روح ، عقل و شعور اور قرآن Quran on Intellect ، Spirit & Quran

انسان کی دیگر مخلوقات سے برتری عقل کے استعمال کی بدولت  ہے، اوراس وجہ سے ہے کہ انسان کو اس کے خالق نے ذہانت کا مالک بنایا ہے۔ کتاب اللہ میں بکثرت مقامات پر اس پر بڑا زوردیا گیا ہے۔ رب تعالیٰ نے الکتاب سے استفادہ کے لئے جن دو شرطوں کو مقدم کیا ہے، اُن میں سے ایک تو یہ ہے کہ انسان اپنے رب کی سب سے بڑی نعمت یعنی اُسے بخشی گئی عقل یا ذہانت یا عقل عام کو استعمال میں لائے اور دوسرے یہ کہ رسول اکرم صلى الله علیہ وسلم کے پیش کردہ نظام اور اُن کے اخلاق و کردار کی پیروی اور ان کے اُسوہٴ حسنہ کی اتباع کرے۔

The difference between human and animals is the ‘intellect’, the ability to learn and reason; the capacity for knowledge and understanding. intellect enables man to think rationally and discern right from wrong, truth from falsehood… Keep reading … […..]

Google Doc: https://bit.ly/Quran-Intellect

عقلمندوں کے سوا کوئی نصیحت قبول نہیں کرتا۔ (قرآن 2:269)

لفظ عقل جسے ہم عقل عام Common Sense یا انسانی ذہانت بھی کہہ سکتے ہیں، قرآن  کا لفظ ہےجو کتاب اللہ میں تقریباً اُنتالیس مرتبہ، اور مخلتف انداز میں 49 مرتبہ استعمال ہوا ہے– کلام اللہ میں بار بار جو الفاظ آتے ہیں لعلکم تعقلون، افلا تعقلون، لقوم یعقلون، فہم لا یعقلون، اکثرہم لا یعقلون، ان الفاظ پر مشتمل آیتیں انسانی عقل کو بھی اور انسانی ذہانت Intellect کو بھی دعوت دیتی ہیں، تاکہ ہم میں سوچ کا عمل جاری و ساری ہوجائے۔ کامن سنس کے استعمال کی ہماری عادت بنے۔ اس طرح ہم انسانی عقل کی قدر و قیمت کے ساتھ اس کے استعمال کا سلیقہ بھی سیکھ لیں۔ انسانی سوچ کا یہ عمل دراصل اس کی ساری ترقیات کا ضامن ہے۔ دنیوی ترقی کا دارومدار بھی اسی پر ہے اور اپنی ہمیشہ کی زندگی کی ترقی کے رازہائے دست بستہ بھی اسی فکر و عمل کے ذریعے کھلنے شروع ہوں گے۔ شرط یہ ہے کہ عقل کو کتاب اللہ اوراسوة الرسول صلى الله علیہ وسلم کی روشنی میں استعمال کیا جائے، چاہے معاملاتِ دنیا ہوں کہ معاملاتِ دینی۔

الله کی طرف سے روح  اور عقل کا تعلق
روح سے مراد محض وہ زندگی نہیں ہے جس کی بدولت ایک ذی حیات جسم کی مشین متحرک ہوتی ہے، بلکہ اس سے مراد وہ خاص جوہر ہے جو فکر و شعور اور عقل وتمیز اور فیصلہ و اختیار کا حامل ہوتا ہے، جس کی بدولت انسان تمام دوسری مخلوقات ارضی سے ممتاز ایک صاحب شخصیت ہستی، صاحب انا ہستی، اور حامل خلافت ہستی بنتا ہے۔ اللہ کا فرمان ہے:

فَاِذَا سَوَّيۡتُهٗ وَنَفَخۡتُ فِيۡهِ مِنۡ رُّوۡحِىۡ فَقَعُوۡا لَهٗ سٰجِدِيۡنَ ۞
جب میں اُسے پُورا بنا چکوں اور اس میں (مِنۡ رُّوۡحِىۡ) اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اُس کے آگے سجدے میں گِر جانا۔“(سورۃ 15 الحجر, آیت  29)
یوں تو ہر صفت جو مخلوقات میں پائی جاتی ہے، اس کا مصدر و منبع اللہ تعالیٰ ہی کی کوئی نہ کوئی صفت ہے۔

ثُمَّ سَوّٰٮهُ وَنَفَخَ فِيۡهِ مِنۡ رُّوۡحِهٖ‌ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمۡعَ وَالۡاَبۡصَارَ وَالۡاَفۡــئِدَةَ ‌ ؕ قَلِيۡلًا مَّا تَشۡكُرُوۡنَ ۞
“پھر اُس کو نِک سُک سے درست کیا اور اس کے اندر اپنی روح پھونک دی ، اور تم کو کان دیے ، آنکھیں دیں اور دل دیے ۔ تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو”۔ (سورۃ  32 السجدة, آیت 9) اس روح کو اللہ تعالیٰ نے اپنی روح اس معنی میں فرمایا ہے کہ:

  1. یا تو وہ اسی کی ملک ہے اور اس کی ذات پاک کی طرف اس کا انتساب اسی طرح کا ہے جس طرح ایک چیز اپنے مالک کی طرف منسوب ہو کر اس کی چیز کہلاتی۔
  2. یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے اندر علم، فکر، شعور، ارادہ، فیصلہ، اختیار اور ایسے ہی دوسرے جو اوصاف پیدا ہوئے ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی صفات کے پر تو ہیں۔ ان کا سر چشمہ مادے کی کوئی ترکیب نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اللہ کے علم سے اس کو علم ملا ہے، اللہ کی حکمت سے اس کی دانائی ملی ہے، اللہ کے اختیار سے اس کو اختیار ملا ہے۔ یہ اوصاف کسی بےعلم، بےدانش اور بےاختیار ماخذ سے انسان کے اندر نہیں آئے ہیں۔
  3. انسان کے اندر جو روح پھونکی گئی ہے وہ دراصل صفات الہٰی کا ایک عکس یا پرتو ہے۔ حیات، علم، قدرت، ارادہ، اختیار اور دوسری جتنی صفات انسان میں پائی جاتی ہیں، جن کے مجموعہ کا نام روح ہے، یہ دراصل اللہ تعالیٰ ہی کی صفات کا ایک ہلکا سا پرتو ہے جو اس کا لبد خاکی پر ڈالا گیا ہے، اور اسی پرتو کی وجہ سے انسان زمین پر خدا کا خلیفہ اور ملائکہ سمیت تمام موجودات ارضی کا مسجود قرار پایا ہے۔مگر جو چیز انسان کی دوسری مخلوقات پر فضیلت دیتی ہے وہ یہ ہے کہ جس جامعیت کے ساتھ اللہ کی صفات کا پرتو اس پر ڈالا گیا ہے اس سے کوئی دوسری مخلوق سرفراز نہیں کی گئی۔یہ ایک ایسا باریک مضمون ہے جس کے سمجھنے میں ذرا سی غلطی بھی آدمی کر جائے تو اس غلط فہمی میں مبتلا ہوسکتا ہے کہ صفات الہٰی میں سے ایک حصہ پانا الوہیت کا کوئی جز پالینے کا ہم معنی ہے۔ حالانکہ الوہیت اس سے وراء الوراء ہے کہ کوئی مخلوق اس کا ایک ادنیٰ شائبہ بھی پا سکے۔
    یعنی انتہائی باریک خورد بینی وجود سے بڑھا کر اسے پوری انسانی شکل تک پہنچایا اور اس کا جسم سارے اعضاء وجوارح کے ساتھ مکمل کردیا۔
    یہ ایک لطیف انداز بیان ہے۔ روح پھونکنے سے پہلے انسان کا سارا ذکر صیغۂ غائب میں کیا جاتا رہا۔ ” اس کی تخلیق کی “، ” اس کی نسل چلائی “، ” اس کو نِک سک سے درست کیا “، ” اس کے اندر روح پھونکی “۔ اس لیے اس وقت تک وہ خطاب کے لائق نہ تھا۔ پھر جب روح پھونک دی گئی تو اب اس سے فرمایا جا رہا ہے کہ ” تم کو کان دیے “، ” تم کو آنکھیں دیں “، ” تم کو دل دیے ” اس لیے کہ حامل روح ہوجانے کے بعد ہی وہ اس قابل ہوا کہ اسے مخاطب کیا جائے۔
    کان اور آنکھوں سے مراد وہ ذرائع ہیں جن سے انسان علم حاصل کرتا ہے۔ اگرچہ حصول علم کے ذرائع ذائقہ اور لامسہ اور شامہ بھی ہیں، لیکن سماعت و بینائی تمام دوسرے حواس سے زیادہ بڑے اور اہم ذرائع ہیں، اس لیے قرآن جگہ جگہ انہی دو کو خدا کے نمایاں عطیوں کی حیثیت سے پیش کرتا ہے۔ اس کے بعد ” دل ” سے مراد وہ ذہن (Mind) ہے جو حواس کے ذریعہ سے حاصل شدہ معلومات کو مرتب کر کے ان سے نتائج نکالتا ہے اور عمل کی مختلف امکانی راہوں میں سے کوئی ایک راہ منتخب کرتا اور اس پر چلنے کا فیصلہ کرتا ہے۔
    یعنی یہ عظیم القدر انسانی روح اتنے بلند پایہ اوصاف کے ساتھ تم کو اس لیے تو عطا نہیں کی گئی تھی کہ تم دنیا میں جانوروں کی طرح رہو اور اپنے لیے بس وہی زندگی کا نقشہ بنا لو جو کوئی حیوان بنا سکتا ہے۔ یہ آنکھیں تمہیں چشم بصیرت سے دیکھنے کے لیے دی گئی تھیں نہ کہ اندھے بن کر رہنے کے لیے۔ یہ کان تمہیں گوش ہوش سے سننے کے لیے دیے گئے تھے نہ کہ بہرے بن کر رہنے کے لیے۔ یہ دل تمہیں اس لیے دیے گئے تھے کہ حقیقت کو سمجھو اور صحیح راہ فکر و عمل اختیار کرو، نہ اس لیے کہ اپنی ساری صلاحیتیں صرف اپنی حیوانیت کی پرورش کے وسائل فراہم کرنے میں صرف کردو، اور اس سے کچھ اونچے اٹھو تو اپنے خالق سے بغاوت کے فلسفے اور پروگرام بنانے لگو۔ یہ بیش قیمت نعمتیں خدا سے پانے کے بعد جب تم دہریت یا شرک اختیار کرتے ہو، جب تم خود خدا یا دوسرے خداؤں کے بندے بنتے ہو، جب تم خواہشات کے غلام بن کر جسم و نفس کی لذتوں میں غرق ہوجاتے ہو، تو گویا اپنے خدا سے یہ کہتے ہو کہ ہم ان نعمتوں کے لائق نہ تھے، ہمیں انسان بنانے کے بنائے تجھے ایک بندر، یا ایک بھیڑیا، یا ایک مگر مچھ یا ایک کوا بنانا چاہیے تھا.

”انسانو! بیشک ہم نے نازل کی ہے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب، جس میں تمہارا تذکرہ موجود ہے، کیا اب بھی تم عقل کا استعمال نہیں کروگے؟“(قرآن١:١٠)

عقل کے استعمال پر خالق کائنات نے بہت  زور دیا ہے۔ دنیا کی کسی اور کتاب میں عقل کے استعمال کی ایسی کسی ترغیب کی نظیر نہیں ملتی جتنی قرآن میں ہیں- اسلام اللہ کی طرف سے نازل دین ہے یہ  دیومالائی داستانوں کا مذھب نہیں جو عقل و دانش تسلیم کرنے سے انکاری ہوں-

رب العالمین نے تواتر کے ساتھ تمام انسانیت کو اپنی کتاب میں عقل کے استعمال کی دعوت بھی دی ہے۔ رب تعالیٰ کو اپنے وہ بندے مطلق پسند نہیں جو عقل کے استعمال سے گریز کرتے ہیں۔ اسی لئے رب تعالیٰ نے  فرمایا:

”کیا تم سمجھتے ہو کہ ان کی اکثریت، سماعت کا یا عقل کا استعمال کرتی ہے؟ نہیں، بلکہ یہ تو محض جانور ہیں، یا ان سے بھی زیادہ بدتر۔“(٢٥:٤٤)

کتاب اللہ میں ہے کہ بار بار کی یاددہانی کے بعد بھی جو انسانی ذہن، سوچنے، سمجھنے اور تجربہ و تجزیہ کرنے اور اپنی ذہانت اور عقل عام کو استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں تو ان کے حق میں رب تعالیٰ کی بڑی سخت وعیدیں ہمیں قرآن مجید میں ملتی ہیں مثلاً آٹھویں سورة کی بائیسویں آیت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”بیشک اللہ کے نزدیک بدترین مخلوق وہ لوگ ہیں، جو گونگے ہیں، بہرے ہیں، جو عقل کا استعمال نہیں کرتے۔“ ایسے ہی سخت الفاظ مگر دوسرے انداز میں سورہٴ یونس کی سونمبر کی آیت کے آخر میں فرمائے کہ: ”اور اللہ گندگی میں پڑے رہنے دیتا ہے ان لوگوں کو جو عقل کا استعمال نہیں کرتے۔“

عقل کا استعمال کرنے کی دعوت قرآن میں سب سے زیادہ ان مقامات پر ہے جہاں اﷲ تبارک و تعالیٰ کائنات میں پھیلی ہوئی بے شمار نشانیوں کے ذریعہ انسان کی توجہ توحید باری تعالیٰ کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہے مثلاً
سورۃ شعراء میں ارشاد ربانی ہے کہ :
قَالَ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَمَا بَيْنَهُمَا إِن كُنتُمْ تَعْقِلُونَ
اﷲ مشرق و مغرب اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان سب کا رب ہے ،کیا تم عقل نہیںرکھتے۔
( سورة الشعرآء : 26 ، آیت : 28 )
یہاں اﷲ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت کو اپنی وحدانیت پر دلیل بنایا کہ جب ساری کائنات کا پالنے والا اﷲ ہے تو پھر جو لوگ عبادت میں اﷲ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک کرتے ہیں وہ سراسر عقل کے خلاف کام کرتے ہیں

اور سورۃ بقرۃ میں اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ :
إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن مَّاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَآبَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخِّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ
بے شک آسمانوں اورزمین کی تخلیق میں، رات اور دن کے فرق میں، کشتی جو سمندر میں لوگوں کے نفع کے واسطے چلتی ہے،اﷲ تعالیٰ کا آسمان سے پانی نازل کرنا جو مردہ زمین کو زندہ کر دیتا ہے ،ہر قسم کے جانوروں کا زمین میں پھیلا دینا، ہواؤں کا چلانا اور بادلوں کا آسمان و زمین کے درمیان معلق کر دینا ، یہ سب نشانیان ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل رکھتے ہیں
( سورة البقرة : 2 ، آیت : 164 )
یہاں کائنات کے نظام کا محکم ہونا اﷲ تعالیٰ کی ربوبیت و وحدانیت پر بطور دلیل لایا گیا ہے تاکہ معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والے افراد بھی ایک اور اکیلا رب اور معبود صرف اﷲ تعالیٰ کو تسلیم کر سکیں، اسی طرح اوربھی بہت سی آیات ہیں۔

اس کے علاوہ عقل استعمال کرنے کا حکم گذشتہ اقوام کے حالات و واقعات سے سبق حاصل کرنے کے لئے بھی دیا گیا ہے مثلاً

سورۃ یوسف میں ارشاد ربانی ہے کہ:
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلاَّ رِجَالاً نُّوحِي إِلَيْهِم مِّنْ أَهْلِ الْقُرَى أَفَلَمْ يَسِيرُواْ فِي الْأَرْضِ فَيَنظُرُواْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ اتَّقَواْ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ
(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم )ہم نے آپ سے پہلے بھی جونبی بھیجے وہ سب مرد تھے جن پرہم نے ان کی بستی والوں کے درمیان میں ہی وحی کی تھی،کیایہ لوگ زمین میں چلتے پھرتے نہیں کہ ان پچھلوں کاانجام اپنی آنکھوںسے دیکھیں اور آخرت کاگھربہترہے ان لوگوں کےلئے جو تقویٰ اختیارکرتے ہیں،کیا تم لوگ عقل نہیں رکھتے ( سورة يوسف : 12 ، آیت : 109 )
یہاں ان لوگوں کوعقل کااستعمال کرنے کاحکم دیاگیاجو گذشتہ انبیاء کرام کی امتوں کاحشر دیکھ کربھی انجان بنے ہوئے تھے

اسی طرح عقل کا استعمال کرنے کامشورہ قرآن نے ان لوگوں کو بھی دیاہے ہے جواﷲ تعالیٰ کے احکامات اور بنیادی اخلاقیات کی پامالی پر کمربستہ ہیں اورسمجھتے ہیں کہ برائی کا انجام برا نہیں ہوتا
مثلاً سورۃ الانعام میں اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ :
قُلْ تَعَالَوْاْ أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ أَلاَّ تُشْرِكُواْ بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَلاَ تَقْتُلُواْ أَوْلاَدَكُم مِّنْ إمْلاَقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ وَلاَ تَقْرَبُواْ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَلاَ تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللّهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ
(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کہہ دیجئے آؤمیںبتاؤں کہ تمہارے رب نے تم پر کیاحرام کیاہے ،یہ کہ اﷲ کے ساتھ کسی کوبھی شریک کرنا،والدین کے ساتھ احسان کرتے رہو،اولاد کومفلسی کے خوف سے قتل نہ کرو ہم انہیں بھی رزق دیتے ہیں اورتمہیں بھی،فحش کے قریب بھی مت جاؤخواہ وہ کھلاہو یا چھپاہواورکسی ایسی جان کو ناحق قتل نہ کرو جسے اﷲ نے حرام کیاہویہ اﷲ تعالیٰ کی جانب سے تمہیں وصیت ہے شاید کہ تم عقل سے کام لو ( سورة الانعام : 6 ، آیت : 151 )
یہاں تمام ایسی بنیادی اخلاقیات کاحکم دیا جا رہا ہے جو اس قبل دیگر تمام شریعتوں اور مذاہب میں بھی موجود رہی تھیں اوران احکامات سے اعراض اورخلاف ورزی ہمیشہ سے فساد فی الارض کا باعث رہی تھی اس لئے ان احکامات کی اہمیت و افادیت کوسمجھنے کی غرض سے یہاں عقل و فہم انسانی کودعوت دی جارہی ہےتاکہ مسلمان ان احکامات کی پابندی کواپنے اوپر کوئی بوجھ نہ سمجھیں

اسی طرح بنیادی اخلاقیات کے خلاف ایک چیزقول و فعل کا تضاد بھی ہے ،اسکے متعلق قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایاکہ:
أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنفُسَكُمْ وَأَنْـتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ
کیاتم دوسروں کانیکی کاحکم دیتے ہواورخو د اپنے آپ کوبھول جاتے ہوحالانکہ تم تو کتاب بھی پڑھتے ہوپس کیاتم عقل نہیں رکھتے ( سورة البقرة : 2 ، آیت : 44 )
یعنی کسی غلط عمل کی کوئی تاویل یاتوجیح کرکے انسان اپنے آپ کودھوکانہ دے بلکہ عقل کے تقاضے کوسامنے رکھتے ہوئے جس نیکی کاحکم دوسروں کودے رہاہے خود بھی اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے-

اسی طرح ہروہ بات جو خلاف واقعہ اور زمان ومکان کے اعتبار سے محال ہواس پر اصرار کرنے والوں کوبھی قرآن نے عقل کے استعمال کا مشورہ دیا ہے
مثلاًسورۃ آل عمرآن میں ارشاد ہواکہ:
يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَآجُّونَ فِي إِبْرَاهِيمَ وَمَا أُنزِلَتِ التَّورَاةُ وَالْإِنجِيلُ إِلاَّ مِن بَعْدِهِ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ
اے اہل کتاب ابراھیم علیہ السلام کے(مذہب کے) بارے میں تم کیوں جھگڑتے ہوحالانکہ توریت اورانجیل توان کے بعد نازل ہوئیں ہیں کیاتم عقل نہیں رکھتے
( سورة آل عمران : 3 ، آیت : 65 )

یہاں اﷲ تعالیٰ یہود و نصاریٰ کے اس تنازع کے تذکرہ کر رہا ہے جس میں دونوں فریق یہ دعویٰ کرتے تھے کہ ابراھیم علیہ السلام ان کے مذہب پر تھے حالانکہ یہودیت اورعیسائیت جن آسمانی کتابوں کے بعد قائم ہوئی وہ ابراھیم علیہ السلام کے بعد ہیں اسلئے ایسی بات محض بے عقلی کے سوا کچھ نہیں
اس لئے قرآن اسکی مذمت کر رہا ہے یعنی عقل کو استعمال کرنے کی دعوت قرآن کی تشریح یا احکامات و حدود اﷲ سے متعلق آیات کے ضمن میں پورے قرآن میں کہیں بھی نہیں ہے بلکہ اسکی تشریح اﷲتعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال ، افعال واعمال کے ذریعہ خود فرمائی ہے
جس کی دلیل قرآن کی یہ آیت ہے فرمایا:
فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ
جب ہم پڑھائیں تو ہمارے پڑھانےکے بعد پڑھو ، پھراسکی تشریح بھی ہمارے ذمہ ہے( سورة القيامة : 75 ، آیت : 18-19 )

اس لئے وہ لوگ جو قرآن کی تشریح  محض عقل ، فلسفہ اور منطق کے ذریعہ کرناچاہتے ہیں وہ بلامبالغہ ایک بڑی گمراہی پر ہیں-

عقل و شعور اور اسلام: حافظ محمد یونس اثری: عقل و شعور اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے جو انسان و حیوان کے درمیان فرق کرتی ہے۔یعنی انسان چرند و پرند، حیوان و جمادات و نباتات سے افضل اور ممتاز حیثیت رکھتا ہے تو اس کی وجہ یہی عقل ہے۔ اسی کے ذریعے سے انسان بڑے چھوٹے ،صحیح و غلط اور اچھے برے کی تمیز کرتا ہے ۔اسی عقل کی بنیاد پر انسان کوشرعی احکام کا مکلف بنایاگیا ہے کہ شرعی احکام میں جس طرح انسان مکلف ہیں دوسری تمام مخلوقات جو غیر ذوی العقول ہیں جیسے جمادات و نباتات ،چرندو پرند ،احجار و اشجار یہ سب غیر ذوی العقول ہونے کی وجہ سے شریعت کے مکلف نہیں۔بلکہ یوں کہئے کہ اگر انسان کی بھی عقل زائل ہوجائے تو وہ بھی شرعی احکامات کا مکلف نہیں رہتا ،جیسا کہ جنون ،غشی ،بے ہوشی وغیرہ کی وجہ سےکسی کی عقل زائل ہوجائے تو وہ شرعی مکلف نہیں رہتا یعنی اس سے نماز وغیرہ کی فرضیت زائل ہوجاتی ہے ۔بہرحال عقل و شعور انسانی تخلیق ایک اہم عنصر ہے۔ہم اس تحریر میں اسی حوالے سے کچھ اہم بحوث کریں گے، جس میں اس کی اصل اور حیثیت سے لے کر دیگر کئی ایک موضوع بھی اپنے اپنے مقام پرجزواً آجائیں گے…..[…..]

قرآن اور سائنس

قرآن مجید میں ایک ہزار سے زیادہ آیات سائنس کے متعلق گفتگو کرتی ہیں۔ قرآن میں موجود آیات کے متعلق حقائق جدید سائنس سے مکمل مطابقت رکھتے ہیں-قرآن اور سائنس ایک طویل موضوع ہے جس پر کتابیں لکھی جا چکی ہیں-  قرآن الله کا کلام ہے جو وحی کے زریعہ نازل ہوا- اس کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لئے کسی ترقی پزیر سائنسی علم  کی مدد لینا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف  ہے-   ہم سب جانتے ہے کہ کئی مرتبہ سائنس طے شدہ نظریات کے خلاف جاتی ہے اس لئے  سائنس سے متعلق قرآنی  آیات  کو سمجھنے  لئے صرف تسلیم شدہ سائنسی حقائق کو ہی پیش نظر رکھنا چاہئے۔ سائنسی طور پرغیرثابت شدہ، قیاسات، تخمینوں اور مفروضوں سے لا حاصل بحث سے گریز بہتر ہے- قرآن میں بیان کردہ سائنسی حقائق گزشتہ چند صدیوں کے دوران  آشکار ہوئے- سائنس ایک ترقی پزیر علم ہے، علمی معلومات میں اضافہ قیامت تک جاری رہے گا-  اب تک سائینس کا علم اس درجہ انتہا تک نہیں پہنچا کہ وہ قرآن میں سائینس کے متعلق بیان کردہ تمام معلومات کی تصدیق کر سکے-

ممتاز سکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک کے مطابق اگرفرض کریں کہ  قرآن میں جو سائینس کے متعلق ذکر کیا گیا ہےاس کا  80 فی صد 100 فیصد درست ثابت ہو چکا ہے ،جبکہ بقیہ 20 فی صد کے متعلق حتمی طور پر کچھ نہیں کھا جا سکتا کیونکہ ابھی تک سائینس کا علم اس درجہ تک نہیں پہنچ سکا کہ وہ باقی 20 فیصد  پر  کچھ کہہ سکے – آج تک معلوم  محدود  سائینسی علم کی بنیاد پر کوئی شخص یقین کے ساتھ یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس بقیہ 20 کا  صرف ایک فیصد یا قرآن کی کوئی ایک آیت غلط ہے- لہٰذا, اگر 80 فیصد قرآن 100 فیصد درست ثابت ہو چکا اور بقیہ 20 فی صد غلط ثابت نہیں ہو سکا تو منطقی طور پر یہ کھا جا سکتا ہے کہ باقی  فی صد بھی درست ہی ہو گا-
قرآن ‘سائنس’ کی کتاب نہیں بلکہ (signs) ‘نشانیوں’ (آیات) کی کتاب ہے- قرآن میں ایک  ہزار سے زائد ایسی آیات موجود ہیں جو سائنس کے مختلف موضوعات،مثلا فلکیات، طبیعیات، جغرافیہ، ارضیات، حیاتیات، نباتیات، حیوانیات، طب، فزیالوجی،رویان شناسی، سمندری علوم اور جنرل سائنس وغیرہ سے متعلق ہیں-ان آیات میں بیان کردہ حقائق حیرت انگیز طور پر جدید سائنس سے مکمل مطابقت رکھتے ہیں- چودہ سوسال قبل جب وحی کا نزول ہورہا تھا انسانوں کا علم ان موضوعات پرعنقا یا بہت محدود تھا, اللہ نے فرمایا : “ہم انہیں نشانیاں دکھائیں گے آفاق و کائنات میں بھی اور خود ان کی ذات میں بھی تاکہ ان پر واضح ہو جائے کہ وہ (اللہ) بالکل حق ہے۔”
( 41:53قرآن)
فلکی طبیعیات کے ماہرین ابتدائے کائنات کی وضاحت ایک ایسے مظہر کے ذریعے کرتے ہیں جسے وسیع طور پر قبول کیا جاتا ہے اور جس کا جانا پہچانا  نا م ’’بگ بینگ‘‘ یعنی عظیم دھماکا ہے۔ بگ بینگ کے ثبوت میں گزشتہ کئی عشروں کے دوران مشاہدات و تجربات کے ذریعے ماہرین فلکیات و فلکی طبیعیات کی جمع کردہ معلومات موجود ہیں۔ بگ بینگ ماڈل میں ایک خیال ہے جس  کے مطابق ابتداء میں شاید یہ ساری کائنات ایک بڑی کمیت کی شکل میں تھی، (جسے Primary nebula بھی کہتے ہے) پھر ایک عظیم دھماکا یعنی بگ بینگ ہوا، جس کا نتیجہ منظم   کہکشائوں  کی شکل میں ظاہر ہوا۔ پھر یہ کہکشا ئیں  تقسیم ہو کر ستاروں، سیاروں، سورج، چاند وغیرہ کی صورت میں آئیں۔ کائنا ت کی ابتداء اس قدر منفرد اور اچھوتی تھی کہ اتفاق سے اس کے وجود میں آنے کا احتمال صفر (کچھ بھی نہیں) تھا۔ قرآن پاک درج ذیل آیات میں ابتدائے کائنا ت کے متعلق بتایا گیا ہے:
’’اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے پس ہم نے ان کو پھاڑ کر جدا کر دیا(Big Bang) ، اور ہم نے (پہلے) ہر زندہ چیز کو پانی سے پیدا کیا ہے۔ کیا یہ لوگ پھر بھی ایمان نہیں لاتے‘‘(قرآن 21:30)
“پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اُس وقت محض دھواں تھا اُس نے آسمان اور زمین سے کہا “وجود میں آ جاؤ، خواہ تم چاہو یا نہ چاہو” دونوں نے کہا “ہم آ گئے فرمانبرداروں کی طرح”(قرآن41:11)
’اور آسمانی کائنات کو ہم نے بڑی قوت کے ذریعہ سے بنایا اور یقیناً ہم (اس کائنات کو) وسعت اور پھیلاؤ دیتے جا رہے ہیں‘‘(قرآن 47:51)
“جس نے پیدا کیا اور تناسب قائم کیا” (قرآن 87:2)
لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے یقیناً اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے”
(قرآن49:13)
بچے کا حمل سے پیدائش تک پیچیدہ عمل ترتیب کےساتھ  حال ہی میں دریافت ہوا ہے جو درست طریقے سے قرآن میں بیان کیا گیا- (قرآن ;23:13-14)
سوال اٹھتا ہے کہ؛ کس طرح 1400 سال قبل ایک ان پڑھ  شخص جس کی پرورش تہذیب اور علم کے مراکز سے بہت دورپسماندہ عرب صحرائی علاقہ میں ہوئی ہو، ایسی درست سائینسی معلومات مہیا کرے جو دورحاضر میں دریافت ہوئی ہوں؟ یہ صرف الله ، واحد خالق کائنات ہے جودرست  سائینسی معلومات مہیا کر سکتا ہے- لہٰذا اگرقرآن میں سائینسی معلومات کا تذکرہ درست  ہے تو اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ قرآن  میں موجود غیر طبیعاتی،غیبی اور روحانی معلومات مثلآ ؛ الله کا وجود، فرشتے، ايمان بالآخرة (حیات بعد ازموت،انصاف، فیصلے، جنت، جہنم، روح اور انسانوں کی حتمی تقدیر) بھی درست ہیں- ( https://goo.gl/z0jlXa)
انسان قرآن سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں اگر وہ اس پر غور و فکر کریں ( قرآن 38:29)- الله فرماتا ہے: ” کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اِس میں بہت کچھ اختلاف بیانی پائی جاتی”( قرآن 4:82)
قرآن کی بہت سی پیشنگوئیاں پوری ہوئیں جن  کی صداقت تاریخی روایات ، تازہ ترین تحقیق اور آثار قدیمہ سے حاصل ثبوتوں سے ثابت ہوئی-
قرآن میں ربط حیرت انگیز ہےجو اس کے کلام الہی ہونے کو ثابت کرتا ہے- قرآن میں موجود بے شمار’اندرونی شواہد’  ثبوت فراہم کرتا ہے، ایک مثال پیش ہے:
قرآن ایک مختصر جملے میں عیسائیوں کو آدم کے متعلق یاد دلاتا ہے:جس کا نہ باپ تھا نہ ماں، اس طرح آدم خدا کا بیٹا نہیں بن جاتا، اس طرح سے آدم اور عیسیٰ میں مماثلت ہے کہ وہ کچھ نہیں سےکچھ،  یعنی الله کے غلام بن گئے-(قرآن ;3:59)-
 عیسی اور آدم علیہ السلام میں ایک مساوات قائم کی گئی جس کے لیئے عربی لفظ (مثل) استعمال کیا گیا ہے جس کا مطلب کے ‘مماثلت’-  کھا گیا کہ عیسی اور آدم برابر ہیں- قرآن میں انڈیکس سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ نام ‘عیسیٰ’ قرآن میں 25 مرتبہ آیا ہے اس طرح سے نام ‘آدم’ بھی   25 مرتبہ آیا ہے- ڈاکٹرگیری ملر اپنی کتاب (‘ ‘Amazing Quran) میں اس پر مزید اضافہ کرتے ہیں کہ اگر اس طریقه کو مزید بڑھائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں 8 جگہ قرآن کی آیات میں ذکر ہوتا ہے کہ فلاں چیز فلاں کی طرح ہے، اس مماثلت (مثل) پر مزید تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر ایک کا ذکر 110 مرتبہ ہے تو اس کے مماثلت چیز یا بات کا ذکر بھی 110مرتبہ پایا جاتا ہے- اس طرح سے سکرپٹ میں  ‘ربط’ پیدا کرنا آج کے کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے دور میں بھی خاصہ مشکل ہے، مگر 1400سال قبل اس کا تصور بھی محال ہے کہ ایک ان پڑھ شخص 23 سال کے طویل عرصہ میں مختلف جگہوں، مقامات اور مختلف حالات میں چھوٹے اور بڑے ٹکروں میں کتاب لکھوا رہا ہو، جب  اچانک مومنین یا کفارکے سوالات کے جواب میں وحی نازل ہو رہی ہو! یہ حیرت انگیز ہے، کوئی شک نہیں کہ قرآن ایک زندہ معجزہ ہے جو خالق واحد، الله کے وجود کا کھلا ثبوت ہے-
قرآن خدا کی واحدنیت  کی طرف مدلل طریقه سے توجہ مبذول کراتا ہے- کچھ آیات یہاں پیش ہیں:
الله پر بغیر دیکھے ایمان : (7:143 قرآن)
ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ ﴿٢﴾ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿2:3﴾
یہ اللہ کی کتاب ہے، اس مںل کوئی شک نہںَ ہدایت ہےبرائی سے  بچنے والے  لوگوں کے لے (2) جو غیب پر  ایمان لاتے ہں ، نماز قائم کرتے ہں ، جو رزق ہم نے اُن کو دیا ہے، اُس مںْ سے خرچ کرتے ہںے (2:3قرآن)
کاینات کا خالق الله تعالی ہے :
بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَإِذَا قَضَىٰ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ ﴿١١٧﴾
وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے اور جس بات کا وہ فیصلہ کرتا ہے، اس کے لیے بس یہ حکم دیتا ہے کہ “ہو جا” اور وہ ہو جاتی ہے (2:117قرآن ،مزید:3:47,3:59,6:73,16:40,19:35,36:82,40:68)
أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ ﴿٣٥﴾أَمْ خَلَقُوا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۚ بَل لَّا يُوقِنُونَ ﴿٣٦﴾
کیا یہ کسی خالق کے بغیر خود پیدا ہو گئے ہیں؟ یا یہ خود اپنے خالق ہیں؟ (35) یا زمین اور آسمانوں کو اِنہوں نے پیدا کیا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ یقین نہیں رکھتے (52:36)
یقیناً وہ ہر چیز پر قادر ہے (2:20 قرآن)
الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ ﴿٢﴾
جس نے موت اور حیات کو اس لیے پیدا کیاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے کام کون کرتا ہے، اور وه غالب (اور) بخشنے واﻻ ہے (67:2 قرآن )
كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّـهِ وَكُنتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ۖ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ﴿٢٨﴾
تم اللہ کے ساتھ کفر کا رویہ کیسے اختیار کرتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے، اس نے تم کو زندگی عطا کی، پھر وہی تمھاری جان سلب کرے گا، پھر وہی تمہیں دوبارہ زندگی عطا کرے گا، پھر اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے ( قرآن 2:28)
وَلِلَّـهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّـهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ﴿١١٥﴾
مشرق اور مغرب سب اللہ کے ہیں جس طرف بھی تم رخ کرو گے، اسی طرف اللہ کا رخ ہے اللہ بڑی وسعت والا اور سب کچھ جاننے والا ہے (2:115قرآن)
وَلِلَّـهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُّحِيطًا ﴿١٢٦﴾
آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ کا ہے اور اللہ ہر چیز پر محیط ہے (4:126 قرآن)
وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّـهِ سَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ فَتَعْرِفُونَهَا ۚ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ﴿٩٣﴾
اِن سے کہو، تعریف اللہ ہی کے لیے ہے، عنقریب وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھا دے گا اور تم انہیں پہچان لو گے، اور تیرا رب بے خبر نہیں ہے اُن اعمال سے جو تم لوگ کرتے ہو ( قرآن27:93)
سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ ۗ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ
﴿٥٣﴾
ہم عنقریب اپنی نشانیوں کو تمام اطراف عالم میں اور خود ان کے نفس کے اندر دکھلائیں گے تاکہ ان پر یہ بات واضح ہوجائے کہ وہ برحق ہے اور کیا پروردگار کے لئے یہ بات کافی نہیں ہے کہ وہ ہر شے کا گواہ اور سب کا دیکھنے والا ہے (41:53 قرآن)
أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّـهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً ۗ وَمِنَ النَّاسِ مَن يُجَادِلُ فِي اللَّـهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلَا هُدًى وَلَا كِتَابٍ مُّنِيرٍ ﴿٢٠﴾
کیا تم لوگ نہیں دیکھتے کہ اللہ نے زمین اور آسمانوں کی ساری چیزیں تمہارے لیے مسخر کر رکھی ہیں اور اپنی کھلی اور چھپی نعمتیں تم پر تمام کر دی ہیں؟ اِس پر حال یہ ہے کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ ہیں جو اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں بغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی عِلم ہو، یا ہدایت، یا کوئی روشنی دکھانے والی کتاب (قرآن 31:20)
فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا ۚ فِطْرَتَ اللَّـهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّـهِ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ﴿٣٠﴾
پس آپ یک سو ہو کر اپنا منہ دین کی طرف متوجہ کر دیں۔ اللہ تعالیٰ کی وه فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، اللہ تعالیٰ کے بنائے کو بدلنا نہیں، یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے  (30:30 قرآن )

علامہ محمد اقبال اور ملا
ز مَن بر صُوفی و مُلاّ سلامے: کہ پیغامِ خُدا گُفتَند ما را
ولے تاویلِ شاں در حیرت اَنداخت: خُدا و جبرئیلؑ و مصطفیؐ را
میری جانب سے صُوفی ومُلاّ کو سلام پہنچے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے احکامات ہم تک پہنچائے، لیکن انہوں نے اُن احکامات کی جو تاویلیں کیں،اُس نے اللہ تعالیٰ، جبرائیل ؑاور محمد مصطفیﷺ کو بھی حیران کر دیا۔(علامہ محمد اقبال)
خُذِ الۡعَفۡوَ وَ اۡمُرۡ بِالۡعُرۡفِ وَ اَعۡرِضۡ عَنِ الۡجٰہِلِیۡنَ ﴿۱۹۹﴾
Take what is given freely, enjoin what is good, and turn away from the ignorant.
آپ درگز ر کواختیار کریں نیک کام کی تعلیم دیں اور جاہلوں سے ایک کنارہ ہوجائیں ۔(7:199)

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا
‘ ہمارے عہد کے یہ واعظ لوگ کیسے ہیں؟ سیدنا عیسیٰ ؑ نے ارشاد کیا تھا : وہ مچھر چھانتے اور اونٹ نگل جاتے ہیں۔
“کتوں کو مقدس چیز مت دو، اپنے موتی خنزیر کو مت پھینکو، اگر تم ایسا کرو گے تو وہ انہیں اپنے پیروں تلے روند سکتے ہیں، اور پلٹ کر تمہیں ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے۔” (بائبل، انجیل (انجیل متی) Mathew: 7)
یہ بیان یسوع کی تعلیمات کا حصہ ہے جسے سرمن آن دی ماؤنٹ کہا جاتا ہے، جہاں وہ مختلف اسباق اور اخلاقی تعلیمات کا اشتراک کرتے ہیں۔
اس خاص آیت کے پیچھے معنی کو اکثر احتیاطی مشورہ کے طور پر تعبیر کیا جاتا ہے کہ وہ قیمتی یا مقدس چیزوں کو ان لوگوں کے ساتھ بانٹنے میں سمجھدار بنیں جو ان کی قدر یا اہمیت کو نہیں سمجھتے
“ استعاراتی طور پر، “موتی” قیمتی سچائیوں، تعلیمات یا حکمت کی نمائندگی کر سکتے ہیں، جبکہ “کتے” اور “سور” ایسے لوگوں کی علامت ہیں جو ان قیمتی چیزوں کی تعریف یا احترام کرنے سے قاصر ہیں یا نہیں چاہتے۔
یہ تجویز کرتا ہے کہ اہم تعلیمات یا سچائیوں کو بانٹنے میں سمجھداری اور دانشمندی کا مظاہرہ کرنا چاہئے، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ وہ کھلے اور قبول کرنے والے لوگوں کے ذریعہ قبول اور قدر کریں۔
مجموعی طور پر، یہ تعلیم افراد کی حوصلہ افزائی کرتی ہے کہ وہ اپنی بات چیت میں عقلمند ہوں اور قیمتی بصیرت کو بانٹنے میں سمجھدار بنیں، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ وہ ان لوگوں کو حاصل کریں جو ان کی صحیح معنوں میں تعریف اور فائدہ اٹھائیں گے۔
https://salaamone.com/intellect

برقی کتاب (  html فارمٹ):  https://goo.gl/kgkTl8
 برقی کتاب (  html فارمٹ):  https://goo.gl/kgkTl8

برقی کتاب (Pdf فارمٹ): https://goo.gl/bsTBJt 

  1. http://www.urdumajlis.net/threads/5774/
  2. http://ilhaad.com/category/aqleyaat/ 
  3. http://www.darululoom-deoband.com/urdu/articles/
  4. http://tanzil.net/#search/quran/عقل
  5. https://ur.wikipedia.org/wiki/قرآن_اور_جدید_سائنس
  6. http://www.islamfort.com/books/420-misc-articles/4651-2014-05-21-13-12-22
  7. http://salaamone.com/8quran-living-miracle-قرآن-ابدی-معجزہ/

Index