Hadith حدیث

اسلام  کی بنیاد قرآن وسنت پرہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں تم میں دو چیزیں چھوڑ رہا ہوں جب تک انہیں مضبوطی سے تھامے رہوگے گمراہ نہ ہوگے، (وہ) اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت ہے۔‘‘ (امام مالک، الموطا، 2/ 899، الرقم: 1594، مشکوٰۃ شریف )

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ حجۃ الوداع کے حوالے سے دو طرح کی روایات ملتی ہیں:

”حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو! میں تم میں وہ چیزیں چھوڑے جارہا ہوں کہ جب تک تم ان کا دامن تھامے رہوگے، کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔اللہ کی کتاب اور اس کے پيغمبر کی سنت”، (مستدرک حاکم، رقم318)

دوسری روایت وہ ہے جس میں صرف کتاب اللہ کا ذکر ہے:

”حضرت جابر بن عبد اللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تم میں وہ چیز چھوڑے جارہا ہوں جس کو تھامے رہنے کی صورت میں تم کبھی گمراہ نہیں ہوگے، یعنی کتاب اللہ۔”، (مسلم، رقم2137)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وۤآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

يَااَيُّهَاالنَّاسُ! اِنِّیْ قَدْتَرَکْتُ فِيْکُمْ الثَّقَلَيْنِ، کِتَابُ اﷲِ وَسُنَّتِيْ، فَاسْتَنْطِقُوْاالْقُرْآنَ بِسُنَّتِيْ، وَلَا تَعْسَفُوْهُ، فَاِنَّهُ لَنْ تَعْمَیْ اَبْصَارُکُمْ، وَلَنْ تَزِلَّ اَقْدَامُکُمْ وَلَنْ تُقَصِّرَ اَيْدِيْکُمْ مَااَخَذْتُمْ بِهِمَا. (الخطيب البغدادی،الفقيه والمتفقه1/275،حدیث رقم276)

’’اے لوگو! میں تم میں دو بڑی قیمتی چیزیں چھوڑ رہاہوں۔ (وہ) اللہ کی کتاب او رمیری سنت ہے، تم قرآن مجیہد کے مطالب میری سنت کے ذریعے سمجھو، اور قرآن فہمی میں تکلف نہ برتو  اگر تم نے قرآن وسنت کو تھام لیا تو) تمہاری نگاہیں (حق کو پہچاننے سے) قاصر نہیں رہیں گی، اور تمہارے قدم (راہِ حق سے) نہیں پھسلیں گے اور تمہارے ہاتھ(کارخیر کی انجام دہی میں) ہرگز کوتاہی نہیں کریں گے‘‘۔

اللہ تعالیٰ کا ارشادِ مبارک ہے:

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اﷲِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (الاحزاب، 33:21)

’’فی الحقیقت تمہارے لیے رسول اﷲ (a کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونہِ (حیات) ہے۔‘‘

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ(سورہ محمد:33)

اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ اور رسولﷺ کی اطاعت کرو (اور اطاعت سے انحراف کر کے) اپنے اعمال ضائع نہ کرو۔

حدیث سے مراد وہ اقوال واعمال اور تقریر(تصویب) مراد ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب ہوں- کتاب اللہ کے بعد رسول اللہؐ کی سنت شریعت کا دوسرا سرچشمہ اور اصل واساس ہے، یہ قرآن کریم کی تشریح اور اس کے اصول کی توضیح اور اجمال کی تفصیل ہے-

.سنت اور حدیث کی اہمیت اور فرق :
 اسلام ؛ قرآن اور سنت پر عمل کرنے کا نام ہے۔اسلام کی بنیاد صرف رسول اللہﷺ سے نقل وسماع ہے، قرآن کریم بھی رسول اللہﷺ ہی کے ذریعہ ملا ہے؛ انھوں نے ہی بتلایا… نکاح کرنا سنّت ہے، حدیث نہیں؛ قربانی کرنا سنّت ہے، حدیث نہیں؛ مسواک کرنا سنّت ہے، حدیث کوئی نہیں کہتا۔ سنت کا لفظ ایسے عمل متواتر ، تسلسل پر بھی بولا جاتا ہے جس میں نسخ کا کوئی احتمال نہ ہو،حدیث کبھی ناسخ ہوتی ہے کبھی منسوخ؛ مگر سنت کبھی منسوخ نہیں ہوتی، سنت ہے ہی وہ جس میں توارث ہواور تسلسلِ تعامل ہو، حدیث کبھی ضعیف بھی ہوتی ہے کبھی صحیح، یہ صحت و ضعف کا فرق ایک علمی مرتبہ ہے،ایک علمی درجہ کی بات ہے، بخلاف سنت کے کہ اس میں ہمیشہ عمل نمایاں رہتا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے مسلک کے لحاظ سے اپنی نسبت ہمیشہ سنت کی طرف کی ہے اور اہل سنت کہلاتے ہیں، حدیث کی طرف جن کی نسبت ہوئی اس سے ان کا محض ایک علمی تعارف ہوتا رہتا ہے اور اس سے مراد محدثین سمجھے گئے ہیں، مسلکاً یہ حضرات اہلسنت شمار ہوتے تھے۔….. [Continue reading…]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دین اسلام ، آپ کے صحابہ کے اجماع اور قولی و عملی تواتر سے منتقل ہوا جس کی بنیاد قرآن اور سنت رسول اللہ ﷺ ہیں-

https://youtu.be/WqFBI_chBfI

پہلے تین خلفاء راشدین نے قرآن کی کتابت خاص اہتمام کیا گیا ، جبکہ احادیث کےمتعلق ایسا نہ  کیا ، بلکہ بعد کے دونوں  خلفاء راشدین نے بھی اس معامله میں حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر رضی اللہ کی سنت کی پیروی کی- حضرت عمر رضی اللہ اللہ نے صحابہ سے مشورہ کیا استخارے کیے اور بلاخر فیصلہ کیا کہ: اللہ کی کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب نہیں ہوگی کیونکہ پہلی امتیں اس لئے برباد ہوئیں کہ انہوں نے اللہ کی کتاب کتاب کو چھوڑ کر دوسری کتابوں کی طرف توجہ کر لی تھی۔ [ملاحظہ: یہود کی تورات پر تلمود  کو ترجیح] یہ بہت اہم معامله ہے جس پر اہل علم کو تحقیق کی ضرورت ہے-

[پڑھیں … قرآن کا تعارف قرآن سے]

حدیث کی کتابت کے متعلق معلومات حدیث کی کتب سے ہی ملتی ہیں،  300-200 ھجری کے دوران  علماء محدثین نے بہت محنت اور تحقیق سے حدیثوں کے بکھرے ہوئیے زخیرہ کو اکٹھا کرکہ مشہور کتب مدون کیں۔ مگر اس سے قبل چار مشہور اہل سنت ائمہ ، فقہ کو قرآن و سنت کی روشنی میں مرتب  کر چکے تھے- “صحاحِ ستہ” سے مراد حدیث پاک کی چھ مشہور و معروف مستند کتابیں ہیں:  صحیح بخاری (امام بخاری),  صحیح مسلم (امام مسلم), جامع ترمذی (امام ترمذی),  سنن ابی داؤد (امام ابو داؤد),  سنن نسائی (امام نسائی) اور سنن ابنِ ماجہ (امام ابنِ ماجہ)- ان کتابوں میں حدیث کی جتنی قسمیں ہیں صحیح، حسن اور ضعیف، سب موجود ہیں اور ان کو صحاح کہنا تغلیب کے طور پر ہے۔“ محدثین کی ان کتابوں میں ایک طرف دینی معلومات جمع کی گئیں اور دوسری طرف ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانے کے صحیح تاریخی واقعات جمع کیے گئے ہیں۔ اس طرح احادیث کی یہ کتابیں دینی و تاریخی دونوں اعتبار سے قابل بھروسا سمجھی جاتی ہیں۔

ٹائم لائین کے لحاظ سے ائمہ اور محدثین کی ترتیب بہت اہم ہے:

1.ابوحنیفہ نعمان بن ثابت (80-150ھ/699-767ء)

2.مالک بن انس (93-179ھ/712-795ء)

3.محمد بن ادریس شافعی (150-204ھ/767-820ء)

4.أحمد بن حنبل (164-241ھ/780-855ء)

5.محمد بن اسماعیل بخاری  (194-256ھ/810-870ء) 

6.مسلم بن حجاج (204-261ھ/820-875ء)

7.محمد بن يزيد ابن ماجہ (انتقال 273ھ/87-886ء)

8.أبو داود (انتقال 275ھ/9-888ء)

9.ابو عیسی ترمذی (209-279ھ/824-892ء)

10.احمد بن شعیب نسائی (214ھ-303ھ  /829-915ء)

11.ابن ابی حاتم رازی (240-327ھ/854-938ء)

 قرآن کو حدیث کہا گیا:

“اس قرآن کے بعد کس حدیث پر ایمان ﻻئیں گے؟”( المرسلات  77:50,الأعراف 7:185،لجاثية45:6)

قرآن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کا حکم ہے اور آپ کے اسوہ حسنہ کو بہترین نمونہ قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر تسلسل سے تواتر سے عمل ہوتا رہا ہے یہ نماز ہو یا حج یا دوسری عبادات یا اراکان اسلام! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے اہم پہلو جو ظاہر تھے جن کو ہزاروں صحابہ نے دیکھا اور ان پر عمل کیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

 ’’میں تم میں دو چیزیں چھوڑ رہا ہوں جب تک انہیں مضبوطی سے تھامے رہوگے گمراہ نہ ہوگے، (وہ) اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت ہے۔‘‘ (امام مالک، الموطا، 2/ 899، الرقم: 1594، مشکوٰۃ شریف )

حدیث کے لکھنے کے متعلق دو قسم کی انفارمشن حدیث لثریچر سے ہی ملتی ہے،  شروع میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ صحابہ کو حدیث لکھنے کی اجازت دی , حدیث لکھنے سے منع بھی فرمایا کہ قرآن اور حدیث آپس میں مکس نہ ہو جائیں۔

ملاحظہ فرمائیں … کتابت حدیث کی تاریخ – نخبة الفکر – ابن حجرالعسقلانی – ایک علمی جایزہ>>  

بہت صحابہ کرام حدیث لکھنے کی بجائے یاد کر لیتے تھے عربوں کو اپنےحافظہ پر بہت ناز تھا- کچھ صحابہ حدیث لکھتے اور پھر یاد کرنے کے بعد ان کو مٹا دیتے اور کچھ لکھ کر رکھ لیتے۔ حقیقت یہ ہے کہ حدیثوں کو لکھنا یاد کرنا کسی فرد یا صحابی کا ذاتی  شوق تھا۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا واقعہ کہ انہوں نے اپنی لکھی پانچ سو احادیث حضرت عائشہ رض سے واپس لے کر مٹا دیں کیونکہ ان کو شک تھا کہ کہیں ان سے غلطی نہ ہو گئی ہو۔ اگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ جو رسول اللہ کے بہت قریبی دوست اور صحابی تھے جو آپ کے بعد خلیفہ اول بنے وہ حدیث کے متعلق اتنی احتیاط کرتے تھے تو باقی کے متعلق کیا کہہ سکتے ہیں؟

قرآن پاک کو لکھنے اور یاد کرنے کا خاص اہتمام کیا گیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے نزول کے بعد قرآن کو لکھواتے دہرائی کراتے تاکہ کوئی غلطی نہ ہو۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ اللہ کے دور خلافت میں اصرار کر کہ قرآن پاک کی کتابت کا پہلا مرحلہ مکمل کیا۔  اسلام کے تیسرے خلیفہ حضرت عثمان رضی اللہ کے دور میں میں دوبارہ قرآن پاک کی کتابت کا اہتمام کیا گیا اور ہر ایک ایت کی دو دو صحابہ سے عینی شہادت لے کرحضرت زید بن ثابت (کاتب وحی ) کی سربراہی میں کمیٹی نے قرآن کی کتا بت  مکمل کی –

 صحابہ کرام کی کثیر تعداد موجود تھی جنہوں نے قرآن کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا اور یاد بھی کیا مگر پھر بھی بہت احتیاط کی گئی۔

حضرت عمر رضی اللہ اللہ نے قرآن کی طرح حدیث کی بھی کتابت کی طرف توجہ کی ، صحابہ سے مشورہ کیا استخارے کیے اور بلاخر فیصلہ کیا کہ: اللہ کی کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب نہیں ہوگی کیونکہ پہلی امتیں اس لئے برباد ہوئیں کہ انہوں نے اللہ کی کتاب کتاب کو چھوڑ کر دوسری کتابوں کی طرف توجہ کر لی تھی۔ [ملاحظہ: یہود کی تورات پر تلمود  کو ترجیح]

حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کی ذہانت و فراست اور حکمت کی داد دینی پڑتی ہے ہے کہ انہوں نے وہ کچھ سوچا جو کہ بعد میں ویسے ہی ہوا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ان کے بعد حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سنت کو مضبوطی سے پکڑ لو۔ اور یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر ان کے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نبی اخر زمان تھے۔

سیدنا حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا اے(عمرؓ) ابن خطاب! قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، جب تم کو شیطان کسی راستے پر چلتے ہوئے دیکھتا ہے تو وہ اس راستے کو چھوڑ کر دوسرے راستے کو اختیار کرلیتا ہے۔ (بخاری و مسلم)
ایک موقع پر حضور ﷺ نے فرمایا کہ بلاشبہ اﷲ تعالیٰ نے حضرت عمر فاروقؓ کی زبان اور ان کے دل پر حق کو جاری کردیا ہے۔ (ترمذی)
ایک روز رحمت دو عالم ﷺ گھر سے مسجد کی طرف تشریف لے گئے اور آپ ﷺ کے ہم راہ دائیں بائیں ابو بکر ؓ و عمرؓ بھی تھے۔ آپ ﷺ ان دونوں کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے، اسی حالت میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے روز ہم اسی طرح اٹھیں گے۔ (ترمذی)
ایک اور موقع پر حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہر نبی کے دو وزیر آسمان والوں میں سے ہوتے ہیں اور دو وزیر زمین والوں میں سے ہوتے ہیں۔ میرے دو وزیر آسمان والوں میں سے جبرائیلؑ اور میکائیلؑ ہیں اور زمین والوں میں سے ابوبکرؓ و عمرؓ ہیں۔ (ترمذی)
حضور ﷺ نے فرمایا کہ میرے بعد ابوبکرؓ و عمرؓ کی اقتدا کرنا۔ (مشکوٰۃ)

رسول اللہ ﷺ نے خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑنے کا حکم دیا ہے ، اور حضرت عمر رضی الللہ عنہ بلا شبہ خلیفہ راشد تھے۔ فرمان رسالتمآب ﷺ ہے : ” تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت سے اختلاف دیکھے گا۔ پس میری سنت اور خلفائے راشدین مہدیین کی سنت کو لازم پکڑو ۔ اس سے تمسک کرو اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لو۔ خبردار ( دین میں ) نئی باتوں سے بچنا کیونکہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت ضلالت ہے۔”  (سنن ابی داود ، کتاب السنة ، باب لزوم السنة)

جب حضرت عثمان کے بعد میں جب حضرت عثمان رضی اللہ کے دور حکومت میں قرآن کی کتابت مکمل کر کے سرکاری طور پر نسخے تقسیم کر دیئے گئے تو اس کے بعد حدیث کی کتابت میں کوئی مسئلہ نہ ہونا چاہئے تھا مگر ایسا نہیں کیا گیا انہوں نے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی پہلے دو خلفاء راشدین کی سنت پر عمل کیا، یہ سلسلہ تقریبا سو سال تک ایسے ہی رہا جبکہ ننانوے ہجری میں حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃاللہ نے حدیث کی کتابت کی کوشش کی مگر کوئی ایسا نسخہ مہیا نہیں رہا۔

دوسرے مسلمان حکمرانوں نے  حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور باقی دو خلفاء راشدین کی سنت کو جاری رکھا اور حدیث کی کتابت کیا سرکاری طور پر اہتمام نہ کیا۔ 

اسی دوران اہل سنت کے چار مشہوراماموں نے فقہ کی بنیاد رکھی ان کے پاس اپنے حدیث کے ذخیرے موجود ہوں گے۔ 

ان کے بعد تقریبا 200 ھجری سے 300 ہجری کے درمیان احادیث کی چھ مشہور کتب مرتب کی گئی ان نیک بزرگوں، علماء، محدثین  نے بہت محنت کی اور ہر ممکن طریقے سے خوب تحقیق کر کہ مستند احادیث کے ذخیرے اکٹھے کیے حدیث کی سائنس بنی ، اسماء الرجال اسلامی تاریخ کا ایک بہت عمدہ طریقہ ہے جس سے احادیث کی کی کلاسیفکیشن کی گئی اور ان کو مختلف درجات میں تقسیم کیا گیا۔

احادیث ایک عظیم علمی خزانہ ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ مسلمانوں کے لیے قابل تقلید ہے قرآن نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ  پر چلنے کی تلقین کی ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت متواتر طریقے سے نسل در نسل منتقل ہوتی گئی دو  تین سو سال کے بعد جب حدیث کی کتب علماء کی زاتی کاوشوں سے مرتب ہوئیں تو اس دوران ڈھائی سو سال میں مسلمان اسلام پر مکمل طور پرکار بند تھے۔ کچھ نیک لوگوں کے پاس احادیث کی زاتی کلیکشن تھی جو بزرگوں سے ملے۔

یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ پہلے دو تین سو سال تک اسلام مکمل نہیں تھا ،اسلام تو حجۃ الوداع میں جب تکمیل اسلام کی آیت (نمبر تین، المائدہ) نازل ہوئی تو مکمل ہو چکا تھا ، حدیث کی چھ مشہور کتب موجود نہیں تھیں مگرعلم حدیث و سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا علم اور عمل موجود تھا۔ 

کتب حدیث کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے اور یہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عظیم خزانہ ہے جس کی تاریخی اور مزہبی طور پر بہت اہمیت ہے مگر جو کام خلفاء راشدین حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نہ کیا اور اور نہ ہی ان کے بعد کے دو خلفاء راشدین نے کیا، یہاں تک کہ ایک سو سال گزر گئے مگر کسی مسلمان حکمران نے حضرت عمر اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی سنت کی خلاف ورزی نہ کی۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ کتابت حدیث خلفاء راشدین کی پالیسی کے برخلاف ہوئی مگر اس بنیاد پر اس کاوش کو مسترد کردینا یا  تمام علم حدیث وسنت کو مسترد کرنا درست کیونکر ہو سکتا ہے؟

علم حدیث وسنت حفاظ کی زبانی اور مسلمانوں سے عملی طور پر تواتر سے نسل در نسل منتقل ہو رہا تھا۔ البتہ مختلف احادیث کے مستند ہونے کے درجات پر توجہ کی ضرورت ہے جس پر محدثین نے کام کیا ،جو اس دور میں جدید ٹیکنالوجی کمپیوٹر سے مزید آسان ہو گیا ہے۔ اس لئیے کسی کے حدیث و سنت  کے انکار کو کیسے تسلیم کیا جا سکتا ہے؟

 سنت و احادیث :

1.سُنَن مُتَوَاتِرہ وَمُتَعَامِلَہ:
جن پر امت دور صحابہ سے لے کر آج تک بلا اختلاف کا ربند چلی آرہی ہے اور ان کا ذکر احادیث میں بھی ملتا ہے۔ مثلاً یہ کہ نمازوں کی تعداد پانچ ہے۔ نماز کی ادائیگی کی ترکیب ، رکعت کا تعین، حج اور زکوٰۃ کی ادائیگی کے طریقے ، نکاح و طلاق ، قوانین عدل و انصاف اور اسلامی عدالتوں کا طریق کار، انفرادی عقائد و اعمال۔ اس لحاظ سے سنت کا بہت بڑا حصہ متواتر ہے۔ جو بغیر کسی انقطاع کے نَسلًا بَعدَ نَسل کروڑہا انسانوں کے ذریعہ مشرق و مغرب میں منتقل ہوتا ہوا ہم تک پہنچا ہے۔ یہ تعامل ِ امت قطعی اور یقینی ہے۔ احادیث کتب میں شامل کیاگیاہے-

2 احادیثِ مُتَوَاتِرَہ.:
بعض ایسی احدیث بھی ہیں جن کا عمل سے نہیں بلکہ عقیدہ سے تعلق ہوتا ہے مثلاً:
1.اِنَّمَا الاَعمَالُ بالنَّیَّات. ترجمہ: “تمام اعمال کا دار و مدار صرف نیتوں پر ہے”( صحیح البخاری: بَدہ الوحی (قبل کتاب الایمان) باب کیف کان بدہ الوحی الی رسول اللہﷺ، الحدیث: 1/ صحیح مسلم: کتاب الامارۃ: باب قولہﷺ (انما الاعمال بانیات) ، الحدیث:1907.
2.مَن کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلیَتَبَوَّا مَقعَدَہ منَ النَّار۔ ترجمہ : ” میرے ذمے جو کوئی بات جان بوجھ کر لگائے حالانکہ میں نے وہ نہ کہی ہو تو وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ کی) آگ میں بنالے۔(صحیح البخاری: کتاب العلم باب اثم من کذب علی النبیﷺ ، الحدیث:107/ صحیح مسلم، المقدمۃ: باب تغلیظ الکذب علی رسول اللہﷺ۔.

حدیث مقبول کی اقسام:
1-متواتر2-مشہور3-عزیز4-غریب5-صحیح6-حسن7-محکم8-محفوظ9-معروف10-مُرسَل الصحابی11 -مختلف الحدیث12-ناسخ13-مُسَلَلُ التَّامُ
حدیث مردود کی اقسام:
1- موضوع2- متروک3- ضعیف4- مضطرب5- شاذ(محفوظ کی ضد)6- منکر(معروف کی ضد)7- مّعلَّل8- مُعضَل9- منقطع10- مقلوب11- منسوخ
12- مبہم13- مُرسَل الخَفیِ14- مُرسلُ التَابعینَ

امام سیوطی اور کچھ دوسرے علماء نے کوشش کی ، تقریبا تین سو متواتر سنت /احادیث  کا درجہ اعلی ترین ہے اور پھر صحیح احادیث اور دوسرے درجات! اس علمی خزانہ میں درجہ بندی ہے، جس کو مد نظر رکھنا چاہیے –

قرآن کے متعلق قرآن کہتا ہے کہ :

اس میں کوئی شک نہیں (البقرہ آیت 2)

اور حدیث کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: 

جب تم میری جانب سے کوئی ایسی حدیث سنو کہ تمہارے دل اس کا انکار کریں تمہارے بدن اور بال اس سے علیحدگی کریں یعنی متاثر نہ ہوں اور تم سمجھ لو کہ وہ تم سے بہت دور ہے تو میں اس سے اس سے بھی زیادہ دور ہوں ( تفسیر ابن کثیر 11:38, مسند احمد 498/3 ،طبقات ابن سعد 87/2, ابن حبان 63, صحیح الشیخ البانی 732/2)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:

میری طرف سے کچھ اختلافی احادیث آئینگی، ان میں سے جو “کتاب اللہ” اور “میری سنّت” کے موافق ہونگی، وہ میری طرف سے ہونگی۔ اور جو “کتاب اللہ” اور “میری سنّت” کے خلاف ہونگی وہ میری طرف سے نہیں ہونگی۔  (سنن الدارقطني رقم الحديث:3926)

ایک لمحے کے لئے یہ تصور کر لیتے ہیں کہ اگر حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور باقی خلفاء راشدین کی سنت کے مطابق اگر کوئی شخص بھی کتاب حدیث نہ کرتا تو کیا ہوتا ؟

کیا اسلام نامکمل رہتا؟

یا اسلام مکمل رہتا جیسا کہ کہ پہلے دو سو سال میں رہا ، البتہ حدیثوں اور ان میں تفصیلات ، تشریحات میں اختلافات کی وجہ سے سے جو فرقہ واریت اور نفرت کی فضا پیدا ہوئی شاید ایسا نہ ہوتا؟

کیا خلفاء راشدین حدیث کی اہمیت کو نہیں سمجھتے تھے یا وہ یہ سمجھتے تھے کہ جتنی تفصیلات سنت متواتر میں بنیادی ارکان اسلام کے متعلق ہے کافی ہیں، زیادہ   تفصیلات کی بعد کے حالات میں ضرورت نہ ہوگی؟

کیا پہلے دو سو سال تک اسلام پر درست طریقے سے عمل درآمد نہیں ہو رہا تھا؟

کیا پہلے دو سو سال تک سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل نہیں ہو رہا تھا؟

اسلام مکمل تھا مکمل ہے اور مکمل رہے گا قرآن معجزہ، کلام اللہ ہے جس کی کتاب پر کوئی شک نہیں ہیں اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالی نے خود لی ہے قرآن قیامت تک مکمل رہنمائی کی کتاب ہے جس نے کوئی شک نہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتیں تسلسل سے نسل در نسل منتقل ہورہی تھی نماز کیسے پڑھنی ہے؟ روزہ کیسے رکھنا ہے؟ حج کیسے کرنا ہے؟ زکات کیسے ادا کرنی ہے؟ یہ سب کچھ تفصیل سے چل رہا اسی طرح سنت کے باقی  اقدامات بھی سینہ بہ سینہ منتقل ہورہے تھے اور اس طرح کہ جس میں کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ 

سنت متواتر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ اقوال یا سنت ہیں جن کو صحابہ اکرام کی بہت بڑی تعداد نے دیکھا اور عمل کیا، کیونکہ یہ سنتیں متواتر طریقے سے منتقل ہوتی رہیں اس لیے سنت متواتر میں کسی قسم کی غلطی کا امکان ناممکن ہوجاتا ہے اس لیے علماء سنت متواترکو قرآن کے قریب ترین سمجھتے ہیں۔ علامہ سیوطی اور کچھ اور اور علماء نے سنت متواتر کا شمار کرنے کی کوشش کی تو ان کی تعداد تین سو سے تین سو پچیس تک معلوم ہوتی ہے۔ اگر حدیث کی کتب نہ لکھی جاتیں تو پھر بھی قرآن کی ہدایت ، اسلام کے بنیادی ارکان اور ضروری احکامات کی عملی تشریح سنت متواتر سے منتقل ہوتے رہے اور یوتے رہتے۔

بہرحال بہرحال اب جبکہ کے حدیث کی مستند کتب موجود ہیں ان سے فائدہ نہ اٹھانا درست نہ ہوگا یہ ایک عظیم خزانہ ہے جس پر اتفاق ہوچکا ہے لیکن یہ ایک انسانی کاوش ہے عظیم علماء علماء اور محدثین نے بہت محنت سے ان کو مدون کیا کیونکہ یہ کام ام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علم یا خلفائے راشدین کی نگرانی میں نہیں ہوا ہوا اس لئے اس عظیم خزانے سے احتیاط سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ان اقوال اور اعمال کی نسبت عظیم ہستی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے اس لئے اگر حدیث ضعیف بھی ہو تو بھی بہت ادب اور احترام کی ضرورت ہے۔ 

حجت دین کے بارے میں قرآن و حدیث میں فرق یہ ہے کہ قرآن کی نقل بہ طریقۂ تواتر ہے، جوہرطرح کے شک وشبہ سے بالاتر ہے اور علم قطعی کی موجب ہے اور حدیث اس حیثیت سے کہ ارشاد رسول اللہﷺ ہے، حجت قطعی ہے؛ البتہ رسول اللہﷺ سے ہم تک پہونچنے میں جودرمیانی وسائط ہیں، ان کی وجہ سے احادیث کا ثبوت اس درجہ قطعی نہیں ہے، جس درجہ کی قطعیت قرآن کو حاصل ہے۔ اسی لیے احادیث کے مختلف درجات ہیں، صحیح، مرسل، ضعیف ، مگر قرآن کی آیات محکم ہیں.

ایمان کے چھ بنیادی ارکان (ایمان باللہ، ایمان الملائکه، ایمان بالکتب، ایمان بالرسالت، ایمان بالقدر، ایمان بالآخرت)  اور اسلام کے پانچ ستونوں (شہادہ، صلوٰۃ (نماز) روزہ، زکوٰۃ حج) پر ایمان اور عمل اسلام کی بنیاد ہے.جس ہر کوئی اختلاف نہیں۔

خلاصہ کلام :

قرآن بلا شک و شبہ محفوظ، کلام اللہ ہے جو اسلام کی بنیاد ہے۔ اس کے بعد سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو متواتر ہے اور پھر احادیث مختلف درجات کے مطابق، علمی اور تاریخی خزانہ ہے۔ خلفاء راشدین نے قرآن اور سنت کو اہمیت دی اور احادیث کی تدوین سے اجتناب کیا کیونکہ وہ کتاب اللہ کے ساتھ کسی اور کتاب کو نہیں رکھنا چاہتے تھے کہ پہلی امتیں برباد ہوگئیں کتاب اللہ کو پس پشت ڈال کر دوسری کتب کو ترجیح دینے کی وجہ سے۔ کیا مسلمان بھی اس راستے پر تو نہیں چل نکلے؟

اس اہم مسلہ پر علماء کو تحقیق کرنے کی ضرورت ہے- اس کو صرف علمی معامله ہی سمجھا جایے ، اور جو سوچ اور طریقہ اجتمائی طور پر رائج ہے اس  پر قائیم اور کاربند رہیں،  نئے فتنے اور فرقہ بنانے سے اجتناب کریں –

قیامت کر روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علم اللہ تعالی کے سامنے شکوہ کریں گے: 

وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَـٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا ﴿سورة الفرقان25:30﴾

اور(روز قیامت) رسول کہے گا کہ اے میرے پروردگار! بےشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا ﴿سورة الفرقان25:30﴾

اسلام تفرقہ کے خلاف ہے ، قرآن اللہ کی رسی ہے جو تمام مسائل کا حل ہے: 

وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ ( آل عمران،3 :103)

’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی (قرآن) کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو۔‘‘( آل عمران،3 :103)

إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ ۚ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّـهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ( ١٥٩ سورة الأنعام)

“جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہ گروہ بن گئے یقیناً ان سے تمہارا کچھ واسطہ نہیں، ان کا معاملہ تو اللہ کے سپرد ہے، وہی ان کو بتائے گا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا ہے-

اے ہمارے پروردگار اگر ہم سے کوئی بھول چوک ہوجائے تو ہماری گرفت نہ فرمایئے۔ اور اے ہمارے پروردگار ہم پر اس طرح کا بوجھ نہ ڈالیے جیسا آپ نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا۔ اور اے ہمارے پروردگار ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈالیے جسے اٹھانے کی ہم میں طاقت نہ ہو، اور ہماری خطاؤں سے درگزر فرمایئے، ہمیں بخش دیجیے اور ہم پر رحم فرمایئے۔ آپ ہی ہمارے حامی و ناصر ہیں، اس لیے کافر لوگوں کے مقابلے میں ہمیں نصرت عطا فرمایئے۔(قرآن 2:256)

………………

دین کا طالب علم .. قرآن بلا شک و شبہ محفوظ، کلام اللہ ہے جو اسلام کی بنیاد ہے۔ اس کے بعد سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو متواتر ہے اور پھر احادیث مختلف درجات کے مطابق، علمی اور تاریخی خزانہ ہے۔ خلفاء راشدین نے قرآن اور سنت کو اہمیت دی اور احادیث کی تدوین سے اجتناب کیا کیونکہ وہ کتاب اللہ کے ساتھ کسی اور کتاب کو نہیں رکھنا چاہتے تھے کہ پہلی امتیں برباد ہوگئیں کتاب اللہ کو پس پشت ڈال کر دوسری کتب کو ترجیح دینے کی وجہ سے۔ کیا مسلمان بھی اس راستے پر تو نہیں چل نکلے؟ اس اہم مسلہ پر علماء کو تحقیق کرنے کی ضرورت ہے- اس کو صرف علمی معامله ہی سمجھا جایے ، اور جو طریقہ رائج ہے اس پر قائم اور کاربند رہیں، نئے فتنے اور فرقہ بنانے سے اجتناب کریں – یہ قدم اس لیے کہ حکم ہے “حق کو مت چھپاؤ:
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم 0 بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَلَا تَلۡبِسُوا الۡحَـقَّ بِالۡبَاطِلِ وَتَكۡتُمُوا الۡحَـقَّ وَاَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ۞ ( القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة آیت نمبر 42)
ترجمہ: اور حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط نہ کرو اور نہ حق کو چھپاؤ، تمہیں تو خود اس کا علم ہے۔
اِنَّ الَّذِيۡنَ يَكۡتُمُوۡنَ مَآ اَنۡزَلۡنَا مِنَ الۡبَيِّنٰتِ وَالۡهُدٰى مِنۡۢ بَعۡدِ مَا بَيَّنّٰهُ لِلنَّاسِ فِى الۡكِتٰبِۙ اُولٰٓئِكَ يَلۡعَنُهُمُ اللّٰهُ وَ يَلۡعَنُهُمُ اللّٰعِنُوۡنَۙ ۞ (القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة آیت 159)
ترجمہ: بیشک وہ لوگ جو ہماری نازل کی ہوئی روشن دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں باوجودیکہ ہم انہیں کتاب میں کھول کھول کر لوگوں کے لیے بیان کرچکے ہیں تو ایسے لوگوں پر اللہ بھی لعنت بھیجتا ہے اور دوسرے لعنت کرنے والے بھی لعنت بھیجتے ہیں،
اِنَّ الَّذِيۡنَ يَكۡتُمُوۡنَ مَآ اَنۡزَلَ اللّٰهُ مِنَ الۡکِتٰبِ وَ يَشۡتَرُوۡنَ بِهٖ ثَمَنًا قَلِيۡلًا ۙ اُولٰٓئِكَ مَا يَاۡكُلُوۡنَ فِىۡ بُطُوۡنِهِمۡ اِلَّا النَّارَ وَلَا يُکَلِّمُهُمُ اللّٰهُ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ وَلَا يُزَکِّيۡهِمۡ ۖۚ وَلَهُمۡ عَذَابٌ اَ لِيۡمٌ ۞ (القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة آیت نمبر 174)
ترجمہ: جو لوگ (خدا) کی کتاب سے ان (آیتوں اور ہدایتوں) کو جو اس نے نازل فرمائی ہیں چھپاتے اور ان کے بدلے تھوڑی سی قیمت (یعنی دنیاوی منفعت) حاصل کرتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں محض آگ بھرتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے خدا قیامت کے دن نہ کلام کرے گا اور نہ ان کو (گناہوں سے) پاک کرے گا۔اور ان کے لئے دکھ دینے والا عذاب ہے.


بسم الله الرحمن الرحيم

لآ اِلَهَ اِلّا اللّهُ مُحَمَّدٌ رَسُوُل اللّهِ

شروع اللہ کے نام سے، ہم اللہ کی حمد کرتے ہیں اس کی مدد چاہتے ہیں اوراللہ سے مغفرت کی درخواست کر تے ہیں. جس کواللہ ھدایت دے اس کو کوئی  گمراہ نہیں کرسکتا اورجس کو وہ گمراہی پر چھوڑ دے اس کو کوئی ھدایت نہیں دے سکتا. ہم شہادت دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، محمد ﷺ اس کے بندے اورخاتم النبین ہیں اور انﷺ کے بعد کوئی نبی یا رسول نہیں ہے. درود و سلام ہوحضرت محمّد ﷺ  پر اہل بیت (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اور اصحاب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اجمعین پر.


تحقیق اور ریفرینسز ، لنک ۔۔۔۔

  1. http://salaamone.com/kitabat-hadis-writing-history/
  2. https://salaamone.com/torah-talmud/..
  3. http://salaamone.com/why-hadees-not-compiled-by-caliphs/
  4. https://ur.wikipedia.org/wiki/مشکوۃ_المصابیح
  5. http://salaamone.com/hadees-sunnat-tehqeeq
  6. https://islamqa.info/ur/answers/10012/
  7. http://www.al-mawrid.org/index.php/questions/question_urdu/quran-or-sunnat
  8. https://faithforum.wordpress.com/theology/guidance/sacred-scriptures/quran-evidence-of-truth/preservation/

قرآن کا تعارف قرآن سے

قرآن کا بہترین تعارف قرآن خود کراتا ہے –  قرآن و سنت اسلام کی بنیاد ہے- قرآن پر عمل سے ہی صحیح اسلام ممکن ہے اور فرقہ واریت کا سد…[Continue Reading…]

 حدیث کی کتابت قران کی طرح خلفاء راشدین نے کیوں نہ کی ؟

خلفاء راشدین اور صحابہ اکرام رسول الله ﷺ سے محبت کرتے تھے اور ان کی ہر بات پر عمل کرتے – مگر شاید وہ اس بات سے لاعلم تھے کہ..[Continue Reading…]

 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اجتہاد

” اجتہاد “ اسلامی قانون و شریعت کی اہم ترین بنیاد ہے۔ اجتہاد ہی ہے جو شریعت کو جامد و ساکت ہونے سے محفوظ رکھتی ہے۔ اجتہاد ہی کے [Continue Reading…]

 حدیث میں تحریف اور اہمیت

  حدیث کی شرعی حیثیت:   کتاب اللہ کے بعد رسول اللہؐ کی سنت شریعت کا دوسرا سرچشمہ اور اصل واساس ہے، یہ قرآن کریم کی تشریح اور اس [Continue Reading…]

امام ابوحنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ 

اسلامی دنیا کے چار سنی مکاتب فکر میں فقہ حنفیہ اکثریت میں ہیں- پچھلے ١٢٠٠ سال سے زیادہ عرصہ میں دنیا کے اکثر علاقوں میں مقبول ہے – امام …[Continue Reading…]

علم حدیث , فرقہ واریت اورقران – تحقیقی مضامین Hadith -Research Articles