پاکستان، مسلمانوں کا نظریاتی اور فکری کنفیوژن اور ممکنہ حل Pakistan, Muslims in Ideological Confusion

“ہم ایک ایسے اسلامی تصور کا تعاقب کر رہے ہیں جو انسانیت، جمالیات، دانش اور روحانی عقیدت سے خالی ہے … جس کا تعلق طاقت سے ہے نہ کہ روح سے، عوام کو  حصول اقتدار کے لیے متحرک کیا جاتا ہے نا کہ ان کی مشکلات کے خاتمے اور تمناؤں کے حصول کے لیے.” (اقبال احمد)
 
“We are chasing an Islamic order ‘stripped of its humanism, aesthetics, intellectual quests and spiritual devotions…. concerned with power not with the soul, with the mobilization of people for political purposes rather than with sharing and alleviating their sufferings and aspirations.”[Eqbal Ahmad]
 Image result for militancy biggest problem of muslims
ام الامراض:
Image result for ahmad javed scholar
احمد جاوید ایک حیران کن آدمی ہیں، پاکستان کے دو تین جینوئن دانشوروں میں ان کا شمار کیا جا سکتا ہے۔ قدیم و جدید علوم سے انہیں استفادہ کا موقعہ ملا۔ مولانا ایوب دہلوی جیسے عبقری عالم دین اور متکلم سے انہیں دینی اصول و اسلوب سیکھنے کو ملے۔ سلیم احمد جیسے لیجنڈری ادیب اور دانشور سے برسوں ان کی نشستیں رہیں۔ دراصل یہ پروفیسر محمد حسن عسکری کا سکول آف تھاٹ تھا، جسے سلیم احمد نے قابل قدر اضافوں کے ساتھ آگے بڑھایا۔
!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
Image result for muslim glorious past

 احمد جاوید  صوفی بھی ہیں، فلسفہ پر لیکچر بھی دیتے ہیں، اقبال اکیڈمی سے برسوں تک بھی وابستہ رہے۔ اعلیٰ درجے کے شاعر بھی ہیں۔  خوش قسمتی سے احمد جاوید کا پوسٹ ماڈرن ازم کے حوالے سے ایک لیکچر مل گیا، موضوع گویا پانی ہوگیا۔
احمد جاوید نے اس انٹرویو میں کئی نہایت خوبصورت اور فکر افروز باتیں کہی ہیں۔
 
 پاکستانی سماج کے انحطاط کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں:
 
 ”ہمارا سب سے بڑا اجتماعی مرض یا ام الامراض یہ ہے کہ ہم گھٹیا لوگ بن کر رہ گئے ہیں۔ ذوق میں، فہم میں، ذہن میں، اخلاق میں… ہر معاملے میں ہم اوسط سے نیچے ہیں۔ یہ ہمارے انحطاط کا سب سے بڑا سبب ہے اور اسی سے ذہنی اور اخلاقی انحطاط پیدا ہوا۔
 ہم بہت چھوٹے لوگ ہیں اور اس چھو ٹے پن کو دور کرنے کی خواہش بھی نہیں رکھتے، اپنے معمولی پن سے نکلنے کی کوئی طلب نہیں رکھتے۔ معمولی پن پیدا ہو جانا مرض ہے، مگر اس معمولی پن، گھٹیا پن پر راضی ہو جانا موت ہے‘‘۔
 
 احمد جاوید سے سوال پوچھا گیا کہ:
 ہمارے معاشرے میں قحط الرجال کیوں ہے، کوئی بڑا ادیب پیدا ہو رہا ہے، بڑا شاعر نہ بڑا عالم دین؟
 
 دانشور کا جواب بڑا صاف اور قطعی تھا:
 ”بڑے لوگ پیدا نہ ہونے کا سبب وہی ہے کہ ہم مجموعی طور پر اوسط سے بھی نیچے درجے کی قوم بن چکے ہیں۔ جب تک ہم اپنی کمزوریوں کی ذمہ داری غیروں پر ڈالتے رہیں گے، اس وقت تک ہم ان کمزوریوں سے نکل نہیں سکتے۔
 ہمارا پورا نظام تعلیم عمومی لوگ پیدا کرنے کی مشین ہے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہر تہذیب کا ایک ذہن ہوتا ہے جو اس کے نظام تعلیم سے تشکیل پاتا ہے۔ اگر کسی معاشرے یا سماج کا نظام تعلیم اس کے اپنے تصور علم سے مناسبت نہ رکھتا ہو اور مانگے تانگے پر مبنی ہو تو ظاہر ہے اس تعلیمی نظام سے اس تہذیب کے اجتماعی شعور کو تقویت نہیں ملے گی‘‘۔
 
 آگے جا کر احمد جاوید صاحب نے ایک دلچسپ تھیسس پیش کیا ہے۔ کہتے ہیں:
 
”ہر تہذیب کا ایک اجتماعی شعور، اجتماعی قلب اور اجتماعی ارادہ ہوتا ہے۔ اپنے اجتماعی شعور کو سیراب کرنے کے لئے ہر تہذیب اپنا نظام علم بناتی ہے۔ اسی طرح تہذیب کا اجتماعی ارادہ اس کے مقاصد کو حاصل کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اب اگر کوئی تہذیب اپنی اوریجنل مراد، خواہش سے دستبردار ہو کر دوسروں کے مقاصد کو اپنا مقصد بنانے کا فیصلہ کر لے تو اس کا وہ اجتماعی ارادہ معطل ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں تخلیقی اعمال نہیں ہو سکتے، بڑے مقاصد حاصل کرنے والی اجتماعی محنت نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح تہذیب کا اجتماعی قلب اس تہذیب کی محبت، نفرت اور اس کے جذبات، احساسات کو ایک خاص ہیئت، رنگ اور حالت میں رکھتا ہے۔ ہر تہذیب اپنا نظام احساسات بھی رکھتی ہے۔ اگر تہذیب اپنے نظام احساسات سے خالی اور غیر مطمئن ہو جائے تو اس کا قلب دھڑکنا بند کر دیتا ہے۔ ان تینوں سطحوں پر اگر دیکھیں تو ہم بانجھ پن کا شکار ہو چکے ہیں۔

”اب ہم یہ کہنے کے لائق نہیں رہے کہ یہ رہا ہماری تہذیب کا اجتماعی ذہن اور یہ رہے اس کے افکار و اقدار، یہ رہی ہماری منزل اور یہ رہی ہماری پسند و ناپسند۔ جس تہذیب کے اندر اس کی آبیاری، اس کی نگہداشت، حفاظت کا نظام ختم ہو جائے، اس تہذیب کو باطنی قوت فراہم کرنے والا نظام تعلیم، نظام اخلاق، نظام انصاف وغیرہ ختم ہو جائے تو پھر وہ تہذیب بڑا آدمی پیدا کرنے سے معذور ہو جاتی ہے۔ بڑا آدمی اپنی تہذیب کے ذہن اور قلب کا مظہر بن جانے والے کو کہتے ہیں۔ جس تہذیب کے اندر خلا پیدا ہو جائے گا، وہ پھر خالی لوگ ہی پیدا کرے گی۔ اس لئے ہم اس بحران میں مبتلا ہیں‘‘۔
ا اس پر غور فرمائیے کہ چند سطروں میں پاکستانی قوم کو درپیش سب سے بڑے مسئلے یا ام الامراض (امراض کی ماں) کی نشاندہی کر دی گئی ہے۔ اس کو کیسے دور کیا جا سکتا ہے
Pages ( 1 of 6 ): 1 23456Next »