احکام القرآن

جو میری ہدایت پر عمل کرے گا وہ نہ گمراہ، نہ بدبخت ہوگا (اقرآن20:123)

Whosoever will follow My guidance will neither go astray nor get into trouble” [Quran 20:123]

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

اللہ کی کتاب میں ہدایت اور نور ہے، جو اسے پکڑے گا وہ ہدایت پر رہے گا اور جو اسے چھوڑ دے گا وہ گمراہ ہوجائے گا۔”(صحیح مسلم : 6227)  حقوق قرآن:

ایمان، تلاوت، تفکر، عمل اور تبلیغ ز مَن بر صُوفی و مُلاّ سلامے: کہ پیغامِ خُدا گُفتَند ما را ولے تاویلِ شاں در حیرت اَنداخت: خُدا و جبرئیلؑ و مصطفیؐ را میری جانب سے صُوفی ومُلاّ کو سلام پہنچے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے احکامات ہم تک پہنچائے، لیکن انہوں نے اُن احکامات کی جو تاویلیں کیں،اُس نے اللہ تعالیٰ، جبرائیل ؑاور محمد مصطفیﷺ کو بھی حیران کر دیا۔ (علامہ محمد اقبال) قران کے سادہ، آسان، عام فہم، پیغام کو مسخ کردیا

 میں نے تم کو ایک ایسے صاف اور روشن راستہ پر چھوڑا ہے جس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے، اس راستہ سے میرے بعد صرف ہلاک ہونے والا ہی انحراف کرے گا (ماجہ 43)

Quran Sites / Links

English: 

Urdu اردو :

  1. قرآن مضامین : https://QuranSubjects.blogspot.com
  2. رساله تجديد الاسلام  : https://Quran1book.blogspot.com

English & Urdu اردو  Mixed: https://SalaamOne.com

Facebook:

Twitter: Ahkam Al Quran احکام القرآن : https://twitter.com/QoranGuides

   Digital Book (Over 520 Pages A-5) احکام القرآن  https://bit.ly/AhkamAlQuran-pdf

حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قرآن سیکھو اور پھر اسے پڑھو اور یہ یاد رکھو کہ اس شخص کی مثال جو قرآن سیکھتا ہے پھر اسے ہمیشہ پڑھتا رہتا ہے اس پر عمل کرتا ہے اور اس میں مشغولیت یعنی تلاوت وغیرہ کے شب بیداری کرتا ہے اس تھیلی کی سی ہے جو مشک سے بھری ہو جس کی خوشبو تمام مکان میں پھیلتی ہے اور اس شخص کی مثال جس نے قرآن سیکھا اور سو رہا یعنی وہ قرآن کی تلاوت قرأت شب بیدار سے غافل رہا یا اس پر عمل نہ کیا اس تھیلی کی سی ہے جسے مشک پر باندھ دیا گیا ہو۔ (ترمذی، نسائی، ابن ماجہ)   (مشکوٰۃ المصابیح: حدیث نمبر: 2152) 

حضرت علی مرتضی ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے ایک دن فرمایا:

 “آگاہ ہو جاؤ ایک بڑا فتنہ آنے والا ہے۔” 

میں نے عرض کیا:

“یا رسول اللہ! اس فتنہ کے سر سے بچنے اور نجات پانے کا ذریعہ کیا ہے؟

” آپ ﷺ نے فرمایا:

1۔ “کتاب اللہ، اس میں تم سے پہلے امتوں کے (سبق آموز) واقعات ہیں اور تمہارے بعد کی اس میں اطلاعات ہیں، (یعنی اعمال و اخلاق کے جو دنیوی و اخروی نتائج و ثمرات مستقبل میں سامنے آنے والے ہیں، قرآن مجید میں ان سب سے بھی آگاہی دے دی گئی ہے) 

2۔ اور تمہارے درمیان جو مسائل پیدا ہوں قرآن میں ان کا حکم اور فیصلہ موجود ہے (حق و باطل اور صحیح و غلط کے بارے میں)*

3۔ وہ قول فیصل ہے، وہ فضول بات اوریا وہ گوئی نہیں ہے۔ 

4۔جو کوئی جابر و سرکش اس کو چھوڑے گا (یعنی غرور و سرکشی کی راہ سے قرآن سے منہ موڑے گا) اللہ تعالیٰ اس کو توڑ کے رکھ دے گا

اور جو کوئی ہدایت کو قرآن کے بغیر تلاش کرے گا اس کے حصہ میں اللہ کی طرف سے صرف گمراہی آئے گی (یعنی وہ ہدایتِ حق سے محروم رہے گا) 

6۔قرآن ہی حبل اللہ المتین یعنی اللہ سے تعلق کا مضبوط وسیلہ ہے، اور محکم نصیحت نامہ ہے، اور وہی صراطِ مستقیم ہے۔

7۔ وہی وہ حق مبین ہے جس کے اتباع سے خیالات کجی سے محفوظ رہتے ہیں اور زبانیں اس کو گڑ بڑ نہیں کر سکتیں (یعنی جس طرح اگلی کتابوں میں زبانوں کی راہ سے تحریف داخل ہو گئی اور محرفین نے کچھ کا کچھ پڑھ کے اس کو محرف کر دیا اس طرح قرآن مین کوئی تحریف نہیں ہو سکے گی، اللہ تعالیی نے تا قیامت اس کے محفوظ رہنے کا انتظام فرما دیا ہے)

 8۔ اور علم والے بھی اس کے علم سے سیر نہیں ہوں گے (یعنی قرآن میں تدبر کا عمل اور اس کے حقائق و معارف کی تلاش کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا اور کبھی ایسا وقت نہیں آئے گا کہ قرآن کا علم حاصل کرنے والے محسوس کریں کہ ہم نے علم قرآن پر پورا عبور حاصل کر لیا اور اب ہمارے حاصل کرنے کے لئے کچھ باقی نہیں رہا، بلکہ قرآن کے طالبین علم کا حال ہمیشہ یہ رہے گا کہ وہ علم قرآن میں جتنے آگے بڑھتے رہین گے اتنی ہی ان کی طلب ترقی کرتی رہے گی اور ان کا احساس یہ ہو گا کہ جو کچھ ہم نے حاصل کیا ہے وہ اس کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں ہے جو ابھی ہم کو حاصل نہیں ہوا ہے)

9۔ اور وہ قرآن کثرت مزاولت سے کبھی پرانا نہیں ہو گا (یعنی جس طرح دنیا کی دوسری کتابوں کا حال ہے کہ بار بار پڑھنے کے بعد ان کے پڑھنے میں آدمی کو لطف نہیں آتا، قرآن مجید کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے وہ جتنا پڑھا جائے گا اور جتنا اس میں تفکر و تدبر کیا جائے گا اتنا ہی اس کے لطف و لذت میں اضافہ ہو گا)

10۔ اور اس کے عجائب (یعنی اس کے دقیق و لطیف حقائق و معارف) کبھی ختم نہیں ہوں گے۔ 

11۔قرآن کی یہ شان ہے کہ جب جنوں نے اس کو سنا تو بےاختیار بول اٹھے۔

إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا يَهْدِي إِلَى الرُّشْدِ فَآمَنَّا بِهِ (الجن، 1،2:72)

ہم نے قرآن سنا جو عجیب ہے، رہنمائی کرتا ہے بھلائی کی، پس ہم اس پر ایمان لے آئے۔

12، جس نے قرآن کے موافق بات کہی اس نے سچی بات کہی،*

13۔ اور جس نے قرآن پر عمل کیا وہ مستحقِ اجر و ثواب ہوا*

14۔ اور جس نے قرآن کے موافق فیصلہ کیا اس نے عدل و انصاف کیا*

15۔اور جس نے قرآن کی طرف دعوت دی اس کو صراطِ مستقیم کی ہدایت نصیب ہو گئی۔*

(ترجمہ : جامع ترمذی، سنن دارمی) (معارف الحدیث، حدیث نمبر: 1084)

—————

الله تعالی نے اسلام کے بنیادی عقائد ایمان ، عبادات او احکام کو قرآن میں واضح آیات محکمات کے ذریعہ سے بیان فرما دیا تاکہ کوئی شک و شبہ نہ رہ جایے،  رسول اللہ ﷺ  ںے قرآن پر عمل پیرا ہو کر اپنی سنت سے عملی نمونہ پیش کیا جو نسل در نسل تواتر سے منتقل ہوتا آرہا ہے تاکہ کسی دوسرے انسان کی تاویل کی ضرورت نہ پڑے-  تین بنیادی علوم میں قرآن کی آیت محکمہ ,سنت ثابتہ اور فریضہ عادلہ باقی زائد ہیں-رسول اللہ ﷺ نے احادیث کے سماع، حفظ و بیان کو پسند فرمایا اوراحادیث  کی پہچان کے اصول بھی واضح کر دیئے- اس طرح سے اختلافات ، فرقہ واریت اور گمراہی کا راستہ بند کردیا تاکہ سب مومنین صراط مستقیم پر چل سکیں،

“صراط مستقیم” راستہ ہے اور راستہ چوڑا ہوتا ہے “خط مستقیم” ایک سیدھی لکیر، یا لائن ہوتی ہے- بہت سارے متوازی خطوط مستقیم (لین) مل کر سیدھا راستہ بناتے ہیں لیکن تمام خطوط متوازی ہوتے ہیں- اگر لاہور- اسلام آباد موٹر وے کی مثال لیں تو تین لین متوازی ہیں، جس لین پر بھی سفر کریں وہ اسلام آباد ہے جاتی ہے- لیکن اگر ایسی لین پر چلیں جوکہیں خروج (exit) کرتی ہے تو پھر کسی اور طرف پہنچیں گے نہ کہ اسلام آباد-  اگر کوئی شخص یا افراد صرف اپنی لین  کی درستی پر اصرار کرتا ہے اور دوسری اسی سمت میں متوازی لینزکوغلط سمجھتا ہے اور جھگڑتا ہے ان کو زبرسستی اپنی پسندیدہ لین میں شامل کرنے پر اصرار کرتا ہے  تو وہ فتنہ و فساد و تفرقہ پیدا کرتا ہے-  

قرآن کے واضح احکامات اور  رسول اللہ ﷺ کی سنت کو چھوڑ کر جو لوگ تاویلات سےنئے نئے غیر متوازی خطوط، لین ایجاد کرتے ہیں وہ صراط مستقیم سے ہٹ کر، نافرمانی اور گمراہی کے راستہ پر بھٹک جاتے ہیں-  

“صراط مستقیم” قرآن اور سنت  رسول اللہ ﷺ کا راستہ ہے- “احکام  القرآن”، صراط مستقیم پر قائم رہنے  کی ایک کوشش ہے – یہ بہت اہم کا م ہے جو بتدریج احتیاط سے کیا جا رہا ہے تاکہ حتی المقدور کوئی اہم حکم شامل ہونے سے راہ نہ جایۓ اس لئے یہ ایک ڈرافٹ مسودہ ہے جس پر کام تسلسل سے جاری ہے- یاد رہے کہ قرآن 23 سال میں  نازل ہوا اور اس کو سمجھنے میں لوگوں نے عمریں گزاردیں پھر بھی وہ اس کے  نورکی چند کرنیں ہی پا سکے!

*************

☆☆☆ 🌹🌹🌹📖🕋🕌🌹🌹🌹☆☆☆
رساله تجديد الاسلام
وَمَا عَلَيۡنَاۤ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِيۡنُ (القرآن  36:17)
اور ہمارے ذمہ صرف واضح پیغام پہنچا دینا ہے
   Our mission is only to convey the message clearly