اسلام ؛ قرآن اور سنت پر عمل کرنے کا نام ہے۔اسلام کی بنیاد صرف رسول اللہﷺ سے نقل وسماع ہے، قرآن کریم بھی رسول اللہﷺ ہی کے ذریعہ ملا ہے؛ انھوں نے ہی بتلایا اور آیات کی تلاوت کی ،جوبطریقۂ تواتر ہم تک پہنچا ہے-
تِلْكَ آيَاتُ اللَّـهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ ۖ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللَّـهِ وَآيَاتِهِ يُؤْمِنُونَ ﴿٦﴾
یہ اللہ کی آیتیں ہیں جو ہم حق کے ساتھ آپ کو پڑھ کر سنا رہے ہیں تو آخر اللہ اور اس کی آیتوں کے بعد وہ کونسی (حدیث) بات ہے جس پر وہ ایمان لائیں گے؟ (45:6 الجاثية)
قرآن مجید کے متعلق الله نے واضح کر دیا کہ :
- قرآن مجید رب العالمین کا نازل کردہ کلام حق ہے (آل عمران 3:60)
- قرآن سے ملنے والا علم وہ حق ہے جس کے مقابلے میں ظن و گمان کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ (النجم 53:28)
- قرآن مجید کلام الٰہی ہے اور اس کے کلام الٰہی ہونے میں کوئی شک نہیں۔ یہ اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے ہدایت ہے۔ (البقرہ 2:2)
- اس کلام کو اللہ نے نازل کیا ہے اور وہی اس کی حفاظت کرے گا۔(الحجر15:9)
- .قرآن ایسا کلام ہے جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں جو بالکل سیدھی بات کرنے والا کلام ہے (الکہف 18:1,2)
- قرآن کو واضح عربی کتاب کہا گیا کہ لوگ سمجھ سکیں (یوسف18:1,2)۔
- باطل نہ اس کلام کے آگے سے آ سکتا ہے نہ پیچھے سے۔ (الفصلت 41:42)
- یہ کتاب میزان ہے۔ یعنی وہ ترازو ہے جس میں رکھ کر ہر دوسری چیز کی قدر وقیمت طے کی جائے گی۔ (الشوریٰ42:17)
- یہ کتاب فرقان یعنی وہ کسوٹی ہے جو کھرے اور کھوٹے کا فیصلہ کرتی ہے۔(الفرقان 25:1)
- تمام سلسلہ وحی پر مہیمن یعنی نگران ہے۔ (المائدہ5:48)
- قرآن کریم لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کرنے کے لیے اتاری گئی ہے۔ (البقرہ2:213)
- یہی وہ کتاب ہدایت ہے جس کو ترک کر دینے کا مقدمہ روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کے حضور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مخاطبین کے حوالے سے پیش کریں گے۔ (الفرقان25:30)
- فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ( المرسلات 77:50)
اب اس قرآن کے بعد کس حدیث پر ایمان ﻻئیں گے؟ ( المرسلات 77:50)
14.فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (الأعراف 7:185)
پھر(قرآن) کے بعد کس حدیث پر یہ لوگ ایمان لائيں گے (الأعراف 7:185)
15.تِلْكَ آيَاتُ اللَّـهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ ۖ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللَّـهِ وَآيَاتِهِ يُؤْمِنُونَ(الجاثية45:6)
یہ الله کی آیات ہیں جو ہم آپ کو بالکل سچی پڑھ کر سناتے ہیں پھر اللہ اور اس کی آیتوں کو چھوڑ کر کونسی حدیث پر ایمان لائیں گے، (الجاثية45:6)
16.وَيْلٌ لِّكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ ﴿٧﴾ يَسْمَعُ آيَاتِ اللَّـهِ تُتْلَىٰ عَلَيْهِ ثُمَّ يُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا كَأَن لَّمْ يَسْمَعْهَا ۖ فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (الجاثية45:7)
ہر سخت جھوٹے گناہگار کے لیے تباہی ہے (-جو آیات الہیٰ سنتا ہے جو اس پر پڑھی جاتی ہیں پھر نا حق تکبر کی وجہ سے اصرار کرتا ہے گویاکہ اس نے سنا ہی نہیں پس اسے دردناک عذاب کی خوشخبری دے دو (الجاثية45:7,8)
17.هَـٰذَا هُدًى ۖوَالَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَهُمْ عَذَابٌ مِّن رِّجْزٍ أَلِيمٌ (الجاثية45:11)
“یہ (قرآن) تو ہدایت ہے اور جو اپنے رب کی آیتوں کے منکر ہیں ان کے لیے سخت دردناک عذاب ہے”(الجاثية45:11)
اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں قرآن مجید کی حیثیت بیان کی ہے- جو کچھ قرآن مجید کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے کہا ہے وہ کسی دوسری کتاب کے بارے میں نہیں کہا۔ قرآن مجید کے سوا کسی اور مذہبی کتاب، کسی پیغمبرسے منسوب کلام، کسی عالم اور محقق کی رائے کے بارے میں اللہ تعالیٰ اس طرح کی کوئی بات نہیں کہتے۔ اس لیے جو کوئی بھی قرآن کی آیات مبارکہ کے بارے میں شک شبہ ، تامل کرے ، اگر مگراور من گھڑت تاویلوں سے ان کو بے اثر کرنے کی کوشش کرے تو وہ اچھی طرح سمجھ لے کہ وہ الله کی نافرمانی کی جرأت کر رہا ہے۔ اصحاب سبت کا واقعہ ایک سبق ہے- (قرآن 7:163,166, 2:65,66).
کتاب اللہ کے بعد رسول اللہؐ کی سنت شریعت کا دوسرا سرچشمہ اور اصل واساس ہے، یہ قرآن کریم کی تشریح اور اس کے اصول کی توضیح اور اجمال کی تفصیل ہے-قرآن میں کئی جگہ واضح طور پر رسول اللہﷺ کی اطاعت کا حکم ہے:
لیکن الله کا نے (أَطِيعُوا الرَّسُولَ) رسول الله ﷺکی اطاعت کا حکم بھی دیا ہے :
وَمَآاَرْسَلْنَامِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ (قرآن 4:64)
“اور ہم نے جو پیغمبر بھیجا ہے اس لئے بھیجا ہے کہ خدا کے فرمان کے مطابق اس کا حکم مانا جائے”(قرآن 4:64)
مزید آیات (أَطِيعُوا الرَّسُولَ):
- قُلْ أَطِيعُوا اللَّـهَ وَالرَّسُولَ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ ﴿آل عمران: ٣٢﴾
- وَأَطِيعُوا اللَّـهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ﴿آل عمران: ١٣٢﴾
- يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا ﴿النساء: ٥٩﴾
- وَأَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَاحْذَرُوا فَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّمَا عَلَىٰ رَسُولِنَا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ ﴿المائدة: ٩٢﴾
- يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنفَالِ قُلِ الْأَنفَالُ لِلَّـهِ وَالرَّسُولِ فَاتَّقُوا اللَّـهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ وَأَطِيعُوا اللَّـهَ وَرَسُولَهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿الأنفال: ١﴾
- يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ ﴿الأنفال: ٢٠﴾
- وَأَطِيعُوا اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللَّـهَ مَعَ الصَّابِرِينَ ﴿الأنفال: ٤٦﴾
- قُلْ أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْكُم مَّا حُمِّلْتُمْ وَإِن تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ ﴿النور: ٥٤﴾9. وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ﴿النور: ٥٦﴾
- يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ ﴿محمد: ٣٣﴾
- أَأَشْفَقْتُمْ أَن تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَاتٍ فَإِذْ لَمْ تَفْعَلُوا وَتَابَ اللَّـهُ عَلَيْكُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَاللَّـهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ﴿المجادلة: ١٣﴾
- وَأَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ فَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَإِنَّمَا عَلَىٰ رَسُولِنَا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ ﴿التغابن: ١٢﴾
کلام الله پرایمان عمل مسلمان پرفرض ہے:
وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ (2:256قرآن )
ہم نے حکم سنا اور اطاعت قبول کی (2:256قرآن )
وَاتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِن كِتَابِ رَبِّكَ ۖ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَلَن تَجِدَ مِن دُونِهِ مُلْتَحَدًا (قرآن18:27
اور اپنے پروردگار کی کتاب جو تمہارے پاس بھیجی جاتی ہے پڑھتے رہا کرو۔ اس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں۔ اور اس کے سوا تم کہیں پناہ کی جگہ بھی نہیں پاؤ گے(18:27قرآن)
وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا (قرآن18:28)
اور جس شخص کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے اور اس کا کام حد سے بڑھ گیا ہے اس کا کہا نہ ماننا (18:28قرآن)
وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمًّا وَعُمْيَانًا (قرآن25:73)
“اور جب انہیں ان کے پروردگار کی آیتوں کے ذریعہ سے نصیحت کی جاتی ہے تو وہ بہرے اور اندھے ہوکر ان پر گر نہیں پڑتے (بلکہ ان میں غور و فکر کرتے ہیں)۔ (قرآن25:73)
اصطلاح کے مطابق احادیث سے مراد وہ تمام اقوال ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمائے ہیں۔ احادیث کو لکھنے اور یاد کرنے کا کام نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے شروع ہو گیا تھا۔ عربوں کو چونکہ اپنے حافظہ پر ناز تھا اس لیے وہ تمام باتوں کو یاد کر لیتے تھے۔
قران کی طرح احادیث کی کتابت کا اہتمام خلفاء راشدین اور ان کے بعد کی صدی تک کے حکمرانوں نے نہ کیا- حضرت عمر فاروق رضی الله نے سختی سے احادیث کو لکھنے سے منع فرمایا ، جس پر بعد میں بھی کوئی تبدیلی نہ ہوئی- ان کا قول “القرآن حسبنا كتاب الله” (ہمارے لیے تو اللہ کی کتاب بس کافی ہے)(صحیح بخاری # 4432)، بہت مشہور ہے-
رسول اللہ ﷺ نے خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑنے کا حکم دیا ہے (سنن ابی داود ، کتاب السنة ، باب لزوم السنة). رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر کے بعد حضرت عمر ہی کی جانب رجوع کرنے کا حکم دیا۔ نام لے کر صرف یہ دو صحابی ہی ہیں جن کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے-(صحیح ابن ماجہ#٩٧،و انظر الحدیث ٤٠٦٩ ، صحیح ااصحیحہ ١٢٣٣، و تراجیع البانی ٣٧٧، صحیح الضعیف سنن ترمزی #٣٨٠٥).
نزول قرآن کے وقت صرف احادیث لکھنے سے دونوں کے آپس میں مل جانے کا اندیشہ تھا اس لیے احتیاط لازم تھی مگر بعد میں حضرت عمر رضی الله کے اصرار پر حضرت ابو بکر صدیق رضی الله کے دور میں قرآن کی تدوین کے بعد پھر حضرت عثمان رضی اللہ کے دور میں سرکاری اہتمام سے قرآن کے نسخوں کی اشاعت کے بعد بھی کسی حکمران نے احادیث کو اکٹھا کر کہ کتابی شکل دینے کی ضرورت محسوس نہ کی- ان کے نزدیک کتاب الله ، قرآن کی اہمیت اتنی زیادہ تھی کہ کسی اور کتاب سے قرآن پر توجہ کم ہونے کا امکان تھا ، جیسا کہ بعد میں ایسا ہی ہوا کہ لوگوں نے قرآن کو پس پشت ڈال دیا ….
اور قرآن کو ترک کر دینے کا مقدمہ روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کے حضور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مخاطبین کے حوالے سے پیش کریں گے۔ (الفرقان25:30)
ہو سکتا ہے کہ ان کے مدنظر یہ بھی ہو کہ قرآن کی وہ آیات جن میں قرآن کو حدیث کہا گیا اور اس کے علاوہ کسی اور حدیث (کلام ) سے منع کر دیا گیا- (و اللہ اعلم)
دوسری طرف قرآن (أَطِيعُوا الرَّسُولَ) کا حکم کم از کم بارہ آیات میں دیتا ہے- یہ سنت رسول ﷺ ہی ہو سکتی ہے جس پر عمل کا حکم ہے-
سنت رسول ﷺ پر زبانی اور عملی طور رسول ﷺ کی حیات اور بعد میں بھی متواتر، تسلسل سے عمل ہوتا آیا ہے حتی کہ سنت رسول ﷺ کو کتب حدیث کی شکل میں مرتب کر دیا گیا-
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ:
“تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَاتَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ رَسُوْلہِ”۔(مشکوٰۃ شریف:۲۹)
میں تمہارے درمیان دوچیزوں کو چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم ان دونوں کومضبوطی سے تھامے رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہوگے اور وہ کتاب اللہ اور سنت رسولﷺ ہے۔ “
لفظ حدیث ، جس کی قرآن سے ممانعت ظاہر ہے استعمال نہ کیا گیا بلکہ زیادہ عملی “سنت رسولﷺ” ہے-
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ : ” سَيَأْتِيكُمْ عَنِّي أَحَادِيثُ مُخْتَلِفَةٌ، فَمَا جَاءَكُمْ مُوَافِقًا لِكِتَابِ اللَّهِ وَلِسُنَّتِي فَهُوَ مِنِّي، وَمَا جَاءَكُمْ مُخَالِفًا لِكِتَابِ اللَّهِ وَلِسُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي ”
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی صلے اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں کہ میری طرف سے کچھ اختلافی احادیث آئینگی، ان میں سے جو “کتاب اللہ” اور “میری سنّت” کے موافق ہونگی، وہ میری طرف سے ہونگی۔ اور جو “کتاب اللہ” اور “میری-سنّت” کے خلاف ہونگی وہ میری طرف سے نہیں ہونگی۔
- سنن الدارقطني: كِتَابٌ فِي الأَقْضِيَةِ وَالأَحْكَامِ وَغَيْرِ ذَلِكَ، كتاب عمر رضي اللہ عنہ إلى أبي موسى الأشعري، رقم الحديث: 392٦(442٧)
- الكفاية في علم الرواية للخطيب:التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ، رقم الحديث: 311(5٠٠4)؛
- ذم الكلام وأهلہ لعبد اللہ الأنصاري:الْبَابُ التَّاسِعُ، بَابٌ : ذِكْرُ إِعْلَامِ الْمُصْطَفَى صَلَّى اللَّهُ ۔.۔ رقم الحديث: 589(٦٠٦)؛
- الأباطيل والمناكير والمشاهير للجورقاني: كِتَابُ الْفِتَنِ، بَابُ : الرُّجُوعِ إِلَى الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ رقم الحديث:2٧٧(29٠
- 5) الكامل في ضعفاء الرجال » من ابتدا أساميهم صاد » من اسمہ صالح؛ رقم الحديث: 4284
- ٦) التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ » التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ؛ رقم الحديث: 311
معلوم نہیں کہ اقوال اور سنت رسولﷺ کو تحریر کرنے والوں نے قرآن کے واضح الفاظ کو مد نظر کیوں نہ رکھا ؟
اس معاملہ کا مزید کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے-
” اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی بخش دے جنہوں نے ایمان لانے میں ہم پر سبقت کی اور ہمارے دلوں میں اہلِ ایمان کے لئے کینہ پیدا نہ کر۔ اے ہمارے پروردگار یقیناً تو بڑا شفقت کرنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔” (الحشر59:10)
واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب یا حیثیت کو کسی پہلو سے کم کرنے کی کوئی جسارت قابل قبول نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی دین کا ماخذ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عطا کی ہوئی ہر چیز قرآن ہی کی طرح حجت ہے۔ لیکن آپ نے جو دین قرآن کی طرح اجماع و تواتر سے ہم تک منتقل کیا ہے وہ سنت یا دین کا عملی ڈھانچہ ہے۔ باقی جو ذخیرہ حدیث ہمارے سامنے موجود ہے وہ بڑا قیمتی ہے مگر اسے لوگوں نے اپنی صوابدید پر جتنا چاہا اور جس نے چاہا آگے منتقل کیا۔ اس کی حفاظت کا وعدہ اور اہتمام نہ اللہ نے کیا، نہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی اہتمام کیا نہ خلفائے راشدین نے خود یہ کام باہتمام کیا نہ اپنی حکومت کے ذریعے سے اس حوالے سے ایسا کوئی کام کیاجیسا انھوں نے حفاظت قرآن کے لیے کیا تھا۔ یہ ایک ناقابل ترید تاریخی حقیقت ہے۔ قرآن مجید کی وہ حیثیت مان لی جائے جو اللہ تعالیٰ نے خود بیان کی ہے۔ یعنی یہ حکم ہے جو ہر اختلاف کا فیصلہ کرنے آئی ہے، یہ میزان ہے، فرقان ہے، یہ الحق ہے، کتاب محفوظ ہے، باطل کی دراندازی سے پاک ہے، تمام سلسلہ وحی پر نگراں ہے، صاف، واضح، سیدھی اور روشن ہدایت ہے۔ اس کے بعد ہر مذہبی معاملہ قرآن کی روشنی میں سمجھا جائے گا ۔ اس کا امکان پھر بھی رہے گا کہ پانچ لوگ قرآن کی بات کے پانچ مختلف مفاہیم بیان کریں۔ مگر سب لوگ بیک وقت ٹھیک نہیں ہو سکتے۔ زبان وبیان کے مسلمہ دلائل کی روشنی میں غلطی کو واضح کیا جا سکتا ہے۔ کسی کو اپنی غلطی کا ادراک نہیں ہوپاتا اور وہ نیک نیتی سے نہ کہ بغض سے اپنے نقطہ نظر پر قائم رہتا ہے تو گرچہ اس کی غلطی پھر بھی غلطی ہی رہے گی ، مگر قیامت کے دن وہ نیک نیتی کی وجہ سے غلطی کے باوجود ایک اجرکا مستحق ہو گا۔ حدیث کے خزانہ کی اہمیت سے انکار گمراہی کا راستہ ہے قرآن کے ساتھ ساتھ اس سے بھی فائدہ اٹھانے میں ہی بہتری ہے-
موجودہ دور میں ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے ایک صحیفہ ہمام بن منبہ کے نام سے جرمنی کے میوزم سے دریافت کیا ہے جسے حضرت ابوہریرہ کے شاگرہ سے لکھا تھا۔ اس میں حضرت ابو ہریرہ کے ارشادات نقل کیے گئے ہیں۔ اس کے بعد کئی سو سالوں تک احادیث کو جمع کرنے کا کام کیا جاتا رہا ہے۔ احادیث کے مجموعے مختلف اصحاب و علماء و محدثین کے ناموں سے مشہورہویے- صحاح ستہ؛ یعنی کہ چھ مستند کتابیں (١)صحیح بخاری (٢) صحیح مسلم(٣) سنن نسائی(٤) سنن ابی داؤد (٥) سنن ابن ماجہ(٦) سنن ابن ماجہ صحاح ستہ (٢٢٥ -٣٠٣ ھ) کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ان چھ کتابوں میں جتنی روایات ہیں، سب صحیح ہیں اور نہ یہ نظریہ درست ہے کہ صرف ان ہی کتبِ ستہ کی روایات صحیح ہیں۔ باقی کتب حدیث کی روایات درجہٴ صحت تک نہیں پہنچتی ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ نہ صحاح ستہ کی ہر حدیث صحیح ہے اور نہ اُن سے باہر کی ہر حدیث ضعیف ہے حقیقت یہ ہے کہ ان کتابوں کی روایات زیادہ تر صحیح ہیں، اس لیے انہیں صحاح ستہ کہا جاتا ہے۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں: ”چھ کتابیں جو اسلام میں مشہور ہیں، محدثین کے مطابق وہ صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ ہیں۔ ان کتابوں میں حدیث کی جتنی قسمیں ہیں صحیح، حسن اور ضعیف، سب موجود ہیں اور ان کو صحاح کہنا تغلیب کے طور پر ہے۔“ محدثین کی ان کتابوں میں ایک طرف دینی معلومات جمع کی گئیں اور دوسری طرف ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانے کے صحیح تاریخی واقعات جمع کیے گئے ہیں۔ اس طرح احادیث کی یہ کتابیں دینی و تاریخی دونوں اعتبار سے قابل بھروساہو سکتی ہیں-
“کتابت حدیث” – ” نخبة الفکر” کی شرح کے خلاصہ و ترجمہ سے انتخاب ہے جو حدیث کی کتابت سے متعلق اصحابہ کرام رضی الله کی دو مختلف آراء پر روشنی ڈالتا ہے – ” نخبة الفکر” علامہ ابن حجرالعسقلانی کی تصنیف ہے- قرون وسطیٰ کے محدثین میں علامہ ابن حجرالعسقلانی کا نام سر فہرست ہے ، آپ کا عہد چودہویں صدی عیسوی کے نصفِ اول کے آخرسے لے کر پندرہویں صدی عیسوی کے نصفِ اول تک کا ہے۔ آپ نامور مؤرخ ، فقیہ تھے۔مصر میں پیدا ہوئے۔ علوم حدیث میں سند شمار ہوتے ہیں۔ آپ کو شیخ الاسلام کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ ان کی کتابوں کی تعداد 150 سے اوپر بتائی جاتی ہے۔ مشہور کتابوں میں الاصابہ فی تمييز الصحابہ : اصحاب رسول کے متعلق ایک جامع انسائیکلوپیڈیا ہے جو اب اُردو میں بھی شائع ہوچکا ہے۔ فتح الباری شرح صحیح البخاری : علامہ ابن حجر عسقلانی یہ عظیم تصنیف ایک شاہکار سمجھی جاتی ہے، یہ کتاب عقائد، فقہ، اور حدیث کا شاہکار ہے۔
” نخبة الفکر” اقتباسات :
اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتے۔”
( یہ حدیث مسند احمد ، ترمذی اور حاکم میں روایت ہوئی ہے۔ حاکم کے مطابق یہ حدیث صحیح ہے لیکن ان کے تساہلِ حدیث سے حدیث کے طالب علم بخوبی واقف ہیں۔ ترمذی کے مطابق حسن غریب ہے ، البانی حسن قرار دیتے ہیں ، بعض نے حسن لذاتہ قرار دیا ہے اور بعض اہل علم نے اس حدیث کے بعض راویوں کو منکر اور سخت ضعیف قرار دیا ہے۔ تاہم یہ ایک ایسی ضعیف حدیث ہے جس کے شواہد و متابعات موجود ہیں جس کی وجہ سے ترمذی کی اصطلاح کے مطابق یہ حدیث حسن غریب اور عام اصطلاح کے مطابق حسن لذاتہ کے درجے تک پہنچتی ہے۔ مناقب میں اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے۔)
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیثِ مبارکہ میں ہے : آپ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفید کپڑا اوڑھے سو رہے تھے۔ میں دوبارہ حاضر ہوا اس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سو رہے تھے۔ پس میں تیسری بار حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہو چکے تھے، میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص لا الٰہ الا اﷲ کہے، اسی اعتقاد پر اس کا خاتمہ ہو جائے تو وہ جنت میں جائے گا۔
مسلم، الصحيح، کتاب الايمان، باب من مات لا يشرک باﷲ شيئًا دخل الجنة و من مات مشرکا دخل النار، 1 : 95، رقم : 94
لیکن اس حدیث میں کلمہ طیبہ پڑھنے سے مراد احوال و اعمال کی اصلاح کے ساتھ کلمہ طیبہ پڑھنا ہے۔ کلمہ طیبہ پڑھنے کے بعد احوال و اعمال کی اصلاح کو نظرانداز کرنا اﷲ کی گرفت کا باعث بنتا ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
مَن يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ وَلاَ يَجِدْ لَهُ مِن دُونِ اللّهِ وَلِيًّا وَلاَ نَصِيرًاo
’’جو کوئی برا عمل کرے گا اسے اس کی سزا دی جائے گی اور نہ وہ اللہ کے سوا اپنا کوئی حمایتی پائے گا اور نہ مددگارo‘‘( النساء، 4 : 123)
أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ(29:2 سورة العنكبوت) کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ “ہم ایمان لائے ” اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟(29:2 سورة العنكبوت)
حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اس دین اسلام کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے کامل کر دیا ہے اور اپنے نبی اور مومنوں کو اس کا کامل ہونا خود اپنے کلام میں فرما چکا ہے اب یہ رہتی دنیا تک کسی زیادتی کا محتاج نہیں ، اسے اللہ نے پورا کیا ہے جو قیامت تک ناقص نہیں ہوگا۔ اس سے اللہ خوش ہے اور کبھی بھی ناخوش نہیں ہونے والا ۔ حج اکبر والے دن جبکہ یہ آیت اتری تو حضرت عمر رونے لگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سبب دریافت فرمایا تو جواب دیا کہ ہم دین کی تعمیل میں کچھ زیادہ ہی تھے ، اب وہ کامل ہو گیا اور دستور یہ ہے کہ کمال کے بعد نقصان شروع ہو جاتا ہے ، آپ نے فرمایا سچ ہے ، اسی معنی کی شہادت اس ثابت شدہ حدیث سے ہوتی ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے کہ اسلام غربت اور انجان پن سے شروع ہوا اور عنقریب پھر غریب انجان ہو جائیگا ، پس غرباء کیلئے خوشخبری ہے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز کے عہدِ خلافت میں تدوینِ حدیث اورامام ابوحنیفہ:
خلیفہ حضرت عمر بن عبد العزیز ( ۶۱ھ-۱۰۱ھ) کے خاص اہتمام سے وقت کے دو جید محدِّث شیخ ابوبکر بن الحزم (متوفی ۱۲۰ھ) اور محمد بن شہاب زُہری (متوفی ۱۲۵ھ) کی زیر نگرانی احادیثِ رسول کو کتابی شکل میں جمع کیا گیا؛ اب تک یہ احادیث منتشر حالتوں میں سینوں میں محفوظ چلی آرہی تھیں۔ اسلامی تاریخ میں ان ہی دونوں محدث کو حدیث کا مدوِّنِ اوَّل کہا جاتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ طیبہ میں عمومی طور پر احادیث لکھنے سے منع فرمادیا تھا؛تاکہ قرآن وحدیث ایک دوسرے سے مل نہ جائیں؛ البتہ بعض فقہاءِ صحابہ (جنہیں قرآن وحدیث کی عبارتوں کے درمیان فرق معلوم تھا) کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں بھی احادیث لکھنے کی محدود اجازت تھی۔ خلفاء راشدین کے عہد میں جب قرآن کریم تددین کے مختلف مراحل سے گزرکر ایک کتابی شکل میں امتِ مسلمہ کے ہر فرد کے پاس پہونچ گیاتو ضرورت تھی کہ قرآنِ کریم کے اصل مفسر و خاتم النّبیین وسید المرسلین حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احایث کو بھی مدون کیا جائے؛ چنانچہ احادیثِ رسول کا مکمل ذخیرہ جو منتشر اوراق اور زبانوں پر جاری تھا، انتہائی احتیاط کے ساتھ حضرت عمر بن عبدالعزیز کی عہدِ خلافت (۹۹ھ-۱۰۱ھ)میں مرتب کیا گیا۔ احادیثِ نبویہ کے اس ذخیرہ کی سند میں عموماًدو راوی تھے ایک صحابی اور تابعی، بعض احادیث صرف ایک سند یعنی صحابی سے مروی تھیں۔ ان احادیث کے ذخیرہ میں ضعیف یا موضوع ہونے کا احتمال بھی نہیں تھا۔ نیز یہ وہ مبارک دور تھا، جس میں اسماء الرجال کا علم باضابطہ وجود میں نہیں آیا تھا اور نہ اس کی ضرورت تھی؛ کیونکہ حدیثِ رسول بیان کرنے والے صحابہٴ کرام اور تابعین عظام یا پھر تبع تابعین حضرات تھے اور ان کی امانت ودیانت اور تقوی ٰ کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم (سورہٴ التوبہ آیت نمبر ۱۰۰) میں فرمایا ہے۔
حضرت امام ابوحنیفہ کو انھیں احادیث کا ذخیرہ ملا تھا؛ چنانچہ انہوں نے قرآنِ کریم اور احادیث کے اس ذخیرہ سے استفادہ فرماکر امتِ مسلمہ کو اس طرح مسائلِ شرعیہ سے واقف کرایا کہ ۱۳۰۰ سال گزرجانے کے بعد بھی تقریباً ۷۵ فیصد امت مسلمہ اس پر عمل پیرا ہے اور ایک ہزار سال سے امتِ مسلمہ کی اکثریت امام ابوحنیفہ کی تفسیر وتشریح اور وضاحت وبیان پر ہی عمل کرتی چلی آرہی ہے۔ امام ابوحنیفہ کو احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم صرف دو واسطوں (صحابی اور تابعی) سے ملی ہیں؛ بلکہ بعض احادیث امام ابوحنیفہ نے صحابہٴ کرام سے براہ راست بھی روایت کی ہیں۔ دو واسطوں سے ملی احادیث کو احادیث ثنائی کہا جاتا ہے، جو سند کے اعتبار سے حدیث کی اعلیٰ قسم شمار ہوتی ہے۔ بخاری ودیگر کتبِ حدیث میں ۲ واسطوں کی کوئی بھی حدیث موجود نہیں ہے، ۳ واسطوں والی یعنی احادیث ثلاثیات بخاری میں صرف ۲۲ ہیں، ان میں سے ۲۰احادیث امام بخاری نے امام ابوحنیفہ کے شاگردوں سے روایت کی ہیں۔
حجت دین کے بارے میں قرآن و حدیث میں فرق یہ ہے کہ قرآن کی نقل بہ طریقۂ تواتر ہے، جوہرطرح کے شک وشبہ سے بالاتر ہے اور علم قطعی کی موجب ہے اور حدیث اس حیثیت سے کہ ارشاد رسول اللہﷺ ہے، حجت قطعی ہے؛ البتہ رسول اللہﷺ سے ہم تک پہونچنے میں جودرمیانی وسائط ہیں، ان کی وجہ سے احادیث کا ثبوت اس درجہ قطعی نہیں ہے، جس درجہ کی قطعیت قرآن کو حاصل ہے۔
The Test of Authenticity of any Hadith:
The Prophet (peace be upon him) is reported to have said that if you hear such an Hadiths attributed to him to which your heart refuse to accept and your body and hair do not get inspired, then be sure that it is far off form you and also far off from me (Prophet Muhammad, pbuh) [Quoted in Tafseer Ib Kathir in explanation of Quran11:88, Translation of Hadith from “Masnad Ahmad” 3/497, 5/425 Tbqat ibn Saad, 2/387 Majmaa Alzwaid 1/149,150, Masnad Hazaar 187, Ibn jahan 63. This Hadith is graded as Saheeh by Shaikh Albani (Al Silsilah Al Sahihah 2/732. Shaikh Mustafa Alsayed, Skhaikh Rashad, Shaikh Ajmawi, Shaikh Ali Ahmad and Shaikh Hasan Abbas also grade it as Saheeh]
http://salaamone.blogspot.com/2011/07/what-is-quran.html
اسی لیے احادیث کے مختلف درجات ہیں، صحیح، مرسل، ضعیف ، مگر قرآن کی آیات محکم ہیں ان کے متعلق ارشاد ہے :
ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ (2:1)یہ (قرآن) وہ کتاب ہے جس (کے کلام اللہ ہونے) میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ مگرکیا حدیث کی کسی کتاب کے لیے ایسا دعوی کیا جا سکتا ہے؟سنت کیوں کہ تواترسے لا تعداد افراد کی وساطت عمل سے منتقل ہوئی اس لیے اس کی درجہ بندی حدیث کی طرح نہیں-
شاہ ولی اللہ صاحب کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ اقوال جو تبلیغِ رسالت کے باب سے نہیں ہیں(یعنی دنیاوی امور سے متعلق ہیں) ، بعض حضرات کے مناقب سے متعلق اقوال،طب سے متعلق بعض اقوال ،آپ کے دور میں کسی جزئی مصلحت کے حصول کے لیے آپ کے جاری کردہ احکامات،آپ کے عادی امور، آپ کے فیصلے(یعنی قضاء) اور آپ کے بعض احکامات کا آپ کی قوم کے بعض لوگوں کے لیے خاص ہوناوغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔
شاہ صاحب نے اس موقف کی دلیل کے طور پرکہ آپ کاہر قول ہمارے لیے شریعت نہیں ہے، ایک حدیث کو بیان کیا ہے۔حضرت خارجہ بن زید بن ثابت سے روایت ہے: دَخَلَ نَفَر عَلٰی زَیْدٍ بْنِ ثَابِتٍ فَقَالُوْا حَدِّثْنَا بَعْضَ حَدِیْثِ رَسُوْلِ اللّٰہِ فَقَالَ وَمَا أُحَدِّثُکُمْ؟ کُنْتُ جَارُہ فَکَانَ ِذَا نَزَلَ الْوَحْیُ أَرْسَلَ ِلَیَّ فَکَتَبْتُ الْوَحْیَ وَکَانَ ِذَا ذَکَرْنَا الْآخِرَةَ ذَکَرَھَا مَعَنَا وَذَا ذَکَرْنَا الدُّنْیَا ذَکَرَھَا مَعَنَا وَذَا ذَکَرْنَا الطَّعَامَ ذَکَرَھُ مَعَنَا’ فَکُلُّ ھٰذَا أُحَدِّثُکُمْ عَنْہُ؟ (٢٤)
کچھ لوگوں میں عام غلط فہمی ہے کہ حدیث اور سنت ایک ہی چیز ہے۔ فی الحقیقت ؛ حدیث اور سنت دونوں ایک دوسرے سے ناصرف لسانی اعتبار سے بلکہ شریعت میں اپنے استعمال کے لحاظ سے بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔
- اسلام ؛ قرآن اور سنت پر عمل کرنے کا نام ہے۔ سنت کی تشکیل میں احادیث اہم کردار ادا کرتی ہیں لیکن سنت صرف احادیث سے نہیں بنی ہوتی ہے؛ سنت میں رسول اللہﷺ کی زندگی کا وہ حصہ بھی شامل ہے جو الفاظ کی شکل میں نہیں مثال کے طور پر تقریر اور یا کسی عبادت کا طریقہ ، تقریر کو محدثین حدیث میں بھی شمار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ سنت میں قرآن اور حدیث میں بیان کردہ ہدایات پر عمل کرنے کا نمونہ پایا جاتا ہے؛ یہ طریقہ یا عملی نمونہ محمد رسول اللہﷺ کے زمانے میں موجود اس عہد کی نسل سے اجتماعی طور پر اگلی اور پھر اگلی نسل میں منتقل ہوتا رہتا ہے اور اس کی اس اجتماعی منتقلی کی وجہ سے اس میں نقص یا ضعف آجانے کا امکان حدیث کی نسبت کم ہوتا ہے کیونکہ حدیث ایک راوی سے دوسرے راوی تک انفرادی طور پر منتقل ہوتی ہے اور اس منتقلی کے دوران اس راوی کی حیثیت ، اعتبار اور اس کی یاداشت کا دخل ہوتا ہے۔
- نکاح کرنا سنّت ہے، حدیث نہیں؛ قربانی کرنا سنّت ہے، حدیث نہیں؛ مسواک کرنا سنّت ہے، حدیث کوئی نہیں کہتا. کسی حدیث کو سنت سے پرکھا جا سکتا ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ : ” سَيَأْتِيكُمْ عَنِّي أَحَادِيثُ مُخْتَلِفَةٌ , فَمَا جَاءَكُمْ مُوَافِقًا لِكِتَابِ اللَّهِ وَلِسُنَّتِي فَهُوَ مِنِّي , وَمَا جَاءَكُمْ مُخَالِفًا لِكِتَابِ اللَّهِ وَلِسُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي ”
[(١) سنن الدارقطني: كِتَابٌ فِي الأَقْضِيَةِ وَالأَحْكَامِ وَغَيْرِ ذَلِكَ، كتاب عمر رضي الله عنه إلى أبي موسى الأشعري، رقم الحديث: ٣٩٢٦(٤٤٢٧) ؛
حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ، نبی صلے الله علیہ وسلم سے مروی ہیں کہ میری طرف سے کچھ اختلافی احادیث آئینگی، ان میں سے جو “کتاب الله” اور “میری سنّت” کے موافق ہونگی، وہ میری طرف سے ہونگی. اور جو “کتاب الله” اور “میری-سنّت” کے خلاف ہونگی وہ میری طرف سے نہیں ہونگی.
(٢) الكفاية في علم الرواية للخطيب:التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ، رقم الحديث: ٣١١(٥٠٠٤)؛ (٣) ذم الكلام وأهله لعبد الله الأنصاري:الْبَابُ التَّاسِعُ، بَابٌ : ذِكْرُ إِعْلَامِ الْمُصْطَفَى صَلَّى اللَّهُ …رقم الحديث: ٥٨٩(٦٠٦)؛ (٤) الأباطيل والمناكير والمشاهير للجورقاني: كِتَابُ الْفِتَنِ، بَابُ : الرُّجُوعِ إِلَى الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ رقم الحديث:٢٧٧(٢٩٠ ٥) الكامل في ضعفاء الرجال » من ابتداء أساميهم صاد » من اسمه صالح؛ رقم الحديث: 4284 ٦) التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ » التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ؛ رقم الحديث: ٣١١] دلیل_فقہ ١) کھڑے ہوکر پیشاب کرنا[صحیح بخاری، کتاب الوضو، حدیث#٢٢١] اور کھڑے ہوکر پانی پینا [صحيح البخاري » كِتَاب الْأَشْرِبَةِ » باب الشُّرْبِ قَائِمًا، رقم الحديث: ٥٢١٣(٥٦١٥)] حدیث سے ثابت ہے، مگر یہ سنّت (عادت) نہ تھی، بلکہ سنّت (عادت) بیٹھکر پیشاب کرنا [صحيح البخاري » كِتَاب الْوُضُوءِ » بَاب التَّبَرُّزِ فِي الْبُيُوتِ، رقم الحديث: ١٤٧(١٤٩)] اور بیٹھکر پانی پینا تھی، کھڑے ہوکر پینے سے منع فرمایا.[صحيح مسلم » كِتَاب الْأَشْرِبَةِ » بَاب كَرَاهِيَةِ الشُّرْبِ قَائِمًا، رقم الحديث: ٣٧٧٨(٢٠٢٥)]
سنت کا نمونہ رسول اللہﷺ نے پیش کیا اور پھر اس کے بعد اصحاب اکرام اور تابعین سے ہوتا ہوا موجودہ زمانے تک پہنچا ہے اسی ليے اس میں امت کے اجتماعی درست طریقۂ کار یا راہ کا مفہوم بھی شامل ہوتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ عموماً اس کے ساتھ الجماعت کا لفظ لگا کر سنت و الجماع بھی کہا جاتا ہے۔
حدیث اور سنت کا فرق مفہوم کے لحاظ سے اسلامی شریعت میں پایا جاتا ہے لیکن اس فرق سے کسی ایک کی اہمیت کم نہیں ہوتی۔ دونوں ہی اپنی جگہ مسلم ہیں اور حدیث کے بغیر سنت اور شریعت کا علم ، دونوں سے کوئی ایک تشکیل نہیں پاسکتا۔ حدیث کو رد کرنے کا رحجان مغرب کی استعماریت سے مقابل آنے کے ليے اس سے متصادم اسلامی نظریات کو رد کرنے والے جدت پسندوں کی جانب سے بیسویں صدی کے اوائل میں بھی سامنے آیا، ان ہی میں سے ایک شخص عبداللہ چکرالوی نے احادیث کو یکسر رد کر کہ اہل القرآن کی بنیاد ڈالی۔ دوسری جانب اہل حدیث بھی انتہا پر پہنچے ہوۓ ہیں؛ ان کے نزدیک حدیث کی متابعت ، قرآن شریف کی آیات کے اتباع کے برابر ہے کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالٰی نے خود رسول اللہﷺ (کی دین سے متعلق) ہر بات کو اللہ کی اجازت سے ہونے کی ضمانت دی ہے اور اس سلسلے میں سورت النجم کی ابتدائی 15 آیات بکثرت حوالے کے طور پیش کی جاتی ہیں، اس سورت کے حوالے میں ایک قابل غور بات یہ ہے کہ سورت میں اللہ تعالٰیٰ کا اشارہ ، محمد رسول اللہﷺ کے اس قول کی جانب ہے جو قرآن کی صورت نازل ہو رہا تھا۔
سنت اور حدیث کا لفظ امامیان اور وفقہا مختلف مفہوم رکھتا ہے؛ حدیث ، سنت کا حصہ ہوتی ہے لیکن سنت صرف حدیث نہیں ہوتی۔ امام شافعی رح نے کہا: “میں کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا جو تمام سنت اور احادیث کو جانتا ہو۔ اگر احادیث کا علم رکھنے والے علما کے علم کو یکجا کیا جاۓ تو صرف اسی حالت میں تمام سنت آشکار ہوسکتی ہے۔ چونکہ ماہرین حدیث دنیا کے ہر گوشے میں پھیلے ہیں اس وجہ سے بہت سی احادیث ایسی ہوں گی جن تک ایک عالم حدیث کی رسائی نہ ہوگی لیکن اگر ایک عالم ان سے نا آشنا ہے تو دوسروں کو ان کا علم ہوگا”قران و سنت کے علاوہ اسلام کی تیسری اور چوتھی اصل وبنیاد، اجماع امت اور قیاس ہے اور ان چاروں اصولوں کا مرجع خود رسول اللہﷺ کی ذاتِ گرامی ہے-
New Work on Hadith in Turkey:
ترکی میں احادیث کی جدید تحقیق اور ترتیب
- متعلقه تحریریں :
- سنت اور حدیث کی اہمیت اور فرق
- اسلام کی ترویج میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اجتہاد و اقدامات
- اتباع سنت کی اہمیت
- کیا کلمہ طیبہ پڑھ لینا ہی نجات کے لئے کافی ہے؟
- نجات، بخشش، ایمان اور اعمال – مغالطے
- مسلمان کون؟
- سنت کی آئینی حیثیت
- منکرین حدیث المعروف بہ اہل قرآن سے امام شافعی(رح) کا ایک مباحثہ
- قرآن کے بنیادی احکام ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری وصیتیں، فرقہ بازی کی ممانعت:
- خطبات اقبال – اسلام میں تفکر کا انداز جدید
- http://kitabosunnat.com/musannifeen/ibn-e-hijar-al-asqlani
- http://magazine.mohaddis.com/shumara/105-sep2002/1591-ehd-nabvi-kitabat-hadees
- http://www.thefatwa.com/urdu/questionID/1423
- http://www.dawateislami.net/bookslibrary/1289/page/243
- http://www.dawateislami.net/bookslibrary/1289/page/178
اعتراض:
جواب:
بلاشبہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“میری طرف سے کچھ نہ لکھو اور جس نے قرآن کے سوا کچھ لکھا ہو تو وہ اسے مٹادے-“
(صحیح مسلم،الزھد، باب التثبت فی الحدیث و حکم کتابہ العلم، حدیث:3004)
تاہم واضح رہے کہ کتابت حدیث کی ممانعت ابتدائے اسلام میں تھی تاکہ احادیث تاکہ احادیث کا مضمون قرآن کریم کے مصامین سے خلط ملط نہ ہوجائے- چنانچہ ایک روایت میں اس کی وضاحت موجود ہے- حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات قلمبند کررہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےتشریف لائے، دریافت فرمایا:
” تم کیا لکھ رہے ہو؟” ہم نے عرض کیا وہی کچھ جو ہم آپ سے سنتے ہیں-
آپ نے فرمایا:
(مسند احمد: 3/12، حدیث:11092)
پھر اس حدیث کے آگے یہ الفاظ بھی ہیں: [ تحدّثو عنّی ولا حرج]
“مجھ سے احادیث بیان کرو اس میں چنداں حرج نہیں”
بتا بھی نہیں سکتے کیونکہ یہ من گھڑت بات ہے، اسی لیے اس بارے میں ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے- شاید یہ حصرات خود کسی سازش کا شکار ہیں-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حدیث پر مزید ...<< پڑھیں >>>
اور مزید پڑھیں: حدیث/https://ur.wikipedia.org/wiki/
-
علماء اور دور جدید