پاکستان، مسلمانوں کا نظریاتی اور فکری کنفیوژن اور ممکنہ حل Pakistan, Muslims in Ideological Confusion


”آگے بڑھنے کے لیے آئیڈیل طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے زاویہ نظر (Perspective) سے ترقی اور کامیابی کے تصورات کو عمل میں لے آئیں۔
ہمیں یہ کہنے کے لائق ہونا چاہیے کہ ترقی کا مغربی ماڈل ہمیں قبول نہیں، کامیابی کا مغربی نظام ہمیں قبول نہیں۔ ہم انسانی فضائل اور انسانی زندگیوں کی آسانیوں اور راحتوں کا اپنا ایک تصور رکھتے ہیں اور اس تصور پر عمل کرنے کی قوت موجود ہے۔ مثال کے طور پر ہماری خوشحالی سود سے پاک ہونی چاہیے۔ ہمارا یہ آئیڈیل ہے۔ ہم اس کے پابند ہیں کہ ہمارا مال سود سے پاک ہونا چاہیے۔ ہمارے اخلاق حیا کی بنیاد پر ہوں، آزادی یا کاروبارکی بنیاد پر نہیں۔ ہماری شخصیت انکسار کے جوہر سے تعمیر ہو، کسی اور تصور سے نہیں۔ جب تک ہم اسلام کا (World view) ورلڈ ویو بنانے، بتانے اور اسے عمل میں لانے کی صلاحیت پیدا نہیں کریں گے، اس وقت تک ہمیں مغرب کے تسلط سے بچانے کا کوئی اور ذریعہ نہیں ہے۔


 ہر امت، قوم کی پہلی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ بتائے کہ اس کا ورلڈ ویو(World view) کیا ہے؟


 ورلڈ ویو سے مراد (یہ) ہے کہ اس امت یا قوم کا تصور علم کیا ہے؟
 تصورِ دنیا کیا ہے
، تصور انسان کیا ہے؟


 پہلے ہمیں فراموشی کی دھند میں موجود اپنے ورلڈ ویو کوذہن میں لانے، زبان سے اظہار کرنے کی ضرورت ہے۔
اس تصور کا شعور حاکم طبقے کو ہونا چاہیے، علما کو، تعلیم یافتہ طبقات کو ہونا چاہیے، لیکن اس کا احساس عام ہونا چاہیے، خاص کر وہ طبقات جوسوسائٹی کو چلانے کی قوت رکھتے ہیں، جو اپنے فیصلوں کو نتیجہ خیز بنانے کے اسباب رکھتے ہیں یا جن کی ذمہ داری ہے۔
 ہمارے علما مغرب کو نہیں سمجھتے، مگر ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقات بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں، خاص کر وہ صاحبان جنہیں مغرب میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا، وہ بھی مغرب کے حوالے سے اتنے ہی جاہل ہیں، جتنا گائوں کا کوئی مولوی۔


 فہم مغرب یعنی وہ فہم جو مغربی تہذیب کے اثرات، اس تہذیب کے مزاج اور اس کے چھپے ہوئے مقاصد (Hidden Agenda)کو سمجھ سکے، وہ شعور ہمارے تعلیم یافتہ طبقات میں بالکل نہیں۔ اپنی تہذیب کی عائد کردہ ذمہ داریوں کا احساس ان میں نہیں ہے (اس اعتبار سے) اعلیٰ تعلیم یافتہ آدمی اپنی تہذیب کا غدار ہے، وہ اپنی تہذیب کی وفاداری کی رمق سے بھی محروم ہے‘‘۔


”علم کیا ہے اور علم کس لیے ہوتا ہے؟
 کوئی تہذیب ان دو سوالوں کے جواب دیے بغیر وجود ہی میں نہیں آ سکتی۔
 مغرب کہتا ہے کہ علم محسوسات کا علم ہے اور علم آرام سے، آزادی، سلامتی، خوشحالی کے ساتھ زندہ رہنے کے لیے ہے۔
 علم دنیا کو اپنے لیے آسان اور پرآسائش بنانے کے لیے ہے۔ مغرب کے پاس ان دونوں سوالات کے جواب بھی ہیں اور وہ اسے عملی جامہ پہنانے میں کامیاب بھی ہوگئے۔
انہوں نے کہا، علم محسوساتی(Empirical) ہوتا ہے۔ اس سے انہوں نے فزکس، میتھ اور وہ تمام علوم جو انسان اور دنیا سے تعلق رکھتے ہیں، وہ لکیر انہوں نے پیدا کر دی، پھر اس علم کو نتیجہ خیز بنا کر بھی دکھا دیا۔
 انہوں نے کہا، ہم صرف یہ نہیں کہتے کہ ایٹم ہے، ہم اس ایٹم کو استعمال کر کے بھی دکھا سکتے ہیں اور ایسا کر دکھایا۔
انہوں نے کہا کہ ہم صرف یہ نہیں کہتے کہ دنیا میں خوشحالی ہونی چاہیے، ہم نے وہ خوشحالی دکھا بھی دی۔

مغرب نے پوری طرح یکسو ہو کر ان دو جوابات سے مدد لی اور پھر ان دو جوابات کو زندگی کے تمام گوشوں میں جار ی کر کے دکھا دیا۔
یہ سبق بھی دیا کہ نہ صرف وہ، بلکہ جو بھی ان کے نظریے کو اپنائے گا، وہ بھی ان کے معیار پر خوشحال اور ترقی یافتہ ہوسکتا ہے۔


عالم اسلام میں جتنی بھی ترقی ہے، وہ مغربی اصول کی تقلید کے نتیجے میں ہے، اسلامی تعلیم کے نتیجے میں نہیں۔
یہ مغرب کے تسلط کا ناقابل تردید ثبوت ہے۔
 آپ کو بھی ترقی یافتہ ہونے کے لیے دنیاوی معاملات میں مسلمان ہونا چھوڑنا پڑتا ہے۔
عالم اسلام میں جو چھوٹی موٹی ترقیاں نظر آ رہی ہیں۔۔۔۔ ملائشیا، ترکی وغیرہ، یہ سب انہی دو مغربی اصولوں کی پیروی کے نتیجے میں ہیں۔


 اس لیے اس غلبے سے نکلنے، اس میں مسلمان کی حیثیت سے سانس لینے کے لیے بھی ضروری ہے کہ ہم پہلے ان دو سوالات کے جواب بتائیں۔
 اپنے جواب میں خود کو کلیئر کریں اور پھر اس جواب کو عمل میں لانے کی اجتماعی سرگرمیوں کا پورا ایک مربوط نظام بنائیں۔ اس میں چاہے سو سال لگیں، لیکن یہ کیے بغیر ہم تہذیبی بقا حاصل نہیں کر سکتے۔
 مغرب نے ایک ڈسکورس (discourse) دیا جمہوریت کا ۔ 
جمہوریت اہل مغرب کے لیے دین کی طرح ہے۔ انہوں نے بتا دیا کہ جمہوریت عوام کی حکومت، عوام کے لیے، عوام کے ذریعے ہے۔


 دوسری طرف اللہ کی حکومت، اللہ کے بندوں کے لیے۔۔۔۔


 یہ ہمارا سلوگن ہے۔ اس کے لیے ہمارے پاس کیا ہے؟


 سودی نظام سے نکلنے کا کیا لٹریچر ہے؟


کیپیٹلسٹ معیشت (Capitalist Economy) کی پیچیدگیاں، موجودہ نیشن سٹیٹ (Nation State) میں شہری مساوات کا حق ہے، اس کو اسلام سے کس طرح جوڑیںگے،


 اللہ کی حاکمیت کس سٹرکچر میں ہوگی؟


 اس سب کچھ کے لیے کیا  Narrative بیانیہ ہے ہمارے پاس؟‘

 

Pages ( 4 of 6 ): « Previous123 4 56Next »