اسلامی دنیا کی تباہی کا منصوبہ – برنارڈ لوئس پلان

کچھ عرصہ پہلے امریکی وزارتِ دفاع کے حوالے سے پاکستان کا ایک مختصر اوربدلہ ہوا نقشہ منظر عام پرآیا ۔اس پر وطن دوست حلقوں میں تشویش پیدا ہونا ایک فطری سی بات تھی۔ لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ امریکہ اوراس کے ساتھی ایک عرصے سے عالم اسلام کو مزید چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کرنے کے منصوبے پر کام کررہے ہیں۔ 

…………………………….

Bernard Lewis Plan to Carve up Middle East and Pakistan: Read  <<here>>>

It is common to brush aside the conspiracy theories. However if one critically examines the plans conceived decades back by scholar or groups with close association with the policy makers in USA and UK and the events on ground bear close semblance, its difficult to reject it out rightly. The governments of Muslim countries should consider these aspects seriously and instead of investing in construction of high rise building and other symbols of luxury, should invest in education, and establish think tanks, with genuine intellectuals, analysts and thinkers. They should constantly review the international plans and conspiracies, suggesting concrete counter measures for the national survival and advancement of peace and stability.
Also read:

Bernard Lewis, Zionists and Western Plans to Carve up Middle East and Pakistan. How to Counter these Anti Muslim Plans?

…………………………………………………….
کیا یہ حقیقت نہیں کہ نظریاتی بنیادوں پر معرض وجو دمیں آنے والی سب سے بڑی اسلامی ریاست پاکستان کو 1971 میں بھارت اور سوویت یونین نے امریکہ کی تماشہ بین آنکھوں کے سامنے بظاہر بڑے آرام اور سکون سے دو حصوں میںتقسیم کردیا تھا۔ پاکستانیوں کو شروع شروع میں تو دکھ تھا۔ آہستہ آہستہ وہ زخم مندمل ہوگئے اورآج کتنے ہیں جن کے دل میں مشرقی پاکستان کا نام لے کر کوئی ٹیس اٹھتی ہے اورکتنے سینوں سے غم کی ہوک اُٹھتی ہے۔ ہمارا سوال اتنا ہے کہ جنھوںنے گذشتہ کل کو پاکستان کوتقسیم کیا تھا انھیں مزید کوئی موقع ملے گا تو وہ رحم کریںگے؟ جس کا جی چاہے نام دوست رکھ لیں، تاریخ یہی ہے کہ جو ہم نے بیان کردی ہے۔
 
ہم صرف پاکستان کا نام کیوں لیں، بات یوں بھی کہی جاسکتی ہے کہ جنھوں نے عالم اسلام کو ستاون نام نہاد آزاد ریاستوں میں تقسیم کیا ہے وہ اسے مزید ٹکڑے ٹکڑے کرنے سے کیوں چونکیں گے۔ ہم چاہیں تو کبوتر کی طرح آنکھیںبند کرلیں لیکن بلی ہرگز غائب نہ ہوگی اورنہ رحم کھائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اوراس کے ساتھی اتنا کچھ واشگاف کہہ چکے ہیں کہ ہمیں اپنی طرف سے مزید ایک لفظ اضافے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ آئیے امریکی وزارت دفاع کے ایک جرنل میں 2006 میں شائع ہونے والے ایک نقشے پر نظر ڈالتے ہیں جس میں پاکستان سمیت مشرق وسطیٰ کا ایک نیا نقشہ تجویز کیا گیا ہے۔ اس کا نام Blood Bordersرکھا گیا ہے
 

اس نقشے پر نظر ڈالنا ہی کافی ہے بہر حال رالف پیٹرز کے لکھے ہوئے مضمون میں شامل کیے گئے اس نقشے کے چند نکات ہم ذیل میں بیان کرتے ہیں.

 
  1. فرہ ،باد غیس اور ہرات کو ایران میں شامل کردیا گیا ہے
  2. دنحتونستان جو اس وقت پاکستان کا حصہ ہے، اسے افغانستان سے ملحق کردیا گیا ہے
  3. نیمروز کو نئی ریاست آزاد بلوچستان کا حصہ بنادیا گیا ہے
  4. ایرانی صوبہ سیستان وبلوچستان آزاد بلوچستان میں شامل کردیا گیا ہے
  5. کردستان کے نام پر نیا ملک بنایا گیا ہے ، ایرانی صوبہ کردستان اس میں شامل کردیا گیا ہے
  6. اسی طرح عراق اور ترکی کے کرد علاقے بھی اس میں شامل کردیے گئے ہیں
  7. کشمیر کو ایک الگ نیا ملک بنا دیا گیا ہے
  8. عراق کو تین ملکوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ ایک حصہ آزد کردستان میں شامل کیا گیا ہے جبکہ سنی عراق اور شیعہ عراق دومستقل آزاد ریاستیں بنا دی گئی ہیں
  9. وٹیکن سٹی کی طرزپر مسلمانوں کی مذہبی ریاست بنانے کے لئے حرمین شریفین کا علاقہ تجویز کیا گیا ہے جسے سعودی عرب سے الگ کرکے ایک نئی ریاست کا درجہ دیا گیا ہے
  10. یمن سے ملحقہ علاقے جہاں شیعہ کی آبادی ہے سعودیہ سے الگ کرکے اسے یمن میں شامل کیا گیا ہے۔ اس طرح سے سعودی خاندان کے لئے نسبتاً چھوٹی ریاست تجویز کی گئی ہے
  11. سعودی ریاست کے شمالی علاقے اردن کی ریاست میں شامل کیے گئے ہیں۔ اس طرح سے اردن کی سرحدوں کونئی مقدس ریاست سے جوڑ دیا گیا ہے
  12. شام کی کرد آبادی والے علاقے کو کردستان کا حصہ ظاہر کیا گیا ہے
  13. شام کے جنوبی علاقے لبنان میں شامل کرکے گریٹر لبنان بنایا گیا ہے
  14.  ایران اور چین کا زمینی راستہ پاکستان سے کاٹ دیا گیا ہے۔
حال ہی میں پاکستان کا جو نیا مجوزہ نقشہ نئے سرے سے امریکی وزارتِ دفاع کے حوالے سے سامنے آیا ہے وہ اسی نقشے کے مطابق ہے۔ اس نقشے کے مطابق کبھی عراق کے نام سے نیا نقشہ شائع کردیا جاتا ہے جس میں کردستان، سنی عراق اور شیعہ عراق کے نام سے تین ملک دکھائے جاتے ہیں ۔کبھی ایران کا نیا نقشہ شائع کردیا جاتا ہے اورکبھی افغانستان وغیرہ کا۔ ہم یہاںجملہ معترضہ کے طور پر یہ عرض کرتے چلیں کہ بلوچ لبریشن آرمی، طلال بگٹی کے تازہ بیانات اوردھمکیاں، راجستھان کی سرحد پر بھارتی افواج کااجتماع ان سب باتوں کو کوئی سادہ اندیش ہی جدا جدا واقعات کے طور پر دیکھ سکتا ہے، ہم تو اسے ایک مجموعی پلان کے حصے کے طور پر دیکھتے ہیں اگرچہ کوئی ایک فرد یا گروہ شعوری طور پر اس پلان کا حصہ نہ ہو۔
 
ہم یہاں پر یہ وضاحت کردیں کہ 2006 میں شائع ہونے والا نقشہ بھی کوئی نیا نہیں ہے بلکہ مغربی استعماری فکر کے ترجمان حلقوں اوردانشوروں کی طرف سے قبل ازیں بھی گاہے گاہے ایسی باتیں سامنے آتی رہی ہیں۔تھیوری آف نیشن کے مصنف نے یہ بات لکھی تھی کہ مسلم قومی ریاستیں ابھی ایک عبوری دورسے گزر رہی ہیں انھیں مزید چھوٹی نسل ریاستوں میں تقسیم ہوتاہے اس کتاب کے مطابق عالم اسلام کی تقسیم 190نسلی ریاستوں پر جا کر ختم ہوگی۔ پہلی خلیجی جنگ (1990-91) کے دوران میںایک جرمن جریدے نے بھی عالم اسلام کا ایک نقشہ چھایا تھا جسے برناڈ لوئیس پلان قرار دیا گیا ہے۔ معروف اسلامی مفکراور ہمارے دوست جناب محمد اسلم درانی نے اپنے ایک مضمون میں ان منصوبوں کا جائزہ لیا ہے۔ برنارڈ لوئیس پلان 2006میں شائع ہونے والے بلڈ بارڈر سے کوئی زیادہ مختلف نہیں ہے۔
 
یہ ساری صورت حال دنیا بھر کے مسلمان عوام کے لئے یقینی طور پر باعث تشویش ہے ۔ عجیب بات یہ ہے کہ دور حاضر میں مسلمان عوام اپنے دوست اوردشمن کا مجموعی طور پرایک درست شعور رکھتے ہیں ۔ وہ خوب سمجھتے ہیں کہ دنیا میں ان کا دوست کون ہے اور دشمن کون ہے۔ عام طور پر مسلمان اپنے زوال اور پس ماندگی کے اسباب کا بھی صحیح تجزیہ کرتے ہیں۔ دوسری طرف مسلمان حکمران ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ جو بات عوام سمجھتے ہیں وہ خواص نہیں سمجھتے۔ وہ بھی جانتے ہیں کہ عالمی حقائق کیا ہیں۔ کوئی تجاہل عارفانہ کرے تو دوسری بات ہے۔ پھر مسئلہ کیا ہے؟ بہت سے مسلمان اورغیرمسلم تجزیہ کاراس امر پر متفق ہیں کہ دنیا میں بالعموم مسلمان حکمران طبقے مسلمان عوام کے افکار واحساسات کے ترجمان نہیں ہیں۔ کیا اُن کی کیفیت امام حسینؑ کے زمانے کے اُن کوفیوں کی سی ہے جن کے بارے میں کہا گیا تھا کہ اُن کے دل تو آپ کے ساتھ ہیں لیکن تلواریں ابن زیاد کے ساتھ ہیں؟ اس کی بہت سی وجوہات بیان کی جاسکتی ہیں۔ کوئی عالمی معاہدوں کو ان کے پاﺅں کی زنجیر کہہ سکتا ہے ، کوئی معاشی کمزوری اورناہمواری کی دلیل پیش کرسکتا ہے، کوئی فوجی اوردفاعی وسائل کی کمی کو عذر کے طور پر ذکر کر سکتا ہے اورکوئی دوستوں کی کمی کا بہانہ پیش کرسکتا ہے۔ ہمارے خیال میں ان سب باتوں میں جزوی صداقت پائی جاتی ہے اوراگر ان حالات سے نکلنے کی کوئی سبیل نہیں تو یاد رکھیے استعماری طاقتیں اپنے منصوبے کے مطابق رفتہ رفتہ قدم آگے بڑھاتی چلی جائیں گی اورمسلمان ریاستوں کواپنی مرضی کے مزید ٹکڑوں میں تقسیم کرتی چلی جائیں گی۔
 
ایسے میں پھر یہ سوال ابھرتا ہے کہ کیا اس” جرم ضعیفی“سے توبہ کا بھی کوئی راستہ ہے؟ کیا بے بسی کے درد کا کوئی درمان ہے؟ ہم کہیں گے کہ ہاں ہے ۔شرط یہ ہے کہ کوئی قائل اور مائل ہوجائے۔ جب تک”تن بہ تقدیر“ کی کیفیت رہے گی ہمارے غم کاچارہ نہیں ہوپائے گا۔
 
آئیے پہلے یہ یقین کریں کہ اس کائنات کا کوئی خدا ہے جس کے اپنے مقاصد اورارادے ہیں۔ امریکہ اس دنیا کا خدا نہیں ہیں۔”کن فیکون“ کی طاقت کا مظہر امریکہ نہیں ہے۔ اگر کوئی کہے کہ یہ کتابی باتیں ہیں تو ہم کہیں گے نہیں، یہ کتابی باتیں نہیںحقیقی باتیں ہیں۔ ہم سامنے کی چند مثالیں عرض کرتے ہیں:
 
کیا عراق میں اس وقت جو صورت حال ہے وہ سب امریکہ کی مرضی کے عین مطابق ہے؟ کیاامریکہ چاہتا تھا کہ وہ عراق سے اپنی افواج تین سال کے اندراندرنکالنے کے معاہدے پردستخط کردے؟ ہرگز نہیں۔ لیکن امریکہ کے علی الرغم یہ معاہدہ طے پا گیاہے۔ ممکن ہے بعض احباب اس معاہدے کی بعض کمزورشقوں کا ذکر کریں۔ نظریاتی طورپر ہم بھی اس سے اتفاق کریں گے۔ ہم تو اس کے مجموعی مثبت پہلو کی نشاندہی کررہے ہیں۔ اسی طرح کیا امریکہ پسند کرتا ہے کہ عراق میں برسراقتدار آنے والی حکومت کے ایران کے ساتھ اچھے تعلقات ہوں لیکن ایسا ہوگیا ہے۔
 
اسرائیل کو فوجی لحاظ سے دنیا کی چوتھی بڑی طاقت سمجھا جاتا ہے لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ اسے حزب اللہ کے چار ہزار گوریلا سپاہیوں نے تاریخ کی عبرت ناک شکست سے دوچار کردیا ہے اورحزب اللہ کی فتح کے اثرات اتنے زیادہ ہیں کہ ابھی تک عرب دنیا پر محسوس کیے جاسکتے ہیں۔
 
پی ایل او پر امریکی اوراسرائیلی مرضی کی قیادت مسلط کرنے کے بعد امریکہ اوراسرائیل مطمئن تھے کہ فلسطین کے نام سے ایک نام نہاد کمزور سی ریاست بنا دیں گے جواسرائیل کے احکام اورمفادات کے تابع رہے گی اوراس کے ذریعے فلسطینی عوام کوکنٹرول اورمطمئن کیا جاسکے گا لیکن حماس کے ظہور نے ان کے خواب چکنا چور کردیے ہیں۔ حماس کی قیادت کوپے درپے قتل کرنے، غزہ کا طویل محاصرہ کرنے اوررات دن نہتے فلسطینیوں کے بے رحمانہ قتل عام کے باوجود اسرائیل حماس کی قیادت کو ابھی تک گھٹنے ٹیکنے پرآمادہ نہیں کرسکا۔
 
ایران کے خلاف امریکہ اوراس کے حواری گذشتہ تین دہائیوں سے تمام تر حربے آزما چکے ہیں لیکن اسے جھکنے پرآمادہ نہیں کرسکے ۔ یہاں تک کہ امریکی قیادت بار ہا ایران کی قیادت کو تبدیل کرنے کے اپنے منصوبے کا اعلان کرچکی ہے لیکن اپنی ناکامی کے بعد آخر کار چند روز قبل امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے اعلان کیاہے کہ وہ ایرانی قیادت ہٹانے کی کوشش نہیں کریںگے۔ ایران کے اسلامی انقلاب کے باغیوں کا ایک بریگیڈجو صدام حسین نے عراق کے اندر بنا رکھا تھا اب اُسے عراق میں پناہ دینے والا کوئی نہیں رہا۔ اسے عراقی حکومت نے ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا ہے۔
 
عالم اسلام ہی سے نہیں ہم عالم اسلام سے باہر کی دنیا بھی بہت سی مثالیں ذکر کرسکتے ہیں جو اس امر کی شہادت دیتی ہیں کہ دنیا میں سب کچھ استعماری خواہشوں کے مطابق نہیں ہوتا۔ خود امریکی عوام نے بش کی جارحانہ پالیسوں کو مسترد کردیا ہے۔ یورپ کے عوام نے جنگجویانہ روش کو ٹھکرا دیا ہے۔ سرمایہ داری نظام جواستعماری پالیسیوں کی ناپاک اورخون آشام جڑ ہے خود ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ دنیا میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کی ہوا کسی وقت اورکہیں سے بھی چل سکتی ہے۔
 
مسلمان حکمران خدا پر بھروسہ کریں، اپنے عوام پراعتماد کریں، آپس میں اتحاد کریں اورظلم وسامراج کو ”نہ“ کہنے کا حوصلہ کریں اورپھر دیکھیں کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ حکیم الامت علامہ اقبالؒ تو پہلے ہی پیش گوئی فرما چکے ہیں:
 

فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

  • …………………………………..
مغرب بوکھلا گیا ہے:
 
الشرق الاوسط کی ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ 30جنوری کو مملکت سعودی عرب کے شہر احساء کے ایک دور دراز دیہات ’’مبرز‘‘ میں نماز جمعہ کے وقت نامعلوم افراد نے دو امریکی افراد پر فائرنگ کی ، جن میں سے ایک معمولی زخمی ہوا، دوسرا محفوظ رہا، ہسپتال میں زخمی کی ٹریٹمنٹ کے بعد جب پولیس حکام نے ان سے یہاں بلاوجہ گھومنے کی وجہ پوچھی ،تو انہوں نے صرف اتنابتایاکہ ہم یہاں احسائی کلچر بچشمِ خود مشاہدہ کرنے آئے تھے، ان کے جو اب سے شرطہ اور موقعے پر موجود میڈیا پرسنز حیران پڑگئے ، کہ سعودی عرب میں خارجیوں کو ویسے بھی ہر ہر شہر جانے کی اجازت نہیں ہوتی ، پھر آخر بلااجازت ان لوگوں کو کیا پڑی تھی ،کہ امریکی شہری ہوکر جو دنیا بھر میں مغضوب ہیں یہاں کیلئے قدم رنجائی کی۔
فرقہ واریت کے شکارایک اور خلیجی ملک بحرین کے دار الحکومت منامہ کے قریب ’’دروز ‘‘ نامی گاؤں سے بھی پچھلے دنوں 6امریکی جاسوس پکڑے گئے، پوچھ گچھ کے دوران انہوں نے بھی یہ بتایا کہ وہ یہاں کا کلچر دیکھنا چاہتے تھے، ہمارے یہاں ایک امریکی دہشت گرد ’’ریمنڈدیوث ‘‘بھی لاہور کی سڑکوں میں مٹر گشت کررہے تھے، جب انہیں دونوجوانوں پرشک ہواکہ وہ ان پر حملہ کرنا چاہتے ہیں ،تو اس نے خود ہی قانون ہاتھ میں لے کر انہیں بے دردی سے شہید کردیا، اسی طرح کراچی ایئرپورٹ پر ایک امریکن پکڑے گئے تھے، جس کے بیگ سے آتشین اسلحہ برآمدہواتھا،عام پولیسی تفتیش کے تناظرمیں میں اگر دیکھا جائے ، تو معلوم ہوتاہے کہ ان واقعات کی کڑیوں میں ذہنی اور فکری ارتباط کی وجہ سے ان حرکتوں کاسرچشمہ ایک ہی معلوم ہوتاہے ، جو احساء سے لے کر لاہور تک میں فرقہ واریت پھیلانے کیلئے زھر اُگل رہاہے ،کچھ رپورٹوں کومدنظر رکھکرمعلوم ہوتاہے کہ اس کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی ہے ، ہماری بے بسی اور بحیثیت عوام وحکمراں کمزوری نے گویااسے پالاہے ، مشہور مغربی مفکر برنارڈ لوئیس اپنے ایک بیان میں کہتاہے: ’’اسلامی بیداری کی تحریک کو روکنے کیلئے ہمیں مسلمانوں کا ’’دوست ‘‘بن کر ان کے اندر تفرقہ اور اختلافات کو پھیلانے کی کوشش کرنی ہوگی ،انہیں مختلف فرقوں اور دھڑوں میں الگ الگ رکھ کر آپس میں لڑانا ہوگا، تب یہ تحریک رک سکتی ہے ،لوئیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ عرب ممالک اینگلو امریکن مفادات کیلئے شدیدخطرہ بن سکتے ہیں ، اس لئے انہیں کمزور قبائلی حکومتوں میں تقسیم کرناہوگا، ان کاکہناہے کہ اس طرح ان کے مختلف ذخائر کو لوٹنا بھی آسان ہوگااور آئندہ کے لئے ان کاخطرہ بھی ٹل جائے گا،اس بدباطن کا یہ بھی کہنا ہے کہ مشرق اوسط کے تمام ممالک میں تفرقہ واختلافات کیلئے ’’زہر ‘‘ کے الگ الگ نسخے تیار کرنے ہوں گے ‘‘۔
 
صرف شرق اوسط نہیں ہمارا ملک پاکستان بھی امریکن ویورپین تھینک ٹینکوں کی زد میں ہے ، کیونکہ پاکستان مستقبل میں اپنے محل وقوع ،مضبوط نظریاتی افواج،افرادی کثرت وذہانت ،معدنی وسائل او رحق پر مبنی دین کے علم بردار ہونے کی وجہ سے ایک ایسی پوزیشن میں آسکتاہے کہ دنیا کے فیصلے یہاں ہوں ،اقوام کی تقدیریں یہاں بنتی ہوں ، اس لئے یہاں بھی جوکچھ ہورہاہے ،فرقہ واریت ،صوبائیت اورنسل پرستی یہ سب باہر کے اشاروں پر ہورہاہے ، ہمارے یہاں اس کا ایک ہی جواب دیاجاتاہے کہ بالفعل او ر برسر زمین کرگذرنے والے تو ہمارے ہی لوگ ہیں ،ارے بابا،منصوبہ اور پروجیکٹ اسی طرح کاہے ،کہ حکمرانوں کی نالائقیوں نے تو زمین ہموار کردی ہے ،لہذاعوام میں غیظ وغضب ہے ہی، لہذااسے بروکار لایاجائے ،باہر سے ایمنڈ دیوث کی طرح ایک دواتالیق ہی کافی ہیں ،مستقبل فوج کشی کی ضرورت نہیں ہے-
نیز پاکستان کے بارے میں وہ ہم سے زیادہ جانتے ہیں کہ یہ ملک خداداد نعمتوں سے مالامال ہے ،اس قوم میں جان ہے ، اسے مقروض رکھو،اسے بے نوررکھو ،اسے بے سکون رکھو،اسے متفرق ومتحارب رکھو،ورنہ یہ ملک اور یہ قوم ہمارے ہاتھ سے نکل جائینگے ،لہذا بوکھلاکر انہوں ہمارے خلاف تانے بانے بُننے شروع کردیئے ،ہمیں باہمی دست وگریباں کردیا، مساجد ومدارس کے جن انسانوں پر فرشتوں کو بھی رشک آتاتھا،انہیں بدنام کردیا، بے وقعت کردیا، میدان کارزار کے نوجوانوں کو دہشت گرد بنادیا، فوج کو مشکوک بنانے کی نامسعودحرکتیں ہورہی ہیں ،قومی زعماء اورسیاتدانوں کو کہیں کا نہیں چھوڑاگیا،ہر طرف سازشوں کے جال بچھ رہے ہیں ، لیکن ہم اتنا بتادینا چاہتے ہیں کہ ان سب چالاکیوں سے مسلمانوں کا بظاہر تو نقصان ہوسکتاہے ، دین اسلام کانہیں ،دین ِبر حق پھیل رہاہے ، پھول رہاہے ، دنیا کے کونے کونے او رگوشے گوشے میں اپنی جگہ بنارہاہے ۔
نورخداہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن 
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایانہ جائے گا
 
گوادر بندگاہ کوفعال ہونے دیں ، جو چین اور براستہ افغانستان روس دونوں ہی کیلئے بین الاقوامی گرم آبی گذرگاہ تک رسائی کا ذریعہ ہوگا، پھر دیکھیں پاکستان کتنی اقتصادی ترقی کرتاہے ، اور روس وچین کے بدولت کتنا محفوظ بنتاہے ، بنیا تو یہ سوچ سوچ کر گھائل ہورہاہے کہ اگر پاکستان ان دوعظیم ملکوں اور تہذیبوں کا گیٹ وے بن جاتاہے ،تو اس کے کشش کے سامنے قطر اور دبی بھی کچھ جاذبیت نہیں رکھیں گے ، اور امریکن یہودی شیطان عنصر بھی اس کو بخوبی سمجھ سکتاہے ، اسی لئے انہوں نے اس کیلئے بہت پڑھت لکھت کررکھی ہے ،امریکی سرپرستی میں ادارہ(RAND Corporation) کی 217صفحات پر مشتمل (Building Moderate Muslim Networks) کے نام سے تیارکردہ پلان پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
 
مڈل ایسٹ کا موجودہ نقشہ تبدیل کر نے کے لئے عرب ممالک میں جاری فساد بھی انہوں نے کرائے ہے ،عراق ،شام ،لبنان ، فلسطین ،اردن ، یمن اور لیبیا کے بعد ان کا ہدف خلیجی ممالک اور مصر ہیں ،بالخصوص مملکت سعودی عرب ،کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اگر اسلامی دنیا کو لائق فائق اور ژرف نگاہ قیادت میسر آگئی ،جو اپنی بکھری قوت کو یکجا کرکے استعمال کرنے کا گُر جانتی ہو، تو وہ دن دور نہیں کہ مغرب کی بالادستی کا طلسم چکنا چور ہوجائے گااور مسلم دنیا قیادت وجہاں بانی کی نئی بلندیوں تک بڑی آسانی سے پہنچ جائیگی ،انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ مغرب کے منصف مزاج پڑھے لکھے لوگوں کے دلوں میں اسلام نے اپنا رنگ جمالیاہے ،اس لئے وہاں شیطان صفت لوگوں کو اپنے پیروں تلے زمین کھسکتی ہوئی نظر آرہی ہے ، کیونکہ مسلمان اس وقت مغرب ومشرق کے تمام ممالک میں اپنے تہذیبی ،تمدنی او رپختہ مذہبی وجود کے ساتھ میدان میں ہیں، یہی وہ متعددوجوہات ہیں جن کی وجہ سے ان میں اسلاموفوبیا(Islamophobia)کی لہردوڑ گئی ہے ۔
By Shaikh Wali Khan AlMuzaffar, Karachi: http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=57619
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~