Just One God (7) کائینات کا صرف ایک خدا

 

باب -7

 

کائینات کا صرف ایک خدا اور صفات

باب – 7
الله
کائینات کا خالق
 
“وہ اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، غائب اور ظاہر ہر چیز کا جاننے والا، وہی رحمٰن اور رحیم ہے  وہ اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ بادشاہ ہے نہایت مقدس، سراسر سلامتی، امن دینے والا، نگہبان، سب پر غالب، اپنا حکم بزور نافذ کرنے والا، اور بڑا ہی ہو کر رہنے والا پاک ہے اللہ اُس شرک سے جو لوگ کر رہے ہیں  وہ اللہ ہی ہے جو تخلیق کا منصوبہ بنانے والا اور اس کو نافذ کرنے والا اور اس کے مطابق صورت گری کرنے والا ہے اس کے لیے بہترین نام ہیں ہر چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے اُس کی تسبیح کر رہی ہے، اور وہ زبردست اور حکیم ہے”( قرآن :59:22,23,24)
Islam stresses to firmly believe in Allah (one God), the Lord of the worlds, submit to Him and worship Him only. Qur’an repeatedly draws the attention of man towards existence of God through various ‘Signs’ and other arguments. Islamic philosophers of the middle ages did not address the problem of existence of God in any direct fashion. This maybe because in the context of Muslim thought, the existence of God was a prerequisite. However it is evident that the orderly and wonderful phenomena of nature could not be purposeless and accidental. It is pertinent to note that the ‘reason’ properly used must lead man to cognition of God’s existence and, thus of the fact that a definite plan underlines all His creation; reward for pious believers and punishment for rebellious non believers and sinners …… [………….. ] ,,, s.
اسلام، علم اور تحقیق کی بنیاد پر اللہ پرسچے اور گہرے ایمان کا تقاضہ کرتا ہے اور عقل انسانی کے سوچ کے عمل کوکھلا چھوڑ دیتا ہے تاکہ وہ جتنی گہرائی تک جا سکتی ہے جا ئے:
“کہہ دیجئے! وہی تو (خدا) ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور تمہارے لئے کان، آنکھیں اور دل (و دماغ) بنا ئے۔ (مگر) تم بہت کم شکر ادا کرتے ہو۔ (67:23 قرآن)
“اور کہیں گے اگر ہم سنتے یا سمجھتے ہوتے تو دوزخیوں میں نہ ہوتے”( قرآن67:10)
اسلام ایک خدا , اللہ ,  رب العالمین پر مضبوط ایمان ، اپنے آپ کو اس کی اطاعت اور صرف اسی کی عبادت کرنے پر زور دیتا ہے-
قرآن بار بار مختلف ‘نشانیوں’ اور دوسرے دلائل کے ذریعےانسان کی توجہ خدا کے وجود کی طرف مبذول کرواتا ہے- قرون وسطی کے اسلامی فلسفیوں نے خدا کے وجود کے مسئلےکو براہ راست حل کرنے کی کوشش نہیں کی-اس کی ممکنہ وجہ مسلم فکر کے تناظر میں، خدا کے  وجود کا مقدّم ہونا ہے- تاہم ظاہر ہے کہ یہ منظم کائنات اور شاندار مظاہر فطرت بلا مقصد اور حادثاتی نہیں ہو سکتے-
یہ بات خاص طور پر قابل غورہے کہ اگر ‘عقل ودانش’ کودرست استعمال  کیا جائے تویہ انسان کو ‘خدا واحد’ کے  وجود کی معرفت کی طرف رہنمائی کرتی ہے؛ اورتمام مخلوق کے لئے ایک خاص منصوبہ واضح ہوتا ہے؛ نیک مومنوں کے لئےجزا، اورباغی غیرمومنوں اور گنہگاروں کے لیے سزا-
مسلمان اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں اور وہ اس کی مدد اور رہنمائی کے طلبگار رهتے ہیں-
الله عظیم اوراعلی ہے مگر وہ نیک اورفرمانبردار مومنوں کے نزدیک ہے۔ وہ ان کی دعاؤں کو سنتا ہے اور ان کی مدد کرتا ہے۔ جو لوگ اس سے محبت کرتے ہیں وہ بھی ان سے محبت کرتا ہے اور ان کے گناہ بخش دیتا ہے- الله اپنے نیک لوگوں کو سکوں ، خوشی، علم اور کامیابیوں سے نوازتا ہے- ایک مسلمان کا الله پر ایمان اس کے فرشتوں،مقدس کتابوں، پیغمبروں، یوم حساب، قضا اور قدر(الله کی طاقت اور قادرمطلق)  پر ایمان ہوتا ہے-
زندگی و موت سب اللہ بزرگ و برتر کی قضا کی رہین منت ہے اور قضا و قدر کا علم خدا ہی کو ہے۔ انسان کو اس کا علم اس وقت ہوتا ہے جب کسی کام کا نتیجہ ظاہر ہوتا ہے۔ بس اس حقیقت پر دل سے ایمان و یقین رکھنا اسلام کے سلسلہ عقائد کی ایک اہم کڑی ہے۔ انسان اپنے بعض اعمال میں مجبور ہے اور بعض میں مختار ہے- سیدنا علی ابن ابی طالب رضي الله عنه سے کسی نے جبر و قدر بارے سوال کیا تو آپ نے فرمایا: ’’اپنا دایاں پاؤں زمین سے اٹھاؤ‘‘۔ اس نے اٹھا لیا تو آپ نے فرمایا: ’’اب دوسرا پاؤں بھی اٹھاؤ‘‘۔ اس نے کہا اس طرح تو میں گر جاؤں گا۔ آپ نے فرمایا: ’’انسان ایک وقت میں ایک پاؤں اٹھانے پر مختار ہے اور ایک ساتھ دونوں پاؤں نہ اٹھا سکنے پر مجبور ہے۔‘‘ یہی راہِ اعتدال ہے۔
اللہ واحد الہی ہے کہ وہ؛ رب، خالق، قادر مطلق، اور تمام امور کا مالک ہے- الله  حقیقی معبود ہے اورباقی تمام نام نہاد دیوتا باطل ہیں-
وہ ایک (احد) ہے، اس کی  الوہیت، اوصاف اورناموں میں کوئی شریک نہیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
“وہ رب ہے آسمانوں کا اور زمین کا اور اُن ساری چیزوں کا جو آسمان و زمین کے درمیان ہیں پس تم اُس کے بندگی کرو اور اُسی کی بندگی پر ثابت قدم رہو کیا ہے کوئی ہستی تمہارے علم میں اس کی ہم پایہ؟”(19:65قرآن)
“اللہ، وہ زندہ جاوید ہستی، جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے وہ نہ سوتا ہے اور نہ اُسے اونگھ لگتی ہے زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے، اُسی کا ہے کون ہے جو اُس کی جناب میں اُس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے؟ جو کچھ بندوں کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اُن سے اوجھل ہے، اس سے بھی وہ واقف ہے اور اُس کی معلومات میں سے کوئی چیز اُن کی گرفت ادراک میں نہیں آسکتی الّا یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی اُن کو دینا چاہے اُس کی حکومت آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے اور اُن کی نگہبانی اس کے لیے کوئی تھکا دینے والا کام نہیں ہے بس وہی ایک بزرگ و برتر ذات ہے” (قرآن 2:255)
الله  کی صفات:
الله  کی صفات، الفاظ، نشانیاں اوررحمتیں اس کی تخلیقات سے ظاہِر ہوتے ہیں ان کو مکمل طور پر انسانی زبان بیان کرنے سے قاصر ہےچاہےانسانی تصور کا دائرہ کتنا بھی وسیع کر لیں- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
“کہہ دو اگر میرے رب کی باتیں لکھنےکے لئے سمندر سیاہی بن جائے تو میرے رب کی باتیں ختم ہونے سے پہلے سمندر ختم ہو جائے اور اگرچہ اس کی مدد کے لیے ہم ایسا ہی اور سمندر لائیں” (قرآن:18:109)
بحرحال اللہ کی صفات کے بارے میں تمام ذکر، مختصراً،  یا تفصیلاً، مثبت  یا منفی اس کی بنیاد قرآن اور حضرت محمد (صلی الله علیہ وسلم) کی روایات پر ہے اور یہ حتمی ہیں، یہ پچھلی نسلوں کے  مسلمانوں اور ان کے بعد آنے والے ہدایت یافتہ علماء کرام کے  طریقوں کےمطابق ہیں- کچھ  ‘صفات اللہ’ بائبل مقدّس میں بھی مذکور ہیں جن کا ذکرپہلے کیا گیا-
الله تعالیٰ کی ذات مبارکہ جسم سے اور جسم کی تمام خصوصیات زمان ومکان اور حدود وجہت سے پاک اور منزہ ہے، لہٰذا ذات باری تعالیٰ کے حق میں کوئی لفظ بھی استعمال نہ کیا جائے جو جسم اور خاصہ جسم پر دلالت کرتا ہو-
البتہ جہاں تک قرآن وحدیث کے ان الفاظ کا تعلق ہے جو الله تعالیٰ کے لیے عرش پر قرار پکڑنے:﴿ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْش﴾․ (الاعراف، آیت:54)اور چہرہ:﴿وَیَبْقَی وَجْہُ رَبِّک﴾․ (الرحمن، آیت:27)ہاتھ:﴿ یَدُ اللَّہِ فَوْقَ أَیْْدِیْہِمْ﴾․ (الفتح، آیت:10)آنکھ: ﴿وَلِتُصْنَعَ عَلَی عَیْْنِی﴾․ (طہ، آیت:39)پنڈلی:﴿یَوْمَ یُکْشَفُ عَن سَاق﴾․(القلم:42) وغیرہ ہونے پر دلالت کناں ہیں ، تو انہیں اسلاف نے صفات ‘متشابہات’ قرار دے دیا ہے۔ کیوں کہ اگر انہیں حقیقی معنی پر محمول کیا جائے تو تجسیم وتشبیہ کی راہیں کھلتی ہیں اور اگر صرف تنزیہ وتجرید کے تقاضے ملحوظ رکہے جائیں تو انکارِ صفات کے پہلو نکلتے ہیں- کچھ علماء کے خیال میں ‘صفات متشابہات’ کے ایسے مجازی معنی بیان کیے جاسکتے ہیں جو الله تبارک وتعالیٰ کے شایان شان ہوں، بشرطیکہ:اس لفظ کے اندر مجازی معنی مراد لینے کی گنجائش ہو- نیز اس مجازی معنی کو احتمال تفسیر کے درجے میں رکھا جائے، انہیں قطعی اوریقینی نہ کہا جائے۔ لہٰذا ”ید“ سے قدرت ، ”وجہ“ سے ذات اور استوا سے استیلا (غلبہ) مراد لیا جاسکتا ہے-مگر کچھ علماء اس سے متفق نہیں (واللہ اعلم)-
جب باری تعالیٰ کے جسم او رجہت وغیرہ سے پاک ہونے پر دلائل عقلیہ قائم ہوں تو پھر قاعدہ یہ ہے اگر کسی نص کے ظاہری الفاظ کسی ایسی چیز پر دلالت کریں جو خلاف عقل ہے تو اس نص کے ظاہری معنی مراد نہیں ہوں گے ، بلکہ ایسی نصوص متشابہات کہلاتی ہیں- ایسے جملے جن کے معنی صاف ظاہر نہ ہوں بلکہ تاویل اور تفسیر کے محتاج ہوں اور ان میں بہت سے معنوں کا احتمال ہوآیاتِ متشابہات کہلاتے ہیں. ارشاد باری تعالیٰ ہے :
“وہی خدا ہے، جس نے یہ کتاب تم پر نازل کی ہے اِس کتاب میں دو طرح کی آیات ہیں: ایک محکمات، جو کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور دوسری متشابہات جن لوگوں کے دلو ں میں ٹیڑھ ہے، وہ فتنے کی تلاش میں ہمیشہ متشابہات ہی کے پیچہے پڑے رہتے ہیں اور اُن کو معنی پہنانے کی کوشش کیا کرتے ہیں، حالانکہ ان کا حقیقی مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا بخلا ف اِس کے جو لوگ علم میں پختہ کار ہیں، وہ کہتے ہیں کہ “ہمارا اُن پر ایمان ہے، یہ سب ہمارے رب ہی کی طرف سے ہیں” اور سچ یہ ہے کہ کسی چیز سے صحیح سبق صرف دانشمند لوگ ہی حاصل کرتے ہیں”(قرآن:3:7)
‘حکَم’   پکّی اور پختہ چیز کو کہتے ہیں۔ ”آیاتِ محکمات“ سے مراد وہ آیات  ہیں، جن کی زبان بالکل صاف ہے، جن کا مفہوم متعین کرنے میں کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں ہے، جن کے الفاظ معنی و مدّعا پر صاف اور صریح دلالت کرتے ہیں، جنہیں تاویلات کا تختہٴ  مشق بنانے کا موقع مشکل ہی سے کسی کو مِل سکتا ہے۔ یہ آیات”کتاب کی اصل بنیاد ہیں“، یعنی قرآن جس غرض کے لیے نازل ہوا ہے ، اُس غرض کو یہی آیتیں پُورا کرتی ہیں۔ اُنہی میں اسلام کی طرف دُنیا کی دعوت دی گئی ہے، اُنہی میں عبرت اور نصیحت کی باتیں فرمائی گئی ہیں، اُنہی میں گمراہیوں کی تردید اور راہِ راست کی توضیح کی گئی ہے۔ اُنہی میں دین کے بُنیادی اُصُول بیان کیے گئے ہیں۔ اُنہی میں عقائد ، عبادات، اخلاق ، فرائض اور امر و نہی کے احکام ارشاد ہوئے ہیں۔ پس جو شخص طالبِ حق ہو اور یہ جاننے کے لیے قرآن کی طرف رُجوع کرنا چاہتا ہو کہ وہ کس راہ پر چلے اور کس راہ پر نہ چلے، اس کی پیاس بُجھانے کے لیے آیات محکمات ہی اصل مرجع ہیں اور فطرةً اُنہی پر اس کی توجہ مرکوز ہو گی اور وہ زیادہ تر اُنہی سے فائدہ اُٹھانے میں مشغول رہے گا۔
دوسری قسم کی آیات متشابہات ، یعنی وہ آیات جن کے مفہُوم میں اشتباہ کی گنجائش ہے: یہ ظاہر ہے کہ انسان کے لیے زندگی کا کوئی راستہ تجویز نہیں کیا جا سکتا، جب تک کائنات کی حقیقت اور اس کے آغاز و انجام اور اس میں انسان کی حیثیت اور ایسے ہی دُوسرے بُنیادی اُمور کے متعلق کم سے کم ضروری معلومت انسان کو نہ دی جائیں۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ جو چیزیں انسان کے حواس سے ماورا ہیں ، جو انسانی علم کی گرفت میں نہ کبھی آئی ہیں ،  نہ آسکتی ہیں، جن کو اس نے نہ کبھی دیکھا، نہ چھُوا ، نہ چکھا، اُن کے لیے انسانی زبان میں نہ ایسے الفاظ مل سکتے ہیں جو اُنہی کے لیے وضع کیے گئے ہوں اور نہ ایسے معروف اسالیبِ بیان مِل سکتے ہیں ، جن سے ہر سامع کے ذہن میں ان کی صحیح تصویر  کھنچ  جائے۔ لامحالہ یہ ناگزیر ہے کہ اس نوعیت کے مضامین کو بیان کر نے کے لیے الفاظ اور اسالیبِ بیان وہ استعمال کیے جائیں، جو اصل حقیقت سے قریب تر مشابہت رکھنے والی محسُوس چیزوں کے لیے انسانی زبان میں پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ مابعد الطبیعی (metaphysical)  مسائل کے بیان میں قرآن کے اندر ایسی ہی زبان استعمال کی گئی ہے اور متشابہات سے مراد وہ آیات ہیں ، جن میں یہ زبان استعمال ہوئی ہے۔
لیکن اِس زبان کا زیادہ سے زیادہ فائدہ بس اتنا ہی ہو سکتا ہے کہ آدمی کو حقیقت  کے قریب تک پہنچا دے یا اس کا ایک دُھندلا سا تصوّر پیدا کردے۔  ایسی آیات کے مفہوم کو متعین کرنے کی جتنی زیادہ کوشش کی جائے گی ، اتنے ہی زیادہ اشتباہات و احتمالات سے سابقہ پیش آئے گا، حتٰی کہ انسان حقیقت سے قریب تر ہونے کے بجائے اَور زیادہ دُور ہوتا چلا جائے گا۔ پس جو لوگ طالبِ حق ہیں اور ذوقِ فضول نہیں رکھتے، وہ تو متشابہات سے حقیقت کے اُس دُھندلے تصوّر پر قناعت  کر لیتے ہیں جو کام چلانے کے لیے کافی ہے اور اپنی تمام تر توجہ محکمات پر صرف کرتے ہیں، مگر جو لوگ بُوالفضول یا فتنہ جو ہوتے ہیں ، اُن کا تمام تر مشغلہ متشابہات  ہی کی بحث و تنقیب ہوتا ہے-(تفہیم القرآن)

 

الله کےخوبصورت نام اور صفات عالیہ:
اللہ کے خوبصورت نام اور صفات عالیہ کی تعداد غیر محدود ہے، جن میں کم وبیش 125 قرآن وسنت میں وارد ہوئے ہیں۔ 99 کی تعداد بہت مشہور ہے، لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اللہ کی مزید کوئی صفت نہیں ہے۔ اللہ کے سب سے کامل اوصاف ہیں، اللہ کو کسی بھی ایسے نام ، صفات کمال سے پکارا جاسکتا ہے جو الله تبارک وتعالیٰ کے شایان شان ہوں:
“کہہ دو الله کہہ کر یا رحمٰن کہہ کر پکارو جس نام سے پکاروسب اسی کے عمدہ نام ہیں”(قرآن7:110 ،20:8, 59:24); “اور اللہ ہی کے لیے اچھے اچھے نام ہیں اسے انہی کے ذریعہ سے پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں کجروی کرتے ہیں۔ عنقریب انہیں ان کے کئے کا بدلہ مل جائے گا۔” (7:180)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بے شک اللہ تعالیٰ کے ننانوےنام ہیں ،سو سے ایک کم ،جس نے انہیں سیکھا اور انہیں یاد کیا اور ان پر عمل کیا وہ جنت میں جائے گا۔( صحیح بخاری: 2736 ،صحیح مسلم: 7762)- اس حدیث کامطلب یہ ہرگز نہیں کہ اللہ تعالی کے ننانوے ناموں کے علاوہ کوئی نام ہی نہیں، بلکہ اس حدیث کا مطلب ہے کہ جو ننانوے نام یاد کریگا وہ جنت میں جائے گا-

 

اسماء الحسنی
الله ٭ الرحمن٭ الرحيم٭ الملك٭ القدوس ٭ السلام ٭ المؤمن ٭ المهيمن٭ العزيز٭ الجبار٭ المتكبر٭ الخالق٭ البارئ ٭ المصور٭ الغفار٭ القهار٭ الوهاب٭ الرزاق٭ الفتاح٭ العليم ٭ القابض٭ الباسط٭ الخافض ٭ الرافع ٭ المعز ٭ المذل٭ السميع ٭ البصير٭ الحكم ٭ العدل٭ اللطيف ٭ الخبير٭ الحليم٭ العظيم ٭ الغفور٭ الشكور٭ العلي٭ الكبير٭ الحفيظ ٭ المقيت٭ الحسيب٭ الجليل٭ الكريم ٭ الرقيب٭ المجيب٭ الواسع ٭ الحكيم ٭ الودود٭ المجيد٭ الباعث٭ الشهيد ٭ الحق٭ الوكيل ٭ القوي٭ المتين٭ الولي ٭ الحميد٭ المحصي٭ المبدئ ٭ المعيد٭ المحيي٭ المميت٭ الحي٭ القيوم٭ الواجد٭ الماجد٭ الواحد٭ الأحد ٭ الصمد٭ القادر٭ المقتدر٭ المقدم ٭ المؤخر٭ الأول ٭ الآخر ٭ الظاهر٭ الباطن٭ الوالي٭ المتعالي٭ البر٭ التواب ٭ المنتقم٭ العفو٭ الرءوف٭ مالك الملك ٭ ذوالجلال والإكرام٭ الرب٭ المقسط ٭ الجامع ٭ الغني٭ المغني ٭ المانع٭ الضار٭ النافع ٭ النور٭ الهادي٭ البديع٭ الباقي٭ الوارث٭ الرشيد ٭ الصبور٭
وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، رحمن، رحیم، بادشاہ، برائیوں سے پاک، بے عیب، امن دینے والا، محافظ، غالب، زبردست، بڑائی والا، پیدا کرنے والا، جان ڈالنے والا، صورت دینے وال، درگزر فرمانے والا، سب کو قابو میں رکھنے والا، بہت عطا فرمانے والا، بہت روزی دینے والا، سب سے بڑا مشکل کشا، بہت جاننے والا، روزی تنگ کرنے ولا، عزت دینے والا، ذلت دینے والا، سب کچھ سننے والا، دیکھنے والا، حاکم مطلق، سراپا انصاف، لطف وکرم والا، باخبر، بردبار، بڑا بزرگ، بہت بخشنے والا، قدردان بہت بڑا، محافظ، قوت دینے والا، کفایت کرنے والا، بڑے مرتبے والا، بہت کرم والا، بڑا نگہبان، دعائیں قبول کرنے والا، وسعت والا، حکمتوں والا، محبت کرنے والا، بڑا بزرگ، مردوں کو زندہ کرنے والا، حاضر وناظر، برحق کار ساز، بہت بڑی قوت والا، شدید قوت والا، مددگار، لائق تعریف، شمار میں رکھنے، پہلی بار پیدا کرنے والا، دوبارہ پیدا کرنے والا، موت دینے والا، قائم رکھنے والا، پانے والا، بزرگی والا، تنہا، بے نیاز، قادر، پوری طاقت والا، آگے کرنے والا، پیچہے رکھنے والا، سب سے پہلے، سب کے بعد، ظاہر، پوشیدہ، متصرف، بلند و برتر، اچہے سلوک والا، بہت توبہ قبول کرنیوالا، بدلہ لینے والا، بہت معاف کرنے والا بہت مشفق، ملکوں کا مالک، جلال واکرام والا، پروردگار، عدل کرنے والا، جمع کرنے والا، بے نیاز، غنی بنانے والا، روکنے والا، ضرر پہنچانے والا، نفع بخش ہدایت دینے والا، بے مثال ایجاد کرنے والا، باقی رہنے والا، نیکی کو پسند کرنے والا، صبر وتحمل والا۔
 

صفات مجازی بمعنی صفات عطائی:

اللہ تعالیٰ کی کچھ صفات جو صفات عامہ کہلاتی ہیں مخلوق میں پائی جاتی ہیں، جب ان کا ذکر اللہ تعالیٰ کے لئے ہو گا تو وہ ‘حقیقی’ معنی میں استعمال ہوں گی اور شان خالقیت و الوہیت کے مطابق ہوں گی اور جب مخلوق کے لئے ہو گا تو ان کا استعمال ‘مجازی اور عطائی’ معنی میں ہو گا کیونکہ مخلوق میں جو صفات پائی جاتی ہیں وہ اللہ کی صفات سے اصلاً مشابہ نہیں ہوتیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ہوتی ہیں۔ یہ صفات مخلوق کو اس لیے عطا کی گئی ہیں کہ ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی اعلیٰ صفات کو جہاں تک ممکن ہو معلوم کرنے میں مدد مل سکے گویا یہ صفات الٰہیہ کی معرفت کا ذریعہ اور واسطہ بنتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی وہ صفات جو مخلوق میں پائی جاتی ہیں وہ اس طرح کی ہیں:
فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا(الدهر، 76 : 2) ’’پھر ہم اس کو سننے والا اور دیکھنے والا (انسان) بنا دیتے ہیں۔‘‘
لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ(التوبة،9 : 128)’’بیشک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول تشریف لائے، تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔ (اے لوگو!) وہ تمہارے لیے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزو مند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لئے نہایت (ہی) شفیق، بے حد رحم فرمانے والے ہیں۔‘‘
حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہے :أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ…(آل عمران، 3 : 49):’’میں تمہارے لیے مٹی سے پرندے کی شکل جیسا (ایک پتلا) بناتا ہوں۔‘‘
وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا(البقرة، 2 : 143)’’اور (ہمارا یہ برگزیدہ) رسول تم پر گواہ ہو-
کچھ  اوصاف حسنہ کا مختصر بیان:-
رَبِّ الْعَالَمِينَ:
رب اللہ کا ایک صفاتی نام جو قرآن شریف میں متعدد بار استعمال ہوا ہے۔ رب کا لفظ عربی زبان میں کیئ معنوں میں بولا جاتا ہے: مالک اور آقا، مربیّ، پرورش کرنے والا، خبر گیری اور نگہبانی کرنے والا، فرمانروا، حاکم ، مدّبر اور منتظم ۔ اللہ تعالیٰ ان سب معنوں میں کائنات کا ربّ ہے- رب کا لفظ فقط اللہ سے منسوب ہے:
“سب تعریفیں الله کے لیے ہیں جو (رَبِّ الْعَالَمِينَ) سب جہانوں کا پالنے والا ہے”(قرآن 1:2)
“پس سب تعریف الله ہی کے لیے ہے جو آسمانوں کا رب اور زمین کا رب سارے جہانوں کا رب ہے” (قرآن45:36)
“اپنی پریشانیاں تم (Lord) رب کو سونپ دو۔ پھر وہ تمہا ری نگہبانی کریگا ، وہ  اچھے  لوگوں کو کبھی بھی شکست سے دوچار ہو نے نہیں دیگا”(55:22 زبور)
وہ سب کا رب  ہے، وہی تخلیق کرتا اور سب کو پالتا ہے جس میں تمام مومن، فرمانبردار،ظالم، کافر، باغی سب شامل ہیں- یہ دنیا آزمائش کی جگہ ہے اورمکمل احتساب قیامت کے دن ہو گا ۔
الْقَاهِرُ، الحكيم:
“وہ اپنے بندوں پر کامل اختیارات رکھتا ہے اور دانا اور باخبر ہے”(قرآن :6:18)
الله اپنی مخلوق کے نزدیک ہے:” ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں ابھرنے والے وسوسوں تک کو ہم جانتے ہیں۔ ہم اس کی رگِ گردن سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں”(قرآن (50:16)-    یعنی الله کی  قدرت اورعلم نے انسان کو اندر اور باہر سے اس طرح گھیر رکھا ہے کہ اس کی رگ گردن بھی اس سے اتنی قریب نہیں ہے جتنااللہ کا علم اور قدرت اس سے قریب ہے۔ اس کی بات سننے کے لیے اللہ کو کہیں سے چل کر نہیں آنا پڑتا، اس کے دل میں آنے والے خیالات تک کووہ براہ راست جانتا ہے۔ انسان جہاں بھی ہو ہر وقت اللہ کی گرفت میں ہے:
“کیا تم کو خبر نہیں ہے کہ زمین اور آسمانوں کی ہر چیز کا اللہ کو علم ہے؟ کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ تین آدمیوں میں کوئی سرگوشی ہو اور ان کے درمیان چوتھا اللہ نہ ہو، یا پانچ آدمیوں میں سرگوشی ہو اور ان کے اندر چھٹا اللہ نہ ہو خفیہ بات کرنے والا خواہ اِس سے کم ہوں یا زیادہ، جہاں کہیں بھی وہ ہوں، اللہ ان کے ساتھ ہوتا ہے پھر قیامت کے روز وہ ان کو بتا دے گا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا ہے اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے”(58:7 قرآن)
“ہر جگہ جہاں بھی میں جا تا ہوں تیری رُوح رہتی ہے۔ اے خداوند! میں تجھ سے بچ کر نہیں جا سکتا”(زبور:139:7)
العلیم:
الله  کا علم مکمل اور لا محدود  ہے:
“اُسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا بحر و بر میں جو کچھ ہے سب سے وہ واقف ہے درخت سے گرنے والا کوئی پتہ ایسا نہیں جس کا اسے علم نہ ہو زمین کے تاریک پردوں میں کوئی دانہ ایسا نہیں جس سے وہ باخبر نہ ہو خشک و ترسب کچھ ایک کھلی کتاب میں لکھا ہوا ہے”(6:59  قرآن)
“اُس گھڑی کا علم اللہ ہی کے پاس ہے، وہی بارش برساتا ہے، وہی جانتا ہے کہ ماؤں کے پیٹوں میں کیا پرورش پا رہا ہے، کوئی متنفس نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کمائی کرنے والا ہے اور نہ کسی شخص کو یہ خبر ہے کہ کس سرزمین میں اس کی موت آنی ہے، اللہ ہی سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے”(  قرآن31:34)
“موسیٰؑ نے کہا “اُس کا علم میرے رب کے پاس ایک نوشتے میں محفوظ ہے میرا رب نہ چُوکتا ہے نہ بھُولتا ہے” (2:52 قرآن )
“خداوند تمہا رے ہر کام کو جسے تو کرتا ہے اچھی طرح دیکھتا ہے۔جہاں تم جا تے ہو وہاں خداوند کی نگاہ ہے”(امثال:5:21)
الخالق:
“وہ اللہ ہی ہے جو تخلیق کا منصوبہ بنانے والا اور اس کو نافذ کرنے والا اور اس کے مطابق صورت گری کرنے والا ہے اس کے لیے بہترین نام ہیں ہر چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے اُس کی تسبیح کر رہی ہے، اور وہ زبردست اور حکیم ہے”(59:24  قرآن)
“اِن سے پوچھو، آسمان و زمین کا رب کون ہے؟ کہو، اللہ پھر ان سے کہو کہ جب حقیقت یہ ہے تو کیا تم نے اُسے چھوڑ کر ایسے معبودوں کو اپنا کارساز ٹھیرا لیا جو خود اپنے لیے بھی کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے؟ کہو، کیا اندھا اور آنکھوں والا برابر ہوا کرتا ہے؟ کیا روشنی اور تاریکیاں یکساں ہوتی ہیں؟ اور اگر ایسا نہیں تو کیا اِن ٹھیرائے ہوئے شریکوں نے بھی اللہ کی طرح کچھ پیدا کیا ہے کہ اُس کی وجہ سے اِن پر تخلیق کا معاملہ مشتبہ ہو گیا؟ کہو، ہر چیز کا خالق صرف اللہ ہے اور وہ یکتا ہے، سب پر غالب! ” (قرآن13:16)
“اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور وہی ہر چیز پر نگہبان ہے” (  قرآن39:62)
“لوگو، تم پر اللہ کے جو احسانات ہیں انہیں یاد رکھو کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق بھی ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہو؟ کوئی معبود اُس کے سوا نہیں، آخر تم کہاں سے دھوکا کھا رہے ہو؟ “(35:3 قرآن)
“کیا وہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اِس پر قادر نہیں ہے کہ اِن جیسوں کو پیدا کر سکے؟ کیوں نہیں، جبکہ وہ ماہر خلاق ہے”(36:81 قرآن)
“یہ ہے اللہ تمہارا رب، کوئی خدا اس کے سوا نہیں ہے، ہر چیز کا خالق، لہٰذا تم اسی کی بندگی کرو اور وہ ہر چیز کا کفیل ہے” ( قرآن: 6:102)
“کیا تو نہیں جانتا ہے ؟  کیا تو نہیں سنا ہے؟ کہ خدا وند ہمیشہ رہنے والا خدا ہے، ساری زمین کا خالق ہے۔ وہ نہ تھکتا ہے اور نہ ہی پریشان ہوتا ہے۔ کوئی بھی شخص اس کی دانشمندی کو پوری طرح سمجھ نہیں سکتا ہے۔”(یسعیاہ: 40:28)
غیر مخلوق:
الله کو ہر بات کا علم ہے مگرایسے نہیں جیسے انسانوں کا علم ہو- وہ طاقتور ہے مگر انسانوں کی طرح نہیں-  وہ شیئے ہے مگر دوسری اشیاء کی طرح نہیں،اس کو شیئےکہنے کا مقصد صرف اس کے وجود کی حقیقت کا اقرار کرنا ہے- اس کا نہ جسم ہے نہ مادہ، وہ لا محدود ہے، نہ اس کے مخالف نہ اس کی مثال دی جا سکتی ہے-انسان کو تخلیق کے لئے اشیاء کی ضرورت ہوتی ہے، ترکھان کو ایک میز بنانے کے لیئے لکڑی، کیل ، اوزاراور باقی سامان درکار ہوتا ہے مگر الله کسی مادہ یا اشیاء کے بغیر تخلیق کرتا ہے- اس کو تخلیق سے پہلے ہی ابدی علم ہوتا ہے- رسول الله صلی الله و علیہ وسلم  نے فرمایا کہ اس کا پردہ نور ہے ، اگر وہ اس کو ہٹا دیتا تو اس اس کے جلال سے تمام کچھ جل جاتا (مفھوم- مسلم ، ابن ماجہ)- الله اور اس کی صفات  واضح طور پرانسانی الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں-
الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ:
قرآن میں ارشاد ہے: ” وہی اول بھی ہے اور آخر بھی، ظاہر بھی ہے اور مخفی بھی، اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے” ( قرآن 57:3)
اور بائبل میں لکھا ہے :”یہ دُنیا اور آسمان نیست ونابود ہو جا ئیں گے۔ لیکن تو ابد تک زندہ رہے گا۔ وہ لباس کی مانند پرانے ہو جا ئیں گے۔ لباس کی مانند ہی تُو اسے بدلے گا۔ وہ سبھی بدل دیئے جا ئیں گے۔ اے خدا ! لیکن تُو کبھی نہیں بدلتا-  تُو ابد تک زندہ رہے گا”۔(زبور:102:26-27)
الله ظاہر  ہے اس کے وجود کےلا تعداد ثبوت کائنات میں ہر طرف موجود ہیں- مگر الله مخفی ہے اس حد تک کہ انسانی عقل اس کی ذات پاک کا احاطہ نہیں کر سکتی، نہ ہی اس کو اس دنیا میں دیکھا جا سکتا ہے- یعنی جب کچھ نہ تھا تو وہ تھا اور جب کچھ نہ رہے تو وہ رہے گا۔ وہ سب ظاہروں سے بڑھ کر ظاہر ہے ، کیونکہ دنیا میں جو کچھ بھی ظہور ہے اسی کی صفات اور اسی کے افعال اور اسی کے نور کا ظہور ہے ۔ اور وہ ہر مخفی سے بڑھ کر مخفی ہے ، کیونکہ حواس سے اس کی ذات کو محسوس کرنا تو درکنار، عقل و فکر و خیال تک اس کی کنہ و حقیقت  کو نہیں پا سکتے ۔ اس کی بہترین تفسیر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک دعا کے یہ الفاظ ہیں جنہیں امام احمد، مسلم، ترمذی، اور بیہقی نے حضرت ابو ہریرہؓ سے اور حافظ ابو یعلیٰ موسلی نے اپنی مسند میں حضرت عائشہؓ سے نقل کیا ہے :
“تو ہی پہلا ہے ، کوئی تجھ سے پہلے نہیں ، تو ہی آخر ہے ، کوئ تیرے بعد نہیں ، تو ہی ظاہر ہے کوئی تیرے تجھ سے اوپر نہیں، تو ہی باطن ہے ، کوئی تجھ سے مخفی تر نہیں”-
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں اہل جنت اور اہل دوزخ کے لیے خلود اور ابدی زندگی کا جو ذکر کیا گیا ہے اس کے ساتھ یہبات کیسے نبھ سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ آخر ہے ، یعنی جب کچھ نہ رہے گا تو وہ رہے گا؟ اس کا جواب خود قرآن مجید ہی میں موجود ہے کہ کُلُّ شَیْءٍ ھَالِکٌ اِلَّا  وَجْھَہٗ (القصص۔88)۔ یعنی ’’ ہر چیز فانی ہے اللہ کی ذات کے سوا‘‘۔ دوسرے الفاظ میں ذاتی بقا کسی مخلوق کے لیے نہیں ہے ۔ اگر کوئی چیز باقی ہے یا باقی رہے تو وہ اللہ کے باقی رکھنے ہی سے باقی ہے ۔ اور اس کے باقی رکھنے ہی سے باقی رہ سکتی ہے ، ورنہ بذات خود اس کے سوا سب فانی ہیں ۔ جنت اور دوزخ میں کسی کو خلو د اس لیے نہیں ملے گا کہ وہ بجائے خود غیر فانی ہے ، بلکہ اس لیے ملے گا کہ الہ اس کو حیات ابدی عطا فرمائے گا۔ یہی معاملہ فرشتوں کا بھی ہے کہ وہ بذات خود غیر فانی نہیں ہیں ۔ جب اللہ نے چاہا تو وہ وجود میں آئے، اور جب تک وہ چاہے اسی وقت تک وہ موجود رہ سکتے ہیں ۔(تفہیم القرآن)
کچھ مسیحی سمجھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خدا ئی کا دعوی کیا جب کہا:
“میں الفا اور اومیگا ہوں میں وہی ہوں جو تھا اور جو آنے وا لا ہے ،میں قادر مطلق ہوں۔”(مکاشفہ  1:8)
یہ خدا کی صفات ہیں، مگر RSV سٹنڈرڈ بائبل میں ماہرین بائبل نے ترجمہ کو درست کیا اور لکھا:
“I am the Alpha and the Omega,” says the Lord God, who is and who was and who is to come, the Almighty.(Revelation;1:8, RSV)
ترجمہ :”میں ‘الفا’ اور ‘اومیگا’ ہوں؛ خدا ، رب کہتا ہے، وہی ہوں جو تھا اور جو آنے وا لا ہے ،میں قادر مطلق ہوں۔”(RSV مکاشفہ  1:8)- یہ  اصلاح نیو امریکن کیتھولک بائبل میں بھی کی گئی- لہذا اس اصلاح کے بعد یہ واضح ہو جاتا ہے کہ  خدا کا ایک بیان غلطی سے حضرت عیسی علیہ السلام سے منسوب کیا گیا تھا- بائبل میں خدا کو ”غائب” کہ گیا ہے(ایوب:23:8-9))، سمجھ سے بالا تر(ایوب:11:7;37:23زبور:145:3یسعیاہ40:28)-
مخلوق سے مشابہت نہیں:
مسلمان الله کی جسمانی تشریح کے نقطہ نظر کو مسترد کرتے ہیں- الله اپنی حکمت و تدبر میں وحدہ لا شریک وہ کسی مخلوق سے مشابہ نہیں- الله تعالیٰ اور پیغمبر صلی الله علیہ وسلم نے جو الله کے متعلق ارشاد فرمایا ہے اس پر یقین اپر ایمان لازم ہےکسی کمی یا اضافہ کے بغیر-
 اللہ تعالیٰ معبودہے جو واحد اور احد ہے جس جیسا کوئی نہیں جس کا کوئی وزیر نہیں جس کا کوئ شریک نہیں جس کا کوئی ہمسر نہیں جس کا کوئی ہم جنس نہیں جس کا برابر اور کوئی نہیں جس کے سوا کسی میں الوہیت نہیں ۔ وہ اپنی صفتوں میں اور اپنے حکمت بھرے کاموں میں یکتا اور بےنظیر ہوتا ہے۔ وہ ‘صمد’ ہے یعنی ساری مخلوق اس کی محتاج ہے اور وہ سب سے بےنیاز ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ صمد وہ ہے جو اپنی سرداری میں، اپنی شرافت میں، اپنی بندگی اور عظمت میں، اپنے علم و علم میں، اپنی حکمت و تدبر میں سب سے بڑھا ہوا ہے۔ یہ صفتیں صرف اللہ تعالیٰ جل شانہ میں ہی پائی جاتی ہیں ۔ اس کا ہمسر اور اس جیسا کوئی اور نہیں وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ سب پرغالب ہے اور اپنی ذات و صفات میں یکتا اور بینظیر ہے، صمد کے یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ جو تمام مخلوق کے فنا ہو جانے کے بعد بھی باقی رہے، جو ہمیشہ کی بقا والا سب کی حفاظت کرنے والا ہو جس کی ذات لازول اور غیر فانونی ہو ۔ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں صمد وہ ہے جو نہ کچھ کھائے نہ اس میں سے کچھ نکلے۔ یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں کہ نہ اس میں سے کچھ نکلے نہ وہ کسی میں سے نکلے یعنی نہ اس کی اولاد ہو نہ ماں باپ –  کل صفتیں ہمارے رب عزوجل میں ہیں اس کی طرف سب محتاج بھی ہیں وہ سب سے بڑھ کر سردار اور سب سے بڑا ہے-  وہ ہر چیز کا خلاق مالک ہے پھر اس کی مخلوق اور ملکیت میں سے اس کی برابری اور ہمسری کرنے والا کون ہوگا ؟
لہٰذا جو کچھ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)  نےاس کے  ناموں اور اوصاف کے متعلق فرمایا وہی سچا علم، اور وضاحت ہے. لہذا، مومن ان  کو قبول کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے. تاہم، اسلام دوقسم کے تصورات کو رد کرتا ہے: اول یہ کہنا یا اس پر ایمان  رکھنا کہ؛اللہ کی صفات اس کی مخلوق کے لوگوں کی طرح ہیں اوردوسرا یہ کہناکہ  اللہ کی صفات فلاں، فلاں کی طرح ہیں، کیونکہ:”اس کے برابر کا کوئی نہیں ہے” (112:4)، “میرے جیسا دُنیا میں دُوسرا کو ئی خدا نہیں ہے”(پیدائش؛9:14)
اَلرَّحمن ،الرحیم:
اللہ کی رحمت قرآن کے بڑے موضوعات میں سے ایک ہے- مسلمان  قرآن پاک کی تلاوت (سورہ9 کے علاوہ) یا کوئی اچھا کام شروع کرنے سے پہلے پڑھتے ہیں: بسم الله الرحمن الرحیم 0″شروع الله کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے”- یہ مسلمانوں کا  اپنی زندگی کو الله کے لئے وقف کرنےکا اقرار ہے، جس کی رحمت کے وہ امید وار ہیں- “الرحمن الرحیم” ،  یہ دونوں نام رحمت سے مشتق ہیں۔ دونوں میں مبالغہ ہے الرحمن میں رحیم سے زیادہ مبالغہ ہے۔ رحمن سے مراد دنیا اور آخرت میں رحم کرنے والا اور رحیم سے مراد آخرت میں رحم کرنے والا ہے۔ ترمذی کی صحیح حدیث ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میں رحمن ہوں میں نے رحم کو پیدا کیا اور اپنے نام میں سے ہی اس کا نام مشتق کیا۔ اس کے ملانے والے کو میں ملاؤں گا اور اس کے توڑنے والے کو کاٹ دوں گا” –  ابن عباس فرماتے ہیں “یہ دونوں رحمت و رحم والے ہیں، ایک میں دوسرے سے زیادہ رحمت و رحم ہے۔ رحمن اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے۔ اس کے سوا کسی دوسرے کا نام نہیں۔ جیسے کہ فرمان ہے کہ اللہ کو پکارو یا رحمن کو جس نام سے چاہو اسے پکارو اس کے بہت اچہے اچہے نام ہیں۔ ایک اور آیت میں ہے (وَسْـَٔــلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُّسُلِنَآ اَجَعَلْنَا مِنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِهَةً يُّعْبَدُوْنَ) 43۔ الزخرف:45) یعنی ان سے پوچھ لو تجھ سے پہلے ہم نے جو رسول بھیجے تہے کیا انہوں نے رحمن کے سوا کسی کو معبود کہا تھا کہ ان کی عبادت کی جائے- اللہ تعالیٰ کے بعض نام تو ایسے ہیں کہ دوسروں پر بھی ہم معنی ہونے کا اطلاق ہو سکتا ہے اور بعض ایسے ہیں کہ نہیں ہو سکتا جیسے اللہ اور رحمن، خالق اور رزاق وغیرہ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنا پہلا نام اللہ پھر اس کی صفت رحمن سے کی۔ اس لئے کہ رحیم کی نسبت یہ زیادہ خاص ہے اور زیادہ مشہور ہے۔ قاعدہ ہے کہ اول سب سے زیادہ بزرگ نام لیا جاتا ہے، اس لئے سب سے پہلے سب سے زیادہ خاص نام لیا گیا پھر اس سے کم۔ پھر اس سے کم۔ رحمن و رحیم صرف اللہ تعالیٰ ہی کا نام ہے۔
انسان اپنی فطری کمزوریوں کی وجہ سے شیطان کے چنگل میں پھنس جاتا ہے، پھر جب اس کو اپنی غلطی اور گناہ کا احساس ہوتا ہے تو الله کے سامنے جھک جاتا ہے، رحمان  سے رحم کا طلبگار ہوتا ہے- الله انسان کو مایوس نہیں کرتا اور اس کی سچی توبه قبول فرماتا ہے کیونکہ اس نے رحمت کو اپنے اپر واجب کرلیا ہے:
“جب تمہارے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں تو ان سے کہو “تم پر سلامتی ہے تمہارے رب نے رحم و کرم کا شیوہ اپنے اوپر لازم کر لیا ہے یہ اس کا رحم و کرم ہی ہے کہ اگر تم میں سے کوئی نادانی کے ساتھ کسی برائی کا ارتکاب کر بیٹھا ہو پھر اس کے بعد توبہ کرے اور اصلاح کر لے تو وہ اُسے معاف کر دیتا ہے اور نرمی سے کام لیتا ہے” (قرآن6:54)؛ “اور وہ بخشنے والا ہے، محبت کرنے والا ہے”(قرآن 85:14)
بائبل میں بھی خدا کی رحمت واضح ہے: (خروج 34:6-7)؛”اے خداوند! یہ زمین تیری شفقّت سے معمور ہے۔ مجھ کو تُو اپنی شریعت کی تعلیم دے۔”(زبور؛119:64)؛”اس لئے اپنے خدا کی جانب لوٹ آؤ۔اس کے لئے سچے بنو۔ بہتر عمل کرو۔اپنے خدا پر ہمیشہ بھروسہ رکھو”(12:6ہوسیع) ؛“میں نے  تجھے   تھو ڑے وقت کے لئے چھو ڑا تھا لیکن اب میں تجھے  پھر سے اپنے پاس بے پناہ رحم کے ساتھ واپس بلا ؤں گا۔”(یسعیاہ:54:7)؛” لیکن خدا بہت رحم والا ہے اور وہ ہم سے بہت زیادہ محبت کر تا ہے۔”(افسیوں;2:4)
الله انصاف اور عدل کرنے والا، بخشش کرنے والا اور سب کا  مددگار ہے:
الله غضب اور قہارہے مگر بہت رحمان اور رحیم ہے-  “بلکہ خدا تمہارا سرپرست ( مَوْلاَ) ہے اور و ہ بہترین مدد کرنے والا ہے” (قرآن 3:150)؛ “اللہ کسی پر ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا- انسان کے پاس نیکی ہوتی ہے تو اسے دوگنا کردیتا ہے اور اپنے پاس سے اجر عظیم عطا کرتا ہے” (قرآن4:40)؛ “ہم آپ کے پروردگار کی عطا و بخشش سے ِن کی اور اُن کی سب کی مدد کرتے ہیں اور آپ کے پروردگار کی عطا کسی پر بند نہیں ہے”(قرآن17:20)؛ “اور تمہارے پروردگار کا ارشاد ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا اور یقینا جو لوگ میری عبادت سے اکڑتے ہیں وہ عنقریب ذلّت کے ساتھ جہّنم میں داخل ہوں گے (قرآن40:60)؛ “کہہ دیجئے کہ میرے پروردگار نے انصاف کا حکم دیا ہے”(7:29قرآن);”بیشک اللہ عدل ,احسان اور قرابت داروں کے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیتا ہے اور بدکاری ,ناشائستہ حرکات اور ظلم سے منع کرتا ہے کہ شاید تم اسی طرح نصیحت حاصل کرلو” (قرآن16:90)
ایک حدیث قدسی جو صحیح بخاری اور مسلم میں بیان ہے، اس کےمفھوم کے مطابق اگر کوئی بندہ گناہ کرتا ہے پھر اس گناہ پر نادم ہو کر اور اس کے نہ کرنے پر عزم کرتے ہوئے اللہ سے اس گناہ کی بخشش طلب کرتا ہے تو اللہ اسے معاف فرما دیتا ہے، اوراور بار بار معاف کرتا ہے یعنی کہ جب اس نے بارگاہ الہی میں توبہ واستغفار کر لیا تو اس کے گناہ کی مغفرت ہوگئی۔۔
بائبل میں ارشاد ہے :”خدا قادر مطلق عظیم ہے ہم اسے سمجھ نہیں سکتے ہیں۔ خدا بہت ہی زور آور ہے، لیکن وہ ہم لوگوں کے لئے منصف بھی ہے۔ خدا ہم لوگوں کو نقصان پہنچا نا پسند نہیں کرتا” (ایوب؛37:23).
یوم حساب کو وہ واحد منصف ہوگا جو انصاف سے لوگوں کے فیصلے کرے گا-
اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے:
الله مکمل طور پر خود مختار اور ما لک کل ہے، وہ کسی کی مرضی کا پابند نہیں، مگر اس نے خود اپنی رحمت کو اپنے پر واجب کیا ہے: “اور اللہ اسی طرح جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ جب وہ کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو ارشاد فرما دیتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے ۔(قرآن3:47 )- الله نے نیکی اور برائی میں فرق انسان کی فطرت میں ڈال دیا: “قسم ہے نفس کی اور اسے درست کرنے کی، پھر اللہ تعالیٰ نے اس نفس کو برائی سے بچنے اور پرہیز گاری اختیار کرنے کی سمجھ عطا فرمائی۔ پھر اس پر اس کی بدی اور اس کی پرہیز گاری واضح کر دی۔ بے شک وہ کامیاب ہو گیا جس نے نفس کو پاکیزہ بنا لیا۔ اور نا مراد ہوا وہ جس نے اس کو آلودہ کیا۔(91:7،8،9،10)-” اور اللہ اپنی نصرت سے جس کو چاہتا ہے مدد دیتا ہے۔(قرآن 3:13);” فضل و کرم خدا کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہتا عطا کرتا ہے اور وہ صاحبِ وسعت بھی ہے اور صاحبِ علم بھی” (قرآن:73: 3 )؛بلکہ اللہ ہی جس کو چاہتا ہے پاکیزہ کرتا ہے اور ان پر دھاگے برابر بھی ظلم نہیں ہوگا۔(قرآن  4:49)؛ اللہ جیسا چاہتا ہے حکم دیتا ہے ۔(قرآن 5:1)؛ زمین تو اللہ کی ہے وہ اپنےبندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کا مالک بنا تا ہے۔(قرآن  7:12)؛ اللہ جس کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جس کو چاہتا ہے) قائم رکھتا ہے ۔(قرآن 13:39)؛ جس کو  چاہتا ہےاپنی رحمت میں داخل کر لیتا ہے۔ اور ظالموں کے  لیے اس نے دکھ دینے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔(قرآن 76:31)؛”اور جنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ضرور ہم انھیں اپنے راستے دکھا دیں گے اور بیشک اللہ نیکوں کے ساتھ ہے”( قرآن29:69)-
 ان آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ انسان کی مدد کرتا ہے اگر وہ نیکی کی راہ پرچلتا ہے، جو گمراہی اختیار کرتا ہے تو وہ خود ذمہ دار ہے-  مکمل طاقتور ہونے کے باوجود،اللہ بنی نوع انسان پر ظلم نہیں کرتا ہے، بلکہ انسان خود ہی الله کا  باغیاور نافرمان ہو کر اپنے آپ پر ظلم کرتا ہے :”اللہ انسانوں پر ذرّہ برابر ظلم نہیں کرتا ہے بلکہ انسان خود ہی اپنے اوپر ظلم کیا کرتے ہیں”(قرآن10:44)
الطیف و الخبیر:
الله لطیف ہے کہ وہ آنکھ کو دکھائی نہیں دیتا، اتنا باریک ہے کہ اس کو حواس سے محسوس نہیں کیا جا سکتا- وہ انسانی تصورسے  ذہنی اور روحانی طور پر بہت بلند ہے- مگر وہ ہربات سے با خبر ہے- انسانی نظر کے لیئے اس کودنیا میں دیکھنا ممکن نہیں-الله کا ارشا د ہے:”وہی اللہ تمہارا پروردگار ہے جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں -وہ ہر شے کا خالق ہے اسی کی عبادت کرو .وہی ہر شے کا نگہبان ہے  نگاہیں اسے پا نہیں سکتیں اور وہ نگاہوں کا برابر ادراک رکھتا ہے کہ وہ لطیف بھی ہے اور خبیر بھی ہے” (6:102,103)-
بائبل بھی تصدیق کرتی ہے کہ خدا کو دیکھنا,  ناممکن ہے:(یوحنا:1:18،1 تِیمُتھِیُس;6:16,خروج ;33:20)-
حضرت موسیٰ  علیہ سلام نے الله سے دیدار کی درخواست کی:” پروردگار نے کہا کہ تم مجہے ہرگز نہ دیکھ سکو گے۔ ہاں پہاڑ کی طرف دیکھتے رہو اگر یہ اپنی جگہ قائم رہا تو تم  مجھے  دیکھ سکو گے۔ جب ان کا پروردگار پہاڑ پر نمودار ہوا تو (تجلی انوارِ ربانی) نے اس کو ریزہ ریزہ کردیا اور موسیٰ بےہوش ہو کر گر پڑے۔ جب ہوش میں آئے تو کہنے لگے کہ تیری ذات پاک ہے اور میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور جو ایمان لانے والے ہیں ان میں سب سے اول ہوں”(7:143)- البتہ آخرت کا معاملہ الگ ہے:” اُس روز کچھ چہرے تر و تازہ ہونگے  اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہونگے”(75:22,23)- یہ کسی بھی تجسم یا مفہوم کے ساتھ تشبیہ یا تقابل کے بغیر کیونکہ اس کا اور اس کی مخلوق کے درمیان ایک مقررہ حد فاصل حائل ہے، کسی بھی تصور کے معیار یا مقدارکے بغیر-
بائبل میں لکھا ہے :“لیکن اگر میں مشرق کو جاؤں ، تو خدا وہاں نہیں ہے اور اگر میں مغرب کو جاؤں ، تو بھی خدا مجھے  نہیں نظر آتا ہےخدا جب شمال میں مصروف رہتا ہے تو میں اسے دیکھ نہیں پا تا ہوں۔ جب خدا جنوب کو مڑ تا ہے ، تو بھی وہ مجھ کو نظر نہیں آتا ہے۔”(ایوب؛23:8-9)
الله  اور اس کے نام وصفات پرایمان ، فرد کے  دل میں خدا کی محبت اورعظمت پیدا کرتا ہے- اس کے نتیجہ میں اس میں الله کی ہدایات کی اطاعت اور اس کی  نواہی سے گریزکی عادت پیدا  ہو جاتی ہے- یہہی اس زندگی اور آخرت میں فرد اور معاشرہ کی کامیابی اور حقیقی خوشی کا ذریعہ ہے:
“جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشر طیکہ ہو وہ مومن، اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور (آخرت میں) ایسے لوگوں کو ان کے اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے”(قرآن 16:97)
خداکی تخلیق اورنشانیوں کے مشاہدہ سے وجود کا اقرار:
الله کا انسانی آنکھ یا حواس خمسہ سے مشاہدہ نہیں کیا جا سکتا (7:143) ،پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھرانسان کیسے اس کے وجود کو مان لے؟ الله کا فرمان ہے: ” (ان کفار سے) کہو دیکھو تو زمین اور آسمانوں میں کیا کچھ ہے۔ مگر جو لوگ ایمان نہیں رکھتے ان کی نشانیاں اور ڈرواے کچھ کام نہیں آتے “(قرآن10:101)؛ “زمین اور آسمانوں میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے یہ لوگ گزرتے رہتے ہیں اور ذرا توجہ نہیں کرتے (12:105قرآن):
ایک سادہ مثال کی مدد سے پہچان واضح ہو تی ہے:
اگر کوئی شخص ساحل سمندر پر کھڑا ہے اور ریت پر قدموں کے نشانات دیکھتا ہے توفوری طور پر اس کے ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ کوئی شخص یھاں سے گزرا ہے- کوئی با شعور یہ نہیں کہے گا کہ یہ نشانات سمندری لہروں اور ہوا کے آپس میں تعلق سے وجود پزیر ہوئے- یہ بات بلکل واضح ہے کہ ایک خاص شکل، سائیزکے قدموں کے نشانات،  مخصوص وقفہ پر عام طور پرانسانی قدموں سے بنتے ہیں-مزید تحقیق سے تجربہ کار لوگ (کھوجی) قدموں کے نشانات کے سائز، گہرائی وغیرہ سے بہت کچھ بتلا دیتے ہیں- مجرموں کی تلاش کے لئے عموماً کھوجی کی مدد حاصل کی جاتی تھی۔ وہ زمین پر قدموں کے نشان دیکھ کر بتا دیتے   تھے کہ مجرم چلتا کس طرح ہے۔اس کا وزن اور عمر اندازاً کتنی ہے، اس کی شخصیت کے کون سے منفرد پہلو ہیں؟ کھوجی کے اس قیاس کی مدد سے پولیس کو مجرم کا حلیہ تیار کرنے اور اسے پکڑنے میں نہایت مدد ملتی تھی۔ کھوجیوں کے اندازے اکثر اوقات حیرت انگیز حد تک درست ہوتے تھے۔ کھوجی اپنے ہنر میں اتنے ماہر تھے کہ وہ جانوروں کے کھروں کے نشان دیکھ کر ان کے بارے میں غیر معمولی حد تک درست اندازہ لگا لیتے تہے۔ مثلاً یہ کہ گھوڑے یا دوسرے کسی دوسرے جانور کی جسامت کیسی ہے، وزن کتنا ہے، اس کے چلنے کا قدرتی انداز کیا ہے اور اس پر سوار شخص اسے کس انداز میں چلانے کی کوشش کی تھی؟
کسی فردکو آنکھ سے د یکھے  بغیر، صرف ایک نشانی (قدموں کے نشان) دیکھ کراس کے متعلق  اتنی زیادہ تفصیلات معلوم ہو سکتی ہیں-
اسی طرح فرنزک ماہرین(forensic experts)، کسی جرم یا حادثہ کی جگہ سے خون، فنگر پرنٹ،بال وغیرہ کے   معائینہ اور لیبارٹری ٹیسٹ کے بعد کسی مشکوک شخص کے DNA سے تقابل کے بعد بتلا دیتے ہیں کہ وہ شخص وہاں موجود تھا یا نہیں، یہ سائنسی شہادت  جو ‘نشانیوں’ سے حاصل ہوتی ہے عدالت میں بھی قابل قبول ہے-
خدا کے وجود کی حقانیت پر مختلف فلسفیانہ دلائل کا ذکر کیا گیا، جن میں؛ دلائل وجوہات
(Priori Argument)، تجربے سے دلائل (Posteriori Argument)،’کائناتی  دلائل
(Cosmological Argument)،ڈیزائن سے دلیل (Teleological Argument)،   خدا کے تصور سے خدا کی حقیقت، (Ontological Arguments)، خلاقیات اور احتمال دلائل
(Morality and Probability Arguments) اور ‘مذہبی تجربہ’ وغیرہ شامل ہیں- یہ دلائل اسلامی روایات سے بھی ثابت ہیں- اب لوگوں کا کام ہے کہ وہ اپنے ارد گرد کائینات کا بغور مشاہدہ کریں اور الله کی نشانیوں پرتحقیق و تفکر کریں تو ان کی عقل ایک خدا کی موجودگی کا اعتراف کرے گی-
کہکشاؤں، ستاروں، سورج، چاند زمین کا وجود، ان کی حرکت ، گردش،، نظام کشش ثقل کے ذریعے ستاروں اور سیاروں میں توازن، رات اور دن کا بدلنا، ، ہواؤں کی تیزی او بارش، زندگی وموت اور بہت کچھ جو ہم دیکھ اور محسوس کر سکتے ہیں اور نہیں- ان سب کا وجود اور وقوع محض اتفاق یا حادثہ کا نتیجہ نہیں ہوسکتا- کوئی ایسی طاقتور عظیم ہستی ہے جس نے یہ سب کچھ کسی مقصد کے لیئے تخلیق کیا اور اس کائنات کو چلانے کے لیئے قوانین بنائے؛ وہ الله ہے،  زبردست، سب سے طاقتور-قرآن انسانوں کی توجہ ان نشانیوں کی طرف مبذول کرتا ہے:
“حقیقت یہ ہے کہ آسمانوں اور زمین میں بے شمار نشانیاں ہیں ایمان لانے والوں کے لیے اور تمہاری اپنی پیدائش میں، اور اُن حیوانات میں جن کو اللہ (زمین میں) پھیلا رہا ہے، بڑی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو یقین لانے والے ہیں اور شب و روز کے فرق و اختلاف میں، اور اُس رزق میں جسے اللہ آسمان سے نازل فرماتا ہے پھر اس کے ذریعہ سے مردہ زمین کو جِلا اٹھاتا ہے، اور ہواؤں کی گردش میں بہت نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں”(قرآن 45:3,4,5)
“اس نے زمین اور آسمانوں کی ساری ہی چیزوں کو تمہارے لیے مسخر کر دیا، سب کچھ اپنے پاس سے اِس میں بڑی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرنے والے ہیں” (45:13 قرآن)
“دانے اور گٹھلی کو پھاڑنے والا اللہ ہے وہی زندہ کو مُردہ سے نکالتا ہے اور وہی مُردہ کو زندہ سے خارج کرتا ہے یہ سارے کام کرنے والا اللہ ہے، پھر تم کدھر بہکے چلے جا رہے ہو؟  پردہ شب کو چاک کر کے وہی صبح نکالتا ہے اُسی نے رات کو سکون کا وقت بنایا ہے اُسی نے چاند اور سورج کے طلوع و غروب کا حساب مقرر کیا ہے یہ سب اُسی زبردست قدرت اور علم رکھنے والے کے ٹھیرائے ہوئے اندازے ہیں  اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے تاروں کو صحرا اور سمندر کی تاریکیوں میں راستہ معلوم کرنے کا ذریعہ بنایا  دیکھو ہم نے نشانیاں کھول کر بیان کر دی ہیں اُن لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں اور وہی ہے جس نے ایک متنفس سے تم کو پید ا کیا پھر ہر ایک کے لیے ایک جائے قرار ہے اور ایک اس کے سونپے جانے کی جگہ یہ نشانیاں ہم نے واضح کر دی ہیں اُن لوگوں کے لیے جو سمجھ بوجھ رکھتے ہیں  اور وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کے ذریعہ سے ہر قسم کی نباتات اگائی، پھر اس سے ہرے ہرے کھیت اور درخت پیدا کیے، پھر ان سے تہ بہ تہ چڑہے ہوئے دانے نکالے اور کھجور کے شگوفوں سے پھلوں کے گچھے کے  گچھے  پیدا کیے جو بوجھ کے مارے جھکے پڑتے ہیں، اور انگور، زیتون اور انار کے باغ لگائے جن کے پھل ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی ہیں اور پھر اُن کے پکنے کی کیفیت ذرا غور کی نظر سے دیکھو، اِن چیزوں میں نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں”(قرآن6:95-99)
جیسے جیسے دن بدن سائینس ترقی کر رہی ہے، کائنات کے اسرار اور انسانی ذات کے راز کھل رہے ہیں: “ہم انہیں نشانیاں دکھائیں گے آفاق و کائنات میں بھی اور خود ان کی ذات میں بھی تاکہ ان پر واضح ہو جائے کہ وہ (اللہ) بالکل حق ہے۔ کیا تمہارے پروردگار کے لئے یہ امر کافی نہیں ہے کہ وہ ہر چیز پر شاہد ہے”۔ (قرآن 41:53)