دکھاوے کی نماز ، ریا کاری عبادت اور شرک Prayer show off Riya

حضرت ابوہریرہؓ سے ایک حدیث قدسی یوں مروی ہے ۔ وہ رسول اﷲﷺسے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے : ’’میں شرک ( شراکت ) سے سب شرکاء سے زیادہ بے نیاز ہوں ، جو کوئی ایسا عمل کرے ، جس میں میرے ساتھ کسی دوسرے کو بھی شریک کرے تو میں اس کو اور اس کے شرک کو چھوڑ دیتا ہوں ۔‘‘(مسلم)۔

Worship is only for Allah, no one is to be associated in worship. When the basic motive for worship is to be seen by others, such as one who stands and prays so that people will see him, and so that they will praise him for his prayers. This invalidates the act of worship. Read more at end ….

انسان نیکی کا کوئی عمل کرتے وقت یہ ارادہ کرے کہ لوگ مجھے یہ عمل کرتے ہوئے دیکھ لین اور میری تعریف کریں,  ریا کاری کہلاتی ہے.

حضرت ابو سعید خدریؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ بیٹھے مسیح دجال کا تذکرہ کررہے تھے ،اس دوران رسول اﷲﷺ تشریف لائے اور فرمایا: کیا تمہیں وہ چیز نہ بتادوں جو میرے نزدیک تمہارے لئے دجال سے ( یعنی دجال کے فتنہ سے ) بھی زیادہ خطرناک ہے ؟ ہم نے عرض کیا یا رسول اﷲﷺ ضرور بتلائیں ، آپﷺنے ارشاد فرمایا : ’’شرک ِخفی ( یعنی پوشیدہ شرک اس کی ایک صورت ) یہ کہ آدمی کھڑا نماز پڑھ رہا ہو ، پھر اس بناپر اپنی نمازکو مزین کردے کہ کوئی آدمی اسے دیکھ رہا ہے ۔‘‘(ابن ماجہ)

یعنی یہ احساس ہونے پر کہ کوئی آدمی دیکھ رہا ہے ، نماز کو مزین کرنا ، یا لمبی کردینا اورخشوع و خضوع کا دکھاوا کرنا وغیرہ یہ شرک خفی ہے ۔ اعمال میں پوشیدہ اور دبے پاؤں داخل ہونے والے اس شرک کو رسول اﷲ ﷺنے اپنی اُمت کے لئے فتنۂ دجال سے بھی زیادہ خطرناک قرار دیا ہے ، ایک حدیث میں رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’ جس نے دکھاوے کے لئے نماز پڑھی اس نے شرک کیا ، جس نے دکھاوے کے لئے روزہ رکھا اس نے شرک کیا اور جس نے دکھاوے کے لئے صدقہ کیا اس نے شرک کیا ۔‘‘(جامع العلوم والحکم)۔

ریا دو قسم کی ہے:

ایک ریا منافقین کی ہے کہ وہ لوگوں کو دکھانے کے لیے ظاہری طور پر اسلام کا دعوی کرتے اور نام لیتے ہیں- مگر ان کے دلوں میں کفر پوشیدہ ہوتا ہے- یہ ریا اور طرز عمل، توحید کے منافی اور اللہ تعالی کے ساتھ کفر ہے-

دوسری ریا کی صورت یہ ہے کہ کوئی مسلمان نیکی کا کوئی کام کرتے ہوئے دکھلاوے کی نیت کرے کہ لوگ اسے یہ عمل کرتے دیکھیں اور اس کی تعریف کریں- یہ پوشیدہ شرک ہے اور توحید کے اعلی درجہ کے منافی ہے-

اللہ تعالی فرماتا ہے:

قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاء رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحًا وَلاَ يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا – ( الکھف 18/110)

“(اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم) لوگوں سے کہ دیجیے کہ میں تو تم جیسا ایک انسان ہوں، البتہ میری طرح وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا ایک ہی معبود ہے- پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو، اسے چاہیے کہ وہ اچھے اعمال کرے اور اپنے رب کی بندگی میں کسی کو شریک نہ ٹھرائے”

اس آیت میں ہر قسم کے شرک کی ممانعت ہے- ریاکاری بھی شرک کی اقسام میں سے ایک قسم ہے- اسی لیے علماء نے اس آیت سے ریا کے مسائل پر استدلال کیا ہے۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” قَالَ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: أَنَا أَغْنَى الشُّرَكَاءِ عَنِ الشِّرْكِ، مَنْ عَمِلَ عَمَلًا أَشْرَكَ فِيهِ مَعِي غَيْرِي، تَرَكْتُهُ وَشِرْكَهُ ”

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ فرماتا ہے کہ میں شرک والوں کے شرک سے بے پرواہوں جو آدمی میرے لئے کوئی ایسا کام کرے کہ جس میں میرے علاوہ کوئی میرا شریک ہو تو میں اسے اور اس کے شرک کو چھوڑ دیتا ہون

[صحيح مسلم 4/ 2289 رقم 2985]​

یہ حدیث دلیل ہے کہ ریا والا عمل اللہ تعالی کے ہاں مقبول نہیں بلکہ وہ عمل کرنے والے کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے- جب کسی عبادت میں ابتداہ ریا شامل ہو (یعنی وہ عبادت محض ریا اور دکھلاوے کے لیے کی جائے) تو وہ ساری عبادت باطل ہوجاتی ہے اور وہ عمل کرنے والا دکھلاوے کی وجہ سے گناہگار اور شرک خفی کا مرتکب ہوتا ہے- البتہ اگر اصل عمل (عبادت) محض اللہ تعالی کے لیے ہی ہو مگر عمل کرنے والا اس میں کسی قدر ریا کو شامل کردے مثلا: اللہ کے لیے نماز پڑھتے ہوئے لوگوں کے دکھلاوے کے لیے نماز کا رکوع طویل کردے اور تسبیحات کی تعداد زیادہ کردے اور ایسا کرنے سے وہ آدمی گناہگار ہوگا اور اس کی اتنی عبادت ضایع ہوجائے گی جتنی اس نے ریا کے لیے کی جبکہ مالی عبادت میں ریا شامل اونے سے ساری کی ساری عبادت اکارت ہوجاتی ہے-

اگر کوئی بندہ اپنے کسی عمل صالح میں اللہ کی رضا کے ساتھ ساتھ غیر اللہ کی خوشنودی کا خواہشمند بھی ہو تو اللہ تعالی ایسے شرک سے مستغنی ہے- وہ صرف وہی عمل قبول کرتا ہے حو محض اسی کی رضا جوئی کے لیے کیا جائے-

ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

” الا احبرکم بما ھو اخوف علیکم عندی من المسیح الدّجال؟ قالو: بلی یا رسول اللہ! الشرک الحفی یقوم الرّجل فیصلی فیزیّن لما یرای من نظر رجل”

( سنن ابن ماجہ، الزھد، باب الریاء والسمعۃ، ح: 4204)​

{ کیا میں تمہیں وہ بات نہ بتاؤں جس کا خوف مجھے تم پر مسیح دجال سے بھی زیادہ ہ؟ صحابہ رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیوں نہیں؟ (ضرور بتلائیے) آپ نے فرمایا: وہ ہے “شرک خفی” کہ کوئی شحص نماز کے لیےکھڑا ہو اور وہ اپنی نماز کو محض اس لیے سنوار کر پڑھے کہ کوئی شخص اسے دیکھ رہا ہے-}

مسیح دجال کا معاملہ تو واضح ہے جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھول کر بین فرمادیا ہے (اور اس سے بچنا آسان ہے) لیکن ریا عام طور پر دل میں اس طرح پیدا ہوتی ہے کہ یہ انسان کو آہستہ آہستہ اللہ تعالی کی بجائے لوگوں کی طرح متوجہ کردیتی ہے (اور اس سے بچنا انتہائی مشکل ہے)- اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فتنہ دجال سے زیادہ خوفناک اور شرک خفی قرار دیا ہے-

عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمُ الشِّرْكُ الْأَصْغَرُ ” قَالُوا: وَمَا الشِّرْكُ الْأَصْغَرُ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: ” الرِّيَاءُ، يَقُولُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: إِذَا جُزِيَ النَّاسُ بِأَعْمَالِهِمْ: اذْهَبُوا إِلَى الَّذِينَ كُنْتُمْ تُرَاءُونَ فِي الدُّنْيَا فَانْظُرُوا هَلْ تَجِدُونَ عِنْدَهُمْ جَزَاءً “[مسند أحمد ط الرسالة 39/ 39 رقم23630]

محمود بن لبیدسے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” میں‌ تمہاری بابت سب سے زیادہ جس چیز سے ڈرتا ہوں‌ وہ چھوٹا شرک ہے صحابہ نے عرض کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم چھوٹا شرک کیا ہے ؟ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ریاکاری ، قیامت کے دن جب لوگوں‌ کو ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا تو ریا کاروں‌ سے اللہ تعالی کہے گا : ان لوگوں‌ کے پاس جاؤ جن کو دکھانے کے لئے تم دنیا میں اعمال کرتے تھے اوردیکھوکیا تم ان کے پاس کوئی صلہ پاتے ہو۔

اقتباس: کتاب التوحید، از: صالح بن عبدالعزیز بن محمد بن ابریہیم آل شیخ

http://forum.mohaddis.com/threads/27907

مزید …

نماز کی اہمیت ، مسائل ، طریقه اور جمع بین الصلاتین

نماز کی اہمیت ، مسائل ، طریقه اور جمع بین الصلاتین

 

Showing off may affect worship in three ways:

1 – When the basic motive for worship is to be seen by others, such as one who stands and prays so that people will see him, and so that they will praise him for his prayers. This invalidates the act of worship.

2 – When it is a factor that develops during the act of worship, i.e., if the worshipper is initially sincere in his intention towards Allaah, then the idea of showing off develops whilst he is doing it. In this case one of the following two scenarios must apply:

(i) There is no connection between the first part of his act of worship and the last part, so the first part is valid in all cases, and the last part is invalid.

For example: a man has one hundred riyals that he wants to give in charity, so he gives fifty of them in a sincere act of charity. Then the idea of showing off develops with regard to the remaining fifty. So the first was a sound and accepted act of charity, but the last fifty was an invalid act of charity because the sincerity was mixed with a desire to show off.

(ii) The first part of the act of worship is connected to the last part, in which case one of the following two scenarios must apply:

(a) He wards off the idea of showing off and does not give in to it, rather he turns away from it and hates it. This does not have any effect on him, because the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) said: “Allaah has forgiven my ummah for what crosses their minds, so long as they do not act upon it or speak of it.”

(b) When he gives in to this idea of showing off and does not ward it off. In this case the entire act of worship becomes invalid, because the first part is connected to the last part. For example, he starts the prayer with a sincere intention towards Allaah, then the idea of showing off develops in the second rak’ah, so the entire prayer becomes invalid because the first part is connected to the last part.

3 – The idea of showing off develop after the act of worship has ended. This does not affect it or invalidate it, because it has been completed soundly, so if showing off occurs after that it does not affect it.

It is not showing off if a person feels happy that the people come to know about his worship, because this developed after he has finished the act of worship.

It is not showing off if a person feels happy because he has done an act of worship, because that is a sign of his faith. The Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) said: “Whoever feels happy because of his good deeds and sad because of his bad deeds, that is the believer.”

The Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) was asked about that and said: “That is the first glad tidings of the believer.”

Majmoo’ Fataawa al-Shaykh Ibn ‘Uthaymeen, 2/29, 30.

https://islamqa.info/en/answers/9359/showing-off-riya-in-worship  Also …[…….]