Why Friday Khutbah (Sermons) are ineffective ?جمعہ کا خطبہ غیر موثر کیوں ہوتا ہے ؟

جمعہ ”جمع“ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی ہیں: جمع ہونا؛ کیونکہ مسلمان اِس دن بڑی مساجد میں جمع ہوتے ہیں اور امت ِمسلمہ کے اجتماعات ہوتے ہیں ، اِس لیے اِس دن کو جمعہ کہا جاتا ہے۔ چھ ایام (ادوار) میں اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان اور تمام مخلوق کو پیدا فرمایا۔ جمعہ کے دن مخلوقات کی تخلیق مکمل ہوئی یعنی ساری مخلوق اس دن جمع ہوگئی؛ اس لیے بھی اِس دن کو جمعہ کہا جاتا ہے۔ جمعہ کے دن ہی حضرت آدم علیہ السلام پیدا کیے گئے، یعنی اُن کو اِس دن جمع کیا گیا۔

الله کا ارشاد ہے :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّـهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿٩فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللَّـهِ وَاذْكُرُوا اللَّـهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿١٠ وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا ۚ قُلْ مَا عِندَ اللَّـهِ خَيْرٌ مِّنَ اللَّـهْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ ۚ وَاللَّـهُ خَيْرُ الرَّازِقِينَ ﴿سورة الجمعة١١

”اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے پکارا جائے، یعنی نماز کی اذان ہوجائے، تو اللہ کی یاد کے لیے جلدی کرو۔ اور خرید وفروخت چھوڑدو۔ یہ تمہارے حق میں بہت ہی بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔ اور جب نماز ہوجائے تو زمین میں پھیل جاوٴ اور اللہ کا فضل تلاش کرو یعنی رزق حلال تلاش کرو۔ اور اللہ کو بہت یاد کرو؛ تاکہ تم کامیاب ہوجاوٴ۔ جب لوگ سودا بکتا دیکھتے ہیں یا تماشہ ہوتا ہوا دیکھتے ہیں، تو اُدھر بھاگ جاتے ہیں اور آپ کو کھڑا چھوڑ دیتے ہیں۔ تو فرمادیجیے جو اللہ کے پاس ہے وہ بہتر ہے، تماشے سے اور سودے سے، اور اللہ سب سے بہتر رزق دینے والے ہیں“۔ ﴿الجمعه٩،١٠،١١ ﴾

جمعہ کی نماز کے لیے جلد نکلنے کا اہتمام کرنا چاہیے- جمعہ کے دن سورۂ کہف کی تلاوت مستحب ہے، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

من قرأ سورة الكهف في يوم الجمعة، أضاء له من النّور ما بين الجمعتين (صححه الألباني 6470 في صحيح الجامع)

ترجمہ :”جس نے جمعہ کے دن سورۂ کہف پڑھی تو اس جمعہ سے دوسرے جمعہ تک اس کے لیے نور کو روشن کردیا جاتا ہے”۔

اجتماع جمعہ اور ہم:

عالم اسلام (مسلمان ) تنزلی کا شکار ہے، جدید علوم کے حصول سے بیگانگی اور ماضی میں گم رہنے کی عادت اور سنہری دور کے حصول کی خواہش نے نوجوان نسل کو فرسٹیشن  کا شکار بنا دیا ہے- لاعلم حضرات حقیقت پسندی کی بجائے شارٹ کٹ (دہشت گردی) سے عظیم مقاصد کا حصول اور مسمانوں کی سربلندی چاہتے ہیں- بڑی خواہشات اور خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں- اگرحضرت محمّد ﷺ کی زندگی اور جدوجہد پر ایک نگاہ ڈال لیں تو راستہ واضح ہو جائے گا- 13 سال کی مسلسل تبلیغ کے بعد اہل مدینہ کو اسلام کی طرف مائل کر سکے ، مکہ میں بہت تھوڑے لوگ مسلمان ھوئے- مدینہ کو حملہ کرکہ فتح نہ کیا ، لوگوں کے دل فتح کر لئے- پھر مکہ خوں خرابہ کے بغیر فتح ہوا- خلفاء راشدین کے دور کی تین دھایئوں وں میں انصاف کا نظام اپنی مثال آپ تھا- پھر تنزلی شروع ہو گیی- اسلام کے پہلے چالیس ، پچاس سال کی تاریخ میں بہت اسباق موجود ہیں- دنیا اچانک خود بخد سر نگوں نہیں ہوئی، نہ آج ہو گی جب تک ہم تاریخ سے سبق حاصل کرکہ اپنے رویہ نہ بدلیں- آج کے حقائق کا تجزیہ کریں اور محنت سے اگے بڑھئیں-

ہمارہ معاشرہ شدید تنزلی کی طرف گامزن ہے، بے ایمانی، کرپشن، فحاشی کا دور دورہ ہے. ہر باضمیر مسلما ن کا دل کڑھتا ہے مگر وہ مجبور ہے لا چار ہے، سوچتا ہے کہ وہ کیا کر سکتا ہے سواۓ اللہ سے دعا کے. نماز پڑھ کر اللہ سے گڑگڑاکر دعا مانگتا ہے. مگر حالات بہتری کی بجائے خرابی کی طرف گامزن ہیں. وہ سمجھتا ہے کہ اس نے توبہت کوشش کی دعا بھی کی مگر قوم اس قدر بگڑ چکی ہے کہ اللہ کا عذاب اس پرنازل ہو رہا ہے:

اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدلتی(3:11،8:53قرآن )

ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہماری معاشرے کی تنزلی کی اصل وجہ مادہ پرستی اور دین اسلام سےبتدریج دوری ہے.اس کےسدباب کےلیے حکومت اور ارباب اختیار طویل مدتی اقدامات کر سکتے ہیں. مگر آپ اور ہم بھی بہت کچھ کر سکتے ہیں اگر حقیقت میں ہم مخلص ہیں.

مسجد جو مسلمان کی زندگی میں مرکزی کردار کر سکتی ہے. ہم نے اس کو صرف عبادت گاہ تک محدود کر دیا ہے.اسلام میں عبادت کا نظریہ دوسرے مذاہب کے مقابلے میں بہت وسیع ہے. مسجد ایک  ادارے کے طور پر مسلمانوں کی دینی تعلیم و تربیت کے لیے استمال ہوتا رہا اس کردارکو پھر سے زندہ کرنے کی ضرورت ہے.اندازہ ہے کہ ایک مسلمان اپنی زندگی میں 40 یا 50 سال تک مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے جاتا ہو گا. یعنی وہ 2000 سے  2500 مرتبہ تو مسجد ضرور جاتا ہو گا سال میں 50- 52 مرتبہ.

زیادہ بڑے، لمبے چوڑے پلان کی ضرورت نہیں. اگر صرف جمعہ مبارک کو خطبہ سے قبل آدھ گھنٹہ دینی تعلیم و تربیت کے لیے استمعال کر لیا جائے تو بہت مفید نتائج حاصل ہو سکتے ہیں.

تبلیغ و اصلاح ، مسلمانوں کی اجتمائی ذمہ داری ہے. تبلیغی جماعت کے افراد سینکڑوں اور  ہزاروں میل کاسفر کرتے ہیں اس نیک مقصد کے لیے. مگرہم سب کے پاس ایک اچھا موقع موجود ہے. اگرچہ مسلمانوں کی اکثریت نماز سے غافل ہے مگر بہت بڑی تعدادکوشش کرکہ جمعہ کی نماز کے لیے مسجد پہنچ جاتی ہے. مگر افسوس اس قیمتی وقت کا مؤثر استعمال نہ ہونے کی وجہ سے وہ پھر اگلے جمعہ تک مسجد سے غائب ہو جاتے ہیں. کیوں کہ اکثروہاں ان کو خوب جھاڑ پچھاڑ کی جاتی ہے. ان کوبار باربتایا جاتا ہے کہ وہ گنہگار جہنمی ہیں کیوں کہ ان کی اکثریت مسلمان نظرنہیں آتی.ان کی مسجد انےکی حوصلہ افزائی کی بجائےان کو خوف اور ڈراوے سے بھگا دیا جاتا ہے- تمام علماء ایک جیسے نہیں، بہت سے میانہ روی، پیار اور اخلاق سے بھی کام لیتے ہیں-

اکثر موضوع ایسے ہوتے ہیں جن کا موجودہ حالات سے کم تعلق ہوتا ہے-

ھدایت تو اللہ کے اختیار میں ہے، ایک کوشش کرنے میں کوئی حرج نہیں. صرف ایک کام کرنا ہوگا، مولانا صاحب کے ساتھ بیٹھ کر موضوعات کی لسٹ بنا کر ان کی ایک ترتیب سے درجہ بندی کر لی جائے. سال میں پچاس یا باون تک  موضوعات ہو سکتے ہیں. ان موضوعات کی لسٹ کومسجد انتظامی کمیٹی اچھی طرح جانچ پڑتال کرے. موضوعات ایسے ہوں جو آج کے دور کے متعلق ہوں. ایسے متروک موضوع جیسے لونڈیاں، غلام وغیرہ پر زیادہ وقت صرف کرنے کی بجاتے،ایمانیات، اسلام کے بنیادی ستون و ارکان، خاص طور پرتوحید، رسالت، آخرت، جزاؤ سزا، صلاہ (نماز)، اخلاقیات، سچ و جھوٹ، رزق حلال، ایفاءعہد، قومی و بین الاقوامی ذمہ داریاں، جہالت، دینی ودنیاوی حصول علم، عمل صالح، حقوق العباد، حقوق نسواں، اقلیتوں کے حقوق، برداشت، صبر، دین و کلچر، امن و سلامتی، دہشت گردی، انسانی جان کی حرمت، خودکشی، فساد فی الارض، اور بہت سے موضوع.

سب سے زیادہ زورنماز پر ہونا چاہیے، باقی اقدام خود بخودظاہر ہوں گے. کچھ حضرات کو30، 40 سال سے با جماعت نماز ادا کرتےدیکھا پہلی صف میں، مگرابھی کچھ عرصہ قبل ہی انہوں نےسنت رسولﷺ  داڑھی رکھ لی۔ میں ذاتی طور پرکچھ کوجانتا ہوں وہ بہت اچھے کردار کے مثالی مسلمان تھے بغیر داڑھی کے اور اب تو مزید ماشااللہ  داڑھی کے ساتھ. سنت رسول ﷺ کی عظمت اور احترام لازم مگر اس پر عمل درآمد کے لیے پہلا بنیادی قدم نماز… نماز ….نماز…. .

 پاکستان ایک اسلامی جمہوریت ہےموجودہ اسلامی آہین مذہبی سیاسی جماعتوں کی مشاورت اوراتفاق کے بعد ان کے دستخطوں سے نافذ ہوا.اس کے عملی اقدامات پر بحث ہوتی رہتی ہے. یہ کام سیاست دانوں،پارلیمنٹ، اسلامی نظریاتی کونسل وفاقی شرعی عدالت پر چھوڑدیں. متنازعہ موضوعات (topics) جن پرتمام لوگ متفق نہیں ہو سکتے جیسے سیاست و حکومت، فرقہ واریت اور  دہشت گردتنظیموں کی(covert, veiled) خفیہ طریقه سے حمایت سے اجتناب کیا جاے، قوم  پہلے ہی 70,000 سے زیادہ معصوم قیمتی جانوں کی قربانی دےچکی ہے. پاکستان کے دو سو سے زاید علماء، دارلعلوم دیوبند، سعودی اور عالم اسلام کے جید علماء کا متفقہ فتوی ہے آج کل اسلام کے نام پر جاری فساد کے خلاف کہ یہ جہاد نہیں اور یہ کہ جہاد بالسیف صرف حکومت وقت کی ذمہ داری ہےافراد اورگروہوں کی نہیں. خطیب صاحبان کو یہ واضح کرنے سے شرمانے کی ضرورت نہیں.جو  شخص اب بھی دہشت گردی کودل میں جہاد سمجھتا ہے خاموشی سے ان کو سپورٹ کرتا ہے،کھل کر مذمت نہیں کرتا اس سے بڑاجاہل اورمنافق کون ہوگا؟ ایسے لوگ رجوع کریں، اللہ سے معافی مانگیں.

دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری ہے، بہادر فوجی اپنی جانیں قربان کر کہ عوام کی حفاظت کر رہے ہیں، ان کی کامیابی کی کھلے الفاظ میں دعا اور دشت گردوں، غیر ملکی دشمن کے ایجنٹوں کی بربادی کی کھلے الفاظ میں ہدایت کی دعا اور جو اصلاح نہ کریں ان کی بربادی کی بدعا-  گول مول ذومعنی الفاظ صرف دھوکہ ہے- اخبارات اور میڈیا سیاست سے بھرا ہے مسجد کواسلام کی آڑمیں مخصوص سیاسی نظریات کی تشہیر سے دور رکھنا چاہیے-

جب جہاد و قتال حکومت کی ذمہ داری ٹھہری توعلماء رسول اللهﷺ کے فرمان کے مطابق جہاد اکبر، نفس کے خلاف جہاد کی ترویج کریں.

فَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَجَاهِدْهُم بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا

“پس (اے مردِ مومن!) تو کافروں کا کہنا نہ مان اور تو اس (قرآن کی دعوت اور دلائل) کے ذریعے ان کے ساتھ (جِهَادًا كَبِيرًا) بڑا جہاد کر،”(25:52الفرقان)

مسلمانوں پر قرآن کے حقوق:

ہم نے قرآن کو عزت سے گھر میں  بلند جگہ، طاق میں رکھ  دیا ہے-قرآن کے ہم پر حقوق ہیں:

(1) قرآن پر ایمان(2) قرآن کو سمجھے(3) قرآن کو پڑ ہھے(4) قرآن کی تعلیمات پر عمل (5) قرآن کی تعلیمات کو دوسرے لوگوں تک پہنچا ے. مسجد کو اس مقصد کے لیے بھر پور طریقه سے استمال کرنا چاہیے.مسجد میں  قرآن کی تفسیر کی کلاس اچھا قدم ہے مگر بچوں، خواتین اور نوجوانوں کے لیے بھی کچھ سوچنا ہو گا.

موضوعات کی سلیکشن کے بعد ہر موضوع کے اہم نقاط (talking points) لکھ کر “صدرمسجد کمیٹی” سے  (Vet) کروایا جائے تاکہ موضوع سے ہٹ کر ادھر ادھر کی غیر ضروری باتوں میں وقت ضا یع نہ ہو.

اس طریقه میں آہستہ آہستہ ضرورت کے مطابق تبدیلیاں کی جائیں تاکہ مطلوبہ مقاصد حاصل ہو سکیں.نتیجہ نمازیوں کی تعداد میں اضافہ سے ظاہر ہوگا. یہ عام لیول پرمخلصانہ کوشس ہوگی، دین اسلام کی ترویج کے لیے. اس تجریے کو ماڈل کے طور پر ہر جگہ، مساجد میں با آسانی عمل میں لایاجا سکتا ہے. مولانا صاحب کو اعتمادمیں لینا ضروری ہے وہ اس کو اپنے اوپر پابندی نہ سمجھیں بلکہ مدد سمجھیں اور اعلی مقصد کو مد نظر رکھیں. 20 کروڑ ابادی میں اگر ١٠٠٠ پر ایک مسجد ہو تو دو لاکھ مساجد ہوں گی، بڑی مساجد کے علا وہ لاکھ یا ڈیڑھ لاکھ مساجد میں اگر ایسا کیا جائے تو جلد معاشرہ بہتری کی طرف سفر شروع کر لیے گا.  اللہ تعالیٰ اسلام اور مسلمانوں کی بہتری کی کوششوں میں برکت ڈالے انشااللہ.


یکساں’’خطباتِ جمعہ‘‘کی ترویج کا مسٔلہ
چاند کی رویت اور قمری کیلنڈر کے علاوہ،جن دیگر امور میں سعودی عرب کو’’آئیڈیا لائز‘‘(Idealize)کیا جاتا ہے،ان میں ایک اہم مسٔلہ’’یکساں خطباتِ جمعہ‘‘کا بھی ہے ،جنہیں عرفِ عام ’’سرکاری خطبات‘‘بھی سمجھا اور جانا جاتا ہے، جس کو اسلامی نظریاتی کونسل کے حالیہ اجلاس میں ایک مرتبہ پھر زیر غور لاتے ہوئے،بحر کی اِن پُرسکون موجوں کو مضطرب اور مرتعش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔

اس سلسلے میں تقریباً ایک سو مختلف موضوعات کا انتخاب کر کے ، ان پر بہتر ین دینی اور تحقیقی مٹیریل ترتیب دینے کا عزم کیا گیا ہے،اُ مید واثق کہ ماضی کی طرح، ان عنوانات و موضوعات پر مبنی مفصل اور مبسوط کتاب، طباعت و ا شاعت کے بعد، ملک بھر کے آئمہ/خطبأ کو مطالعہ کے لیے پیش ہوگی ، چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل کو غالباً یہ ذمّہ داری صدر مملکت جناب عارف الرحمن علوی کی طرف سے تفویض ہوئی ،

’’سرکاری خطبات‘‘ کی تشکیل جیسی، اس طرح کی ہر کوشش کو دیکھنے اور جانچنے کے حوالہ سے ہمارا عمومی روّیہ اور ردِّ عمل منفی نوعیت کا ہوتا ہے ، لہٰذا ابتدأ ہی میں ہماری سوچ یہ ہوتی ہے کہ جس طرح سعودی عرب سمیت دیگر عرب ریاستوں میں جمعہ کے موقع پر ہر خطیب کو حکومت کی طرف سے سرکاری طور پر ایک تحریری خطبہ موصول ہوتا ،جس کو وہ جمعہ کے موقع پر پڑھنے کا پابند ہوتا ،اور خطیب صاحب،جمعہ کے موقع پر اس تحریری خطبے کے علاوہ کچھ اور کہنے اور بولنے کا مجاز نہیں ہوتے،شاید ایسا ہی کوئی نظام اس خطّے میں بھی مروّج ہونے جارہا ہے ۔

حالانکہ میری دانست کے مطابق، ایسا سرے سے ، کچھ بھی نہیں ۔ بر صغیر کا دینی کلچر اور محراب و منبر، دنیا کے دوسرے خطّوں سے مختلف اور بہت زیادہ خود مختار ہے ۔ [ یہ انگریز کی غلامی کی یادگار ہے ، جس نے مذھب کو پرائیویٹ معامله رکھا ، مگر اب آزاد اسلامی ریاست ہے جسے دین کے معاملات میں اپنا کردار د کرنا ہے ]

عرب ریاستوں کا اپنا شاہانہ کروفر ہے ،جبکہ ہم جمہوری مزاج میں رچے بسے لوگ۔۔۔وہاں کی جملہ مساجد اور مدارس سرکاری تحویل اور کنٹرول میں ہیں،سرکاری اخراجات پر مساجد بنتی اور انُ کا مکمل بجٹ حکومت کی ذمّہ داری ہے ۔سعودی عرب میں “The Ministry of Islamic Affairs, Dawah and Guidance”موجود ہے، اس ادارے کا بنیادی مقصد مذہبی معاملات کی نگرانی اور سرکاری خطبات کا اجراء ہے۔

ترکی میں مذہبی امور کا ڈائریکٹوریٹ ایک ریاستی ادارہ ہے جو کہ 1924میں آرٹیکل 136کے تحت سلطنت عثمانیہ کے اختتام پر قائم کیا گیا ۔ اس ادارے کا بنیادی مقصد اسلامی عقائد ، عبادات، اور اخلاقیات سے متعلق امور کو انجام دینا۔ عوام کو ان کے مذہب کے بارے میں راہنمائی ، اور عبادت گاہوں کا انتظام کرنا ہے۔ یہ ادارہ ملک کی 85,000مساجد اور بیرون ملک 2,000سے زائد مساجد کے لیے ہفتہ وار خطبہ تیار کرتا ہے۔ ترکی کی تمام مساجد کا عملہ سرکاری ملازمت کا حامل ہوتا ہے۔

اسی طرح مصر میں مساجد کی نگرانی کرنے والی وزارت اوقاف نے جمعہ کے خطبہ کا اہتمام جرمن، فرانسیسی ، روسی ، ہسپانوی ، انگریزی ، یونانی ، ترکی اور اردو میں کر رکھا ہے۔

بیشتر اسلامی ممالک میں، پرائیویٹ سیکٹر یا ذاتی و نجی تحویل میں کسی مسجد یا مدرسہ کے قیام کا کوئی تصوّر نہیں۔ [ شاید اسی لیے دہشت گردی وہاں کم ہے ؟]

یوں سرکاری مساجد میں جو سٹاف تعینات ہوگا، یقینا وہ بھی سرکاری ملازم ہوگا اورہر سرکاری ملازم قواعد و ضوابط کا پابند اور ریاستی و حکومتی پالیسی کا ترجمان اور مبلغ ہوگا۔ بر صغیر پاک وہند میںدین اور دینی اداروں کا درباراور سرکار سے زیادہ تعلق نہ رہا،سلاطین و امرأ نے اگر سرکاری خزانے سے کبھی مساجد بنوائی بھی،تو وہ زیادہ دیر تک۔۔۔سرکار کی ترجمانی کا فریضہ سر انجام نہ دے سکیں۔

برصغیر میں دینی علوم کی تحصیل و ترویج اور درس وتدریس میں پرائیویٹ سیکٹر کا غلبہ رہا۔اگرچہ علی گڑھ یونیورسٹی اور دارالعلوم دیوبند نے طلبہ کے باہمی تبادلے کی کوشش کی،مگر معاملہ دیر پا نہ ہوسکا۔ موجودہ صدی کے اوائل میں ریاستی سطح پر پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ آرڈیننس کا اجراء ، پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈکا قیام اور ماڈل دینی مدارس کی تشکیل عمل میں لائی گئی ۔مگر بدقسمتی سے خاطرہ خواہ نتائج میسر نہ آئے اوریوں اس اہم ترین شعبے میں ریاست اور حکومت رسوخ حاصل نہ کرسکی۔

خطباتِ جمعہ کے علمی اور تحقیقی پائے کا معتبر ہونا یقیناً ہر دور کی طرح، اس دور کی بھی اہم ترین ضرورت ہے اور کم وبیش حکومتی اور سرکاری اداروں کے ذمہ داران کے علاوہ دینی قیادت وسیادت بھی اس پر اپنی درد مندی اور دلسوزی کا اظہا ر کرکے، علماء و خطباء کرام کو اپنے خطبات موثر اور معتبر بنانے پر زور دیتے رہتے ہیں۔ اسی تناظر اور تسلسل میں بعض اوقات ریاست کی طرف سے سرکاری خطباتِ جمعہ یا یکساں خطباتِ جمعہ جیسے مختلف امور زیر غور رہتے ہیں،جیسے کچھ عروصہ قبل اسلام آبا د انتظامیہ نے محض وفاقی ایریا کی حد تک ایسی ہی ایک کوشش کی تھی۔ اسی طرح اَسّی کی دہائی میں نفاذِ اسلام کی کوششوں کے نتیجہ میں وفاقی وزارتِ مذہبی امور اسلام آباد نے خطبات ِ جمعہ کے ٹائیٹل کے ساتھ پورے سال، جمعہ اور عیدین کے لیے بَاوَن خطبات ترتیب دے کر اس کتاب کو اعزازی طور پر عام کیا ،332صفحات پر مشتمل اِن ضخیم خطبات کے موضوعات یقیناً اتحاد واتفاق ،اَمن ورواداری ،انسا ن دوستی ،اخوت ومساوات جیسے جذبوں کے امین تھے ، اسی طرح مابعد بھی ایسی ہی ایک کاوش کے نتیجہ میں 370صفحات پر مشتمل کتاب’’خطبات‘‘کے نام سے ترتیب پائی ، ان حکومتی کاوشوں کے ابتدائیہ میں یہ بات بطورِ خاص تحریر کی گئی کہ ان خطبات کو طبع کرنے کا مقصد علماء وخطباء کو کسی خاص کتاب ، مواد یا موضوع کا پابند بنانا نہیں بلکہ اس کا مقصد جدید عصری موضوعات کے حوالے سے ان کو مطالعاتی مواد فراہم کرنا ہے۔

گویا مساجد کے اندریکساں خطباتِ جمعہ یا معیاری خطبات کی ترویج ہر دور میں کسی نہ کسی طرح زیر غور رہی ، تاہم اس خطہ کی معلوم تاریخ کے مطابق یہاںپر یہ تجربہ کلیتاً کامیاب نہ ہوسکا۔ علمی اور فکری اعتبار سے یہ کوئی ایسا غیر مستحسن عمل بھی نہ ہے ، تاہم مساجد اورمحراب ومنبر اس نوعیت کے سرکاری کاوش کو اپنے کارِ خاص میں مداخلت اور دینی شعائر اور روایات کے منافی خیال کرتے ہیں ،جس سے بہت سے مسائل پیدا ہونے کا احتمال موجود رہتا ہے ۔ علامہ اقبال کے فرزند ڈاکٹر جاوید اقبال نے بھی اپنے اپنی خود نوشت’’اپنا گریباں چاک‘‘میں جو معروضات اپنے والدِ گرامی کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے چند سوال اُٹھائے تھے وہ ہمارے موضوع سے یقیناً قریب تر ہیں ۔وہ لکھتے ہیں :’’اس ضمن میں آپ اس تجویز کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ ریاست کے مختلف شعبوں سے دینیات کا شعبہ الگ کردیا جائے۔ اس شعبہ کا کام مساجد اور مدرسوں کو کنڑول کرنا ہو، مدرسوں کے لیے جدید نصاب کا تعین کرنا اورانہیں یونیورسٹیوں سے منسلک کرناہو۔ اسی طرح صرف حکومت کے سند یافتہ آئمہ مساجد کا تقرر اس شعبہ کی ذمہ داری ہو۔ جب ترکی میں اس طرز کی اصلاحات نافذکی گئیں تو آپ نے بڑے جوش وخروش سے ان کا خیر مقدم کیا اور فرمایا تھا کہ اگر مجھے ایسا اختیار حاصل ہو تو میں فوراً یہ اصلاح مسلم انڈیا میں نافذ کردوں‘‘۔

ڈاکٹر طاہر رضا بخاری -٩٢ نیوز  جمعه 04 جون 2021ء

: Reference/link

 

https://wp.me/p9pwXk-1cR

: جمعہ کی فضیلت http://salaamone.com/juma-mubarak/

ttp://urdu/magazine/new/tmp/04_Juma%20ke%20Fazael_MDU_8&9_Aug-Sep_11.htm