قوم پرستی اور اسلام Nationalism and Islam

آجکل نسلی عصبیت پرفخرکرنےکا بہت رواج ہے-

لوگ سندھی، بلوچی، پنجابی ، مہاجر پختون ہونے پرفخرکرتےہیں- تاریخ ظاہرکرتی ہے کہ اس خطہ میں جن لوگوں نے کوئی قابل ذکر کام کیا وہ اکثر مسلمان کی حثیت سے تھا ناکہ نسلی برتری پر اگرچہ قومی روایت کا بھی اہم کردارتھا-

 

قوم پرست (nationalist) کے معنی ایک ایسا فرد ہے جو کہ اپنی قوم سے محبت رکھتا ہے اور اس کو آزاد اور خوشحال اور برسر ترقی دیکھنا چاہتا ہے۔
اکثر مسلم مفکرین قوم پرستی کو انسانیت کے لئے زہر قاتل قرار دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر قوم پرستی کا جذبہ صرف اپنی قوم کی ترقی تک محدود ہوتا تو یہ ایک شریفانہ جذبہ ہوتا، لیکن درحقیقت یہ محبت سے زیادہ عداوت، نفرت اور انتقام کے جذبات اس کو جنم دیتا ہے۔
قوم پرست کے جذبات اپنی قوم کے مجروح اور کچلے ہوئے جذبات یا بعض اوقات زیادتیوں یا مظالم سے بھڑک اٹھتے ہیں۔ اس کا آغاز اپنی قوم کے خلاف ہونے والی ناانصافیوں سے ہوتا ہے۔ اس کے مقاصد اول ان بے انصافیوں کی تلافی کرنا ہوتا ہے جو کسی دوسری قوم نے واقعی یا خیالی طور پر برپا کررکھی ہوں۔
اس جذبہ کر کوئی اخلاقی ہدایت، کوئی روحانی تعلیم، یا شریعت الٰہی رہنمائی اور ہدایت فراہم نہیں کررہی ہوتی لہٰذا یہ جذبہ معاشی قوم پرستی، نسلی منافرت کا باعث بنتا ہے۔ اس جذبہ کےباعث بدامنی، جنگ اور قتل و غارت گری تاریخ میں ملتی ہے۔
جنوبی ایشیا میں مسلم قوم پرستی سے مراد وہ تمام سیاسی اور تہذیبی اقدامات ہیں جن کی وجہ سے جنوبی ایشیا میں اسلام کی بنیاد پر مسلمانوں کاالگ تشخص قائم کرنا تھا۔
مسلم قوم پرستی کی سوچ دہلی کے سلاطین اور مغل شہنشاہوں کے اس زمانے میں رائج ہوئی جب یہاں اُن کا راج تھا اور یہاں پر وسطی ایشیائی ریاستوں سے لوگ آکر آباد ہونا شروع ہوئے-

پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آیا- یعنی ہندوستان میں صف دو قومیں ہیں 1)  مسلمان  2) غیر مسلم (ہندو اور دوسرے ). 
جنگ آزادی 1857ء کے دس سال بعد علی گڑھ مکتبہ فکر کے بانی سرسید احمد خان نے ہندی اردو جھگڑے کے باعث 1867ء میں جو نظریہ پیش کیا ، اسے ہم دو قومی نظریے کے نام سے جانتے ہیں۔ اس نظریے کی آسان تشریح یوں کی جاسکتی ہے کہ اس کے مطابق نہ صرف ہندوستان کے متحدہ قومیت کے نظرئیے کو مسترد کیا گیا بلکہ ہندوستان ہی کے ہندوؤں اور مسلمانوں کو دو علیحدہ اورکامل قومیں قراردیا گیا۔ انڈین نیشنل ازم پر یقین رکھنے والوں کے لیے دو قومی نظریہ صور اسرافیل بن کر گونجا ۔ ہماری شاہراہ آزادی پر دو قومی نظریہ وہ پہلا سنگ میل ہے جسے مشعل راہ بنا کر مسلمانان ہند بالآخر 1947ء میں اپنی منزل مقصد کو پانے میں سرخرو ہوئے۔

اسلام نسل ، زبان، علاقہ کی بنیاد پر قوم پرستی کو مسترد کرتا ہے- لہٰذا قوم پرست افراد اسلام کے اصولوں کے خلاف کام کرتے ہیں. ہم سب سے پہلے انسان پھر مسلمان (بنی آدم) پھر قبیلہ یا گروہ صرف پہچان کے لیے نہ کہ برتری کے لیے- اسلام میں تمام انسان برابر ہیں ، برتری صرف ایمان و تقویٰ اور اچھے اعمال کی بنیاد پر:

يٰـاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰـکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّ اُنْثٰی وَ جَعَلْنٰـکُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَـآئِلَ لِتَعَارَفُوْاط اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اﷲِ اَتْقٰـکُمْ ط اِنَّ اﷲَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ.
الحجرات، 49 : 13

’’اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ با عزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیز گار ہو، بیشک اللہ خوب جاننے والا خوب خبر رکھنے والا ہے۔‘‘
:﴿وَلاَ تَنَازَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَتَذْهَبَ رِيحُکُمْ﴾(انفال،آيت ٤٦)؛ “خبر دار آپس ميں لڑائي جھگڑے سے دور رہنا ورنہ کمزور پڑ جائو گے اور تمہاري بني ہوئي يہ ہوا اکھڑ جائے گي تمہارا شيرازہ بکھر جائے گا”۔
واعتصموا بحبل اللہ جمیعاً ولا تفرقوا (آل عمران ١٠٣)
اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا کرو
اور کبھی سارے مسلمانوں کو ایک جٹ ہو کر صلح وآشتی کے ساتھ رہنے کی تاکید کی :
فاتقوااللہ واصلحو اذات بینکم (انفال ١)
تقویٰ الٰہی اختیار کرو اور آپس میں صلح و بھائی چارگی کا برتائو کرو .
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو مرتبہ مسلمانوں کے درمیا ن عقد اخوت قائم کیا یعنی ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کا بھائی بنایا جسکے بعد قرآن مجید کی یہ آیت بھی نازل ہو گئی : انما المؤ منون اخوة
سارے صاحبان ایمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں ۔
گویا عقد اخوت رسول ہی کے زمانے کے لئے نہیں تھا ، یہ ایک دائمی حکم اور عہد وپیمان ہے جو ہمیشہ بر قرار رہے گا قرآن کی رو سے ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور رہے گا ، رنگ و نسل ، قوم وقبیلہ کی کوئی تفریق نہیں ، معیار فقط اسلام ہے اور بس .
ولا تنازعوافتفشلوا و تذہب ریحکم (انفال ٤٦)
خبر دار آپس میں لڑائی جھگڑے سے دور رہنا ورنہ کمزور پڑ جائو گے اور تمہاری بنی ہوئی یہ ہوا اکھڑ جائے گی تمہارا شیرازہ بکھر جائے گا .

یہی حقائق جو قرآن میں بیان فرمائے گئے ہیں، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ان کو مختلف خطبات میں مختلف مواقع پر تفصیلاً بیان فرمایا ہے۔ فتح مکہ کے موقع پر فرمایا۔
ألحمد ﷲ الذی أذهب عنکم عيبة الجاهلية و تکبرها. بأباها الناس رجلان برتقی کريم  صلی الله عليه وآله وسلم  علی اﷲ وفاجر شقی هين علی اﷲ، والناس بنو آدم و خلق اﷲ آدم من تراب.
سيوطی، الدر المنثور، 7 : 579
’’شکر ہے اس خدا کا جس نے تم سی جاہلیت کا عیب اور غرور دور فرمایا، لوگو! تمام انسان صرف دو قسم کے ہیں۔ ایک نیک، پرہیزگار، اللہ کی نگاہ میں عزت والا۔ دوسرا فاجر بدبخت جو اللہ کی نگاہ میں ذلیل ہوتا ہے۔ تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم کو اللہ نے مٹی سے بنایا‘‘۔
حجۃ الوادع کے موقع پر فرمایا :
يٰا أيّها الناس ان ربکم واحد لا فضل لعربی علی عجمی ولا لعجمی علی عربی ولا لأسود علی أحمر ولا لا حمر علی أسود إلا بالتقوی إن أکر مکم عند اﷲ أتقٰــکم ألا هل بلغت؟ قالوا بلی يا رسول اﷲ قال فليبلغ الشاهد الغائب.
بيهقی، شعب الايمان، 4 : 289، الرقم :  5137
’’لوگو! سن لو، تمہارا خدا ایک ہے کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر، کسی کالے کو سرخ اور کسی سرخ کو کالے پر تقوی کے سوا کوئی فضیلت نہیں۔ بے شک تم میں اللہ کے نزدیک معزز وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے۔سنو! کیا میں نے تمہیں بات پہنچا دی؟ لوگوں نے عرض کی یا رسول اللہ! ہاں! فرمایا تو جو آدمی یہاں موجود ہے وہ ان لوگوں تک یہ بات پہنچا دے جو موجود نہیں‘‘۔
ایک حدیث میں ہے :
إن اﷲ لا ينظر إلی صورکم وأموالکم ولکن ينظر إلی قلوبکم و أعما لکم.
ابن ماجه ، السنن ،2 : 1388، الرقم :  4143
’’بے شک اللہ تمہاری صورتیں اور تمہارے مال نہیں دیکھتا، بلکہ تمہارے دل اور تمہارے عمل دیکھتا ہے‘‘۔

یہ تعلیمات صرف الفاظ کی حد تک ہی محدود نہیں بلکہ اسلام نے ان کے مطابق اہل ایمان کی ایک عالمگیر برادری عملاً قائم کر کے دکھا دی ہے۔ جس میں رنگ، نسل، زبان، وطن اور قومیت کی کوئی تمیز نہیں۔ جس میں چھوت چھات اور تفریق و تعصب کا کوئی تصور موجود نہیں۔ جس میں شریک ہونے والے تمام انسان خواہ کسی قوم، نسل، وطن، رنگ اور زبان سے تعلق رکھنے والے ہوں، بالکل مساویانہ حقوق کے ساتھ شامل ہو سکتے ہیں اور ہوئے ہیں۔ اسلام کے مخالفین تک کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ انسانی مساوات اور وحدت کے اصولوں کو جس طرح کامیابی کے ساتھ مسلم معاشرے میں عملی صورت دی گئی ہے، اس کی کوئی نظیر دنیا کے کسی ملک، کسی دین اور کسی نظام میں کہیں نہیں پائی گئی۔ صرف اسلام ہی وہ دین ہے جس نے دنیا کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے مختلف قبیلوں اور قوموں کو ملا کر ایک امت بنا دیا ہے۔
پنجاب ، سندھ ،بلوچ، انڈیا اور پختون اکثریت کے مسلمانوں نے  پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا- خیبر پختون خواہ (سابقہ صوبۂ سرحد) کے غیور مسلمانوں نے ہندوستان کی تقسیم کے وقت ،ریفریڈم میں اسلامک ریپبلک پاکستان کے حق میں ووٹ دے کر پختون قوم پرستی کوہمیشہ ہمیشہ کے لینے مسترد کردیا-  اب پنجابی ، سندھی، بلوچی، پختون یا مہاجر قوم پرستی پر سیاست صرف انتشار، فساد اور پاکستان دشمن قوتوں کی مدد کے مترادف ہے- ہان اپنی برادری کے فایدہ، حقوق اور ترقی کے لیے کام کرنے پر کون اعتراض کر سکتا ہے؟
قرآن و حدیث کے واضح احکام کے بعد بھی اگر ہم نسل ، زبان کی بنیاد پر قوم پرستی کا پرچار کریں اور اپنے آپ کو مسلمان بھی کہیں یہ کیسے ممکن ہے ؟ 
قوم پرستی کی ابتداء:
 قوم پرستی کی ابتداء قدیم دور یا قدیم جاہلیت کے دور سے ہی ہوئی ہے۔ زمانہ قدیم میں انسان کے جذبات قوم کی جگہ نسل یا قبیلہ سے وابستہ تھے۔ اس لئے کہا جاسکتا ہے اس دور میں قوم پرستی کے بجائے نسل پرستی کا دور تھا۔ اس نسلی عصبیت میں بڑے بڑے فلسفی بھی مبتلا تھے۔ 
قوم پرستی کی تاریخ:
یہ قوم پرستی کی ابتداء تھی جس نے بعد میں یورپ میں ترقی کی منازل طے کیں۔ قوم پرستی کے جراثیم کی نشوونما کو ایک طویل عرصہ تک مسیحیت کی طاقت نے روکے رکھا۔ جو اس امر کی جانب اشارہ ہے کہ ایک نبی کی تعلیم اگرچہ وہ کیسی ہی بگڑی ہوئی صورت میں موجود ہووہ بہرحال قوم پرستی اور نسل پرستی کی جگہ ایک وسیع انسانی نقطہ نظر رکھتی ہے۔
قوم پرستی کی روک تھام میں رومن ایمپائر (رومی سلطنت) کی قوت نے بھی کردار ادا کیا اور بہت سے چھوٹی قوموں کو ایک مشترکہ اقتدار کا مطیع و فرمانبردار بنا کر قومی اور نسلی تعصبات کی شدت کو کم کیا۔
مذہبی اور سیاسی وحدت کا تعلق ٹوٹنے کے بعد جب قومیں ایک دوسرے سے الگ ہوئیں تو ان کی جدا جدا خود مختار قومی ریاستیں وجود میں آنے لگیں۔ ہر قوم کی زبان اور لٹریچر نے الگ الگ ترقی کرنی شروع کی۔ لہٰذا ہر قوم کے معاشی مفاد دوسری ہمسایہ قوموں سے مختلف ہوتے گئے۔ اس طرح نسلی، سیاسی، معاشی اور تہذیبی بنیادوں پر قومیت کا ایک نیا تصور پیدا ہوا جس نے عصبیت کے قدیم جاہلی تصور کی جگہ لے لی۔ پھر مختلف قوموں میں نزاع، چشمک اور مسابقت Competition کا سلسلہ شروع ہوا۔
لڑائیاں ہوئیں ایک قوم نے دوسری قوموں کے حقوق پر ڈاکے ڈالے۔ ظلم اور شقاوت کے بدترین مظاہرے کئے گئے۔ جن کی وجہ سے قومیت کے جذبات میں روز بروز تلخی پیدا ہوتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ قومیت کا احساس رفتہ رفتہ ترقی کرکے قوم پرستی میں تبدیل ہوگیا۔
یورپ میں قوم پرستی
مغربی اقوام میں قوم پرستی ہمسایہ قوموں کے ساتھ مسابقت اور تصادم سے پیدا ہوئی ہے۔ اس لئے اس میں چار عناصر پائے جاتے ہیں۔
جذبہِ افتخار
اپنی قوم پر فخر یا افتخار کا جذبہ اپنی قوم کی روایات اور خصوصیات کی محبت کو پرستش کی حد تک لے جاتا ہے اور اپنی قوم کے اوصاف میں مبالغہ آرائی کرنے لگتا ہے یعنی دیگر تمام قوموں کے مقابلے میں انسان اپنی قوم کو بالاتر اور برتر سمجھتا ہے۔ پھر ہر طرح کے اصلی اور جعلی تفاخر انسان اپنی قوم کے لئے مخصوص کرتا ہے جیسا کہ مصطفٰی کمال پاشا کے دور میں ترکی میں بچوں کو ابتدائی تعلیم کے نصاب میں بچوں کو سکھایا گیا کہ حضرت آدم علیہ السلام ترک تھے۔
جذبہِ حمیت
چاہے انسان پر حق ہو یا ناحق پر مگر قوم پرستی اسے اپنی قوم کی طرفداری پر مائل کرتی ہے۔ قومی حمیت یا غیرت کا جذبہ انسان کو ہر حال میں اپنی قوم کی حما یت اور اپنی قوم کا ساتھ دینے پر آمادہ کرتا ہے۔ آدمی حق و انصاف کے سوال کر نظر انداز کرکے صرف اپنی قوم کی طرفداری کرتا ہے۔
جذبۂ قومی تحفظ
قومی تحفظ کا جذبہ قوم کے حقیقی اور غیر حقیقی و خیالی مفادات کی حفاظت کےلئے قوموں کو ایسے اقدامات و تدابیر اختیار کرنے پر آمادہ کرتا ہے جو مدافعت سے شروع ہوکر دوسری قوموں پر حملہ پر ختم ہوتی ہیں۔
طاقتور بننے کا جنون
استیلا و استکبار یعنی aggrandizement کا جذبہ ترقی یافتہ اور طاقت ور قوموں میں یہ خواہش پیدا کرتا ہے کہ وہ دوسروں کی دولت اور خرچ پر اپنی خوشحالی بڑھائیں۔ اسی کے باعث وہ پسماندہ اقوام میں اپنی تہذیب پھیلانے، ان پر غالب ہونے اور ان کی قدرتی دولت سے استفادہ کرنے کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔ اسی جذبہ کے تحت مغربی ممالک “امریکہ خدا کا اپنا ملک ہے”، “جرمنی سب سے اوپر”، ” اٹلی ہی مذہب ہے“، اور “حکومت کرنا برطانیہ کا حق ہے“ جیسے نظریات رکھتے ہیں۔ ہر قوم پرست ملک یہ سمجھتا ہے کہ “سب سے پہلے میرا وطن“ چاہے وہ حق پر ہو یا ناحق پر۔
مفکرینِ مغرب
فرانسس کوکر قوم پرستی کی تعریف کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ “بعض قوم پرست اہل قلم دعوٰی کرتے ہیں کہ آزادانہ زندگی بسر کرنے کا حق دنیا کی صرف ترقی یافتہ قوموں کو ہے۔ ان قوموں کو جو ایسا اعلیٰ درجہ کا تہذیبی اور روحانی سرمایہ رکھتی ہیں جو اس کا مستحق ہے کہ دنیا میں باقی رکھا جائے اور پھیلایا جائے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ ایک اعلیٰ درجہ کی مہذب قوم کا حق اور فریضہ صرف یہی نہیں ہے کہ وہ اپنی آزادی کی حفاظت کرے اور اپنے اندرونی معاملات کو دوسروں کی مداخلت کے بغیر سرانجام دے، بلکہ اس کا حق اور فرض یہ بھی ہے کہ اپنے دائرہ کو ان قوموں پر پھیلائے جو نسبتاََ پسماندہ ہیں۔ خواہ اس کے لیئے قوت ہی کیوں نہ استعمال کرنی پڑے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک اونچے درجے کی قوم اپنا ایک عالمگیر منصب رکھتی ہے“۔
فرانسس کوکر مزید لکھتا ہے کہ ” یہ بھی کہاجاتا ہے کہ ایک بڑی قوم صرف یہی حق نہیں رکھتی کہ وہ اپنے ہونے والے براہ راست حملہ کی مدافعت کرے، اپنی سرحدوں کی حفاظت کرے، اپنی عزت کو پامال نہ ہونے دے بلکہ وہ اس کو مزید آگے بڑھنا چاہئے، پھیلنا چاہئے، اپنی فوجی طاقت بڑھانی چاہئے، اپنا قومی دبدبہ قائم کرنا چاہئے، ورنہ وہ رفتہ رفتہ گرتی چلی جائے گی اور بالآخر قوموں کی مسابقت میں اس کا وجود محو ہوکر رہ جائے گا۔
جنگ قومی توسیع کا فطری ذریعہ ہے، اور جنگ میں فتح یاب ہونا قوم کے اصلح Fittest ہونے کی دلیل ہے“۔
ڈاکٹر بیچ ہاٹ کے بقول وہ جنگ ہی جو قوموں کو بناتی ہے۔
ارنسٹ ہیکل جو جرمنی میں ڈارونیت کا پہلا اور سب سے بااثر پیغمبر گزرا ہے، خود پرستی اور خود غرضی کو عالمگیر قانون حیات قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ قانون انسانی سوسائٹی کے اندر ایک طرح کی نسلی مردم خوری کی صورت جاری ہوتا ہے۔ اس کے خیال میں زمین ان تمام نسلی گروہوں کے لئے کافی سامانِ زندگی نہیں رکھتی جو اس کی آغوش میں جنم لیتے ہیں۔ لہٰذا کمزور گروہ فنا ہوجاتے ہیں۔ ایک تو اس وجہ سے کہ زمین کے محدود وسائلِ زندگی سے سے فائدہ اٹھانے کے لئے جو تنازع برپا ہوتا ہے اس میں وہ دوسرے گروہوں کا کامیاب مقابلہ نہیں کرسکتے۔ دوسرا اس لئے کہ زیادہ طاقتور گروہوں کے فاتحانہ اقدامات کی مدافعت کا کس بَل ان میں نہیں ہوتا۔

پاکستان میں  کچھ لوگ پشتون، پختون، بلوچ ، سندھی اور مہاجر قوم پرستی کی سیاست کر رہے ہیں کیونکہ ملکی لیول پر وہ عوام سے دھوکہ کی سیاست سے ووٹ نہیں کے سکتے لہٰذا  جاہلیت کے دور کی نسلی قوم پرستی ایک قبائلی جہالت زدہ معاشرہ میں  ان کی سیاسی زنندگی ہے-

————————————–

افغان تھے، افغان ہیں اور افغان رہیں گے
 اسفند یار ولی خان افغان تھے، افغان ہیں اور افغان رہیں گے مگر دکھ کی بات یہ ہے کہ وہ افغانستان سے دور ہیں!  اسفند یار صاحب کا خاندان پاکستان میں حکومت کرتا رہا ہے۔
 حضور! آپ افغان تھے، افغان ہیں اور افغان رہیں گے تو افغانستان کون سا دور ہے۔ یہاں کے کام دھندے چھوڑیے فوراً روانہ ہو جائیے۔ سامان باندھنے کے لیے بندہ حاضر ہے۔ زندگی ایک بار ملتی ہے، بار بار نہیں ملتی۔ وہ بھی کیا زندگی جو حسرت میں کٹ جائے، ارمان پورے نہ ہوں۔ مانا کہ پاکستان افغانستان کی نسبت اتنا ہی زیادہ ترقی یافتہ ہے جتنا پاکستان کے مقابلے میں یورپ، جو سہولیات یہاں حاصل ہیں ان کا آپ کے ”اپنے‘‘ ملک میں تصور بھی محال ہے مگر وطن کی مٹی کے لیے ترس رہے ہیں تو پاکستان کو لات ماریے اور افغانستان جائیے۔ یہاں آپ کے اعزہ میں کوئی وزیر اعلیٰ رہا، کوئی وفاقی وزیر، کوئی سینیٹر ہے مگر جو کچھ آپ کو افغانستان میں ملے گا، اس کے مقابلے میں پاکستان آپ کو کیا دے سکتا ہے! جیسے ہی آپ سرحد پار کریں گے، افغان حکومت، افغان طالبان، امرا، عمائدین، عوام، سب آپ کے استقبال کے لیے پھولوں کے ہار لے کر کھڑے ہوں گے اور کہیں گے صبح کا بھولا شام کو گھر آیا ہے۔ جی آیاں نوں! شہرِ کابل کی چابیاں آپ کی خدمت میں پیش کی جائیں گی۔ غزنی، قندھار، ہرات، جلال آباد کی گورنری آپ کے خاندان کو سونپی جائے گی۔ اپنا ملک، اپنا ملک ہی ہوتا ہے۔l
بس وہاں ایک چھوٹا سا مسئلہ درپیش ہو گا۔ آپ افغان ہیں مگر مشکل یہ ہو گی کہ وہاں یعنی افغانستان میں تو تاجک بھی افغان ہیں۔ ازبک بھی افغان ہیں۔ بامیان کے ہزارہ بھی افغان ہیں۔ بہت آسان، بہت موٹا یعنی جاٹواں نکتہ جناب کے ذہنِ رسا میں نہیں سما سکا کہ پختون اپنی قوم افغان لکھتے تھے۔ بجا، مگر یہ اُس وقت سے چلا آ رہا تھا جب افغانستان ملک نہیں تھا۔ یہ ایک کھلا خطہ تھا۔ کبھی وسط ایشیا کے تحت، کبھی مغلوں کے ہندوستان کا حصہ، کبھی ایرانیوں کی اقلیم کا جزو۔ اس وقت پختون، جہاں بھی تھا، افغان قوم لکھتا تھا۔ کابل میں رہنے والا ازبک افغان نہیں تھا، ازبک تھا۔ بدخشاں میں رہنے والا تاجک افغان نہیں تھا، تاجک تھا۔
بامیان کا ہزارہ، افغان نہیں تھا، ہزارہ تھا۔ مگر جناب کی اطلاع کے لیے ادب کے ساتھ عرض ہے کہ اٹھارویں صدی کے وسط میں نیا ملک افغانستان کے نام سے وجود میں آ گیا۔ اب افغان وہ ہے جو افغانستان کا ہے۔ اب ازبک بھی افغان ہے، ہزارہ بھی افغان ہے، ترکمان بھی افغان ہے اور تاجک بھی افغان ہے۔ وہ آپ کو افغان کیوں مانیں گے؟ کیا دوستم آپ کو افغان مانے گا؟ نہیں، کبھی نہیں! آپ خود اگست 1947ء سے پہلے ہندوستانی تھے مگر اب نہیں ہیں۔ آپ مانیں یا نہ مانیں، آپ پاکستانی ہیں۔ افسوس! یہی دُکھ تو کھائے جا رہا ہے۔
مگر آپ نہیں جائیں گے! جو افغان یہاں آئے ہیں، جو آپ کی یک طرفہ منطق کی رُو سے آپ کے ہم وطن ہیں، وہ بھی نہیں جا رہے۔ اس لیے کہ پاکستان سے محبت ہو یا نہ ہو، پاکستان سے فائدہ ضرور اٹھانا چاہیے۔ افغان یہاں کاروبار کر رہے ہیں۔ مہاجرت کا لیبل لگا کر مقامی لوگوں کو ہر معاشی سرگرمی سے باہر نکال رہے ہیں۔ پاکستان ان کے لیے دبئی ہے، امریکہ ہے، یورپ ہے مگر وہ رہیں گے افغان! پاکستان کو نہیں اپنائیں گے! میٹھا میٹھا ہپ! ماں اچھی نہیں لگتی مگر دہی کے ساتھ جو روٹی دیتی ہے، وہ روٹی بہت اچھی لگتی ہے۔
صرف پختون سرحد کے دونوں طرف نہیں، باقی گروہ بھی منقسم ہیں۔ پنجابی بھارت میں بھی ہیں اور پاکستان میں بھی۔ سندھی سرحد کے دونوں طرف ہیں۔ تو کیا وہ جو یہاں ہیں، کبھی اپنے آپ کو انڈین کہتے ہیں؟ بلوچی ایران میں بھی ہیں مگر جو بلوچی پاکستان میں ہے وہ پاکستانی ہے۔ افسوس! آپ پاکستانی نہ ہو سکے۔ افغانستان کے تاجک، ہزارہ، ترکمان افغان بن گئے، آپ ابھی تک پاکستانی کہلانا پسند نہیں فرماتے! زخم ہے کہ بھرتا ہی نہیں! رِس رہا ہے اور مسلسل رِس رہا ہے۔ ریفرنڈم میں خیبرپختونخوا کے عوام نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دے کر آپ کے خاندان پر ایسا زخم لگایا جسے آپ بھول ہی نہیں پا رہے۔
 اسفند یار ولی خان افغان تھے، افغان ہیں اور افغان رہیں گے مگر دکھ کی بات یہ ہے کہ وہ افغانستان سے دور ہیں!  اسفند یار صاحب کا خاندان پاکستان میں حکومت کرتا رہا ہے۔ مگر جناب اسفند یار، ایک بات ضرور یاد رکھیے,  پاکستان میں رہنے والے پختون صرف اور صرف پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو سروے کرا لیجیے۔ فاٹا ہے یا وزیرستان، سوات ہے یا مردان، کوہاٹ ہے یا بنوں، پاکستانی پختون اول آخر پاکستانی ہے۔ جو محبت پاکستان سے پٹھانوں کو ہے، اس کی مثال کہیں اور موجود ہی نہیں۔ پختونوں میں بہادری ہے، مہمان نوازی ہے، جواں مردی ہے مگر تعصب نہیں۔ ورنہ لاہور کا عمران خان، پنجاب کے بجائے کے پی میں کیسے حکومت بناتا؟ حضور! آپ کن وقتوں میں رہ رہے ہیں؟ پاکستانی پختون کو معلوم ہے کہ وہ سرحد پار پختون کی نسبت بدرجہ ہا بہتر زندگی گزار رہا ہے۔
آپ جان بوجھ کر یہ حقیقت اپنے حافظہ سے کھرچنا چاہتے ہیں کہ پختونوں نے پاکستان کو اپنا خون دیا ہے۔ پختون بوڑھوں نے اپنے بڑھاپے کے سہاروں کو پاکستان پر قربان کر دیا ہے۔ پختون مائوں نے اپنے جگر کے ٹکڑے اس وطن کی نذر کیے ہیں۔ ان مائوں نے بیٹوں کی میتیں وصول کرتے وقت، اسفند یار صاحب! بخدا یہ کہا ہے کہ وہ اپنے باقی فرزند بھی مادرِ وطن پر نچھاور کر دیںگی۔ آپ غلط فہمی کا شکار ہیں۔ پاکستان کے پختون آپ کے ہم نوا نہیں، نہ ہو سکتے ہیں۔
 اسفند یار ولی خان افغان تھے، افغان ہیں اور افغان رہیں گے مگر دکھ کی بات یہ ہے کہ وہ افغانستان سے دور ہیں!  اسفند یار صاحب کا خاندان پاکستان میں حکومت کرتا رہا ہے۔نچھاور کر دیںگی۔ آپ غلط فہمی کا شکار ہیں۔ پاکستان کے پختون آپ کے ہم نوا نہیں، نہ ہو سکتے ہیں۔
 کیا کرنل شیر خان شہید افغان تھا؟ کیا گلتری اور مشکوشی جہاں کرنل شیر خان شہید نے حفاظتی حصار کھینچے اور چوکیاں قائم کیں، افغانستان میں واقع ہیں؟ یہ تو پختون علاقہ بھی نہیں، یہ پاکستان تھا جس کے لیے اس نے ایسی دادِ شجاعت دی کہ بھارتیوں کو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ یہ انسان ہے یا مافوق الفطرت طاقت؟ افغانستان کرنل شیر خان کا پاسنگ بھی پیدا نہیں کر سکتا۔ کیا ہنگو کا اعتزاز حسن جس نے اپنی جان دے کر دو ہزار طلبہ کی جان بچائی، افغان تھا؟ آپ افغان ہیں تو افغانستان ہجرت کر جائیے مگر ہمارے شہیدوں کی توہین تو نہ کیجیے۔
اور ہاں! ایک کرم اور ضرور کیجیے گا! افغانستان سدھارتے ہوئے اچکزئی صاحب کو بھی لیتے جائیے گا کیونکہ ان کا پورے کا پورا خاندان، بلکہ دور کے رشتہ دار بھی اعلیٰ عہدوں پر پاکستان میں فائز ہیں مگر اس کے باوجود وہ افغان ہیں۔ واہ! دھرتی ماں کے وفادار سپوتو! واہ!
By M.Izharul Haq, Dunya.com.pk 
 
http://m.dunya.com.pk/index.php/author/muhammad-izhar-ul-haq/2016-08-31/16667/57500344#sthash.QLrzkk7s.dpuf

 

 
شتر مرغ 

 

تمام انسانوں کے حقوق محترم ہیں۔ تمام علاقوں اور لسانی گروپوں کے لیے حکمت سے کام لیا جانا چاہیے اور جہاں تک ممکن ہو‘ نرمی سے ۔ وہ قوم مگر کبھی سرسبز نہیں رہ سکتی‘ جو غداروں کو معاف کر دے۔ شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپا لے۔
ٹیپو سلطان دانا‘ حکیم اور ہر دلعزیز تھا۔ ٹوٹ کر لوگ اس سے محبت کرتے تھے۔ ایک جنگ میں شکست ہوئی اور سوا دو کروڑ تاوان کا معاہدہ ہوا۔ سلطان آزردہ تھا ۔پھر اس نے دیکھا کہ جلے ہوئے دیہات سے مخلوق امڈ کر آئی‘ اس کی غیر مسلم رعایا۔ جو کچھ ان کے پاس بچ رہا تھا‘ انہوں نے اپنے بادشاہ کے قدموں میں ڈھیر کر دیا۔ ایک آدھ ناکامی کی بات دوسری ہے‘ وگرنہ کمانڈر وہ ایسا تھا کہ جس انگریز جنرل کو اس نے خاک چاٹنے پر مجبور کر دیا تھا‘ واٹرلوکے میدان میں اسی نے نپولین کو شکست سے دوچار کیا تھا۔
ایک کمزوری البتہ ایسی تھی کہ جس کا کبھی کوئی علاج نہ تھا۔ وہ ایک ترس کھانے والا آدمی تھا۔ ایک سے زیادہ بار غداروں کو اس نے معاف کیا۔ بالآخر وہی اس کے لیے جان لیوا ثابت ہوئے۔
سلطان شہید ہوا تو بادل گھر آئے۔ میسور کے آسمان پر بجلی چمکنے لگی۔ انگریز سپاہ‘ جسے نظام حیدر آباد اور مرہٹوں کی مدد حاصل تھی‘جشن کی تیاریوں میں مگن تھی۔ تجہیز و تکفین کی ذمہ داری انہی غداروں میں سے ایک ‘میر غلام علی لنگڑا کو سونپی گئی۔ اچانک انگریز میجر نے ایک سسکی کی آواز سنی۔ برق چمکی تو اس نے دیکھا کہ غلام علی لنگڑا کے چہرے پر آنسوئوں کی لکیریں بہہ رہی تھیں What happened Mir Sahib? ”میر صاحب کیا ہوا؟‘‘ اس نے پوچھا۔ میر نے کہا : ایں صاحب شمانہ کشتہ اید ‘ما کشتہ ایم۔ ان صاحب کو آپ نے نہیں مارا‘ ہم نے مار ڈالا۔
سب جانتے ہیں کہ قانون کی گرفت قائم نہ رہے تو خودرو جھاڑیوں کی طرح ہر طرح کا جرم پنپنے لگتا ہے۔ خاتمہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ خوف مجرموں کے دلوں میں بیٹھ جائے۔ پچیس ہزار انگریزوں کے ساتھ‘ برطانیہ نے مدتّوں برصغیر پر حکومت کی۔ ایک کے بعد دوسرا علاقہ وہ فتح کرتے رہے۔ امیر علی کی قیادت میں منظم بنارسی ٹھگوں سمیت‘ جو ایک لشکر کی طرح منظم تھے‘ ایک ایک قانون شکن گروہ کا بتدریج انہوں نے خاتمہ کر دیا۔
ایک گیت بہت دنوں سے گایا جا رہا ہے کہ غداری کے سرٹیفکیٹ تقسیم نہ کئے جائیں۔ جی ہاں‘ جی ہاں! یہ ایک سنگین الزام ہے اور اسی پر عائد ہونا چاہیے‘ جو اس کا مستحق ہو۔ حکومت کا مخالف اکثرریاست کا دشمن نہیں ہوتا۔ اپنے مخالفین پر اہل اقتدار غدّاری کے مقدمات قائم کرتے رہے ہیں۔ خلق خدا ان کی تائید نہیں کرتی اور عدالتیں بھی شاذ ہی ان پر مہر لگاتی ہیں۔ اپنے اوّلین دور میں میاں محمد نوازشریف نے ملیحہ لودھی اور نجم سیٹھی پر بغاوت کے مقدمات قائم کئے تھے۔ وقت گزرا اور دھول بیٹھ چکی تو نجم سیٹھی ان کے قریبی مشیر ہو گئے۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے اپنی پسند کا الیکشن کمشن بنایا تو انہی صاحب کو 60 فیصد آبادی کے سب سے بڑے صوبے کا نگران وزیراعلیٰ بنایا گیا۔ وہاں سے فراغت پائی تو کرکٹ بورڈ ان کے حوالے کر دیا گیا‘ جہاں اربوں کی آمدن اور اخراجات ہوتے ہیں۔ ملیحہ لودھی کو اقوام متحدہ میں پاکستان کا سفیر مقرر کر دیا گیا۔ ثانی الذکر کے کردار پر کبھی شکوک و شبہات کا اظہار نہیں کیا گیا۔ وہ خارجہ امور کی ماہر ہیں اور عرق ریزی کی شہرت رکھتی ہیں۔ کچھ بھی ہو غداری کے سرٹیفکیٹ بھی میاں صاحب ہی 
نے تقسیم کئے۔ پھر ریاست کے نازک معاملات کی ذمہ داری بھی انہی کے سپرد کر دی۔ خاص طور پر اول الذکر کو جو بھارت جاتے رہتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ میاں صاحب کے مشیر ہیں‘ ان کے ایما پر پیغام رسانی کرتے ہیں۔
 
اپنے وطن سے الطاف حسین کے اظہار نفرت پر اٹھنے والی بحث میں عبدالغفار خان‘ عبدالولی خان‘ غوث بخش بزنجو‘ جی ایم سید اور عبدالصمد اچکزئی اور ان کے فرزند ارجمند کا ذکر بھی آیا۔
 
2011ء کے موسم خزاں میں ‘عمران خان کے گھر پر بلوچستان کے سرداروں سے ان کی ایک ملاقات یاد آتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل کوئٹہ میں ایک جلسہ عام ہوا تھا‘ جس میں اپوزیشن کے اکثر لیڈرشریک تھے۔ زیادہ تر سامعین محمود اچکزئی کے اہتمام سے آئے تھے۔ سارا وقت وہ بلوچستان زندہ باد‘ پختون خوا زندہ باد اور پاکستان مردہ باد کے نعرے لگاتے رہے۔ نون لیگ کی رہنما تہمینہ دولتانہ نے اپنی نحیف آواز میں سامعین کا غصہ فرو کرنے اور سمجھانے کی کوشش کی تو ان کا مذاق اڑایا گیا۔ انہیں ہوٹ کر دیا گیا۔ اس زمانے میں عمران خان یہ کہا کرتے تھے کہ اگر وہ بلوچ ہوتے تو وہ بھی پاکستان کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں میں شامل ہوتے۔ 
اندیشوں سے بھرے بلوچ سرداروں نے کہا کہ قومی رہنمائوں کے اسی طرزعمل نے ملک سے بے وفائی کرنے والوں کے حوصلے بلند کئے ہیں۔ وفاقی حکومت کی پے در پے زیادتیوں اور بلوچستان کے عوام کو نظرانداز کرنے پر وہ بھی ناخوش ہیں۔ مگر پاکستان مردہ باد کا نعرہ بلند کرنے کا مطلب کیا ہے؟ اختلاف کچھ لوگوں سے ہے‘ حکمرانوں سے ہے‘ پاکستان سے کیا اختلاف ہے! 
یہ بات اس کی سمجھ میں آ گئی؛ چنانچہ کوئٹہ کے تاریخی جلسہ عام میں پاکستان کا قومی ترانہ بجایا گیا۔ بلوچستان کے پیکر پر لگے زخموں اور اس سرزمین کی محرومیوں کا ذکر تو اسی شد و مد سے ہوا‘ جیسا کہ چاہیے تھا‘ مگر پاکستان کا پرچم بلند رکھا گیا…یہی متوازن اور معقول طرزعمل ہے۔
 
عبدالصمد اچکزئی نے پاکستان کو دل سے قبول نہ کیا تھا اور یہ بات ان کے فرزند ارجمند کے طرزعمل سے بھی آشکار ہے۔ جی ایم سید پاکستان توڑنے کی بات کرتے رہے اور ان کے بعض حامیوں نے بھارت میں اسلحہ استعمال کرنے کی تربیت پائی تھی۔ عبدالغفار خان پاکستان سے اس قدر نفرت کرتے تھے کہ انہوں نے یہاں دفن ہونا بھی پسند نہ کیا۔ بلوچستان کو الگ ریاست بنانے کی تگ و دو میں‘ خان آف قلات کے ایما پر غوث بخش بزنجو 1948ء میں بلوچ سرداروں کا ایک وفد لے کر بھارت گئے ۔ پنڈت جواہر لعل نہرو سے تو ان کی ملاقات نہ ہو سکی مگر وہ مولانا ابوالکلام آزاد سے ملے۔ آنجناب کی تجاویز سن کر وہ ششدر رہ گئے اور انہوں نے کہا : آپ عجیب لوگ ہیں۔ اپنا وطن آپ حاصل کر چکے۔ اب آپ کس چیز کی تلاش میں سرگرداں ہیں؟ خان آف قلات نے ایسے ہی وفد ایران اور افغانستان بھی بھیجے تھے۔ ایران نے جواب دینا بھی گوارا نہ کیا۔ افغانستان اس قابل تھا ہی نہیں کہ ان کی مدد کرے۔ شرارت وہ کر سکتا تھا۔ 
اقوام متحدہ میں پاکستانی رکنیت کی مخالفت سے لے کر آج تک وہ اسی روش پر گامزن ہے۔ ماضی میں اس سے وہ کچھ حاصل کر سکا اور نہ مستقبل میں پا سکے گا۔1974 ء میں اے این پی میں نوجوانوں کے شعبے”پختون زلمے‘‘ سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں کارکنوں کو گوریلا جنگ کی تربیت کے لیے افغانستان بھیجا گیا۔ عبدالولی خان اور عبدالغفار خان نے پختون خوا کو پاکستان سے الگ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ بھارت اور سوویت یونین کی ہمدردیاں بھی انہیں حاصل تھیں۔ تفصیلات جمعہ خاں صوفی کی کتاب ”فریبِ ناتمام‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی نفرت میں اپوزیشن پارٹیاں ولی خان کا دفاع کرتی رہیں۔
خان آف قلات کو قائداعظمؒ بیٹا کہا کرتے ۔ یہ اعزاز ان کے سوا کسی کو حاصل نہ ہوا۔ وہ ان کے گھر میں ٹھہرا کرتے اور انہیں کوئی اعلیٰ سرکاری عہدہ عطا کرنے کے آرزومند تھے۔ پیمان کر کے انہوں نے توڑ ڈالا اور ملک کے خلاف سازش کی تو قائداعظمؒ نے فوج کشی کا حکم دیا۔ علیحدگی کی تحریک جھاگ کی طرح بیٹھ گئی۔ آئندہ عشروں میں ایک ایک کر کے پختونستان‘ سندھو دیش اور آزاد بلوچستان کی تحریکیں بھی دم توڑ گئیں۔ آشکار ہے کہ الطاف حسین کا انجام بھی یہی ہو گا۔
تمام انسانوں کے حقوق محترم ہیں۔ تمام علاقوں اور لسانی گروپوں کے لیے حکمت سے کام لیا جانا چاہیے اور جہاں تک ممکن ہو‘ نرمی سے ۔ وہ قوم مگر کبھی سرسبز نہیں رہ سکتی‘ جو غداروں کو معاف کر دے۔ شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپا لے۔
(ہارون الرشید )
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
شیرشاہ سوری
 

پٹھان بہت گزرے مگر شیرشاہ سوری جوکہ مسلمان تھا ہندوستان کے اچھے حکمران کےطور پر تاریخ میں نام چھوڑ گیا- وہ اپنی نسلی عصبیت سے بلند ہوکر ہندوستان کاحکمران بنا- پاکستان میں بھی پٹھان حکمران گزرے ہیں- اچھے کام سے نام بنتاہے ناکہ نسلی عصبیت سے-
جن رہنماووں نے نسل، زبان کی بنیاد پر سیاست کی ان کا کردار محدود رہا- اب بھی جو ایسا کررہے ہیں وہ صرف اپنی ذات، فیملی یا قبیلہ کی برتری یا فایدہ کے لیے ، ان کو حکمرانی کے موقع ملا توعوام کی حالت مینن کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہ ہوئی مگر ان کی پراپرٹی اوردولت میں ملک اور بیرون ملک بہت اضافہ ہوا- وہ دوسری اقوام یانسل کو الزام دیتے ہیں کہ وہ چھوٹے اقوام کےحقوق پرڈاکہ ڈالتے ہیں مگر اپنی حکمرانی میں عوام کو تعلیم، روزگار، صحت، سیکورٹی ، پولیس، بیوروکرسی کے ظلم سے نجات نہ دلا سکے الزام دوسروں پر- کس نے سکول ، صاف پانی، صحت، پولیس ، نظام حکومت کو بہتر کرنے سےروکا ہے؟
در اصل صرف دو بڑے طبقات ہیں:
 ١) ظالم
 ٢) مظلوم 
کچھ درمیان میں جو ظالم بھی ہیں اور مظلوم بھی- ہر عصبیت میں یہ طبقات موجود ہیں- کیا پنجاب میں کوئی مظلوم نہیں؟ کیا وہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہ رہی ہیں؟ 
جاگیر دار ، ملک، سردار ، چودھری ، وڈیرے جو اشرافیہ حکمران ہیں ہر صوبۂ میں اپنے ہی ہم قوم افراد کا استحصال اور ظلم کر رہے ہیں- یہ نظام صدیوں سے ایسے ہی ہے اس کو صرف اسلام کا نظام جو انصاف کی بنیاد پر ہے کنٹرول کر سکتا ہے- اس لیے عصبی نعرہ بازی سے عوام بیوقوف نہ بنیں- ظالموں کے اصل روپ کو پہچانیں اور ان کے شر سے محفوظ ہوں- 
مغربی سرمایہ دارانہ نظام اور سامراج پاکستان جیسے اسلامی ممالک کے ٹکڑے کرکہ چھوٹے یونٹ بنا کر ان پر اپنی گرفت مضبوط کرنا چاہتا ہے- لسانی ، عصبیت اور قومی جذبات کو ابھر کر اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے ایسے عصبی نسل پرستانہ نعروں سے قومی اتحاد کو ختم کرنا چاہتا ہے- عراق ، لیبیا ، شام ، یمن، شام میں جو کچھ ہو رہا ہے ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونا چاہیے-  ہماری بقا باہمی صرف اتحاد سے ہے- 

لودھی اورسوری ہندوستان کی پٹھان سلطنتیں تھیں- شیرشاہ سوری کا نام تاریخ میں سنہری حروف سےکیوں لکھاجاتا ہے؟ 
شیرشاہ سوری ایک ایسا حکمران جس پرپٹھان، پشتون، پختون بطورمسلمان بجاطورپرفخرکرسکتےہیں.

Image result for sher shah suri empire 




شیرشاہ سوری کا اصل نام فرید خان تھا۔ 1486ء میں پیدا ہوئے جونپور میں تعلیم پائی ۔21 سال والد کی جاگیر کا انتظام چلایا پھر والئ بہار کی ملازمت کی۔ جنوبی بہار کے گورنر بنے۔ کچھ عرصہ شہنشاہ بابر کی ملازمت کی بنگال بہاراور قنوج پر قبضہ کیا مغل شہنشاہ ہمایوں کو شکست دے کر ہندوستان پر اپنی حکمرانی قائم کی۔


Image result for sher shah suri coins

اپنے تعمیری کاموں کی وجہ سے ہندوستان کے نپولین کہلائے سنار گاؤں سے دریائے سندھ تک ایک ہزار پانچ سو کوس لمبی جرنیلی سڑک تعمیر کروائی جو آج تک جی ٹی روڈ کے نام سے موجود ہے۔

Image result for sher shah suri grand trunk road



شہنشاہ اکبر مملکت کا انتظام چلانے میں شیرشاہ سے بڑا متاثر تھا۔ 22 مئی 1545ء میں بارود خانہ کے اچانک پھٹ جانے سے وفات پائی۔

Image result for sher shah suri


تاریخ دان شیر شاہ سوری کو برصغیر کی اسلامی تاریخ کا عظیم رہنما, فاتح اور مصلح مانتے ہیں۔ اردو ادب میں شیر شاہ سوری سے متعلق کئی مثالی قصے ملتے ہیں۔
شیر شاہ سوری (1476ء تا 1545ء) ایسا فرماں روا تھا جس کی ستائش نامور مؤرخین اور عالمی مبصرین کرتے رہے ہیں۔

وہ ہندوستان کا پہلا حکمران تھا جس نے عوامی فلاح کی جانب اپنی بھرپور توجہ دی اور ایسے ایسے کارنامے انجام دیے جو تاریخ کی کتب میں سنہرے حروف میں تو لکھے ہی گئے، ان کے نقوش آج تک موجود ہیں۔

ساڑھے پانچ سو سال قبل اس نے زرعی اصلاحات کا کام شروع کروا دیا تھا، جس کی پیروی بعد کے حکمرانوں نے کی۔ شیر شاہ نے سہسرام سے پشاور تک گرینڈ ٹرنک روڈ یعنی جرنیلی سڑک کی تعمیر کروائی تھی اور اس کے کنارے کنارے سایہ دار اور پھل دار اشجار لگوائے، سرائیں تعمیر کروائیں اور
سب سے پہلا ڈاک کا نظام نافذ کیا تھا۔
اگرچہ فرید خان سور المعروف شیر شاہ ایک معمولی جاگیردار کا بیٹا تھا۔ اس کے والد حسن خان سور کا خاندان افغانستان سے ہجرت کرکے ہندوستان آئے تھے اور وہ بابر کے معمولی جاگیردار تھے لیکن دلیر پرجوش اور جواں مرد اور اول العزم شیر شاہ نے مغل سلطنت کے بنیاد گزار بابر کے صاحبزادے ہمایوں کو ایک بار نہیں دو دو بار شکست دی۔ پہلی بار چوسہ کے میدان میں اور دوسری بار قنّوج کے میدان میں۔ اُس کے بعد ہمایوں کو برسوں دربدری کی زندگی گزارنی پڑی اس دربدری کے دور میں ہی اکبر کی پیدائش ہوئی تھی جو بعد میں تاریخ کا اکبر اعظم بنا۔
اپنی جدوجہد سے شیر شاہ نے عظیم سلطنت قائم کی تھی۔ لیکن اس نے اپنی آخری آرام گاہ کے طور پر سہسرام کو ہی پسند کیا تھا اس لیے اپنی زندگی میں ہی کیمور کی پہاڑی پر مقبرہ تعمیر کروایا تھا جس کے چاروں جانب جھیل پھیلی ہوئی ہے۔

……………………………….

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

مزید پڑھیں:

~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~