Ikhtelaf or Itehad اختلاف فقه اور اتحاد مسلم

اختلاف کیا ہے؟ ہر یکساں حالت کے بعد جب اس کے خلاف کوئی دوسری حالت رونما ہوتی ہے تو اس کا نام ہم اختلاف رکھتے ہیں،اس لحاظ سے اگر اس عالم پر عرش سے لیکر فرش تک نظر ڈالیں تو سارا عالم اختلاف کی آماجگاہ نظر آئے گا،یہاں تک کہ اگر اس عالم کی کوئی صحیح تعریف ہو سکتی ہے تو یہی ایک لفظ اختلاف ہے۔
اختلاف کے اسباب و محرکات پر بحث کرنے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے۔کہ اسلام میں اختلاف کی حقیقت کیا ہے؟
ایک طرف تو قرآن ان لوگوں کے انتہاٰ ئی مذمت کرتا ہے۔جو کتاب اللہ کے آجانے بعد تفرقے اور اختلاف میں پڑ جاتے ہیں اور اپنے دین کے ٹکٹرے ٹکڑے کر ڈالتے ہیں اور دوسری طرف قرآن کے احکام کی تعبیروتفسیر میں صرف متاخرین ہی نہیں آئمہ اور تابعین اور خود صحابہؓ تک کے درمیان اختلاف پائے جاتے ہیں کہ شاید کوئی ایک بھی احکامی آیت ایسی نہ ملے گی جس کی تفسیر بالکل متفق علیہ ہوتو پھر ایک سوال ذ ہن میں ابھرتا ہے کہ کیا یہ بھی کوئی اس مذمت کے مصداق ہیں جو قرآن میں وارد ہوئی ہے اور اگر ایسا نہیں تو پھر کونسا اختلاف ہے جس سے قرآن نے منع فرمایا ہے اور انہی دو اختلاف میں فرق واضح کرنا مقصود ہے-
“قرآن اس صحت بخش اختلاف رائے کا مخالف نہیں ہے۔جو دین میں متفق اور اسلامی نظام جماعت میں متحد رہتے ہوئے محض احکام و قوانین کی تعبیر میں مخلصانہ تحقیق کی بناء پر کیا جائے بلکہ وہ مذمت اس اختلاف کی کرتا ہے جو نفسانیت اور کج نگاہی سے شروع ہو اور فرقہ بندی اور نزاع باہمی تک پہنچا دے،یہ دونوں قسم کے اختلاف نہ اپنی حقیقت میں یکساں ہیں۔اور نہ اپنے نتائج میں ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں کہ دونوں کو ایک ہی لکڑی میں ہانک دیا جائے” (تفہیم القرآن ۱:۳۱)
اقسام اختلافات:
اسلام میں اختلاف کی حقیقت جاننے کے بعد ہم اختلافات کو درج ذیل دو اقسام میں منقسم کر سکتے ہیں۔
۱)اختلاف حقیقی
یعنی ایسا اختلاف جس میں خدا اور رسول ﷺ کی اطاعت پر جماعت سب لوگ متفق ہوں۔احکام کا ماخذ بھی بالاتفاق قرآن و سنت کو مانا جائے اور پھر دو عالم کسی جزوی مسئلے کی تحقیق میں ایک دوسرے سے اختلاف کریں مگر ان میں سے کوئی بھی نہ تو اس سے اختلاف کرنے والوں کو دین سے خارج قرار دے اور جماعت المسلمین پر چھوڑ دے کہ وہ دونوں آراء میں سے جس کو چاہیں قبول کر لیں یا دونوں کا جائز رکھیں۔
اس اختلاف کی بابت مولانا مودودی فرماتے ہیں
“اور یہ اختلاف ترقی کی جان اور زندگی کی روح ہےیہ ہر اس سوسائٹی میں پایا جائے گا جو عقل و فکر رکھنے والوں پر مشتمل ہو،اس کا پایا جانا زندگی کی علامت ہے۔اور اس سے خالی صرف وہی سوسائٹی ہو سکتی ہے جو ذہین انسانوں سے نہیں بلکہ لکڑی کندوں سے مرکب ہو” (تفہیم القرآن ۱:۳۸)
اختلاف غیر حقیقی:
یعنی ایسا اختلاف جو سرے سے دین کی بنیادوں میں ہی کر ڈالا جائے،یا یہ کوئی عالم یا صوفی یا مفتی یا متکلم لیڈر کسی ایسے مسئلے میں جس کو خدا اور رسولﷺ نے دین کا بنیادی مسئلہ قرار نہیں دیا تھا۔ایک رائے اختیار کر ے اور کھینچ تان کراس کو دین کا بنیادی مسئلہ بنا ڈالے اور جو اس سے اختلاف کر ڈالے اس کو خارج از دین وملت قرار دے اور اپنے حامیوں کا ایک جتھا بنا کر کہے کہ اصل امت مسلمہ بس یہ ہے باقی سب جہنمی ہیں اور ہانک پکار کر کہے مسلم ہے تو بس اس جتھے میں آجاورنہ تو مسلم ہی نہیں،ایسے اختلاف کا رونما ہونا صحت نہیں بلکہ مرض کی علامت ہے اور اس کے نتائج کبی کسی امت کے میں بھی مفید نہیں ہو سکتے کیونکہ اتباع نفس ہمیشہ باعث شروفساد ہوتا ہے۔

…………………………….

We are Muslims Only- [Video Playlist]

…………………………………

تاریخ اختلاف:
اختلاف کا معنی و مفہوم اور اسلام میں اس کی حقیقت واضح کرنے کے بعد اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ اختلاف کی ابتدا کب اور کیسے ہوئی؟

عہد رسالت میں اختلاف اور اس کی نوعیت
اختلاف رائے اگر کوئی مزموم چیز ہوتی تو صاحب شریعتﷺ کبھی بھی اس کی اجازت نہ دیتے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ حضور نبی کریمﷺ نے اپنے متبعین میں حریت فکر کی ایسی روح پھونیب تھی کہ وہ بعض دفعہ حضور ﷺ کی ذاتی رائے سے بھی اختلاف کر دیا کرتے تھے۔

“نبی کریمﷺ کے مشن کا ایک حصہ یہ تھا کہ خدا کی اطاعت و فرما برداری کا قلادہ انسان کی گردن میں ڈال دیں اور دوسرا حصہ یہ تھا کہ انسان کی اطاعت و فرمانبرداری کا قلادہ اس کی گردن سے اتار پھینکیں،یہ دونوں کام آپﷺ کے مقصد شریعت میں شامل تھے۔اور دونوں کی اہمیت یکساں تھی،پہلے کام کے لئے ضروری تھا کہ نبیﷺ ہونے کی حثیت سے آپﷺ تمام انسانوں کو اپنی کامل اور غیر مشروط اطاعت پر مجبور کریں کیونکہ آپﷺ کی اطاعت پرہی خدا کی اطاعت موقوف تھی،اس کے مقابلے میں دوسرے کام کی تکمیل کے لئے یہ بھی اتنا ہی ضروری تھا۔کہ سب سے پہلے آپﷺ خود اپنے عمل اور برتاو سے یہ حقیقت مسلمانوں ذہن نشین کر دیں کہ وہ کسی انسان کی بندگی سے قطعی آزاد ہیں،یہ ایک انتہائی نازک کام تھا۔اگر کوئی شخص اسی پر غور کرتے کہ نبیﷺ ہونے کی حثیت سے آپﷺ کو لوگوں پر کتنا بڑا اقتدار حاصل تھا اور پھر یہ دیکھے کہ آپﷺ لوگوں کو کتنی مکمل آزادی رائے عطا فرماتے اور خود اپنی ذاتی آراء سے اختلاف کرنے میں کس طرح حوصلہ افزائی کرتے تھے۔اور آزادی رائے کا حق ان کو ہر انسان حتٰی کہ انسان کاملﷺ جیسی عظیم الشان شحصیت کے مقابل میں بھی عطا کرتے تھے” (تفھیمات۱:۵۵،۵۶)
سرکار رسالت مابﷺ سے زیادہ اس بات کا مستحق ہو سکتا تھا جن کے ساتھ کسی کو اختلاف رکھنا کسی کے لئے مناسب نہ ہوتا مگر اس کے باوجود یعنی شخصی معاملات میں صحابہؓ نے حضورﷺ سے اختلاف کیا اور اس اختلاف کی جزئیات بھی حضورﷺ نے خود دلائ۔ نبیﷺ کے زمانے میں اس کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ صحابہؓ اپنی ذاتی رائے ظاہر کرنے سے پہلے آپﷺ سے دریافت کر لیتے تھے کہ آپﷺ کا یہ ارشاد حکم الہی کی بنیاد پر ہے یا اپنی ذاتی رائے پر اور جب معلوم ہوجاتاتھا کہ اپنی رائے سے ہے تو اپنی بات عرض کرتے تھے-

سیرت النبیﷺ میں ہے کہ : “جنگ بدر میں حضورﷺ نے ابتداء میں جگہ قیام فرمایا تھا۔وہ جگہ موزوں نہ تھی۔حضرت حبابؓبن منذر نے دریافت کیا کہ حضورﷺ آپﷺ نے اس جگہ کا انتخاب وحی کی بناء پر فرمایا ہے یا اپنی رائے سے،حضورﷺ سے نے جواب دیا”بل ھوالرای والحرب المکیدہ”بلکہ یہ ایک رائے اور جنگی تدبیر ہے۔اس پر انھوں نے تجویز کیا کہ آگے بڑھ کر فلاں جگہ ٹھہرا جائے،چنانچہ حضورﷺ نے ان کی رائےکو قبول فرمایا اور فرمایا تم نے صحیح رائے دی اور اسی پر عمل فرمایا” (سیرتہ النبیﷺ ۱:۷۱۵)

جنگ خندق کے موقع پر حضورﷺ نے مدینہ طیبہ پر ہر طرف سے دشمنوں کی یلغار دیکھ کر بنی غطفان سے صلح کرنی چاہی تاکہ دشمنوں کا زور ٹوٹ جائے۔مگر جب روسائے انصار سعد بن معاذؓ اور سعد بن عبادہؓ سے مشورہ کیا تو انھوں نے معلوم ہونے پرکہ حضورﷺ ایسا وحی کی بناء پر نہیں کر رہے ہیں۔اس تجویز سے اختلاف کیا۔ چنانچہ آپﷺ نے انھیں اختیار دے دیا کہ تم جو چاہو کرو،اس پر سعد بن معاذؓ صلح کا مسودہ لے کر اس پر سے تحریرکو مٹادیا” (سیرتالنبیﷺ ۲:۲۴۲)

آزادی ء رائے کی تربیت حضورﷺ نے آزاد غلام سب کو دے رکھی تھی۔بریرہؓ ایک لونڈی تھی،جنہوں نے آزاد ہونے کے بعد اپنے شوہر سے علیحد گیاختیار کر لی تھی۔شوہر انھیں بہت چاہتاتھا اور ان کے پیچھے روتا پھرتا تھا،حضورﷺ کو خبر ہوئی تو آپﷺ نے بریرہؓ سے کہا “اچھا ہوتا اگر اس کے پاس چلی جاتی”بریرہؓ نے کہا حضورﷺ حکم دیتے ؟کہا نہیں”مشورہ”انھوں نے جواب دیا کہ پھر مجھے اس کی حاجت نہیں۔(بخاری۳:۱۴۶،کتاب الطلاق،باب شفاعتہ النبیﷺفی زوج بریرہؓ)
 
آراءمیں اختلاف ایک انسانی خصوصیت ہےعیب نہیں جس سے صحابہ اکرام بھی مستثنیٰ نہ تھے:
 امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المغازی میں ایک روایت ذکر کی ہے:
“لاَ يُصَلِّيَنَّ اَحَدٌ العَصْرَ إلاَّ فِيْ بَنِيْ قُرَيْظَةَ “
(بخاری ،محمد بن اسماعیل البخاری ؛ کتاب المغازی، ج:۲،ص:۵۱)
تم ميں سے هر آدمي نماز عصر بنوقريظه هي ميں پڑھے!مگر ہوا کچھ یوں کہ بعض صحابهٔ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بنی قریظہ پہنچنے سے قبل ہی نماز عصر اس وجہ سے پڑھ لی کہ وقت بالکل ختم ہونے والا تھا اور ان کو یہ خوف دامن گیر ہوا كه کہیں نماز کا وقت ہی ختم نہ ہوجائے اورقضا ء نہ ہوجائے، ان حضرات نے  فرمان نبوی لایصلین احد العصر الا فی بنی قریظۃ  میں یہ اجتہاد کیا کہ جلدی پہنچنا ہے یعنی  نماز عصر تک وہاں ضرور پہنچنا ہے ۔اس حکم کا تعلق ادائے صلوۃ سے نہیں؛ بلکہ جلد پہنچنے سے ہے، اب چونکہ وقت ختم ہورہا ہے اور نماز کو اپنے وقت پر ادا کرنا بھی ضروری ہے؛ اس لیے نماز کو ادا کر لیا؛ جبکہ دوسرے فریق نے الفاظِ حدیث سے یہی سمجھا کہ اس کے ظاہر پر عمل ضروری ہے؛ چنانچہ انہوں نے بنی قریظہ پہنچ کر ہی نماز عصر ادا فرمائی ۔اس امر کی اطلاع جب پیغمبر دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی تو آپ نے کسي کو غلط قرار نہیں دیا ۔

بدر کا معرکہ ہوا، کفار کے تقریبا۷۰  افراد کو جنگی قیدی بنالیا گیا ۔اب معاملہ پیش آیا کہ ان قیدیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے ؟ اس وقت  صحابۂ کرامؓ کی مختلف آرا سامنے آئیں ۔سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت سعد بن معاذ  رضی اللہ عنہ  اس جانب کو ترجیح دیتے تھے کہ ان قیدیوں کو قتل کردیا جائے؛ جبکہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ ان سے فدیہ لے کر انھيں چھوڑ دیا جائے ۔  (التفسیر الکبیر للرازی،ج:۱۵،ص:۱۹۷)
        
زمانۂ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں صحابۂ کرام کے باہمی اختلافات کتبِ حدیث اورکتبِ سیر وتاریخ میں به کثرت ملتے ہیں ؛حتی کہ صحابۂ کرامؓ کا بعض امور میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے  کے موافق رائے نہ دینا بھی آیات وآثار سے مفہوم ہوتا ہے۔مثلاً :
منافق کے جنازہ نہ پڑھانے پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ عرض کرنا کہ یارسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم اس منافق کا جنازہ مت پڑھائیے ۔
(التفسیر الکبیر،ج:۱۶،ص:۱۵۲تحت آیۃ لاتقم علی قبرہ)

جب دل میں خوفِ خدا ہو معاملہ نیک نیتی پر مبنی ہو،  اختلاف کا سبب امرِ اجتہادی ہواور اختلاف کرنے والے ماہرینِ شریعت ہوں تو  ان سے  صادر شدہ اختلاف کو رحمت کہا جائيگا،  ہاں! اگر شرائط ِمذکورہ کا فقدان ہوتو پھر یہی اختلاف؛ افتراق کا زینہ بن جاتا ہے۔

سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دنیا سے پردہ فرما ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقامِ دفن پر بھی صحابۂ کرامؓ کی آراء  میں اختلاف ہوا،  الطبقات الکبری میں امام ابن سعدؒ نے اس مقام کوبڑے هي بسط وتفصیل کے ساتھ ذکرفرمایا ہے۔(الطبقات الکبری لابن سعد،ج:۲،ص:۲۹۲)

اس کے بعد خلیفۃ المسلمین اور جانشینِ پیغمبر کے انتخاب کا وقت آیا تو اب کی بار بھی صحابہؓ میں اختلاف رائے ہوا، کافی بحث وتمحیص کے بعد یہ طے پایا کہ خلیفہ بلا فصل سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہوں گے ۔(تاریخ الخلفاء للسیوطی،ص:۵۲)

اسی اثنا میں فتنۂ مانعین زکوۃ رونما ہوا سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کي رائے یہ تھی کہ مانعینِ زکوۃ سے قتال کیا جائے؛ جبکہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنی رائے کا اظہار کیاجو سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی رائے سے مختلف تھی ۔فتنۂ مانعینِ زکوۃ اور صحابۂ کرامؓ کے علمی اختلاف کی وجوہات کو امام ابن کثیر نے البدایہ والنهایہ میں بالتفصیل لکھ دیا ہے ۔(البدایہ والنهایہ لابن کثیر،ج:۶،ص:۳۱۵)
فتنۂ مانعینِ زکوۃ کا سر سیدنا صدیق اکبرؓ کی دلیری اور جواںمردی نے دیگر صحابۂ کرامؓ کے تعاون سے جب کچل ڈالا، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خلیفۃ المسلمین سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے بصد احترام التماس کیا کہ اسلام روز افزوں ترقی کی شاه راہ پر گامزن ہے؛ اس لیے بلاد عرب سے نکل کر سارے عالم میں جانے لگا ہے، میری تجویز یہ ہے کہ:
قرآن کریم کو یکجا جمع کردیا جائے۔
اولاً جناب صدیق اکبرؓ نے یہ کہا کہ: جوکام نبی نے نہیں کیا، ابو بکر اُسے كيسے كرسكتا هے؟ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بار بار اصرار پر جناب صدیق اکبرؓ کو اس معاملے میں انشراح ہو گیا۔
(صحیح البخاری،ج:۲،ص:۷۴۵باب جمع القرآن)
اسی طرح انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘‘کہ ہم نے رسول اللہﷺکے ساتھ رمضام میں جہاد کا سفر کیا ہم میں سے بعض نے روزہ رکھا اور بعض نے نہیں رکھا۔روزہ دار روزہ نہ رکھنے والے پر اعتراض نہ کرتا تھا اور نہ ہی روزہ نہ رکھنے والا روزہ دار پر اعتراض کرتا تھا‘‘(صحیح بخاری:۱۹۴۷،صحیح مسلم:۱۱۱۸)

فقہی اختلاف کی قرآنی شہادت :
قرآنِ کریم میں دو جلیل القدر انبیاء حضرت داود اور حضرت سلیمان علیہما السلام کا تذکرہ موجود ہے، جن کے مابین فروعی اختلاف ہوا، جسےاوراقِ قرآنیہ نے آج تلک اپنے سینے میں محفوظ رکھا ہوا ہے۔(پ۱۷،سورۃ الانبیاءآیت۷۸)

بنو نضیر سے جنگ کے موقع پر جب صحابہ کرام نے کافروں کے کچھ درخت کاٹے اور کچھ چھوڑ دیے تو اللہ تبارک و تعالی ٰ نے دونوں عمل کو درست قرار دیتے ہوئے فرمایا:
﴿مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّيْنَةٍ اَوْ تَرَكْتُمُوْهَا قَآىِٕمَةً عَلٰۤى اُصُوْلِهَا فَبِاِذْنِ اللّٰهِ وَ لِيُخْزِيَ الْفٰسِقِيْنَ﴾(سورۃ الحشر:۵)
‘‘تم لوگوں نے کھجوروں کے جو درخت کاٹے یا جن کو اپنی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا ، یہ سب اللہ ہی کے اِذن(حکم) سے تھا اور اس لیے کہ فاسقوں کو ذلیل و خوار کرے’’
اجتہادمیں کوئی سچا اور کوئی جھوٹا والا معاملہ نہیں ہوتا؛ بلکہ به موجبِ حدیث اگر مجتہد صحیح اور درست بات تک رسائی حاصل کر لے تو ’’فَلَہٗ أجْرَانِ‘‘ اور اگر اس میں اس کو خطا بھی ہوجائے تب بھی اس مخطی کو گناہ وعقاب وعتاب نہیں؛ بلکہ فلہ اجر کا  وعدہ اوراعزاز بخشا گیا ہے۔
(صحیح البخاری،ج:۲،ص:۱۰۹۲، صحیح مسلم،ج:۲،ص:۷۶)

سورة النورآیت ٢٤ کی تفسیر میں بھی جید صحابہ کی آرا مختلف تھی:

وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ(سورة النور,24:31).

ترجمہ : “اور مومنات سے کہہ دیجئے کہ وہ بھی اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنی عفت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کا اظہار نہ کریں علاوہ اس کے جو ازخود ظاہر ہے…” ۖ(سورة النور,24:31).

حضرت عبدللہ بن عبّاس رضی اللہ عنہ نے “إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا”  (علاوہ اس کے جو ازخود ظاہر ہے) کے معتلق فرمایا کہ اس سے مراد “چہرہ (وَجْهِهِ) اور ہا تھ” ہیں کیونکہ کام کے دوران ان کا چھپانا مشکل ہے. یہ تفسیرسنن أَبُو دَاوُدَ حدیث نمبر4104 میں فرمان رسول اللہ ﷺ سے مطابقت رکھتی ہے. ابن کثیرمیں بھی اس کا ذکر ہے. مگر حضرت عبدللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو ابن عبّاس رضی اللہ عنہ کی اس تفسیر سے اختلاف ہے. دونوں اصحاب رسول اللہﷺ اعلی درجہ کےعالم اورمفسر قرآن تھے.
ابن کثیرمیں بھی اس کا ذکر ہے. مگر حضرت عبدللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو ابن عبّاس رضی اللہ عنہ کی اس تفسیر سے اختلاف ہے. دونوں اصحاب رسول اللہﷺ اعلی درجہ کےعالم اورمفسر قرآن تھے-
 
عہد تابعین و تبع تابعین میں نوعیت اختلاف:
 
شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں:
“صحابہ اکرامؓ کے مذاہب مختلف ہو گئے،پھر یہی اختلاف وراثتا تابعین تک پہنچے پھر تابعی کو جو کچھ مل سکا ،اسی کو اس نے اپنا لیا اور آئحضرت ﷺ کی جو حدیثیں اور صحابہ کے جو مذاہب اس نے سنے ان کو محفوظ اور ذہن نشین کر لیا،نیز صحابہ کے جو مختلف اقوال اس کے سامنے آئے ان میں اپنی فہم کی حد تک مطابقت پیدا کی”
(اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ،ص:۲۸)

پھر عہد تابعین کے بارے میں فرماتے ہیں کہ
عہد تابعین کے ختم ہونے پر اللہ تعالی نے علم دین کے خادموں کا ایک گروہ پیدا کر دیا تاکہ وہ وعدہ پورا ہو،جو اللہ کے رسول ﷺ کی زبان سے اس علم کے متعلق نکلا تھا کہ آنے ولی نسلوں میں سے ہر نسل کے عادل لوگ اس علم کے امانت دار ہونگے،
(اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ:ص:۳۲)

یہ بات بالکل واضح ہےکہ ہراختلاف مذموم نہیں؛ بلکہ اختلاف محمود بھی ہوتا ہے ۔ امام عبدالقادر بن طاہر البغدادیؒ نے فرمایا كه اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فقہاء کے اختلاف کو مذموم نہیں کہا؛ کیونکہ یہ اصولِ دین میں متفق ہیں۔ (الفرق بین الفرق،ص:۶)
بلکہ علامہ شاطبی رحمہ اللہ نے ’الاعتصام ‘‘میں لکھا ہے کہ فَاِخْتِلَافُهُمْ فِي الْفُرُوْعِ كَاِتِّفَاقِهِمْ فِيْهَا،  ان کا اختلاف ان کے اتفاق کے مثل ہے ۔(الاعتصام،ج:۲،ص:۱۶۹)

امام ابو حنیفہ،امام مالک،امام شافعی اور امام احمد بن حنبل اور ائمہ حدیث کے بعض فقہی اختلافات کا ذکر کر کےانہیں کتاب و سنت کے مخالف قرار دیتے ہوئے اسلام ہی سے خارج قرار دیا جا رہا ہے انہیں فرقہ پرست اور شرک فی الرسالت کا مرتکب گردانا جا رہا ہے حالانکہ کے ان ائمہ کرام کے وہی عقائد ہیں جو کتاب و سنت نے بیان کئے اور جس پر صحابہ اور تابعین تھے۔
الحمدللہ ان ائمہ اربعہ اور ان جیسے اہل علم کے درمیان اصولِ دین میں کوئی نزاع نہیں ہے۔بلکہ یہ اختلافات ان امور میں ہوتے ہیں جو کہ اجتہادی ہیں۔ فروعات کے فہم کا اختلاف صحابہ تک میں ہوا ہے۔امت کے بڑے بڑے محدثین،مفسرین اورفقہاء خود حنفی،شافعی،مالکی و حنبلی اور اہل حدیث کا مذہب رکھتے تھے۔ان امور میں ان کے درمیان کوئی تعصب نہیں تھا۔

مقصد ان واقعات کا مکمل احصا ءنہیں؛ بلکہ ایسے چند نظائر کو سامنے لانا تھا، جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ یہ اختلاف عہدِ نبوی سے موجود ہے؛ بلکہ اس اختلاف پر عہدِ نبوی ہی سے ماجور ہونے کا سہرا سجا ہوا ہے؛ اس لیے فقہاء کرام  امامِ اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ ،امام مالک رحمہ اللہ ، امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا باہم دلائل کی بنیاد پر کسی بھی جزوی اور فروعی مسئلے میں مختلف رائے رکھنا ہر گز فرقہ واریت نہیں؛ بلکہ انہی ائمہ اربعہ میں منحصر رہنے سےہی فتنوں سے بچا جا سکتا ہے ۔(عقدالجید، از: شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ )

مولانا اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں
ایک عالم سے جو کہ فارسی میں استاد ہیں۔ایک عیسائی نے ان سے اعتراض کیا کہ اہل اسلام میں سینی تحقیق کی کمی کی ایک بڑی دلیل ہی یہ ہے کہ ان کے اکثر مسائل میں اختلاف ہے۔اگر کافی تحقیق ہوتی تو اختلاف نہ ہوتا تو انھوں نے جواب دیا کہ یہی تو دلیل ہے ان کی تحقیق کرنے کی،کوئی چھوٹے سے چھوٹا جزو بھی نہیں چھوڑا۔
گویا اجتہادی امور میں فقہائے اکرام کا اختلاف رائے فطری بھی ہے اور منطقی بھی،کیونکہ فقہاء میں سے ہر ایک نے اجتہادی مسائل کا اپنے نقطء نظر سے جائزہ لیا ہے،جس سے ہر مسئلے کے مختلف پہلو آشکار ہو کر حقیقت زیادہ واضح ہو گئی،اور اسلامی فقہ میں میں ایسا توسع پیدا ہو گیا اور اس میں ہر طرح کے حالات کے مطابق منطبق ہونے کی صلاحیت پیدا ہوگئی۔

امام ابوحنیفہ اور ان کے جلیل القدر شاگردوں کا عمل ایک روشن مثال ہے۔شرف تلمذ سے مشرف ہونے کے باوجود شاگردوں نے مسائل کے استنباط میں استاد کی آراء سے بے تکلف اختلاف کیا،جبکہ ان کا استاد وہ شخص تھا۔جس کی دوستی اور نکتہ شناسی کی مثال صحابہ اکرامؓ کے بعد آج تک تاریخ دکھانے سے قاصر ہے۔
 
فقہی اختلافات کی بنیاد پر افتراق کرنا درست نہیں​:

مسائل کے ان اختلافات کی بنیاد پر آپس میں دشمنی اور افتراق کرنا درست نہیں۔کیونکہ فقہی اور اجتہادی امور میں صحابہ کرام کا بھی اختلاف ہوا۔کسی مسئلہ میں قرآن و حدیث کی صریح نص نہ ہونے کی وجہ سے ان کے اجتہادات مختلف ہوئے اور بعض اوقات اللہ اور اس کے رسول کی بات کا مفہوم سمجھنے میں اختلاف ہوا مگر ان میں وحدت اوراخوت برقرار رہی سلف کے مابین باہمی محبت و ہمدردی اور آپس کے تعلقات کی گرمجوشی میں کوئی کمی نہیں آئی۔

افسوس کے آج فقہی امور پر بحث و مناظرہ کرتے ہوئے علماء کرام کی عزت و آبروکی بھی پرواہ نہیں کی جاتی۔ایک مسلمان عالم کی ذمہ داری ہے کہ فقہی امور میں تنقید کرتے وقت احسن انداز اختیار کرے۔ان فقہی امور میں اختلاف کرنے والوں سے وہ رویہ نہ رکھے جو کہ ایک ملحد،کافرومشرک یا کلمہ پڑھنے کے بعد اسلام کے منافی امور کےمرتکب شخص سے رکھنا واجب ہے۔

امام شاطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’اجتہادی مسائل میں اختلاف صحابہ کے دور سے لے کر آج تک واقع ہوتا آیا ہے۔سب سے پہلے جو اختلاف ہوا وہ خلفائے راشدین مہدیین کے زمانے میں ہوا پھر صحابہ کے سب ادوار میں رہا۔پھر تابعین میں ہوا۔ان میں سے کسی نے بھی اس پر کسی کو معیوب نہ جانا۔صحابہ کے بعد والوں میں بھی اسی طرز پر اختلاف ہوا اور اس میں توسیع بھی ہوئی’’(الاعتصام از امام ابو اسحاق الشاطبی۸۰۹)

امام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
‘‘وامالاختلاف فی (الاحکام)فاکثر من ان ینضبط ولو کان کل ما اختلف مسلمان فی شئی تھاجرا۔لم یبق بین المسلمین عصمۃ ولا اخوۃ’’(فتاوی ابن تیمیہ۲۴/۱۷۳)

مسائل احکام میں تو اس قدر اختلاف ہوا ہے کہ اس کا ضبط میں آنا ممکن نہیں،اگر کہیں ایسا ہوتا کہ جب بھی کبھی دو مسلمانوں میں کسی مسئلے کی بابت اختلاف ہو تو ایک دوسرے سے قطع تعلقی اختیار کرلی جاتی تو مسلمانوں میں کسی عصمت یا اخوت کا نام تک باقی نہ رہتا’’

رسول اللہﷺکی وفات کے بعد صحابہ کرام مختلف علاقوں میں پھیل گئے۔مدینہ میں ام المومنین عائشہ صدیقہ،زید بن ثابت اور عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ لوگوں کو دین سکھلانے لگے،تابعین کے دور میں سعید بن مسیب،عروہ بن زبیر،پھر امام زہری اور یحییٰ بن سعد آئے۔

پھر امام مالک رحمہ اللہ ان سب کا علم مدون کردیا۔مکہ مکرمہ میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے دینی حلقہ قائم کیا۔ان سے عکرمہ،مجاہد اور عطارحمہ اللہ نے دین سیکھ کر پھیلایا۔پھر سفیان بن عیینہ اور مسلم بن خالد آئے اور آخر کار محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ نے ان سے منقول شدہ احادیث اور فتاوی جمع کر دئیے۔عراق اور کوفہ میں سیدنا علی بن ابی طالب اور سیدنا عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے اللہ کے دین کا روشن کیا۔ان کے شاگرد علقمہ بن قیس اور قاضی شریح نے یہ دین ابراہیم نخعی اور پھر حماد بن سلیمان سے ہوتے ہوئے امام ابو حنیفہ نعمان رحمہ اللہ اور ان کے شاگرد امام ابو یوسف اور امام محمدوغیرہ تک وہ فتاوی آئے۔

جب خلیفہ منصور نے امام مالک رحمہ اللہ سے مشورہ کیا کہ مؤطا مالک کو سب مسلم خطوں میں نافذ کر دیا جائے تو امام مالک رحمہ اللہ نے جوجواب دیا
وہ ہمارے لیے قابل غور ہے۔امام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ امام مالک رحمہ اللہ کے الفاظ یو ں نقل کرتے ہیں:
اصحاب رسولﷺملکوں کے اندر بکھر گئے تھے۔اب ہر قوم ان کے علم سے وہ چیز لے چکی ہے جوان کو صحابہ سےپہنچی تھی۔(مجموع الفتاوی)

امام ذہبی رحمہ اللہ یوں نقل کرتے ہیں:
‘‘اے امیر المومنین ایسا مت کیجیے کیونکہ اس سے قبل لوگوں کے ہاں اقوال پہنچے ہوئے ہیں۔ان کو احادیث اور روایات ملی ہوئی ہیں۔اصحاب رسول اور دیگر اہل علم کے اختلاف سے ہر قوم کو جو چیز پہنچی وہ اس کو لے چکی اور اس کو معمول بنا کر بطور دین اختیار کر چکی ہے۔اب لوگ جس بات کے قائل ہو چکے اس سے ان کو ہٹانا شدید بات ہے۔لہٰذا لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیجئے۔ہر ملک کے لوگوں نے جو کچھ اختیار کیا ہے ان کو اسی پر رہنا دیجئے’’(سیر اعلام النبلاء)
اجتہادی مسائل کا اختلاف کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہوکبھی صحابہ نے ایک دوسرے کی تکفیر نہیں کی۔دیکھیے عائشہ،معاویہ اور علیکے مابین اختلاف نے کتنی شدت اختیار کی مگر اس کے باوجود انہوں نے ایک دوسرے کو مسلمان ہی سمجھا ۔ملاحظہ فرماہیں:
عن رباع بن ھارث قال:انا لبواد،وان رکبتی لتکادتمس رکبۃ عمار بن یاسر اذ أقبل رجل فقال:کفر واللہ أھل الشام۔فقال عمار:لا تقل ذلک،فقبلتنا و احدۃ،ونبینا واحد،ولکنھم قوم مفتونون،فحق علینا قتالھم حتی یر جعواالی الحق
رباح بن حارث کہتے ہیں ہم عمار بن یاسررضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک وادی میں تھے(عمار بن یاسرسیدنا علیرضی اللہ عنہ کے ساتھی تھےاورآپ کے بارے میں نبی کریمﷺنے یہ خبر دی تھی کہ آپ کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔چنانچہ آپ معاویہ رضی اللہ عنہ کے گروہ کے ہاتھوں شہید ہوئے)ایک آدمی آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا اللہ کی قسم!اہل شام(معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھی)کافر ہوگئے۔عماررضی اللہ عنہ نے کہا:ایسا مت کہو،ہمارا قبلہ ایک ہے،نبی ایک ہے۔صحیح بات یہ ہے کہ وہ فتنہ زدہ لوگ ہیں جن سے قتال کرنا ہم پر واجب ہےیہاں تک کے وہ حق کی طرف لوٹ آئیں۔
ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا:
لا تقولوا:کفر أھل الشام۔قولوا:فسقوا،قولوا:ظلموا
‘‘یہ نہ کہو کہ اہل شام نے کفر کیا،کہو انہوں نے فسق کیا،ظلم کیا’’(منھاج السنہ۵/۲۴۶)
یاد رہے کہ جنگ جمل و صفین میں گنتی کے چند صحابہ نے شرکت کی تھی۔ان کا مقصد بھی جنگ کرنا نہیں تھا بلکہ ان دو گروہوں میں اصلاح کروانا تھا۔ان جنگوں کو بھڑکانے میں اصل کردار منافقین اور سبائی پارٹی کا تھا۔
قال عبداللہ بن الامام احمد:حدثنا أبی،حدثنا اسماعیل یعنی ابن علیۃ،حدثنا ایوب السختیانی،عن محمد بن سیرین،
قال:ھاجت الفتنۃ و أصحاب رسول اللہﷺ عشرۃآلاف،فما حضرھا منھم مائۃ،بل یبلغوا ثلاثین(السنۃ للخلال۴۴۶/۱)
امام ابن تیمیہ اس روایت کی سند کے بارے میں فرماتے ہیں:
و ھذاالاسناد من اصح اسناد علی وجہ الارض(منھاج السنہ۲۳۶/۶)
جب کسی فقہی معاملہ میں ایک سے زیادہ آراء ہوں توایک دوسرے پر طعن و تشنیع کی بجایے  فقہ میں (١) قرآن (٢) سنت کے بعد (٣)اجماع کا اصول اپنایا جاتا ہے اور اس کا احترام کیا جاتا ہے کیوں کہ  رسول اللہﷺ کا (صلى الله عليہ وسلم) کا ارشاد ہے:
“عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللَّهَ لَايَجْمَعُ أُمَّتِي أَوْقَالَ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ضَلَالَةٍ”۔
(ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي لُزُومِ الْجَمَاعَةِ، كِتَاب الْفِتَنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حدیث نمبر:۲۰۹۳)
ترجمہ:حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ:

اللہ تعالٰیٰ میری امت کو یا (راوی نے کہا) کہ محمد صلى الله عليه وسلم کی اُمت کو ضلالت وگمراہی پر مجتمع نہیں کریگا۔

نیز آپ (صلى الله عليه وسلم) کا فرمان ہے:
“فَمَا رَأَى الْمُسْلِمُونَ حَسَنًا فَهُوَعِنْدَ اللَّهِ حَسَنٌ وَمَارَأَوْا سَيِّئًا فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ سَيِّئٌ”۔(مسندِاحمد، حدیث نمبر۳۶۰۰)
ترجمہ:جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھی ہے اور جس چیز کو مسلمان بُرا سمجھیں وہ اللہ تعالٰیٰ کے نزدیک بھی بری ہے۔
ایک اور موقع سے آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا:

“مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ شِبْراً فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَةَ الْإِسْلَامِ مِنْ عُنُقِهِ”(مشکوٰۃ:۳۱)

ترجمہ:جوشخص جماعت سے بالشت برابر جدا ہوا تواس نے اسلام کی رسی اپنی گردن سے الگ کردی۔

اگر ہر شخص کو اختیار ہو کہ مسائلِ غیر منصوصہ میں جو چاہےاپنی رائے قائم کر لے تو بتلائیےیہ دینِ متین کھلونا بنے گا یا نہیں؟  ہر فردِ بشر  اپنی عقلِ نارسا کو حرفِ آخر گرداننے لگے گا اور اسی کے مطابق عمل کرے گا،  اس مضحکہ خیز  صورتِ حال پر سوائے ہنگامہ آرائی کے اور کیا ہوگا ؟

“اجماع”،  فقہ اسلام کی ایک اصطلاح اور اسلامی شریعت کا تیسرا اہم مآخد ہنے.اجماع سے مراد علمائے امت کا یا ان کی بڑی اکثریت کا، ہر زمانے میں کسی مسئلہ پر متفق ہوجانا ہنے.
کسی ایسے فقہی معاملہ جس پرعلماء اور جمہور کا اجماع ہو اس  پر ضرورت سے زیادہ اصرار کرنا امت میں فکری کنفیوژن، تفرقہ، فتنہ و فساد کا باعث ہو سکتا ہے. متنازعہ فقہی مسائل پر علمی بحث کے لیے مناسب فورم اعلی مدارس، تعلیمی تحقیقی ادارہ جات اور یونیورسٹیاں ہیں نہ کہ عوام الناس-

جزاک اللہ خیر (واللہ عالم)

……………………………………………..

بیانیہ

تمام مسلمان اپنے اپنے عقائد و نظریات، [جس کو وہ قرآن و سنت کی بنیاد پر دین اسلام سمجھتے ہیں] پر قائم رہتے ہوۓ، موجودہ فرقہ وارانہ ناموں کو ختم کرکہ قرآن میں الله کے عطا کردہ نام مسلم (الۡمُسۡلِمِیۡنَ ،مُّسْلِمَةً ،مُّسْلِمُونَ،مُّسْلِمًا) کہلانے پر متفق ہو جائیں تو یہ فرقہ واریت کے خاتمہ کی طرف پہلا موثر قدم ہو گا !

“مسلم” (الله کا فرمانبردار) کی نسبت الله کے صفاتی نام “السلام ” اور دین اسلام سے بھی ہے ، اس نام کا حکم اور تاکید الله نے قرآن میں 41 آیات میں بار بار دہرایا …

یہ ابتدا ہو گی، پہلا قدم “أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ “دین کامل کی طرف … کسی فرقہ کے نام سے شناخت اور وضاحت کی ضرورت نہیں کیونکہ … ” نظریات خود اپنی شناخت رکھتے ہیں” … فرق عمل سے پڑتا ہے-

برقی کتاب پی ڈی ایف ، آن لائن پڑھیں یا ڈونلوڈ ، شئیر کریں

http://bit.ly/2GMq4cb  : برقی کتاب – پی ڈی ایف لنک

  http://bit.ly/2Jq8CMe :  موبائل فرینڈلی – ٹیکسٹ فارمیٹ لنک

http://salaamone.com/muslim/

 

 

Image result for conflict
http://algazali.org/index.php?threads/8090/
http://www.darululoom-deoband.com/urdu/magazine/new/tmp/06-Furui%20masail%20me_MDU_5_May_12.htm
http://farooqia.com/ur/lib/1433/01/p14.php

 

Image result for salafi differences
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
مزید پڑھیں: