Criticism on God (4) خدا پر تنقید

الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ ﴿٢﴾
جس نے موت و حیات کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے عمل کے لحاظ سے سب سے زیادہ اچھا کون ہے؟ وہ بڑا زبردست (اور) بڑا بخشنے والا ہے۔ (67:2 قرآن )
باب  – 4
تنقید
تقدیر اور عمل کی آزادی Free Will )  Predestination and )
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر ہرچیز کوخدانے اندازے ،مقدار اورحساب کے ساتھ پیدکیا ہے توپھر ہمارے افعال واعمال بھی اس کی مخلوق ہیں ،لہٰذاہم کسی طرح کاکوئی اختیار نہیں رکھتے، تو پھر جزا اور سزا کیوں ؟
One of the major arguments proposed against the existence of God in contemporary western philosophy is the problem of evil. It is based upon the inability to reconcile the magnitude of evil in the world with the all-loving nature of God.  John Hick describes the problem from the perspective of its proponent, “If God perfectly loves, God
must wish to abolish all evil; and if God is all-powerful, God must be able to abolish all [ …….] l.
 
تقدیر کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مرضی سے ایک انسان کے اعمال پہلے سے طے  (Pre-determined)  کر رکھے ہیں جن کے مطابق وہ کسی کو جنت اور کسی کو جہنم میں ڈال دے گا۔  تقدیر کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ہمیشہ سے ہر بات کا علم ہے۔ اس کے علم سے ہم نیک یا برے اعمال کرنے پر مجبور نہیں ہو جاتے۔ اگرچہ ہمارے افعال واعمال مشیت وتقدیر الہٰی کے مطابق ہیں اوراس کی قدرت اور ارادہ کے احاطہ سے ہرگز خارج نہیں ہیں لیکن اس نے یہ بات مقدر کردی ہے کہ اپنے  اچھے برے اعمال میں ہم مختار ہیں اوراسی بناپر وہ ہمارے بارے میں ذمّہ داری وجوابدہی کاقائل ہے ۔اگرہم اپنے افعا ل میں بالکل بے اختیار ہوتے توتکلیف شرعی اور ذمّہ دارانہ جوابدہی کاکوئی مفہوم ہی باقی نہ رہتا،ہمارا اپنے اعمال کے سلسلہ میں کوئی اختیار نہ رکھنا تقدیر الہٰی کے خلاف ہے ۔  اس کو ایک مثال سے اس طرح سمجھا جاتا ہے کہ تجربہ کار اساتذہ کسی طالب علم کو دیکھ کر اندازہ لگا لیتے ہیں کہ یہ فیل ہو گا یا پاس۔ ان کے اس اندازے سے طالب علم کبھی مجبور نہیں ہو جاتا کہ وہ محنت نہ کرے۔ یہ تو ایک عام انسان کے اندازے کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ کا علم یقینی اور حتمی ہے لیکن وہ کسی شخص کو اچھے یا برے عمل پر مجبور نہیں کرتا۔ حضرت علی (رضی الله ) سے منسوب ہے کہ تقدیر کے سوال کے جواب میں آپ نے سوالی کو ایک پا ؤں اٹھانے کا کہا، پھر فرمایا دوسرا پاؤں اٹھاؤ، اس نے کہا کہ ایسا ممکن نہیں میں گر جا ؤں گا- فرمایا تجھے آزادی ہے ایک حد تک، لا محدود نہیں-
 
اسلام کے بنیادی نظریات کی روشنی میں مسلم علماء نے  فری ول (free will)  پر ایک متوازن نظریہ قائم کیا  ہے. مسلم اسپین کے  عظیم عالم اور فلاسفر ابن رشد کے مطابق “انسانی اعمال کا ایک حصہ اس کے اپنے ارادہ کی آزادی پر منحصر ہے اور ایک حد تک ان عوامل پر جو اس کے بس سے ماورا ، با ہر ہیں. انسان اپنے عمل میں آزاد ہے  مگر اس  آزادی پر خارجی عوامل جن پر انسان کا کنٹرول نہیں ، اثر انداز ہوتے ہیں- ان خارجی عوامل کا مرکز قدرت کے قوانین ہیں ، صرف خدا کو ان کی ترتیب کا علم ہے –
قضا و قدر یا تقدیر کا مسئلہ ہمیشہ بحث و نظر کا موضوع رہا ہے۔ فلاسفہ و متکلمین نے اس میں بڑی بڑی موشگافیاں کی ہیں چنانچہ اس مسئلہ کی بنیاد پر جبریہ اور قدریہ کے دو مستقل اعتقادی مکاتب فکر منصہ شہود پر آگئے۔ اہل جبر کا عقیدہ تھا کہ انسان تقدیر کے ہاتھوں مجبور محض ہے۔ وہ کسی بھی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتا اور قدریہ کا مسلک یہ ہے کہ انسان اپنے اعمال میں خود مختار ہے اور اس کا تقدیر سے کوئی سروکار نہیں ان دونوں فرقوں کا موقف انتہا پسندانہ ہے۔ ایک  درمیانی راستہ  یہ ہے کہ انسان نہ تو مجبور محض ہے اور نہ مختار کل ہی بلکہ وہ جبر و اختیار کے درمیانی مرحلہ میں ہے۔
  شر (برائی)  کا مسئلہ     (Problem of Evil)
مغربی فلسفہ میں خدا کے وجود کے خلاف دنیا میں برائی ( Evil)کے وجود کو دلیل کے طور پیش کیا جاتا ہے-  اس کی بنیاد یہ ہے کہ ایک مہربان ،رحیم فطرت خدا کی موجودگی میں دنیا میں بڑی تعداد میں برائیوں کی موجودگی کو عدم مصالحت آمیز  توجیح کہا جاتا ہے . جان ہکس (John Hick) اس  نظریہ کے حامی لوگوں  کے نقطہ نظر سے مسئلہ کو بیان کرتا ہے: “اگر مکمل طور پر خدا  محبت کرتا ہے تو خدا ہر برائی کو ختم کرنے کی خواہش  لازمی طور پر رکھتا ہوگا.اگر  خدا ہر چیز پر قادر ہے تو خدا کا  ہر برائی کو ختم کرنے کے قابل ہونا ضروری ہے. لیکن برائی موجود ہے لہٰذا خدا  ایک ہی وقت میں قادر مطلق اور  محبت کرنے والا یعنی دونوں   خاصیتوں رکھنے والا نہیں ہو سکتا.”
اس طرح یہودی،  عیسائی اورمسلمانوں  کا  خدا جو قادر مطلق اور  سب سے محبت کرنے والا ہے ، دونوں خصوصیات کا  حامل ہے، یہ ایک مشکل مسئلہ ہے. ڈیوڈ ہیوم (1711-1776 C.E David Hume ( برٹش فلاسفر اور تاریخ دان جو اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ انسانی علم بنیادی طور پر حواس کے تجربہ سے ہی حاصل ہو سکتا ہے اس نظریہ کا پرچار کر تا ہے . وہ دلیل دیتا ہے کہ دنیا میں برائیوں  کا غلبہ جو اچھائیوں پر بھاری ہے کسی خدا کے وجود کو مشکوک بنا دیتا ہے-
اس قسم کی بحث کا مدلل جواب  “فری ول ڈیفنس”  (Free-Will Defense) کہلاتا ہے جس کی بنیاد اس بات  پر ہے کہ خدا کے لیے انسان جیسی عقلمند اور آزاد مخلوق کی تخلیق کے لیے اس کو کسی حد تک آزادی تفویض کرنا ضروری ہے  اور یہ آزادی لازمی طور پر انسان کی انسان سے برائی کا نتیجہ بنے گی.
یہ تجویز کریا گیا ہے کہ اس معاملہ  میں کوئی اختلاف نہیں کہ خدا اخلاقی طور پر آزاد مخلوق پیدا کرے اور یہ بھی ہو کہ اس کے تمام عمل اچھے ہی ہوں.  یہ بحث کی جا سکتی ہے کہ ایسی صورت میں کیا تمام افراد اتنے ہی آزاد ہیں جتنے کہ دوسرے انسان؟ اگر ہمارے تمام عمل پہلے سے مقدر کر دئیے جائیں تو محسوس ہو  گا کہ ہم آزاد نہیں ہیں بلکہ آزادی صرف ایک وہم (illusion) ، خام خیال ہو گی- اگرچہ خدا اس قسم کی انسانی مخلوق پیدا کر سکتا تھا مگر وہ صرف کٹھ پتلی ہوتے نہ کہ ایک متحرک انسان  جس کا خدا نے تصور کیا-
“فری ول ڈیفنس”  (Free-Will Defense):
برائی  (Evil)کے  معاملہ میں بظاہر  ایک تضادکوحل کرنے کی ضرورت ہے –  خدا  مخالف لوگوں کے خیال میں  ایک ایسے خدا کی موجودگی میں جو تمام علم والا ، طاقت والا , قادر مطلق ،مکمل خدا ہے  برائی کا وجود خدا کی طاقت سے متضاد معلوم ہوتا ہے ( فری ول free will ) اراده آزاد  کے دفا ع FWD) )   [Free Will Defence]   میں  ایک نظریہ یہ ہے کہ موجودہ دنیا کا تقابل ایک ایسی دنیا  سے کیا جایئے جس میں تمام کام اچھے ہوں کسی برائی کا وجود پزیر ہونا ناممکن ہو-  یہ واضح رہے کہ یہاں اچھائی کا مطلب “اخلاقی اچھائی” ہے یعنی وہ اچھائی (Good) جس کا تعلق افراد کی اپنی مرضی سے جان بوجھ کر  کیئے گئے اقدام سے ہو – یہ قدرتی اچھائی (‘natural good’ or ‘natural evil’) یا قدرتی برائی  (natural, disasters, diseases, disabilities.. etc) سے بلکل علیحدہ ہیں جو انسانی کنٹرول سے ماورا  ہوتے ہیں-  FWD اراده آزاد  کے دفا عی  تھیورسٹ ( Theorists Free Will Defence)   کے مطابق کسی انسان کو اخلاقی اچھائی کا عمل کرنے کے  لیئے مناسب  حد تک آزاد ہونا چاہیئے  یعنی وہ اس حیثیت میں ہو کہ اپنی مرضی سے اخلاقی اچھائی یا اخلاقی برائی کے عمل کا انتخاب کر سکے – ان حالات میں موجودہ دنیا  (دنیا #1)  میں انسانوں کو یہ آزادی میسر ہے مگر  کسی حد تک اخلاقی برائی ناگزیر ہے – موجودہ دنیا  (دنیا #1)  کسی دوسری دنیا #2 سے ترجیح رکھتی ہے جہاں اراده آزاد  (  Free will)  کی سہولت موجود نہ ہو مگر تمام ا عمال اخلاقی طور پر مکمل  اچھے ہو ں –
 
تنقید :
اراده آزاد  کے دفا ع ( FWD – Free Will Defence)   کا نقاد توجہ دلاتا ہے کہ اگر خدا عظیم ترین طاقتور ہستی ہے تو وہ اپنی اس حیثیت اور طاقت سے ایک اور دنیا #3  تخلیق کر سکتا ہے  جس میں انسانوں کو اراده آزاد (Free Will)   بھی میسر ہو اور ان کے  تمام عمل بھی اچھے ہوں – یعنی ان کے اعمال کے اچھے ہونے کا فیصلہ پہلے ہی سے ہو چکا ہو (predetermined)، مگر ان کو  اخلاقی اچھائی اور برائی میں سے کسی کے چناؤ کا اختیار ہو – یعنی عامل  (ایجنٹ) کو  اختیار ہو گا کہ وہ کسی بھی عمل کو منتخب کرے مگر جو بھی کا م کرے اس کا نتیجہ صرف اچھا ہی ہو – یہ سب کچھ خدا کے اختیار میں ہے  کیونکہ وہ  قادر مطلق ہے اور صرف منطقی ناممکنات کی طرف سے محدود ہے-
اراده آزاد  ( FWD – Free Will Defence)   کے دفا ع کے  نظریه پرداز (theorist)  کے لئے چیلنج ہے کہ واضح  کریں کہ   آزادی (Free Will) اور اتفاقی جبریت  (Causal Determinism) آپس میں متضاد ہیں-  یہ ممکن نہیں کہ انسان ارادہ میں آزاد  ایجنٹ بھی ہو اور ان کے اعمال پہلے ہی سے مقدر کر دئیے گئے ہوں- سوال یہ ہے کہ کیا خدا ایسی دنیا بنا ئے گا ؟
ایلوئن پلانٹینگا  (Alvin Plantinga)  اس سوال کا جواب دینے کی  کوشش کرتا ہے –
پہلے تو وہ یہ واضح کرتا ہے کہ لبنز (Leibniz) کو مغالطہ ہوا کہ خدا  ایک بہترین ، کامل (pefect)  دنیا بنانا  چاہتا تھا ،  جو اس نے بنائی- پلانٹینگا  (Alvin Plantinga)  استدلال دیتا ہے کہ ایک کامل (pefect)  دنیا کا وجود ممکن نہیں کیونکہ کسی بھی اچھی دنیا میں اچھائی ، بھلائی کی کچھ مزید گنجائش موجود رہتی ہے اس کو مزید بہتر کرنے کے لئیے- لہٰذا کسی  بہترین ، کامل (pefect)  دنیا  کا وجود میں آنے کا احتما ل نہیں-
Thus it seems implausible to think of the best possible world as existing. This then is one instance when God cannot create any world.
دوسری طرف وہ دلیل دیتا ہے کہ خدا ایسی دنیا نہیں بنا سکتا جس میں انسان کافی حد تک آزاد بھی ہو مگر اس کے اعمال پہلے ہی سے مقرر کر دیئے گئے ہوں – اس کے ثبوت کی بنیاد ایک فرضی  تجربہ  سے ہے- ہم اس دنیا میں ایک شخص کا تصور کرتے ہیں جو کچھ مخصوس حالات میں فرضی طور پر غیر اخلاقی برائی کا مرتکب ہوتا ہے- خدا کے لئے موجودہ دنیا کی طرح ایک اور  ایسی دنیا تخلیق کرنا ناممکن نہیں جس میں کوئی شخص برائی کا مرتکب  نہ ہو- ایسے حالات میں اس کو فکری ارادہ کی آزادی سے محروم کر دیا گیا- خدا کو اس بات کا اہتمام  کرنا ہے کہ وہ برائی نہ کرے اور اس کی آزادی کی نفی نہ ہو-  خدا کے پاس دوسرا حل یہ ہے کہ وہ کسی قسم کی دنیا تخلیق نہ کرے – وہ بحث کرتا ہے کہ  ایسی دنیا کی تخلیق جس میں انسان کو آزادی ارادہ ہو کم از کم ایک چانس ہے کہ انسان غلطی کر بیٹھے یا پھر وہ کوئی دنیا بھی تخلیق نہ کرے ، اس رجحان کو  وہ (Transworld Depravity) اخلاقی زوال ‘قرار دیتا ہے-  لہٰذا خدا کے لئیے ایک ایسی دنیا تخلیق کرنا جس میں  انسان کو اخلاقی آزادی میسر ہو, اچھائی اور برائی (Good and Evil) کا وجود ناگزیر ہے-
 
خیر و شر – اسلامی نظریہ :
دنیا میں موجود ناخوشگوایاں ، ظلم ، مشکلات ، رنج و مصیبتیں ، محرو میتیں اور موت وفوت جیسے حوادث دوحصوں میں تقسیم ہوتے ہیں: (1)  وه حوادث جو انسانوں کے ناپسند طرز عمل کی وجه سے پیدا ہوتے ہیں ، جیسے: ظلم ، قتل، اور غارت وغیره (2)  وه ناخوشگواریاں جوفطری حوادث کی وجه سے پیدا  ہوتی هیں، جیسے: سیلاب، زلزلے، خشک سالی اور بیماریاں وغیره- حوادث کی پہلی قسم کے بارے میں  جیسے کہ اراده آزاد  ( FWD – Free Will Defence  )  میں بیان کیا ،قابل ذکر بات  ہے کہ  چونکہ  خدا نے انسان کو ایک بااختیار مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا  ہے تاکہ  وه بهلائی اور برائی،بدصورتی و خوبصورتی اور خیر وشر میں سے ایک کا انتخاب کرے، اس قسم کے نظام کا لازمہ یہہ  ہے کہ  بعض اوقات انسانوں کے توسط سے اختیارات کا ناجائز فائده اٹھانے کےنتیجہ میں معاشره میں شر، برائیاں ، ظلم اور بے انصافیاں وجود میں آتی ہیں  اور واضح  ہے  کہ یہ ناخوشگوار واقعات خدا کی طرف سے نهیں بلکہ  خدا کی مخلوقات کی طرف سے حاصل ہوئے ہیں- چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: ” لوگوں کےہاتهوں کی کمائی کی بناپر فساد خشکی اور تری ہر  جگہ  غالب آگیا  ہے  ( سوره روم ، ٤١)
لیکن قیامت کے دن  لوگوں کے اعمال اور حقوق کے دقیق حساب وکتاب کے پیش نظر ان مظالم اور بے انصافیوں کی مکمل تلافی ہوگی-
دوسری قسم کے بارے میں ، جوقدرتی حوادث کےنتیجہ میں رونماہو تے ہیں ان کا  تعلق اس اسلامی عقیدہ سے واضح ہوتا ہے کہ   یہ  دنیا انسانوں کے لئے امتحان کی جگہ ہے اور تمام واقعات ، من  جملہ  آسائشیں ،  سختیاں ، مصیبتیں ، نعمتوں کی فراوانیاں ، اور محرومیاں وغیره برے اور بهلے کے در میان تشخیص دینے اور امتحان کا  وسیلہ ہیں- قرآن مجید نے  کئی مواقع پر مذکوره مطلب کی طرف اشاره کیا ہے  اور ارشاد بار تعالی ہے: ” اورہم یقیناً  تمہیں  تھوڑے خوف تهوڑی بهوک اور اموال ، نفوس اور ثمرات کی کمی سے آزمائیں گے اور اے پیغمبر ! ان صبر کرنے والوں کو بشارت دیدیں ( سوره بقره ، 155 ). دنیا میں تکلا لیف اور آزمائشوں کا صلہ یا  اسی دنیا میں ملتا ہے یا  دنیا و آخرت میں- اسلام کا آخرت میں انصاف کا  عقیدہ  دنیا وی تکالیف کے ازالہ کی جگہ ہے –
اسلام میں خدا کا وجود، ایمان بالغیب کی بنیاد:
قرون وسطیٰ کے مسلمان فلاسفہ نے خدا کے وجود کے ثبوت پر براہ راست بحث کو اہمیت نہیں دی شائد  اس لئے کہ اسلام کے عقائد میں  خدا  واحد کا  وجود  بنیادی شرط ہے قرآن میں بہت واضح طور پر دلائل کے ساتھ اس کو ثابت کیا – یونانی فلسفہ سے متاثر فلاسفہ کا مقصد خدا کے وجود کو ارسطو کی منطق سے بھی ثابت کرنا تھا  – لہٰذا مسلمان فلاسفہ خدا کے وجود کے خلاف بحث کی بجا ئے خدا کی صفات کو فلاسفی کے ذریعہ جواز پیش کرنے کے لیئے استعما ل کرتے رہے -مسلم فلسفیوں نے تاہم ایک مختلف لیکن کسی حد تک  مماثل مسئلے  یعنی خدا کی وحدانیت کے معاملات سے بھی  نمٹنے کی کوشش کی-
 

انڈکس  

برقی کتاب (  html فارمٹ):  https://goo.gl/kgkTl8
برقی کتاب (Pdf فارمٹ): https://goo.gl/bsTBJt 

…………………………………………………..

برقی کتاب (Pdf فارمٹ): https://goo.gl/bsTBJt 

……………………………………………………..