سنت اور حدیث کی اہمیت اور فرق Sunnah and Hadith

علم دین اسلام کے ماخذ یا مصادر تین ہیں باقی فاضل علوم زائد ہیں:

 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:   الْعِلْمُ ثَلَاثَةٌ: آيَةٌ مُحْكَمَةٌ أَوْ سُنَّةٌ قَائِمَةٌ أَوْ فَرِيضَةٌ عَادِلَةٌ وَمَا كَانَ سِوَى ذَلِكَ فَهُوَ فضل  . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَابْن مَاجَه

ترجمہ: عبداللہ بن عمرو ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ علم تین ہیں: 1)آیت محکمہ اور 2)سنت ثابتہ اور 3)فریضہ عادلہ

(مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 239، رواہ ابوداؤد (2558) و ابن ماجہ (54) الذھبی فی تلخیص المستدرک (۴/ ۳۳۲)

تمام جھگڑے،  فساد ، فتنہ ،فرقے قرآن کی محکم آیات (3:7) کو چھوڑ کر دوسری غیر محکم آیات سے تاویلیں کرنے کے زور پر عقائد و نظریات نکالنے کی بدعة پر کھڑے ہیں ، جو باطل ہیں، کوئی بھی چیک کر سکتا ہے دلیل مانگ کر۔  کسی حکیم لقمان کی ضرورت نہیں۔ جب دلیل ، آیت قرآن محکم ہو تو اسے تشریح کی ضرورت نہیں ہوتی، عام عقل common sense کافی ہے جس کا استعمال common نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی 1)آیت محکمہ اور 2)سنت ثابتہ  پر زور دیا –

فریضہ عادلہ” کا تعلق موت پر وراثت کے احکام کے  متعلق ہے- جس کی تفصیلات فقہ کی کتب میں موجود ہیں- ااس علم کو “علم الفرائض” کہا جاتا ہے۔فرائض: فریضہ کی جمع ہے جو فرض سے ماخوذ ہے۔ فرض کے لغوی معنی مقرر کرنے کے ہیں، اس لیے کہ اس علم میں ورثاء کے حصے مقرر شدہ ہوتے ہیں۔ لہذا فریضۃ وہ مقرر حصہ ہے جو شریعت نے مستحق شخص کے لیے مقرر کیا ہے۔ علم فرائض کی تعریف یوں کی جاتی ہے:”فقہ و حساب سے متعلق ان اصولوں کو جاننا جن کے ذریعے سے ترکہ میں سے وارثوں کے حصے معلوم ہوں۔ [مزید لنک پر]

*سنت اور حدیث دو عیلحدہ چیزیں ہیں ، عمومی طور پر عام مسلمان کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ یہ ایک بات ہے جو کہ درست نہیں – رسول ﷺ  نے ان دونوں میں فرق رکھا –

سنت اور حدیث کی اہمیت: اسلام ؛ قرآن اور سنت پر عمل کرنے کا نام ہے۔اسلام کی بنیاد صرف رسول اللہﷺ سے نقل وسماع ہے، قرآن کریم بھی رسول اللہﷺ ہی کے ذریعہ ملا ہے؛ انھوں نے ہی بتلایا اور آیات کی تلاوت کی ،جوبطریقۂ تواتر ہم تک پہنچا ہے- کتاب اللہ کے بعد رسول اللہؐ کی “سنت ثابتہ” شریعت کا دوسرا سرچشمہ اور اصل واساس ہے، یہ قرآن کریم کی عملی تشریح اور اس کے اصول کی توضیح اور اجمال کی تفصیل ہے- آپ نے فرمایا کہ:
“تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَاتَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ رَسُوْلہِ”۔(مشکوٰۃ شریف:۲۹)”:
میں تمہارے درمیان دوچیزوں کو چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم ان دونوں کومضبوطی سے تھامے رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہوگے اور وہ کتاب اللہ اور سنت رسولﷺ ہے۔ “

جب حج الوداع کے موقع پر المائدہ کی آیات ٣ ، نازل ہوئی جس میں دین کے کامل ہونے کا اعلان کر دیا گیا:الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ [ آج میں نے تمہارے لئے دین کو مکمل کر دیا ہے]. حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اس دین اسلام کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے کامل کر دیا ہے اور اپنے نبی اور مومنوں کو اس کا کامل ہونا خود اپنے کلام میں فرما چکا ہے اب یہ رہتی دنیا تک کسی زیادتی کا محتاج نہیں ، اسے اللہ نے پورا کیا ہے جو قیامت تک ناقص نہیں ہوگا۔ اس سے اللہ خوش ہے اور کبھی بھی ناخوش نہیں ہونے والا ۔ حج اکبر والے دن جبکہ یہ آیت اتری تو حضرت عمر رونے لگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سبب دریافت فرمایا تو جواب دیا کہ ہم دین کی تعمیل میں کچھ زیادہ ہی تھے ، اب وہ کامل ہو گیا اور دستور یہ ہے کہ کمال کے بعد نقصان شروع ہو جاتا ہے ، آپ نے فرمایا سچ ہے ، اسی معنی کی شہادت اس ثابت شدہ حدیث سے ہوتی ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے کہ اسلام غربت اور انجان پن سے شروع ہوا اور عنقریب پھر غریب انجان ہو جائیگا ، پس غرباء کیلئے خوشخبری ہے۔

اس وقت قرآن اور سنت رسول اللہﷺ تواتر میں موجود تھی مثلاً نماز، روزہ ، زکات ، حج اور دوسرے احکام و معاملات پر لاکھوں مسلمان عمل درآمد کر رہے تھے، قران حفاظ صحابہ اکرام کے دماغ میں اور مختلف طریقوں پر تحریر کی شکل میں موجود تھا جس کو کتاب کی شکل میں اکٹھا کر دیا گیا، اور پھر حضرت عثمان رضی الله نے تو سرکاری طور پر اس قرآن کوتحقیق کے بعد اہل قریش کی قرات میں تحریرکروا کرعالم اسلام میں بھجوا دیا اور باقی ذاتی غیر سرکاری نسخوں کو جلا دیا- نماز میں قران مسلسل تلاوت کیا جاتا تھا- پوری توجہ قرآن پر تھی-

حدیث لکھنے کا سرکاری اہتمام خلفائےراشدین اور بعد کے حکمرانوں نےکیوں نہ کیا؟ اس کی وجوہات میں رسول اللہﷺ کی طرف سے ممانعت بیان کی جاتی ہیں تفصیل اس <لنک> پر پڑھ سکتے ہیں –

****************

“تم لوگوں کی ر ہنما ئی کرتے ہو، لیکن تم ہی اندھے ہو. تم تو شربت میں مچھر پکڑتے ہو اور خود اونٹ کو نگل جا نے وا لو ں کی طرح ہو”:  یہ بات حضرت عیسی علیہ السلام نے علماء یہود کو کہی تھی – آج دو ہزار سال بعد یہی، حال ہمارے علما ء اور دانشوروں کی اکثریت کا ہے- احقر نے  بہت تحقیق کے بعد قرآن و حدیث سے “سات سنہری اصول علم الحديث” مرتب کیے ہیں جو 1400 سال سے نظر انداز کیے گۓ، (جان بوجھ کر یا غلطی سے واللہ اعلم)  لیکن اب اہل علم  اور  حدیث رسول ﷺ سے دلی محبت کرنے والوں  کے پاس کوئی بہانہ نہیں ان کو اب ان اصولوں کی روشنی میں احادیث کے خزانہ کو از سر نو مرتب کرنا ہو گا- یہ کام صرف وہی کر سکتا ہے جسے (‏أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ) دل سے قبول ہے اور وہ عشق رسول اور احادیث رسولﷺ سے حقیقی محبت رکھتا ہے صرف زبانی دعوے نہیں- احقر یہ کام کرے گا ان شاء الله ، مگر انفرادی کوشش کی بجایے اس کار خیر میں جتنے زیادہ لوگ حصہ لیں گے اس میں زیادہ مضبوطی ، درستگی اور برکت ہو گی- ہم سب کو ذاتی مفادات اور تشہیر سے بلند ہو کر اس ذمہ داری کو نبھانا ہے،جس کا اجر صرف اللہ ہی دے سکتا ہے- بہتر ہے دو تین ہم خیال علماء / محدثین/ مسلمان  اپنا اپنا ایک گروپ بنائیں اور یہ نیک کام شروع کر دیں. اپنی مصروفیات میں سے کچھ وقت مخصوص کریں، جتنا بھی وقت لگے کام کرتے جائیں- جزاک الله    [https://bit.ly/Hadith-Basics]

****************

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا‫:

‫’حسبنا کتاب اللہ‘ یعنی ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے ۔‫(‬ بحوالہ : صحیح بخاری ، کتاب المرضی ، باب قول المريض قوموا عني ، حدیث : 5731 ‫)

امام مالک بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حدیثیں یا ان کی کتابیں لکھنے کا ارادہ کیا، پھر فرمایا کتاب اللہ کے ساتھ کوئی کتاب تحریر نہیں ہوسکتی۔ امام مالک نے کہا ابن شہاب زہری کے پاس ایک ایک کتاب کے سوا جس میں ان کی قوم کا نسب لکھا تھا کوئی کتاب نہ تھی۔ لوگوں میں لکھنے کا نہیں، حفظ کرنے کا رواج تھا، جو لکھتا تھا وہ حفظ کرنے کی نیت سے لکھتا تھا جب حفظ کر لیتا تحریر مٹا دیتا۔[ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 77]

احادیث سے مراد وہ تمام اقوال ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمائے ہیں۔ احادیث کو لکھنے سے منع فرمایا کہ پہلی اقوام (یہود و نصاری ) کتاب الله کے ساتھ دوسری کتب لکھ کر گمراہ ہو گیئیں ، لیکن حفظ کر کہ بیان و سماع کی اجازت تھی جو سلسلہ صدیوں تک مروج رہا اب بھی کسی حد تک – کچھ صحابہ نے کمزور حافظہ کی بنیاد پر احادیث لکھنے کی اجازت مانگی کچھ کو اجازت ملی اور کچھ کو انکار ہوا ، عام اجازت نہیں ملی جیسا کہ اب دعوی کیا جاتا ہے – صحابہ لکھ کر حفظ کے بعد مٹا دیتے تھے مگر کچھ نے ان تحریروں / صحائف کو بطور تبرک و احترام محفوظ رکھا لیکن کتاب لکھنے کی جسارت ، حکم عدولی نہ کی- ذاتی نوٹس (صحایف) اور کتاب میں فرق ہے- کتاب صرف ایک کتاب الله (قرآن )-

پھر دوسری صدی حجرہ سے بدعت اور نافرمانی کا آغاز ہوا اور تیسری صدی حجرہ میں احادیث کے مجموعے مختلف علماء و محدثین نے تحریر کیےجو ان کے ناموں سے مشہورہویے-رسول اللہﷺ نے حدیث کے مسند اور قابل قبول ہونے کا ایک میعار مقرر فرمایا جو کہ متن کے مطعلق ہے کہ: (١) حدیث قرآن و سنت کے مطابق ہو، (٢) عقل و دانش ، دل کو قبول ہو (٣) قرآن کسی حدیث کو منسوخ کر سکتا ہے حدیث قرآن کو منسوخ نہیں کر سکتی – [تفصیل اس لنک پر ]

اس میعار کو رد کر کہ علماء نے اپنا میعار ایجاد کر لیا جس کی بنیاد اسناد کے سلسلہ پر رکھی متن کی اہمیت ضروری نہ سمجھی- اس طرح سے من گھڑت اور متضاد روایات کی بنیاد پر  “فتنہ، بدعت اور ضلالہ” کنے درواے کھل گۓ جس کا اظھار مفسر قرآن ، صحابی عبدالله بن مسعود (رضی الله ) نے کیا تھا –

1. اجماع ممنوع: https://bit.ly/False-Ijmaa
2. علم الحديث کے سنہری اصول : https://bit.ly/Hadith-Basics
3. صحابہ کرام (رض): اشتباھات و حقائق: https://bit.ly/Sahaba-Grudge

صحاح ستہ؛ یعنی کہ چھ مستند کتابیں (١)صحیح بخاری (٢) صحیح مسلم(٣) سنن نسائی(٤) سنن ابی داؤد (٥) سنن ابن ماجہ(٦) سنن ابن ماجہ صحاح ستہ (٢٢٥ -٣٠٣ ھ) کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ان چھ کتابوں میں جتنی روایات ہیں، سب صحیح ہیں اور نہ یہ نظریہ درست ہے کہ صرف ان ہی کتبِ ستہ کی روایات صحیح ہیں۔ باقی کتب حدیث کی روایات درجہٴ صحت تک نہیں پہنچتی ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ نہ صحاح ستہ کی ہر حدیث صحیح ہے اور نہ اُن سے باہر کی ہر حدیث ضعیف ہے حقیقت یہ ہے کہ ان کتابوں کی روایات زیادہ تر صحیح ہیں، اس لیے انہیں صحاح ستہ کہا جاتا ہے۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں: ”چھ کتابیں جو اسلام میں مشہور ہیں، محدثین کے مطابق وہ صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ ہیں۔ ان کتابوں میں حدیث کی جتنی قسمیں ہیں صحیح، حسن اور ضعیف، سب موجود ہیں اور ان کو صحاح کہنا تغلیب کے طور پر ہے۔“ محدثین کی ان کتابوں میں ایک طرف دینی معلومات جمع کی گئیں اور دوسری طرف ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانے کے صحیح تاریخی واقعات جمع کیے گئے ہیں۔

حدیث کی کتب کو عوام میں پزیرائی نہ مل سکی کیونکہ یہ بدعت ممنوع تھی رسول الله کے بعد خلفا راشدین نے بھی منع فرمایا تھا پابندی تھی – دو صدیوں کی مزید کوشش اور پروپیگنڈہ کے بعد 464 حجرہ  1072 عیسوی میں نیشا پور کے کالج میں پہلی مرتبہ ال بخاری کو پبلک فو ر م پر پڑھا گیا -اب کسی کو حقیقت معلوم نہیں کوئی بات کرے تو اسے احمق لا علم کھا جاتا ہے –

حجت دین کے بارے میں قرآن و حدیث میں فرق یہ ہے کہ قرآن کی نقل بہ طریقۂ تواتر ہے، جوہرطرح کے شک وشبہ سے بالاتر ہے اور علم قطعی کی موجب ہے اور حدیث اس حیثیت سے کہ ارشاد رسول اللہﷺ ہے، حجت قطعی ہے؛ البتہ رسول اللہﷺ سے ہم تک پہونچنے میں جودرمیانی وسائط ہیں، ان کی وجہ سے احادیث کا ثبوت اس درجہ قطعی نہیں ہے، جس درجہ کی قطعیت قرآن کو حاصل ہے۔اسی لیے احادیث کے مختلف درجات ہیں، صحیح، مرسل، ضعیف ، مگر قرآن کی آیات محکم ہیں ان کے متعلق ارشاد ہے :

ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ (2:1)یہ (قرآن) وہ کتاب ہے جس (کے کلام اللہ ہونے) میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔

مگرکیا حدیث کی کسی کتاب کے لیے ایسا دعوی کیا جا سکتا ہے؟سنت کیوں کہ تواترسے لا تعداد افراد کی وساطت عمل سے منتقل ہوئی اس لیے اس کی درجہ بندی حدیث کی طرح نہیں- غور طلب بات ہے کہ جب دین کامل ہو گیا (5:3)حج الوداع پر تو اس وقت صرف قرآن اور سنت کا وجودعملی طور پرظاہر تھا-علم حدیث بتدریج وجود پذیر ہوا، کچھ اصحابہ رضی الله کی حدیث کو محفوظ کرنے کی ذاتی ،انفرادی کاوشوں کو قرآن و سنت کے تواتر کے معیارپر پرکھا نہیں جا سکتا- خاص طور پر جبکہ اربع خلفاءراشدین اور ان کے بعد کے حکمرانوں نے اس کی ضرورت کو محسوس نہیں کیا-اب سوالات اٹھتے ہیں:

  1. انہوں نے احادیث کوسرکاری سرپرستی میں قرآن کی طرح مرتب کرنے کا اہتمام کیوں نہ کیا؟
  2. کیا ان کو معلوم نہ تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ اصحابہ اکرام جوبراہ راست چشم دیدگواہ ہیں فوت ہو جائیں گے اور یہ علم کا خزانہ ان کے ساتھ دفن ہو جائے گا؟
  3. کیا وہ احادیث کو تحریر کرنے کی اہمیت کو نہیں سمجھتے تھے جتنے بعد کے لوگ ؟
  4. یا وہ یہ سمجھتے تھے کہ فقط سنت تواترہی کافی ہے؟
  5. ان سولات اور مزید سوالات کو جوابات اس <لنک> پر موجود ہیں –

کتابت حدیث:کتابت حدیث کی تاریخ – نخبة الفکر – ابن حجرالعسقلانی –<< ایک علمی جایزہ  :>>

شاہ والی الله فرماتے ہیں کہ:”نبی کی تعلیم میں ایک جزو اس کی قوم کے مزاج اور اس کی خصوصیات سے تعلق رکھتا ہے، کوئی نبی تمام اقوام کے مزاج کے مطابق اور مختلف ملتوں کی روایت کے موافق الگ الگ شریعتیں تو پیش نہیں کر سکتا- اسے پہلے اپنی قوم ہی کو تیار کرنا ہے تا کہ اس کی اساس پر ایک کلی شریعت کی تعمیر بعد میں قائم ہو سکے- نبی کلی حقائق کا اطلاق اپنی قوم کے مخصوص حالات پر کرتا ہے اور ان کی اصلاح کی کوشش کرتا ہے- لیکن کسی کل کا ایک جزو کی حالت پر اطلاق جذییت اور ہنگامی اصلاح کو کلی نہیں بنا سکتا- جرائم اور ان کی سزائیں خاص طور پر قومی مزاج سے تعلق رکھتی ہیں اور ان کا اطلاق ہمیشہ تک تمام اقوام پر نہیں ہو سکتا-”
متواتر ٣٢٤ احادیث کی <لسٹ> :

حدیث اور سنت میں فرق:

1.عام غلط فہمی ہے کہ حدیث اور سنت ایک ہی چیز ہے۔ فی الحقیقت ؛ حدیث اور سنت دونوں ایک دوسرے سے ناصرف لسانی اعتبار سے بلکہ شریعت میں اپنے استعمال کے لحاظ سے بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔

2.اسلام ؛ قرآن اور سنت پر عمل کرنے کا نام ہے۔ سنت کی تشکیل میں احادیث کا کوئی کردارنہیں، اگرچہ سنت کو لکھ کر کسی کتاب میں شامل کرکہ دوسرے مواد کو جسٹیفا ای justify کرنے کی کوشش کریں –  لیکن سنت صرف احادیث سے نہیں بنی ہوتی ہے؛ سنت میں رسول اللہﷺ کی زندگی کا وہ حصہ بھی شامل ہے جو الفاظ کی شکل میں نہیں مثال کے طور پر تقریر اور یا کسی عبادت کا طریقہ ، تقریر کو محدثین حدیث میں بھی شمار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ سنت میں قرآن اور حدیث میں بیان کردہ ہدایات پر عمل کرنے کا نمونہ پایا جاتا ہے؛ یہ طریقہ یا عملی نمونہ محمد رسول اللہﷺ کے زمانے میں موجود اس عہد کی نسل سے اجتماعی طور پر اگلی اور پھر اگلی نسل میں منتقل ہوتا رہتا ہے اور اس کی اس اجتماعی منتقلی کی وجہ سے اس میں نقص یا ضعف آجانے کا امکان حدیث کی نسبت کم ہوتا ہے کیونکہ حدیث ایک، دو راوی سے دوسرے راوی تک انفرادی طور پر منتقل ہوتی ہے اور اس منتقلی کے دوران اس راوی کی حیثیت ، اعتبار اور اس کی یاداشت کا دخل ہوتا ہے۔ مگر سنت اجتماعئی طور پر منتقل ہوتی ہے تو اس میں غلطی نہ ممکن ہے – 

3.نکاح کرنا سنّت ہے، حدیث نہیں؛ قربانی کرنا سنّت ہے، حدیث نہیں؛ مسواک کرنا سنّت ہے، حدیث کوئی نہیں کہتا. کسی حدیث کو سنت سے پرکھا جا سکتا ہے:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ : ” سَيَأْتِيكُمْ عَنِّي أَحَادِيثُ مُخْتَلِفَةٌ , فَمَا جَاءَكُمْ مُوَافِقًا لِكِتَابِ اللَّهِ وَلِسُنَّتِي فَهُوَ مِنِّي , وَمَا جَاءَكُمْ مُخَالِفًا لِكِتَابِ اللَّهِ وَلِسُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي ” [(١) سنن الدارقطني: كِتَابٌ فِي الأَقْضِيَةِ وَالأَحْكَامِ وَغَيْرِ ذَلِكَ، كتاب عمر رضي الله عنه إلى أبي موسى الأشعري، رقم الحديث: ٣٩٢٦(٤٤٢٧) ؛

حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ، نبی صلے الله علیہ وسلم سے مروی ہیں کہ میری طرف سے کچھ اختلافی احادیث آئینگی، ان میں سے جو “کتاب الله” اور “میری سنّت” کے موافق ہونگی، وہ میری طرف سے ہونگی. اور جو “کتاب الله” اور “میری-سنّت” کے خلاف ہونگی وہ میری طرف سے نہیں ہونگی.(٢) الكفاية في علم الرواية للخطيب:التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ، رقم الحديث: ٣١١(٥٠٠٤)؛ (٣) ذم الكلام وأهله لعبد الله الأنصاري:الْبَابُ التَّاسِعُ، بَابٌ : ذِكْرُ إِعْلَامِ الْمُصْطَفَى صَلَّى اللَّهُ …رقم الحديث: ٥٨٩(٦٠٦)؛ (٤) الأباطيل والمناكير والمشاهير للجورقاني: كِتَابُ الْفِتَنِ، بَابُ : الرُّجُوعِ إِلَى الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ رقم الحديث:٢٧٧(٢٩٠ ٥) الكامل في ضعفاء الرجال » من ابتداء أساميهم صاد » من اسمه صالح؛ رقم الحديث: 4284 ٦) التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ » التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ؛ رقم الحديث: ٣١١] دلیل_فقہ ١) کھڑے ہوکر پیشاب کرنا[صحیح بخاری، کتاب الوضو، حدیث#٢٢١] اور کھڑے ہوکر پانی پینا [صحيح البخاري » كِتَاب الْأَشْرِبَةِ » باب الشُّرْبِ قَائِمًا، رقم الحديث: ٥٢١٣(٥٦١٥)] حدیث سے ثابت ہے، مگر یہ سنّت (عادت) نہ تھی، بلکہ سنّت (عادت) بیٹھکر پیشاب کرنا [صحيح البخاري » كِتَاب الْوُضُوءِ » بَاب التَّبَرُّزِ فِي الْبُيُوتِ، رقم الحديث: ١٤٧(١٤٩)] اور بیٹھکر پانی پینا تھی، کھڑے ہوکر پینے سے منع فرمایا.[صحيح مسلم » كِتَاب الْأَشْرِبَةِ » بَاب كَرَاهِيَةِ الشُّرْبِ قَائِمًا، رقم الحديث: ٣٧٧٨(٢٠٢٥)]

٢) وضو میں ہے عضوو کو (حدیث میں) 

(١)ایک  بار دھونا بھی ثابت ہے[صحيح البخاري » كِتَاب الْوُضُوءِ » بَاب الْوُضُوءِ مَرَّةً مَرَّةً، رقم الحديث: ١٥٥(١٥٧)]،

(٢) دو  بار دھونا بھی ثابت ہے[صحيح البخاري » كِتَاب الْوُضُوءِ » بَاب الْوُضُوءِ مَرَّتَيْنِ مَرَّتَيْنِ، رقم الحديث: ١٥٦(١٥٨)]، اور تین (٣) بار دھونا بھی ثابت ہے [صحيح البخاري » كِتَاب الْوُضُوءِ » بَاب الْوُضُوءِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا، رقم الحديث: ١٥٧(١٥٩)] مگر عادت ٣،٣ بار دھونا “عملی-متواتر” سنّت ہے.

٣) (پاک) نعلین(جوتے) پہن-کر نماز “پڑھتے-رہنا”(متواتر-حدیث سے) ثابت ہے [ صحيح البخاري » كِتَاب الصَّلَاةِ » بَاب الصَّلَاةِ فِي النِّعَالِ، رقم الحديث: ٣٧٦(٣٨٦)] ایک بھی حدیث نعلین اتارکر پڑھنے کی بخاری اور مسلم میں نہیں، مگر “عملی-تواتر” اور “تعامل/اجماع_امت” سے نعلین پھن کر نماز پڑھنا عادت(سنّت) نہیں. عمروبن شعیب بسند والد روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جوتوں سمیت اور (بغیر جوتوں کے) ننگے پاؤں نماز پڑھتے دیکھا ہے۔

(١) مصنف ابن أبي شيبة » كتاب الصلاة » أَبْوَابٌ شَتَّى مِنَ الصَّلاةِ » مَنْ رَخَّصَ فِي الصَّلَاةِ فِي النَّعْلَيْنِ،رقم الحديث: ٧٦٨٤(٧٩٣٥)،

(٢)سنن ابن ماجه » كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا » بَاب الصَّلَاةِ فِي النِّعَالِ، رقم الحديث: ١٠٢٨(١٠٣٨)،

(٣)سنن أبي داود » كِتَاب الصَّلَاةِ » بَاب الصَّلَاةِ فِي النَّعْلِ، رقم الحديث: ٥٥٦(٦٥٣)]

٤) نماز میں گردن پر بچی (نبی صلے الله علیہ وسلم کا اپنی بیٹی زینب کی بیٹی “امامہ بنت ابی العاص”=نواسي_رسول) کو اٹھانا حدیث [صحيح البخاري » كِتَاب الصَّلَاةِ » أَبْوَابُ سُتْرَةِ الْمُصَلِّي » بَاب إِذَا حَمَلَ جَارِيَةً صَغِيرَةً عَلَى عُنُقِهِ …،رقم الحديث: ٤٨٩(٥١٦)] میں فعل-ماضی-استمراری کے الفاظ “كان يصلي” (یعنی ایسے نماز پڑتے تھے) سے ثابت ہے، مگر یہ عادت (سنّت) نہ تھی، سو صحابہ(رضی الله عنھم) اور جماعت_مومنین کی بھی عادت(سنّت) نہ بنی.

٥) وضو کے بعد یا حالت_روزہ میں بیوی سے بوس و کنار کرنا ثابت ہے مگر عادت (سنّت) نہ تھی ، لیکن وضو میں کلی کرنا یا روزہ کے لئے سحری کھانا آپ کی سنّت (عادت مبارکہ) تھی جس کو سنّت کہا جاۓ گا.

سنت و الجماع

سنت کا نمونہ رسول اللہﷺ نے پیش کیا اور پھر اس کے بعد اصحاب اکرام اور تابعین سے ہوتا ہوا موجودہ زمانے تک پہنچا ہے اسی ليے اس میں امت کے اجتماعی درست طریقۂ کار یا راہ کا مفہوم بھی شامل ہوتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ عموماً اس کے ساتھ الجماعت کا لفظ لگا کر سنت و الجماع بھی کہا جاتا ہے۔ حدیث اور سنت کا فرق مفہوم کے لحاظ سے اسلامی شریعت میں پایا جاتا ہے –

حدیث کو رد کرنے کا رحجان مغرب کی استعماریت سے مقابل آنے کے ليے اس سے متصادم اسلامی نظریات کو رد کرنے والے جدت پسندوں کی جانب سے بیسویں صدی کے اوائل میں بھی سامنے آیا، ان ہی میں سے ایک شخص عبداللہ چکرالوی نے احادیث کو یکسر رد کر کہ اہل القرآن کی بنیاد ڈالی۔

پڑھیں :

  1. اہل قرآن اور اہل حدیث کے مغالطے …. [……]
  2. وحی متلو اور غیر متلو کی حقیقت >>>>
  3. Wahi Ghair Matlo
  4. قرآن اوراحیائے اسلام : شہزاده محمد بن سلمان

دوسری جانب اہل حدیث بھی انتہا پر پہنچے ہوۓ ہیں؛ ان کے نزدیک حدیث کی متابعت ، قرآن شریف کی آیات کے اتباع کے برابر ہے کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالٰی نے خود رسول اللہﷺ (کی دین سے متعلق) ہر بات کو اللہ کی اجازت سے ہونے کی ضمانت دی ہے اور اس سلسلے میں سورت النجم کی ابتدائی 15 آیات بکثرت حوالے کے طور پیش کی جاتی ہے :

وَ مَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی ؕ﴿۳﴾

اور نہ وہ اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں ۔ (53:3)

اس سورت کے حوالے میں ایک قابل غور بات یہ ہے کہ سورت میں اللہ تعالٰیٰ کا اشارہ ، محمد رسول اللہﷺ کے اس قول کی جانب ہے جو قرآن کی صورت نازل ہو رہا تھا۔ سنت اور حدیث کا لفظ امامیان اور وفقہا مختلف مفہوم رکھتا ہے-

سب کچھ الله کی تخلیق ہے….

وَ اللّٰہُ خَلَقَکُمۡ وَ مَا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۹۶﴾

حالانکہ اللہ نے تمہیں اور تمہارے کاموں کو پیدا کیا ہے (٣٧:٩٦)

مزید تحقیق پڑھیں >>>

حدیث ، سنت کا حصہ ہوتی ہے لیکن سنت صرف حدیث نہیں ہوتی۔ امام شافعی رح نے کہا:

“میں کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا جو تمام سنت اور احادیث کو جانتا ہو۔ اگر احادیث کا علم رکھنے والے علما کے علم کو یکجا کیا جاۓ تو صرف اسی حالت میں تمام سنت آشکار ہوسکتی ہے۔ چونکہ ماہرین حدیث دنیا کے ہر گوشے میں پھیلے ہیں اس وجہ سے بہت سی احادیث ایسی ہوں گی جن تک ایک عالم حدیث کی رسائی نہ ہوگی لیکن اگر ایک عالم ان سے نا آشنا ہے تو دوسروں کو ان کا علم ہوگا”

قران و سنت کے علاوہ اسلام کی تیسری اور چوتھی اصل وبنیاد، اجماع امت اور قیاس ہے اور ان چاروں اصولوں کا مرجع خود رسول اللہﷺ کی ذاتِ گرامی ہے-

—————————————-


کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات ، قول وحی ؟

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کی حیثیت سے اصولی طور پر یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ آپ کا ہر قول شریعت ہے بشرطیکہ وہ تشریع کے لیے آپ سے صادر ہوا ہو۔ کیونکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

(وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی اِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحْی یُّوْحٰی) (النجم)

”اور وہ (یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم) اپنی خواہش نفس سے کلام نہیں کرتے۔

(اور جو بھی وہ کلام کرتے ہیں ) وہ وحی ہی ہوتی ہے جوکہ وحی کی جاتی ہے”۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث کے الفاظ ہیں :

کُنْتُ اَکْتُبُ کُلَّ شَیْئٍ اَسْمَعُہُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُرِیْدُ حِفْظَہ فَنَھَتْنِیْ قُرَیْش وَقَالُوْا اَتَکْتُبُ کُلَّ شَیْئٍ تَسْمَعُہُ وَرَسُوْلُ اللّٰہِ بَشَر یَتَکَلَّمُ فِی الْغَضَبِ وَالرِّضَا،فَاَمْسَکْتُ عَنِ الْکِتَابِ فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ فَأَوْمَأَ بِأُصْبُعِہ ِلٰی فِیْہِ فَقَالَ: ((اُکْتُبْ فَوَ الَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہ مَا یَخْرُجُ مِنْہُ ِلاَّ حَقّ)) (٢٠)

”میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی ہر بات لکھا کرتا تھا جس کو یاد رکھنے کا میرا رادہ ہوتا تھاتو قریش کے بعض افراد نے مجھے ہر بات لکھنے سے منع کیا اور کہا: کیا جو بھی تم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنتے ہو ،اسے لکھ لیتے ہو؟ حالانکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک بشر ہیں،بعض اوقات آپ ناراضگی میں کلام فرماتے ہیں اور بعض اوقات رضامندی کی حالت میں۔(حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ) میں ان صحابہ کی یہ بات سن کر اپنے اس فعل سے رک گیا ،لیکن میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا تذکرہ کیا تو آپ نے اپنے دہن مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا :” لکھو!اللہ کی قسم اِس زبان سے سوائے حق کے کچھ نہیں نکلتا۔”

امام ابن حجر نے اس حدیث کو قابل احتجاج قرار دیا ہے، علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح کہاہے۔

قرآن کی مذکورہ بالا آیت اور اس قسم کی روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کلام بھی شرع بیان کرنے کے لیے کیا ہے وہ حق ہے، حجت ہے، وحی ہے اور قابل اتباع ہے۔

لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ آپ کا ہر قول کسی شرعی حکم کو بیان کرنے کے لیے نہیں ہوتا تھا۔

بعض اوقات آپ ہماری طرح دنیاوی اُمور میں بھی گفتگو کرتے تھے اور آپ کایہ کلام کسی شرعی حکم کے استنباط کے لیے مصدر کی حیثیت نہیں رکھتا ہے ۔الدکتور عبد الکریم زیدان لکھتے ہیں :

وأقوال النبی نما تکون مصدرا للتشریع، اذا کان المقصود بھا بیان الأحکام أو تشریعھا، أما ذا کانت فی أمور دنیویة بحتہ لا علاقة لھا بالتشریع، ولا مبنیة علی الوحی، فلا تکون دلیلا من أدلة الأحکام، و لا مصدرا تستنبط منہ الأحکام الشرعیة، و لا یلزم اتباعھا، ومن ذلک ما روی: أنہ علیہ السلام رأی قوما فی المدینة یؤبرون النخل،فأشار علیھم بترکہ، ففسد الثمر،فقال لھم: ((اَبِّرُوْا’ اَنْتُمْ اَعْلَمُ بِاُمُوْرِ دُنْیَاکُمْ))

”اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال صرف اُس وقت مصدرِ شریعت ہوں گے جب ان سے آپ کامقصود احکامِ شرعیہ کو بیان کرنا ہو۔لیکن اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض دنیاوی امور کے بارے میں کچھ گفتگوایسی فرمائی جس کا شریعت سے کوئی تعلق نہ ہو تو آپ کا ایسا کلام احکامِ شرعیہ کے لیے کوئی دلیل نہیں بنے گا اور نہ ہی وہ مصدر شریعت ہو گاکہ جس سے احکام نکالے جائیں،اور نہ ہی آپ کے ایسے اقوال کی پیروی لازمی ہے ۔

اس کی ایک مثال یہ روایت ہے کہ آپ نے مدینہ کے بعض لوگوں کو دیکھا کہ وہ نر کھجور کے ساتھ مادہ کھجور کی پیوند کاری کرتے تھے ۔آپ نے لوگوں کو ایسا کرنے سے اشارتاً منع کر دیا جس کہ وجہ سے اگلی فصل کم ہوئی تو آپ نے صحابہ کو حکم دیا کہ :”پیوند کاری کرو ،کیونکہ دنیاوی امور کو تم زیادہ بہتر جانتے ہو”۔

آپ کا ہر قول ہمارے لیے شریعت نہیں ہے؟

اس موضوع پر کہ ”آپ کا ہر قول ہمارے لیے شریعت نہیں ہے” شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اپنی کتاب ‘ حجة اللہ البالغة’ میں ‘ المبحث السابع: مبحث استنباط الشرائع من حدیث النبی’ کے تحت مختصر لیکن بہت عمدہ بحث کی ہے ۔

شاہ ولی اللہ صاحب کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ اقوال جو تبلیغِ رسالت کے باب سے نہیں ہیں(یعنی دنیاوی امور سے متعلق ہیں) ، بعض حضرات کے مناقب سے متعلق اقوال،طب سے متعلق بعض اقوال ،آپ کے دور میں کسی جزئی مصلحت کے حصول کے لیے آپ کے جاری کردہ احکامات،آپ کے عادی امور، آپ کے فیصلے(یعنی قضاء) اور آپ کے بعض احکامات کا آپ کی قوم کے بعض لوگوں کے لیے خاص ہوناوغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔


شاہ صاحب نے اس موقف کی دلیل کے طور پرکہ آپ کاہر قول ہمارے لیے شریعت نہیں ہے، ایک حدیث کو بیان کیا ہے۔حضرت خارجہ بن زید بن ثابت سے روایت ہے:

دَخَلَ نَفَر عَلٰی زَیْدٍ بْنِ ثَابِتٍ فَقَالُوْا حَدِّثْنَا بَعْضَ حَدِیْثِ رَسُوْلِ اللّٰہِ فَقَالَ وَمَا أُحَدِّثُکُمْ؟ کُنْتُ جَارُہ فَکَانَ ِذَا نَزَلَ الْوَحْیُ أَرْسَلَ ِلَیَّ فَکَتَبْتُ الْوَحْیَ وَکَانَ ِذَا ذَکَرْنَا الْآخِرَةَ ذَکَرَھَا مَعَنَا وَذَا ذَکَرْنَا الدُّنْیَا ذَکَرَھَا مَعَنَا وَذَا ذَکَرْنَا الطَّعَامَ ذَکَرَھُ مَعَنَا’ فَکُلُّ ھٰذَا أُحَدِّثُکُمْ عَنْہُ؟ (٢٤)

”اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال صرف اُس وقت مصدرِ شریعت ہوں گے جب ان سے آپ کامقصود احکامِ شرعیہ کو بیان کرنا ہو۔لیکن اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض دنیاوی امور کے بارے میں کچھ گفتگو ایسی فرمائی جس کا شریعت سے کوئی تعلق نہ ہو تو آپ کا ایسا کلام احکامِ شرعیہ کے لیے کوئی دلیل نہیں بنے گا اور نہ ہی وہ مصدر شریعت ہو گاکہ جس سے احکام نکالے جائیں، اور نہ ہی آپ کے ایسے اقوال کی پیروی لازمی ہے ۔اس کی ایک مثال یہ روایت ہے کہ آپ نے مدینہ کے بعض لوگوں کو دیکھا کہ وہ نر کھجور کے ساتھ مادہ کھجور کی پیوند کاری کرتے تھے ۔آپ نے لوگوں کو ایسا کرنے سے اشارتاً منع کر دیا جس کہ وجہ سے اگلی فصل کم ہوئی تو آپ نے صحابہ کو حکم دیا کہ :”پیوند کاری کرو ،کیونکہ دنیاوی امور کو تم زیادہ بہتر جانتے ہو”
[امام ہیثمی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ‘حسن’ کہا ہے، امام ابن حجررحمہ اللہ نے اس روایت کو’حسن’ کہا ہے۔]
حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت سے حجت پکڑی ہے ۔جبکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ‘ضعیف ‘کہا ہے۔ ‘سنن البیہقی’ کی ایک روایت میں ‘أَوَکُلَّ ھٰذَا نُحَدِّثُکُمْ عَنْہُ’؟ کے الفاظ بھی ہیں ۔ بعض دوستوں کا خیال یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر قول پر عمل ضروری ہے ۔ان حضرات کا کہنا یہ ہے کہ قرآن میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا گیا اور آپ کی اطاعت اُمت پر لازم ہے،لہٰذا جہاں بھی آپ کا کوئی قول آ جائے، چاہے وہ دنیا سے متعلق ہو یا دین سے ، تو اس پر عمل کرنا لازم ہو گا،کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال آپ کی اطاعت میں داخل ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قرآن میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا گیا اور آپ کی اطاعت ہر اُمتی پر فرض ہےلیکن کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر ہر قول یا ہر ہر بات، چاہے وہ دین سے متعلق ہو یا دنیا سے ، اطاعت کی تعریف میں داخل ہے ؟ اگر کوئی شخص ایسا سمجھتا ہے تو یہ موقف درست نہیں ہے۔
 
 قرآن کے مقابلے میں حدیث کا کیا رتبہ ہے؟ کیا حدیث قرآن کی آیت کا متبادل ہو سکتی ہے؟ 
 قرآن اس امت کواجماع وتواتر سے منتقل ہوا ہے اور حدیث خبر واحد ہے۔ قرآن قطعی ہے اور حدیث ظنی ہے۔ حدیث سے قرآن کے لفظ ومعنی میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی، جبکہ قرآن کی روشنی میں حدیث کو سمجھا جائے گا اور تطبیق کی کوئی صورت پیدا نہ ہو تو اسے مخالف قرآن قرار دیا جائے گا اور اس سے دین میں استشہاد نہیں کیا جائے گا۔ اس تفصیل سے واضح ہے کہ کوئی حدیث قرآن کی کسی آیت کا متبادل نہیں ہو سکتی۔

حدیث کلام اللہ (قرآن ) کو منسوخ نہیں کر سکتی [10]

قرآن کا حکم :

“—- آپ صلی اللہ علیہ وسلم یوں کہہ دیجئے کہ مجھے یہ حق نہیں کہ میں اپنی طرف سے اس میں ترمیم کر دوں بس میں تو اسی کا اتباع کرونگا جو میرے پاس وحی کے ذریعے سے پہنچا ہے اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو میں ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ رکھتا ہوں” (قرآن 10:15)

وَعَنْہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم 

کَلَامِیْ لَا یَنْسَخُ کَلَامَ اﷲِ وَ کَلَامُ اﷲِ یَنْسَخُ کَلَامِیْ وَ کَلَامُ اﷲِ یَنْسَخُ بَعْضُہ، بِعْضًا (مشکوٰۃ المصابیح : حدیث نمبر: 189)

 رسول اللہ ﷺ کے واضح فرمان کو کیسے رد کے جاتا ہے ،  ایک طریقہ ایسی احادیث کو ضعیف ، منکر وغیرہ قرار دیا جاتا ہے اور پھر تشریح سے مطلب کو تبدیل کر دیتے ہیں، اس لنک پر تشریح پر ملاحضہ فرمائیں.(استغفر الله )

ترجمہ: اور حضرت جابر ؓ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا  میرا کلام، کلام اللہ کو منسوخ نہیں کرتا اور کلام اللہ میرے کلام کو منسوخ کردیتا ہے اور کلام اللہ کا بعض کو منسوخ کرتا ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح : حدیث نمبر: ، 189) ( (سنن دارقطنی:۱؍۱۱۷)

مکمل تفصیل ملاحضہ فرمائیں >>>>

 ???.. سند اور ریفرنس نہ معلوم ؟؟؟
 “اذا روی عنی حدیث فاعر ضوہ علی کتاب اللہ فان وافق فاقبلوہ و الا تذروہ “
جب بھی کوئی حدیث آپ کو پیش کی جائے، میری (رسول صلعم) طرف سے، تو اس کی تصدیق قران کی روشنی (ضو علی کتاب اللہ) میں کرلیں۔ اگر یہ قرآن سے مطابقت رکھتی ہے تو قبول کرلیں اور اگر قرآن کے مخالف ہے تو اس کو ضایع دیں۔
معنی اس کے یہ ہیں کہ صحیح حدیث کی ایک پہچان یہ ہے کہ وہ کبھی قرآن سے متعارض نہیں ہوگی-
عربی متن :
“اذا روی عنی حدیث فاعر ضوہ علی کتاب اللہ فان وافق فاقبلوہ و الا تذروہ “
اردو ترجمہ : اگر مجھ سے کوئی حدیث روایت کی جائے تو اسے کتاب اللہ پر پیش کرو پھر اگر وہ اس کے موافق و مطابق ہو تو اسے قبول کر لو اور نہ چھوڑو۔ [ ???.. سند اور ریفرنس نہ معلوم ؟؟؟]
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
“اجتہاد” یعنی قانونی معاملات پر آزادانہ رایے قائم کرنا اور احادیث

“اجتہاد” یعنی قانونی معاملات پر آزادانہ رایے قائم کرنا- قرآن سے ماخوز قانونی اصول، بدلتے زمانہ اور حالات کے مطابق پھیلاؤ اور ترقی کی صلاحیت رکھتے ہیں- حضرت عمر رضی اللہ نے حالات کے مطابق اجتہاد کیا. چہار فقہی مکاتب کے بعد اسلامی فقہ جمود کا شکار ہو گیا کیونکہ مختف وجوہ کی بنا پر اجتہاد کے دروازے بند کر دیے گیۓ. اس سے مسلم امت کو کچھ فائدے مگر نقصانات زیادہ ہوے. ابن تیمیہ ر ح پھر عبد الوہاب ر ح نے جمود کو توڑنے کی کوشش کی .

شاہ ولی اللہ کے مطابق عام شریعیت اس وقت کے معاشرہ کی ضروریات کے مد نظر تھیں اور ان پر عمل ہمیشہ کے لیے حتمی نہیں کہ مستقبل کی نسلوں پرمکمل طور اسی طرح پر نافذ کیا جا سکے. اس لیے امام ابوحنیفہ نے “استحسان” اختیار کیا- اقبال اس نتیجہ پر پہنچے کہ آج کے مسلمان موجودہ حالات کے مطابق اپنی معاشرتی زندگی کی ‘تعمیر نو’ اسلام کے بنیادی اصولوں کی روح کے مطابق کریں-

علامہ اقبال لکھتےہیں:

احادیث کا حصہ کثیر اسلام کے عروج کا قابل اعتماد تاریخی سرمایہ ہے-احادیث میں معاملات کی احادیث کو دیگر احادیث سے الگ کرکہ دیکھنا چاہیے کہ کہاں تک اس حصہ میں زمانہ قبل اسلام کے بعض رسوم و طریقے ایسے ہیں جن کو نبی اسلام ﷺ نے برقرار رکھا ہے اور کون سے طریقے اسے ہیں جن میں کچھ رد و بدل کیا ہے- اسلام کے فقہا اور مورخین نے اس پر کچھ زیادہ روشنی نہیں ڈالی اور نہ یقین سے یہ کہ سکتے ہیں کہ جن باتوں کو نہیں بدلا ، آیا رسول اللہﷺ ان کو ہنگامی سمجھتے تھے تمام مسلمانوں کے لیے ابدی طور پر لازم قرار دیتے تھے- اس بارے میں شاہ والی الله نے بڑی نکتے کی حکیمانہ بات کہی ہے وہ فرماتے ہیں کہ: “نبی کی تعلیم میں ایک جزو اس کی قوم کے مزاج اور اس کی خصوصیات سے تعلق رکھتا ہے، کوئی نبی تمام اقوام کے مزاج کے مطابق اور مختلف ملتوں کی روایت کے موافق الگ الگ شریعتیں تو پیش نہیں کر سکتا- اسے پہلے اپنی قوم ہی کو تیار کرنا ہے تا کہ اس کی اساس پر ایک کلی شریعت کی تعمیر بعد میں قائم ہو سکے- نبی کلی حقائق کا اطلاق اپنی قوم کے مخصوص حالات پر کرتا ہے اور ان کی اصلاح کی کوشش کرتا ہے- لیکن کسی کل کا ایک جزو کی حالت پر اطلاق جذییت اور ہنگامی اصلاح کو کلی نہیں بنا سکتا- جرائم اور ان کی سزائیں خاص طور پر قومی مزاج سے تعلق رکھتی ہیں اور ان کا اطلاق ہمیشہ تک تمام اقوام پر نہیں ہو سکتا-” علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ اسی وجہ سے امام ابو حنیفہ رح جیسے بالغ نظرفقیہہ نی ان مخصوص احادیث کی طرف زیادہ توجہ نہ کی جن کا تعلق عربوں کے مزاج اور ان کی معاشرت سے تھا- بعض لوگ کہتے ہیں کہ احادیث کے مجموعے ان کے سامنے نہ تھے اور وہ اس سے واقف نہ تھے- علامہ فرماتے ہیں کہ یہ بات قا بل یقین نہیں- امام ابو حنیفہ نے معا ملات کی بعض احادیث کو کلیت کی حیثیت نہیں دی اور قیاس و استحسان کوذرایع تفقہ میں داخل کیا تاکہ روح اسلام کے مطابق اور زمانے کے تقاضوں کے موافق فلاح عامہ کی خاطر اور معقول انداز میں فقہ مرتب ہو سکے- اگر آزادی اجتہاد کے خواہش مند معاملات کی بعض احادیث کو شرعیت کا اٹل حصہ نہ سمجھیں تو وہ اس معاملہ میں امام ابو حنیفہ ہی کے مسلک پر ہیں- مگر احادیث میں ایک خوبی ہے کہ ان میں فقہا کی طرح مجرد نظریاتی بحثیں نہیں ہیں بلکہ مخصوص حالات اور واقعات کے کسی حکم کی وابستگی ہے، احادیث کے مجموعوں کی افادیت سے کون انکار کر سکتا ہے ، لیکن اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے قرانی بصیرت کی ضرورت ہے- [ماخوز ،” اسلام کی تعمیر میں اصول حرکت” چھٹا خطبہ “اسلام میں دینی تفکر کا انداز جدید” علامہ محمّد اقبال -ترجمہ]

[Extract from; “Reconstruction of Religious Thought in Islam, Lecture-6: “The Principle of Movement in the Structure of Islam” by Allamah Dr.Muhammad Iqbal]http://freebookpark.blogspot.com/2012/06/reconstruction-of-religious-thought-in.html

اتباع کی قسمیں

اللہ کا اتباع

اتبعوا ما انزل اليكم من ربكم ولا تتبعوا من دونه اولياء (اعراف: 3)

(لوگو) جو (کتاب) تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو

چلو اسی پر جو اترا تم پر تمہارے رب کی طرف سے اور نہ چلو اس کے سو رفیقوں کے پیچھے تم بہت کم دھیان کرتے ہو۔
رسول کا اتباع

قل ان كنتم تحبون الله فاتبعوني يحببكم الله ويغفر لكم ذنوبكم والله غفور رحيم (آل عمران: 31)

 تو کہہ اگر تم محبت رکھتے ہو اللہ سے تو میری راہ چلو تاکہ محبت کرے تم سے اللہ اور بخشے تمہارے گناہ اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

———————-

جماعت کا اتباع

ومن يشاقق الرسول من بعد ما تبين له الهدى ويتبع غير سبيل المؤمنين نوله ما تولى ونصله جهنم وساءت مصيرا (النساء: 115)

اور جو کوئی مخالفت کرے رسول کی جب کہ کھل چکی اس پر سیدھی راہ اور چلے سب مسلمانوں کے رستے کے خلاف تو ہم حوالہ کریں گے اس اسی کی طرف جو اس نے اختیار کی اور ڈالیں گے اس کو دوزخ میں اور وہ بہت بری جگہ پہنچا۔

یہ آیت اجماع امت پر عمل کرنے کی دلیل ہے۔

 مجتہد کا اتباع

واتبع سبيل من اناب الي (لقمان: 15)

راہ چل اس کی جو رجوع ہوا میری طرف

سنت رسول ﷺ، سنت صحابہؓ

حضرت عرباضؓ سے ایک روایت ہےجس میں آپ ﷺ کی وصیت ہے کہ میرے بعد بہت سے اختلافات پیدا ہوں گے اس کے بعد ارشاد فرمایا:

عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين عضوا عليها بالنواجذ (سنن ابن ماجہ کتاب المقدمات، صحیح)

تم پر لاز م ہے میری سنت اور میرے خلفائے راشدین کی سنت جو ہدایت یافتہ ہیں ان (یعنی میری اور ان کی سنت) کو اپنی داڑھوں مضبوط پکڑنا۔

حضرت علیؓ کی ایک روایت ہے:

جلد النبي صلى الله عليه وسلم اربعين وابو بكر اربعين وعمر ثمانين وكل سنة وهذا احب الي (الحدیث)(صحیح مسلم کتاب الحدود)

رسول اللہ ﷺ نے (شرابی کو) چالیس (کوڑے) لگوائے اور ابوبکرؓ نے بھی چالیس (کوڑے لگوائے) اور عمرؓ نے اسی (کوڑے لگوائے) اور ان میں سے ہر ایک سنت ہے اور مجھے یہ (یعنی اسی کوڑے) زیادہ پسند ہیں۔

فائدہ:

حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ دونوں کے فیصلے سنت کا درجہ رکھتے ہیں۔

حدیث 1

عن ابي وائل قال جلست مع شيبة على الكرسي في الكعبة فقال لقد جلس هذا المجلس عمر رضي الله عنه فقال لقد هممت ان لا ادع فيها صفراء ولا بيضاء الا قسمته قلت ان صاحبيك لم يفعلا قال هما المرءان اقتدي بهما۔(صحیح البخاری، کتاب الاعتصام بالسنۃ)

ابووائل نے بیان کیا کہ میں شیبہ کے ساتھ کعبہ میں کرسی پر بیٹھا ہوا تھا تو شیبہ نے فرمایا کہ اسی جگہ بیٹھ کر عمر رضی اللہ عنہ نے (ایک مرتبہ) فرمایا کہ میرا ارادہ یہ ہوتا ہے کہ کعبہ کے اندر جتنا سونا چاندی ہے اسے نہ چھوڑوں (جسے زمانہ جاہلیت میں کفار نے جمع کیا تھا) بلکہ سب کو نکال کر (مسلمانوں میں) تقسیم کر دوں۔ میں نے عرض کی کہ آپ کے ساتھیوں (رسول اللہ ﷺاور ابوبکرؓ) نے تو ایسا نہیں کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ میں بھی انہیں کی پیروی کر رہا ہوں (اسی لیے میں اس کے ہاتھ نہیں لگاتا)۔

· سیدنا عمرؓ نے اپنے عمل کی بنیاد رسول اللہ ﷺ اور سیدنا ابوبکرؓ کے عمل پر رکھی یعنی ابوبکرؓ کا فیصلہ بھی رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ کی طرح نافذ ہوسکتا ہے۔

سنت اور حدیث میں فرق

· سنت دائمی عمل کو کہتے ہیں۔ ثبوت سنت کے لئے غیرلازم چیز پر مواظبت (ہمیشگی) ضروری ہے۔ سنت دین کا وہ پسندیدہ معمول و مروج طریق ہے جو خواہ نبی کریم ﷺ سے ثابت ہو یا آپ ﷺ کے صحابہ کرام سے ثابت ہو۔ اس کی دلیل آپ ﷺ کا یہ ارشاد ہے:

تم پر لازم ہے میری سنت اور میرے خلفائے راشدین کی سنت اور سے دانتوں سے (یعنی مضبوطی سے) تھام لو۔

· علیکم بسنتی (صحیح البخاری) علیکم بحدیثی نہیں آیا۔

· صرف فعل سے دوام اور عمل کا سنت ہونا ثابت نہیں ہوتا۔مثلا ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کھڑے ہوکر پیشاپ فرمانے کا ذکر ہے۔

(فبال قائما (صحیح البخاری)

لیکن یہ سنت نہیں۔سنت بیٹھ کر پیشاپ کرنا ہے۔ قبلہ رخ ہوکر رفع حاجت کرنا ثابت لیکن یہ سنت نہیں۔ بچی کو اٹھا کر نماز پڑھنا ثابت لیکن یہ سنت نہیں۔ یا مثلا یہ روایت ہے کہ ابوبکرؓ جماعت کروا رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ ابوبکرؓ کے پہلو میں تشریف فرما ہوگئے اب ابوبکرؓ رسول اللہ ﷺ کی اقتدا کررہے تھے اور لوگ ابوبکرؓ کی۔ یہ حدیث تو ہے لیکن سنت نہیں۔ سنت وہی ہے کہ ایک جماعت کا ایک ہی امام ہوگا۔ اس لیے کہ امت نے کبھی اس پر عمل نہیں کیا کہ ایک جماعت کے دو امام ہوں۔

· یا مثلا رسول اللہ ﷺ سے صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ جوتا پہن کر نماز پڑھتے تھے۔

(کان یصلی فی نعلیہ (صحیح البخاری)

جب کہ ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ بغیر جوتوں کے نماز پڑھتے تھے۔ لیکن امت کا عملی تواتر پہلی حدیث کے بجائے دوسری حدیث پر ہے۔ ساری امت کا اتفاق ہے کہ جوتے پہن کر نماز پڑھنا آپ ﷺ کا نادر عمل ہے۔

الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ ۚ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنْزِلَ مَعَهُ ۙ أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ   (007:157)

‏ وہ جو (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کی جو نبی امی ہیں پیروی کرتے ہیں۔ جن (کے اوصاف) کو وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ وہ انہیں نیک کام کا حکم دیتے ہیں اور برے کام سے روکتے ہیں اور پاک چیزوں کو ان کے لئے حلال کرتے ہیں اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام تھیراتے ہیں اور ان پر سے بوجھ اور طوق جو ان (کے سے) پر (اور گلے میں) تھے اتار تے ہیں۔ تو جو لوگ ان پر ایمان لائے اور ان کی رفاقت کی اور انہیں مدد دی اور جو نور ان کے ساتھ نازل ہوا ہے اس کی پیروی کی وہی مراد پانے والے ہیں ۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
مسند احمد میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جب تم میری کسی حدیث کو سنو جسے تمہارے دل پہچان لیں تمہارے جسم اس کی قبولیت کے لئے تیار ہو جائیں اور تمہیں یہ معلوم ہو کہ وہ میرے لائق ہے تو میں اس سے بہ نسبت تمہارے زیادہ لائق ہوں اور جب تم میرے نام سے کوئی ایسی بات سنو جس سے تمہارے دل انکار کریں اور تمھارے جسم نفرت کریں اور تم دیکھو کہ وہ تم سے بہت دور ہے پس میں بہ نسبت تمھارے بھی اس سے بہت دور ہوں ۔ اس کی سند بہت پکی ہے ۔ اسی کی ایک اور روایت میں حضرت علی کا قول ہے کہ جب تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول کوئی حدیث سنو تو اس کے ساتھ وہ خیال کرو جو خوب راہ والا بہت مبارک اور بہت پرہیزگاری والا ہو  (تفسیر ابن کثیر)

ہ حدیث شریف میں ہے کہ میں ایک طرف آسان دین دے کر معبوث کیا گیا ہوں ۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری اور حضرت معاذ بن جبل کو جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم یمن کا امیر بنا کر بھیجتے ہیں تو فرماتے ہیں تم دونوں خوش خبری دینا، نفرت نہ دلانا ، آسانی کرنا، سختی نہ کرنا، مل کر رہنا ، اختلاف نہ کرنا ۔ آپ کے صحابی ایوبرزہ اسلمی فرماتے ہیں میں حضور کے ساتھ رہا ہوں اور آپ کی آسانیوں کا خوب مشاہدہ کیا ہے پہلی امتوں میں بہت سختیاں تھیں لیکن پروردگار عالم نے اس امت سے وہ تمام تنگیاں دور فرما دیں ۔ آسان دین اور سہولت والی شریعت انہیں عطا فرمائی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میری امت کے دلوں میں جو وسوسے گذریں ان پر انہیں پکڑ نہیں جب تک کہ زبان سے نہ نکالیں یا عمل نہ لائیں ۔ فرماتے ہیں میری امت کی بھول چوک اور غلطی سے اور جو کام ان سے جبراً کئے کرائے جائیں ان سے اللہ تعالٰی نے قلم اٹھا لیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس امت کو خود اللہ تعالٰی نے یہ تعلیم فرمائی کہ کہو کہ اے ہمارے پروردگار تو ہماری بھول چوک پر ہماری پکڑ نہ کر ۔ اے ہمارے رب ہم پر وہ بوجھ نہ لاؤ جو ہم سے پہلوں پر تھا۔ اے ہمارے رب ہمیں ہماری طاقت سے زیادہ بوجھل نہ کر ۔ ہمیں معاف فرما ، ہمیں بخش ، ہم پر رحم فرما۔ تو ہی ہمارا کار ساز مولیٰ ہے ۔ پس ہمیں کافروں پر مدد عطا فرما ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ جب مسلمانوں نے یہ دعائیں کیں تو ہر جملے پر اللہ تعالٰی نے فرمایا میں نے یہ قبول فرمایا ۔ پس جو لوگ اس نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں اور آپ کا ادب عزت کریں اور جو وحی آپ پر اتری ہے اس نور کی پیروی کریں وہی دنیا آخرت میں فلاح پانے والے ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر)

اگلا صفحہ  >>> انکار حدیث__یہ وہم کہیں تجھ کو گنہگار نہ کر دے

  1. حدیث پر مزید ...<< پڑھیں >>>
  2. قرآن اوراحیائے اسلام : شہزاده محمد بن سلمان

Hadith of Umar’s ban on hadith
Muhammad Husayn Haykal
“Umar ibn al-Khattab once tried to deal with the problem of committing the Hadith to writing. The companions of the Prophet whom he consulted, encouraged him, but he was not quite sure whether he should proceed. One day, moved by God’s inspiration, he made up his mind and announced: “I wanted to have the traditions of the Prophet written down, but I fear that the Book of God might be encroached upon. Hence I shall not permit this to happen.” He, therefore, changed his mind and instructed the Muslims throughout the provinces: “Whoever has a document bearing a prophetic tradition, shall destroy it.” The Hadith, therefore, continued to be transmitted orally and was not collected and written down until the period of al-Mamun.”

Dr. Mohammad Hamidullah
“Abu-Dhahabi reports: The Caliph Abu-Bakr compiled a work, in which there were 500 traditions of the Prophet, and handed it over to his daughter ‘Aishah. The next morning, he took it back from her and destroyed it, saying: “I wrote what I understood; it is possible however that there should be certain things in it which did not correspond textually with what the Prophet had uttered.”
As to Umar, we learn on the authority of Ma’mar ibn Rashid, that during his caliphate, Umar once consulted the companions of the Prophet on the subject of codifying the Hadith. Everybody seconded the idea. Yet Umar continued to hesitate and pray to God for a whole month for guidance and enlightenment. Ultimately, he decided not to undertake the task, and said: “Former peoples neglected the Divine Books and concentrated only on the conduct of the prophets; I do not want to set up the possibility of confusion between the Divine Qur’an and the Prophet’s Hadith.”

مزید : 

  1. حدیث اور اسکی اقسام Types of Hadiths
  2. اہلحدیث کے عقائد و نظریات
  3. تاریخ حدیث- ڈاکٹر حمید الله 
  4. قرآن اوراحیائے اسلام : شہزاده محمد بن سلمان
  5. <<کتابت حدیث >>
  6. Hadith of Umar’s ban on hadith
  7. http://www.quransmessage.com/articles/hadith%20FM2.htm
  8. The History of Hadith-Why and When it was written
  9. http://www.cpsglobal.org/content/how-were-hadith-compiled
  10. https://discover-the-truth.com/2013/05/27/refutation-did-the-prophet-his-companions-prohibit-the-writing-of-hadiths-part-1/
  11. https://answers.yahoo.com/question/index?qid=20080529081152AAapWkB
——————————————–

مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا ۖ كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ ﴿30:32﴾ (اور نہ) اُن لوگوں میں (ہونا) جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور (خود) فرقے فرقے ہو گئے۔ سب فرقے اسی سے خوش ہیں جو اُن کے پاس ہے (30:32)  اے ایمان والوں! اپنی فکر کرو، جب تم راه راست پر چل رہے ہو تو جو شخص گمراه رہے اس سے تمہارا کوئی نقصان نہیں۔ اللہ ہی کے پاس تم سب کو جانا ہے پھر وه تم سب کو بتلا دے گا جو کچھ تم سب کرتے تھے (105سورة المائدة)  امت مسلمہ کی بدقسمتی ہے کہ ہم غیر ضروری مباحثوں میں گم ہو کر اصل مسایل کو حل کرنے کی بجایے دوسرے ممنوع راستے کی طرف چل پڑے ہیں- لیکن کیوں کہ اب اس تفرقہ بازی سے جان چھڑانی ہے لہٰذا دونوں اطراف کے سوالات اور جوابات پیش ہیں- قاری خود اپنی عقل سے سیدھی راہ کا انتخاب کرے – اللہ آپ کا مدد گا ر ہو-

إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللَّـهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لَا يَعْقِلُون َ( ٢٢ الأنفال)
یقیناًاللہ کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے (8:22)
  1. <کتابت حدیث >>
  2. قرآن اوراحیائے اسلام : شہزاده محمد بن سلمان
  3. مسلک اہل حدیث کے بارے میں چند سوالات کے جوابات (اہل حدیث کا نقطہ نظر)
  4. http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/3534/286/
  5. اہلحدیث کے عقائد و نظریات (مخالفین کی نظر میں
  6. مقلدین خصوصاً احناف سے سوالات
  7. http://www.ahnafexpose.com/index.php/en/answer/article/246-muqladeen-khas-toor-pher-ahnaf-sa-sawalat
  8. مطالعہ تقلید : اتباع کی قسمیں، سنت رسول ﷺ، سنت صحابہؓ، سنت اور حدیث میں فرق >>>
  9. غیر مقلدین کے سوالات کے جوابات
  10. اگلا صفحہ  >>> انکار حدیث__یہ وہم کہیں تجھ کو گنہگار نہ کر دے

Pages ( 1 of 2 ): 1 2Next »