Myth Exposed: Ayesha (r.a) Not 9 Year-Old Bride توہین رسول اللہ ﷺ کی قدیم مہم

 محدثین کی طرف سے متن کے بجایے “سلسلہ اسناد” پر زور دینے کی وجہ سے  ہیروں کے ساتھ کنکر بھی شامل ہو گۓ It was neither an Arab tradition to give away girls in marriage at an age as young as seven or nine years, nor did the Prophet marry Ayesha at such a young age. The people of Arabia did not object to this marriage because it never happened in the manner it has been narrated. Obviously, the narrative of the marriage of nine-year-old Ayesha by Hisham ibn `Urwah cannot be held true when it is contradicted by many other reported narratives. Moreover, there is absolutely no reason to accept the narrative of Hisham ibn `Urwah as true when other scholars, including Malik ibn Anas, view his narrative while in Iraq, as unreliable. The quotations from Tabari, Bukhari and Muslim show they contradict each other regarding Ayesha’s age. Furthermore, many of these scholars contradict themselves in their own records. Thus, the narrative of Ayesha’s age at the time of the marriage is not reliable due to the clear contradictions seen in the works of classical scholars of Islam. Therefore, there is absolutely no reason to believe that the information on Ayesha’s age is accepted as true when there are adequate grounds to reject it as myth. Moreover, the Quran rejects the marriage of immature girls and boys as well as entrusting them with responsibilities. Read full 》》》》》》Myth : Ayesha, 9 Year-Old Bride Exposed: https://bit.ly/AyeshaMyth

توہین رسول اللہ ﷺ کی 1200 سالہ مہم

ایسی لایعنی محیر العقول[1] احادیث بھی شامل کر دی گیئں جوکہ نہ صرف قرآن ، سنت اور عقل[2] کے خلاف ہیں بلکہ توہین و گستاخی  رسول اللہ ﷺ کے زمرے میں بھی شمار ہوتی ہیں- رسول اللہ ﷺ  ںے جب صرف ایک کتاب، قرآن  لکھنے اور احادیث کو حفظ و بیان تک محدود[3] کیا تو حضرت ابو حریرہ (رضی الله )  نے ذخیرہ احادیث کو آگ لگا دی[4] اور پھر مرتے دم تک احادیث نہ لکھیں ان کے ساتھ اور جید علماء ، محدث صحابہ بھی شامل تھے[5]– صرف کچھ کو حفظ کمزوری پر ذاتی نوٹس کی اجازت ملی[6]– خلفاء راشدین ںے بھی اس پابندی کی سنت پر سختی سے عمل کیا [7] حضرت عمر (رضی الله)  نے توپابندی کا فرمان جاری کرکہ معامله ختم کر دیا[8]–  رسول اللہ ﷺ نے اپنی پیغمبرانہ حکمت و فراست سے ایسا طریقہ بھی بتلا دیا کہ ایک عام مسلمان بھی اصل اور نقل میں فرق کر سکتا ہے جن کو “اصول علم حدیث” کی شکل میں احقر نے اکٹھا کیا ہے[9]، سب سے اہم , حدیث  کے متن ( text, contents) کو بمطابق قرآن ، سنہ اور عقل و فہم قابل قبول ہونا ہے،پھر سلسلہ اسناد وغیرہ-  مگر بدعة نے سنت  رسول اللہ ﷺ پر غلبہ پا لیا اور گمراہی و ضلاله کا راستہ کھل  گیا[10]

غلطی کی اصلاح کی  بجایے بعد کے علماء عجیب و غریب تاویلات سے  مشکوک احادیث کے حق میں دلائل دے کر درست ثابت کرنے کی لاحاصل کوشش کرتے رہتے ہیں جو کہ فضول اختلافات اور فرقہ واریت کے علاوہ کوئی مقصد حاصل نہیں کر سکتیں- کیونکہ  صحاح ستہ کی تدوین سے قبل اہل سنّه کے چاروں مشہورفقہی مکاتب وجود پزیر ہو چکے تھے اور پہلی دوسری صدی کے فقہا اور جید علماء پہلے ہی اس قسم کی متنازعہ احادیث کو نظر انداز کرچکے تھے-  ان میں سے ایک ام المومنین  حضرت عائشہ (رضی الله)  کی  رسول اللہ ﷺ سے شادی کے وقت عمر کا معامله ہے[11]– اس حدیث کی بنیاد پراسلام دشمن رسول اللہ ﷺ اور ام المومنین کی ذات مقدس پر توہین آمیز پراپیگنڈا کرکہ مسلمانوں کی دل آزاری کرتے رہتے ہیں- اس حدیث کا اس کے علاوہ اور کوئی مقصد نہیں مگر علماء اس قسم کی احادیث کو منسوخ کرنے سے منکر ہیں جبکہ وہ راویوں کی متنازعہ روایات ہیں جو تحقیق سے بھی نادرست قرار پاتی ہیں- جب کوئی اسلام دشمن ان احادیث کو بیان کرتا ہے تو مسلمان احتجاج کرتے ہیں-

جون 2022 میں انڈیا کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی رہنما نوپور شرما کے پیغمبر اسلام کی کم عمر  حضرت عائشہ (رضی الله)  سے شادی کے متعلق متنازع بیان کا معاملہ بین الاقوامی سطح پر بھی اٹھ رہا ہے- تمام دنیا میں احتجاج ہو رہا ہے- مگر  گستاخ رسول اللہ ﷺ کہتے ہیں کہ ہم تو آپ کی مقدس کتاب البخاری ، المسلم سے حدیث دھرا رہے ہیں!

قرآن میں “بَلَغُوا النِّکَاحَ” نکاح کی عمر کا بیان ہے[12]۔ فقہا اور علماء نے قرآن، سنت اور مستند احادیث کی روشنی میں لڑکے کے لئےسن بلوغت  اٹھارہ اور لڑکی کے لئے سترہ سال مقرر کئے، بعض نے پندرہ – امام اعظم ابوحنیفہ کے مذہب میں لڑکا اور لڑکی پندرہ سال کی عمر پر شرعاً بالغ قرار ہیں

اگر سنت  محمد رسول اللهﷺ الرسول اللہ ﷺ میں کسی زوجہ کی عمر نو سال ہوتی تو پھر اس سنت پر تواتر سےعمل بھی ہوتا۔ مگر نہ عمل صحابہ سے یہ سنت ثابت ہے نہ ہی اس کے قائل اپنی بیٹیوں پر لاگو کرتے ہیں۔

جو بات قرآن، سنت، مستند احادیث، عقل و فہم سے ثابت نہیں وہ متروک، مسترد ہے، اس پر اصرار، ملحدین وکفار کو رسول اللہ ﷺ پر بہتان تراشی میں مدد کرنا ہے جو گناہ کبیرہ فتنہ و فساد ہے۔ کتب احادیث کو رسول اللہﷺ کے احکام کی روشنی میں خرافات سے پاک کرنا ضروری ہے[13]۔

تمام لوگ ہندو، مسلم، یہود و نصاری، ملحدین جو اس گستاخ رسول اللہ ﷺ مہم میں کسی طریقہ سے بھی شامل ہیں ملعون جہنمی ہیں۔

مزید :حضرت عائشہ (رضی الله) – نو سال عمر میں شادی کا افسانہ ……. [ ……….]