(5) Mysteries of Quantum Physics کوانٹم فزکس کے عجیب و غریب اسرار

Image result for quantum physics

باب5

کوانٹم فزکس   (Quantum Physics ) کے اسرار
کلاسیکل فزکس کائنات میں مادہ اور توانائی کے طرز عمل کی درست ترین وضاحت کرتی ہے۔ مثال کے طور پر کلاسیکل فزکس ایک ٹرین کی بڑھتی ہوئی رفتار اور ہوا میں اڑتی ہوئے ایک پرندے کی حرکت کی وضاحت کرتی ہے، جبکہ اس کے برعکس کوانٹم  مکینکس، یا قوانٹم فزکس  کائنات کے طرز عمل کی بہت چھوٹے پیمانے پر وضاحت کرتی ہے، جیسے کہ ایٹم اور چھوٹے ذرات وغیرہ۔ کلاسیکل فزکس کے قوانین اس قدر چھوٹے پیمانے پر مادے اور توانائی کے طرز عمل کی وضاحت نہیں کرسکتے۔ فزکس یعنی طبیعات میں کوانٹم تھیوری (Quantum ) سے مراد ان ذرات (الیکٹران، پروٹون ، نیوٹران وغیرہ ) کی توضیح و تشریح ہے جن سے مادہ بنا ہے اور ساتھ ہی یہ جائزہ لینا ہے کہ یہ ذرات ایک دوسرے کے ساتھ اور توانائی کے ساتھ کس طرح سے تامل کرتے ہیں۔

Mysteries of Quantum Physics lead to God

“To God belongs the Mystery of the heavens and the earth. And the Decision of the Hour (of Judgment) is as the twinkling of an eye, or even quicker: for God hath power over all things.” (Qur’an; 16:77).

If two electrons are created together, they are forever entangled, regardless of the distance between the two electrons; a change in quantum spin in one electron will immediately cause the other electron to change spin..[….]l.

کوانٹم تھیوری کا نام اس حقیقت کی بنیاد پر رکھا گیا ہے کہ یہ تھیوری کائنات میں مادہ اور توانائی کی تشریح ایسے واحد اور غیرمنقسم جزو کے حوالے سے کرتی ہے جسے ’’کوانٹا‘‘(Quanta) کہا جاتا ہے۔ کوانٹم تھیوری کلاسیکل فزکس یعنی قدیم طبیعات سے یکسر مختلف ہے۔  کوانٹم تھیوری ان قوانین کی وضاحت کرتی ہے جو ہمیں یہ اعدادوشمار تیار کرنے میں مدد دیتے ہیں کہ طبیعات یا حیاتیاتی نظاموں میں کئے جانے والے تجربات کے نتائج کیا ہوں گے۔ اس سے یہ جاننے میں بھی مدد ملتی ہے کہ ہماری دنیا کیسے کام کرتی ہے۔
کوانٹم الجھاؤ  (Quantum Entanglement )  کوانٹم فزکس  (Quantum Physics) کے اسرار :
دو الیکٹرانوں کواگر ایک ساتھ پیدا کیا جائے  تو وہ ہمیشہ کے لئے آپس میں(entangled) الجھ جاتے ہیں  ، قطع نظر ان دو الیکٹرانوں کے درمیان فاصلے کے ؛ ایک الیکٹران میں کوانٹم چکر  (quantum spin) میں تبدیلی فوری طور پر دوسرے الیکٹران کے اسپن (چکر ، گھماؤ) میں فوری  تبدیل کا سبب بنے گی.
اگر آپ کائنات کے ایک طرف ایک الیکٹران کو مختصر، فوری جھٹکوں  کے ساتھ اوپر اور نیچے یا اور آگے پیچھے حرکت دیں تو ایک غیر مرئی طاقت کئی ملین نوری سال کا فاصلہ طے کر کہ دوسرے الیکٹران پرفوری طور پر اثر انداز ہو کر حرکت میں تبدیلی پیدا کر دیتی ہے- یہ سفر ٹیکنیکل طور پر ممکن وقت سے کئی ملین سال تیزترعمل ہے بغیر وقت کے سفر(time travel) کے- اصولی طور پر تھیوری کے مطابق دو الیکٹران  کے جوڑے کے درمیان جتنا فاصلہ بھی ممکن ہوچاہے وہ پوری کائینات کی چوڑائی ہو، دونوں اس طرح سے آپس میں رابطہ میں ہیں کہ  ایک پر جو عمل ہو وہ دوسرے  الیکٹران پر فوری طور پر اثرانداز ہو گا- یعنی کہ  انفارمیشن روشنی کی سپیڈ سے بھی تیزسفر کر رہی ہے ، وقت کا سفر-
أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا ۖ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۖ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ ، (21:30قرآن (
” اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے پس ہم نے ان کو پھاڑ کر جدا کر دیا، اور ہم نے (زمین پر) پیکرِ حیات (کی زندگی) کی نمود پانی سے کی، تو کیا وہ (قرآن کے بیان کردہ اِن حقائق سے آگاہ ہو کر بھی) ایمان نہیں لاتے، (21:30قرآن (
اگرچہ سائنسدان اس پر کام کر رہے ہیں کہ انفارمیشن بھیجنے کی کیا حدود و قیود ہیں مگر کسی نے اس تھیوری کو رد نہیں کیا کہ کاینات میں ایک ایسی غیر مرئی طاقت موجود ہے جو مادہ پر کئی ملین نوری سال کے فاصلہ پر بھی فوری طور پر اثر انداز ہو سکتی ہے- لہٰذا بیگ بینگ (Big Bang) کے وقت ماضی میں ایک وقت  تھا جب کاینات کا ہر ایک ایٹم ایک نقطہ پرمرکوز تھا- اس کا مطلب ہوا کہ ہر چیز کا آپس میں لنک ہے،قوانٹم طور پر الجھ گئی ہے (everything is quantumly entangled)- کچھ سائنسدان اس میں بہت آگے چلے گئے ہیں وہ دعوی کرتے ہیں کہ قوانٹم  ایٹینگلمنٹ ( quantum entanglement )ظاہر کرتی ہے کہ سپیس (space) یا خلاء نام کو کوئی شے وجود نہیں رکھتی، کاینات کی ہر چیز ٹچ (touch) کر رہی ہے-
آئنسٹائن کےخیال تھا کہ نظریاتی طور سے غیر محتمل (implausible) ایک فاصلے پر ڈراونا کارروائی’ ہے. الجھے ذرات (entangled particles) کے درمیان  کنکشن، رابطہ برقرار رہنا ” کوانٹم میکینکس کے گہرے رازوں میں سے ایک ہے”- یہ کنکشن تجربات سے ثابت شدہ نوعیت کی ایک حقیقت ہیں، لیکن فلسفیانہ  طریقه سے انہیں سمجھانے کی کوشش کرنا بہت مشکل ہے. کچھ سائنسدان اب بھی (کسی حد تک ڈھٹائی )سے اسے کوانٹم کا عجیب و غریب ‘جادوکہتے ہیں حالانکہ حالیہ سالوں,82, 1980 میں تمام تجربات سے ثابت ہوا کہ آئنسٹائن غلط تھا اور فاصلے پر کارروائی حقیقی ہے- اس سےآئنسٹائن کی تھیوری کہ، “روشنی کی رفتار سے تیز کوئی انفارمیشن ٹرانسفر نہیں ہو سکتی” رد ہوتی ہے-
کوانٹم میکینکس کے عجیب پہلوؤں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ،کوئی  چیز بیک وقت موجود اور غیر موجود ہو سکتی ہے-اگر ایک ذرہ کئی مختلف راستے کے ساتھ ساتھ آگے بڑھ رہا ہے ، یا کئی مختلف حالتوں  میں موجودہونے کی صلاحیت رکھتا ہے، تو ‘کوانٹم میکانکس کے اصول بیک وقت تمام ممکنہ حالتوں میں تمام راستوں پر سفر کرنے اور وجود کی بیک وقت اجازت دیتا ہے. لیکن اگر ان کی عمل کو ریکارڈ کرنے کی کوشش کریں تو وہ فوری طور پر ایک رستہ منتخب کر لیتے ہیں- جب ایسا ایک زرہ کے ساتھ ہوتا ہے تو فوری طور پر دوسرے زرہ پر اثر بھی ہوتا ہے-
‘ڈبل سلٹ’ (Doubble Slit) اور   ‘سنگل سلٹ’ (Single Slit) تجربات سے معلوم ہوا کہ جب ان ذرات کا مشاہدہ کیا جاتا ہے تو ان کو معلوم ہو جاتا ہے کہ ان کا مشاہدہ ہو رہا ہے ، توپھر وہ اپنا رویہ تبدیل کر لیتے ہیں- یہ ان میں ذہانت کی موجودگی کا ثبوت ہے-ایک طاقت جس کے پاس علم ہے وہ تمام آزاد الیکٹران کو مربوط کرتی ہے-  اس طاقت  میں سب کچھ اس کے جاننے والا (Omniscient) جانتا ہے.
ایک اور گہرا  کوانٹم بھید  (deep quantum mystery) جس کے لئےماہرین طبیعیات کے پاس کوئی جواب نہیں ہے وہ  ‘سرنگ’ (tunnel) کا عمل ہے- یہ ذرات کی عجیب صلاحیت  جس سے وہ کبھی کبھی سخت ترین رکاوٹوں میں گھس کر پارچلے جاتے ہیں –
اس کے علاوہ،اگررکاوٹ کی موٹائی میں اضافہ کر دیں تو سرنگ کی رفتاربھی بڑھ جاتی ہے- یہ بھی ناقابل بیان حقیقت ہے-
کاینات کا  کوڈ  (The Cosmic Code ) :
راکفیلر یونیورسٹی  کے فزسٹ (physist) ہائینز پیگل، بہت سے دوسرےتھیورسٹ کی طرح یقین رکھتا تھا کہ ‘ کوانٹم طبیعیات’ ایک قسم کا کوڈ (Cosmic Code) ہے جو  کائنات میں ہر چیز کا آپس میں رابطہ رکھتا ہے حتی کہ بشمول زندگی کی طبعی بنیاد-
سوئٹزر لینڈ میں CERN نے (Large Hadron Collider) مشین جو27کلومیٹر طویل سرنگ میں واقع قریبا ً دس ارب ڈالر میں بنی، اس میں 2012کو تجربہ کیا گیا جس میں چند ذرات کو روشنی کی رفتار سے آپس میں ٹکرا کر   (BigBang)  کے ابتدائی لمحہ کا ماحول پیدا کرکہ یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ آیا (Higgs Boson)  نامی ذرہ  جو کائینات کی تخلیق کا سبب سمجھا جاتا ہے ،حقیقت میں کوئی وجود رکھتا ہے یا نہیں ۔ تجربے سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ ہگز بوسن (Higgs Boson)   واقعی وجود رکھتا ہے مگر اسے ’’ڈھونڈنا ‘ ‘ بے حد مشکل کا م ہے کیونکہ یہ ایک سیکنڈ کے کھربویں حصے کے لئے ’’ظاہر ‘ ‘ ہوتا ہے اور کا حجم اس قدر کم ہے کہ اسے ’’پیدا ‘ ‘ کرنے کے لئے بہت زیادہ توانائی درکار ہے جو صرف LHCمشین میں ہی ممکن بنائی جا سکی۔ اس ذرے کی دریافت یقینا ًاس صدی کا ایک بڑا واقعہ تھا جنہوں نے سائنس دانوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیااور اس کی وجہ بہت دلچسپ بھی تھی اور خطرناک بھی !
ہگز بوسن زرہ (  Higgs Boson particle) کی دریافت کے بعد پتہ چلا کہ دیگر طبعی ذرات کی طرح ہگز بوسن  (میڈیا کی طرف سے غلط نام ‘ خدائی ذرہ’  God Particle مشہورہوا ) کی بھی ایک قسم کی مقناطیسی کشش ہوتی ہے ، مگر فرق یہ ہے کہ ہگز بوسن کی قوت اُن بنیادی ذرات کا حجم تشکیل دیتی ہے جن سے ہم سب تخلیق کئے گئے ہیں ، یہ کائنات پیدا کی گئی ہے ۔ اگر ہگز بوسن کی یہ قوت نہ ہو تی تو کوئی ایٹم ہوتے ، کوئی ذرات ہوتے اور نہ ہم ہوتے ۔
یہ بہت بنیادی ہے کیونکہ کوانٹم الجھاؤ (Quantum Entanglemen-QE)  ہگس بوسون  کے کام کرنے کا  طریقہ کار ہے. کوانٹم الجھاؤ کائنات بھر میں ہر  طرح کے اہم واقعات کو سمجھنے کے لیے مرکزی نقطہ ہے کہ کاینات میں لمبے فاصلوں کے باوجود مختلف واقعات سیکنڈوں میں میکرو اور مائیکرو سطح پر ہم وقت ترتیبب میں وقوع پزیر ہوتے ہیں-
وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ ﴿٤٧﴾
اور آسمان کو ہم نے اپنی طاقت سے بنایا ہے اور ہم ہی اسے وسعت دینے والے ہیں (51:47قرآن)
دوسری پراسرار بات اس کائنات کا پھیلاؤ ہے ، ہر گزرتے لمحے کے ساتھ یہ کائنات نہ صرف پھیل رہی ہے بلکہ اس کے پھیلاؤ کی رفتار میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور اس کی وجہ وہ پراسرا ر قوت دافعہ ہے جسےDark Energyکہا جاتا ہے ۔ کوئی نہیں جانتا کہ یہ تاریک توانائی کیا بلا ہے ، سائنس دان اسے خلاء کی قوت کہتے ہیں ، سائنس دانوں نے جب اس قوت کا خلاء سے اندازہ لگانے کی کوشش کی تو نتیجے میں جو عدد سامنے آیا وہ ایک کے بعد120صفروں پر مشتمل تھا ، یہ عدد اتنا بڑا تھا کہ خلاءباز چکرا کر رہ گئے ، یوں سمجھیے کہ یہ علم فلکیات کا اب تک کا سب سے بڑا عدد تھا ، کائنات کے تمام ایٹموں سے ایک ہزار کھرب ہا کھرب ہا کھرب گنا زیادہ !بے شک یہ عجیب و غریب بات تھی مگر زیادہ پراسرا ربات یہ تھی کہ اگر تاریک توانائی حقیقت میں اتنی ہی قوت رکھتی تو یہ
کائنات اپنا وجود برقرار نہ رکھ پاتی اور ہم بھی کہیں نہ ہوتے ۔ سائنس دان یہ معمہ نہیں سمجھ پائے ہیں اور یوں ہگز بوسن کی ویلیو کے بعد اسے طبیعات کا دوسرا خطرناک ترین عدد کہا جارہا ہے !
رابطہ  (The Connection )
جب کائنات اور طبیعیات کے قوانین  پیدا ہوے یا تو کیا اس نے ان  کے اندر تمام ذرات اور طاقتوں کے ساتھ ایک ‘کنکشن’ چھوڑا؟  ایسا لگتا ہے کہ سائنس میں موضوعات اور ‘ڈیزائن’  موجود ہیں جوفطرت کو دہرانے لگتے ہیں.
سائنسدان اور متکلمین بہت عرصہ کاینات میں ‘ذرات اور طاقتوں’ اور’ فطرت اور اخلاقیات’ کے ڈیلیوازم پر حیرت زدہ رہے- مثلآ مادہ- مخالف مادہ، مثبت -منفی ، مذکر-مونث، اچھائی-برائی، وغیرہ-
سُبْحَانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنبِتُ الْأَرْضُ وَمِنْ أَنفُسِهِمْ وَمِمَّا لَا يَعْلَمُونَ ﴿٣٦﴾
پاک ہے وہ ذات جس نے جملہ اقسام کے جوڑے پیدا کیے خواہ وہ زمین کی نباتات میں سے ہوں یا خود اِن کی اپنی جنس (یعنی نوع انسانی) میں سے یا اُن اشیاء میں سے جن کو یہ جانتے تک نہیں ہیں(قران 36:36(
“اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے بنائے ہیں، شاید کہ تم اس سے سبق لو”(قران 51:49(
جب پچھلی صدی کے اکھڑ میں ایٹمی تھیوری کا غلبہ ہوا تو نیل بوہر کا ماڈل جس میں ذرات ایٹمی مرکز کے گرد گھومتے تھے اس کا  ہمارے سورج کے پلانٹری سسٹم سے تقابل کیا گیا- اسی تھیم کو گلیکسی ، ستاروں ، سیاروں اور گیسوں پر لاگو کیا- ایسا لگتا ہے کہ  بنیادی ڈھانچہ سب سے چھوٹی چیز سے سب سے بڑی پر لاگو کر دیا گیا-
قُلْ هَلْ مِن شُرَكَائِكُم مَّن يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ ۚ قُلِ اللَّـهُ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ (10:34قرآن(
اِن سے پُوچھو، تمہارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں میں کوئی ہے جو تخلیق کی ابتدا بھی کرتا ہو اور پھر اس کا اعادہ بھی کرے؟ کہو وہ صرف اللہ ہے جو تخلیق کی ابتدا بھی کرتا ہے اور اس کا اعادہ بھی، پھر تم یہ کس اُلٹی راہ پر چلائے جا رہے ہو؟ (10:34قرآن( ایٹم ساخت میں بہت پیچیدہ ہے، مرکز کے گرد گھومنے والے ذرات سخت اور یقینی شکل نہیں رکھتے بلکہ وہ بیک وقت زرات اور لہروں کی شکل میں موجود رہتے ہیں- ایٹم کا مرکز بھی بہت پیچیدہ ہے، نیوٹران اور پروٹون  جن کو سخت چیز کھا جاتا ہے در اصل کوارک (Quark) (کوارک، پر بہت کم الیکٹرک چارج ہوتا ہے، ان کا مشاہدہ نہیں کیا جا سکتا مگر تجربات سے ان کی موجودگی کا علم ہوتا ہے )اور دیگر مبہم کلاؤڈ نما (hazy, clouds) چھوٹےایٹمی  ذرات سے بنے ہوتے ہیں-
مذہب میں یہ عقیدہ ہے کہ خدا سے رابطہ کے لیئے انسان شعوری طور پر حالت دعا میں جاتا ہے-   دعا سے خدا سے روحانی رابطہ قائم ہوتا ہے اور وہ ہماری  دعا اور خیالات کو سنتا ہے- ہم کو یقین ہوتا ہے کہ وہ ہماری خواہشات سے اگاہ ہے- دعا انسان کی طرف سے خدا کی عظمت کا اقراراور عبادت ہے:
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ (40:60قرآن(
تمہارا رب کہتا ہے “مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا، جو لوگ گھمنڈ میں آ کر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں، ضرور وہ ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے” (40:60قرآن(
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ ۖ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ ( 50:16قرآن)
اور ہم ہی نے انسان کو پیدا کیا ہے اور جو خیالات اس کے دل میں گزرتے ہیں ہم ان کو جانتے ہیں۔ اور ہم اس کی رگ جان سے بھی اس سے زیادہ قریب ہیں ( 50:16قرآن  (
“..اور جان رکھو کہ خدا آدمی اور اس کے دل کے درمیان حامل ہوجاتا ہے اور یہ بھی کہ تم سب اس کے روبرو جمع کیے جاؤ گے” (8:24 قرآن(
کیا طبعیی دنیا میں ایسا  رابطہ  ممکن ہے؟
کوانٹم الجھاؤ (Quantum Entanglement) کا تعلق ایٹم سے نچلے درجہ پر ہے جو مائیکروسکوپ کے درجہ سے بھی بہت نیچےہے- کچھ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اس درجہ پر  ایک کائیناتی رابطہ (connection) ہے جو زمان و مکان (Time and Space) سے ماورا ہے جو تمام  ذرات کو کائینات میں ایک دوسرے سے اس طریقه سے رابطہ میں رکھتا ہے  جس کو ابھی مزید سمجھنے کی ضرورت ہے-
قوانٹم  (Quantum) یا پلانک (Planck ) لیول سے نیچے زمان و مکان کی تعریف دھندلا جاتی ہے- اگر تمام ذرات پلانک (Planck ) لیول سے نیچے رابطہ میں ہیں تو کہا جا سکتا ہے کہ ہم سب کا آپس میں ایک کائیناتی تعلق ہے اور شاید یہی وسیلہ ہے جس سے دعا کا راستہ گزرتا ہے؟  یہ سب محض قیاس آرائیاں ہیں، مگر اگر خدا نے تمام فزکس کے قوانین اور  کائینات کو اس طرح تخلیق کیا کہ وہ ان سے کبھی بھی روحانی اور مادی طور پر لا تعلق نہیں رہتا اور بیک وقت ہر طرف موجودرہتا ہے-  یہ تصدیق کرتا ہے یہودی، کرسچین اور مسلمانوں کی جو  ہمیشہ سے اس کی موجودگی اور اس سے آسان رابطہ کے متعلق کہتے آئے ہیں- اس کا مطلب ہے کہ اس کو سب خیالات ، واقعات اور  کائینات میں جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کا علم ہے- کوئی کتنا دور بھی چلا جا ئے وہ اس کے قریب ہے-
ایک شعورواحد ، ایک عالمگیر حکمت، کائنات میں ہر جگہ نفوز پزیر ہے. سائنس کی دریافتیں جو زیرجوہری مادہ کی ‘کوانٹم’  نوعیت کی تلاش کرتی ہیں ہمیں ایک چونکا دینے والے احساس کے دہانے پر لے آیئ  ہیں کہ :” تمام وجود اس کی حکمت کا  اظہار ہے”. لیبارٹریوں میں ہم نے سب سے پہلے جسمانی طور پر اسے  توانائی کے طور پر بیان کیا اور اس کے بعد اسکو  مادہ کی صورت میں اکٹھا کر دیا- ہر ذرہ، ہر وجود، ایٹم سے انسان تک ایک سطح کی معلومات اور حکمت ظاہر کرتا ہے-
سائنسدان قوانٹم  فزکس کے ذریعے انسان یا اشیاء کی کاینات میں ایک جگہ سے بہت دور  ٹیلی ٹرانسپورٹیشن (like star wars movies) کا  سوچ رہے ہیں- اگر انسان ایسا کرنے  کا سوچ سکتا ہےاور شاید کبھی ایسا کر سکے تو  کیا  خالق کاینات کے لیئے  اپنے کسی بندے کو ایک جگہ سے کسی دور دراز مقام تک )جسمانی یا روحانی  طور پر ) لے جا نا مشکل ہے ؟  علامہ اقبال نے خوب کہا کہ :
سبق ملا ہے یہ، معراجِ مصطفی سے مجھے   ~  کہ عالَم بشریت کی زَد میں ہے گردوں
مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence-AI) :
انسان مصنوعی ذہانت   کو  انسانی ذہانت  کے متبادل  یا  مددگار  کے طور پر ڈیولپ کرنے میں مصروف ہے ،  کمپیوٹرز  نے یہ کام کسی حد تک  ممکن  کردیا ہے – ڈرائیور کے بغیر کار، آٹو پائلٹ، روبوٹ وغیرہ چند مثالیں ہیں -معروف محقق پروفیسر اسٹیفن ہاکنگ کے خیال میں مکمل مصنوعی ذہانت کی ترقی انسانی نسل کا خاتمہ کر دے گی۔’ایک دفعہ انسانوں نے اسے بنا لیا تو اس کی ارتقا کا عمل خود ہی آگے بڑھتا رہے گا اور انسان اپنے سست حیاتیاتی ارتقاء کی وجہ سے اس کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔’-کمپیوٹر کی دنیا کے بے تاج بادشاہ بل گیٹس اور سِلیکون وَیلی کے سٹار ایلون مَسک نے، جواسپیس ایکس اور ٹیسلا موٹرز کے بانی ہیں، خبردار کرتے ہوئے کہا ;  کہ ’مصنوعی ذہانت‘ کی صورت میں انسان نے اپنی بقا کے لیے سب سے بڑے خطرے کو جنم دیا ہے۔  کمپیوٹر جو خالص انسانی تخلیق ہے ، اس کو سائنسدان  اہمیت دیتے ہیں مگر حقیقی عظیم ترین ذہانت کے وجود کے منکر ہیں – ان کے خیال میں کاینات صرف قدرتی قوانین کی وجہ سے وجود میں آئی اور خود بخود  کام کر رہی ہے ؟
إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللَّـهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ ﴿٢٢﴾
“یقیناً خدا کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے(“قرآن؛ 8:22)
More Details at:

انڈکس  

برقی کتاب (  html فارمٹ):  https://goo.gl/kgkTl8
برقی کتاب (Pdf فارمٹ): https://goo.gl/bsTBJt 

…………………………………………………..

برقی کتاب (  html فارمٹ):  https://goo.gl/kgkTl8

برقی کتاب (Pdf فارمٹ): https://goo.gl/bsTBJt 

……………………………………………………..