وفات، میت ، نماز جنازہ ، تعزیت، ایصال ثواب ، مسائل

کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ
(قرآن ٣:٨٥)

 

مسلمان کی موت، غم  پر  اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ” کہنا معمول ہے- مسلمان کی تجہیز وتکفین اور تدفین میں شرکت کرنا فرضِ کفایہ ہے۔ فقہاء کرام ؒ صاحب میت کی تعزیت کے مستحب ہونے پر اپنے اس قول کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں” وتسن تعزیۃ المصاب بالمیت”۔ لہٰذا تعزیت حسب حال مستحب، سنت مؤکدہ اور اگر رشتے دار ہوں تو واجب کے درجے میں ہے۔
 
تعزیت کے فضائل:
تعزیت کے فضائل میں متعدد احادیث وآثار منقول ہیں اور مسلمانوں کا اس پر عمل بھی ہے، تعزیت کے باب میں جو احادیث نقل کی گئی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ تعزیت سنت مؤکدہ کے درجہ رکھتی ہے۔
ترمذی اور ابن ماجہ نے حضرت ابن مسعود ؓ سے نقل کیا ہے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
” من عزى مصابا فله مثل أجره”
(ترجمہ )جس نے کسی مصیبت زدہ کی تعزیت کی تو اس کے لئے مصیبت زدہ کے برابر ثواب ملتا ہے۔
ابن ماجہ اور دیگر نے حضرت عمرو بن حزم سے نقل کیا ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
“ما من مؤمن يعزي أخاه بمصيبه إلا كساه الله من حلل الكرامة يوم القيامة”
(ترجمہ )جو مومن اپنے بھائی کی مصیبت کے وقت اس کی تعزیت کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن عزت وشرف کا لباس پہنائیں گے۔
طبرانی اور دیگر محدثین نے نبی ﷺ کا یہ قول نقل کیا ہے: “جس نے کسی مصیبت زدہ کی تعزیت کی اللہ تعالیٰ اسے جنت کے کپڑوں میں سے ایسے دو جوڑے پہنائیں گے ، دنیامیں جو عدیم المثال ہے۔
تعزیت کے بارے میں مذکورہ فضائل اور اس کے ثواب کے علاوہ تعزیت کی سب بڑی فضیلت ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ یہ عمل نبی ﷺ کی قولا، فعلا، اور حالا واقرارا سنت ہے۔
 
تعزیت کا طریقہ:
تعزیت کے لئے شریعت نے کوئی مخصوص طریقہ مقرر نہیں کیا ہے، ہاں تعزیت کی چند شکلیں ہیں جو ہم ذیل میں بیان کررہے ہیں:
 
۱)۔تعزیت کے لئے جائے تو میت کی مغفرت اور اس کے وارثین کو صبر پر اجر کی دعا کرے ، اور اس موقع پر سب سے بہتر دعا یہی ہوسکتی ہے، جسے نبی ﷺنے پڑھی ہے: ” إن لله ما أخذ وله ما أعطى وكل شيء عنده بأجل مسمى ” (ترجمہ) لی ہوئی چیز بھی اسی کی ہے اور دی ہوئی چیز بھی اسی کی تھی اور ہر چیز اس ذات کے پاس وقت مقررہ کے مطابق لکھی ہوئی ہے۔
اس موقع پر میت کے رشتے داروں اور اقرباء کو صبر وثواب کی امید کی ترغیب دی جائے۔ نبی کریم ﷺ نے اپنی صاحبزادی کوجب ان کے محبوب کی وفات ہوئی تو حکم دیتے ہوئے فرمایا:
” مرها فلتصبر ولتحتسب فإن لله ما أخذ وله ما أعطى وكل شيء عنده بأجل مسمى ” [متفق عليه]
تعزیت کے موقع پر میت کے رشتے داروں کو یہ کلمات بھی کہے جاسکتے ہیں:
” أحسَنَ اللهُ عَزَاءَكُم وَجَبرَ مُصَابَكُم وَغَفَرَ لمَِيتكُم” ۔
یا ان کلمات کی طرز پر کوئی مناسب دعائیہ کلمات جس میں میت کے لئے تسلی، صبر اور اجر وثواب ہو کہے جاسکتے ہیں۔
 
۲)۔ تعزیت کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ میت کے گھر والوں کے لئے کھانے کا انتظام کرکے یا اس سلسلے میں ان کی ضرورتوں کو پوری کرکے انہیں تسلی دی جائے، نبی کریم ﷺ کو جب اپنے چچا حضرت جعفر بن ابی طالب کی جنگ موتہ میں شہادت کی اطلاع ہوئی تو آپ نے اپنے گھر میں حکم دیا: ” اصنعوا لآل جعفر طعاما، فقد اتاھم ما يشغلهم (جعفر کے اہل خانہ کے لیے کھانا تیار کرو، غم کے سبب ان کے اہل خانہ یہ نہیں کرسکتے)
 
اہل میت اور تعزیت کرنے والوں کے لئے ان آداب کو ملحوظ رکھنا چاہیے:
 
۱)۔اہل میت کی نفسیاتی، اجتماعی اورمعاشی حالت کا خیال رکھنا ضروری ہے، باربار ان کے پاس آنے سے انھیں زحمت نہ ہو،ان کے پاس قیام کرنے سے ضیافت کا بوج نہ پڑے، اسی طرح گھر کی تنگی کے سبب تکلیف نہ ہو۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ تعزیت کے وقت اہل میت کی نفسیات کا خیال رکھا جائے اور اس موقع پر مناسب بات چیت کا بھی خیال رکھا جائے، ایسا نہ ہو کہ گفتگو سے ان کے غم میں مزید اضافہ ہو۔
خاص طور پر خواتین کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ تعزیت کے موقع پر آوازوں کو بلند کرنے، چہروں کو نوچنے، کپڑوں کے پھاڑنے اور بالوں کو نوچنے یا میت کی خوبیوں کو بلند آواز کے ساتھ گنانے یا اس کے مناقب کو یاد کرکرکے رونے سے کلی طور پر پرہیز کریں کیونکہ یہ سب باتیں حرام نوحہ میں شامل ہیں۔نبی کریم ﷺ نے ان باتوں کو جاہلیت کے اعمال بتایا ہے۔

۲)۔ اہل میت اس موقع پر صبر، اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء، اس مصیبت میں ثواب کی امید،کثرت سے میت کے لئے دعا و استغفار،اگر میت پر کسی کے حقوق ہیں تو اس کی تلافی،اور اگر اس پر قرض ہیں تو غسل ونماز جنازے سے قبل ان کی ادائیگی کی کوشش کریں۔

۳)۔اسی طرح میت کے متعلقین کے لئے ضروری ہے کہ وہ کھیل کود، ہنسی مذاق،حرام مشروبات کے پینے اور حرام چیزوں کے کھانے سے قطعی طور پر پرہیز کریں۔
احادیث مبارکہ میں خاوند کے علاوہ میت کا تین دن سوگ کرنے کا ذکر ہے:

قَالَتْ زَيْنَبُ دَخَلْتُ عَلَی اُمِّ حَبِيبَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ حِينَ تُوُفِّيَ اَبُوهَا اَبُو سُفْيَانَ بْنُ حَرْبٍ فَدَعَتْ اُمُّ حَبِيبَةَ بِطِيبٍ فِيهِ صُفْرَةٌ خَلُوقٌ اَوْ غَيْرُهُ فَدَهَنَتْ مِنْهُ جَارِيَةً ثُمَّ مَسَّتْ بِعَارِضَيْهَا ثُمَّ قَالَتْ وَالله مَا لِي بِالطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ غَيْرَ اَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ الله يَقُولُ لَا يَحِلُّ لِامْرَاَةٍ تُوْمِنُ بِالله وَالْيَوْمِ الْآخِرِ اَنْ تُحِدَّ عَلَی مَيِّتٍ فَوْقَ ثَـلَاثِ لَيَالٍ إِلَّا عَلَی زَوْجٍ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَعَشْرًا

حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ میں حضورنبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ حضرت اُم حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئی جبکہ اُن کے والد ماجد حضرت ابو سفیان بن حرب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتقال ہوگیا تھا۔ حضرت اُم حبیبہ رضی اللہ عنہا نے خوشبو منگائی جس میں خلوق یاکسی اور چیز کی زردی تھی۔ انہوں نے وہ خوشبو ایک لڑکی کو لگائی اور تھوڑی سی اپنے رخسار پر بھی مل لی، اور فرمایا کہ خدا کی قسم! مجھے خوشبو کی حاجت نہیں، لیکن میں نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ کسی عورت کے لئے یہ جائز نہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتی ہو کہ تین دن سے زیادہ کسی میت کا سوگ کرے سوائے اپنے خاوند کے اُس کا سوگ چار ماہ دس دن ہے۔
بخاري، الصحیح، 5: 2042، رقم: 5024، دار ابن کثیر الیمامة بیروت
مسلم، الصحیح، 2: 1123، رقم: 1486، دار احیاء التراث العربي بیروت

قَالَتْ زَيْنَبُ فَدَخَلْتُ عَلَی زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ حِينَ تُوُفِّيَ اَخُوهَا فَدَعَتْ بِطِيبٍ فَمَسَّتْ مِنْهُ ثُمَّ قَالَتْ اَمَا وَالله مَا لِي بِالطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ غَيْرَ اَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ الله يَقُولُ عَلَی الْمِنْبَرِ لَا يَحِلُّ لِامْرَاَةٍ تُوْمِنُ بِالله وَالْيَوْمِ الْآخِرِ اَنْ تُحِدَّ عَلَی مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ إِلَّا عَلَی زَوْجٍ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَعَشْرًا

حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ اُم المؤمنین زینب بنتِ حجش رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئی جبکہ ان کے بھائی کاانتقال ہوگیا تھا۔ انہوں نے خوشبو منگائی اور اس میں تھوڑی سی لگاکر فرمایا: خدا کی قسم! مجھے خوشبو کی حاجت نہیں ہے، لیکن میں نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عورت کے لیے یہ حلال نہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتی ہو کہ کسی میت کا تین دن سے زیادہ سوگ کرے، سوائے اپنے خاوند کے کہ وہ چار ماہ دس دن ہے۔
بخاري، الصحیح، 1: 430، رقم: 1222
مسلم، الصحیح، 2: 1124، رقم: 1484

مذکورہ بالا احادیث مبارکہ سے تین دن سوگ کرنے کا ثبوت تو واضح ہے لیکن تیسرا ، دسواں ، چالیسواں دن شرعاً ضروری نہیں۔ یہ عارضی طور پر اور انتظامی سہولت کے پیش نظر مقرر کیے جاتے ہیں۔ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر بہت سے حقوق ہوتے ہیں جن میں بیمار کی عیادت کرنا، مرجائے تو اس کے جنازہ میں شریک ہونا وغیرہ شامل ہیں۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے:

عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ الله لِلْمُوْمِنِ عَلَی الْمُوْمِنِ سِتُّ خِصَالٍ يَعُودُهُ إِذَا مَرِضَ وَيَشْهَدُهُ إِذَا مَاتَ وَيُجِيبُهُ إِذَا دَعَاهُ وَيُسَلِّمُ عَلَيْهِ إِذَا لَقِيَهُ وَيُشَمِّتُهُ إِذَا عَطَسَ وَيَنْصَحُ لَهُ إِذَا غَابَ اَوْ شَهِدَ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

 ایک مومن کے دوسرے مومن پر چھ حق ہیں:
1.بیمار ہو تو عیادت کرے
2.مر جائے تو نماز جنازہ میں شامل ہو
3.دعوت دے تو قبول کرے
4.ملاقات کرے تو سلام کرے
5.اسے چھینک آئے توجواب دے۔یعنی یرحمک اللہ ( اللہ تجھ پر رحم فرمائے ) کہے
6.اس کی موجودگی و عدم موجودگی میں اس کی خیر خواہی کرے۔
ترمذي، السنن، 5: 80، رقم: 2737
نسائي، السنن الکبری، 1: 630، رقم: 2065، دار الکتب العلمیة بیروت

ایک اور روایت میں ہے:
عَنْ عَلِيٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ الله لِلْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ سِتٌّ بِالْمَعْرُوفِ يُسَلِّمُ عَلَيْهِ إِذَا لَقِيَهُ وَيُجِيبُهُ إِذَا دَعَاهُ وَيُشَمِّتُهُ إِذَا عَطَسَ وَيَعُودُهُ إِذَا مَرِضَ وَيَتْبَعُ جَنَازَتَهُ إِذَا مَاتَ وَيُحِبُّ لَهُ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے رسول کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر نیکی میں چھ حقوق ہیں: جب ملاقات کرے تو سلام کہے، اس کی دعوت قبول کرے، چھینک کا جواب دے، بیمار ہو تو عیادت کرے، مر جائے تو اس کے جنازہ کے پیچھے چلے اور اس کے لیے وہی چیز پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔
احمد بن حنبل، 1: 88، رقم: 673
ترمذي، السنن، 5: 80، رقم: 2736
ابن ماجه، 1: 641، رقم: 1433، دار الفکر بیروت

عموماً مرنے والے کے عزیز، رشتہ دار اور دوست احباب ہوتے ہیں، ان میں کچھ تو جنازے میں شریک ہوجاتے ہیں، جبکہ کچھ بوجوہ شریک نہیں ہوسکتے۔ اب دو صورتیں بنتی ہیں: ایک تو وہ چپ کرکے بیٹھے رہیں اور آنے کی زحمت ہی نہ کریں، دوسرا یہ کہ وہ میت کے عزیز و اقارب کے پاس اظہار تعزیت کے لیے آئیں۔
بزرگوں نے چند دن اپنی اور آنے والوں کی سہولت کے لیے مخصوص کردئیے ( جن کی شرعی حیثیت تو نہیں مگر سوشل، کلچرل رواج ہے) تاکہ دونوں کو سہولت رہے، یہی دن بعد میں تیسرا یا چالیسواں کے نام سے مشہور ہوگئے جو جنازے سے رہ گیا وہ قل خوانی پر آجائے جو اس سے رہ گیا وہ دسواں یا چالیسویں میں شریک ہوجائے۔

مقرر کردہ دنوں میں اعزاء و اقارب کے جمع ہونے کے بعدگپ شپ کے بجائے تلاوت قرآن پاک، کلمہ طیبہ اور درود و سلام وغیرہ کا ورد کرنا یا حسب توفیق صدقہ و خیرات کرنا تاکہ جمع ہونے والوں اور اہل خانہ کی طرف سے مرحوم کو ثواب ارسال کردیا جائے اور دعائے مغفرت کی جائے، تو یہ باعث ثواب ہے اور میت کے لیے کار آمد ہے۔

 خواتین کی نمازجنازہ میں شرکت

خواتین نمازجنازہ میں شرکت کرسکتی ہیں، ان کی صفیں آدمیوں کی صفوں کے پیچھے ہوں گی۔ پردہ کا انتظام ہو- لیکن مردوں کی طرح جنازے کے پیچھے چل کر جانا ان کے لئے جائزنہیں ہے۔روایات میں ہےکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مسجدمیں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے جنازہ میں شرکت کی تھی۔ (صحیح مسلم،الجنائز:973)
حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہمیں،یعنی عورتوں کو جنازے کے ساتھ چلنے سے منع کیا گیا ہے،لیکن اس سلسلہ میں ہم پر سختی نہیں کی جاتی تھی یا تاکیداًمنع نہیں کیا جاتا تھا۔ (صحیح بخاری،الجنائز :1278)

اگر کوئی مجبوری ہو تو عورت صرف خواتین کی نماز کی امامت کر سکتی ہے مخلوط جماعت کی نہیں-

عورتوں کا مردوں کی جماعت میں حاضر ہوکر ادا کرنا مطلقا مکروہ ہے: ویکرہ حضورھن الجماعة (الدر المختار)

مرنے کے بعد مردوں کو فائدہ پہنچانے والے اعمال:

انسان کی زندگی چند روزہ ہے ،اس زندگی کے اختتام کے بعد وہ برزخی زندگی میں قدم رنجہ ہوتا ہے ، جہاں پر انسان کے کئے ہوئے اعمال نعمت یا عذاب کی شکل میں اس کے سامنے آتے ہیں، اس زندگی میں قدم رکھنے کے بعد انسان نیک اعمال کرنے کی حسرت کے باوجود کچھ بھی نہیں کر سکے گا ۔ لیکن اﷲ تعالیٰ کا مومنوں پر یہ بھی بے پایاں کرم واحسان ہے کہ اس نے انہیں ثواب پہنچانے کی اجازت دے رکھی ہے جس سے انہیں قبر میں نعمتیں ملتی ہیں، درجات بلند ہوتے ہیں اور عذاب سے راحت ملتی ہے ۔ میت کو ثواب پہچانے کا موضوع زندوں اور فوت شدگان سب کے لیے اہم ہے، زندوں کے لیے  خصوصاً اس لیے کہ وہ اپنی عمر کے لمحات کو غنی مت جانیں اور دنیائے فانی سے اپنا حصہ حاصل کرتے ہوئے آخرت کے لیے عمل کریں ۔اور فوت شدگان کے لیے بھی اس معنی میں اہم ہے کہ ہر زندہ شخص کے کوئی نہ کوئی ایسے رشتہ دار مثلاً ماں باپ ، بہن بھائی وغیرہ ضرور موجودہیں جو اس سے پہلے انتقال کرچکے ہیں، تو انہی کی طرح اس کو بھی ایک نہ ایک دن اس دار فانی سے کوچ کرنا ہے ، اس لیے زندوں کوچاہیے کہ وہ ایسے کام کریں جو مرنے کے بعد بھی ان کے لیے نفع بخش ہوں ۔مثلاً صدقہ جاریہ اور علم نافع وغیرہ،تاکہ وہ ان اعمال صالحہ کے ساتھ قبر میں داخل ہو۔ اور زندوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے قریبی مرحوم بھائیوں کے لیے نیکی کریں ، اس لیے کہ جیسا عمل ہو گا ویسا ہی صلہ ملے گا ، اگر آپ نے اپنے مرحومین کے لیے کارِ خیر کیا تو آنے والی نسل آپ کے لیے نیک کام کرے گی ۔
 میت کے ایصالِ ثواب کی خاطر اتنے مسنون کام ہیں جو ہمیںہرقسم کے خرافات سے بے نیاز کرنے والے ہیں جن کے متعلق لوگوں کا گمان ہے کہ وہ میت کو فائدہ پہنچانے والے ہیں، جبکہ درحقیقت وہ میت کو فائدہ نہیں بلکہ اذیت پہنچانے والے ہیں ۔

 دوسروں کے عمل سے نفع پہنچانے والے کام

1. نمازِ جنازہ : 
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ” جس مسلمان میت کی نمازِ جنازہ چالیس ایسے مسلمان ادا کریں جو اﷲ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے ،تو اﷲ تعالیٰ اس میت کے حق میں ان کی سفارش کو ضرور قبول فرماتاہے “ ۔ [مسلم ] دوسری روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ” جس میت کی نمازِ جنازہ امت مسلمہ کے سو افرادادا کرکے اس کی شفاعت کرتے ہیں تو ان کی سفارش اس میت کے حق میں قبول کی جاتی ہے “۔ [مسلم]
امام ابن قیم رحمہ اﷲ فرماتے ہیں : ” نمازِ جنازہ کا مقصد میت کے لیے دعا ہے “ ۔ [ زاد المعاد :1/505]

2. قبر کے پاس کھڑے ہوکر دعا اور طلبِ مغفرت کرنا :
 حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جب میت کو قبر میں رکھتے تو فرماتے :(بِسمِ اﷲِ وَعَلٰی سُنَّةِ رَسُولِ اﷲِ) :” اﷲ تعالیٰ کے نام سے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر “۔ [رواہ ابوداؤد وصححہ البانی ]
نیز حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ :” جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم میت کی تدفین سے فارغ ہوتے تو قبر پر کھڑے ہوکر فرماتے : ” اپنے بھائی کے لیے مغفرت طلب کرو، اور اس کے لیے ( اﷲ تعالیٰ سے ) ثابت قدمی مانگو ، اس لیے کہ ابھی اس سے سوال کیا جائے گا “ ۔ [ ابوداؤد ، اورعلامہ البانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ]

3. قبرستان کی زیارت اور میت کے لیے دعائے مغفرت:
 رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جب قبرستان تشریف لے جاتے تو یہ دعا پڑھتے :اَلسَّلاَمُ عَلٰی اَھلِ الدِّیَارِ مِنَ المؤُ مِنِینَ وَالمُسلِمِینَ وَیَرحَمُ اللّٰہُ المُستَقدِمِینَ مِنَّا وَالمُستَاخِرِی وَاِنَّا اِن شَائَ اللّٰہُ بِکُم لاَحِقُونَ ۔
ترجمہ :”سلامتی ہو اِن گھروں میں رہنے والے مومنوں اور مسلمانوںپر، اوراللہ تعالی رحم کرے ہم سے پہلے فوت ہونے والوں پر اور پیچھے رہنے والوں پر۔ اور ہم بھی اگراﷲ نے چاہا تو تمہارے ساتھ ملنے والے ہیں۔“[رواہ مسلم]
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ” تمام علماءکا اس بات پر اتفاق ہے کہ دُعا مُردوں کے لیے فائدہ مند ہے اور اس کا ثواب انہیں پہنچتا ہے “
شیخ جما ل الدین القاسمی  فرماتے ہیں : ” دوستی اور بھائی چارگی کا حق یہ ہے کہ میت کی زندگی اور وفات کے بعد بھی اس کے لیے ہر اس چیزکی دعا کرے جسے انسان اپنے آپ ، اہل وعیال اور اپنے متعلقین کے لیے پسند کرتا ہے ، اور اسی طرح دعا کرے جس طرح وہ اپنے لیے کرتا ہے “۔

4. میت کے حق میں مسلمانوں کی دعا :
 آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ”ایک مسلمان کی دعا،اپنے مسلمان بھائی کے لیے، اس کی عدم موجودگی میںمقبول ہوتی ہے ، اس کے پاس ایک فرشتہ متعین کردیا جاتا ہے ، جب بھی وہ اپنے بھائی کے لیے کسی بھلائی کی دعا کرتا ہے تو متعین فرشتہ آمین کہتا ہے اور کہتا ہے کہ تجھے بھی اسی طرح ملے “۔[رواہ مسلم]
بلکہ نمازجنازہ خود اس کی سب سے بڑی مثال ہے ، اس لیے کہ اس کا اکثر حصہ میت کے حق میں دعا اور استغفار پر مشتمل ہے ۔

5. میت کے قرض کی ادائےگی : 
رسول صلى الله عليه وسلم کا فرمان ہے : ” مومن کی روح اسکے قرض کی وجہ سے لٹکی رہتی ہے ، حتی کہ اس کی جانب سے وہ قرض ادا کردیا جائے “ [ بخاری ]
اور حضرت ابو قتادة رضی اللہ عنہ کی روایت جو ایک میت کی جانب سے قرض کی ادائیگی کے بارے میں ہے ، جب انہوں نے اس کی جانب سے اس کا قرض ادا کردیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اب اس پر اس کی چمڑی ٹھنڈی ہوگئی “۔ ( یعنی اب اس کے جسم کو سکون ملا ہے ) [ رواہ الحاکم وصححہ البانی ]
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں : ”اس حدیث سے  معلوم ہوا کہ قرض کسی بھی شخص کی جانب سے ادا کیا جاسکتا ہے ، قرض کی ادائیگی اولاد ہی کے لیے مخصوص کرنا ضروری نہیں“۔[ مجموع الفتاویٰ : 24/311]

6. نذر اور روزہ وغیرہ کی قضا :
 آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ” جو شخص اس حال میں انتقال کرجائے کہ اس کے ذمہ روزے ہوں، تو اس کی جانب سے اس کا ولی روزہ رکھے گا “ ۔ [ متفق علیہ]

 7. میت کی جانب سے صدقہ ادا کرنا :
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے : ” ایک شخص نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : ”میری ماں کا اچانک انتقال ہوگیا ، اور وہ وصیت نہیں کرسکی ، اور مجھی یقین ہے کہ اگر اسے بات کرنے کا موقعہ ملتا تو وہ ضرور صدقہ کرتی، اگر میں اس کی جانب سے صدقہ کروں تو کیا اسے اور مجھے ثواب ملے گا ؟“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہاں ! “ پھرانہوں نے اپنی ماں کی جانب سے صدقہ کیا “۔ [ متفق علیہ]

8 میت کی جانب سے غلام یا لونڈی آزاد کرنا :
” عتق“سے مراد غلام یا لونڈی کو غلامی سے آزادی دلاناہے ۔حدیث میں ہے کہ : ” جو شخص کسی مومن کی گردن کو آزاد کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کے ہر عضو کے بدلے اس کے ہر عضو کو جہنم سے آزاد کردےتا ہے ، حتی کہ اس کے ہاتھ کے بدلے ہاتھ ، پاوں کے بدلے پاوں اور شرمگاہ کے بدلے شرمگاہ “۔[ متفق علیہ ]

9.میت کی جانب سے حج کرنا :
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک عورت نے پوچھا تھا : ” میری ماں نے حج کرنے کی نذر مانی تھی ، لیکن وہ وفات تک حج نہیں کرسکی، کیا میں اس کی طرف سے حج کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم اس کی طرف سے حج کرو ، پھر فرمایا : ذرا بتلا ! اگر تمہاری ماں پر قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتیں ؟ اﷲ کا حق ادا کرو ، کیونکہ اﷲ زیادہ حقدار ہے کہ اس کا حق ادا کیا جائے “۔ [ متفق علیہ]
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : ” ایک عورت نے کہا : ”یا رسول اﷲ ! میری ماں کا انتقال ہوگیا اور وہ حج نہیں کرسکی، اگر میں اس کی جانب سے حج کروں تو اس کی جانب سے حج ادا ہوجائے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”ہاں “۔ [مسلم]

 اپنے اعمال سے حاصل ہونے والے فوائد

1. میت کے نیک اثرات اور صدقہ جاریہ:
فرمانِ الٰہی ہے : ﴾ وَ نَکتُبُ مَاقَدَّمُوا وَآثَارَہُم ﴿ [یسین: 12]ترجمہ : ” اور جو کام انہوں نے کیے ہےں اور جو کچھ آثار انہوں نے پےچھے چھوڑے ہےں ، وہ سب ہم لکھتے جارہے ہیں “۔
امام ابن کثیررحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : ” جو کام انہوں نے خود کئے ہیں اور جن کاموں کے اثرات انہوں نے اپنے پیچھے چھوڑے ہیں ، وہ سب ہم لکھتے جارہے ہیںاور اسی پر ہم انہیں بدلہ دیں گے ، اگر اچھے ہوں تو اچھا ، اگر برے ہوں تو برا بدلہ دیا جائے گا “۔
2. نیک اولاد کے اعمال ِ صالحہ :
نیک اولاد جو نیک اعمال کرتی ہیں ان کے ثواب میں کمی کئے بغیر ا ن کے والدین کو بھی ان ہی کے برابر ثواب دیا جائے گا، اس لیے کہ اولاد بھی والدین کی کوشش اور کمائی کا ایک حصہ ہیں ، جےسا کہ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴾ وَ اَن لَیسَ لِلاِنسَانِ اِلاَّ مَا سَعٰی ﴿[النجم : 39] :” اور يہ کہ انسان کو صرف اسی کے عمل کا بدلہ ملے گا“۔
اور رسول اﷲ صلى الله عليه وسلم کا فرمان ہے : ” سب سے پاکےزہ مال وہ ہے جو انسان اپنی کمائی سے کھاتا ہے اور اس کی اولاد بھی اسی کی کمائی کا اےک حصہ ہے “۔[ ابوداؤد : اور علامہ البانی  نے اس روایت کوصحیح قرار دیاہے]

3. صدقہ جاریہ ، علمِ نافع ، اور دعا کر نے والی نیک اولاد :
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
 ” جب انسان مرجاتا ہے تو اس سے اس کے عمل کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے ، سوائے تےن چےزوں کے :صدقہ جاریہ یا وہ علم جس کے ذریعے [ مخلوق کو ) فائدہ حاصل ہو یا اس کے لیے دعا کر نے والا نیک لڑکا “۔ [ مسلم ]

4. قرآن مجید وقف کرنا، مسجدیں اورسرائے تعمیر کرنااور نہریں جاری کرنا:
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ” مومن کو اس کی موت کے بعد اس کے جس عمل اور جن نیکیوں کا ثواب ملتا رہے گا( وہ یہ ہیں ) : علم ، جو اس نے سکھایا اور اسے پھیلایا ، یا نیک اولاد جسے اس نے اپنے پیچھے چھوڑا ، یا قرآن مجید جو ورثہ میں چھوڑا، یا مسجد کی تعمیر کی، یا مسافرخانہ بنایا، یا نہر جاری کی، یا اس نے اپنی زندگی میں صحت کی حالت میں کوئی صدقہ کیا ، اس کا اجر اس کی موت کے بعد بھی ملتا رہے گا “ ۔[ ابن ماجہ ، وحسّنہ الالبانی]

5. میت نے کسی نیک کام کی بناءڈالی ، یا دعوت ہدایت دی:
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ” جس نے اسلام میں کسی اچھے کام کی (بشرطےکہ وہ کتاب وسنت سے ثابت ہو ) بنیاد ڈالی ، اسے اس( نیک کام )کا بھی ثواب ملے گا، اور اس کے بعد اس کارِ خیر پر عمل کرنے والوں کے عمل کابھی، اوران کے ثواب میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی “۔[ مسلم]

6.پودا لگانا یا کھیتی کرنا :
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے  مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ” جو مسلمان کوئی پودا لگاتا، یا کھیتی کرتا ہے ، اس سے پرندے ، یا انسان ، یا جانور جو کچھ کھائیں گے ، اسکی وجہ سے ا سکو صدقہ کا ثواب ملے گا “ [متفق علیہ ]
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ” جو مسلمان کوئی درخت لگاتا ہے، تو اس درخت سے جو کچھ کھایا جائے گا اس کے حق میں صدقہ ہوگا ، اور جو اس سے چُرا یا جائے گا وہ بھی صدقہ، اوراس سے درندے جو کچھ کھائیں گے وہ بھی صدقہ ،اور جوکچھ پرندے کھائیں گے وہ بھی صدقہ، اور اس سے جو بھی کچھ لے گا تو وہ اسکے حق میں صدقہ ہوگا “ [ مسلم ]
وہ امور جو میت کے لیے بے فائدہ ہیں
تمام ایسے کام جن کی قرآن و سنت سے سند ثابت نہیں یا جن سے منع کیا گیا ہے-   گال پیٹنا اور گریبان چاک کرنا :رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ” وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے، جس نے (اظہارِ رنج کے لیے) گریبان کو چاک کیا ، اور گالوں کو پیٹا اور جاہلیت کی باتیں کیں“ ۔[ متفق علیہ]
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ” میت کو اس پر نوحہ خوانی کی وجہ سے قبر میں عذاب دیا جاتا ہے “ ۔[ مسلم ]
اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ میت کواپنے گھر والوں کے رونے کی آواز سن کر اذیت پہنچتی اور وہ رنج وغم میں مبتلا ہوتا ہے۔

امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ”اس معاملے میں آپ صلی اللہ کی عادتِ مبارکہ خاموشی اور اﷲ کی تقدیر پر رضا مندی، اور اﷲ کا شکر بجا لانا اور ”ا نّا ﷲ وانّا الیہ راجعون“ پڑھنا تھی اور آپ صلی للہ علیہ وسلم  ہر اس شخص سے اپنی لا تعلقی کا اظہار فرماتے جس نے مصیبت کی وجہ سے اپنے کپڑے پھاڑ ے ، یا نوحہ خوانی کرتے ہوئے اپنی آواز کو بلند کیا ، یا اپنے سر کو منڈوالیا “ ۔ [ زاد المعاد : 1/527]

نمازِ جنازہ پڑھنے کا طریقہ 

نماز جنازہ فرض کفایہ ہے، اگر بعض لوگوں نے پڑھ لی تو سب سے فرض ساقط ہو جائے گا لیکن اگر کسی نے بھی نہ پڑھی تو سب گنہگار ہوں گے۔ اس کے ادا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ امام میت کے سینے کے مقابل کھڑا ہو۔ اگر میت بالغ ہو تو اس کی دعائے مغفرت کا ارادہ کرے اور اگر میت نابالغ ہو تو اسے اپنا فرط، اَجر و ذخیر اور شفاعت کرنے والا اور مقبولِ شفاعت بنانے کا ارادہ کرے۔ 
اس کے بعد نماز جنازہ کا فریضہ ادا کرنے کی نیت اِس طرح کرے :
چار تکبیریں نماز جنازہ فرضِ کفایہ، ثنا واسطے اﷲ تعالیٰ کے، درود شریف واسطے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے، دعا واسطے حاضر اس میت کے، منہ طرف کعبہ شریف کے (اور مقتدی یہ بھی کہے : ) پیچھے اِس امام کے۔ 
پھر رفع یدین کے ساتھ تکبیر تحریمہ کرکے زیرِ ناف ہاتھ باندھ لے اور یہ ثنا پڑھے:

سُبْحَانَکَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِکَ، وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ، وَجَلَّ ثَنَاءُ کَ وَلَا اِلٰهَ غَيْرُکَ.

دوسری تکبیر ہاتھ اٹھائے بغیر کہے اور یہ درود پاک پڑھے :

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا صَلَّيْتَ وَسَلَّمْتَ وَبَارَکْتَ وَرَحِمْتَ وَتَرَحَّمْتَ عَلَی إِبْرَاهِيْمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاهِيْمَ، إِنَّکَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ.

پھر ہاتھ اٹھائے بغیر تیسری تکبیر کہے اور میت اور تمام مسلمانوں کے لیے دعائے مغفرت کرے۔ بالغ مرد و عورت دونوں کی نمازِ جنازہ کے لیے یہ دعا پڑھے :

اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا وَمَيِّتِنَا وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا وَصَغِيْرِنَا وَکَبِيْرِنَا وَذَکَرِنَا وَاُنْثَانَا. اَللّٰهُمَّ مَنْ اَحْيَيْتَه مِنَّا فَاَحْيِه عَلَی الْاِسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّيْتَه مِنَّا فَتَوَفَّه عَلَی الإِيْمَانِ.
فتاویٰ عالمگيری، 1 : 164
’’یا اللہ! تو ہمارے زندوں کو بخش اور ہمارے مردوں کو، اور ہمارے حاضر شخصوں کو اور ہمارے غائب لوگوں کو اور ہمارے چھوٹوں کو اور ہمارے بڑوں کو اور ہمارے مردوں کو اور ہماری عورتوں کو۔ یا اللہ! تو ہم میں سے جس کو زندہ رکھے تو اس کو اسلام پر زندہ رکھ اور جس کو ہم میں سے موت دے تو اس کو ایمان پر موت دے۔‘‘
اگر نابالغ لڑکے کا جنازہ ہو تو یہ دعا پڑھے :
اَللّٰهُمَّ اجْعَلْهُ لَنَا فَرَطاً وَّاجْعَلْهُ لَنَا اَجْرًا وَّذُخْرًا وَاجْعَلْهُ لَنَا شَافِعًا وَّ مُشَفَّعًا.
فتاویٰ عالمگيری، 1 : 164
’’اے اللہ! اس بچہ کو ہمارے لیے منزل پر آگے پہنچانے والا بنا، اسے ہمارے لیے باعثِ اجر اور آخرت کا ذخیرہ بنا، اور اسے ہمارے حق میں شفاعت کرنے والا اور مقبولِ شفاعت بنا۔‘‘
نابالغ لڑکی کا جنازہ ہو تو یہ دعا پڑھے :
اَللّٰهُمَّ اجْعَلْهَا لَنَا فَرَطاً وَّ اجْعَلْهَا لَنَا اَجْرًا وَّ ذُخْرًا وَّ اجْعَلْهَا لَنَا شَافِعَةً وَّ مُشَفَّعَةً.
’’اے اللہ! اس بچی کو ہمارے لیے منزل پر آگے پہنچانے والا بنا، اسے ہمارے لیے باعثِ اجر اور آخرت کا ذخیرہ بنا، اور اسے ہمارے حق میں شفاعت کرنے والا اور مقبولِ شفاعت بنا۔‘‘
اگر کسی کو ان دعاؤں میں سے کوئی دعا یاد نہ ہو تو یہ دعا پڑھ لینی چاہیے :

اَللّٰهُمَّ اغْفِرْلَنَا وَلِوَالِدَيْنَا وَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ.
’’اے اللہ! تو ہمیں ہمارے والدین اور تمام مومن مردوں اور عورتوں کو بخش دے۔‘‘

اگر یہ دعا بھی یاد نہ ہو تو جو دعا یاد ہو وہی پڑھ سکتا ہے۔

پھر چوتھی تکبیر بغیر ہاتھ اٹھائے کہے اور بعد ازاں اَلسَّلَامُ عَلَيْکُمْ وَرَحْمَةُ اﷲِ، اَلسَّلَامُ عَلَيْکُمْ وَرَحْمَةُ اﷲِ کہتے ہوئے دائیں بائیں سلام پھیر دے۔
 

https://www.kitabidunya.com.pk/shop/اسلام/دیگر…/مسائل-میت/

3 days ago – kitabidunya is the largest bookstore, you can buy books, novels, guides online. We have books on various topics and huge collection of …

میّت کے اَحکام 

shaheedeislam.com/ap-kay-masail-vol-03-mayyat-kay-ahkaa

 

Aug 1, 2010 – جس میّت کا مذہب معلوم نہ ہو اُسے کس طرح کفن دفن کریں گے؟ ….. لیکن وہ خاتون مسئلے مسائل بتانے لگیں، مختصراً یہ 

کہ میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں …

احکام میت

عبادات / احکام میت. اگر مصنوعی دانت لگے ہوں تو كیا نماز جنازہ نہیں ہوتی؟ ( Oct 18, 2017 ) · مردہ کے لیے ہاتھ اٹھا کر اللہ سے دعا کرنا ( Oct 22, 2017 ) · میت كو اپنے …

 

مزید پڑھیں:

 

Also Related:

~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~
SalaamOne سلام

Humanity, Religion, Culture, Tolerance, Peace

انسانیت ، علم ، اسلام ،معاشرہ ، برداشت ، سلامتی 
بلاگز، ویب سائٹس،سوشل میڈیا، میگزین، ویڈیوز,کتب

Web,Books, Articles, Magazines,, Blogs, Social Media,  Videos

Over 3 Million visits/hits