قرآنو حدیث سے جو شخص جو معنی سمجھے وہ سب معتبر نہیں ۔ … اہل تصوف کے دو نظریات و حدت الوجود اور وحدت الشہود کا کیا مطلب ہے ۔

دیوبندیوں کا عقیدہ وحدت الوجود – islamqa.info

https://islamqa.info/ur/200321

Jan 31, 2016 – وحدت الوجود کا عقیدہ رکھنا ہی حق اور سچ ہے” انتہی … “بندہ اپنے وجود سے پہلے مخفی طور پر رب تھا اوررب ہی ظاہر میں بندہ ہے”[العیاذباللہ] … اس نظریے کہ باطل ہونے کے دلائل قرآن و حدیث اور عقلِ سلیم سے بے شمار تعداد میں ملتے …

وحدت الوجود ۔ اس نظریہ کامقصداور اسلام سے کیا تعلق ؟ | صفحہ 2 …

alqlm.org › … › مذہب اورمتعلقات › تعلیمات اسلامی › تصوف اسلام

ہست، نیست اور بود، نابود ہوجائے، کسی ذرہ موجود کا وجود نہ رہے کہ اس پر ہستی کا ….. وحدت الوجود کے نظریے کو قرآن حکیم کی تعلیمات کے عین مطابق ثابت کرنے …

فلسفہ وحدت الوجود ۔وحدت الشہود اور حلول | محدث فورم [Mohaddis Forum]

forum.mohaddis.com › فورم  عقیدہ ومنہج  توحید وشرک


وحدت الشہود اور حلول بعض لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ انسان عبادت اور ریاضت کے … وحدت وجود کا ذکر شرع میں صراحتہ نہیں ،مسئلہ وحدت وجود کی تصریح نہ قرآن …