قرآن کریم کے تیس پاروں کا مختصر خلاصہ

مضامین قرآن کا مکمل خلاصہ اور منتخب آیات کا ترجمہ

انڈکس  خلاصہ  قرآن و منتخب آیات – پارہ # 1 سے # 30 تک/  [English Translation  —[—]

  1. خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 1
  2. خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 2
  3. خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 3
  4. خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 4
  5. خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 5
  6. خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 6
  7. خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 7
  8. خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 8
  9. خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 9
  10. خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 10
  11. https://bit.ly/Quran30ParahSummary
  12. خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 11
  13. خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 12
  14. خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 13
  15. خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 14
  16. خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 15
  17. خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 16
  18. خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 17
  19. خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 18
  20. خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 19
  21. https://bit.ly/Quran30ParahSummary
  22. خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 20
  23. خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 21
  24. خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 22
  25. خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 23
  26. خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 24
  27. خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 25
  28. خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 26
  29. خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 27
  30. خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 28
  31. خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 29
  32. خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 30
  33. https://bit.ly/Quran30ParahSummary
  34. مضامین قرآن ، ٧٠ سے زیادہ اہم مضامین  کا خلاصہ
  35. احکام القرآن https://bit.ly/AhkamAlQuraan
رمضان کے مہینے میں عشاء کی نماز کے بعد اور وتروں سے پہلے نماز (صلات)  تراویح باجماعت ادا کی جاتی ہے۔ جوبیس یا آٹھ رکعت پر مشتمل ہوتی ہے، اور دو دو رکعت کرکے پڑھی جاتی ہے۔ ہر چار رکعت کے بعد وقف ہوتا ہے۔ جس میں تسبیح و تحلیل ہوتی ہے اور اسی کی وجہ سے اس کا نام تروایح ہوا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان شریف میں رات کی عبادت کو بڑی فضیلت دی ہے (قیام الیل) ۔ حضرت عمر نے سب سے پہلی تروایح کے باجماعت اور اول رات میں پڑھنے کا حکم دیا اور اُس وقت سے اب تک یہ اسی طرح پڑھی جاتی ہے۔ اس نماز کی امامت بالعموم حافظ قرآن کرتے ہیں اور رمضان کے پورے مہینے میں ایک بار یا زیادہ مرتبہ قرآن شریف پورا ختم کردیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت  بیس رکعت تراویح پڑھتے ہیں ، تروایح کے بعد وتر بھی باجماعت پڑھے جاتے ہیں۔

خلاصہ مضمون قرآن اور تراویح

اللہ کا شکر ہے ہم کو پھر رمضان مبارک کا مہینہ عطا کیا، اللہ ہم سب کو اس مہ مبارک کی فضیلتوں سے مکمل فایدہ اٹھانے کی توفیق دے آمین- صلات تراویح یا قیام اللیل میں خطیب و حفاظ مکمل قرآن کی تلاوت کرتے ہیں-اگرچہ مسلمان خود انفرادی طور پر بھی قرآن پڑھتے ہیں مگر تراویح کا اپنا ہی رتبہ ہے- قیامِ لیل، یعنی تراویح میں تلاوتِ قرآن، قرآن کی سماعت و قراء ت، قرآن سے شغف اور استفادے کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ قرآن بغیر سمجھے پڑھنا اور سننا بھی باعثِ اجروثواب اور قلب کو گرمانے کا وسیلہ ہے، لیکن اسی پر اکتفا کرنا ہرگز صحیح نہیں ہے۔  اکثریت عربی سے نابلد ہونے کی وجہ سے قران کو سمجھ نہیں سکتے مگر تجربہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر تراویح سے پہلے پانچ دس منٹ میں مختصر طور پر پارہ کا خلاصہ بیان کر دیں تو  مبتدی زیادہ توجہ سے تلاوت قرآن کو کچھ سمجھ سکتے ہیں- اکثر مساجد میں یہ اہتمام کیا جاتا ہے- اس سے قرآن کو سمجھنے کا فایدہ اور ثواب بھی ہو گا- کہیں تراویح دے پہلے اور کہیں تراویح کے بعد علماء کرام خلاصہ پیش کرتے ہیں- کچھ لوگ اس کو بدعت قرار دے کر ایسا نہیں کرتے- مساجد میں اکثر نماز مغرب یا عشاء کے بعد درس قرآن ہوتا ہے ، کیا یہ بدعت ہے؟

ہم جانتے ہیں کہ نماز تراویح کو جب حضرت عمر رضی اللہ نے قایم کیا تو اس کو ” بدعت حسنہ” قرار دیا- کچھ لوگ تو نماز تراویح کو ہی بدعت قرار دے کر مخالفت کرتے ہیں- یہ ایک لمبی نہ ختم نونے والی بحث ہے-

رمضان کی برکات کا زیادہ فائدہ اٹھانے کے اپنی مسجد میں تجویز دیں کہ مسجد میں تراویح سے پہلے یا بعد میں تلاوت والے پارہ کا  مختصر خلاصہ پیش کر دے جائے-

مَّن يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُن لَّهُ نَصِيبٌ مِّنْهَا ۖ وَمَن يَشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَكُن لَّهُ كِفْلٌ مِّنْهَا ۗ وَكَانَ اللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ مُّقِيتًا (النسا،85)

ترجمہ : جو بھلائی کی سفارش کریگا وہ اس میں سے حصہ پائے گا اور جو برائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا، اور اللہ ہر چیز پر نظر رکھنے والا ہے (قرآن ;4:85)

تراویح میں تلاوت قرآن پاک توجہ سے سماعت کریں، پارہ ترجمہ کے ساتھ پڑھ کر جاییں اور مغرب کے بعد اس دن کے پارہ کا خلاصہ پڑھ کر جاییں. امید ہے آپ تلاوت قرآن کو بہتر سمجھ سکیں گے. انشا اللہ –

اس رمضان میں قرآن کو سمجھنے کے لیے:

1.متعلقہ پارہ مسجد جانے سے پہلے یا تراویح پڑھنے سے قبل  گھر پر پڑھا جایے
احکام القرآن. روزانہ دیکھیں ، کم از کم ایک آیت احکام سوشل میڈیا پر بھی شیر کریں:  https://bit.ly/AhkamAlQuraan
2. تراویح سے پہلے مسجد میں پڑھ کر سنایا جایے پانچ (5) منٹ سے زیادہ نہیں لگنا چاہئے
3.رات کو  مکّہ لائیو یو ٹیوب پر براہ راست روزانہ تراویح دیکھیں ، انگلش ترجمہ کے ساتھ – (تراویح آن لائن )
4.دن کو کسی وقت پچھلے دن کی تراویح کی ویڈیو ریکارڈنگ دیکھیں اور سنیں ، ترجمہ پر غور کریں
5.دن کو ایک  مکمل پارہ ترجمہ کے ساتھ پڑہیں –
6. قرآن مجید کاہ  ایک ’مختصرخلاصہ حاصل کرنے کے لئے سارا سال پڑھیں-
7.دعوہ کےطور پر ساتھی مسلمانوں اور غیر مسلموں کو مرکزی خیال کی ایک جھلک دکھائیں تاکہ وہ قرآن مجید کا
موضوع اور اسلوب سمجھ سکیں اور مکمل قرآن پڑھنے کا شوق پیدا ہو-
8. مضامین قرآن ویب سائٹ پر دن میں کم از کم ایک مرتبہ کسی ایک مضمون کو پڑھیں اور لنکس سے مزید تحقیق کریں

تعارفی مضامین



رمضان میں قیام لیل اور تراویح
تراویح: آںحضورؐ کا عمل
حضرت زید بن ثابتؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں بوریا کا ایک حجرہ بنایا۔ کئی راتوں تک اس میں نماز (تہجد) پڑھی یہاں تک کہ بہت سے لوگ آپؐ کے پیچھے جمع ہوگئے۔ پھر ایک رات لوگوں نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی آواز نہ سنی۔ انھوں نے گمان کیا کہ حضوؐر سوگئے ہیں۔ بعض نے کھنکارنا شروع کیا کہ آپؐ حجرے سے نکل کر ان کی طرف تشریف لائیں۔ آں حضوؐر نے باہر آکر فرمایا: مجھے تمھاری کیفیت معلوم ہے۔ مجھے یہ خوف ہوا کہ کہیں تم پر یہ نماز فرض نہ کردی جائے، اور اگر یہ چیز تم پر فرض ہوجاتی تو تم اس کو ادا نہ کرپاتے۔ اے لوگو! اس کو اپنے گھروں میں پڑھو۔ آدمی کی بہترین نماز اس کے گھر کی ہے، ماسواے فرض نمازوں کے‘‘(متفق علیہ)۔حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی مسجد میں نماز پڑھے تو اپنی نماز میں سے کچھ حصہ گھر کے لیے بھی رکھ لے۔ اس نماز کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس گھر میں بھلائی کردے گا‘‘۔ (مسلم)
حضرت ابوذر غفاریؓ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روزے رکھے۔ آپؐ نے تراویح میں ہمارے ساتھ قیام نہ کیا، یہاں تک کہ صرف سات دن رہ گئے۔ ۲۴رمضان کی رات کو حضوؐر نے ہمارے ساتھ قیام کیا، یہاں تک کہ تہائی رات گزر گئی۔ جب چھے راتیں باقی رہ گئیں تو آپؐ نے پھر ہمارے ساتھ قیام نہ کیا۔ جب پانچ راتیں رہ گئیں تو حضوؐرنے پھر قیام فرمایا، یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! کاش! آپؐ اس سے زیادہ قیام فرماتے۔ آپؐ نے فرمایا : آدمی جس وقت امام کے ساتھ نماز پڑھتا ہے یہاں تک کہ فارغ ہوجاتا ہے تو اس کے لیے ساری رات کا قیام لکھا جاتا ہے۔ جب چار راتیں باقی رہ گئیں تو آپؐ نے پھر ہمارے ساتھ قیام نہ کیا۔ جب تین راتیں باقی رہ گئیں تو آپؐ نے اپنے گھروالوں کو جمع کیا اور اپنی عورتوں کو اور لوگوں کو بھی جمع کیا اور ہمارے ساتھ کھڑے ہوئے۔ اس موقع پر ہمیں فلاح کے فوت ہوجانے کا خطرہ ہوا (یعنی سحری کھانے سے رہ جانے کا خوف ہوا)۔ پھر بقیہ راتوں میں قیام نہیں کیا‘‘۔ (ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ)
اس سے پہلے ایک روایت حضرت زید بن ثابتؓ کی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ رمضان کے ابتدائی ایام میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےتہجد پڑھی۔ اس طویل روایت میں حضرت ابوذر غفاریؓ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے پہلے ۲۴ دن ہمارے ساتھ قیام نہیں کیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ دونوں روایتیں دو مختلف رمضان کا ذکر کرتی ہیں۔ حضرت ابوذرؓ جس رمضان کا ذکر کر رہے ہیں وہ بعد کا واقعہ ہے۔ اس روایت میں حضرت ابوذرؓ نے حضوؐر سے درخواست کی کہ کاش! آپؐ زیادہ قیام فرماتے جس پر آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب آدمی امام کے ساتھ نماز پڑھتا ہے اور اس وقت تک ساتھ رہتا ہے جب امام سلام پھیرے، تو اس شخص کے لیے رات بھر کا قیام لکھا جاتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی عنایت اپنے بندوں پر ایسی ہے کہ رات کی نماز جماعت کے ساتھ امام کے پیچھے پڑھتے ہیں، یعنی فرض ادا کرتے ہیں تو اس کا اجر رات بھر کے قیام کے برابر لکھا جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ اپنے کرم سے جتنا چاہے عطا فرما دے۔ اس کا اصول ہے کہ سزا دیتا ہے تو صرف جرم کے مطابق، اور انعام دیتا ہے تو اپنی رحمت کے مطابق، یعنی آدمی کی خدمت سے کئی گنا زیادہ۔ اس لیے حضوؐر نے فرمایا کہ آدھی رات تک ہم نے تمھیں نماز پڑھائی، یہی کافی ہے، اجر تو اللہ ساری رات کے قیام کا دے گا۔ پھر حضرت ابوذر غفاریؓ یہ بھی کہتے ہیں کہ جب تین راتیں باقی رہ گئیں تو آں حضوؐر نے اپنے گھر والوں، بیویوں، بچوں اور دوسرے لوگوں کو جمع کیا اور(تہجد) کی نماز پڑھائی۔ یہاں تک کہ انھیں اندیشہ ہوا کہ ہم فلاح سے رہ جائیں گے۔ پوچھا گیا کہ فلاح کیا ہے تو حضرت ابوذرؓ نے جواب دیا: اس سے مراد سحری کا کھانا ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ راوی جس نے حضرت ابوذرؓ سے سوال کیا کہ فلاح کیا ہے کوئی دوسرا ہے۔ حضرت ابوذرؓ نے بتایا کہ قیام اتنا طویل ہوا کہ خدشہ ہوگیا کہ آج سحری کا کھانا مشکل ہی سے کھایا جائے گا۔ اس روایت سے یہ ثبوت بھی ملا کہ یہ پہلے رمضان کی طرح نہیں کہ جس میں آں حضوؐر نے تراویح کا انتظام کیا تھا، تو لوگ آپ کی آواز سُن کر جمع ہوگئے تھے اور اوائل رمضان میں تراویح پڑھی تھی، بلکہ اس بعد کے رمضان میں آپؐ نے اور لوگوں کو بھی جمع کیا اور گھر کے بال بچوں کو بھی جمع کرکے نماز پڑھنے کا حکم دیا۔ اس سے اس بات کا ثبوت بھی مل گیا کہ حضرت عمرؓ نے تراویح کا جو انتظام کیا تھا وہ خلافِ سنت نہ تھا۔ حضور اکرمؐ نے نہ صرف خود نماز پڑھی بلکہ یہ بھی ثابت ہوا کہ دیگر لوگوں کو جمع بھی کیا۔
حضور اکرمؐ نے باقی دن جو (تہجد) نہیں پڑھائی تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہیہ  فرض نہیں بلکہ سنت ہے۔ حضوؐر نے لوگوں کو جمع بھی کیا ہے اور نہیں بھی۔ لوگوں کو ازخود جمع ہوجانے سے روکا بھی نہیں، تماز پڑھائی بھی ہے اور نہیں بھی۔ اس طرح آں حضوؐر نے اپنے عمل سے یہ بتا دیا کہ فرض، واجب، سنت اور نفل کیا ہیں۔ تہجد نفل ہے جس پر آں حضورؐنے خود عمل کیا تو امت کے لیے سنت بن گیا، ہے مگر اس کو لازم نہیں کیا۔

خلیفہ اوّل کا عمل
حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیام کے لیے رغبت دلاتے تھے لیکن تاکیداً حکم نہیں دیتے تھے۔ آپؐ فرماتے تھے کہ جو شخص صحیح اعتقاد کے ساتھ ثواب کی خاطر قیامِ رمضان کرتا ہے اس کے پہلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔ پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رحلت فرما گئے تو حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خلافت میں بھی یہ معاملہ اسی طرح چلتا رہا اور حضرت عمرؓ کے ابتدائی زمانۂ خلافت میں بھی یہی معمول تھا۔

رمضان صیام  2 حجرہ میں فرض ہوا اور حضرت عمر رض نے “نعم البدعہ” کو 14 حجرہ میں شروع کیا تو ١٢ سال تراویح کا وجود نہ تھا جیسا اب ہے-
اس روایت سے معلوم ہوا کہ خلیفہ دوم نے اپنے دوسرے نصف دورِ خلافت میں نمازِتراویح کو مساجد میں باجماعت ادایگی کی شکل میں اختیار فرمایا جو آج تک مسلمانوں میں رائج ہے۔ 

خلیفہ دوم کا عمل
حضرت عبدالرحمن بن عبدالقاری روایت کرتے ہیں کہ ایک شب حضرت عمر بن خطابؓ کے ساتھ مسجد میں گیا تو دیکھا کہ لوگ علیحدہ علیحدہ مسجد میں نماز پڑھ رہے ہیں اور کچھ لوگ ایک امام کے ساتھ نماز ادا کر رہے ہیں۔ اس وقت حضرت عمرؓ نے فرمایا: اگر میں انھیں ایک امام کے پیچھے جمع کردوں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ پھر فیصلہ کر کے حضرت ابی بن کعبؓ کو امام مقرر کردیا۔ جب دوسری شب مسجد کی طرف آئے تو دیکھا اب لوگ ایک امام کی اقتدا میں نماز ادا کر رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر حضرت عمرؓ نے فرمایا: یہ کیا اچھی بدعت (“نعم البدعہ” ) ہے اور جس نماز (تہجد) سے تم غفلت برتتے وہ  زیادہ بہتر ہے کہ تم قیامِ لیل کرو۔ خود حضرت عمرؓ آخر شب کے قیام (تہجد) کو ترجیح دیتے تھے اور لوگ اوّل شب کو قیام کرتے تھے۔

تراویح کی تعداد

حضرت سائب بن یزید روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے حضرت ابی بن کعبؓ اور حضرت تمیم داریؓ کو حکم دیا کہ وہ رمضان میں لوگوں کو ۱۱ رکعت جماعت سے پڑھائیں اور امام ان سورتوں کی تلاوت کرتے تھے جن میں تقریباً سو آیات ہوتیں۔ طویل قیام کی وجہ سے ہم لاٹھیوں کے سہارے کھڑے ہوتے تھے اور مسجد سے ہماری واپسی فجر کے قریب ہوتی۔ (موطا)

حضرت اعرجؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ رمضان کے مہینے میں کفار پر لعنت کرتے تھے اور امام سورۂ بقرہ آٹھ رکعت میں پڑھتے اور اگر وہ اس سورہ کو ۱۲ رکعت میں ختم کرتے تو ہم سمجھتے کہ انھوں نے نماز میں تخفیف کی ہے (ایضاً)۔حضرت عبداللہ بن ابوبکر روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی بن کعبؓ سے سنا ہے وہ فرماتے ہیں کہ جب ہم رمضان میں قیامِ لیل سے فارغ ہوتے تو خادموں سے کہتے کہ کھانا لانے میں جلدی کرو تاکہ سحری چھوٹ نہ جائے۔ ایک دوسری روایت میں اس طرح ہے کہ فجر (صبح صادق) طلوع نہ ہوجائے۔ (ایضاً)
نمازِ تراویح کے بارے میں اکثر احادیث میں قیامِ لیل کا لفظ استعمال ہوا ہے جو بجاے خود اس بات کی دلیل ہے کہ قیام کرنے والا حسب توفیق قیام کرے۔تعداد رکعات کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ مندرجہ بالا تینوں احادیث میں بھی مختلف تعداد کا بیان اس معاملے میں کسی پابندی کو ظاہر نہیں کرتا۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مقتدیوں کی آسانی اور رمضان المبارک میں قرآن کا دورانِ نماز پڑھنا اس بات کا متقاضی تھا کہ تعدادِ رکعات میں مناسب اضافہ کرلیا جائے تاکہ طویل قیام کے لیے لاٹھیوں کا سہارا نہ لینا پڑے۔ لہٰذا تراویح کے سلسلے میں جس قدر بھی اختلافی آرا سامنے آتی ہیں ان کی بنیاد پر کسی نص یا حکمِ رسالت کی نفی نہیں ہوتی۔(افاداتِ مودودی، درس حدیث مشکوٰۃ، باب الصلوٰۃ، مرتبین: میاں خورشید انور، بدرالدجیٰ خان،ص ۳۱۵۔۳۲۰)
——————–

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

’’جو شخص غیر قرآن میں ہدایت کا متلاشی ہوگا اللہ اس کو گمراہ کردے گا، وہ (قرآن) اللہ تعالیٰ کی ایک مضبوط رسی ہے اور وہ ایک محکم اور مضبوط ذکر ہے اور وہ ایک سیدھا راستہ ہے …‘‘(رواہ حضرت علیؓ، ماخوز، ترمذی 2906)

“اللہ کی کتاب میں ہدایت اور نور ہے، جو اسے پکڑے گا وہ ہدایت پر رہے گا اور جو اسے چھوڑ دے گا وہ گمراہ ہوجائے گا۔”  (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 6227) 

 میں نے تم کو ایک ایسے صاف اور روشن راستہ پر چھوڑا ہے جس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے، اس راستہ سے میرے بعد صرف ہلاک ہونے والا ہی انحراف کرے گا (ماجہ 43)

خطبہ حج الوداع ہزاروں مومنین  ۓ سنا،  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

“… اور تمہارے درمیان چھوڑے جاتا ہوں میں ایسی چیز کہ اگر تم اسے مضبوط پکڑے رہو تو کبھی گمراہ نہ ہو اللہ کی کتاب….صحیح مسلم 2950،  [ابی داوود 1905]

نبی کریم  ﷺ  نے کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھامے رہنے کی وصیت فرمائی تھی(قَالَ:‏‏‏‏ أَوْصَى بِكِتَابِ اللَّهِ.) ۔ (البخاری: حدیث نمبر: 5022)

Digital Book (Over 520 Pages A-5) OR https://bit.ly/AhkamAlQuran-pdf

قرآن میں تہجد کا ذکر ہے تراویح کا نہیں ، بعض علماء کے نزدیک قیام الیل ، تراویح ، تہجد ، قیام رمضان ایک ہی عبادت کے نام ہیں (واللہ اعلم)

حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قرآن سیکھو اور پھر اسے پڑھو اور یہ یاد رکھو کہ اس شخص کی مثال جو قرآن سیکھتا ہے پھر اسے ہمیشہ پڑھتا رہتا ہے اس پر عمل کرتا ہے اور اس میں مشغولیت یعنی تلاوت وغیرہ کے شب بیداری کرتا ہے اس تھیلی کی سی ہے جو مشک سے بھری ہو جس کی خوشبو تمام مکان میں پھیلتی ہے اور اس شخص کی مثال جس نے قرآن سیکھا اور سو رہا یعنی وہ قرآن کی تلاوت قرأت شب بیدار سے غافل رہا یا اس پر عمل نہ کیا اس تھیلی کی سی ہے جسے مشک پر باندھ دیا گیا ہو۔ (ترمذی، نسائی، ابن ماجہ)   (مشکوٰۃ المصابیح: حدیث نمبر: 2152) 


 دوسرا رخ 

حق کی تلاش میں دونوں رخ دیکھنے ضروری ہیں . یہ دوسرا رخ ہے ، اپنی سمجھ کے مطابق مل کریں.

یہ تحریرصَلَاة‎ تہجد، تراویح، قیام اللیل یا قیام رمضان پرعام روایاتی تحریروں سے ہٹ کر ایسے پہلو جو اکثرپہلے سے تشکیل شدہ تصورات, خیالات و نظریات کی وجہ سے نظر انداز ہو جاتے ہیں ان پر توجہ مرکوز کرنے کی ایک کوشش ہے. لیکن اگراس میں کوئی بات قرآن و سنت سے  باہر معلوم  ہو یا  واضح احکامات کی بجانے،  مسترد، منسوخ شدہ احکام، مقدس تحریروں سے من پسند تحریروں کا انتخاب,  صرف تاویلات کے کی بنیاد پر دلیل کی عمارت معلوم  ہو، تو وہ فوری طور پر مسترد کر دی جائے-
مکمل تحقیق اور ریفرنس / لنکس گوگل ڈوکومنٹ پر پڑھیں(i) ننے ٹیب پر >>> یا (2) <Pdf>>…  یا (iii) ذیل میں >>>
Reading time 12 minutes.

https://bit.ly/Taraveeh  \ https://bit.ly/Taraweeh-doc

لنکس \ ریفرینکس

تراویح یا تہجد: قرآن و سنت کی روشنی میں
بریگیڈیئر آفتاب احمد خان (ریٹائرڈ) فری لانس مصنف، محقق اور بلاگر ہیں، پولیٹیکل سائنس، بزنس ایڈمنسٹریشن، اسٹریٹجک اسٹڈیزمیں ماسٹرزکیا ہے اور قرآن کریم، دیگر آسمانی کتب، تعلیمات کے مطالعہ میں دو دہائیوں سے زیادہ وقت صرف کیا ہے- Defence Journal کے لینے وہ 2006 سے ” لکھ رہے ہیں۔ ان کی منتخب تحریریں ای کتب اور آرٹیکلزویب پر مہیا ہیں۔ ان کے علمی و تحقیقی کام کوتقریبا 5 ملین تک رسائی ہو چکی ہے.
Tejdeed@gmail.com

 

ریفرنسز \ لنکس

[1] (قرآن 3:7).https://quran1book.blogspot.com/2023/09/Key2Quran.html 

[2] 2:219 , 4:43, 5:90-91, https://forum.mohaddis.com/threads/ 

[9] البخاری 6113, 2010

[13]

  1.  حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت ابن عمر سے سوال کیا کہ میں رمضان میں امام کے پیچھے تراویح پڑھتا ہوں یہ ٹھیک ہے؟ انھوں نے فرمایا کہ تم گدھے کی طرح منہ اٹھا کر کھڑے رہتے ہو۔ (ابن ابی شیبہ، حدیث نمبر: 7797)
  2. حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اگر مجھے ایک یا دو سورتیں آتی ہوں اور میں انھیں دہراتا رہوں یہ مجھے اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ میں کسی امام کے پیچھے تراویح پڑھوں۔ ابن ابی شیبہ، حدیث نمبر: 7798)
  3. حضرت اعمش فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم، حضرت علقمہ اور حضرت اسود لوگوں کو فرض نماز پڑھاتے تھے، لیکن تراویح کی امامت نہیں کراتے تھے۔ ابن ابی شیبہ، حدیث نمبر: 7799)
  4. حضرت عمر بن عثمان فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن سے سوال کیا کہ اے ابو سعید! رمضان میں لوگ تراویح پڑھتے ہیں، آپ کا کیا خیال ہے کہ میں لوگوں کے ساتھ پڑھوں یا اکیلے پڑھوں؟ انھوں نے فرمایا کہ تم خود قرآن پڑھو یہ مجھے اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ تمہیں کوئی اور قرآن پڑھ کرسنائے۔(ابن ابی شیبہ، حدیث نمبر:7801 )
  5. حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ درویش لوگ مسجد کے ایک کونے میں نماز پڑھا کرتے تھے، جبکہ امام لوگوں کو تراویح پڑھا رہا ہوتا تھا۔( ابن ابی شیبہ، حدیث نمبر:7805)
  6. حضرت ایوب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن ابی ملیکہ کو دیکھا کہ وہ مقام ابراہیم کے پیچھے لوگوں کو تراویح کی نماز پڑھا رہے تھے جبکہ لوگ پوری مسجد میں کوئی طواف کررہا تھا اور کوئی نماز پڑھ رہا تھا۔ ۔( ابن ابی شیبہ، حدیث نمبر:7806)
  7. حضرت ابو الشعثاء فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن زبیر کے زمانے میں دیکھا کہ امام لوگوں کو تراویح پڑھا رہا ہوتا تھا اور لوگ مسجد کے گوشوں میں اپنی نماز پڑھ رہے ہوتے تھے۔ ۔( ابن ابی شیبہ، حدیث نمبر:7807)
  8. حسن بصری سے روایت ہے کہ  عمر بن خطاب ؓ نے لوگوں کو ابی بن کعب ؓ کی امامت پر جمع کردیا، وہ لوگوں کو بیس راتوں تک نماز   (تراویح)   پڑھایا کرتے تھے اور انہیں قنوت نصف اخیر ہی میں پڑھاتے تھے اور جب آخری عشرہ ہوتا تو مسجد نہیں آتے اپنے گھر ہی میں نماز پڑھا کرتے، لوگ کہتے کہ ابی بھاگ گئے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ دلیل ہے اس بات کی کہ قنوت کے بارے میں جو کچھ ذکر کیا گیا وہ غیر معتبر ہے اور یہ دونوں حدیثیں ابی بن کعب ؓ کی اس حدیث کے ضعف پر دلالت کرتی ہیں کہ رسول اللہ  ﷺ  نے وتر میں قنوت پڑھی  ( تخریج دارالدعوہ:  تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ١٠) (ضعیف)  (حسن بصری اور عمر بن خطاب ؓ کے درمیان سند میں انقطاع ہے )  سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 1429

[21] اے ایمان والو ! تم ایسی بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ؟ 0 اللہ کے نزدیک یہ بات بڑی قابل نفرت ہے کہ تم ایسی بات کہو جو کرو نہیں۔0 (61:3,2) \ یہ حاکم وقت کا ایک عارضی مشورہ تھا، نہ کہ ابدی حکم ، جس آپ نے خود بھی عمل نہ کیا نہ خلفاء رشدین نے بلکہ رات کو جب لوگ سو رہے ہوتے ہیں تو (صَلَاة‎  تہجد ) کی فضیلت و رغبت دی.

[23] 17:79 قرآن : https://tanzil.net/#trans/ur.maududi/17:79 “

اور رات کو تہجد پڑھو، یہ تمہارے لیے نفل ہے، بعید نہیں کہ تمہارا رب تمہیں مقام محمود پر فائز کر دے (17:79)

ترجمہ: بیشک تمہارا رب جانتا ہے کہ تم شب میں دو تہائی رات کے قریب یا نصف یا تہائی رات قیام کرتے ہو اور ایک گروہ تمہارے ساتھیوں میں سے بھی اور اللہ ہی رات اور دن کا اندازہ ٹھہراتا ہے۔ اس نے جانا کہ تم اس کو نباہ نہ سکو گے تو اس نے تم پر غنایت کی نظر کی تو قرآن میں سے جتنا میسر ہوسکے پڑھ لیا کرو۔ اس کے علم میں ہے کہ تم میں مریض بھی ہوں گے اور ایسے لوگ بھی ہوں گے جو اللہ کے فضل کی طلب میں سفر کریں گے اور دوسرے ایسے لوگ بھی ہوں گے جو اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے اٹھیں گے تو جتنا میسر ہوسکے اس میں سے پڑھ لیا کرو اور صَلَاة‎   کا اہتمام رکھو، زکوۃ دیتے رہو اور اللہ کو قرض دو قرض اچھا اور جو کچھ بھی تم اپنے لیے پہلے سے بھیج رکھو گے اس کو اللہ کے پاس اس سے بہتر اور اجرا میں برتر پائو گے اور اللہ سے استغفار کرتے رہو۔ بیشک اللہ بڑا ہی غفور رحیم ہے (القرآن – سورۃ نمبر73 المزمل، آیت نمبر 20)

[27]  [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2620] https://islamicurdubooks.com/ur/hadith/hadith_.php?vhadith_id=28913&bookid=5&zoom_highlight=6971