Bida-1 تحقیقی جائزہ بدعة ،بدعت, بدا

اسلام دین کامل میں نئی نئی چیزیں شامل کرنا بدعة کہلاتا ہے جو کہ ممنوع ہے- اسلام ایک وسیع دین ہے. بنی نوع انسان کی ترقی کے ساتھ مختلف شعبہ جات زندگی میں بھی تبدیلی ناگزیر ہے- اس لیے بدعة کی ممانعت کا اطلاق دین کے کس حصہ پر ہوتا ہے اس کی قرآن و سنت کی روشنی میں تعریف (define) کرنا ضروری ہے-’بدعت‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جو ’’بَدَعَ‘‘ سے مشتق ہے۔ اس کا معنی ہے : کسی سابقہ مادہ، اَصل، مثال، نمونہ یا وجود کے بغیر کوئی نئی چیز ایجاد کرنا؛ یعنی کسی شے کو عدمِ محض سے وجود میں لانے کو عربی زبان میں ’’اِبداع‘‘ کہتے ہیں۔……..

Bida

تحریر : بریگیڈیئر آفتاب احمد خان (ر) https://SalaamOne.com/Bida البدعة الكبيرة Big Bid’ah Copy for Mobiles (SizeA5): https://salaamone.com/wp-content/uploads/2023/09/DawahUr-4-Mobile.pdf Urdu: https://SalaamOne.com/wp-content/uploads/2023/09/DawahUr.pdf English: https://SalaamOne.com/revival-tejdeed/ || https://SalaamOne.com/wp-content/uploads/2023/09/Revival-Tejdeed.pdf 290923 0140 بیس سال قرآن کے مطالعہ و تحقیق، اور اہل علم لوگوں سے کئی کئی دن پر محیط طویل ڈسکشنز، تبادلہ خیالات، ای ایکسچینجز کے بعد

Click to access Bida.pdf

Mawlid (مَولِد النَّبِي‎‎ mawlidu n-nabiyyi, “Birth of the Prophet”) is the observance of the birthday of the Islamic prophet Muhammad which is celebrated often on the 12th day of Rabi’ al-awwal, the third month in the Islamic calendar.The 12th Day of Rabi’ al-awwall is the most popular date from a list of many dates that are reported as the birth date. The origin of Mawlid observance reportedly dates back to the early period of Islam. The Ottomans declared it an official holiday in 1588. The term Mawlid is also used in some parts of the world, such as Egypt, as a generic term for the birthday celebrations of other historical religious figures such as Sufi saints. Most denominations of Islam approve of the commemoration of Muhammad’s birthday; however, some denominations including Wahhabism/Salafism, Deobandism and the Ahmadiyya disapprove its commemoration, considering it an unnecessary religious innovation (bid’ah or bidat). Mawlid is recognized as a national holiday in most of the Muslim-majority countries of the world except Saudi Arabia and Qatar which are officially Wahhabi/Salafi. Keep reading >>>

کسی شے کے عدم سے وجود میں آنے کو بدعت کہتے ہیں۔ اس طرح بدعت کرنے والے فاعل کو مبتدع یا بدعتی اور عربی میں “بَدِيع” کہا جاتا ہے۔ لغوی اصطلاح میں بدعت کسی مفعول کے عدم سے وجود میں آنے اور مبتدع اُسے وجود میں لانے والے فاعل کیلئے استعمال ہوتا ہے، جیسا کہ قرآنِ مجید میں اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا
بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ (قرآن ٢:١١٧)
ترجمہ: (وہی اللہ) موجد (نیا پیدا کرنے والا) ہے آسمانوں اور زمین کا

اس آیتِ میں اللہ نے آسمانوں اور زمین کے وجود میں آنے کا بیان کرتے ہوئے اپنی ذات کو آسمانوں اور زمین کا بدیع یعنی مبدع (وجود میں لانے والا) کہا۔ اسی وجہ سے اللہ کا ایک صفاتی نام “البَدِيع” یعنی مبتدع(وجود میں لانے والا) بھی ہے۔ یہ الیک مثبت خوبصورت، احسن نام ہے اس کا منفی معنی میں استمال نامناسب ہوگا-

شرعی اصطلاح میں بدعت کا حکم ہر اُس فعل یا مفعول کیلئے استعمال ہوتا ہے جسکا وجود قرآن و سنت کی نص سے ثابت نہ ہو اور وہ مابعد قرآن و سنت ظاہر ہو۔ (مزید تفصیلات بعد میں)- پہلے یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ قرآن کیا کہتا ہے:الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ

آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے(قرآن 5:3)

دین کو مکمل کر دینے سے مُراد، اس کو ایک مستقل نظامِ فکر و عمل اور ایک ایسا مکمل نظامِ تہذیب و تمدّن بنا دینا ہے جس میں زندگی کے جُملہ مسائل کا جواباُصُولاً یا تفصیلاً موجود ہو اور ہدایت و رہنمائی حاصل کرنے کے لیے کسی حال میں اس سے باہر جانے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ (تفہیم القرآن)

Concept of Bidah in Islam, Read in << English >>

بدعت اور نیت

وَ رَہۡبَانِیَّۃَۨ ابۡتَدَعُوۡہَا مَا کَتَبۡنٰہَا عَلَیۡہِمۡ اِلَّا ابۡتِغَآءَ رِضۡوَانِ اللّٰہِ فَمَا رَعَوۡہَا حَقَّ رِعَایَتِہَا ۚ فَاٰتَیۡنَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡہُمۡ اَجۡرَہُمۡ ۚ وَ کَثِیۡرٌ مِّنۡہُمۡ فٰسِقُوۡنَ ( الحدید 57:27)

تراجم:

#1 اور رہبانیت (یعنی عبادتِ الٰہی کے لئے ترکِ دنیا اور لذّتوں سے کنارہ کشی) کی بدعت انہوں  (نصرانیوں ، مسیحی ) نے خود ایجاد کر لی تھی، اسے ہم نے اُن پر فرض نہیں کیا تھا، مگر (انہوں نے رہبانیت کی یہ بدعت) محض اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے (شروع کی تھی) پھر اس کی عملی نگہداشت کا جو حق تھا وہ اس کی ویسی نگہداشت نہ کرسکے (یعنی اسے اسی جذبہ اور پابندی سے جاری نہ رکھ سکی)، سو ہم نے اُن لوگوں کو جو ان میں سے ایمان لائے (اور بدعتِ رہبانیت کو رضائے الٰہی کے لئے جاری رکھے ہوئے) تھے، اُن کا اجر و ثواب عطا کر دیا اور ان میں سے اکثر لوگ (جو اس کے تارک ہوگئے اور بدل گئے) بہت نافرمان ہیں، ( الحدید 57:27)

#2 “اور رہبانیت انہوں نے خود ایجاد کرلی، ہم نے اُسے اُن پر فرض نہیں کیا تھا، مگر اللہ کی خوشنودی کی طلب میں انہوں نے آپ ہی یہ بدعت نکالی اور پھر اس کی پابندی کرنے کا جو حق تھا اسے ادا نہ کیا اُن میں سے جو لوگ ایمان لائے ہوئے تھے اُن کا اجر ہم نے ان کو عطا کیا، مگر ان میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں” ( الحدید 57:27)

#3 اور راہب بننا  تو یہ بات انہوں نے دین میں اپنی طرف سے نکالی ہم نے ان پر مقرر نہ کی تھی ہاں یہ بدعت انہوں نے ا لله کی رضا چاہنے کو پیدا کی پھر اسے نہ نباہا جیسا اس کے نباہنے کا حق تھا تو ان کے ایمان والوں کو ہم نے ان کا ثواب عطا کیا، اور ان میں سے بہتیرے  فاسق ہیں، ( الحدید57:27)

تفسیر ابن کثیر

پھر نصرانیوں کی ایک بدعت کا ذکر ہے جو ان کی شریعت میں تو نہ تھی لیکن انہوں نے خود اپنی طرف سے اسے ایجاد لی تھی، اس کے بعد کے جملے کے دو مطلب بیان کئے گئے ہیں ایک تو یہ ان کا مقصد نیک تھا کہ اللہ کی رضا جوئی کے لئے یہ طریقہ نکالا تھا۔ حضرت سعید بن جبیر حضرت قتادہ وغیرہ کا یہی قول ہے ۔ دوسرا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ ہم نے ان پر اسے واجب نہ کیا تھا ہاں ہم نے ان پر صرف اللہ کی رضا جوئی واجب کی تھی۔ پھر فرماتا ہے یہ اسے بھی نبھا نہ سکے جیسا چاہیے تھا ویسا اس پر بھی نہ جمے، پس دوہری خرابی آئی ایک اپنی طرف سے ایک نئی بات دین اللہ میں ایجاد کرنے کی دوسرے اس پر بھی قائم نہ رہیں کی، یعنی جسے وہ خود قرب اللہ کا ذریعہ اپنے ذہن سے سمجھ بیٹھے تھے بالآخر اس پر بھی پورے نہ اترے…. (ابن کثیر)

تفسیر کنزالایمان

اس آیت سے معلوم ہوا کہ بدعت یعنی دین میں کسی بات کا نکالنا اگر وہ بات نیک ہو اور اس سے رضائے الٰہی مقصود ہو تو بہتر ہے ، اس پر ثواب ملتا ہے ، اور اس کو جاری رکھنا چاہئے ایسی بدعت کو “بدعت حسنہ” کہتے ہیں البتہ دین میں بری بات نکالنا “بدعتِ سیّئہ” کہلاتا ہے ، وہ ممنوع اور ناجائز ہے اور “بدعتِ سیّئہ” حدیث شریف میں وہ بتائی گئی ہے جو خلاف سنّت ہو اس کے نکالنے سے کوئی سنّت اٹھ جائے اس سے ہزار ہا مسائل کا فیصلہ ہوجاتا ہے جن میں آج کل لوگ اختلاف کرتے ہیں اور اپنی ہوائے نفسانی سے ایسے امور خیر کو بدعت بتا کر منع کرتے ہیں جن سے دین کی تقویّت و تائید ہوتی ہے اور مسلمانوں کو اخروی فوائد پہنچتے ہیں اور وہ طاعات و عبادات میں ذوق و شوق کے ساتھ مشغول رہتے ہیں ایسے امور کو بدعت بتانا قرآن مجید کی اس آیت کے صریح خلاف ہے ۔ (کنزالایمان)

تفسیر ضیا القران ماِخوز

اس جملہ کے ترجمہ میں علماء کے دو قول ہیں:

(1) اور ہبانیت کو انہوں نے خود ایجاد کرلیا تھا، ہم نے اسے ان پر فرض نہیں کیا تھا۔ البتہ انہوں نے رضائے الٰہی کے حصول کے لیے اختیار کیا تھا۔ ” اس صورت میں الا کا تعلق ابتدعوھا کے ساتھ ہو رہا ہے ۔
(2) اور رہبانیت کو انہوں نے خود ایجاد کیا ۔ ہم نے ان پر فرض نہیں کیا تھا۔ مگر یہ کہ وہ ہماری رضا کے طلب گار بنیں”۔ اس صورت میں مستثنی متصل ہوگی اور پہلی صورت میں مستثنی منقطع ہوگی۔۔۔۔۔

تفسیر بیان القران

یعنی جس غرض سے اس (رہبانیت) کو اختیار کیا تھا اور وہ غرض طلب رضا حق تھی اس کا اہتمام نہیں کیا، یعنی احکام کی بجا آوری نہ کی ، گو صورة رہبان رہے ، اور بعضے بجا آوری احکام میں سرگرم رہے ۔

Bidda,  Innovation

وَ رَہۡبَانِیَّۃَۨ ابۡتَدَعُوۡہَا مَا کَتَبۡنٰہَا عَلَیۡہِمۡ اِلَّا ابۡتِغَآءَ رِضۡوَانِ اللّٰہِ فَمَا رَعَوۡہَا حَقَّ رِعَایَتِہَا ۚ فَاٰتَیۡنَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡہُمۡ اَجۡرَہُمۡ ۚ وَ کَثِیۡرٌ مِّنۡہُمۡ فٰسِقُوۡنَ ( الحدید 57:27)

“..and monasticism, which they innovated; We did not prescribe it for them except [that they did so] seeking the approval of Allah. But they did not observe it with due observance. So We gave the ones who believed among them their reward, but many of them are defiantly disobedient. (Quran:57:27)

Translation 2

“… and monasticism, which they innovated; We did not prescribe it for them except [that they did so] seeking the approval of Allah. But they did not observe it with due observance. So We gave the ones who believed among them their reward, but many of them are defiantly disobedient.” (Quran:57:27)

Tafseer Jilalayan

But [as for] monasticism, namely, abstention from women and seclusion in monasteries, they invented it, [an innovation] on their part — We had not prescribed it for them, We did not enjoin them to it; but they took it on — only seeking God’s beatitude. Yet they did not observe it with due observance, for many of them abandoned it and rejected the religion of Jesus and embraced the religion of their [then] king. However, many of them did remain upon the religion of Jesus and they believed in our Prophet [when he came]. So We gave those of them who believed, in him, their reward; but many of them are immoral. (Tafseer Jilalayan)

<<کتابت حدیث>>

اسلام کیا ہے؟  دین کیا ہے؟

 اگرہم پر یہ واضح ہوجایے تو موضوع سمجھنے میں آسانی ہو گی.
لفظ اسلام لغوی اعتبار سے ‘سلم’ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی اطاعت اور امن ، دونوں کے ہوتے ہیں۔یعنی اللہ کی مکمل اطاعت سے امن و سلامتی میں داخل ہونا- یہی تمام انبیاء کا مذھب تھا- اسلام میں ایمان کے چھ ارکان ہیں:-

  1. اللہ پرایمان
  2. الغیب ، فرشتوں پرایمان
  3. الہامی کتب پرایمان
  4. رسولوں پرایمان
  5. یوم آخرت پرایمان
  6. تقدیر پرایمان

اسلام کے پانچ بنیادی ستون؛ شہادت (گواہی) نماز (صلاة) روزہ، زکات  اور حج اب تبدیل نہیں ہو سکتے-

عربی میں دین کے معنی، اطاعت اور جزا کے ہیں۔

قرآن کریم میں دین، مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے ۔ کبھی جزا اور حساب کے معنی میں تو کبھی قانون و شریعت اور کبھی اطاعت اور بندگی کے معنی میں۔

دین مکمل ہو گیا، ایمان اور اسلام کی بنیاد مکمل ہے اب ان میں  کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی-

 بنی نوع انسان کے لینے تا قیامت جتنی ہدایت کی ضرورت تھی وہ اللہ نے قران اور رسولﷺ کے زریعے مہیا کر دی، انسان کوئی روبوٹ یا مشین نہیں، اللہ تعالیٰ نے اس کو عقل سے  بھی نوازا ہے- دی گیئ ہدایت اور اصولوں کی روشنی میں عقل کو استمال کر کہ وہ ہر طرح کے دینی و دنیاوی مسائل کا حل معلوم کر سکتا ہے-  یہی اس کا امتحان ہے ورنہ اللہ چاہتا تو سب کو ایک ہی دین پر ایک امت بنا دیتا پھر امتحان اور سزا و جزاء کا کیا مقصد؟  اسی لیے اللہ کریم نے لوگوں کو نزول وہی کے دوران فضول سوالات اور  زیادہ تفصیلات پوچھنے کی بجایے ان سے منع فرما دیا(قران ٤٨,5:١٠١،١٠٢) اور بار بار ایمان اور عمل صالح کی تاکید ہے.(قرآن ٦٧:٢)

نجات کے لیے ایمان، عمل صالح، حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین  بنیادی شرط ہیں:

وَالْعَصْرِ ﴿١﴾ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ ﴿٢﴾ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ﴿٣﴾

زمانے کی قسم (1) انسان درحقیقت بڑے خسارے میں ہے (2) سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے، اور نیک اعمال کرتے رہے، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے (العصر 3)
ایمان کے چھ بنیادی ارکان کا اوپرذکر کیا گیا – ایک حدیث میں ہے کہ جبرائیل فرشتہ نے  حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جواب دیا:تم اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، روز قیامت پر اور اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لاؤ (صحیح مسلم)۔ نیز مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانا جیسا کہ ایمان مفصل میں ہے آمنت باللہ وملائکتہ وکتبہ ورسلہ والیوم الاآخر والقدر خیر وشرہ من اللہ اللہ تعالیٰ والبعث بعد الموت۔

دینی اور دنیاوی معاملات اور رہنما اصول بھی قرآن و سنت سے واضح کر دیے گنے مگر کیونکہ اسلام تمام انسانیت کے لیے قیامت تک آخری دین ہے اس لیے حالات اورتبدیلی وقت کے ساتھ ساتھ نئی ضروریات کے لیے رہنمائی کے لیے اجتہاد کا طریقه تا قیامت موجود ہے-
علماء نے اسلامی تعلیمات کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے:

عقائد، علم اخلاق ، فقہ- عقائد تو مکمل ہو گیے باقی دو کو قرآن اور سنت کے  رہنما اصولوں کے مطابق نافذ عمل کیا جاتا ہے- 


 اگرچہ اسلام تمام دینی اور دنیاوی معا ملات میں رہنمائی مہیا کرتا ہے مگر مختلف معاشرتی، تہذیبی اور دنیاوی معاملات میں موقع اور حالات کے مطابق قرآن و سنت کے رہنما اصولوں کی روشنی میں علماء ہدایات حاصل کر سکتے ہیں- بہت سے دنیاوی معاملات جن کا لوکل کلچر، ثقافت، تہوا، رواج، رسمیں اور سا ینس کی ایجادات، استعمال کی اشیا سے سے ہے ان کو خواہ مخواہ مذھب سے جوڑنے اور حلال حرام کے فتوے دینے سے اجتناب اور احتیاط کی ضرورت ہے- مگر ایسے رسم و رواج، تہوار اور ثقافتی اقدار جو اسلام  مخالف مشرکانہ اور کافرانہ ورثہ ہو اس کو مکمل طور پر رد کرنا ہو گا- 

ایران، ترکی اور وسطی ایشیا کی ریاستوں میں “نو روز” کا تہوار، انڈیا میں بیساکھی، بسنت وغیرہ بہار اور موسم کی تبدیلی کے ساتھ منائے جاتے ہیں ،ایسے تہواروں کے ساتھ کوئی  مشرکانہ، غیر اسلامی رسوم ہیں تو قابل اعتراض ہے- اس طرح شادی بیاہ ، پیدائش اور وفات پر اسلامی طرز عمل ہی درست ہے- مگر بہت سی خرافات ابھی باقی ہیں جن کو اسلامی رنگ دینے کی کوشش کی جاتی ہے- مقامی ثقافت اورعرب ثقافت میں فرق رکھتے ہوۓ اسلامی اقدار پر توجہ کی ضرورت ہے- مشینی انداز میں ہرعرب رواج کو اسلا می قرار دے کر مقامی ثقافت پر بلا جواز تنقید نا مناسب ہو گی- 

سو سال قبل جب لا وڈ سپیکر بنا تو حرام قرار پایا پھر حلال- کوئی ایجاد درست یا غلط استمال ہو سکتی ہے،غلط استمال ممنوع ہو نہ کہ ایجادات- 

اسلامی کلچر پر عرب کلچر کی  چھاپ ہے کیوں کہ رسول اللہﷺ عرب تھے اور ان کے فوری، براہ راست، پہلے مخاطب عرب لوگ تھے- مگر مسلمان ایک امت ہوتے ہوے بھی اپنے علاقائی کلچر اور روایت کو اسلامی اخلاقی اصولوں کے دائرے کے اندر رہ کر زندگی گزار سکتے ہیں- زبان، لباس، خوراک وغیرہ ہر علاقه کی مختف ہے مگر سب مسلمان صرف حلال جانوروں کا گوشت کھاتے ہیں، پکوان مختف ہیں- اسی طرح دوسرے کلچرل، سوشل معاملات- مگر نماز اور عبادات ایک ہیں- 

بالکل درست ہے کہ اسلام مکمل دین ہے. انسانی زندگی کے بیشمار شعبے ہیں، انجینرنگ، میڈیکل، دفاع، سوشل سائنسز، بزنس، فزکس، کیمسٹری، وغیرہ وغیرہ. ہر شعبے کے ماہرین ہیں جو سالہا سال مخصوص تعلیم و تجربہ کے بعد ایکسپرٹ بنتے ہیں. کوئی مذہبی عالم صرف مذہبی تعلیم  کی وجہ سے خود بخود ان شعبوں میں ایکسپرٹ نہیں ہو جاتا.

دنیاوی علوم دینی علوم الگ ہیں. ہاں اگرکوئی دینی عالم میڈیکل کی تعلیم بھی حاصل کرلے تو سرجن بن کر آپریشن کر سکتا ہے. علماء تمام لوگوں کی دینی رہنمائی کرکے ان کو اچھا مسلمان بننے میں مدد کریں نہ کہ خود ہی ہر معاملہ میں دین کے نام سے دخل اندازی کو اپنا حق سمجھیں.

اسلام  وسیع ہے، اسلام مسلمان کی زندگی میں ہے سیاست میں بھی. ایک اچھا مسلمان ,اچھا سیاست دان, اچھا ڈاکٹر، اچھا انجنیئر ہو گا تو سارا معاشرہ اچھا ہو جائے گا. رسول اللهﷺ  نے جب مدینه میں زراعت پر مشورہ دیا، پھر جب کھجور کی فصل میں کمی ہو گیی  تو فرمایا کہ ایسے “دنیاوی معاملات” میں اپنے مروجہ طریقه پر چلو (حدیث مسلم، اوپر بیان) . اس وقع میں  اہل عقل کے لئے واضح سبق ہے-

اسلام میں نرمی ہے، آسانی ہے، سختی نہیں: 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِن تَسْأَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللَّـهُ عَنْهَا ۗ وَاللَّـهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ ﴿١٠١﴾ قَدْ سَأَلَهَا قَوْمٌ مِّن قَبْلِكُمْ ثُمَّ أَصْبَحُوا بِهَا كَافِرِينَ ﴿١٠٢﴾


اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ایسی باتیں نہ پوچھا کرو جو تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں، لیکن اگر تم انہیں ایسے وقت پوچھو گے جب کہ قرآن نازل ہو رہا ہو تو وہ تم پر کھول دی جائیں گی اب تک جو کچھ تم نے کیا اُسے اللہ نے معاف کر دیا، وہ درگزر کرنے والا اور برد بار ہے تم سے پہلے ایک گروہ نے اِسی قسم کے سوالات کیے تھے، پھر وہ لوگ انہی باتوں کی وجہ سے کفر میں مبتلا ہوگئے (5:101,102)


نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض لوگ عجیب عجیب قسم کے فضول سوالات کیا کرتے تھے بعض لوگ احکامِ  شرع میں غیر ضروری پُوچھ گچھ کیا کرتے تھے ، اور خواہ مخواہ پُوچھ پُوچھ کر ایسی چیزوں کا تعیّن کیا کرا نا چاہتے تھے جنہیں شارع نے مصلحتاً غیر معیّن رکھا ہے۔ مثلاً قرآن میں مُجملاً یہ حکم دیا گیا تھا کہ حج تم پر فرض کیا گیا ہے۔ ایک صاحب نے حکم سُنتے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا” کیا ہر سال فرض کیا گیا ہے؟“ آپ ؐ نے کچھ جواب نہ دیا ۔ اُنہوں نے پھر پُوچھا۔ آپ ؐ پھر خاموش ہوگئے۔ تیسری مرتبہ پُوچھنے پر آپ ؐ نے فرمایا”تم پر افسوس ہے ۔ اگر میری زبان سے ہاں نِکل جائے تو حج ہر سال فرض قرار پائے۔ پھر تم ہی لوگ اس کی پیروی نہ کر سکو گے اور نا فرمانی کرنے لگو گے“۔ ایسے ہی لا یعنی اور غیر ضروری سوالات سے اس آیت میں منع کیا گیا ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی لوگوں کو کثرتِ سوال سے اور خواہ مخواہ ہر بات کی کھوج لگانے سے منع فرماتے رہے تھے۔ چنانچہ حدیث میں ہے:
 ان اعظم المسلمین فی المسلمین جرما من سأل عن شیٔ لم یحرم علی الناس فحرم من اجل مسألتہ۔ 
” مسلمانوں کے حق میں سب سے بڑا مجرم وہ شخص ہے جس نے کسی ایسی چیز کے متعلق سوال چھیڑا جو لوگوں پر حرام نہ کی گئی تھی اور پھر محض اس کے سوال چھیڑنے کی بدولت وہ چیز حرام ٹھیرائی گئی“۔ 
ایک دُوسری حدیث میں ہے:
ان اللہ فرض فرائض فلا تضیْعوھا و حرم حرمَات فلا تنتھکو ھا وحَدّ حُدُوْداً فلا تعتدُوْھَا وسَکتَ عَنْ اشیَا ء من غیر نسیان فلا تبحثو ا عنھا۔

” اللہ نے کچھ فرائض تم پر عائد کیے ہیں ، انہیں ضائع نہ کرو  ۔ کچھ چیزوں کو حرام کیا ہے ان کے پاس نہ پھٹکو۔ کچھ حُدُود مقرر کی ہیں ، ان سے تجاوز نہ کرو۔ اور کچھ چیزوں کے متعلق خاموشی اختیار کی ہے بغیر اس کے کہ اُسے بھُول لاحق ہوئی ہو، لہٰذا ان کی کھوج نہ لگاؤ“۔


ان دونوں حدیثوں میں ایک اہم حقیقت  پر متنبّہ کیا گیا ہے ۔ جن اُمُور کو شارع نے مجملاً بیان کیا ہے اور ان کی تفصیل نہیں بتائی، یا جو احکام برسبیلِ اجمال دیے ہیں اور مقدار یا تعداد یا دُوسرے تعیّنات کا ذکر نہیں کیا ہے ، ان میں اجمال اور عدمِ تفصیل کی وجہ یہ نہیں ہے کہ شارع سے بھُول ہو گئی، تفصیلات بتانی چاہیے تھیں مگر نہ بتائیں، بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ شارع ان امور کی تفصیلات کو محدُود نہیں کرنا چاہتا اور احکام میں لوگوں کے لیے وسعت رکھنا چاہتا ہے۔ اب جو شخص خواہ مخواہ سوال پر سوال نکال کر تفصیلات اور تعینات اور تقیدات بڑھانے کی کوشش کرتا ہے ، اور اگر شارع کے کلام سے یہ چیزیں کسی طرح نہیں نکلتیں تو قیاس سے ، اِستنباط سے کِسی نہ کسی طرح مجمل کو مفصّل، مطلَق کو مقَیَّد، غیر معیّن کو معیّن بنا کر ہی چھوڑتا ہے ، وہ درحقیقت مسلمانوں کو بڑے خطرے میں ڈالتا ہے ۔ اس لیے کہ ما بعد الطبیعی اُمُور میں جتنی تفصیلات زیادہ ہوں گی، ایمان لانے والے کے لیے اتنے ہی زیادہ اُلجھن کے مواقع  بڑھیں گے، اور احکام میں جتنی قیُود زیادہ ہوں گی پَیروی کرنے والے کے لیے خلاف ورزی ِ حکم کے امکانات بھی اسی قدر زیادہ ہوں گے۔ (تفہیم القرآن )

عقل ، حکمت و دانش:
اس سے زیر ہوتا ہے کہ اجتہاد کا راستہ چھوڑا گیا مگر عقل کو قرآن و سنت کی روشنی میں استمال کرنا چاہیے-
یقیناً اللہ کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے (8:22) 
جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے، اور جس کو حکمت ملی، اُسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی اِن باتوں سے صرف وہی لوگ سبق لیتے ہیں، جو دانشمند ہیں (2:269)
اس طرح ہم نشانیاں کھول کھول کر پیش کرتے ہیں اُن لوگوں کے لیے جو سوچنے سمجھنے والے ہیں  (10:24)
تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے، یقیناً خدا سُننے والا اور جاننے والا ہے (8:42)

يُرِيدُ اللَّـهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ
اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا (2:185)

يُرِيدُ اللَّـهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُم مِّنْ حَرَجٍ

 اللہ تم پر زندگی کو تنگ نہیں کرنا چاہتا،  (5:6)

وَأَمَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُ جَزَاءً الْحُسْنَىٰ ۖ وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنَا يُسْرًا ﴿٨٨﴾

 اور جو ایمان لائے گا اور عمل نیک کرے گا اس کے لئے بہت اچھا بدلہ ہے۔ اور ہم اپنے معاملے میں (اس پر کسی طرح کی سختی نہیں کریں گے بلکہ) اس سے نرم بات کہیں گے (12:88) 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایابے شک (اسلام) دین آسان ہے اور دین میں جو کوئی سختی کرے گا تو دین اس پر غالب آئے گا اس لئے بیچ بیچ کی چال چلو اور (افضل کام نہ کرسکو تو) اس کے نزدیک رہو اور ثواب کی امید رکھ کر خوش رہو اور صبح کی چہل قدمی اور شام کی چہل قدمی اور رات کی کچھ چہل قدمی سے مدد لو۔ (بخاری، کتاب ایمان ،جلد اول ،حدیث: 38)


اقوال رسول ﷺ

قرآن اور کچھ روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کلام بھی شرع بیان کرنے کے لیے کیا ہے وہ حق ہے، حجت ہے، وحی ہے اور قابل اتباع ہے۔ لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ آپ کا ہر قول کسی شرعی حکم کو بیان کرنے کے لیے نہیں ہوتا تھا۔ بعض اوقات آپ ہماری طرح دنیاوی اُمور میں بھی گفتگو کرتے تھے اور آپ کایہ کلام کسی شرعی حکم کے استنباط کے لیے مصدر کی حیثیت نہیں رکھتا ہے ۔الدکتور عبد الکریم زیدان لکھتے ہیں :

وأقوال النبی نما تکون مصدرا للتشریع، اذا کان المقصود بھا بیان الأحکام أو تشریعھا، أما ذا کانت فی أمور دنیویة بحتہ لا علاقة لھا بالتشریع، ولا مبنیة علی الوحی، فلا تکون دلیلا من أدلة الأحکام، و لا مصدرا تستنبط منہ الأحکام الشرعیة، و لا یلزم اتباعھا، ومن ذلک ما روی: أنہ علیہ السلام رأی قوما فی المدینة یؤبرون النخل،فأشار علیھم بترکہ، ففسد الثمر،فقال لھم: ((اَبِّرُوْا’ اَنْتُمْ اَعْلَمُ بِاُمُوْرِ دُنْیَاکُمْ)) (٢٣) 

”اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال صرف اُس وقت مصدرِ شریعت ہوں گے جب ان سے آپ کامقصود احکامِ شرعیہ کو بیان کرنا ہو۔لیکن اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض دنیاوی امور کے بارے میں کچھ گفتگوایسی فرمائی جس کا شریعت سے کوئی تعلق نہ ہو تو آپ کا ایسا کلام احکامِ شرعیہ کے لیے کوئی دلیل نہیں بنے گا اور نہ ہی وہ مصدر شریعت ہو گاکہ جس سے احکام نکالے جائیں،اور نہ ہی آپ کے ایسے اقوال کی پیروی لازمی ہے ۔اس کی ایک مثال یہ روایت ہے کہ آپ نے مدینہ کے بعض لوگوں کو دیکھا کہ وہ نر کھجور کے ساتھ مادہ کھجور کی پیوند کاری کرتے تھے ۔آپ نے لوگوں کو ایسا کرنے سے اشارتاً منع کر دیا جس کہ وجہ سے اگلی فصل کم ہوئی تو آپ نے صحابہ کو حکم دیا کہ :”پیوند کاری کرو ،کیونکہ دنیاوی امور کو تم زیادہ بہتر جانتے ہو”۔

اس موضوع پر کہ ”آپ کا ہر قول ہمارے لیے شریعت نہیں ہے ” شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اپنی کتاب ‘ حجة اللہ البالغة’ میں ‘ المبحث السابع: مبحث استنباط الشرائع من حدیث النبی’ کے تحت مختصر لیکن بہت عمدہ بحث کی ہے ۔ شاہ صاحب کے نزدیک آپ کے وہ اقوال جو تبلیغِ رسالت کے باب سے نہیں ہیں(یعنی دنیاوی امور سے متعلق ہیں) ، بعض حضرات کے مناقب سے متعلق اقوال،طب سے متعلق بعض اقوال ،آپ کے دور میں کسی جزئی مصلحت کے حصول کے لیے آپ کے جاری کردہ احکامات،آپ کے عادی امور، آپ کے فیصلے(یعنی قضاء) اور آپ کے بعض احکامات کا آپ کی قوم کے بعض لوگوں کے لیے خاص ہوناوغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔
شاہ صاحب نے اس موقف کی دلیل کے طور پرکہ آپ کاہر قول ہمارے لیے شریعت نہیں ہے، ایک حدیث کو بیان کیا ہے۔حضرت خارجہ بن زید بن ثابت سے روایت ہے :

دَخَلَ نَفَر عَلٰی زَیْدٍ بْنِ ثَابِتٍ فَقَالُوْا حَدِّثْنَا بَعْضَ حَدِیْثِ رَسُوْلِ اللّٰہِ فَقَالَ وَمَا أُحَدِّثُکُمْ؟ کُنْتُ جَارُہ فَکَانَ ِذَا نَزَلَ الْوَحْیُ أَرْسَلَ ِلَیَّ فَکَتَبْتُ الْوَحْیَ وَکَانَ ِذَا ذَکَرْنَا الْآخِرَةَ ذَکَرَھَا مَعَنَا وَذَا ذَکَرْنَا الدُّنْیَا ذَکَرَھَا مَعَنَا وَذَا ذَکَرْنَا الطَّعَامَ ذَکَرَھُ مَعَنَا’ فَکُلُّ ھٰذَا أُحَدِّثُکُمْ عَنْہُ؟ (٢٤)


”اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال صرف اُس وقت مصدرِ شریعت ہوں گے جب ان سے آپ کامقصود احکامِ شرعیہ کو بیان کرنا ہو۔لیکن اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض دنیاوی امور کے بارے میں کچھ گفتگو ایسی فرمائی جس کا شریعت سے کوئی تعلق نہ ہو تو آپ کا ایسا کلام احکامِ شرعیہ کے لیے کوئی دلیل نہیں بنے گا اور نہ ہی وہ مصدر شریعت ہو گاکہ جس سے احکام نکالے جائیں، اور نہ ہی آپ کے ایسے اقوال کی پیروی لازمی ہے ۔اس کی ایک مثال یہ روایت ہے کہ آپ نے مدینہ کے بعض لوگوں کو دیکھا کہ وہ نر کھجور کے ساتھ مادہ کھجور کی پیوند کاری کرتے تھے ۔آپ نے لوگوں کو ایسا کرنے سے اشارتاً منع کر دیا جس کہ وجہ سے اگلی فصل کم ہوئی تو آپ نے صحابہ کو حکم دیا کہ :”پیوند کاری کرو ،کیونکہ دنیاوی امور کو تم زیادہ بہتر جانتے ہو”۔

امام ہیثمی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ‘حسن’ کہا ہے۔(٢٥)امام ابن حجررحمہ اللہ نے اس روایت کو’حسن’ کہا ہے۔(٢٦) حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت سے حجت پکڑی ہے ۔جبکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ‘ضعیف ‘کہا ہے(٢٧)۔

‘سنن البیہقی’ کی ایک روایت میں ‘أَوَکُلَّ ھٰذَا نُحَدِّثُکُمْ عَنْہُ’؟ کے الفاظ بھی ہیں ۔ بعض مسلمانوں کا خیال یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر قول پر عمل ضروری ہے ۔ان حضرات کا کہنا یہ ہے کہ قرآن میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا گیا اور آپ کی اطاعت اُمت پر لازم ہے،لہٰذا جہاں بھی آپ کا کوئی قول آ جائے، چاہے وہ دنیا سے متعلق ہو یا دین سے ، تو اس پر عمل کرنا لازم ہو گا،کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال آپ کی اطاعت میں داخل ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قرآن میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا گیا اور آپ کی اطاعت ہر اُمتی پر فرض ہےلیکن کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر ہر قول یا ہر ہر بات، چاہے وہ دین سے متعلق ہو یا دنیا سے ، اطاعت کی تعریف میں داخل ہے ؟ اگر کوئی شخص ایسا سمجھتا ہے تو یہ موقف درست نہیں ہے۔(لنک تفصیل )
صحابہ کرام نے رسول اللہﷺ کے احکام کے الفاظ پر ایک ہی وقت میں دو طریقوں سے، الفاظ کے ظاہری مطلب اور کچھ نے (implied meanings) الفاظ کی روح پر عمل کیا اور دونوں درست قرار پا ینے: 

غزوہ بنی قریظہ کے موقع پر جب صحابہ کرام نے عصر کی نماز کے سلسلے میں اجتہاد کیا تھا جب کہ آپﷺ کا حکم تھا:

“لَايُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ الْعَصْرَ إِلَّافِي بَنِي قُرَيْظَةَ” (بخاری، كِتَاب الْجُمُعَةِ، بَاب صَلَاةِ الطَّالِبِ وَالْمَطْلُوبِ رَاكِبًا وَإِيمَاءً:۲/۵۹۱)


ترجمہ – تم میں سے کوئی شحص نماز نہ پڑھے مگربنی قریظہ میں جاکر؛ 

چنانچہ بعض صحابہ نے آپﷺ کے الفاظ کو بعین ہی حقیقت پر محمول کیا اور انھوں نے مغرب کی نماز کوموخر کیا اور بنوقریظہ پہنچ کر نماز ادا کی، جب کہ دوسرے بعض صحابہ نے الفاظ کی اصل روح (spirit) کو لیا اور یہ سمجھا کہ اس حکم سے مراد جلدی جانے پر ابھارنا ہے توانھوں نے راستہ ہی میں وقت پر نماز پڑھ لی، جب حضورﷺ کودونوں فریقوں کے اجتہاد کا پتہ چلا توآپﷺ نے خاموشی اختیار کی اور کسی پر نکیر نہیں کی۔ (السنۃ ومکانتھا فی الاسلام:۴۷)

جمہور مسلمین اجتہاد کی حجیت کے قائل ہیں، اجتہاد کی حجیت کتاب و سنت سے ثابت ہے:
 ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
 يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّسولَ وَأُولِى الأَمرِ مِنكُم ۖ فَإِن تَنٰزَعتُم فى شَيءٍ فَرُدّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسولِ إِن كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ ۚ ذٰلِكَ خَيرٌ وَأَحسَنُ تَأويلًا(سورۃالنساء:59)
 اے ایمان والو! حکم مانو اللہ (تعالٰیٰ) کا اور حکم مانو رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا اور اولولاَمر کا جو تم میں سے ہوں، پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اسے “لوٹاؤ” اللہ (تعالیٰ) اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف، اگر تم ایمان (ویقین) رکھتے ہو اللہ پر، اور قیامت کے دن پر، یہ بات اچھی ہے اور بہت بہتر ہے اس کا انجام. (سورۃالنساء:59)

اس آیت میں ادلہ اربعہ (چاروں دلیلوں) کی طرف اشارہ ہے: اَطِيْعُوا اللّٰهَ سے مراد “قرآن” ہے، اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ سے مراد “سنّت” ہے، اور اُولِي الْاَمْرِ سے مراد “علماء و فقہاء” ہیں، ان میں اگر اختلاف و تنازع نہ ہو بلکہ اتفاق ہوجاتے تو اسے “اجماع_فقہاء” کہتے ہیں.(یعنی اجماع_فقہاء کو بھی مانو). اور اگر ان اُولِي الْاَمْرِ(علماء و فقہاء) میں اختلاف ہو تو ہر ایک مجتہد عالم کا اپنی راۓ سے اجتہاد کرتے اس نئے غیر واضح اختلافی مسئلے کا قرآن و سنّت کی طرف “لوٹانا” اور استنباط کرنا “اجتہاد شرعی” یا “قیاس مجتہد” کہتے ہیں.


اجتہاد رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں آپ کی ھدایت پر شروع ہوا جب حضرت معا ذ بن جبل کوذمہ داری کے ساتھ  یمن بھیجا گیا:-  


عن معاذ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لما بعث معاذا الی الیمن قال لہ : کیف تقضی اذا عرض لک قضاء؟ قال : اقضی بکتاب اللہ ، قال : فان لم تجدہ فی کتاب اللہ ، قال : اقضی بسنة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال : ” فان لم تجدہ فی سنة رسول اللہ ، قال : اجتھد برائی لاآلو ، قال : فضرب بیدہ فی صدری وقال : ” الحمد للہ الذی وفق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لما یرضی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ( السنن الکبری للبیہقی 114/10 )

” حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ کو یمن کی طرف ( گورنر بنا کر ) بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کہ جب تمہارے سامنے کوئی معاملہ فیصلہ کے لئے پیش ہو گا تو تم اس کا فیصلہ کس طرح کرو گے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ حضور! میں اس کا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کروں گا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پوچھا : اگر تم اسے کتاب اللہ میں نہ پاؤ ؟ انہوں نے جواب دیا کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فیصلہ کروں گا ، آپ نے پھر دریافت فرمایا : اگر تم اسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں بھی نہ پا سکو ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ اس وقت میں اجتہاد ( بھرپور کوشش ) کروں گا اور سستی نہیں کروں گا ۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ( میرا جواب سن کر ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر مارا اور فرمایا تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہےں کہ اس نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد کو ایسی چیز کی توفیق بخشی جس سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم راضی ہیں ۔ 
تاریخ گواہ ہے کہ صحابہ اکرام رضی اللہ نے جہاں ضرورت محسوس کی قرآن ع سنت سے رہنمائی سے اجتہاد کیا- حضرت عمر رضی اللہ کے اجتہادات سب جانتے ہیں- اسلام کے اصول سدا بہار ہیں-

  1. اگر قرآن و سنّت میں “نئے پیش آمدہ” مسائل کا “واضح و مفصل” حل نہ ملے ،تو فقہ_دین (قرآن 9:122) کا انکار کرنے-والے حضرات کا دعویٰ“قرآن وحدیث بس” صحیح نہیں.
  2. اجتہاد تب کیا جائیگا جب اس نۓ مسلے/واقعہ کا واضح جواب قرآن-و-سنّت میں نہ ہو
  3. اجتہاد کا کرنے کا “اہل” ہر عامی(عام شخص) نہیں، بلکہ کوئی علمی-شخصیت کسی کے دینی علمی سمجھ میں گہرائی اور مہارت پرکھ لینے کے بعد تائیدی اجازت دے. چنانچہ اس سے مراد وہ حاکم ہے جو عالم ہو حکم دینے کے لائق ہو اور جاہل کا حکم دینا درست نہیں، اگر وہ حکم کرے گا تو گناہگار ہوگا
  4. شرعی فیصلہ/فتویٰ دینے کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے قرآن سے فیصلہ کیا جائیگا، نہ کے سنّت یا قیاس سے. قرآن کے بعد سنّت سے پھر قیاس سے.

امت مسلمہ غیر ضروری باتوں اور تفرقہ بازی میں اپنا قیمتی وقت اور <<عمر ضائع>> کردیتے ہیں


بدعت کیا ہے؟

بدعت‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جو ’’بَدَعَ‘‘ سے مشتق ہے۔ اس کا معنی ہے : کسی سابقہ مادہ، اَصل، مثال، نمونہ یا وجود کے بغیر کوئی نئی چیز ایجاد کرنا؛ یعنی کسی شے کو عدمِ محض سے وجود میں لانے کو عربی زبان میں ’’اِبداع‘‘ کہتے ہیں۔

بدعت بنیادی طور پر عربی لفظ “بدعۃ” سے ماخوذ ہے جو کہ “بَدَعَ” سے مشتق ہے جس کے معنی وجود میں لانا یا وقوع پذیر ہونا کے ہیں۔ کسی شے کے عدم سے وجود میں آنے کو بدعت کہتے ہیں۔ اس طرح بدعت کرنے والے فاعل کو مبتدع یا بدعتی اور عربی میں “بَدِيع” کہا جاتا ہے۔ لغوی اصطلاح میں بدعت کسی مفعول کے عدم سے وجود میں آنے اور مبتدع اُسے وجود میں لانے والے فاعل کیلئے استعمال ہوتا ہے، جیسا کہ قرآنِ مجید میں اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا
بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ (قرآن ٢:١١٧)
ترجمہ: (وہی اللہ) موجد (نیا پیدا کرنے والا) ہے آسمانوں اور زمین کا

اس آیتِ میں اللہ نے آسمانوں اور زمین کے وجود میں آنے کا بیان کرتے ہوئے اپنی ذات کو آسمانوں اور زمین کا بدیع یعنی مبدع (وجود میں لانے والا) کہا۔ اسی وجہ سے اللہ کا ایک صفاتی نام “البَدِيع” یعنی مبتدع(وجود میں لانے والا) بھی ہے۔

شرعی اصطلاح میں بدعت کا حکم ہر اُس فعل یا مفعول کیلئے استعمال ہوتا ہے جسکا وجود قرآن و سنت کی نص سے ثابت نہ ہو اور وہ مابعد قرآن و سنت ظاہر ہو۔

ابنِ حجر عسقلانی، بدعت کی لُغوی تعریف یوں کرتے ہیں :
البدعة أصلها : ما أحدث علی غير مثال سابق.
’’بدعت کی اصل یہ ہے کہ اسے بغیر کسی سابقہ نمونہ کے ایجاد کیا گیا ہو۔‘‘ ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 4 : 253
ہر وہ نئی چیز، جو شریعت کے کسی اصول کے خلاف جا رہی ہو، وہ بدعت کے زمرے میں آتی ہے۔ رسول اکرم ﷺ کی حدیث ہے کہ ہر وہ عمل، جو کسی سنت کو ختم کر دے، وہ بدعت (سنتِ سئیہ) کے زمرے میں آجائے گا۔
ما احدث قوم بذعۃ ال رفع مثلھا من السنۃ
جب کوئی قوم بدعت ایجاد کرتی ہے تو اسی کی مثل سنت ختم ہو جاتی ہے۔ (مشکوۃ، ص ۳۱)

یعنی بدعت وہ ہے جن کے اختیار کرنے سے سنت بدل جائے۔ اگر کسی عمل سے سنت نہیں بدلتی تو وہ عمل بدعت بھی نہیں کہلائے گا۔
 

مَنْ سَنَّ فِيْ الْاِسْلاَمِ سُنَّةً حَسَنَةً فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ کُتِبَ لَهُ مِثْلُ اَجْرٍ مَنْ عَمِلَ بِهَا وَلاَ يَنْقُصُ مِنْ اُجُوْرِهِمْ شَيْئٌ وَ مَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ کُتِبَ عَلَيْهِ مِثْلُ وِزْرٍ مَنْ عَمِلَ بِهَا وَلاَ يَنْقُصُ مِنْ اَوْزَارِهِمْ شَيْئٌ.

‘‘جس شخص نے مسلمانوں میں کسی ‘‘نیک طریقہ ’’ کی ابتدا کی اور اس کے بعد اس طریقہ پر عمل کیا گیا تو اس طریقہ پر عمل کرنے والوں کا اجر بھی اس کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے اجر میں کمی نہیں ہو گی، اور جس شخص نے مسلمانوں میں کسی برے طریقے کی ابتداء کی اور اس کے بعد اس طریقہ پر عمل کیا گیا تو اس طریقہ پر عمل کرنے والوں کا گناہ بھی اس شخص کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے گناہ میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔’’

سنن النسائى الصغرى 2555,  صحيح مسلم 2351,  صحيح مسلم 6800,  جامع الترمذي 2675,  سنن ابن ماجه 203,  مشكوة المصابيح 210

https://islamicurdubooks.com/hadith/hadith-.php?tarqeem=1&bookid=2&hadith_number=6800

مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب من سن سنة حسنة او سيئة، 4 : 2059، رقم : 2674

مسلم، الصحيح، کتاب الزکوٰة، باب الحث علی الصدقه، 2 : 705، رقم : 1017 نسائی، السنن، کتاب الزکاة، باب التحريض علی الصدقه، 5 : 55، 56، رقم : 2554 ابن ماجه، السنن، مقدمة، باب سن سنة حسنة أو سيئة، 1 : 74، رقم : 203 احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357.359 دارمی، السنن، 1 : 141، رقم : 514 ابن ابی شيبه، المصنف، 2 : 350، رقم : 9803 بيهقی، السنن الکبریٰ، 4 : 175، رقم : 7531
ابو داؤد، السنن، کتاب السنة، باب لزوم السنة، 4 : 201، رقم : 4609
ابن ماجه، السنن، المقدمة، باب من سن سنة حسنة او سيئة، 1 : 75، رقم : 206
ابن حبان، الصحيح باب ذکر الحکم فيمن دعا إلی هدی او ضلالة فاتبع عليه، 1 : 318، رقم : 112
دارمی، السنن، 1 : 141، رقم : 513
احمد بن حنبل، المسند، 2 : 397، رقم : 9149
أبو عوانة، المسند، 3 : 494، رقم : 5823
السواد الاعظم عربی زبان میں “عظیم-ترین (بڑی) جماعت” کو کہتے ہیں. [الصحاح للجوهري:١/٤٨٩] حدیث پاک میں اس کا ذکر:
عن ابن عمر قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : لا یجمع اللّٰہ ھذہ الأمۃ علی الضلالۃ ابدا. وقال ید اللّٰہ علی الجماعۃ. فإذا شذ الشاذ منھم إختطفتہ الشیاطین۱؂. فاذا رأیتم إختلافا.۲؂فاتبعوا السواد الأعظم، فإنہ من شذ، شذ فی النار.(مستدر ک،کتاب العلم(ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ میری امت کو کبھی ضلالت پر جمع نہیں کرے گا۔اور آپ نے فرمایا:نظم اجتماعی پر اللہ کا ہاتھ ہے۔تو جو اس سے الگ ہوا،شیاطین اسے اچک لے جائیں گے۔چنانچہ،جب تم (اس میں) اختلاف پاؤ تو (اس کے ساتھ وابستہ رہنے کے لیے) سوادا عظم کی رائے کی پیروی کرو، اس لیے کہ جو الجماعۃ سے الگ ہوا،وہ دوزخ میں پڑا۔رہبانیت سنت کو بدلنے کی وجہ سے حرام قرار پائی۔ ذیل کی حدیث ملاحظہ فرمائیے:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَة أَنَّ رَسُوْل اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : مَنْ دَعَا إِلَی هُدًی، کَانَ لَهُ مِنَ الأجْرِ مِثْلَ أُجُوْرِ مَنْ يَتَّبِعُهُ، لَا يُنْقِصُ ذَلِکَ مِنْ أُجُوْرِهِمْ شَيْئًا. وَمَنْ دَعَا إِلَی ضَلَالَةٍ، کَانَ عَلَيْهِ مِنَ الْإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ يَتَّبِعُهُ، لَا يُنْقِصُ ذَلِکَ مِنْ آثَامِهِمْ شَيْئًا.

‘‘حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے ہدایت کی طرف بلایا اس کے لئے اس راستے پر چلنے والوں کی مثل ثواب ہے اور ان کے ثواب میں سے کچھ بھی کم نہ ہوگا اور جس نے گناہ کی دعوت دی اس کے لئے بھی اتنا گناہ ہے جتنا اس بد عملی کا مرتکب ہونے والوں پر ہے اور ان کے گناہوں میں بھی کوئی کمی نہیں ہوگی۔’

مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب من سن سنة حسنة او سيئة، و من دعا إلی هدی او ضلالة، 4 : 2060، رقم : 2674- ترمذي، السنن، کتاب العلم عن رسول اﷲA، باب ما جاء فيمن دعا إلی هدی فاتبع او إلی ضلالة، 5 : 43


حضرت انس رضی الله عنہ، رسول الله صلے الله علیہ وسلم سے مروی ہیں کہ”میری امت کسی گمراہی پر جمع (متفق) نہیں ہوگی بس جب تم (لوگوں میں) اختلاف دیکھو تو سواد اعظم (بڑی-جماعت) کو لازم پکڑلو(یعنی اس کی اتباع کرو)” [سنن ابن_ماجہ: کتاب الفتن، باب السواد الاعظم]

دوسری روایت میں حضرت ابن عمر(رضی الله عنہ) سے حدیث میں ہے = کہ…بس تم سواد اعظم کا اتباع (پیروی) کرو، کیونکہ جو شخص الگ راستہ اختیار کریگا جہنم میں جا رہیگا.[مستدرک حاکم: کتاب العلم، ١/١١٥]
صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب الترغیب فی النکاح

انس ابن مالک روایت کرتے ہیں:
ازواجِ نبی کے پاس تین آدمی آئے اور نبی ﷺ کی عبادت کے سلسلہ میں دریافت کیا۔ جب اُن کو اِس کی خبر دی گئی تو انہوں نے اس کو کم تصور کیا اور کہنے لگے ہماری نبی ﷺ سے کیا نسبت۔ اللہ نے آپ ﷺ کے اگلے اور پچھلے تمام گناہ بخش دئیے ہیں۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ میں ساری رات نماز پڑھوں گا، دوسرے نے کہا میں ہمیشہ دن میں روزے سے رہوں گا اور تیسرے نے کہا میں عورتوں سے الگ رہوں گا اور کبھی شادی نہ کروں گا۔ اچانک رسول ﷺ پہنچ گئے اور فرمایا کہ کیا تمہیں لوگوں نے ایسا ایسا کہا ہے؟ خبردار، اللہ کی قسم میں تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور زیادہ تقویٰ اختیار کرنے والا ہوں۔ میں نفلی روزہ بھی رکھتا ہوں اور کبھی نہی بھی رکھتا ہوں۔ رات کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں۔ اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں لہذا جس نے میرے طریقے سے اعراض کیا وہ مجھ سے نہیں۔
یہ حدیث نئے افعال کے متعلق ہمیں چند مزید اصول دے رہی ہے۔اس حدیث کے میں جن نئے کاموں سے رسول ﷺ نے منع فرمایا ہے، ان کے متعلق نوٹ فرمائیے کہ:
  • ایک صحابی نے عزم کیا کہ وہ پوری زندگی کبھی شادی نہیں کرے گا۔
  • دوسرے صحابی نے عزم کیا کہ کہ وہ پوری زندگی کبھی سوئے گا نہیں (بلکہ ساری رات عبادت کرے گا)۔
  • تیسرے صحابی نے عزم کیا کہ وہ تمام زندگی بلا ناغہ روزے رکھے گا۔

اس حدیث پر مزید تبصرہ کرنے سے قبل بہتر ہے کہ اس سلسلے سے متعلق کچھ بنیادی باتیں سمجھی جائیں، کہ جن کو نظر انداز کر دینے سے ہم کبھی صحیح نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے۔
واضح رہے کہ یہاں کسی فرقہ یا فقہ کی تنقید ، مخالفت یا حمایت نہیں- کوئی ہاتھ با ندھ کر نماز پڑھنے یا کھلے چھوڑ کر، رفع یدین کرے یا نہ کرے، آمین زور سے کہے یا دل میں کہے یہ اس کا اور اللہ کا معاملہ ہے-

1- شریعت کا پہلا اصول:
کچھ چیزوں کو نام لے کر حلال/حرام کرنا، اور کچھ چیزوں کو ایک “بنیادی اصول” کی وجہ سے حلال/حرام قرار دینا –
شریعت میں جو چیزیں نام لے کر حرام کی گئی ہیں، وہ واضح ہیں اور سب کو ان کا علم ہے۔مگر کچھ چیزیں ہیں کہ جن کا وجود رسول ﷺ کے زمانے میں نہیں تھا۔ مثلاً “ہیروئن کا نشہ” رسول ﷺ کے زمانے میں نہیں تھا۔ مگر ایک بنیادی اصول ہے کہ جو چیز بھی انسان کو ہوش و حواس سے بیگانہ کر دے، وہ حرام ہے۔ اور اس بنیادی اصول کی وجہ سے آج کے دور میں ہیروئن کا نشہ حرام قرار پایا۔ 
٢- شریعت کا دوسرا اصول:
اگر کوئی عمل رسول ﷺ کی کسی سنت کو ختم کر دے، تو وہ حرام ہے 
رسول ﷺ کی حدیث ہے کہ ہر وہ عمل، جو کسی سنت کو ختم کر دے، وہ بدعت کے زمرے میں آ جائے گا۔رہبانیت اسی اصول کی وجہ سے اسلام میں حرام ٹہری۔
اس حدیث میں جو نئے کام حرام قرار پائے ہیں، وہ اس لیے نہیں حرام ٹہرائے گئے کیونکہ وہ “نئے” تھے۔ بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ نئے اعمال اُس انتہا پر پہنچ گئے تھے کہ جس کی وجہ سے رسول ﷺ کی کچھ سنتیں ختم ہو رہی تھیں۔ مثلاً اوپر والی مثال سے :  
  1. پہلے صحابی نے کہا کہ وہ ساری عمر شادی نہیں کرے گا (یہ حرام اس لیے ہوا کیونکہ یہ رہبانیت کی حد آ گئی تھی، جبکہ رسول ﷺ کی ایک سنت شادی کر کے مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ کرنا بھی ہے)
  2. دوسرے صحابی نے کہا کہ وہ ساری عمر رات کو سوئے گا نہیں (جبکہ رسول ﷺ کی سنت رات کو سونا بھی تھا اور ایسا کرنے سے رسول ﷺ کی یہ سنت ختم ہو رہی تھی)
  3. تیسرے صحابی نے کہا کہ وہ ساری عمر بلا ناغہ روزے رکھے گا (جبکہ رسول ﷺ کی سنت کچھ دن ناغہ کرنے کی بھی تھی اور ایسا کرنے سے یہ سنت مکمل طور پر ختم ہو رہی تھی)۔
پس شریعت نے ایک “بنیادی اصول” یہ دیا کہ کوئی بھی کام اُس “انتہا “ تک نہیں کرنا ہے کہ جس کی وجہ سے کوئی سنت مکمل طور پر ختم ہو جائے۔ تو ایسا کوئی بھی نیک عمل، جو اس انتہا تک پہنچ جائے، وہ خود بخود حرام ہو جائے گا۔
مگر اس تصویر کا دوسرا رُخ بھی ہے، جسے کچھ لوگ صحیح طریقے سے نہ سمجھنے کی وجہ سے خواہ مخواہ اپنے اوپر حرام کر لیتے ہیں۔
دیکھیں رسول ﷺ نے ان تین صحابہ کو یہ نہیں کہا کہ:
اگر میں نے ہفتے میں تین روزے رکھے ہیں، تو تم لوگ بھی صرف تین روزے رکھ سکتے ہو۔ اور اگر تم نے ہفتے میں تین کی جگہ چار یا پانچ روزے رکھنے کا نیا عمل کیا تو تم ضلالت و گمراہی میں مبتلا ہو جاؤ گے۔
اور اسی طرح اگر میں رات کے صرف ایک پہر عبادت کرتا ہوں، اور اگر تم نے ایک پہر کی جگہ دو یا تین پہر عبادت کرنے کا نیا عمل کیا تو تم ضلالت و گمراہی میں مبتلا ہو جاؤ گے۔
اسی طرح میں نے بارہ شادیاں کیں ہیں، مگر اگر کوئی اس نیت سے صرف ایک شادی کرتا ہے کہ زیادہ شادیاں کرنے سے اس کے پاس عبادت کا وقت کم ہو جائے گا، تو اُس کا یہ نیت کرنا ضلالت و گمراہی ہے۔
پس نتیجہ یہ نکلا کہ عبادت کی غرض سے کوئی بھی ایسا نیا عمل(نفلی) کیا جا سکتا ہے(فرض میں کمی یا اضافہ نہیں ہو سکتا)، جو ذیل کی شرائط کو پورا کرے۔
  • . پہلا یہ کہ عبادت کا یہ نیا عمل قران و سنتِ رسول کے کسی اصول کے خلاف نہ ہو۔
  • . اور دوسرا یہ کہ عبادت کا یہ نیا عمل رہبانیت کی اُس انتہا Extreme کی حد تک نہ ہو کہ جس کی وجہ سے رسول ﷺ کی کوئی سنت مکمل طور پر ختم ہو جائے۔
  • اور تیسری شرط اور بیان کر دی جائے، اور وہ یہ کہ رسول ﷺ نے نام لیکر کہا ہوتا کہ یہ کام اتنی مقدار میں ہی ہو سکتا ہے، تو پھر اُس معاملے میں اِس مقدار سے زیادہ کام نہیں ہو سکتا (مثلاً ظہر کی نماز نام لیکر رسول ﷺ نے چار رکعت مقرر کی ہے۔ اگر اس مقرر کردہ سنت میں (کہ جس کی تعداد رسول ﷺ نے خود مقرر کر دی ہے) زیادتی کی جائے، تو پھر دوبارہ یہ بدعت بن جائے گی۔
  • مگر نفل نماز کی تعداد نام لیکر مقرر نہیں کی گئی ہے۔ لہذا اس میں اجازت ہے کہ اگر رسول ﷺ شب بھر میں پچاس رکعات نماز ادا کرتے تھے تو آپ 100 رکعات نماز پڑھ سکتے ہیں۔
  • نفلی عبادات کو فرض بنانے کی کوشش نہیں کرنا چاہیے- فرض ناقابل تبدیلی ہیں-
3- شریعت کا تیسرا اصول:
ہر چیز اصل میں مباح ہے جبتک نص سے اسکی حرمت نہ ظاہر ہو 
قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِكُوا بِاللَّـهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللَّـهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴿ الأعراف  ٣٣﴾
اے محمدؐ، اِن سے کہو کہ میرے رب نے جو چیزیں حرام کی ہیں وہ تو یہ ہیں: بے شرمی کے کام خواہ کھلے ہوں یا چھپے اور گناہ اور حق کے خلاف زیادتی اور یہ کہ اللہ کے ساتھ تم کسی کو شریک کرو جس کے لیے اُس نے کوئی سند نازل نہیں کی اور یہ کہ اللہ کے نام پر کوئی ایسی بات کہو جس کے متعلق تمہیں علم نہ ہو کہ وہ حقیقت میں اسی نے فرمائی ہے (سورة الأعراف33(   
کون سا نیا کام بدعت ہے، اور کونسا نہیں، اس کو جاننے کے لیے بہت اہم ہے کہ ہم شریعت کے اس اصول کو اچھی طرح سمجھیں کہ دینِ اسلام میں ہر چیز اصل میں مباح ہے (یعنی اس کی اجازت ہے تاوقتیکہ کسی نص کی بنیاد پر اُس کام کو اللہ نے حرام نہ قرار دیا ہو)- جب تک ایسی کوئی حرمت ثابت نہ ہو، اُس وقت تک شریعتِ محمدیہ میں اپنی ذاتی رائے/اجتہاد سے کیا گیا ہر نیا کام مباح رہتا ہے (چاہے رسول ﷺ نے اسے کرنے کا حکم دیا ہو یا ایسا کوئی حکم موجود نہ ہو)
کچھ شدت پسند حضرات ہر مباح عمل کو بدعت قرار دے کر مخالفت کرتے ہیں وہ سنن دارمی کی ابن مسعود والی ضعیف روایت سے استدلال لیتے ہیں- ان کے کے پاس لے دے کر اپنے مؤقف کی دلیل میں صرف ایک روایت ہے (ّجو صحابی ابن مسعود پر موقوف ہے)۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ اول تو یہ روایت ضعیف ہے ، اور دوم یہ کہ ابن مسعود کی اس روایت کے مقابلے میں اوپر رسول اللہ ﷺ سے براہ راست صحیح روایات نقل ہو چکی ہیں جن کے مقابلے میں اس ضعیف روایت کی کوئی اہمیت نہیں رہتی، اور سوم یہ کہ ابن مسعود سے ہی زیادہ مستند روایت مروی ہے جہاں انکا مؤقف “ذکر” کے متعلق اس روایت کی نفی کر رہا ہے۔ {سنن دارمی :1/68-69} ۔
اس روایت کا ایک راوی عمر ابن یحیی الھمدانی ہے جو کہ ضعیف ہے۔ حیرت ہے کہ یہ حضرات سب سے زیادہ “صحیح” حدیث کے ٹھیکیدار بنتے ہیں مگر جب انکا مقصد ہو تو روایت کے ضعف کوبہت اچھی طرح جانتے ہوئے بھی اسے گلے سے لگائے ہوتے ہیں۔
امام الذہبی اپنی کتاب المغنی فی الضعفاء میں راوی عمر ابن الھمدانی کے متعلق لکھتے ہیں:
4729 – عمرو بن يحيى بن عمرو بن سلمة قال يحيى بن معين ليس حديثه بشيء قد رأيته
یعنی امام یحیی ابن معین اسکے متعلق کہتے ہیں کہ اس کی حدیثیں کچھ نہیں ہیں۔ 
بدعت کے نام پر نفلی عبادات کو حرام ٹہرانا 
شدت پسند حضرات کا مسئلہ “الفاظ” کے الجھاو میں پھنس جانا ہے۔ اسی وجہ سے یہ بدعت کی شریعت میں “اصطلاحی”معنی کو رد کرتے ہوئے “لفظی” معنوں کے پیچھے پڑ گئے ہیں، اور اس وجہ سے بُرے طریقے سے “تضادات” کا شکار ہیں۔اس ظاہر پرستی کی وجہ سے انہوں نے اسلام میں بہت سے نفلی عبادتی افعال کو بھی بدعت و ضلالت بنا تے ہوئے اپنی نئی شریعت جاری کر دی ہے۔  
اسلام میں “نفلی عباداتی” افعال کا تصور 
نفلی عبادتی افعال وہ ہیں جو کہ شریعت کے کسی “بنیادی اصول” کے تحت جائز قرار پاتے ہیں ، (اور اس کی کوئی شرط نہیں کہ قرآن و سنت میں انکا کوئی براہ راست حکم پہلے سے موجود ہو )۔ صحابہ کرام ایسے “نئے ” نفلی عباداتی افعال اپنے اجتہاد کی بنیاد پر انجام دیتے تھے اور رسول اللہ ﷺ نے کبھی ان نئے افعال پر بدعت و ضلالت کا فتویٰ جاری نہیں کیا۔ مثلاً:
صحیح مسلم، کتاب الذکر و الدعاء (آنلائن لنک)
سیدنا ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ سیدنا معاویہؓ نے مسجد میں (لوگوں کا) ایک حلقہ دیکھا تو پوچھا کہ تم لوگ یہاں کیوں بیٹھے ہو؟ وہ بولے کہ ہم اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے بیٹھے ہیں۔ سیدنا معاویہؓ نے کہا اللہ کی قسم! کیا تم اسی لئے بیٹھے ہو؟ انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم! صرف اللہ کے ذکر کے لئے بیٹھے ہیں۔ سیدنا معاویہؓ نے کہا کہ میں نے تمہیں اس لئے قسم نہیں دی کہ تمہیں جھوٹا سمجھا اور میرا رسول اللہﷺ کے پاس جو مرتبہ تھا، اس رتبہ کے لوگوں میں کوئی مجھ سے کم حدیث کا روایت کرنے والا نہیں ہے (یعنی میں سب لوگوں سے کم حدیث روایت کرتا ہوں)۔ ایک دفعہ رسول اللہﷺ اپنے اصحاب کے حلقہ پر نکلے اور پوچھا کہ تم کیوں بیٹھے ہو؟ وہ بولے کہ ہم اللہ جل و علا کی یاد کرنے کو بیٹھے ہیں اور اس کی تعریف کرتے ہیں اور شکر کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں اسلام کی راہ بتلائی اور ہمارے اوپر احسان کیا۔ آپﷺ نے فرمایا، اللہ تعالیٰ کی قسم! تم اسی لئے بیٹھے ہو؟ وہ بولے کہ اللہ کی قسم! ہم تو صرف اسی واسطے بیٹھے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ میں نے تمہیں اس لئے قسم نہیں دی کہ تمہیں جھوٹا، سمجھا بلکہ میرے پاس جبرئیل علیہ السلام آئے اور بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری وجہ سے فرشتوں میں فخر کر رہا ہے۔
چنانچہ ثابت ہوا کہ: 
یہ صحابہ کرام اپنی مرضی سےمحفل میں حلقے بنا کر “ذکر” کر رہے تھے۔
اللہ کے رسول نے انہیں ایسا کرنے کا براہ راست کوئی حکم نہیں دیا تھا، بلکہ یہ صحابہ کرام کا اپنا اجتہاد تھا کہ بنیادی اصول اللہ کا ذکر کرنا ہے اور اسکا طریقہ یعنی محفل بنا کر ذکر کرنا عین مباح فعل ہے اور اسلام کی کسی بنیادی اصول سے نہیں ٹکراتا ہے۔
اس ذکر کی محفل کے “وقت” کا تعین بھی ان صحابہ نے اپنی مرضی سے کیا تھا کیونکہ انہیں علم تھا کہ شریعت کا کوئی ایسا اصول نہیں ہے جو ایسے اوقات میں ذکر کی محفل کرنے کو حرام ٹہراتا ہے۔
اور جب اللہ کے رسول ﷺ کو صحابہ کرام کے اس “نئے”نفلی عباداتی فعل کا علم ہوتا ہے تو آپ ﷺ اس پر بدعت و ضلالت کا فتویٰ لگانے کی بجائے ان صحابہ کرام کو فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی انکے اس “نئے فعل” کی وجہ سے فرشتوں میں فخر کر رہا ہے۔ 
اسلام میں کسی نئی سنتِ حسنہ یا نئی سنتِ سیئہ (بدعت) کا جاری کرنا 
صحيح مسلم ، کتاب العلم ، جابر بن عبداللہ انصاری روایت کرتے ہیں کہ کچھ عربی بدو رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے۔آپ ﷺ نے جب ان کو بری حالت میں دیکھا تو لوگوں کو کہا کہ اُن کو کچھ خیرات وغیرہ دیں، مگر لوگوں نے کچھ ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا، حتیٰ کہ رسول ﷺ کے چہرہ پر غصے کے آثار نمودار ہو گئے۔ پھر انصار میں سے ایک شخص اٹھا اور چاندی کے سکے دیے۔ پھر ایک اور شخص آیا اور پھر دوسرے لوگوں نے بھی اِس کام میں اُن کی پیروی کی، حتیٰ کہ رسول ﷺ کے چہرہ پر خوشی کے آثار نمودار ہو گئے۔ پھر رسول ﷺ نے فرمایا:اگر کسی شخص نے اسلام میں کسی سنتِ حسنہ کو متعارف کروایا، اور پھر دوسرے لوگوں نے بھی اس کی پیروی کی، تو اُس کو اُن لوگوں کے اجر کا ثواب بھی ملے اور اُن لوگوں کے اپنے ثواب میں بھی کوئی کمی نہ ہو گی۔ اور اگر کسی شخص نے اسلام میں کسی سنتِ سئیہ کو متعارف کروایا، اور دوسرے لوگوں نے بھی اس کی پیروی کی، تو اُس کو اُن لوگوں کا بھی گناہ ملے گا، اور اُن لوگوں کے اپنے گناہ میں بھی کوئی کمی نہ ہو گی۔
چنانچہ: 
ہر وہ نیا عمل، جو کہ دین کے اصولوں کے مطابق ہے اور اس کی تقویت کا باعث ہے، وہ سنتِ حسنہ کہلائے گا- (شدت پسند حضرات اسکو صرف خیرات تک محدود کر دیتے ہیں جو کہ غلط ہے۔ آگے صحابہ کرام کے مزید واقعات پیش ہوں گے جہاں انہوں نے نئےنفلی عباداتی افعال کیے اور رسول ﷺ نے اس پر بدعت و ضلالت کے فتوے نہیں لگائے بلکہ اس پر خوش ہوئےاور اجرِ کثیر کی بشارت دی)
اور ہر وہ نیا عمل، جو کہ دین کے اصولوں کے خلاف ہے اور اس کی بربادی کا باعث ہے، وہ سنتِ سئیہ یا پھر بدعتِ ضلالت (گمراہی) کہلائے گا۔
اسی طرح رسول اکرم ﷺ کی یہ حدیث ملاحظہ فرمائیں، کہ جس میں رسول ﷺ ہر نئے چیز کو مردود نہیں قرار دے رہے، بلکہ صرف اُن نئی چیزوں کو مردود قرار دے رہے ہیں، جن کی اصل دین میں نہیں ہے اور جو شریعت کے مطابق نہیں ہیں:
صحيح البخاري، کتاب الصلح:
حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا:جس نے اس امر (دین) میں ایسی نئی چیز کا اضافہ کیا جو کہ اس (امر) میں سے نہیں ہے، وہ چیز مردود ہے۔
پس رسول اللہ ﷺ نے ہر نئی چیز کو مردود نہیں قرار دیا، بلکہ صرف اُن نئی چیزوں کو مردود قرار دیا ہے جو اس امر (دین) میں سے نہیں ہیں، یعنی جو دین کے اصولوں کے مطابق نہیں ہیں۔اور ایسی تمام نئی چیزیں، جو اس امر (دین) سے ہیں (یعنی جن کی اصل دین میں پائی جاتی ہے اور جو دین کے اصولوں کے عین مطابق ہیں)، وہ مردود نہیں ہیں۔
صحابہ کرام نے اسی قانون پر عمل کرتے ہوئے، اپنے ذاتی اجتہاد اور رائے سے کئی نئےنیک مباح عباداتی افعال (سنتِ حسنہ) انجام دیے کہ جن کا نام لیکر رسول ﷺ نے انہیں کرنے کا کوئی حکم نہیں دیا تھا۔ مگر چونکہ وہ نئی چیزیں اس امر (دین) میں سے تھیں اور اس کے اصولوں کے مطابق تھیں، اس لیے جب رسول ﷺ کو ان نئے نفلی عباداتی افعال کا پتا چلا تو آپ نے اس پر اُن کو اجرِ عظیم کی بشارت عطا فرمائی۔ 
حضرت بلالؓ کا اذان کے بعداپنی طرف سے دو رکعت نماز ادا کرنے کا رواج 
حضرت بلالؓ کا فعل دیکھئے جہاں وہ اپنے اجتہاد کے مطابق اذان کے بعد دو رکعت نماز پڑھنے کا فعل اپنے اجتہاد کی بنیاد پر انجام دے رہے ہیں کیونکہ یہ ایک شریعت میں “مباح” عمل ہے۔ نیز وضو کرنے کے بعد بھی آپ اپنے ذاتی اجتہاد کے مطابق دو رکعت نماز پڑھتے تھے اور یہ بھی ایک نیا فعل تھا جو وہ اپنے اجتہاد سے انجام دیتے تھے۔امام حاکم نے اس روایت کو شیخین (بخاری و مسلم) کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے۔
مستدرک علی الصحیحین (آنلائن لنک)
1220 – أخبرنا أبو العباس القاسم بن القاسم السياري ، ثنا عبد الله بن علي الغزال ، ثنا علي بن الحسن بن شقيق ، ثنا الحسين بن واقد ، ثنا عبد الله بن بريدة ، عن أبيه ، قال : أصبح رسول الله – صلى الله عليه وآله وسلم – يوما ، فدعا بلالا ، فقال : ” يا بلال بم سبقتني إلى الجنة ؟ إني [ ص: 621 ] دخلت البارحة الجنة فسمعت خشخشتك أمامي ” . فقال بلال : يا رسول الله ، ما أذنت قط إلا صليت ركعتين ، وما أصابني حدث قط إلا توضأت عنده ، فقال رسول الله – صلى الله عليه وآله وسلم – : ” بهذا ” .
هذا حديث صحيح على شرط الشيخين ، ولم يخرجاه .
ترجمہ:
”اور حضرت بریدہ فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کے وقت فجر کی نماز کے بعد حضرت بلال کو طلب کیا اور (جب وہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ ‘کس عمل کے ذریعے تم نے جنت میں مجھ سے پیش روی اختیار کی ہے (کیونکہ) میں جب بھی جنت میں داخل ہوا تو اپنے آگے آگے تمہارے جوتوں کی آواز سنی؟ انہوں نے عرض کیا کہ ”یا رسول اﷲ ( صلی اللہ علیہ وسلم) ! میں نے جب بھی اذان دی ہے تو اس کے بعد دو رکعت نماز (ضرور) پڑھی ہے اور جب بھی میرا وضو ٹوٹا ہے میں نے اسی وقت وضو کر لیا اور میں نے اللہ کے واسطے دو رکعت نماز پڑھنی ضروری سمجھا ہے۔ (یعنی ہر وضو کے بعد پابندی کے ساتھ نماز پڑھنی میں نے اپنے اوپر لازم قرار دے رکھی ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ سن کر) فرمایا کہ ”اسی وجہ سے تم اس عظیم درجہ کو پہنچے ہو۔”
(امام حاکم فرماتے ہیں) یہ روایت شیخین (بخاری و مسلم) کی شرائط کے مطابق “صحیح”حدیث ہے۔
مزید حوالہ جات:
1۔ صحیح ابن خزیمہ
حضرت بلالؓ کی یہ روایت بخاری اور مسلم میں بھی موجود ہے جس میں حضرت بلال کا یہ اجتہاد درج ہے کہ وہ (وضو) کی پاکی حاصل کرنے کے بعد اپنے اجتہاد کے مطابق اتنی نماز پڑھتے تھے جتنی انکے مقدر میں لکھا ہوتا تھا۔
صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1150
ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا کہا ہم سے ابواسامہ حماد بن اسامہ نے انہوں نے ابو حیان یحیٰی بن سعید سے انہوں نے ابو زرعہ ہرم بن جریر سے انہوں نے ابو ہریرہؓ سے کہ نبیﷺ نے صبح کی نماز کے وقت بلالؓ سے فرمایا بلالؓ مجھ سے کہہ تو نے اسلام کے زمانے میں سب سے زیادہ امید کا کونسا نیک کام کیا ہے۔ کیونکہ میں نے بہشت میں اپنے آگے تیرے جوتوں کی پھٹ پھٹ کی آواز سنی۔ بلالؓ نے عرض کیا میں نے تو اپنے نزدیک اس سے زیادہ امید کا کوئی کام نہیں کیا کہ جب میں نے رات یا دن کسی وقت بھی وضو کیا تو میں اس وضو سے (نفل) نماز پڑھتا رہا جتنی میری تقدیر میں لکھی تھی۔
امام ابن حجر العسقلانی (جن کاخلف محدثین میں وہی مقام ہے جو امام بخاری کا سلف محدثین میں) بخاری کی اس روایت کی شرح میں لکھتے ہیں :
ويستفاد منه جواز الاجتهاد في توقيت العبادة، لأن بلالا توصل إلى ما ذكرنا بالاستنباط فصوبه النبي صلى الله عليه وسلم
ترجمہ:
اس حدیث میں جواز ہے کہ عبادات کے اوقات کے لیے (ممنوع کے علاوہ) انسان ذاتی اجتہاد کو استعمال کر سکتا ہے، کیونکہ بلالؓ اپنے استنباط کے تحت اس عمل کو کر رہے تھے اور رسول اللہ ﷺ نے (بعد میں پتا چلنے پر) انکی تائید کی۔
چنانچہ آپ دیکھ لیں کہ حضرت بلالؓ اپنے ذاتی اجتہاد سے اذان دینے کے بعد دو رکعت نماز ادا کرتے تھے اور اسی طرح وضو کرنے کے بعد بھی ہمیشہ اپنے اجتہاد کے مطابق نفل نماز ادا کرتے تھے۔ 
صحابی کا اپنے اجتہاد کے مطابق نماز میں “ذکر” کے نئے کلمات ادا کرنا 
صحیح بخاری، کتاب الاذان میں روایت درج ہے:
حدثنا عبد الله بن مسلمة عن مالك عن نعيم بن عبد الله المجمر عن علي بن يحيى بن خلاد الزرقي عن أبيه عن رفاعة بن رافع الزرقي قال كنا يوما نصلي وراء النبي صلى الله عليه وسلم فلما رفع رأسه من الركعة قال سمع الله لمن حمده قال رجل وراءه ربنا ولك الحمد حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه فلما انصرف قال من المتكلم قال أنا قال رأيت بضعة وثلاثين ملكا يبتدرونها أيهم يكتبها أول
ترجمہ:
ہم سے عبد اللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا انہوں نے امام مالک سے انہوں نے نعیم بن عبد اللہ مجمر سے انہوں نے علی بن یحییٰ بن خلاد زرقی سے انہوں نے اپنے باپ یحییٰ بن خلاد سے انہوں نے رفاعہ بن رافع زرقی صحابی سے انہوں نے کہا ہم ایک دن نبیﷺکے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے جب آپ نے رکوع سے سر اٹھایا تو فرمایا سمع اللہ لمن حمدہ ۔ایک شخص نے آپ کے پیچھے یہ (نئے) کلمات کہے” ربنا ولک الحمد حمدًا کثیرًا طیِّباً مبارکاً فیہ” جب آپ نماز پڑھ چکے تو پوچھا ۔یہ کلام کس نے کیا تھا وہ شخص بولا میں نے آپ نے فرمایا میں نے کچھ اوپر تیس فرشتوں کو دیکھا ہر ایک لپک رہا تھا کون پہلے اس کو لکھتا ہے ۔
حوالہ: صحیح بخاری، کتاب الاذان ، حدیث نمبر 800
ابن حجر العسقلانی (جن کے علمِ حدیث کے اہلحدیث حضرات تک قائل ہیں اور انکی کتاب فتح الباری تمام اہلحدیث مدارس میں پڑھائی جاتی ہے) اس حدیث کی شرح میں اپنی کتاب فتح الباری میں لکھتے ہیں:
واستدل به على جواز إحداث ذكر في الصلاة غير مأثور إذا كان مخالف للمأثور
ترجمہ:
“اس حدیث میں ثبوت ہے کہ صلوۃ میں ذکر کے ایسے نئے کلمات ادا کیے جا سکتے ہیں جو کہ حدیث سے نہ بھی پہنچے ہوں، تاوقتیکہ وہ کسی حدیث کے مخالف نہ ہوں۔”[ اجماع کے مطابق ایسا کوئی عمل نہیں کیا جاتا اتحاد مسلمین کے لیے]
حوالہ: فتح الباری
اس صحابی نے اپنے اجتہاد سے ایک نیا فعل انجام دیا جو کہ مباح کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ وہ قرآن و حدیث کے کسی اصول کے خلاف نہیں ہے۔ چنانچہ ایسے نئے افعال کو بدعت و ضلالت کہنا  چند شدت پسند حضرات کی سنت اور اپنی بنائی ہوئی شریعت تو ہو سکتی ہے مگر رسول اللہ ﷺ کی سنت یہ نہیں ہے۔  
حضرت خبیب ؓ کی سنت، قتل ہونے سے قبل دو رکعت نماز پڑھنے کا رواج بننا 
صحیح بخاری، کتاب الجہاد و السیر:
والله ما رأيت أسيرا قط خيرا من خبيب، والله لقد وجدته يوما يأكل من قطف عنب في يده، وإنه لموثق في الحديد، وما بمكة من ثمر وكانت تقول إنه لرزق من الله رزقه خبيبا، فلما خرجوا من الحرم ليقتلوه في الحل، قال لهم خبيب ذروني أركع ركعتين‏.‏ فتركوه، فركع ركعتين ثم قال لولا أن تظنوا أن ما بي جزع لطولتها اللهم أحصهم عددا‏.‏ ولست أبالي حين أقتل مسلما على أى شق كان لله مصرعي وذلك في ذات الإله وإن يشأ يبارك على أوصال شلو ممزع فقتله ابن الحارث، فكان خبيب هو سن الركعتين لكل امرئ مسلم قتل صبرا
یہ ایک طویل روایت ہے۔ حضرت خبیبؓ کو کفار نے پکڑ لیا اور انہیں قتل کرنے لگے تو اُس وقت یہ واقعہ پیش آیا کہ انہوں نے اپنے ذاتی اجتہاد سے کفار سے مہلت مانگی کہ انہیں قتل ہونے سے قبل دو رکعت نماز پڑھنے دی جائے۔ حضرت خبیبؓ کا یہ نیا فعل (جسکا قرآن وسنت میں پہلے سے کوئی حکم موجود نہیں تھا) اتنا پسندیدہ تھا کہ یہ رواج قید میں قتل کیے جانے والے ہر مسلمان کے لیے مسنون بن گیا:
حارث کی بیٹی نے کہا اللہ کی قسم! میں نے خبیب سے بہتر کوئی قیدی نہیں دیکھا اور اللہ کی قسم! میں نے تو ایک دن یہ دیکھا کہ انگور کا خوشہ ان کے ہاتھ میں تھا اور وہ انگور کھارہا تھا دراں حالیکہ وہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے اور اس وقت مکہ میں کوئی میوہ نہیں تھا اور وہ کہتی ہیں کہ یہ رزق من جانب اللہ نازل ہوا تھا جو اس نے خبیب کو دیا تھا پھر جب وہ لوگ حرم سے باہر چلے گئے تاکہ ان کو حرم کے باہر قتل کردیں تو خبیب نے ان سے کہا کہ مجھے اتنی مہلت دے دو کہ میں دو رکعت نماز پڑھ لوں اور انہوں نے ان کو چھوڑ دیا اور خبیب دو رکعت نماز سے فارغ ہو کر کہنے لگا کہ اگر تم کو یہ خیال نہ ہوتا کہ مجھے قتل کا خوف ہے تو ایک بہت لمبی نماز پڑھتا اور اے اللہ! ان کافروں کو گن گن کر مار (اور پھر کہا) مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے کہ میں حالت اسلام میں شہید کیا جا رہا ہوں جس پہلو پر بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں پچھاڑا جاؤں اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہے اگر وہ چاہے تو کٹے ہوئے اعضاء کے ٹکڑوں میں برکت دے دے۔ پھر ان کو ابن حارث نے قتل کردیا اور خبیب ہی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے ہر مرد مسلمان کے لیے جو قید کرکے قتل کیا جائے دو رکعت نماز مسنون کردی ہے۔ 
تراویح نماز ایک بہت نیک فعل ہے جس کا بہت بڑا اجر ہے۔ مگر:

رسول اللہ ﷺ نے رمضان کے دوران یہ تراویح فقط “تین” راتوں تک ادا فرمائی۔ حضرات یہ جواب دیں کہ انہیں یہ رمضان کی 30 راتوں والی تراویح کون سے قرآن یا حدیث میں ملتی ہے؟ (یاد رہے صحابہ کرام نے اپنے اجتہاد کے مطابق اس فعل کو 30 راتوں تک پھیلایا ہے، مگر کچھ حضرات کی ظاہر پرستی کی بیماری کے مطابق ایسے نئے افعال بدعت و ضلالت ہیں)۔

مزید یہ فرمائیں کہ انہوں نے باجماعت تراویح کی نماز کو فقط رمضان کی 30 راتوں تک ہی کیوں محدود کر دیا ہے۔ کیوں نہیں وہ پورے سال کے 365 دنوں یہ باجماعت تراویح کی نماز نہیں پڑھتے؟ کیا رسول اللہ ﷺ نے آپ کو بتلایا ہے کہ باجماعت تراویح کی اجازت فقط رمضان کی 30 راتوں کے لیے ہے اور بقیہ مہینوں میں یہ پڑھنا حرام ہے؟
چنانچہ رسول اللہ ﷺنے تو صرف 3 راتوں تک تراویح کی نماز ادا کی۔
یاد رکھیں، شریعت کو لے کر حضرت جبرئیل علیہ السلام صرف اور صرف رسول اللہ ﷺ کے پاس آتے تھے۔ یہ نہیں ہوا کہ شریعت کا کوئی حصہ کسی صحابی پر نازل کیا گیا ہو۔ اور جو خلفہ راشدین اور صحابہ کی سنت کی بات ہوتی ہے، اسکا مطلب ہوتا ہے کہ وہ صرف اور صرف رسول ﷺ کی سنت کی پیروی کر رہے ہوتے ہیں۔ چنانچہ صحابہ کرام نے اپنے اجتہاد کے مطابق اس “نئے” عباداتی فعل کو 30 راتوں تک پھیلایا ہے کیونکہ اس میں کوئی قباحت نہیں، مگر چند  حضرات کی ظاہر پرستی کی بیماری کی وجہ سے بنائی گئی خود ساختہ شریعت میں ہر نیا نفلی عبادتی فعل بھی بدعت و ضلالت ہے۔

بدعت کا اِصطلاحی مفہوم مزید واضح کرتے ہوئے فقہاءِ اُمت اور ائمۂ حدیث نے اس کی مختلف تعریفات پیش کی ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :

ابنِ حجر عسقلانی رحمہ اﷲ علیہ بدعت کا اِصطلاحی مفہوم ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :
المحدثه والمراد بها ما أحدث، وليس له أصلٌ في الشرع ويسمي في عرف الشرع ’’بدعة‘‘، وما کان له أصل يدل عليه الشرع فليس ببدعة، فالبدعة في عرف الشرع مذمومة بخلاف اللّغة : فإن کل شيء أحدث علي غير مثال يسمي بدعة، سواء کان محمودًا أو مذمومًا
’’محدثہ امور سے مراد ایسے نئے کام کا ایجاد کرنا ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو۔ اسی محدثہ کو اِصطلاحِ شرع میں ’’بدعت‘‘ کہتے ہیں۔ لہٰذا ایسے کسی کام کو بدعت نہیں کہا جائے گا جس کی اصل شریعت میں موجود ہو یا وہ اس پر دلالت کرے۔ شرعی اعتبار سے بدعت فقط بدعتِ مذمومہ کو کہتے ہیں لغوی بدعت کو نہیں۔ پس ہر وہ کام جو مثالِ سابق کے بغیر ایجاد کیا جائے اسے بدعت کہتے ہیں چاہے وہ بدعتِ حسنہ ہو یا بدعتِ سیئہ۔‘‘
ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 13 : 253
مذکورہ بالا تعریفات سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ ہر وہ نیا کام جس کی کوئی شرعی دلیل، شرعی اصل، مثال یا نظیر پہلے سے کتاب و سنت اور آثارِ صحابہ میں موجود نہ ہو وہ ’’بدعت‘‘ ہے، لیکن ہر بدعت غیر پسندیدہ یا ناجائز و حرام نہیں ہوتی بلکہ صرف وہی بدعت ناجائز ہوگی جو کتاب و سنت کے واضح احکامات سے متصادم ہو۔
اِسی مؤقف کی تائید کرتے ہوئے، معروف غیر ُمقلد عالم دین نواب صدیق حسن خان بھوپالی لکھتے ہیں :
البدعة الضلالة المحرمة هی التی ترفع السنة مثلها، والتی لا ترفع شيئا منها فليست هی من البدعة، بل هی مباح الأصل.
’’بدعت ضلالہ جو کہ حرام ہے وہ ہے جس سے کوئی سنت چھوٹ جائے اور جس بدعت سے کوئی سنت نہ چھوٹے وہ بدعت نہیں ہے بلکہ اپنی اصل میں مباح ہے۔‘‘
وحيد الزمان، هدية المهدی : 117

تراویح سے قبل اردو میں خلاصہ قرآن:
پڑھیں : قرآنِ مجید عربی میں کیوں نازل ہوا ؟ کیا قراآن سمجھ کر پڑھنا ضروری ہے؟

قرآن کو سمجھنا اور قرآن کی تعلیم سب مسلمانوں کی اجتمائی ذمہ داری ہے- چاہے کسی بھی فقہ کے مقلد ہوں یا غیر مقلد، ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے – کسی عمل صالح  سے مسمانوں کو بدعت کے نام سے محروم کرنا نا مناسب ہو گا- رمضان المبارک میں قرآن نازل ہوا، تلاوت قرآن ایک مسلسل عبادت ہے- عام درس قرآن میں چند عمر رسیدہ نمازی ہوتے ہیں ، جبکہ تراویح میں مسجد فل ہوتی ہے- تمام قسم کے لوگ مرد عورت، بوڑھے، جوان ، بچے موجود ہوتے ہیں- اسی لیے اکثر مساجد میں تراویح سے قبل خلاصہ مضامین پارہ قرآن پانچ دس منٹ میں پیش کیا جاتا ہے- کچھ مسلمان اپنی سمجھ کے مطابق، بدعت کے عزر پر اس احسن عمل کی مخالفت کرتے ہیں اور بہت شدت سے مگر ٢٥ یا ٢٧ رمضان کی شب ” تکمیل قران” (ختم قرآن) کی تقریب کو بدعت نہیں سمجھتے؟ در حقیقت جس کو جو اچھا لگتا ہے وہ جائز بن جاتا ہے اور جس کو دل نہ کرے تو تاویلیں نکال کر بدعت قرار دے کر مسترد کر دیا جاتا ہے- ہمیں قرآن کی سمجھ بوجھ اور تعلیم کا کوئی موقع ضا یع نہیں کرنا چاہیے-
قران کی آیات اور تعلیمات کو سب تک پہچانا ہمارا فرض ہے:
 
نَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَىٰ مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ ۙ أُولَـٰئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّـهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ ﴿١٥٩﴾
جو لوگ ہماری نازل کی ہوئی روشن تعلیمات اور ہدایات کو چھپاتے ہیں، درآں حالیکہ ہم انہیں سب انسانوں کی رہنمائی کے لیے اپنی کتاب میں بیان کر چکے ہیں، یقین جانو کہ اللہ بھی ان پر لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی اُن پر لعنت بھیجتے ہیں (2:159)
 
إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلَ اللَّـهُ مِنَ الْكِتَابِ وَيَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۙ أُولَـٰئِكَ مَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلَّا النَّارَ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّـهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿١٧٤﴾

حق یہ ہے کہ جو لوگ اُن احکام کو چھپاتے ہیں جو اللہ نے اپنی کتاب میں ناز ل کیے ہیں اور تھوڑے سے دُنیوی فائدوں پرا نہیں بھینٹ چڑھاتے ہیں، وہ دراصل اپنے پیٹ آگ سے بھر رہے ہیں قیامت کے روز اللہ ہرگز ان سے بات نہ کرے گا، نہ اُنہیں پاکیزہ ٹھیرائے گا، اور اُن کے لیے دردناک سزا ہے (2:174)

ہر عمل کو اس ڈھب پر اور اس نقطہ نظر سے نہیں دیکھا جاتا کہ یہ عمل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ہوتا تھا یا نہیں اور بعد میں کب شروع ہوا بلکہ اس کو پرکھنے کے لئے ہمیں یہ اَمر ملحوظِ خاطر رکھنا ہو گا کہ کسی عمل کی ہیئت کبھی رسم و رواج پر منحصر ہوتی ہے اور کبھی وقت کی ضرورتوں اور تقاضوں پر مبنی ہوتی ہے۔ کبھی اس کام میں کئی حکمتیں کارفرما ہوتی ہیں اور کبھی کئی مصلحتیں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔
غور و فکر کرنے کی بات یہ ہے کہ کیا اس نئے کام کی کوئی اصل قرآن و سنت سے ثابت ہے یا نہیں؟
کیا بلاواسطہ یا بالواسطہ اس کا کوئی ثبوت قرآن و سنت میں موجود ہے؟
یا پھر وہ کام اس لئے بھی قابل مذمت ٹھہرتا ہے کہ اس سے کسی واجب، سنت یا مستحب وغیرہ پر اثر پڑتا ہے یا اس کا ان کے ساتھ اختلاف یا تعارض رونما ہوتا ہے۔
اگر کسی عمل کی اصل قرآنِ حکیم یا سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہو جائے تو پھر وہ طعن و تشنیع اور گمراہی یا گناہ وغیرہ کا باعث نہیں رہتا اور اگر بفرضِ محال قرآن و سنت سے بالواسطہ یا بلاواسطہ ثابت نہ بھی ہو لیکن اس سے قرآن و سنت کی مخالفت نہ ہوتی ہو تو پھر بھی وہ کسی قسم کی قباحت کا باعث نہیں بنتا اور نہ ہی اس پر طعن و تشنیع جائز ہے ہاں صرف اس صورت میں کوئی بدعت ناجائز اور قبیح کے زمرے میں شامل ہو کر قابل مذمت ٹھہرے گی جب قرآن و سنت پر پرکھنے کے بعد یہ ثابت ہو جائے کہ یہ قرآن و سنت کی فلاں نص کے خلاف ہے یا شریعت کے فلاں حکم کی مخالفت میں ہے۔
بدعت کا معنی و مفہوم واضح کرتے ہوئے اِس پر بار بار زور دیا جاتا ہے کہ کوئی بھی نیا کام اس وقت ناجائز اور حرام قرار پاتا ہے جب وہ شریعتِ اسلامیہ کے کسی حکم کی مخالفت کر رہا ہو اور اسے ضروریاتِ دین سمجھ کر قابلِ تقلید ٹھہرا لیا جائے یا پھر اسے ضروریاتِ دین شمار کرتے ہوئے اس کے نہ کرنے والے کو گناہگار اور کرنے والے کو ہی مسلمان سمجھاجائے، تو اس صورت میں بلاشبہ جائز اور مباح بدعت بھی ناجائز اور قبیح بن جاتی ہے اور اگر جائز اور مستحسن بدعت میں ناجائز امور کو شامل کر دیا جائے جن کی رو سے روحِ اسلام کو نقصان پہنچ رہا ہو تو بلاشبہ وہ بدعت بھی قابلِ مذمت ہو گی اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اسے ہدفِ تنقیدو تنقیص بنانے کا کوئی جواز نہیں۔
چند مشہور اور رائج عام بدعتیں
  1. ایمانِ مفصل و ایمانِ مجمل، چھ کلمے وغیرہ بعد کے ادوار کے بزرگان دین نے مرتب کئے اور آج بھی تعلیمات دین کا بنیادی جزو ہیں۔
  2. قرآن پاک پراعراب حجاج بن یوسف نے لگوا یے تاکہ ایک قرات سے درست قرآن پڑھا جایے-
  3. عید میلاد النبی، درود و سلام اور محافل نعت جو کہ باقاعدہ طور پر بعد ازاں جاری کی گئیں امت مسلمہ کے دلوں میں جذبہ محبت و عشق رسول موجزن رکھنے میں معاون ثابت ہوئیں۔ (غیر اسلامی خرافات اس کا حصہ نہیں )
  4. مرحومین کے ایصال ثواب کے لیے قرآن اور حمدونعت خوانی کا اہتمام، خاص طور پر، قل ، چالیسواں وغیرہ-
  5. مساجد میں محراب، گنبد اور محراب وغیرہ کا آغاز پہلی دفعہ فاتح بیت المقدس سلطان صلاح الدین ایوبی کے دور میں ہوا۔ یہ بدعت بھی تمام اسلامی ممالک میں آج تک مستعمل ہے۔
  6. تبلیغی جماعت کے اجتماعات، جو بہت اچھے مقصد حاصل کر رہے ہیں.
  7. حضرت عمر رضی اللہ نے نماز تراویح کا اجراء کیا، اور نہت دور رس اجتہاد کیے جن کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی – << ملاحظہ کریں >>>
  8. <<کتابت حدیث>>

بدعت – اَحاديث و اَقوالِ اَئمہ کی روشنی ميں -Bidah-2

ہر عمل کو اس ڈھب پر اور اس نقطہ نظر سے نہیں دیکھا جاتا کہ یہ عمل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ہوتا تھا یا نہیں اور بعد میں کب شروع ہوا بلکہ اس کو پرکھنے کے لئے ہمیں یہ اَمر ملحوظِ خاطر رکھنا ہو گا

کچھ لوگوں کے مطابق “مشھور  بداہ، بدعات کی عظیم الشان فہرست”
  1. کچھ بدعات جو علماء نے مشہور کر رکھی ہیں درج ذیل ہیں- مگر بہت بڑی بدعت کا ذکر ہی نہیں … اگ مزید معلومات چائیں تو <<<وزٹ کریں>> 
  2. تلاوت کی گئی اجر کے ساتھ میت کو فائدہ پہنچانے کی خاطر قرآن کی تلاوت کرنا۔ اس میں لوگوں کی خدمات حاصل کرکے یا رشتہ داروں کو مدعو کرکے ، گروہ کے طور پر قرآن پاک کی تلاوت کرنا ، تلاوت کے بعد کھانے پر پھونک پھینکنا ، اور اس کھانے کو کسی شخص کی برسی کے موقع پر لوگوں کے ساتھ بانٹنا شامل ہے۔
  3. ہر سلام کے اختتام پر گروپ دعا کرنا۔ 
  4. ہر سلام کے اختتام پر کلمی iو اخلاص کا گروپی نعرہ لگانا۔ (سنت اللہ اکبر ، استغفر اللہ x 3 ، اور دوسرے مسنون دعا ، ، بشمول کلمہ ذاتی طور پر کہنا ہے)
  5. نماز جنازہ کے فورا بعد اجتماعی دعوے کرنا۔
  6. نماز جمعہ کے فردوس سے پہلے چار رکعت پڑھنا۔
  7. میلاد منانا (یوم پیدائش رسول)
  8. نوزائیدہ کے بائیں کان میں اقامت کہنا۔ (سنت اکیلے دائیں کان میں اذان کہنا ہے)
  9. شب بابرات منانا (شعبان کی 15 تاریخ)
  10. رات چڑھائی (مئی راج) (27 رجب) کو منانا
  11. 3 ، 10 ، 40 ویں اور سوگوار کی سالانہ یوم وفات پر سوگ
  12. پتھر ، کنکر یا پسند پر تسبیح (سبحان اللہ) ، تہلیل (لا الہٰ الاللہ  اور تمحید (الحمد للہ) کرنا اور ایک گروپ میں ایسا کرنا۔
  13. جمعہ کے لئے کل تین خطبہ کر رہے ہیں۔ ایک اردو میں اور دو عربی میں۔
  14. اولیاء کرام کا عرس (سالانہ تہوار) منانا۔
  15. اولیاء کے نام پر جانوروں کو قربان کرنا۔
  16. مرنے والوں ، سنتوں ، یا اللہ کے سوا کسی اور سے دُعا یا دعا۔ (اس میں یا علی ، یا حسین اور پسند والے نعرے شامل ہیں)
  17. بچپن یا غیر مسلم ہونے کی حالت میں چھوٹ جانے والی قضا نمازیں پڑھنا۔
  18. خوش قسمت توجہ ، تعویذات ، اور soothsayers (najomis) میں یقین یا استعمال کرنا۔
  19. دعا کے ارادے سے اونچی آواز میں کہنا۔
  20. قبروں پر یادگار بنانا۔ ٹھوس قبریں بنانا (اینٹوں اور پتھروں سے)
  21. محرم کے پہلے دس دن تک نکاح کی تقریبات نہ ہونے سے یا شہدائے کربلا کے سوگ پر سوگ۔
  22. عید کی نماز سے قبل خطبہ کرنا۔
  23. عید کی نماز اس انداز سے پڑھنا جو احادیث میں نہیں ملتی۔
  24. یہ ماننا کہ اللہ ہر جگہ ہے۔ (قرآن مجید کی متعدد آیات اور حدیث کی روایتوں میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ اللہ اپنے تخت سے بالاتر ہے۔ ای جی ، سورہ طہ ، آیت 5)
  25. یہ ماننا کہ اللہ بے شبیہ ہے اور بے بنیاد اور / یا اس کی صفات سے کفر کرتا ہے۔ (قرآن و سنت میں ہمیں اللہ کی کچھ جسمانی صفات ملتی ہیں۔ وہ جسمانی صفات کسی ایسی چیز کی طرح نہیں ہیں جس سے ہم موازنہ کرسکیں اور ایسی بھی ہیں کہ اسی کے مطابق وہ اس پر سوٹ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر قرآن اور سنت سے ذکر اللہ کے ہاتھ ، آنکھیں، پنڈلی لیکن ان سب کا موازنہ کسی اور بھی چیز سے نہیں کیا جاسکتا جو پیدا کیا گیا ہے۔
  26. طریقت ، ابدال اور اس طرح کے صوفی طریقہ کار پر یقین کرنا۔ 
  27. نمازختم کرنے کے بعد بائیں اور دائیں بائیں سے ایک کے ساتھ مصافحہ کرنا۔
  28. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام سن کر انگوٹھے چومنا
  29. اولیاء کرام کے مزارات کی زیارت کرنا۔
  30. رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اونچی آواز میں اور ایک گروہ کی حیثیت سے ہر سلام کے بعد سلام بھیجنا ، خاص طور پر سلامت الجماعت کے بعد –
  31. وضو کرتے وقت گردن کی پشت پر ہاتھ مسح کرنا (وضو)۔ 
  32. اس کے بعد شہادت پڑھتے ہوئے اوپر کی طرف دیکھا اور آسمان کی طرف اشارہ کیا۔ وضو کی تکمیل۔ (صرف شہادت پڑھنا سنت ہے)۔
  33. صلوٰت تسبیح پڑھتے ہوئے۔ (اس قسم کی دعا کے بارے میں کوئی مستند حدیث بات نہیں کرتی)
  34. عید کی نماز سے پہلے عید کے دن نوافل پڑھتے ہو۔
  35. یہ ماننا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد نبی یا رسول ہیں۔ (یہ کوئی مسلمان نہیں کرتا  کفر پر اجماع ہے )
  36. یہ ماننا کہ اولیاء ، نبی ، یا دوسرے لوگ اللہ کی خصوصیات کا اشتراک کرتے ہیں یا اللہ کی طرف سے انھیں خصوصی آزاد اختیارات حاصل ہیں۔ جیسے کہ یہ ماننا کہ سنتیں زندگی دے سکتی ہیں ، یا یہ کہ وہ جنت اور زمین کے مادی خزانوں کی کنجی رکھتے ہیں۔ اس میں یہ یقین بھی شامل ہے کہ نبی اکرم (ص) کو غیب کا مکمل اور مطلق علم تھا۔
  37. یہ عقیدہ کہ نبی اللہ کے نور (نور) سے پیدا ہوئے ہیں۔
  38. یہ ماننا کہ ساری دنیا اور اس میں موجود ہر چیز حضرت محمد مصطفی (ص) کے لئے پیدا کی گئی ہے۔ (قرآن پاک 51:56 سے رجوع کریں)
  39. یہ یقین رکھتے ہوئے کہ جو لوگ تقوی (جیسے سنتوں) کے ذریعہ اعلی درجہ کی صداقت کو حاصل کرتے ہیں انہیں اب شرعی ہدایات پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
  40. اچھے لوگوں کی تعریف میں مبالغہ آرائی۔
  41. نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعتیں (موسیقی) یا ایسے تکنیکوں کا استعمال کرکے جو گانے اور موسیقی سے ملتی ہیں۔ اس میں قوالی کا میدان بھی شامل ہے جو پاک بھارت خطے میں وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔
  42. اس دنیا کی کمائی کے واحد مقصد کے لئے دین سیکھنا۔
  43. تقلید کا تصور۔ (کسی امام کا انتخاب کرنا اور دین کے سارے معاملات میں تنہا اپنے احکام پر قائم رہنا)
  44. دینی معاملات کو دنیاوی معاملات سے الگ کرنا جیسے عیسائی نے ریاست اور چرچ کو الگ کرنے کے ساتھ کیا تھا۔
  45. جادو ، جادوگر ، کھجور کے ماہر ، ماہر نجومیات اور شماریات ،

 

  1. Saying Iqamah in the left ear of a new born. (The sunnah is to say the azaan in the right ear alone)
  2. Celebrating Shabe-ba’rat (15th of shaban)
  3. Celebrating the night of ascension (mi’raj) (27th of Rajab)
  4. Celebrating Mawlid (Birthday of the Prophet)
  5. Mourning on the 3rd, 10th, 40th and on the yearly death anniversary of the deceased
  6. Doing tasbeeh (Subhan Allah), tahleel (la ilaha ill lal la) and tamheed (Alhamduliah) on stone, pebbles or the likes and doing so in a group.
  7. Reciting quran for the sake of benefiting the deceased with the reward of what is recited. This includes reciting quran as group by hiring people or inviting relatives, blowing over the food after recitation, and sharing that food with people on the death anniversary of a person.
  8. Making group dua right after the funeral prayer.
  9. Praying four rakat before the fard of jummah prayers.
  10. Making group dua at the end of each salah. (We cannot find any reference where after each salah the Prophet would make a dua and the sahaba will repeat ameen after him. Post salah zikr and Individual duas are found in the authentic narrations)
  11. Making group chanting of kalmiatu ikhlas at the end of each salah. (sunnah is to say Allahu Akbar, Astagfurllah x 3, and other masnoon duas, including kalima on personal basis)
  12. Doing a total of three khutbahs for Jumma. One in urdu and two in Arabic.
  13. Celebrating Urs (yearly festival) of saints.
  14. Sacrificing animals in the name of saints.
  15. Praying or supplicating to the dead, the saints, or anyone else besides Allah. (This includes slogans like Ya Ali, Ya Hussain and the likes)
  16. Making up for missed salahs that were missed during the state of being a child or a non-muslim.
  17. Believing in or using lucky charms, amulets, and soothsayers (najomis).
  18. Saying out loud the intention for prayer.
  19. Making monuments on graves. Making solid graves (through brick and stones)
  20. Mourning the first ten days of Muharam by not having marriage ceremonies or by mourning the martyrs of Karbala.
  21. Doing a khutbah before eid prayers.
  22. Praying eid prayers in a manner not found in the ahadith.
  23. Believing that Allah is everywhere. (Numerous verses from the Quran and narrations from hadith clearly mention that Allah is above His throne. e-g, Surah Taha, Verse 5)
  24. Believing that Allah is without image and is formless and/or disbelieving in His attributes. (We find certain physical attributes of Allah in Quran and Sunnah. Those physical attributes are not like anything we can compare to and are such that they suite Him accordingly. For example, we know from Quran & Sunnah that Allah has  hands, eyes, shin but all of these cannot be compared to anything else that has been created.)
  25. Believing in the sufi methodology of tarikat, abdaals, and such. (These believes have no basis in sharia. search for ‘abdal’ on wikipedia for a general understanding of this concept)
  26. Shaking hands with the one on the left and right after finishing every salah.
  27. Kissing thumbs upon hearing the name of the Prophet (PBUH).
  28. Visiting shrines of the saints.
  29. Sending salam on the Prophet (PBUH) out loud and as a group after every salah, especially after salatul jummah like done by the Barelvi community.
  30. Wiping the hands on the back of the neck while doing ablution (wudu). (This practice cannot be found in the authentic ahadith)
  31. Looking up and pointing towards the sky while reciting the shahada (testimony of faith) after. completion of wudu. (only reciting the shahada is from the sunnah).
  32. praying salatul tasbeeh. (no authentic hadith talks about this kind of prayer)
  33. praying nawafil on eid day before eid prayers.
  34. Believing that there are Prophets or messengers after Muhammad (PBUH).
  35. Believing that saints, prophets, or other people share characteristics of Allah or have special independent powers from Allah. Such as believing that saints can give life, or that they hold keys to the material treasures of heaven and earth. This includes believing that the Prophet (PBUH) had complete and absolute Knowledge of the unseen.
  36. Belief that the Prophet was created from the Noor (light) of Allah.
  37. Believing that the whole world and everything in it was created for Prophet Muhammad (PBUH). (Refer to Quran 51:56)
  38. Believing that those who achieve the high level of righteousness through piety (like saints) no longer need to follow the guidelines of the sharia.
  39. Exaggeration in praising of the good people.
  40. Reciting Naats (Nasheeds/Priases) of the Prophet (PBUH) by using musical instruments or techniques which resemble songs and music. This includes the field of Qawali as found abundantly in Indo-Pakistan region.
  41. Learning religion for the sole purpose of earning this world.
  42. The concept of taqleed. (choosing an imam and sticking with his rulings alone in all the matters of the deen)
  43. Separating religious matters from worldly matters like the Christian did with segregation of state and church.
  44. Indulging in magic, soothsayers, palmists, astrologists and numerologists, whether you believe them or not.
  45. Sending blessings on the Prophet (PBUH) out loud before making each azan.
  46. Asking some one else to do istikahra for oneself. Paying some one to do Istikhara.
  47. Washing the limbs more than three times during wudu (ablution).
  48. Believing that only a black sheep can be given as sadaqa (charity).
  49. Believing that black color is associated with mourning, bad news, and sadness.
  50. Believing that the Prophet (PBUH) is everywhere and/or that he attends certain gatherings of ‘remembrance’.
  51. Believing that talking during making wudu (ablution) or smiling/laughing while with wudu invalidates the ablution.
  52. Believing in the altered concept of tawassul. For example, making dua to Allah that he grants you something by the name of His Prophet (PBUH).
  53. Source: https://completeconfusion.wordpress.com/2011/03/01/the-grand-list-of-common-bidahs/
………………………………
اللہ کا شکر ہے جس نے رمضان مبارک کا مہینہ عطا کیا، اللہ ہم سب کو اس مہ مبارک کی فضیلتوں سے ململ فایدہ اٹھانے کی توفیق دے آمین- صلات تراویح یا قیام اللیل میں خطیب و حفاظ مکمل قرآن کی تلاوت کرتے ہیں-اگرچہ مسلمان خود انفرادی طور پر بھی قرآن پڑھتے ہیں مگر تراویح کا اپنا ہی رتبہ ہے- قیامِ لیل، یعنی تراویح میں تلاوتِ قرآن، قرآن کی سماعت و قراء ت، قرآن سے شغف اور استفادے کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ قرآن بغیر سمجھے پڑھنا اور سننا بھی باعثِ اجروثواب اور قلب کو گرمانے کا وسیلہ ہے، لیکن اسی پر اکتفا کرنا ہرگز صحیح نہیں ہے۔  اکثریت عربی سے نابلد ہونے کی وجہ سے قران کو سمجھ نہیں سکتے مگر تجربہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر تراویح سے پہلے پانچ دس منٹ میں مختصر طور پر پارہ کا خلاصہ بیان کر دیں تو  مبتدی زیادہ توجہ سے تلاوت قرآن کو کچھ سمجھ سکتے ہیں- اکثر مساجد میں یہ اہتمام کیا جاتا ہے- اس سے قرآن کو سمجھنے کا فایدہ اور ثواب بھی ہو گا- کہیں تراویح دے پہلے اور کہیں تراویح کے بعد علماء کرام خلاصہ پیش کرتے ہیں- کچھ لوگ اس کو بدعت قرار دے کر ایسا نہیں کرتے-اسی مسجد میں ہفتہ میں دو تین مرتبہ نماز مغرب کے بعد درس قرآن ہوتا ہے ، کیا یہ بدعت ہے؟
ہم جانتے ہیں کہ نماز تراویح کو جب حضرت عمر رضی اللہ نے قایم کیا تو اس کو ” بدت حسنہ” قرار دیا- کچھ لوگ تو نماز تراویح کو ہی بدعت قرار دے کر مخالفت کرتے ہیں- یہ ایک لمبی نہ ختم نونے والی بحث ہے-
رمضان کی برکات کا زیادہ فائدہ اٹھانے کے لیے تجویز ہے کہ مسجد میں تراویح سے پہلے تلاوت والے پارہ کا  مختصرترجمہ ، خلاصہ پیش کر دے جائ جو قرآن کو سمجھنے (قرآن البقرہ ١٥١، ١٧٤ ) میں مدد گار ثابت ہو
اگر کوئی اس کو بدعت سمجھتا ہے مگر٢٥ یا ٢٧ رمضان کی شب ” تکمیل قران” (ختم قرآن) کی تقریب کو بدعت نہیں سمجھتا تو اس کی ذاتی راے ہی جس کا احترام ہے –در حقیقت جس کو جو اچھا لگتا ہے وہ جائز بن جاتا ہے اور جس کو دل نہ کرے تو تاویلیں نکال کر بدعت قرار دے کر مسترد کر دیا جاتا ہے- ہمیں قرآن کی سمجھ بوجھ اور تعلیم کا کوئی موقع ضا یع نہیں کرنا چاہیے-
[بدعت کے نام پر نفلی عبادات، اچھے عمل سے روکنا- ملاحظہ کریں : https://goo.gl/rKje2H ]
مسجد کے متعلقہ افراد میں ایسا شخص خلاصہ پڑھ سکتا ہے جو اس عمل کو مسلمانوں کی تعلیم قرآن اور سمجھ کے لیے اچھا سمجھتا ہو-
انَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَىٰ مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ ۙ أُولَـٰئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّـهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ ﴿١٥٩﴾
جو لوگ ہماری نازل کی ہوئی روشن تعلیمات اور ہدایات کو چھپاتے ہیں، درآں حالیکہ ہم انہیں سب انسانوں کی رہنمائی کے لیے اپنی کتاب میں بیان کر چکے ہیں، یقین جانو کہ اللہ بھی ان پر لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی اُن پر لعنت بھیجتے ہیں (2:159) 
إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلَ اللَّـهُ مِنَ الْكِتَابِ وَيَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۙ أُولَـٰئِكَ مَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلَّا النَّارَ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّـهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿١٧٤﴾
حق یہ ہے کہ جو لوگ اُن احکام کو چھپاتے ہیں جو اللہ نے اپنی کتاب میں ناز ل کیے ہیں اور تھوڑے سے دُنیوی فائدوں پرا نہیں بھینٹ چڑھاتے ہیں، وہ دراصل اپنے پیٹ آگ سے بھر رہے ہیں قیامت کے روز اللہ ہرگز ان سے بات نہ کرے گا، نہ اُنہیں پاکیزہ ٹھیرائے گا، اور اُن کے لیے دردناک سزا ہے (2:174) 
مَّن يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُن لَّهُ نَصِيبٌ مِّنْهَا ۖ وَمَن يَشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَكُن لَّهُ كِفْلٌ مِّنْهَا ۗ وَكَانَ اللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ مُّقِيتًا (النسا،85)

ترجمہ : جو بھلائی کی سفارش کریگا وہ اس میں سے حصہ پائے گا اور جو برائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا، اور اللہ ہر چیز پر نظر رکھنے والا ہے (قرآن ;4:85)

بدعت – اَحاديث و اَقوالِ اَئمہ کی روشنی ميں -Bidah-2

ہر عمل کو اس ڈھب پر اور اس نقطہ نظر سے نہیں دیکھا جاتا کہ یہ عمل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ہوتا تھا یا نہیں اور بعد میں کب شروع ہوا بلکہ اس کو پرکھنے کے لئے ہمیں یہ اَمر ملحوظِ خاطر رکھنا ہو گا

———————————————————————————–

……………………………..
 “اسلام کی تعمیر میں اصول حرکت”   
علامہ محمد اقبال کے خطبات ” “اسلام میں تفکر کا انداز جدید” میںچھٹا لیکچر”اسلام کی تعمیر میں اصول حرکت” ان کے تمام لیکچروں میں سب سے زیادہ اہم ہے کیوں کہ اقبال کا “اسلامی تفکر جدید” کا تصور اسی موضوع کے گرد گھومتا ہے جو کہ “اجتہاد” یعنی قانونی معاملات پر آزادانہ رایے قائم کرنا- قرآن سے ماخوز قانونی اصول، بدلتے  زمانہ اور حالات کے مطابق پھیلاؤ اور ترقی کی صلاحیت رکھتے ہیں-  حضرت عمر رضی اللہ نے حالات کے مطابق اجتہاد کیا. چہار فقہی مکاتب کے بعد اسلامی فقہ جمود کا شکار ہو گیا  کیونکہ مختف وجوہ کی بنا پر اجتہاد کے دروازے بند کر دیے گیۓ. اس سے مسلم امت کو کچھ فائدے مگر نقصانات زیادہ ہوے. کچھ علماء نے اس جمود کو توڑنے کی کوشش کی .
شاہ ولی اللہ کے مطابق (بنیادی عقاید کے علاوہ) عام شریعیت اس وقت کے معاشرہ کی ضروریات کے مد نظر تھیں اور ان پر عمل ہمیشہ کے لیے حتمی نہیں کہ مستقبل کی نسلوں پرمکمل طور اسی طرح  پر نافذ کیا جا سکے. اس لیے امام ابو حنیفہ نے “استحسان” اختیار کیا- اقبال اس نتیجہ پر پہنچے کہ آج کے مسلمان موجودہ حالات کے مطابق اپنی معاشرتی زندگی کی ‘تعمیر نو’ اسلام کے بنیادی اصولوں کی روح کے مطابق کریں-  <<چھٹا خطبہ>> اس پر روشنی ڈالتا ہے
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

بسم الله الرحمن الرحيم
 لآ اِلَهَ اِلّا اللّهُ مُحَمَّدٌ رَسُوُل اللّهِ

شروع اللہ کے نام سے، ہم اللہ کی حمد کرتے ہیں اس کی مدد چاہتے ہیں اوراللہ سے مغفرت کی درخواست کر تے ہیں. جس کواللہ ھدایت دے اس کو کوئی  گمراہ نہیں کرسکتا اورجس کو وہ گمراہی پر چھوڑ دے اس کو کوئی ھدایت نہیں دے سکتا. ہم شہادت دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، محمد ﷺ اس کے بندے اورخاتم النبین ہیں اور انﷺ کے بعد کوئی نبی یا رسول نہیں ہے. درود و سلام ہوحضرت محمّد ﷺ  پر اہل بیت (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اور اصحاب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اجمعین  پر. جو نیکی وه کرے وه اس کے لئے اور جو برائی وه کرے وه اس پر ہے، اے ہمارے رب! اگر ہم بھول گئے ہوں یا خطا کی ہو تو ہمیں نہ پکڑنا.