فتنہ تکفیر و ارتداد

ایک رواج چل نکلا ہے کہ مذہبی بحث مباحثہ میں مخالف کو کافر اور مرتد قرار دے دینا- یہ بظاھر آسان نظر آتا ہے مگر بہت سنجیدہ معاملہ ہے – کسی شخص کو مرتد یا کافر قرار دینا ، اور پھر ہجوم اکٹھا کر کہ قتل کر دینا- کسی کو کافر یا مرتد قرار دینا  اسلامی مملکت میں عدالت کا کام ہے- ایسے معاملات میں قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی بجایے ملزم کو قانون کے حوالہ کریں-عدالت متعلقہ اداروں سے تحقیق اور شواہد کی بنیاد پر فیصلہ کرے گی- افراد یا گروہ ایسے اقدام نہیں کر سکتے یہ فتنہ اور فساد فی الارض ہو گا جو حرام ہے۔ ہم سب کے لیے ضروری ہے کہ کفر اور ارتداد کے مطلق شریعت کے احکام سے آگاہی حاصل کی جایے تاکہ قانون شکنی اور گناہ سے بچ سکیں-

Takfeer Doctrine is used by Terrorist groups like ISIS, Daesh, Boko Haram, TTP [Takfir Taliban Pakistan]  as basis to justify killing of innocent Muslims (old, young, children and women) in mosques and public places through terrorist attacks, suicide bombing, in Pakistan , Iraq, Syria, Turkey, Afghanistan, Nigeria (Africa)  and elsewhere. This dreadful heretic doctrine, has been analyzed in the light of Sin, Crime, Repentance, Mercy, Forgiveness, Apostasy & Punishment. [Keep reading ….]

جس شخص نے کلمہ طیبہ کا اقرار کیا ہے وہ مسلمان ہے اور اس پر تمام مسلمانوں والے احکامات لاگو ہوں گے البتہ کچھ ایسے افعال اعمال ، اعتقادات و نظریات بھی ہیں جن کی وجہ سے انسان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے لیکن اس کا فیصلہ اتنا آسان یا معمولی نہیں کہ بس جیسے ہی ہم بظاہر کسی سے کوئی کفریہ بات یا فعل کا ارتکاب ہو تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے اور اس پر اصلی کفار والے تمام احکامات جاری کر دیے جائیں۔۔ نہیں بلکہ اس کے کچھ اصول و ضوابط ہیں اور کچھ موانع ہیں جن کو مد نظر رکھنا بنیادی حیثیت رکھتا ہے-

حجت قائم کرنے سے قبل کسی کو کافر قرار دینا جائز نہیں ۔ اگرملزم  شرعی علوم سے ناواقف اور جاہل سے تو پہلے اس کی جہالت کا ازالہ کیا جائے گا اور اس کے شکوک و شبہات کو رفع کیا جائے گا پھر بھی اگر وہ باطل پر مُصِر اور کفر پر قائم رہتا ہے اور عناد و سرکشی کرتے ہوئے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے فرامین کو رد کرتا ہے تو وہ کافر ہو جائے گا ۔

ایسے شخص پر کفر یا فسق کا حکم لگانے سے ،جس کے بارے میں یہ حکم کتاب و سنت سے ثابت نہیں، اللہ تعالی کے ذمہ جھوٹ لازم آئے گا، اور اس شخص پر بھی جھوٹ لازم آئے گا جس پر یہ حکم لگایا گیا ہے، وہ اس حکم کا مستحق نہیں، تو لگانے والا خود اس میں واقع ہوجائے گا- جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

” اذا کفر الرجل اخاہ فقد باء بھا احدھما” – جب ایک آدمی دوسرے کو کافر کہتا ہے تو دونوں میں سے ایک کافر ہوجاتاہے- (صحیح بخاری 6104، مسلم 111)

مسلم کی روایت کے الفاظ ہیں: ان کان کما قال والا رجعت علیہ” جس پر حکم لگایا گیا ہے، اگر وہ اس کا مستحق ہے ، تو ٹھیک ہے ورنہ حکم لگانے والا خود کافر ہوجائے گا-

صحیح مسلم میں سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں:  ومن دعا رجلا بالکفر او قال عدواللہ ولیس کذلک الاحار علیہ”- جس نے کسی کو کافر یا اللہ کا دشمن کہ کر بلایا، مگر وہ ایسا نہیں ہے تو یہ حکم لگانے والے پر لوٹ جائے گا- (صحیح مسلم 112)

اگر کوئی آدمی کسی کبیرہ گناہ کا مرتکب ہے تو اس کو تنبیہ و اصلاح تو ہماری ذمہ داری ہے اس کے کا فر یا غیر کافر ہونے کا فیصلہ ہمار ا کام نہیں ،لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاں استخراجی منطق سے کام لیا جاتا ہے جو یونانیوں کا طریقہ تھا۔ مثال کے طور پر انہوں ( یونانیوں ) نے ایک کالے رنگ کی بھینس دیکھی تو یہ دعوی کر دیا کہ دنیا کی سب بھینسیں کالے رنگ کی ہوتی ہیں- یا یہ کہ:

” سنگ مرمر سفید ہوتا ہے اور دودھ بھی سفید ہوتا ہے لہٰذا سنگ مرمر کو دودھ کھا جاسکتا ہے”

یہی استخراجی رویہ آج شرعی رویہ کی جگہ پر لیا جاتا ہے حکمرانوں اور عوام کے بارے میں حالا نکہ اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ دنیا میں کوئی بھینس کالے رنگ کی نہ ہو یعنی بھورے رنگ کی بھی ہو سکتی ہے ۔ اور ہر سفید چیز سنگ مر مر نہیں ہوتی-

ہمارے ہاں عام طور پر معاشرے میں اسی منطق سے کام لے کر مسلمانوں کی تکفیر کی جاتی ہے جبکہ یہ کام عوام اور عام مبتدی اہل علم کا نہیں کیونکہ یہ اجتہادی کا م ہے جس میں اقوال اور اعمال کی شرعی حیثیت کو پرکھنا اور پھر قائل اور فاعل میں اس کا ثبوت ، پھر ان تمام شروط و موانع کا جائزہ لینا جو کہ باوجود کسی کفریہ قول یا فعل کے مسلمان پر سے حکمِ کفر کو ساقط کر دیں گے اور ظاہر ہے یہ کام درجہ اجتہاد پر فائز مستند علماء اور قاضیوں کی ایک جماعت ہی کر سکتی ہے ہر ایرے غیرے ،علم و حکمت سے عاری شخص کو اس کی اجازت نہیں ، اسی لئے اہل علم کا یہ کہنا ہے :

جو حضرات مستند اہل علم میں سے نہ ہو ں اور پھر بھی تکفیر کرتے ہوں تو عوام الناس کے لئے ایسے تکفیری حضرات کے ساتھ بیٹھنا بھی حرام ہے ۔

جیسا کہ فضیلۃ الشیخ عبداللہ بن عبدالعزیز بن جبرین فرماتے ہیں :

[کما انہ یجب علی مسلم ان یجتنب مجالسۃ الذین یتکلمون فی مسئلۃ التکفیر و ھم ممن یحرم علیھم ذالک لقلۃ علمھم]

”اسی طرح ایک مسلمان پر واجب ہےوہ ان لوگوں کی مجلس میں نہ بیٹھے جو تکفیری مسائل پر گفتگو کرتے ہیں حالانکہ ان کے کم علم ہونے کی وجہ سے ان کیلئے اس موضو ع پر بحث کرنا حرام ہے ۔”

کسی کو کافر یا فاسق  قرار دینا ہمارے اختیار میں نہیں ہے، بلکہ یہ اختیار اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہے؛ کیونکہ کسی کو کافر یا فاسق قرار دینا ان شرعی احکام سے تعلق رکھتا ہے جن کی بنیاد کتاب و سنت ہوتی ہے، اسی لئے اس معاملے میں انتہائی احتیاط سے کام لینا ضروری ہے ؛ اور صرف اسی کو کافر یا فاسق کہا جائے گا جس کے کافر یا فاسق ہونے کے متعلق کتاب و سنت  میں دلائل موجود ہیں۔

بنیادی طور پر کوئی بھی مسلمان جب تک وہ علانیہ طور پر دین پر عمل پیرا  ہو تو اسے مسلمان  ہی سمجھا جائے گا، تا آنکہ شرعی دلائل کی رو سے اس کا دائرہ اسلام سے خارج ہونا ثابت ہو جائے۔

کسی کو کافر یا فاسق قرار دینے میں کوتاہی برتنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس میں دو بڑی خرابیاں  ہیں:

1- کسی پر حکم لگانا درحقیقت  اللہ تعالی پر بہتان بازی ہے، نیز کسی پر جو حکم لگایا جا رہا ہے  وہ حکم اس شخص کے بارے میں بھی بہتان ہے۔

2- اگر وہ شخص متعلقہ الزام سے بری ہو تو انسان کو برے لقب دینے کے زمرے میں بھی آتا ہے۔

صحیح بخاری: (6104) اور مسلم: (60) میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (جب کوئی آدمی اپنے بھائی کو کافر قرار دیتا ہے تو وہ حکم ان دونوں میں سے ایک  پر لاگو ہو جاتا ہے)  اسی حدیث کے ایک اور الفاظ یہ بھی ہیں کہ: (اگر تو وہ ایسا ہی تھا جیسا اس نے کہا  [تو ٹھیک] بصورتِ دیگر وہ حکم اسی پر لوٹ جائے گا)

اس لیے کسی بھی مسلمان پر کفر یا فسق کا حکم لگانے سے قبل دو چیزوں کو دیکھنا ضروری  ہے:

1- کتاب و سنت میں یہ بات واضح ہو کہ یہ قول یا فعل کفر یا فسق کا موجب ہے۔

2- کفر یا فسق کا حکم معین شخص پر لاگو ہوتا  ہو، یعنی کسی کو کافر یا فاسق قرار دینے کی شرائط  پوری ہوں اور اسے کافر یا فاسق قرار دینے میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو۔

نوٹ:  قتل یا سزا کا معاملہ حکومت کے نامزد قاضی یا عدلیہ کا کام ہے ۔ اسلامی حکومت میں افراد یا گروہ ایسے اقدام نہیں کر سکتے یہ فساد فی الارض ہو گا ۔ھو حرام ہے. رپورٹ کریں :

http://www.pta.gov.pk/ur/report-blasphemous-url

 0800-55055 (Toll Free Number)

051-9225325 (Fixed Line Number)

FAX  051-2878127
E-Mail  complaint@pta.gov.pk
On-line www.pta.gov.pk
Postal Mail / In person visitation CPD, PTA Headquarters, Sector F- 5/1, Islamabad.

اس کی اہم ترین شرائط درج ذیل ہیں:

1.مرتکب خطا کو علم ہو کہ اس کی جو غلطی ہے وہ  اس کے کافر یا فاسق ہونے کی موجب ہے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:

 ( وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيراً )

ترجمہ: اور جو ہدایت واضح ہونے کے بعد رسول کی مخالفت کرے اور مومنوں کے علاوہ کسی اور راستے   پر چلے تو ہم اسے اسی راستے کے سپرد کر دیتے ہیں جس پر وہ چلا ہے، اور ہم اسے جہنم میں داخل کریں گےاور وہ بد ترین ٹھکانا ہے۔[النساء:115 ]

اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے: ( وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِلَّ قَوْماً بَعْدَ إِذْ هَدَاهُمْ حَتَّى يُبَيِّنَ لَهُمْ مَا يَتَّقُونَ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ )

ترجمہ: اللہ تعالی کسی قوم کو ہدایت دینے کے بعد گمراہ نہیں کیا کرتا، تاآنکہ ان پر یہ واضح نہ کر دے کہ انہیں کن کن باتوں سے بچنا چاہیے۔ اللہ تعالی یقیناً ہر چیز کو جاننے والا ہے  [ التوبہ:115]

چنانچہ اس لیے اہل علم کہتے ہیں: اگر کوئی شخص نو مسلم ہے اور وہ  کسی فریضے کا انکار کر دیتا ہے تو وہ اس وقت تک کافر نہیں ہو گا جب تک اسے اس فریضے کے بارے میں بتلا نہ دیا جائے۔

2. کسی پر کفر یا فسق کا حکم لگانے  کیلیے موانع میں سے ایک یہ ہے کہ کفر یا فسق کا موجب بننے والا عمل غیر ارادی طور پر سر زد ہو جائے، اس کی متعدد صورتیں ہیں، مثلاً:

a. اس سے کفریا فسق والا عمل جبراً کروایا جائے، چنانچہ  وہ شخص جبر  کی وجہ سے مجبور ہو کر وہ کام کرے، دلی طور پر راضی ہو کر نہ کرے، تو ایسی صورت میں اسے کافر قرار نہیں دیا جائے گا؛ کیونکہ اللہ تعالی  کا فرمان ہے:

(مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْأِيمَانِ وَلَكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْراً فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ)

ترجمہ: جس شخص نے ایمان لانے کے بعد اللہ سے کفر کیا، اِلا یہ کہ وہ مجبور کر دیا جائے اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو (تو یہ معاف ہے) مگر جس نے رضا مندی سے کفر کیا تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہے اور انہی کے لئے بہت بڑا عذاب ہے۔ [النحل:106]

b. اس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اسے انتہا درجے کی فرحت ، یا غم یا خوف وغیرہ کی وجہ سے معلوم ہی نہ ہو کہ وہ کیا کہہ گیا ہے، اس کی دلیل صحیح مسلم: (2744) میں ہے کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ تعالی کو اپنے بندے کے توبہ کرنے پر اس شخص سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے جب تم میں سے کسی کی  سواری کھلے کھانے پینے کے سامن کے ساتھ چٹیل میدان میں گم ہو جائے اور  وہ مایوس ہو کر  ایک درخت کے سائے تلے  مایوسی کی حالت میں ہی سو جائے ، ابھی وہ اسی افسردگی کے عالم میں  ہو تو اپنی سواری پاس کھڑی ہو ئی  پائے  تو وہ سواری کی مہار پکڑ کر شدت فرحت کی بنا پر غلطی سے کہہ دے: یا اللہ! تو میرا بندہ میں تیرا اللہ!)

c. ایک مانع یہ بھی ہے کہ وہ اپنے اس کام میں تاویل کر رہا ہو، مطلب یہ ہے کہ اس کے پاس کچھ کچی باتیں ہو جنہیں وہ حقیقی دلائل سمجھ کر یہ عمل کر رہا ہو، یا اسے شرعی حجت اور دلیل صحیح انداز سے سمجھ نہ آئی ہو، تو ایسی صورت میں اسی وقت کسی کو کافر قرار دیا جا سکتا ہے جب  شرعی مخالفت عمداً ہو اور جہالت رفع ہو جائے، اس بارے میں فرمانِ باری تعالی ہے:

(ولَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُم بِهِ وَلَكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُوراً رَّحِيماً)

ترجمہ: جن کاموں میں تم سے خطا ہو جائے تو اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں ہے، لیکن [گناہ اس میں ہے جس میں] تم عمداً خطا کرو۔ اللہ تعالی بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔ [الأحزاب:5]

ابن تیمیہ رحمہ اللہ “مجموع الفتاوى”  (23/349) میں کہتے ہیں:

“امام احمد رحمہ اللہ  نے ان مسلمان خلیفوں پر بھی “رحمہ اللہ” کہتے ہوئے دعا کی ہے جنہوں نے  جہمی نظریات سے متاثر ہو کر قرآن مجید کو مخلوق سمجھ لیا تھا اور اسی موقف کے داعی بن گئے تھے، امام احمد نے ان کیلیے دعائے مغفرت بھی کی؛ کیونکہ امام احمد جانتے تھے کہ ان مسلمان خلفائے کرام پر یہ بات واضح ہی نہیں ہوئی تھی کہ وہ [قرآن کریم کو مخلوق مانتے ہوئے]غلط ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلا رہے ہیں، نہ انہیں اس بات کا ادراک ہوا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیمات کا انکار کر رہے ہیں، انہوں نے تاویل کی تھی اور اسی تاویل میں انہیں غلطی لگی، اور ایسے لوگوں کی تقلید کر بیٹھے جو خلق قرآن کے قائل تھے” انتہی

اسی طرح “مجموع الفتاوى” (12/180) کی ایک اور جگہ کہتے ہیں:

“کسی کو کافر قرار دینے کے متعلق  صحیح  قول یہ ہے کہ امت محمدیہ میں سے جو شخص تلاش حق  کیلیے جد و جہد کرے اور غلطی کا شکار ہو جائے تو اسے کافر قرار نہیں دیا جائے گا، بلکہ اس کی یہ غلطی معاف کر دی جائے گی۔ البتہ جس شخص کیلیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی بات کا علم ہو گیا اور اس کے با وجود ہدایت واضح ہونے کے بعد بھی مومنین کا راستہ نہ اپنائے تو وہ کافر ہے۔اور اگر ہوس پرستی  کے غلبہ میں  تلاش حق میں کوتاہی کا مرتکب ہو جاتا ہے اور لا علمی کے باوجود شرعی امور میں گفتگو کرتا ہے تو وہ نافرمان اور گناہگار ہے اس لیے وہ فاسق ہو گا، ایسا بھی ممکن ہے کہ اس کی نیکیاں اس کے گناہوں سے زیادہ ہوں” انتہا

ایک اور مقام (3/229)پر آپ کہتے ہیں:

” میں ہمیشہ یہ کہا کرتا ہوں اور میرے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ  میں کسی معین شخص کو کافر، فاسق یا گناہگار کہنے کا سخت مخالف ہوں اور اس سے روکتا ہوں، صرف ایک حالت میں[معین طور پر کافر ہونے کا حکم لگاتا ہوں جب] کہ  یہ بات معلوم ہو جائے کہ فلاں شخص پر وحی کی حجت قائم ہو گئی ہے؛ کہ جس کی مخالفت کرنے پر انسان بسا اوقات کافر، تو کبھی فاسق یا بعض حالات میں گناہگار ہو جاتا ہے۔ اور میں یہ بات پختگی سے کہتا ہوں کہ  اللہ تعالی نے اس امت کے خطا سے ہونے والے گناہ معاف کر دئیے ہیں، اور خطا سے ہونے والے گناہوں میں وہ اعمال بھی شامل ہیں جن کا تعلق خبری [یعنی نظریاتی] اور عملی [یعنی فقہی] مسائل سے ہے۔ سلف صالحین کا شروع سے اس قسم کے مسائل میں اختلاف چلا آ رہا ہے، لیکن ان میں سے کسی نے بھی دوسروں پر کفر، فاسق اور گناہگار ہونے کا فتوی نہیں لگایا”۔۔۔ پھر اس کی مثالیں ذکر کرنے کے بعد کہا:

“میں یہ بات واضح کرتا رہا ہوں کہ سلف صالحین اور ائمہ کرام کی جانب سے مطلق طور پر کسی  کی تکفیر کا حکم جو نقل کیا گیا ہے کہ “جو فلاں فلاں بات کہے وہ کافر ہے” یہ بھی حق بات ہے؛ لیکن یہاں مطلق طور پر کسی فعل کے فاعل کو کافر قرار دینا اور معین کر کے کسی کو کافر کہنے میں فرق کرنا انتہائی ضروری ہے۔”۔۔۔پھر کہتے ہیں:

“کسی کو کافر قرار دینا “وعید” سے تعلق رکھتا ہے؛ چنانچہ اگرچہ کسی شخص کی کوئی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب پر مشتمل ہو  لیکن چونکہ وہ نو مسلم ہے اس نے ابھی اسلام قبول کیا ہے ، یا کسی [علم و معرفت سے دور ]پسماندہ علاقے کا وہ رہائشی ہے تو ایسے شخص کو اس کے انکار اور تکذیب کی وجہ سے کافر قرار نہیں دیا جائے گا تاآنکہ اس پر حجت قائم ہو جائے؛ کیونکہ ایسا عین ممکن ہے کہ اس شخص نے یہ نصوص سنی ہی نہ ہوں! یا سنی تو ہوں لیکن انہیں سمجھا ہی نہ ہو! یا اس کے پاس اس سے متصادم یا معارض کوئی شبہ ہو جس کی وجہ سے وہ ان نصوص میں غلط طور پر تاویل کرتا ہو۔

 ہمیشہ صحیح بخاری اور مسلم کی ایک حدیث ذہن میں رکھہں  جس میں ایک شخص کا ذکر ہے جو کہ کہتا ہے:

“جب میں مر جاؤں تو مجھے جلا کر پھر مجھے پیس کر ہوا میں اڑا دینا۔ اللہ کی قسم! اگر اللہ تعالی نے مجھے پکڑ لیا  تو مجھے اتنا عذاب دے گا کہ کسی کو اس نے اس سے پہلے اتنا عذاب نہیں دیا ہو گا۔ جب وہ مر گیا تو اس کے ساتھ ایسا ہی کیا گیا، تو اللہ تعالی نے زمین کو حکم دیا  اور فرمایا: اس آدمی کا جو حصہ بھی تمہارے پاس ہے اسے جمع کر دو، تو زمین سے اسے جمع کر دیا اور وہ زندہ کھڑا ہو گیا۔ تو اللہ تعالی نے پوچھا: تمہیں اس پر کس چیز نے آمادہ کیا؟ اس نے کہا: پروردگار! تیرے ڈر سے میں نے ایسا کیا تھا۔ تو اللہ تعالی نے اسے معاف فرما دیا)  حدیث میں مذکور اس شخص کو اللہ تعالی کی قدرت میں شک ہوا تھا کہ اگر اسے پیس کر اڑا دیا گیا تو اللہ تعالی اسے دوبارہ زندہ نہیں کر سکے گا، بلکہ اس کا عقیدہ  بن گیا کہ وہ دوبارہ زندہ ہی نہیں کیا جائے گا۔ تو یہ بات تمام مسلمانوں کے ہاں متفقہ طور پر کفر ہے؛ لیکن چونکہ وہ اللہ تعالی کی قدرت سے نابلد تھا ، اور ساتھ میں اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہوئے ایمان بھی رکھتا تھا تو اللہ تعالی نے اسے اسی خوف کی بنا پر بخش دیا۔”

تو اب جو شخص اجتہاد کی اہلیت رکھنے والا ہو اور تاویل کر رہا ہوں ساتھ میں اس کی کوشش یہ بھی ہو کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر کار بند بھی رہے تو ایسا شخص حدیث میں مذکور شخص سے زیادہ  مغفرت کا حق دار ہے۔” 

(یہ گفتگو شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کی کتاب: “القواعد المثلی” کے آخر سے لی گئی ہے، ساتھ میں کچھ اضافے بھی ہیں)

اگر تکفیر کا معاملہ اتنا ہی حساس ہے   اور تکفیر میں ہونے والی غلطی کے نتائج بھی بہت سنگین ہیں تو ایک مبتدی طالب علم تو کجا  ایک بڑے طالب علم کو بھی ایسے مسائل میں نہیں پڑنا چاہیے، اس کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ علم نافع کے حصول کیلیے کوشش کرے جس سے اس کی دنیا اور آخرت دونوں اچھی ہوں۔ [ https://islamqa.info/ur/85102]

مزید پڑھیں : فتنہ تکفیر، از: امام محدث محمد ناصر الدین البانی (رحمۃ اللہ علیہ) http://www.urdumajlis.net/threads/14544/

نوٹ: قتل یا سزا کا معاملہ حکومت کے نامزد قاضی یا عدلیہ کا کام ہے ۔ اسلامی حکومت میں افراد یا گروہ ایسے اقدام نہیں کر سکتے یہ فساد فی الارض ہو گا ۔ھو حرام ہے

……………………………………………………..

کفر عملی وکفر اعتقادی

مسلمان کا مسلمان سے قتال کرنا بغاوت ہے، ذیادتی ہے، فسق وکفر ہے لیکن اس تفصیل کے ساتھ کہ کفر کبھی عملی ہوتا ہے اور کبھی اعتقادی۔   اگر اس فرق کو ملحوظ خاطر نہ رکھا جائے تو مسلمان لاشعوری طور پر مسلمانوں کی جماعت سے خروج کے اس فتنے میں مبتلا ہوجاتے ہیں جس میں زمانہ قدیم کے خوارج مبتلا ہوئے تھے یا پھر دور حاضر میں انہیں کے کچھ دُم چھلے مبتلا ہیں۔  یہ ایک حقیقت ہے کہ ایسے نصوص کثیر تعداد میں موجود ہیں جن میں لفظ “الکفر” آیا ہے لیکن اس کا وہاں معنی ملت اسلامیہ سے خروج نہیں اور فی الحال تو ہمیں یہ حدیث ہی کافی ہے جو ایک دلیل قاطعہ ہے اس بات پرکے مسلمان کا اپنے مسلمان بھائی سے قتال کرنا کفر عملی ہے نا کہ کفر اعتقادی ۔

استحلال قلبی اور استحلال عملی میں فرق

اس بات کی معرفت بےحد ضروری ہے کہ کفر بھی فسق و ظلم کی طرح دو اقسام میں تقسیم ہوتا ہے یعنی ملت اسلامیہ سے خارج کرنے والا کفر، فسق اور ظلم، اور یہ تب ہوتا ہے جب استحلال قلبی (دلی طور پر حرام کو حلال جاننا) کیا جائے اور اس کے برعکس یعنی کفر، فسق اور ظلم جو ملت اسلامیہ سے خارج نہ کرے اس وقت ہوتا ہے جب استحلال عملی (عملاً حرام کا مرتکب ہونا لیکن دل سے اسے حرام جاننا) کیا جائے۔

لہذا تمام گناہگار اور خصوصاً سود کا استحلال جو دور حاضر میں بہت عام ہے، یہ سب کفر عملی کی مثالیں ہیں۔ اسی لئے ہمارے لئے جائز نہیں کہ ہم ان گنہگاروں کو کافر قرار دیں محض ان کے معصیت کے مرتکب ہونے اور عملی استحلال کرنے کی بنیاد پر یہاں تک کہ جو کچھ ان کےدلوں میں پوشیدہ ہے ہم پر ظاہر ہوجائے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حرام کردہ کو عقیدۃً حرام نہیں سمجھتے۔ اگرہم یہ جان جائیں کہ وہ اس دلی طور پر مخالفت کے مرتکب ہوئے ہیں تب ہم ان پر مرتد ہونے والے کفر کا حکم لگائیں گے اور اگر ہم یہ نہ جان پائیں تو ہمیں قطعاً یہ حق حاصل نہیں کہ ہم ان پر کفر کا حکم لگائیں کیونکہ ہمیں یہ ڈر ہے کہ بادل ناخواستہ ہم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیان کردہ اس وعید کے مستحق نا بن جائیں:

“من كفّـر مسلمـاً فقد بـاء بـه أحدهمـا.”

مفھوم : جس نے کسی مسلمان کی تکفیر کی تو وہ ان میں سےکسی ایک پر لوٹتی ہے

اور اس حدیث کے ہم معنی بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں۔ اس مناسبت سے ہم اس صحابی کا قصہ ذکر کریں گے کہ جنہوں نے ایک مشرک پر غلبہ حاصل کیا تو یہ دیکھتے ہوئے کہ وہ اس مسلمان صحابی کے تلوار کی زد میں ہے اس مشرک نے جھٹ سے کلمہ پڑھ لیا (أشهد أن لا إله إلا الله) اس صحابی نے اس کے کلمہ پڑھنے کی کوئی پروہ نہیں کی اور اسے قتل کردیا۔ جب اس ماجرے کی خبر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انتہائی شدت کے ساتھ اس پر انکار کیا جیسا کہ آپ سب لوگ جانتےہیں۔ انہوں نےعذر پیش کیا کہ اس نے محض اپنی جان بچانے کے لئے کلمہ پڑھا تھا اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا:

“هلاّ شققت عن قلبه؟!”

(کیوں نہ تو اس کا دل چاق کرکے دیکھ لیتا کہ اس نے جان بچانے کے لئے ایسا کہا تھا؟!)

لہذا جو کفر اعتقادی ہوتا ہے اس کا اساسی تعلق مجرد عمل سے نہیں ہوتا بلکہ اس کا تعلق تو دل سے ہوتا ہے اور ہم یہ بالکل نہیں کہہ سکتے کہ ہمیں معلوم ہےاس فاسق یا فاجر یا چور یا سودخور وغیرہ کے دل میں کیا ہے یہاں تک کہ جو کچھ اس کے دل میں ہے زبان اس کی گواہی دے۔ جہاں تک اس کے عمل کا معاملہ ہے تو وہ یہی ظاہر کرتا ہے کہ اس نے شریعت کی مخالفت کی یعنی عملی مخالفت۔

جس پر ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ تو نے مخالفت کی اور فسق و فجور کیا لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ تو نے کفر کیا اور دین سے مرتد ہوگیا تاآنکےاس سے کوئی چیز ایسی ظاہر ہو جو اللہ تعالی کے پاس ہمارا عذر بن سکے کہ ہم نے اس ظاہر ہونے والی چیز کی بنیاد پر ارتداد کا حکم لگایا تھا۔ اور اس کے مرتد ہوتے ہی اسلام کا معروف حکم اس پر نافذ ہوگا ، مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان ہے:

“مَنْ بدَّلَ دينَه فاقتلوه.” جو مسلمان ہونے کے بعد اپنا دین بدل دے اسے قتل کردو

[ماخوز : شیخ محمد ناصر الدین البانی (رحمۃ اللہ علیہ)]

………………………………………………

الله تعالی نے مسلمانوں کی تین اقسام بیان فرمائی ہیں:

ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِيْنَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا١ۚ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ١ۚ وَ مِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ١ۚ وَ مِنْهُمْ سَابِقٌۢ بِالْخَيْرٰتِ بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ ذٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيْرُؕ (الفاطر ٣٥:٣٢)

“پھر ہم نے اس کتاب کا وارث بنا دیا اُن لوگوں کو جنہیں ہم نے (اِس وراثت کے لیے)اپنے بندوں میں سے چُن لیا۔ 55 اب کوئی تو ان میں سے اپنے نفس پر ظلم کرنے والا ہے، اور کوئی بیچ کی راس ہے، اور کوئی اللہ کے اِذن سے نیکیوں میں سبقت کرنے والا ہے، یہی بہت بڑا فضل ہے” (الفاطر ٣٥:٣٢)

یھاں وارث کتاب سے مراد ہیں مسلمان جو پوری نوعِ انسانی میں سے چھانٹ کر نکالے گئی ہیں تاکہ وہ کتاب اللہ کے وارث ہوں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد اسے لے کر اٹھیں۔ اگر چہ کتاب پیش تو کی گئی ہے سارے انسانوں کے سامنے۔ مگر جنہوں نے آگے پڑھ کر اس ے قبول کر لیا وہی اس شرف کے لیے منتخب کر لیے گئے کہ قرآن جیسی کتاب عظیم کے وارث اور  محمد عربی صلی اللہ علیہ و سلم جیسے رسول عظیم کی تعلیم و ہدایت کے امین بنیں۔

مسلمان سا رے کے سارے  ایک ہی طرح کے نہیں ہیں، بلکہ یہ تین طبقوں میں تقسیم ہو گئے ہیں:

1)۔ اپنے نفس پر ظلم کرنے والے۔

یہ وہ لوگ ہیں جو قرآن کو سچے دل سے اللہ کی کتاب اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو ایمانداری کے ساتھ اللہ کا رسول تو مانتے ہیں، مگر عملاً کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی پیروی کا حق ادا نہیں کرتے۔ مومن ہیں مگر گناہ گار ہیں۔ مجرم ہیں مگر باغی نہیں ہیں۔ ضعیف الایمان ہیں مگر منافق اور دل و دماغ سے کافر نہیں ہیں۔ اسی لیے ان کو “ظالمُ لِنفسہ” ہونے کے باوجود وارثین کتاب میں داخل اور خدا کے چُنے ہوئے بندوں میں شامل کیا گیا ہے، ورنہ ظاہر ہے کہ باغیوں اور منافقوں اور قلب و ذہن کے کافروں پر ان اوصاف کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ تینوں درجات میں سے اس درجہ کے اہل ایمان کا ذکر سب سے پہلے اس لیے کیا گیا ہے کہ تعداد کے لحاظ سے امت میں کثرت انہی کی ہے۔

2)۔ بیچ کی راس۔

یہ وہ لوگ ہیں جو اس وراثت کا حق کم و بیش ادا تو کرتے ہیں مگر پوری طرح نہیں کرتے۔ فرماں بردار بھی ہیں اور خطا کار بھی۔ اپنے نفس کو بالکل بے لگام تو انہوں نے نہیں چھوڑ دیا ہے بلکہ اسے خدا کا مطیع بنانے کی اپنی حد تک کوشش کرتے ہیں، لیکن کبھی یہ اس کی باگیں ڈھیلی بھی چھوڑ دیتے ہیں اور گناہوں میں مبتال ہو جاتے ہیں۔ اس طرح انکی زندگی اچھے اور برے، دونوں طرح کے اعمال کا مجموعہ بن جاتی ہے۔ یہ تعداد میں پہلے گروہ سے کم اور تیسرے گروہ سے زیادہ ہیں اس لیے ان کو دوسرے نمبر  پر رکھا گیا ہے۔

3)۔ نیکیوں میں سبقت کرنے والے۔

یہ وارثین کتاب میں صفِ اول کے لوگ ہیں۔ یہی دراصل اس وراثت کا حق ادا کرنے والے ہیں۔ یہ اتباع کتاب و سنت میں بھی پیش پیش ہیں، خدا کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچانے میں بھی پیش پیش، دین حق کی خاطر قربانیاں کرنے میں بھی پیش پیش، اور بھلائی کے ہر کام میں پیش پیش۔ یہ دانستہ معصیت کرنے والے نہیں ہیں، اور نا دانستہ کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو اس پر متنبہ ہوتے ہی ان کی پیشانیاں شرم سے عرق آلود ہو جاتی ہیں۔ ان کی تعداد امت میں پہلے دونوں گروہوں سے کم ہے اس لیے ان کا آخر میں ذکر کیا گیا ہے اگر چہ وراثت کا حق ادا کرنے کے معاملہ میں ان کو اولیت کا شرف حاصل ہے۔

’’یہی بہت بڑا فضل ہے ‘‘۔ اس فقرے کا تعلق اگر قریب ترین فقرے سے مانا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نیکیوں میں سبقت کرنا ہی بڑا فضل ہے اور جو لوگ ایسے ہیں وہ امت مسلمہ میں سب سے افضل ہیں۔ اور اس فقرے کا تعلق پہلے فقرے سے مانا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ کتاب اللہ کا وارث ہونا اور اس وراثت کے لیے چن لیا جانا بڑا فضل ہے، اور خدا کے تمام بندوں میں وہ بندے سب سے افضل ہیں جو قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لاکر اس انتخاب میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ (تفہیم القرآن)

مسلمان اکثریت گناہگار وں پر مشتمل ہے ، ان کو کافر کہ کر مسترد کرنا مناسب نہیں بلکہ ان کی اصلاح کی ضرورت ہے-

………………………………………………

گناہ کبیرہ اور کفر و ایمان :

راوی: احمد بن منیع , عبیدة بن حمید , اعمش , ابوصالح , ابوہریرہ … حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ وَلَا يَسْرِقُ السَّارِقُ حِينَ يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ وَلَکِنَّ التَّوْبَةَ مَعْرُوضَةٌ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَعَائِشَةَ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَی قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا زَنَی الْعَبْدُ خَرَجَ مِنْهُ الْإِيمَانُ فَکَانَ فَوْقَ رَأْسِهِ کَالظُّلَّةِ فَإِذَا خَرَجَ مِنْ ذَلِکَ الْعَمَلِ عَادَ إِلَيْهِ الْإِيمَانُ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ أَنَّهُ قَالَ فِي هَذَا خَرَجَ مِنْ الْإِيمَانِ إِلَی الْإِسْلَامِ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ فِي الزِّنَا وَالسَّرِقَةِ مَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِکَ شَيْئًا فَأُقِيمَ عَلَيْهِ الْحَدُّ فَهُوَ کَفَّارَةُ ذَنْبِهِ وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِکَ شَيْئًا فَسَتَرَ اللَّهُ عَلَيْهِ فَهُوَ إِلَی اللَّهِ إِنْ شَائَ عَذَّبَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَإِنْ شَائَ غَفَرَ لَهُ رَوَی ذَلِکَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَعُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ وَخُزَيْمَةُ بْنُ ثَابِتٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  [جامع ترمذی ۔ جلد دوم ۔ ایمان کا بیان ۔ حدیث 533 ]

احمد بن منیع، عبیدة بن حمید، اعمش، ابوصالح، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کوئی زانی مومن ہونے کی حالت میں زنا نہیں کرتا اور کوئی چور مومن ہوتے ہوئے چوری نہیں کرتا لیکن توبہ قبول ہوتی ہے۔ اس باب میں حضرت ابن عباس، عائشہ، عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے بھی روایت ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب کوئی بندہ زنا کرتا ہے تو ایمان اس کے دل سے نکل جاتا ہے اور اس پر سائے کی طرح رہتا ہے جب وہ اس گناہ سے نکلتا ہے تو ایمان واپس لوٹ آتا ہے۔ ابوجعفر محمد بن علی فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے مراد زانی کا ایمان سے اسلام کی طرف جانا ہے۔ متعدد طریق سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زنا اور چوری کے بارے میں فرمایا کہ جو آدمی ان میں سے کسی کا ارتکاب کرے (یعنی زنا یا چور) پھر اس پر حد قائم کی جائے تو وہ (حد) اس کے گناہ کا کفارہ ہے۔ اور جس نے یہ گناہ کیا (یعنی زنا یا چوری) پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی پردہ پوشی فرمائی تو یہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے چاہے تو اس کو عذاب دے اور اگر چاہے تو بخش دے۔ یہ حدیث حضرت علی بن ابی طالب، عبادہ بن صامت اور خزیمہ بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں۔ [جامع ترمذی ۔ جلد دوم ۔ ایمان کا بیان ۔ حدیث 533 ]

Sayyidina Abu Huraira (RA) reported that Allah’s Messenger (SAW) said, “No adulterer commits adultery while he is a believer, and no thief commits theft while he is a believer, but repentance is accepted.” [Bukhari 2475]

…………………………………………..

مرتد ,  ارتداد اور سزا :

ارتداد کے لفظی معنی ہیں لوٹنا یا پهر جانا ، اور مرتد وه شخص ہے جو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف لوٹ جائے – عام طور پر یہ لفظ دینی ارتداد کے لیے بولا جاتا ہے – روایتی طور پر یہ سمجها جاتا ہے کہ جو شخص اسلام قبول کرے اور پهر وه اسلام کو چهوڑ کر دوسرے دین کی طرف چلا جائے تو اس کے بارے میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ اس کو قتل کر دیا جائے –

اس معاملہ میں سب سے پہلی بات یہ جاننا چاہئے کہ ارتداد ایک فوجداری جرم نہیں ہے بلکہ وه ایک فکری انحراف ہے ، اور فکری انحراف کرنے والا سب سے پہلے تبلیغ و نصیحت کا موضوع ہوتا ہے نہ کہ سزا کا موضوع – اگر کوئی شخص اعلان کے ساته مرتد ہو جائے تو مسلم معاشره کا پہلا فرض یہ ہے کہ وه اس کو سمجهانے بجهانے کی کوشش کرے – وه دلیل اور نصیحت کے ذریعہ مرتد کو آماده کرے کہ وه دوباره اسلام کی طرف واپس آ جائے –

اگر قابل لحاظ مدت تک نصیحت پر عمل کرنے کے بعد بهی وه شخص دوباره اسلام قبول نہ کرے تو اس کے بعد بهی افراد معاشره کو یہ حق نہیں کہ وه اس کو ماریں یا بطور خود اس کو کوئی سزا دیں – اس کے بعد انہیں یہ کرنا چاہئے کہ اس شخص کے معاملہ کو اسلامی عدالت کے حوالہ کر دیں – اب یہ عدالت کا کام ہو گا کہ وه ضروری تحقیق کے بعد اس کے جرم کی نوعیت متعین کرے اور پهر اس کے بارے میں شرعی حکم کا فیصلہ دے –

“ان الدین یسر،ولن یشاد الدین الا غلبہ ،فسددو ،وقاربو ا وابشرو ا واستعینو ا با لغدوۃ والروحۃ وشیء من الدلجۃ”

بے شک دین حنیف ،اسلام نہایت آسان ہے اور جو شخص دین میں سختی اختیار کرے گا تو دین اس پر غالب آجائیگا (اس کی سختی نہ چل سکے گی )۔ اس لیے اپنے عمل میں  پختگی پیدا کرو اور جہاں تک ممکن ہو میانہ روی اختیار کرو اور خوش ہو جاؤ (کہ ا س طرز  عمل سے تم لوگوں کو  دین ودنیا  کے سب فوائد حاصل ہوں گے۔)صبح،دوپہر ، شام اور رات کے کچھ حصے میں (عبادت سے ) مدد حاصل کرو ۔ (صحیح البخاری ، کتاب الایمان ، باب الدین یسر حدیث:39)

”عن عبدالرحمن بن محمد بن عبداللہ بن عبدالقاری رحمہ اللہ، عن ابیہ انہ قال: قدم علی عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ، رجل من قبل ابی موسی الاشعری، فسالہ عن الناس فاخبرہ؟ ثم قال لہ عمر بن الخطاب: ہل کان فیکم من مُغربة خبر؟ فقال نعم، رجل کفر بعد اسلامہ، قال: فما فعلتم بہ؟ قال: قربناہ فضربنا عنقہ، فقال عمر: افلا حبستموہ ثلاثا، واطعمتموہ کل یوم رغیفا، واستتبتہوہ لعلہ یتوب ویراجع امر اللہ؟ ثم قال عمر اللہم انی لم احضر، ولم آمر، ولم ارض اذ بلغنی“۔(موطا امام مالک ص:۶۴۰، جامع الاصول ص:۴۷۹، ج:۳)

ترجمہ: ”حضرت محمد بن عبداللہ بن عبدالقاری سے مروی ہے کہ حضرت عمر کی خلافت کے دور میں حضرت ابوموسیٰ کی جانب سے یمن کا ایک شخص آپ کی خدمت میں آیا، آپ نے پہلے تو وہاں کے لوگوں کے حالات معلوم کئے، پھر اس سے پوچھا کہ وہاں کی کوئی نئی یا انوکھی خبر؟ اس نے کہا: جی ہاں! ایک آدمی اسلام لایاتھا، مگر بعد میں وہ مرتد ہوگیا، آپ نے فرمایا: پھر تم لوگوں نے اس کے ساتھ کیاکیا؟ انھوں نے عرض کیا: ہم نے اس کو پکڑ کر اس کی گردن اڑادی، آپ نے فرمایا: تم نے پہلے اسے تین دن تک قید کرکے اس سے توبہ کا مطالبہ کیوں نہ کیا؟ ممکن ہے وہ توبہ کرلیتا؟ پھر فرمایا: اے اللہ! نہ میں وہاں حاضر تھا، نہ میں نے اس کے قتل کا حکم دیا اور جب مجھے اس کی اطلاع ملی تو میں ان کے اس فعل پر راضی بھی نہیں ہوں۔“

گویا مرتد کے قتل سے پہلے استحباباً اس کو توبہ کا ایک موقع ملنا چاہئے تھا، چونکہ مرتد کو وہ موقع نہیں دیاگیا، تو حضرت عمر نے ترک مستحب کی اس بے احتیاطی کو بھی برداشت نہیں کیا اور اس سے برأت کا اظہار فرمایا۔

چنانچہ ائمہ اربعہ:

امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اورامام احمد بن حنبل بالاتفاق اس کے قائل ہیں کہ اگر کوئی شخص مرتد ہوجائے تو مستحب یہ ہے کہ اس کو تین دن کی مہلت دی جائے، اس کے شبہات دور کئے جائیں، اس کو توبہ کی تلقین کی جائے اور دوبارہ اسلام کی دعوت دی جائے، اگر اسلام لے آئے تو فبہا، ورنہ اسے قتل کردیاجائے، ملاحظہ ہو ائمہ اربعہ کی تصریحات:

فقہ حنفی: چنانچہ فقہ حنفی کی مشہور کتاب ہدایہ میں ہے:

”واذا ارتد المسلم عن الاسلام والعیاذ باللہ․ عرض علیہ الاسلام فان کانت لہ شبہة کشفت عنہ ویحبس ثلاثة ایام فان اسلم والاقتل“․ (ہدایہ اولین ص:۵۸۰، ج:۱)

ترجمہ: ”اور جب کوئی مسلمان نعوذ باللہ! اسلام سے پھرجائے تو اس پر اسلام پیش کیاجائے، اس کو کوئی شبہ ہو تو دور کیا جائے، اس کو تین دن تک قید رکھاجائے، اگر اسلام کی طرف لوٹ آئے تو ٹھیک، ورنہ اسے قتل کردیا جائے۔“

نوٹ:  قتل یا سزا کا معاملہ حکومت کے نامزد قاضی یا عدلیہ کا کام ہے ۔ اسلامی حکومت میں افراد یا گروہ ایسے اقدام نہیں کر سکتے یہ فساد فی الارض ہو گا ۔ھو حرام ہے

چونکہ اسلام جبر و تشدد کا مذہب نہیں اور نہ ہی کسی کو جبراً و قہراً اسلام میں داخل کیا جاتا ہے، بلکہ قرآن و حدیث میں وضاحت و صراحت کے ساتھ یہ بات مذکور ہے کہ جو شخص دل وجان سے اسلام قبول نہ کرے، نہ صرف یہ کہ اس کا اسلام معتبر نہیں، بلکہ ایسا شخص قرآنی اصطلاح میں منافق ہے اور منافق جہنم کے نچلے درجے کی بدترین سزا کا مستحق ہے، جیساکہ قرآن کریم میں ہے:

”ان المنافقین فی الدرک الاسفل من النار“ (النساء:۱۴۵)

ترجمہ: ”بے شک منافق ہیں سب سے نیچے درجہ میں دوزخ کے۔“

اسی لئے جبراً وقہراً اسلام میں داخل کرنے کی ممانعت کرتے ہوئے فرمایاگیا:

”لا اکراہ فی الدین قد تبین الرشد من الغی“ (البقرہ: ۲۵۶)

ترجمہ: ”دین اسلام میں داخل کرنے کیلئے کسی جبر واکراہ سے کام نہیں لیا جاتا، اس لئے کہ ہدایت، گمراہی سے ممتاز ہوچکی ہے۔“

لیکن اس کا یہ معنی بھی نہیں کہ جو شخص برضا و رغبت اسلام میں داخل ہوجائے اور اسلام قبول کرلے، اسے مرتد ہونے کی بھی اجازت دے دی جائے، یہ بالکل ایسے ہے جیسے ابتداءً فوج میں بھرتی ہونے کیلئے کوئی جبر اور زبردستی نہیں کی جاتی، لیکن اگر کوئی شخص اپنی رضا و رغبت سے فوج میں بھرتی ہوجائے تو اب اسے اپنی مرضی سے فوج سے نکلنے یا فوجی نوکری چھوڑنے کا اختیار نہیں ہوتا۔ اگر فوج کا یہ قانون جائز ہے تو اسلام کا یہ دستور کیونکر جائز نہیں؟

اس کے علاوہ عقل و شعور کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جو شخص اپنی مرضی اور رضا ورغبت سے اسلام میں داخل ہوجائے اسے اسلام سے برگشتگی اور مرتد ہونے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے، کیونکہ بالفرض اگر نعوذ باللہ! کسی کو اسلام یا اسلامی تعلیمات میں کوئی شک و شبہ تھا تو اس نے اسلام قبول ہی کیوں کیا تھا؟ لہٰذا ایسا شخص جو اپنی مرضی اور رضا و رغبت سے اسلام میں داخل ہوچکا ہے، اب اسے مرتد ہونے کی اس لئے اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ اسلام چھوڑ کر نہ صرف اپنے دین و مذہب کو بدلتا ہے، بلکہ اس قبیح اور بدترین فعل کے ذریعہ وہ دین و شریعت، اسلامی تعلیمات، اسلامی معاشرہ کو داغ دار کرنے، اسلامی تعلیمات کومطعون و بدنام کرنے اور نئے مسلمان ہونے والوں کی راہ روکنے کی بدترین سازش کا مرتکب ہوا ہے، اس لئے اسلام قبول کرنے سے پہلے اس کی مثال کھلے کافر کی تھی، لیکن اب اس کی حیثیت اسلام کے باغی کی ہے، اور دنیا کا مسلمہ اصول ہے کہ جو شخص کسی ملک کا شہری نہ ہو اور وہ اس ملک کے قوانین کو تسلیم نہ کرے تو اسے اس پر مجبور نہیں کیا جاسکتا، لیکن جب کوئی شخص کسی ملک کی شہریت اپنالے تو اسے اس ملک کے شہری قوانین کا پابند کیا جائے گا، چنانچہ اگرکوئی خودسر کسی ملک کی شہریت کا دعویدار بھی ہو اور اس کے احکام و قوانین اور اصول و ضوابط کے خلاف اعلانِ بغاوت بھی کرے تو اسے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں، لہٰذا اگر کوئی شخص کسی ملک، اس کے قوانین و ضوابط یا کسی ملک کے سربراہ سے بغاوت کی پاداش میں سزائے موت کا مستحق ہے، تو کیا وجہ ہے کہ اسلام، اسلامی قوانین اور پیغمبر اسلام سے بغاوت کا مرتکب سزائے موت کا مستحق نہ ہو؟

اگر دیکھاجائے اور اس کا بغور جائزہ لیا جائے تو سزائے ارتداد کا یہ اسلامی قانون عین فطرت ہے، جس میں نہ صرف مسلمانوں کا، بلکہ اسلامی مملکت کے تمام شہریوں کا بھی فائدہ ہے۔ اس لئے کہ دین اسلام اللہ کا پسندیدہ دین ہے اور اس دین و مذہب میں دنیا کی فوز و فلاح اور نجاتِ آخرت کا مدار ہے، جیساکہ ارشاد الٰہی ہے:

۱- ”الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا“ (المائدہ: ۳)

ترجمہ: ”آج کے دن میں نے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر نعمت تمام کردی اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کیا۔“

۲- ”ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ، وہو فی الآخرة من الخاسرین“ (آل عمران:۸۵)

ترجمہ: ”اور جو شخص اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین و مذہب کو اپنائے گا، اللہ کے ہاں اسے قبولیت نصیب نہیں ہوگی اور وہ آخرت میں خسارہ میں ہوگا۔“

لہٰذا جو شخص اسلام قبول کرنے کے بعد ارتداد کا مرتکب ہوا ہے، اس کی مثال اس باؤلے کتے یا ہلکے انسان کی ہے جسے اپنا ہوش ہے اور نہ دوسروں کا، اگرکوئی ”عقل مند“ اس کی جان پر ترس کھاکر اسے چھوڑ دے تو بتلایاجائے کہ وہ انسانیت کا دوست ہے یا دشمن؟ ٹھیک اسی طرح مرتد کی جان بخشی کرنا بھی معاشرہ کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے، اوراس کی ہلاکت اسلامی معاشرہ کیلئے امن و عافیت اور سکون و اطمینان کا ذریعہ ہے۔

اسلام اور اسلامی آئین، ہر غیرمسلم وکافر کے درپے نہیں، بلکہ اسلامی آئین و دستور صرف اور صرف ان فتنہ پردازوں کا راستہ روکتا ہے اور انہیں کڑی سزا کا مستحق گردانتا ہے جو معاشرہ کے امن وامان کے دشمن اور اسلام سے بغاوت کے مرتکب ہوں، بایں ہمہ اسلام اور اسلامی آئین ایسے لوگوں کو بھی فوراً کیفر کردار تک نہیں پہنچاتا، بلکہ انہیں اپنی اصلاح کا موقع فراہم کرتا ہے، اگر وہ سدھر جائیں تو فبہا، ورنہ اس بدترین سزا کیلئے تیارہوجائیں، اس کے باوجود بھی اگر کوئی بدنصیب اس سے فائدہ نہ اٹھائے اور اپنی جان کا دشمن بنارہے تو اس میں اسلام کا کیا قصور ہے؟

جیساکہ ارتداد ومرتد کی تعریف کے ذیل میں پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ جو شخص اسلام لانے کے بعد اسلام کو چھوڑ کرکوئی بھی دوسرا دین و مذہب اختیار کرلے، وہ مرتد ہے، اور مرتد کی سزا قتل ہے۔

ماخوز : ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ12، جلد: 90 ‏،ذیقعدہ 1427 ہجری مطابق دسمبر2006ء

www.darululoom-deoband.com/urdu/articles/tmp/1456808791%2003-Murtad%20Ki%20Saza%202%20Qist_MDU_12_DEC_2006.htm

لنکس مزید مطالعہ

ان صاحب سے سیاسی اختلاف اپنی جگہ مگر دین کا علم اپنی جگہ

Leave a Reply