قادیانیت کے وجود کو ایک صدی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے مگر بحث ، دلائل ، جوابی دلائل مناظرے تسلسل سے جاری ہیں اور جاری رہیں گے جب تک وہ اس قانونی، شرعی حقیقت کو دل سے تسلیم نہیں کر لیتے کہ قادیانیت، اسلام سے علیحدہ مزہب ہے یا پھر وہ اپنے قرآن و سنت سے ماورا بنیادی عقائد و نظریات سے رجوع نہیں کر لیتے- یاد رہے کہ فروعی، فقہی اختلافات اسلام کے بنیادی دائرہ کے اندر ہوتے ہیں جن پر درگزر کی جاسکتی ہے، دائرہ کے باہر دوسرے ادیان ہوتے ہیں۔ جس طرح ایران میں “بہائیت” نے اسلام سے تعلق ختم کیا تو مسلمانوں کو ان پر کوئی اعتراض نہیں رہا اب بہائی کس دوسرے مذھب جیسے ، سکھ ، ہندو ،مسیحی کی طرح پریکٹس کرنے میں آزاد ہیں ان کا بھی قادیانیت کی طرح اسرائیل میں سیٹ اپ قائم ہے-
ختم نبوت کوئی لوکل مسلہ نہیں اس پر چودہ سو سال سے قرآن و سنت کی روشنی میں صحابہ اور علماء کا مکمل اجماع ہے کہ آپﷺ کے بعد کوئی نبی یا رسول نہیں ہے، جو ایسا دعوی کرے وہ اور اس کو ماننے والے کافراسلام سے خارج ہیں- ان کو یہ حق کس نے دیا ؟ یہ الله کے احکام اور رسول ﷺ اور صحابہ کی سنت کی بنیاد پر اجماع ہے- جو عقائد و اعمال بظاھر نظر اتے ہیں ان کا شریعت کے احکام کی بنیاد پر اس دنیا میں فیصلہ کیا جاتا ہے- اگر کوئی نشہ کرتا ہے زنا کرتا ہے بغاوت کرتا ہے تو یہ نہیں کہ فیصلہ قیامت پر چھوڑ دیا جایے- دنیا میں شریعت کے مطابق انصاف سے فیصلہ اور سزا دی جاتی ہے- اگر مجرم سے کوئی زیادتی ہو تو آخرت میں الله اس کو انصاف دیں گیں- اس لئے نبوت کا دعوے دار شاید ہی ملے مگر مہدی کے دعویدار تاریخ میں بہت ملتے ہی جو کہ نبی نہیں- قرآن نے محکم آیات میں واضح کر دیا:
مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَٰكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا ﴿٤٠﴾
( مسلمانو ! ) محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ، لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں ، اور تمام نبیوں میں سب سے آخری نبی ہیں ، اور اللہ ہر بات کو خوب جاننے والا ہے (33:40 )
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان نے اس آیت کی تشریح میں کوئی ابہام نہیں چھوڑا ، آپ ﷺ نے فرمایا:
’’ میری اور مجھ سے پہلے گزرے ہوئے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسی ایک شخص نے ایک عمارت بنائی اور خوب حسین و جمیل بنائی مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوٹی ہوئی تھی۔ لوگ اس عمارت کے گرد پھرے اور اس کی خوبی پر اظہارِ حیرت کرتے تھے ، مگر کہتے تھے کہ اس جگہ اینٹ کیوں نہ رکھی گئی؟ تو وہ اینٹ میں ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں‘‘ (یعنی میرے آنے پر نبوت کی عمر مکمل ہو چکی ہے ، اب کوئی جگہ باقی نہیں ہے جسے پُر کرنے کے لیے کوئی آئے ) [ ترجمہ – مسلم، ترمذی، ابو داوٗد،مُسند احمد]
محمد رسول اللهﷺ پر نبوت کا سلسلہ ختم کر دیا- اب کسی پر جبرئیل علیہ السلام وحی لے کر نازل نہ ہوں گے- اگر مرزا صاحب کو ایسا محسوس ہوتا ہے یہ ان کا وھم ہے، جس کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں، اب نبووت کی کامل عمارت میں کسی قسم کی کچی ، پکی ، سفید ، سرخ . چھوتی ، بڑی اینٹ نہیں لگا سکتے اپنی مرضی کی تاویل سے اس کی نہ گنجائش ہے نہ ہی ضرورت ہے- نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح ، کھلے الفاظ میں قرآن کی آیات کی تشریح کر دی- اس کے بعد اب کسی کی تفسیر، تاویل سے اس کو تبدیل نہیں کر سکتے- ایسا کرنا الله تعالی اور رسول اللہ ﷺ کی حکم عدولی ، نا فرمانی ہے جس کی سزا ابدی جہنم ہے جو “کفر” کی سزا ہے- اب الفاظ کے کھیل سے کچھ حاصل نہیں-
اس محکم آیت (33:40) میں چودہ سو سال سے “خَاتَمَ النَّبِيِّينَ” کا مطلب آخری نبی ہے جس کے بعد کوئی اور نبی نہیں مگر مرزا صاحب اس کا معنی بدل کر مہر (stamp) قرار دیتے ہیں تو پھر چودہ صدیوں میں بہت نبی ہونے چاہیئں جن پر مہر لگی ہو؟ اور آیندہ بھی سلسلہ جاری رہے؟ لیکن ایسا نہیں ہے- قرآن میں معنوی تحریف بھی کفر ہے-
اسلام کی (Identity) شناخت ، (Dignity) وقار , قادیانیت اور فرانسس فوکویاما (Francis Fukuyama) کی پولیٹکس آف ریز نٹمنٹ
اگر گہرائی سے غورو فکرکریں تو یہ انکشاف ہوتا ہے کہ قادنیت کا اسلام سے اختلاف صرف مذہبی نہیں بلکہ سیاسی بھی ہے، مسئلہ “شناخت” (Identity) کا ہے- دینی اور سیاسی شناخت کیونکہ اسلام مکمل نظام حیات ہے ، دین ہے محض مذھب نہیں کہ کچھ بنیادی عقائد پر ایمان لاو، عبادات کرو، اور ختم – معامله ایمان اور عبادات پر ختم نہیں ہوتا بلکہ ان پر دین اسلام کی بنیاد کھڑی ہے- اسلام کا اپنا معاشی ، سیاسی ، قانونی، معاشرتی نظام ہے جس کے مقابل دنیا میں مغربی سرمایہ دارانہ نظام کھڑا ہے- اسلام اپنی “شناخت” (Identity) سے نہ دستبردار ہو سکتا ہے نہ اپنی شناخت (identity) کسی سے شئیر کر سکتا ہے- اس کو سمجھنے کے لئے ایک کتاب پر نظر ڈالنا ہو گی- مسلمانوں کو ” فوکویاما” یا کسی مغربی مفکر سے کچھ سیکھنے کی بجایے ان کی فکر کا تجزیہ کرنا ہے تاکہ ان سے اچھے طریقہ سے (coexist) کر سکیں اور ان کی شاطرانہ چالوں کو سمجھ کر سدباب کیا جا سکے-
Identity: Demand for Dignity and the Politics of Resentment by Francis Fukuyama
“شناخت: وقار کا مطالبہ اور ناراضگی کی سیاست” فرانسس فوکویاما (Francis Fukuyama) کی کتاب ہے– “فرانسس فوکویاما” ایک امریکی سیاسی سائنس دان، ماہر معاشیات، اور مصنف ہیں۔ فوکویاما کو اس کی کتاب The End of History and the Last Man کے لیے جانا جاتا ہے، جس میں یہ دلیل دی گئی کہ دنیا بھر میں لبرل جمہوریتوں کا پھیلاؤ اور مغرب کی آزاد منڈی کی سرمایہ داری اور اس کا طرز زندگی انسانیت کے سماجی ثقافتی ارتقاء اور سیاسی جدوجہد کے اختتامی نقطہ کی طرف اشارہ کر سکتا ہے۔ انسانی حکومت کی آخری شکل- اس پر اسے تنقید کا سامنا کرنا پڑا-
“شناخت”(Identity) وضاحت کرتی ہے “شناخت کی سیاست کے ارتقاء” کی اور یہ کہ وہ کس طرح گہری سیاسی تقسیم کی طرف لے جاتی ہے، اس بارے مصنف تجاویز دیتا ہے کہ ہم اس بڑھتے ہوئے مسئلے کو ختم کرنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔
انسانوں کے طور پر، بہت گہرائیوں میں قابل قبول (fit) ہونے کی ضرورت ہے. پوری انسانی تاریخ میں، گروہوں میں اکٹھا ہونا بقا کے لیے ضروری تھا۔ آج، ہم اب بھی اپنے آپ کو ایک مشترکہ مقصد کے ساتھ گروپوں میں اکٹھا ہونا پسند کرتے ہیں۔ جب یہ گروہ ایسے لوگوں کے ساتھ ہوتے ہیں جو ہمارے ساتھ جنس، جنسی رجحان، سیاسی جماعت، یا مذہب جیسی خصلتوں کا اشتراک کرتے ہیں، تو اسے شناختی سیاست (identity politics) کہا جاتا ہے۔ اس طرح کے گروہوں میں حالیہ دنوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے، اور اگرچہ ہمیں اپنی شناخت پر فخر ہونا چاہیے، لیکن ان کا رجحان ہمیں لوگوں کے طور پر تقسیم کرنے کا ہے۔
کتاب “شناخت: وقار کا مطالبہ اور ناراضگی کی سیاست” میں فرانسس فوکویاما نے شناخت کے ارتقاء کی تلاش کی اور صرف اپنی طرح کے لوگوں کے ساتھ شناخت کے مسائل کی وضاحت کی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ہم قومی عقائد کو بانٹنے کی اہمیت کو بھول چکے ہیں، اور اب ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ ایک ایسی شناخت حاصل کرنے کی ضرورت ہے جو ہماری جمہوریت کو کمزور کرنے کے بجائے اس کی حمایت کرے۔
اس کتاب سے تین اہم نتائج اخذ کر سکتے ہیں:
- ہم چاہتے ہیں کہ ہم پر وقار ہوں اور لوگ ہماری قدر کو پہچاننے کے خواہاں ہیں۔
- شناختی سیاست کے عروج سے سیاسی بایاں بازو (left) ٹوٹ چکا ہے جو قوم پرستی کو راستہ دے رہے ہیں۔
- ہم مزید جامع شناختی گروپ بنا کر تقسیم کو کم کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔
[نوٹ : وہ جماعتیں بایاں بازو کہلاتی ہیں جو روایتی نظام اور قدامت پسندی کے مخالف ہوں. معاشرتی نفع و نقصان کو ایک طرف رکھ کر تیز رفتاری سے تبدیلیوں کے حامی ہوں. پہلے سے موجود نظام میں بنیادی تغیر کے خواہاں ہوں. اور اسکے عین برعکس وہ جماعتیں دایاں بازو کہلاتی ہیں جو کہ روایتی نظام کے حق میں ہوں. وقت کے لحاظ تبدیلی کے خواہاں تو ہوں مگر آہستہ آہستہ. پہلے سے موحود بنیادی روایات اور قوانین کو ساتھ لے کر چلنے کی سوچ رکھتی ہوں. جبکہ وسطی جماعتیں اقتدار کی ہوس میں ہونے والی جنگوں اور بگڑتی ہوئی اخلاقی صورتحال کی بدولت اپنا نظریاتی وجود کھو چکی ہیں البتہ علامتی اعتبار سے آج بھی ان جماعتوں کو وسطی جماعتیں کہا جاتا ہے جو معتدل مزاج کی حامل ہوں. روایات اور قدامت کی جھلک بھی برقرار رکھنا چاہتی ہوں اور جدت کی خواہاں بھی ہوں.]
کیا آپ یہ جاننے کے لیے تیار ہیں کہ ہماری سیاست اتنی تقسیم کیوں ہو گئی ہے، اور جانیں کہ ہم اس کے بارے میں کیا کر سکتے ہیں؟
تجزیہ
اسلام کو کسی اور گروپ کی ضرورت نہیں اسلام خود ہی ایک جامع شناختی گروپ ہے جس کے اتحاد کو ہر صورت برقرار رکھنا ہے جو تمام مسلمانوں کو بین الالقوامی شناخت مہیا کرتا ہے جس کا ایک مظاھرہ حجج میں دیکھا جا سکتا ہے- قرآن الله کی رسی سے جو سب مسلمانوں کو متحد رکھ سکتا ہے- قادیانیت اور اس طرح کے گروہ اسلام کی شناخت کو کمزور کرنے کے لئے وجود میں آتے ہیں مگر قرآن کی بینیاد پر اسلامی تعلیمات محفوظ اور موثر ہیں کہ ان پر عمل کسی بھی سٹرٹیجی کو ناکام کر سکتا ہے-
نتیجہ – 1: بحیثیت انسان، ہم دوسروں سے وقار اور پہچان چاہتے ہیں۔
ہم انسان تسلیم کیے جانے کے لیے ترستے ہیں۔ یہ انسان کی نیچرکا ایک قدرتی حصہ ہے، قدیم یونان میں، سقراط نے اس کا نام (thymos) رکھا – اگر ہم اپنے ارد گرد کے لوگوں سے اپنی قدر کے بارے میں مثبت فیصلے حاصل کرتے ہیں، تو اس سے ہمیں خوشی اور قدر کا احساس ہوتا ہے۔ جب ہم ایسا نہیں کرتے ہیں، تو یہ ہمیں کم قدر یا شرمندہ محسوس کر سکتا ہے۔ تھاموس (Thymos) ہماری روح کا ایک الگ حصہ ہے جو ہماری عزت اور قدر کے بارے میں دوسروں سے مثبت فیصلوں کی خواہش رکھتا ہے۔ جب آپ کو کسی کامیابی پر انعام ملتا تھا تو آپ کس قدر خوشی محسوس کر تے تھے- تھیموس (Thymos) شناخت کی سیاست کو سمجھنے میں اہم ہے کیونکہ اس کا تعلق شناخت کے لیے لڑنے والے مخصوص گروہوں سے ہے۔
تجزیہ
اسلام اپنی شناخت میں کوئی ملاوٹ قبول نہیں کرتا وہ خالص حالت میں دین کامل (Perfected Faith) ہے، اس کو حاصل کرنا ایک مسلمان کے لئے بہت خوشی کا باعث ہو سکتا ہے کیونکہ یہ راستہ مہیا کرتا ہے آخری منزل کی طرف جو الله تعالی کی خوشنودی کا راستہ ہے- انسانوں کی بھلائی اور خدمت اور انسانی حقوق کی ادائیگی کو حقوق الله تعالی پر ترجیح سے مختصر وقت میں بہترین تہذیب اور معاشرہ معرض وجود میں آیا جس کی انسانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی- یہ اب بھی ممکن ہے اور یہ انفرادی اور مشترکہ شناخت کو تسلیم کرنے کا تھاموس (Thymos) ہے جس کا اگلی زندگی میں بھی فائدہ حاصل ہوتا ہے-
نتیجہ 2: قوم پرستی میں اضافہ
تقسیم کرو اور فتح حاصل کرو (Dividing and conquering) ایک موثر فوجی حکمت عملی تھی جسے برطانوی استعمار نے استعمال کیا جب وہ نوآبادیات بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ مزاحمت کو دبانے کے لیے کالونی کے اندر تقسیم کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ آج کی دنیا میں شناخت کی سیاست کا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں بھی ایسا ہی اثر ملتا ہے۔ اس نے حالیہ دنوں میں سیاسی لیفٹ کو توڑا ہے۔ معاشی مساوات سے متعلق بائیں بازو کا زوال دولت کی عدم مساوات کے عروج کے ساتھ ہی ہوا۔ اور یہ عدم مساوات آج پہلے سے کہیں زیادہ بدتر ہے۔ فوکویاما کا استدلال ہے کہ ان کی شناخت کی سیاست انہیں عدم مساوات کی وسیع وجوہات میں مدد کرنے کے قابل ہونے سے روکتی ہے۔
تجزیہ
تقسیم کرو اور فتح حاصل کرو (Dividing and conquering) کی ایک واضح شکل “قادنیت” ہے یہ دین اسلام جو کہ ایک نظام ہے اس کو دیمک کی طرح کھوکھلا کرنے کے لئے برطانوی استعمار نے میں لانچ کیا- ایران والوں نےباب شیرازی کو 1850پھانسی دے کر قصہ ختم کر دیا جبکہ ادھر انگریز کی سرپرستی اپ بھی جاری ہے- مرزا قادیانی کا مقصد اگر کوئی فرقہ بنانا ہوتا تو وہ امام ، خلیفه ، ولی الله ، پیر، مجدد، مہدی کچھ بھی بن کر حاصل کر سکتا تھا مگر اس صورت میں “قادیانت” دائرہ اسلام میں رہ کرپھر بھی ایک ذیلی فرقہ ہی رہتا- بارہ صدیوں کے بعد بھی شیعہ ایک فرقہ ہے- اسلام پر مکمل طور پر قابض ہونے کے لئے شیطان کو ایک نقلی نبی کی ضرورت ہے جو کہ کچھ مزید صدیوں کے بعد جب قادنیت پاوں جما لے تو پھر خاتم النبیین محمد رسول اللهﷺ کے مقابل متبادل کے طور پر پیش کیا جا سکے- حالات کے مطابق خفیہ جعلی وحی کے صحائف ، کاغذ یا کتب یا کوئی مہر شدہ کسی اورنقلی نبی یا نبیوں کی آمد کا راستہ کھلا رکھا گیا ہے- یہ تو علماء حق کو داد دینا پڑتی ہے کہ انہوں کوئی کسرنہ چھوڑی اور قادنیت کو آیین پاکستان میں غیر مسلم قراردلوایا اور تسلسل سے اس موضوع پر آیینی ترامیم کو ناکارہ کرنے کی تمام پے در پے کوششوں کوناکام کرتے چلے آرہے ہیں- سلام ہے علماء حق پر، جزاک الله –
نتیجہ 3: مزید شامل گروپ (inclusive groups)
اگر ہم مزید شامل گروپ (inclusive groups) بنائیں تو آج سیاست کی پولرائزڈ صورتحال کو بہتر کر سکتے ہیں۔ ٹھیک ہے، تو ہر کوئی اپنی انفرادی شناخت کے لیے لڑ رہا ہے ہم سب کو مزید پولرائز کر رہا ہے۔ لیکن ہم سے اپنی شناخت ترک کرنے کی توقع نہیں کی جا سکتی، ٹھیک ہے؟
فوکویاما دلیل دیتے ہیں کہ یہ آپ کی شناخت کو ترک کرنے کے بارے میں نہیں ہے، یہ آپ کی شناخت کو مزید جامع بنانے کے بارے میں ہے۔ اس کے لیے وہ ایک نظریہ دیتا ہے وہ ہے قومی شناخت کو تقویت دینا۔ نسل، جنس یا مذہب کی شناخت کرنے کے بجائے، ہمیں کسی ملک کے اخلاق، سیاسی نظام، اور انسانی حقوق سے وابستگی پر مشترکہ یقین کی ضرورت ہے۔ یہ حفاظتی فوائد فراہم کرتا ہے کیونکہ ملک اندرونی تنازعات کا کم شکار ہو گا، زیادہ موثر حکومتیں بناتا ہے، اور اعتماد کو آسان بناتا ہے، جو کہ اتحاد کے لیے ضروری ہے۔
وہ ایسے طریقے پیش کرتا ہے جن سے ہم قومی تشخص کو تشکیل اور تقویت دے سکتے ہیں۔ سب سے پہلے امتیازی سلوک کو ختم کرنے سے شروع ہوتا ہے، جو شناخت کی سیاست کی طرف لے جاتا ہے۔ وہ یہ بھی تجویز کرتا ہے کہ تارکین وطن کو زبان سیکھ کر اور اقدار کے بارے میں جان کر ایک نئے ملک میں انضمام کے لیے زیادہ پرعزم ہونا چاہیے۔ لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ تارکین وطن کا خیرمقدم کریں اور مواقع تلاش کرنے میں ان کی مدد کریں۔ دیگر سفارشات میں اسکولوں کی سیکولرائزیشن اور ایک یا دو سال درکار قومی خدمات شامل ہیں۔
تجزیہ
اسلام ایک بہت بڑا ” شامل گروپ” (inclusive groups) مہیا کرتا ہے جس میں مختلف فقہ پر عمل پیرا گروپس اختلافات کے باوجود اکٹھے ہو کر شریک موجود (coexist) رہ سکتے ہیں جیسا کہ سنی فقہ اربعہ ایک زندہ مثال ہے- اس میں دوسروں کے لئے بہت وسیع مواقعہ ہیں- قرآن ایک نام اسلام ، مسلم بہت بڑی شناخت مہیا کرتا ہے- مسلمانوں کو کسی اور اخلاق، سیاسی نظام، اور انسانی حقوق سے وابستگی کی ضرورت نہیں قرآن سب کچھ مہیا کر تا ہے- اسلام دین کامل میں قادیانیت یا کس اور نا خالص نظریہ کی ملاوٹ کی نہ ضرورت ہے نہ ہی اس کی اجازت دی جا سکتی ہے اس پر اصرار صرف مزاحمت کو پڑھا سکتا ہے جس کے نتائج بہت خوفناک ہو سکتے ہیں- قادیانیت کو بہایت کی طرح اپنا راستہ الگ کرنا ھوگا اپنی شناخت (identity) پر کام کرنا ہو گا یا تائب ہو کر اسلام میں شامل ہو کر دنیا اور آخرت میں فلاح حاصل کریں- یہ ان کا اپنا چوائس ہے!
اس کتاب پر نظر ڈالننے کا مقصد ” فوکویاما” یا کسی مغربی مفکر سے کچھ سیکھنے کی بجایے ان کی فکر کا تجزیہ کرنا ہے تاکہ دنیا سے اچھے طریقہ سے (coexist) کر سکیں اور ان کی شاطرانہ چالوں کو سمجھ کر سدباب کیا جا سکے- اس پر مزید تفکر اور تحقیق کی ضرورت ہے-
پڑھیں : قادنیت پر اکثر پوچھے جانےوالےسوالات اور جوابات (FAQs) ….
Khatm-e-Nabuwat-Qadyaniat ختم نبوت اور قادیانیت- تحقیقی جائزہ
مہدیت
اسلامی روایت کے مطابق آخر زمانے میں ظاہر ہونے والی شخصیت “مہدی” ہیں جو قیامت سے قبل دنیا میں آئیں گے اور دنیا کو ظلم سے نجات دلائیں گے، ناانصافی اور جبر کا خاتمہ کر دیں گے- حضرت مہدی امت میں ایک مجدد کامل اور ایک عادل کا درجہ رکھتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ انبیا کرام علیہم السلام میں سے نہیں ہوں گے بلکہ اللہ تعالی کے مقرب و برگزیدہ بندے ہوں گے۔
علمائےاہل سنت کے مطابق حضرت مہدی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیٹی فاطمۃ الزھراء اور علی بن ابی طالب کی نسل سے ہوں گے۔ ان کا نام محمد ہوگا اور کنیت ابو القاسم ہوگی۔ وہ ابھی پیدا نہیں ہوئے مگر پیدا ہونے کے بعد وہ باقاعدہ حضرت عیسیٰ کے ساتھ مل کر کفار و مشرکین سے جنگ کریں گے اور ایک اسلامی حکومت قائم کریں گے۔ ان کی پیدائش قیامت کے نزدیک ہوگی۔ اور ان کا ظہور مشرق سے ہوگا اور بعض روایات کے مطابق مکہ سے ہوگا۔ ان کے ظہور کی نشانیاں بھی کثرت سے بیان کی گئی ہیں۔ اس سلسلے میں احادیث اہل سنت کی کتب میں موجود ہیں.
شیعہ اہل سنت کی کچھ روایات سے اتفاق کرتے ہیں مگر یہ کہتے ہیں کہ حضرت مہدی پیدا ہوچکے ہیں اور امام حسن بن علی عسکری کے بیٹے ہیں یعنی ) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیٹی فاطمۃ الزھراء اور علی کی نسل سے ہیں۔ وہ اب غیبت کبرٰی میں ہیں اور زندہ ہیں یعنی ان کی عمر خضر اور عیسی مسیح کی طرح بہت لمبی ہے۔ وہ قیامت کے نزدیک ظاہر ہوں گے۔
حضرت عیسی عیلہ السلام کی قیامت سے قبل دنیا میں واپسی سے قبل تیاری کریں گے یہ نظریات احادیث سے ماخوز ہیں- مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ مہدی وسیع دنیاوی اختیارات، روحانی طاقتیں اور ولایت کے حامل ہوں گے۔ شیعہ ان کو امام مہدی کہتے ہیں جو ان کے بارہویں امام غائب کی واپسی ہے- سنی اسلام میں مہدی یعنی ھدایت یافتہ نیک ، متقی پرہیز گار اہل بیت سے ہوں گے- وہ نبی یا رسول نہیں ہوں گے کیونکہ نبوت رسول اللہ ﷺ پر ختم ہو چکی-
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، عنقریب تم میں ابن مریم اتریں گے، جو انصاف کے ساتھ فیصلہ فرمائیں گے، صلیب کو توڑیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، جزیہ موقوف کر دیں گے، اور اس وقت مال اتنا زیادہ ہوجائے گا کہ اسے کوئی بھی قبول نہ کرے گا۔ (بخاری، مسلم، صحاح ستة، کتاب الايمان، باب نزول عيسی ابن مريم، کتاب الفتن)
دیگر بہت سی احادیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ عیسٰی علیہ السلام کے نزول کے وقت مسلمانوں کے امام، امام مہدی علیہ السلام ہوں گے اور عیسٰی علیہ السلام اس ہدایت یافتہ امام کی اقتداء میں نماز ادا کریں گے- [یعنی وہ محمد رسول اللهﷺ خاتم النبیین کے امتی ہوں گے نہ کہ نبی ( إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ) ]
منکرین حضرت مہدی
شیعہ و سنی کے ہاں جہاں حضرت مہدی کی آمد یا پیدائش کے قائل ہیں وہیں معاصر علما میں سے ایک تعداد حضرت مہدی کے وجود یا ان کی آمد کو نہیں مانتے،بلکہ ان کے خیال میں اسلامی منابع حدیث میں تصور حضرت مہدی دراصل یہودیوں یا اسرائیلی روایات میں سے ہیں۔ چنانچہ عہد حاضر میں چند علما وجود حضرت مہدی پر یا ان کی آمد پر تحفظات رکھتے ہیں۔
مثلا عراق کے گیارہ امامی عالم احمد الکاتب کے نزدیک وجود حضرت مہدی اور ان کی آمد ثابت ہی نہیں۔ چنانچہ انہوں نے اس موجوع پر پانچ کے قریب کتابیں لکھی ہیں۔ ان سے قبل ایران کے مجتہد سید ابوالفضل برقعی قمی نے شیعہ کتاب حدیث بحار الانوار جلدنمبر 51،52 اور 53 میں موجود روایات پر تحقیق کر کے ایک کتاب بررسی علمی در احادیث مہدی لکھی” جس میں بحار الانوار کی تینوں جلدوں میں موجود روایات کا سند و متن کے لحاظ سے رد کیا گیا۔ یہی روش پاکستان کے عالم سید علی شرف الدین موسوی نے اپنایا اور شیعہ و سنی دونوں کتب میں موجود روایات حضرت مہدی پر تحقیق کی اور اپنی کتاب باطنیہ کے حصہ دوم میں کئی سو صفحات پر اس کا رد کیا ہے۔
ایران میں معاصر عالم سیدمصطفیٰ ھسینی طباطبائی کے نزدیک بھی حضرت مہدی کے متعلق روایات قابل اعتبار نہیں۔ عبد اللہ آل محمود قطر کے سلفی عالم نے ایک کتاب التحقيق المعتبر في أحاديث المهدي المنتظر لکھی ،جس میں حضرت مہدی کے متعلق تمام احادیث کا جائزہ لیا اور نتیجہ اخذ کیا کہ مہدی کے متعلق ایک بھی قابل اعتبار روایت نہیں اسی لیے بخاری مسلم نے یہ روایات قبول نہیں کیں۔
علامہ البانی نے اس رسالہ کے رد کرتے ہوئے ایک تحریر لکھی تھی،علیگڑھ ۔انڈیا کے ایک شخص راشد شاز دربھنگوی نے بھی حضرت مہدی کی آمد کا انکار کیا ہے جس کی وجہ سے معروف مسلم اداروں نے اسے ضال ومضل قرار دیا۔
برصغیر میں علامہ اقبال، مولانا عبیداللہ سندھی، علامہ تمنا عمادی، علامہ طاہر مکی، علامہ حبیب الرحمٰن کاندھلوی اور ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی وغیرہم اس عقیدے کی صحت کے قائل نہیں تھے ۔ سید مودودی بھی اس عقیدے کی من و عن تفصیلات کی بابت تحفظات کا شکار تھے۔ علامہ ابن خلدون نے اپنے مقدمہ میں اس عقیدے کی نفی کرکے اس عقیدے سے متعلق احادیث پر جرح نقل کی ہے جس کو اکثر اہل حدیث و سلفی علما نے کالعدم قرار دیکر ان احادیث کی صحت کا فتویٰ دیا ہے۔
تاہم معاصر سلفی علما میں سے “الشيخ سیدعبدالله بن زيد آل محمود الشريف حسنی الہاشمی” جو قطر کے مشہور اور جید سلفی عالم اور مفتی اعظم قطر تھے اور جن سے نجد،قطر اور حجاز وغیرہ کے بڑے بڑے سلفی علما نے دینی تعلیم حاصل کرکے کسب فیض کیا اور ان کے دروس میں شریک ہوئے. آپ مہدی منتظر کے عقیدہ (پیدائش،آمد،وجود،خروج) کے قائل نہ تھے ۔
شیخ عبد اللہ بن زید اپنی اس کتاب میں لکھتے ہیں کہ: “جب ہم خود کو سلفی مسلمان کہتے ہیں،اور ہمارا عقیدہ اہل سنت والجماعت کا ہے تو ہمیں حق و قول صدق کو لازم پکڑنا چاہیے” پھر آگے لکھتے ہیں:”جب ہم مہدی سے متعلق احادیث کو پڑھتے ہیں تو ان کی صحت و صلاحیت ،اور اس پر اعتقاد کے حوالے سے تحقیق اور پڑھنے کے بعد یہ یقین ہو جاتا ہے کہ اس حوالے سے روایات تعارض و اختلاف کا شکار ہیں۔۔۔اشکالات ہیں۔علما محققین متاخرین اور بعض متقدمین نے ان روایات پر حکم لگایا ہے کہ یہ رسول اللہ ﷺکی زبان سے مصنوع و موضوع روایات ہیں۔اور یہ روایات آپ ﷺ کا کلام نہیں ہیں ۔نہ اس مجہول شخص سے متعلق روایات صحیح ہیں، نہ یہ متواتر ہیں، نہ صریح ہیں۔ شیخ مزید لکھتے ہیں: “بعض لوگ کہتے ہیں شیخ الاسلام ابن تیمیہ ان روایات کو درست مانتے تھے؟ میں کہتا ہوں ہاں میں نے بھی شیخ الاسلام کا قول پڑھا ہے جس میں وہ خروج مہدی کے اثبات کو لاتے ہیں 7 احادیث جنہیں ابوداود نے ذکر کیا ہے،میں بھی اپنی زندگی کے ابتدا میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا ہی عقیدہ رکھتا تھا اس حوالے سے،اور میں ان کے قول سے متاثر بھی تھا، لیکن جب میں 40 سال کا ہو گیا اور علوم و فنون میں مہارت حاصل کی ،اور احادیث مہدی کے معرفت ،علل و تعارض اور اختلاف کو سمجھنے کے قابل ہوا، تو میں نے یہ برا عقیدہ چھوڑ دیا الحمد اللہ۔ اور میری معرفت یہ بن گئی کہ بعد از رسول اللہ ﷺ اور بعد از کتاب اللہ کوئی مہدی نہیں،اور بے شک شیخ الاسلام ابن تیمیہ ہمارے محبوب ہیں لیکن وہ ہمارے رب یا نبی نہیں۔” ائمہ اربعہ میں سے امام ابوحنیفہؒ امام مالک ؒاور امام شافعی ؒ سے اس عقیدے کی نفی و اثبات دونوں کی بابت کچھ نہیں ملتا تاہم امام احمد بن حنبل ؒ کی مسند احمد میں مہدی سے متعلق احادیث پائی جاتی ہیں- دوسری طرف کھا جاتا ہے کہ “انکار مہدی کفر ہے“ [واللہ اعلم بالصواب]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، عنقریب تم میں ابن مریم اتریں گے، جو انصاف کے ساتھ فیصلہ فرمائیں گے، صلیب کو توڑیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، جزیہ موقوف کر دیں گے، اور اس وقت مال اتنا زیادہ ہوجائے گا کہ اسے کوئی بھی قبول نہ کرے گا۔ (بخاری، مسلم، صحاح ستة، کتاب الايمان، باب نزول عيسی ابن مريم، کتاب الفتن)
دیگر بہت سی احادیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ عیسٰی علیہ السلام کے نزول کے وقت مسلمانوں کے امام، امام مہدی علیہ السلام ہوں گے اور عیسٰی علیہ السلام اس ہدایت یافتہ امام کی اقتداء میں نماز ادا کریں گے- [یعنی وہ محمد رسول اللهﷺ کے امتی ہوں گے نہ کہ نبی ( إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ)]
اب اگر کوئی نبوت کا دعویدارشخص اپنے والدین کا رکھا نام ترک کرکہ یا بطور لقب اپنے آپ کو “مہدی” کہے یا “عیسیٰ بن مریم” کہے تو وہ کس کو دھوکہ دے رہا ہے یا بیوقوف بنا رہا ہے؟ یہ دلیل کہ پیغمبروں کے نام رکھنا عام ہے جیسے عیسیٰ ، موسی ، ابراہیم ، نام رکھنے سے کوئی پیغمبر تو نہیں بن جاتا – درست مگر “عیسیٰ بن مریم” نام کون رکھتا ہے اور کیوں؟ ” محمد” نام رکھنا مسلمان کا اعزاز ہے مگر کیا کوئی اپنا نام “محمد بن عبدللہ بن عبدالمطلب” رکھتا ہو اور نبوت کا دعوی بھی کرے تو؟
مہدی ہونے کے جھوٹے دعویدار
اسلامی دنیا میں مہدی ہونے کا دعوی کرنے والی کئی شخصیات سامنے آچکی ہیں۔ بالخصوص سعودی عرب، افریقا، جنوبی ایشیا وغیرہ میں متعدد مسلمان افراد نے اس کا دعوی کیا اور یہ دعوی بہت پہلے سے لوگ کرتے آ رہے ہیں۔
مہدویت کے دعویدار [المتمہدیون] یا مہدی ہونے کے جھوٹے دعویدار وہ لوگ ہیں جو تاریخ میں جھوٹے دعوے کرکے خود کوامام مہدی کہلوائے یا وہ جنہوں نے خود کوئی دعوی نہیں کیا لیکن لوگوں نے لاعلمی اور نادانی یا بعض مقاصد کے حصول کی غرض سے انہیں مہدی موعود قرار دیا، ان کی طویل فہرست ہے–
جو چیز مسئلہ مہدویت کی اہمیت کو نمایاں کرتی ہے یہ ہے کہ تاریخ میں ہمیں ایسے اشخاص ملتے ہیں جو اپنے لئے مہدی کا نام جعل کرتے یا مہدی موعود کا نام اپنے اوپر لاگو کرتے ہیں یا پھر دوسروں کی طرف سے ان پر اس عنوان کا اطلاق کرتے ہوئے اپنے بارے میں بڑے بڑے دعوے کرتے نظر آتے ہیں یا ان کے پیروکار ان کی طرف بڑی بڑی نسبتیں دیتے نظر آتے ہیں۔ یہ وہ اشخاص تھے جنہوں نے مکارانہ اور طاقت پسندانہ یا شہرت پسندانہ محرکات کی بنا پر خود ہی مہدی ہونے کا دعوی کیا اور لوگوں کے جذبات کو موہ لینے اور دلوں کو مسخر کرنے نیز طاقت اور اثر و رسوخ حاصل کرنے کی غرض سے نجات دہندہ مہدی کہلوائے۔
کچھ مدعیان مہدویت نے دنیاوی طاقت کے اظہار کے لیے ریاستوں کی بنیاد رکھی (جیسے مہدی سوڈانی نے انیسویں صدی عیسوی میں، سوڈان میں)-
اسی سلسلہ کی مطابقت کی وجہ سے 1979ء میں مکہ، سعودی عرب میں جہیمان عتیبی نے 200 مسلح افراد کے ساتھ مل کر مسجد الحرام پر قبضہ کر لیا اور دعوی کیا کہ اس کا بہنوئی اور ساتھی محمد قحطانی مہدی ہے۔ (کیونکہ، مہدی کے متعلق اسلامی روایات میں ہے کہ وہ پہلی بار حج کے موقع پر مکہ میں خانہ کعبہ کے پاس مہدی تسلیم کیے جائیں گے)۔
انیسویں صدی میں مسلم دنیا میں تین اطراف مہدی دعوے دار نمودار ہوئے۔ ایران میں علی محمد شیرازی (1819ء تا 1850ء)، سوڈان میں محمد احمد المہدی (1844ء تا 1885ء) اور ادھر ہندوستان میں مرزا غلام احمد (1853ء تا 1908ء) منظر عام پر آیا-
قادیانیت بر صغیر ہندو پاک کے انگریز کے دور غلامی کی پیداوار ہے، لہٰذا اس کا حل بھی ادھر ہی نکالنا ہے- ایران میں سید علی محمد باب شیرازی (1819ء تا 1850ء) المعروف بہ علی محمد باب ، سنہ 1235ہجری قمری کو شیراز میں پیدا ہوا؛ اس نے ابتداء میں “باب” اور “خلیفۃ الخلیفہ” کے عنوان سے خروج کیا اور جب تھوڑی سے شہرت پائی تو “باب المہدی المنتظر” کا عنوان اختیار کیا اور آخر کار مہدویت کا دعوی کیا۔ شیعہ علما اور عوام کی جانب سے باب کے اپنے لیے امام مہدی کے دعوے اور حضرت محمدﷺ کی نبوت کے متعلق بیان کی شدید مخالفت ہوئی یہ 1845 میں گرفتار ہوا اور پھر 1850ء میں سزائے موت، پھانسی دے دی گئی- ایران ایک آزاد ملک تھا غلام نہیں، سید علی محمد باب شیرازی کو مرزا قادیانی کی طرح انگریز کی پشت پناہی حاصل نہ تھی- بعد میں یہ اسلام سے ایک علہدہ مذھب “بہائیت” کے نام سے مشہور ہوا-
جس طرح پاکستان میں عوام “بہائیت” سے لا علم ہیں اسی طرح دنیا قادنیت سے اس وقت تک لا علم رہتی ہے جب تک وہ پکڑے نہ جائیں-
باقی دنیا کو قادنیت کی بنیادی وجوہات اور تفصیل کا اتنا علم نہیں ہو سکتا- ان کی کتب ، مٹیریل کثریت اردو میں ہیں جن کا مکمل رکارڈ یھاں موجود ہے جس سے قادیانی انکار نہیں کر سکتے- کسی دور دراز ملک میں قادیانی مبلغین جو پراپگنڈا کریں گے اور قرآن و حدیث کی تحریف شدہ آیات پیش کرکہ ان کو دھوکہ دے سکتے ہیں- اگر مصر، نائجیریا، انڈونیشیا یا کسی دوسرے اسلامی ملک میں نبوت کے جھوٹے دعوے دار پیدا ہوں تو وہ ممالک ہی ان کا سدباب کریں گے ہم کو شاید اس بات کا علم بھی نہ ہو سکے-
قرآن و سنت کا علم تمام دنیا میں پھیلا ہوا ہے مگر چند صدی قبل جو اسلامی تحقیق انڈیا پاکستان میں ہوئی اور جو علماء یھاں پیدا ہوۓ اس کی مثال مشکل ہے- یہ بھی ایک وجہ ہے کہ قادیانیت کے فتنہ کا رد بھی مدلل طریقه سے یہیں ہوا اور ان کو غیر مسلم قرار دیا گیا-
اس دور میں دنیا میں اکثریت دہریہ (atheists) اور مسیحی مذھب والے ہیں، جو اسلام کو نہیں مانتے، ہم کو ان کی پرواہ نہیں، ہم دعوه اسلام کی کوشش کرتے ہیں، الله کا فرمان ہے:
“.. جو کوئی راہ راست اختیار کرے اس کی راست روی اس کے اپنے ہی لیے مفید ہے، اور جو گمراہ ہو اس کی گمراہی کا وبا ل اُسی پر ہے کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا(قرآن 17:15)
قرآن کی آیات کا انکار کفر
مسلمان تمام انبیاء اور تمام الہامی کتب پر ایمان رکھتے ہیں- قرآن کے مطابق قرآن کی آیت کا انکار کرنے والا کفر ، ظلم کرتا ہے اور عذاب کا مستحق ہے۔
الله قرآن میں اپ صلعم کو ختم النبیین ، آخری نبی قرار دیتا ہے، جو اس آیت کا انکار کرتا یا تحریف کر کہ کوئی نیا مطلب نکلتا ہے وہ قرآن کا کفر کرتا ہے اور مسلمان نہیں ہو سکتا- قرآن کی آیت کا انکارکفر ہے، صرف چند آیات پیش ہیں:
مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًاo (الاحزاب، 40)
ترجمہ: محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں، اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے
۔يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي أَنزَلَ مِن قَبْلُ ۚ وَمَن يَكْفُرْ بِاللَّـهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا ( النساء-136 )
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ایمان لاؤ اللہ پرآور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کی ہے اور ہر اُس کتاب پر جو اس سے پہلے وہ نازل کر چکا ہے جس نے اللہ اور اس کے ملائکہ اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور روز آخرت سے کفر کیا وہ گمراہی میں بھٹک کر بہت دور نکل گیا (النساء-136 )
وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ خَالِدِينَ فِيهَا ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ( التغابن-10)
اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہی اہل دوزخ ہیں ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ اور وہ بری جگہ ہے-
وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَآ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ (المائدہ-10)
اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہ جہنمی ہیں۔”پس بے شک تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل اور ہدایت اور رحمت آچکی، پھر اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو اللہ کی آیات کو جھٹلائے اور ان سے کنارا کرے۔ عنقریب ہم ان لوگوں کو جو ہماری آیات سے کنارا کرتے ہیں، برے عذاب کی جزا دیں گے، اس کے بدلے جو وہ کنارا کرتے تھے۔”(قرآن ، سورت الانعام، آیت نمبر 157)
اگر یہ لوگ اپنے دین و مذہب کو اسلام کا نام نہ دیتے بلکہ صاف صاف کہہ دیتے کہ ہمارا اسلام سے کوئی تعلق نہیں تو ہمیں ان کے بارے میں اس قدر متفکر ہونے کی ضرورت نہ ہوتی۔ (ایران میں بہائی مذھب)
اس تحقیق کا مقصد قران و سنت کی روشنی میں قادیانیت کا جائیزہ لینا ہے تا کہ اس اہم معامله کی حقیقت ان سب پر کھل کرواضح کی جا سکے جو حق ، سچ کی جستجو میں ہیں-
وہ لوگ جو اندھی تقلید کے قائل ہیں اور بغیر تحقیق اپنے اجداد کے مذھب پر چلنے کو درست سمجھتے ہیں ان سے بحث لا حاصل ہے- حق ، سچ کا آخری فیصلہ الله تعالی بروز قیامت کریں گے، مگر بہت دیر ہو چکی ہو گی۔ جوکوئی شخص خود گمراہ ہوتا ہے اس کی گمراہی نسل در نسل منتقل ہوتی جاتی ہے اوربعد کی نسلوں کے ہزاروں لاکھوں افراد کی گمراہی کا گناہ بھی اس کے سر ہوتا ہے- جن لوگوں نے اس دنیا میں قرآن و سنت سے ماورا نظریات و عقائد پر ایمان لا کر گمراہی کا راستہ اختیار کیا ، الله تعالی کی عطا کردہ عقل و فہم کو استعمال نہ کیا وہ خسارے میں ہوں گے، کوئی ان کو بچانے والا نہ ہوگا-
اس تحقیقی جائزہ کا مقصد ان سب کو بچاؤ کا موقع مہیا کرنا ہے- دعوه ، حق کی نصیحت کرنا ہمارا فرض ہے جو ادا کرتے رہے گے:
وَمَا عَلَيۡنَاۤ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِيۡنُ (القرآن 36:17)
اور ہمارے ذمہ صرف واضح پیغام پہنچا دینا ہے
ہمارے پاس الله تعالی کا کلام ، کتاب الله، قران کی شکل میں محفوظ حالت میں موجود ہے اور یہ فرقان بھی ہے ، سچ اور جھوٹ کا فیصلہ کرنے کی حتمی کسوٹی ہے- احقر کو قرآن کے مطالعہ میں بیس سال سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا ہے کچھ بینیادی معلومات تک رسائی ہوئی،قرآن علم کا سمندر ہے جس کی گہرائی تک پہنچنا اس مختصر زندگی میں ممکن نہیں مگر ہدایت کا راستہ بہت روشن اور واضح ہے جس کو عام عقل و فہم (commonsense) سے حاصل کرنا ممکن ہے، تو سوال یہ ہے کہ :
کیوں لوگ گمراہ ہو جاتے ہیں؟
کیوں اتنے زیادہ فرقے ، گروہ موجود ہیں؟
اس کی ممکنه وجوہات:
- بزرگوں کی اندھی تقلید-
- الله تعالی سے ھدایت حاصل کرنے کی خود کوشش نہ کرنا-
- اپنے آپ پر بھروسہ نہ کرنا، کمزوری پر شیطان کو غلبہ کا موقع فراہم کرنا-
- عام عقل و فہم، کامن سینس (Commonsense) کا استعمال نہ کرنا-
- قرآن کو صرف تلاوت تک محدود کرکہ متروک العمل(مھجور) کرنا: “اور رسول کہے گا کہ اے میرے پروردگار! بیشک میری امت نے اس قرآن کو متروک العمل کر رکھا تھا” (قرآن 25:30)
’’مہجورا‘‘ ایسے جانور کو کہتے ہیں جس کے گلے میں رسی ڈال کر اس کا دوسرا سرا پیر سے باندھ دیا گیا ہو، اس طرح جانور چلنے پھرنے کے قابل ہونے کے باوجود مکمل طور سے آزاد نہیں ہوتا۔ وہ چلتا پھرتا ہے لیکن اتنا ہی جتنا اس کے گلے کی رسی اجازت دے۔ علامہ اقبال کے اس مصرعے میں اسی آیت کی تلمیح پائی جاتی ہے : ع ” خوار از مہجورئ قرآں شدی “ — کہ اے مسلمان آج تو اگر ذلیل و خوار ہے تو اس کا سبب یہی ہے کہ تو نے قرآن کو چھوڑ دیا ہے۔
6.تحریف قرآن
کلام اللہ میں تحریف یہود کا شیوہ رہا ہے- امت مسلمہ کے بہت سے علماء و مشائخ بھی بدقسمتی سے قرآن میں معنوی تحریف کے مرتکب ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس جرم سے محفوظ رکھے۔
اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّؤْمِنُوْا لَكُمْ وَ قَدْ كَانَ فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ یَسْمَعُوْنَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَهٗ مِنْۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوْهُ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ (قرآن 2:75)
“کیا تمہاری خواہش ہے کہ یہ لوگ ایماندار بن جائیں، حالانکہ ان میں سے ایک گروہ کا شیوہ یہ رہا ہے کہ اللہ کا کلام سنا اور خوب سمجھ بوجھ کر دانستہ اس میں تحریف کی” ۔(قرآن 2:75)
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِالذِّكْرِ لَمَّا جَاءهُمْ وَإِنَّهُ لَكِتَابٌ عَزِيزٌ (قرآن 41:40)
“بلاشبہ جو لوگ ہماری آیات سے غلط مفہوم لیتے ہیں وہ ہم سے پوشیدہ نہیں۔ بھلا وہ شخص جو دوزخ میں ڈالا جائے گا وہ بہتر ہے یا وہ جو قیامت کے دن امن وامان سے آئے گا ؟ تم جو چاہتے ہو کرو، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے خوب دیکھ رہا ہے” (قرآن 41:40)
تحریف لفظی، سے مراد قرآن کی لفظی اعتبار سے کمی یا زیادتی ہے۔ مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے کہ قرآن لفظی اعتبار سے حجت اور معجزہ ہے۔ اس لئے اپنے نزول سے ابھی تک اس میں زیر و زبر کی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے- البتہ کچھ افراد ہر زمانے میں تفسیریا ترجمہ کرتے ہونے اپنے عقیده و نظریات کے مطابق تشریح کر تے ہیں- اس طرح کی تحریف کہ ’انہوں نے حرفوں کو تو قائم رکھا مگر ان کے حدود میں تبدیلی کر دی (یعنی معنی بدل دیا) اسے معنوی تحریف کہیں گے جو گناہ و جرم ہے-
تفسیر بہ رای سے مراد یہ ہے کہ انسان قرآن مجید کو اپنی تمایلات اور شخصی عقیدہ یا گروہی عقیدہ کے مطابق معنی و تفسیر کرے یا ان پر تطبیق کرے حالانکہ اس پر کوئی قرینہ یا شاھد موجود نہ ہو ایسا کرنے والا وقعیت میں قرآن کے حضور میں تابع اور اس کا مطیع نہیں ہے بلکہ وہ قرآن کو اپنا تابع بنانا چاہتا ہے اور اگر وہ قرآ ن مجید پر کاملا ً ایمان رکھتا تو ہر گز ایسا نہیں کرتا ۔ اگر ہر شخص اپنی میلان کے مطابق اس کے معنی اور تفسیر کرنے لگے گا تو ہر باطل عقیدہ قرآن کے اوپر تطبیق دیا جانے لگے گا ۔ ایک ایسی کوشش قرآن کے زریعہ پکڑی جو قرآن کا معجزہ ہے:
مزید : تحریف قرآن کی قرآن سے پکڑ، قرآن کا زندہ معجزہ …..
مزید پڑھیں: گمراہی کے اسباب …..
صاف اور روشن راستہ
عرباض بن ساریہ ؓ کہتے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایسی نصیحت فرمائی جس سے ہماری آنکھیں ڈبدبا گئیں، اور دل لرز گئے، ہم نے کہا: اللہ کے رسول! یہ تو رخصت ہونے والے کی نصیحت معلوم ہوتی ہے، تو آپ ہمیں کیا نصیحت کرتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
“میں نے تم کو ایک ایسے صاف اور روشن راستہ پر چھوڑا ہے جس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے، اس راستہ سے میرے بعد صرف ہلاک ہونے والا ہی انحراف کرے گا—” (ماجہ 43)
رسول اللہ ﷺ ںے علم دین اسلام کے ماخز تین ارشاد فرمایے، باقی زائد – ١) آیت محکمہ اور ٢) سنت ثابتہ اور ٣) فریضہ عادل( منصفانہ وراثت)- (ابن ماجہ٥٤ , سنن ابی داود/الفرائض ١ (٢٨٨٥)، (تحفة الأشراف: ٨٨٧٦) الذھبی فی تلخیص المستدرک (۴/ ۳۳۲)
گمراہی سے بچاؤ قرآن کے زریعہ
حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ جس شخص نے کتاب اللہ کا علم حاصل کیا اور پھر اس چیز کی پیروی کی جو اس (کتاب اللہ) کے اندر ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو دنیا میں گمراہی سے ہٹا کر راہ ہدایت پر لگائے (یعنی اس کو ہدایت کے راستہ پر ثابت قدم رکھے گا اور گمراہی سے بچالے گا) اور قیامت کے دن اس کو برے حساب سے بچالے گا ( یعنی اس سے مواخذہ نہیں ہوگا) اور ایک روایت میں ہے کہ جس شخص نے کتاب اللہ کی پیروی کی تو نہ وہ دنیا میں گمراہ ہوگا اور نہ آخرت میں بدبخت ہوگا (یعنی اسے عذاب نہیں دیا جائے گا) اس کے بعد عبداللہ ابن عباس ؓ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقٰي (قرآن 20:123)
ترجمہ : “جس آدمی نے میری ہدایت (یعنی قرآن) کی پیروی کی نہ وہ دنیا میں گمراہ ہوگا اور نہ (آخرت میں) بدبخت ہوگا۔ (قرآن 20:123) (مشکوٰۃ المصابیح ,حدیث نمبر 185)
رسول اللہ ﷺ کا فرمان:
“اللہ کی کتاب میں ہدایت اور نور ہے، جو اسے پکڑے گا وہ ہدایت پر رہے گا اور جو اسے چھوڑ دے گا وہ گمراہ ہوجائے گا۔” (صحیح مسلم، حدیث: 6227)
نبی کریم ﷺ نے کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھامے رہنے کی وصیت فرمائی تھی(قَالَ: أَوْصَى بِكِتَابِ اللَّهِ.)۔ (البخاری: حدیث: 5022)
خطبہ حج الوداع ہزاروں مومنین نے سنا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
“… اور تمہارے درمیان چھوڑے جاتا ہوں میں ایسی چیز کہ اگر تم اسے مضبوط پکڑے رہو تو کبھی گمراہ نہ ہو اللہ کی کتاب….” ” [ صحیح مسلم 2950، [ابی داوود 1905]
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’جو شخص غیر قرآن میں ہدایت کا متلاشی ہوگا اللہ اس کو گمراہ کردے گا، وہ (قرآن) اللہ تعالیٰ کی ایک مضبوط رسی ہے اور وہ ایک محکم اور مضبوط ذکر ہے اور وہ ایک سیدھا راستہ ہے …‘‘(رواہ حضرت علیؓ، ماخوز، ترمذی 2906)
ا” — احضرت عمر (رضی الله) ۓ فرمایا : ” — اور یہ کتاب اللہ موجود ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے رسول کو دین و سیدھا راستہ بتلایا پس اسے تم تھامے رہو تو ہدایت یاب رہو گے۔ یعنی اس راستے پر رہو گے جو اللہ نے اپنے پیغمبر کو بتلایا تھا۔[ البخاری: 7269. تلخیص]
نبی کریم ﷺ نے فرمایا انبیاء میں سے کوئی نبی ایسا نہیں جن کو کچھ نشانیاں (یعنی معجزات) نہ دئیے گئے ہوں جن کے مطابق ان پر ایمان لایا گیا (آپ ﷺ نے فرمایا کہ) انسان ایمان لائے اور مجھے جو بڑا معجزہ دیا گیا وہ قرآن مجید ہے جو اللہ نے میری طرف بھیجا، پس میں امید کرتا ہوں کہ قیامت کے دن شمار میں تمام انبیاء سے زیادہ پیروی کرنے والے میرے ہوں گے۔ [رواہ ابوهریره ؓ ، صحیح بخاری: حدیث نمبر: 7274]
رسول اللہ ﷺ خطبہ سے قبل ارشاد فرماتے تھے:
أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ کِتَابُ اللَّهِ وَخَيْرُ الْهُدَی هُدَی مُحَمَّدٍ وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا وَکُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ
اما بعد کہ بہترین حدیث اللہ کی کتاب ہے اور بہترین سیرت محمد ﷺ کی سیرت ہے اور سارے کاموں میں بدترین کام نئے نئے طریقے ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے.
(صحیح مسلم، حدیث نمبر:2005 ، نسایی؛ 1579 ، ابن ماجہ 45، مشکوات المصابیح 139، معارف حدیث 1889]
الله تعالی نے حج آلوداع، رسول اللہ ﷺ کی وفات سے کچھ دن قبل دین اسلام کی تکمیل اور کمال کی خوشخبری دی:
اَلۡیَوۡمَ یَئِسَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ دِیۡنِکُمۡ فَلَا تَخۡشَوۡہُمۡ وَ اخۡشَوۡنِ ؕ اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا ؕ
آج کافر تمہارے دین سے ناامید ہو گئے ہیں تو ان سے مت ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کی ا(قرآن 5:3)
اس کے بعد دین کامل میں زوال ہوا م کیونکہ کمال (Perfection) کے بعد زوال ہی ممکن ہے مزید (Perfection) ممکن نہیں- یہ کوئی راکٹ سائنس ہے جو کسی کی سمجھ نہیں آتی؟
کیوں علماء اور لوگ دین کو بہتر (Perfect) کرنے کی کوششوں میں بگاڑتے ہیں؟ (Imperfection) پیدا کرتے ہیں، ایک سادہ ، آسان دین اسلام کو مشکل بناتے ہیں بدعة شامل کرتے ہیں اور صدیوں بعد کچھ اور ہی بنا ڈالتے ہیں-
الله تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ قرآن ، پرفیکٹ ، مکمل ، محفوظ ہمارے پاس موجود ہے ، اس لئے ایمان میں بدعة، گمراہی سے حفاظت اور خاتمہ ممکن ہے- جب ایمان ٹھیک ہو گیا تو بنیاد ٹھیک ہوگیئی تو پھر کچھ مشکل نہیں:
یہ آیت قرآن سے ھدایت حاصل کرنے کی ماسٹر چابی ، شاہ کلید (Master Key) ہے :
هُوَ الَّذِىۡۤ اَنۡزَلَ عَلَيۡكَ الۡكِتٰبَ مِنۡهُ اٰيٰتٌ مُّحۡكَمٰتٌ هُنَّ اُمُّ الۡكِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌؕ فَاَمَّا الَّذِيۡنَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمۡ زَيۡغٌ فَيَتَّبِعُوۡنَ مَا تَشَابَهَ مِنۡهُ ابۡتِغَآءَ الۡفِتۡنَةِ وَابۡتِغَآءَ تَاۡوِيۡلِهٖۚ وَمَا يَعۡلَمُ تَاۡوِيۡلَهٗۤ اِلَّا اللّٰهُ ؔۘ وَ الرّٰسِخُوۡنَ فِى الۡعِلۡمِ يَقُوۡلُوۡنَ اٰمَنَّا بِهٖۙ كُلٌّ مِّنۡ عِنۡدِ رَبِّنَا ۚ وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ ۞
وہی اللہ تعالیٰ ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری جس کی کچھ آیتیں تو “محکم” (یعنی ظاہراً بھی صاف اور واضح معنی رکھنے والی) ہیں “جو اصل کتاب” ہیں اوردوسری آیتیں متشابہ (یعنی معنی میں کئی احتمال اور اشتباہ رکھنے والی) ہیں۔ اب جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے تو وہ من مانی تاویلیں کرنے کی خاطر متشابہات کا اتباع کرتے ہیں تاکہ فتنہ برپا کریں حالانکہ ان کا حقیقی مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور پختہ اور مضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان لا چکے ہیں، یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقلمند حاصل کرتے ہیں (قرآن 3:7)
یہ آیت خود واضح ہے (self explanatory) ہے- اس کی بنیاد پر کوئی بھی انسان تھوڑی کوشش سے حق ، سچ تک پہنچ سکتا ہے- الله تعالی کو ہر انسان خود اکیلا جواب دار ہے(19:95)
“اور جیسا ہم نے تم کو پہلی دفعہ پیدا کیا تھا ایسا ہی آج اکیلے اکیلے ہمارے پاس آئے اور جو (مال ومتاع) ہم نے تمہیں عطا فرمایا تھا وہ سب اپنی پیٹھ پیچھے چھوڑ آئے اور ہم تمہارے ساتھ تمہارے سفارشیوں کو بھی نہیں دیکھتے جن کی نسبت تم خیال کرتے تھے کہ وہ تمہارے (شفیع اور ہمارے) شریک ہیں۔ (آج) تمہارے آپس کے سب تعلقات منقطع ہوگئے اور جو دعوے تم کیا کرتے تھے سب جاتے رہے(قرآن:6:94)
قادنیت یا کسی بھی عقیده ، نظریہ کو قبول یا رد کرنا آیات محکمات (قرآن 3:7) سے دلائل کی بنیاد پرہو گا- الله تعالی کا فرمان ہے :
قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿١١١﴾
پنی دلیل پیش کرو، اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو (2:111)
لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ۗ وَإِنَّ اللَّهَ لَسَمِيعٌ عَلِيمٌ(قرآن:(8:42
تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے، یقیناً اللہ سُننے والا اور جاننے والا ہے (قرآن : (8:42
الله اور رسول (ﷺ) کی ہدایت پر عمل پیرا ہونا اس قدر اہم ہے کہ ان کو چھوڑ کر کسی دوسرے کی پیروی کرنا اللہ کے حکم کے خلاف ہے:-
وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوۡدَہٗ یُدۡخِلۡہُ نَارًا خَالِدًا فِیۡہَا۪ وَ لَہٗ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ﴿قرآن؛ 4:14 ﴾
اور جو شخص اللہ تعالٰی کی اور اس کےرسول (ﷺ) کی نافرمانی کرے اور اس کی مُقّررہ حدوں سے آگے نکلے اسے وہ جہنّم میں ڈال دے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، ایسوں ہی کے لئے رُسوا کُن عذاب ہے (قرآن؛ 4:14)
مزید پڑھتے رہیں >>>>>>>تحقیق جاری ہے >>>>
- قادنیت پر اکثر پوچھے جانےوالےسوالات اورجوابات (FAQs) ….
- دعوة دین کامل https://bit.ly/DeenKamil
- قادیانیت : https://bit.ly/LastBrick/ https://bit.ly/Qadianiat
مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق ختم نبوت سے مراد یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالٰیٰ کے آخری نبی اور آخری رسول ہیں۔ اللہ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس جہاں میں بھیج کر بعثت انبیاء کا سلسلہ ختم فرما دیا ہے۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت کا ذکر قرآن حکیم کی 100 سے بھی زیادہ آیات میں نہایت ہی جامع انداز میں صراحت کے ساتھ کیا گیا ہے۔
مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًاo (الاحزاب40)
ترجمہ: محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں، اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالٰیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خاتم النبین کہہ کر یہ اعلان فرما دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی آخری نبی ہیں اور اب قیامت تک کسی کو نہ منصب نبوت پر فائز کیا جائے گا اور نہ ہی منصب رسالت پر۔
قرآن حکیم میں سو سے زیادہ آیات ایسی ہیں جو اشارۃً یا کنایۃً عقيدہ ختم نبوت کی تائید و تصدیق کرتی ہیں۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی متعدد اور متواتر احادیث میں خاتم النبیین کا یہی معنی متعین فرمایا ہے۔ لہٰذا اب قیامت تک کسی قوم، ملک یا زمانہ کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی اور نبی یا رسول کی کوئی ضرورت باقی نہیں اور مشیت الٰہی نے نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سلسلۂ نبوت اور رسالت کی آخری کڑی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زبانِ حق ترجمان سے اپنی ختمِ نبوت کا واضح الفاظ میں اعلان فرمایا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدْ انْقَطعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِيْ وَلَا نَبِيَ. (ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الرويا، 4 : 163، باب : ذهبت النبوة، رقم : 2272)
ترجمہ : اب نبوت اور رسالت کا انقطاع عمل میں آ چکا ہے لہٰذا میرے بعد نہ کوئی رسول آئے گا اور نہ کوئی نبی۔
اس حدیث پاک سے ثابت ہوگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد جو کوئی بھی نبوت کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا ملعون اور ابلیس کے ناپاک عزائم کا ترجمان ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نبوت کے جھوٹے دعویداروں کی نہ صرف نشاندہی کر دی بلکہ ان کی تعداد بھی بیان فرما دی تھی۔ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
أنّه سَيَکُوْنُ فِيْ أُمَّتِيْ ثَلَاثُوْنَ کَذَّابُوْنَ، کُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنّه نَبِیٌّ وَ أَنَا خَاتَمُ النَّبِيِيْنَ لَا نَبِيَ بَعْدِيْ. (ترمذي، السنن، کتاب الفتن، باب : ماجاء لا تقوم الساعة حتی يخرج کذابون، 4 : 499، رقم : 2219)
ترجمہ: میری امت میں تیس (30) اشخاص کذاب ہوں گے ان میں سے ہر ایک کذاب کو گمان ہوگا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔
اگر کوئی شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نبوت یا رسالت کا دعویٰ کرے (خواہ کسی معنی میں ہو) وہ کافر، کاذب، مرتد اور خارج از اسلام ہے۔ نیز جو شخص اس کے کفر و ارتداد میں شک کرے یا اسے مومن، مجتہد یا مجدد وغیرہ مانے وہ بھی کافر و مرتد اور جہنمی ہے۔
مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم روئے زمین کی ہر قوم اور ہر انسانی طبقے کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں اور آپ کی لائی ہوئی کتاب قرآن مجید تمام آسمانی کتب کے احکام منسوخ کرنے والی اور آئندہ کے لیے تمام معاملات کے احکام و قوانین میں جامع و مانع ہے۔ قرآن کریم تکمیل دین کااعلان کرتا ہے۔ گویا انسانیت اپنی معراج کو پہنچ چکی ہے اور قرآن کریم انتہائی عروج پر پہنچانے کا ذریعہ ہے۔ اس کے بعد کسی دوسری کتاب کی ضرورت ہے ، نہ کسی نئے نبی کی حاجت۔ چنانچہ امت محمدیہ کا یہ بنیادی عقیدہ ہے کہ آپ کے بعد اب کوئی نبی نہیں آئے گا۔ انسانیت کے سفر حیات میں وہ منزل آ پہنچی ہے کہ جب اس کا ذہن بالغ ہو گیا ہے اور اسے وہ مکمل ترین ضابطۂ حیات دے دیا گیا، جس کے بعد اب اسے نہ کسی قانون کی احتیاج باقی رہی نہ کسی نئے پیغامبر کی تلاش۔
قرآن و سنت کی روشنی میں ختم نبوت کا انکار محال ہے۔ اور یہ ایسا متفق علیہ عقیدہ ہے کہ خود عہد رسالت میں مسیلمہ کذاب نے جب نبوت کا دعوی کیا اور حضور کی نبوت کی تصدیق بھی کی تواس کے جھوٹا ہونے میں ذرا بھی تامل نہ کیا گیا۔ اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں صحابہ کرام نے جنگ کر کے اسے کیفر کردار تک پہنچایا۔ اس کے بعد بھی جب اور جہاں کسی نے نبوت کا دعوی کیا، امت مسلمہ نے متفقہ طور پر اسے جھوٹا قرار دیا اوراس کا قلع قمع کرنے میں ہر ممکن کوشش کی۔ 1973ء کے آئین میں پاکستان میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو آخری نبی نہ ماننے والے کو غیر مسلم قرار دیا گیا۔
https://ur.m.wikipedia.org/wiki/ختم_نبوت
ذوالفقارعلی بھٹونے قائد ایوان کی حیثیت سے 27منٹ تک وضاحتی تقریرکی اور بتایاکہ قادیانی آپ ﷺ کی ختم نبوت کے بھی انکاری ہیں اور پاکستان کے بھی دشمن۔ یوں 7ستمبرکوایک تاریخی فیصلہ پاکستان کی پارلیمنٹ میں ہوا۔اس فیصلے پر ملک بھر میں خوشی ومسرت کی لہر دوڑ گئی۔ قادیانیوں نے اس فیصلے کے باوجود اپنے آپ کو مسلمان باور کرانے کی بارہا کوشش کی، جس پر علماء نے احتجاج کیااور صدر ضیاء الحق سے مطالبہ کیا، جس پر انہوں نے 26 اپریل 1984ء کو امتناع قادیانیت آرڈیننس جاری کرکے قادیانیت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔ مرزا طاہر برطانیہ فرارہوگیا یعنی پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کاخمیرتھا ، مگرختم نبوت کے پروانوں اور دیوانوں نے اِن کا پیچھا کہیں بھی نہیں چھوڑا۔
قادیانی کلمہ پڑھتے ہیں اور اپنے آپ کو مسلمان کہتے، پاکستان کے علاوہ دنیا کے کسی اسلامی ملک نے ان کو غیر مسلم نہیں قرار دیا – لہٰذا ان کو غیر مسلم قرار دینے کا کسی کو حق نہیں ان کا معاملہ اللہ کے حوالے کریں۔ کوئی ایسی آیت قرآن بتائیں جس سے ختم نبوت کا انکار کسی کو خارج اسلام کر دے؟
جواب:
بظاھر بات معقول لگتی ہے، مگر جب قرآن اور اسلام کا بغور مطالعہ کیا جائے تو حقیقت واضح ہو جاتی ہے- میرے علم کے مطابق دنیا میں کسی مسلم ملک یا مستند علماء میں سے کسی نے حکومت پاکستان کے قادیانی کو غیر مسلم قرار دینے کو غلط نہیں کھا- مختصر جوابات درج ذیل ہیں، تفصیلا جواب نیچے مفصل” تحقیقی جائزہ” پڑھنے سے مل جائیں گے :
1.ختم نبوت کوئی لوکل مسلہ نہیں اس پر چودہ سو سال سے قرآن و سنت کی روشنی میں صحابہ اور علماء کا مکمل اجماع ہے کہ اپ کے بعد کوئی نبی رسول نہیں ہے، جو ایسا دعوی کرے وہ اور اس کو ماننے والے کافراسلام سے خارج ہیں-
2.قادیانی فتنہ بر صغیر ہندو پاک کی پیداوار ہے، لہٰذا اس کا حل بھی ادھر ہی نکالنا ہے- باقی دنیا کو اس فتنہ کی بنیادی وجوہات اوٹ تفصیل کا اتنا علم نہیں ہو سکتا- ان کی کتب ، مٹیریل کثریت اردو میں ہیں جن کا مکمل رکارڈ یھاں موجود ہے جس سے قادیانی انکار نہیں کر سکتے- کسی دور دراز ملک میں قادیانی مبلغین جو پراپگنڈا کریں گے اور قرآن و حدیث کی تحریف شدہ آیات پیش کرکہ ان کو دھوکہ دے سکتے ہیں- اگر مصر، نائجیریا، انڈونیشیا یا کسی دوسرے اسلامی ملک میں نبوت کے جھوٹے دعوے دار پیدا ہوں تو وہ ممالک ہی ان کا سدباب کریں گے ہم کو شاید اس بات کا علم بھی نہ ہو سکے-
4.اس دور میں دنیا میں اکثریت دہریہ atheists اور مسیحی مذھب والے ہیں، جو اسلام کو نہیں مانتے، ہم کو ان کی پرواہ نہیں، دعوه اسلام کی کوشش کرتے ہیں، الله کا فرمان ہے:
“.. جو کوئی راہ راست اختیار کرے اس کی راست روی اس کے اپنے ہی لیے مفید ہے، اور جو گمراہ ہو اس کی گمراہی کا وبا ل اُسی پر ہے کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا(قرآن 17:15)5.مسلمان تمام انبیاء اور تمام الہامی کتب پر ایمان رکھتے ہیں- قرآن کے مطابق قرآن کی آیت کا انکار کرنے والا کفر ، ظلم کرتا ہے اور عذاب کا مستحق ہے۔
الله قرآن میں اپ صلعم کو ختم النبیین ، آخری نبی قرار دیتا ہے، جو اس آیت کا انکار کرتا یا تحریف کر کہ کوئی نیا مطلب نکلتا ہے وہ قرآن کا کفر کرتا ہے اور مسلمان نہیں ہو سکتا-
مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًاo (الاحزاب، 40)
ترجمہ: محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں، اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي أَنزَلَ مِن قَبْلُ ۚ وَمَن يَكْفُرْ بِاللَّـهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا ( النساء-136 )
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کی ہے اور ہر اُس کتاب پر جو اس سے پہلے وہ نازل کر چکا ہے جس نے اللہ اور اس کے ملائکہ اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور روز آخرت سے کفر کیا وہ گمراہی میں بھٹک کر بہت دور نکل گیا ( النساء-136 )وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ خَالِدِينَ فِيهَا ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ( التغابن-10)
اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہی اہل دوزخ ہیں ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ اور وہ بری جگہ ہے-
وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَآ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ (المائدہ-10)
اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہ جہنمی ہیں۔”پس بے شک تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل اور ہدایت اور رحمت آچکی، پھر اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو اللہ کی آیات کو جھٹلائے اور ان سے کنارا کرے۔ عنقریب ہم ان لوگوں کو جو ہماری آیات سے کنارا کرتے ہیں، برے عذاب کی جزا دیں گے، اس کے بدلے جو وہ کنارا کرتے تھے۔”(قرآن ، سورت الانعام، آیت نمبر 157)
بہت سے مسلمانوں کے ذہن میں ایک سوال کانٹا بنا ہوا ہے کہ قادیانیوں اوردیگر غیر مسلموں میں کیا فرق ہے؟
سوال #3:
قادیانی گھر میں پیدا بچے برے ہو کر مرتد تو نہیں کیونکہ وہ تو مسلمان ہی نہیں تھے ؟
جواب :
اہل کتاب سے تعلقات جائز ہیں ان کا ہلال کھانا اور ان کی نیک عورتوں سے نکاح کی اجازت ہے، تو پھر قادیانوں سے اتنی سختی کیون، جو مسلمانوں کی طرح عبادت کرتے قبلہ کی طرف نماز بھی پڑھتے ہیں؟
https://www.facebook.com/story.php?story_fbid=2083488788346921&id=100000574616035
~~~~~~~~~~~
ختم نبوّت: ضمیمہ (تفہیم القرآن) تفسیر سورۂ احزاب آیات چالیس
- سورۂ احزاب آیات چالیس
- #1 لُغت کی رُو سے خاتم النبیین کے معنی
- #2 ختم نبوّت کے بَارے میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشادات
- #3 صحابۂ کرام کا اِجماع
- #4 تمام علمائے اُمّت کا اجماع
- #5 کیا اللہ کو ہمارے ایمان سے کوئی دشمنی ہے ؟
- #6 اب نبی کی آخر ضرورت کیا ہے ؟
- #7 نئی نبوّت اب اُمّت کے لیے رَحمت نہیں بلکہ لعنت ہے
- #8 ’’مسیح مَوعُود‘‘ کی حقیقت
- #9 احادیث درباب نزولِ عیسیٰ ابنِ مریم علیہ السّلام
قادیانیت : https://bit.ly/Qadianiat
قادیانیت کے حق میں آینی ترمیم کیا تھی ؟
قومی اسمبلی میں قادیانیت کا مقدمہ
1974 میں___ جب قومی اسمبلی میں فیصلہ ہوا کہ قادیانیت کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنا موقف اور دلائل دینے قومی اسمبلی میں آئیں تو۔۔۔ مرزا ناصر قادیانی سفید شلوار کرتے میں ملبوس طرے دار پگڑی باندھ کر آیا۔متشرع سفید…[Continue reading…]
مرزا غلام قادیانی مرتد، زندیق کا مختصر
مرزا غلام قادیانی مرتد، زندیق کا مختصر پسِ منظر: جس نے ختم نبوت سے انکار کیا وہ مرتد بنا، پلید ہوا، کذاب بنا ، پیروکار شیطان بنا، مغربیوں کا کتا بنا ، کافر ہوا، اور گندگی و غلاظت میں ہی واصل… [Continue reading…]
ختم نبوت – ذوالفقار علی بھٹو کی قومی اسمبلی میں تقریر
فتنہ قادیانیت کے تابوت میں پہلی کیل-مقدمہ بهاولپور
ردِّ قادنیت کے حوالے سے مقدمہ بہاول پوربہت اہمیت کا حامل ہے اوراسے قادیانیت کے تابوت میں پہلی کیل کہنا بے جا نہ ہوگا۔ ختم نبوت کے محاذ پر مضبوط بنیاد اور قانونی واخلاقی بالادستی اسی مقدمہ نے مہیا… [Continue reading…]
Sectarianism in Islam اسلام میں فرقہ واریت – تاویلیں، دلائل اور تجزیہ
هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَـٰذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ ۚ ( سورة الحج22:78) اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام “مسلم” رکھا تھا اور اِس (قرآن) میں بھی (تمہارا یہی نام ہے) تاکہ رسول تم… [Continue reading…]
مزید پڑھیں >>>ختم نبوت اور قادیانی فتنه- تحقیقی جائزہ
https://goo.gl/HDpr4t ختم نبوت اسلام کے اہم عقائد میں سے ایک ہے، ایک صدی قبل ہندوستان میں انگریز کی سرپرستی میں مسلمانوں کی وحدت کی مزید تقسیم کے لیے قادیانی فتنه پیدا کیا گیا – بہت جدو جہد کے بعد 1974 میں پاکستان میں آیینی طور پر قادیانوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تاکہ …
Source: Khatm-e-Nabuwat-Qadyani Fitnah ختم نبوت اور قادیانی فتنه- تحقیقی جائزہ – Salaam One سلام