یہود و نصاریٰ نے اپنے ربیوں اور علماء کو خدائی کا درجہ دے رکھا تھا – پوپ کو تو اب بھی لا محدود اختیارات حاصل ہیں- انہی کے نقش قدم پر مسلمانوں کے کچھ نام نہاد علماء چل نکلے ارادی یا غیرارادی طور پر- ایسے لوگوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے ظاہری شکل اور لباس (لمبی دھاڑی، ٹخننے سے اونچی شلوار) سے ہر کوئی عالم دین نہیں بن جاتا-
ایسے باطل علماء کو حضرت محمد ﷺ نے معراج میں دیکھا:
ثم اتی علی قوم تقرض السنتہم وشفاہہم بمقاریض من حدید فقال ماہذا یا جبریل ؟فقال ہؤلاء خطبا ء الفتنۃ (ابن کثیر جلد۳ صفحہ ۱۸)
پھر آپ اایسی قوم پر آئے جن کے ہونٹوں اور زبانوں کو جہنم کے لوہے کے مقراضوں سے کاٹ رہے تھے حضورﷺ انے فرمایا اے جبرائیل یہ کون لوگ ہیں؟ جبرائیل ؑ نے عرض کیا یہ آپ ا کی امت کے شرارتی علماء ہیں۔ (معراج)
اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا (قران ، التوبہ 9:31)
انہوں نے اپنے علماء اور مشائخ اور راہبوں کو رب بنا ڈالا
’احبار‘، ’حبر‘ کی جمع ہے جس کا غالب استعمال یہود کے فقہا کے لیے ہوا ہے۔ ’رھبان‘، ’راھب‘ کی جمع ہے۔ یہ نصاریٰ کے مشائخ اور صوفیوں کے لیے معروف ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عَدِی بن حاتِم، جو پہلے عیسائی تھے، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہو کر مشرف با اسلام ہوئے تو انہوں منجملہ اور سوالات کے ایک یہ سوال بھی کیا تھا کہ اس آیت میں ہم پر اپنے علماء اور درویشوں کو خد ا بنا لینے کا جو الزام عائد کیا گیا ہے اس کی اصلیت کیا ہے۔ جواب میں حضور نے فرمایا کہ یہ واقعہ نہیں ہے کہ جو کچھ یہ لوگ حرام قرار دیتے ہیں اسے تم حرام مان لیتے ہو اور جو کچھ یہ حلال قرار دیتے ہیں اسے حلال مان لیتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ یہ تو ضرور ہم کرتے رہے ہیں۔ فرمایا بس یہی ان کو خد ا بنا لینا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کتاب اللہ کی سند کے بغیر جو لوگ انسانی زندگی کے لیے جائز و ناجائز کی حدود مقرر کرتے ہیں وہ دراصل خدائی کے مقام پر بزعمِ خود متمکن ہوتے ہیں اور جو ان کے اس حقِ شریعت سازی کو تسلیم کرتے ہیں وہ انہیں خدابناتے ہیں۔
یہ ظاہر کرتا ہے کہ علماء کی اندھی تقلید گمراہی کی طرف بھی لے سکتی ہے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۗ (قران ، التوبہ 9:34)
اے ایمان والو، ان فقیہوں اور راہبوں میں بہتیرے ایسے ہیں جو لوگوں کا مال باطل طریقوں سے ہڑپ کرتے اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں
وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا وَإِيَّايَ فَاتَّقُونِ ﴿٤١﴾
تھوڑی قیمت پر میری آیات کو نہ بیچ ڈالو او ر میرے غضب سے بچو (2:41)
قَالَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَیَّ مِمَّا یَدْعُونَنِی إِلَیْہِ وَإِلَّا تَصْرِفْ عَنِّی کَیْدَہُنَّ أَصْبُ إِلَیْہِنَّ وَأَکُنْ مِنَ الْجَاہِلِینَ یوسف نے کہا اے میرے رب ، قید مجھے منظور ہے بہ نسبت اس کے کہ میں وہ کام کروں جو یہ لوگ مجھ سے چاہتے ہیں۔ اور اگر تو نے ان کی چالوں کو مجھ سے دفع نہ کیا تو میں ان کے دام میں پھنس جاؤں گاور جاہلوں میں شامل ہو جاوں گا۔ (یوسف: 33)
یعنی ظالم صرف یہی ستم نہیں کرتے کہ فتوے بیچتے ہیں، رشوتیں کھاتے ہیں، نذرانے لوٹتے ہیں ، ایسے ایسے مذہبی ضابطے اور مراسم ایجاد کرتے ہیں جن سے لوگ اپنی نجات اِن دے خریدیں اور اُن کا مرنا جینا اور شادی و غم کچھ بھی اِن کو کھلائے بغیر نہ ہو سکے اور وہ اپنی قسمتیں بنانے اور بگاڑنے کا ٹھیکہ دار اِن کو سمجھ لیں۔ بلکہ مزید براں اپنی اِنہی اغراض کی خاطر یہ حضرات خلقِ خدا کو گمراہیوں کے چکر میں پھنسا ئے رکھتے ہیں اور جب کبھی کوئی دعوتِ حق اصلا ح کے لیے اُٹھتی ہے تو سب سے پہلے یہی اپنی عالمانہ فریب کاریوں اور مکاریوں کے حربے لے لے کر اس کا راستہ روکنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔(تفہیم القرآن)
یہاں علماء اور مشائخ کے کردار کو بے نقاب کیا ہے تاکہ یہ حقیقت سامنے آ جائے کہ جن کے علماء اور مشائخ کا کردار اس درجہ فاسد ہو چکا ہے ان کے عوام کا کیا ذکر اور اب ان کی اصلاح کی کیا توقع! اصلاح کا یہ ذریعہ علماء و مشائخ ہی ہو سکتے تھے۔ جب وہی مال و دولت کے پجاری بن کر رہ گئے ہیں تو اصلاح کن کے ہاتھوں ہو گی۔ علمائے اہل کتاب کی زرپرستی: یہود کے ہاں قضا اور افتاء وغیرہ کے تمام مناصب ان کے علماء اور فقہا ہی کے ہاتھ میں تھے۔ اور عیسائیوں کے پادری تو لوگوں کو نجات کے پروانے تک بانٹنے کے مجاز تھے پھر اس پر مستزاد یہ کہ ان لوگوں نے صدقات و زکوٰۃ وغیرہ کی آمدنیوں کا مصرف اپنے آپ کو قرار دے لیا تھا اس وجہ سے ان کے لیے ناجائز ذرائع سے دولت سمیٹنے کے نہایت وسیع دروازے کھلے ہوئے تھے۔ سودی کاروبار بھی انھوں نے کھلے بندوں اختیار کر رکھا تھا۔ قرآن میں یہ اشارہ بھی ہے کہ غیر اسرائیلیوں کے مال کو یہ شیر مادر سمجھتے تھے۔
علماء و مشائخ پر اللہ کی طرف سے تو یہ فریضہ عاید کیا گیا ہے کہ وہ لوگوں کو اللہ کا راستہ دکھائیں لیکن یہ اپنی ساری قابلیت لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکنے پر صرف کر رہے ہیں اور ہادی و مرشد بننے کے بجائے سیدنا مسیحؑ کے الفاظ میں رہزن اور بٹ مار بن گئے ہیں۔ سورۂ بقرہ میں علماء یہود کی ان مفسدانہ کوششوں کا ذکر تفصیل سے ہو چکا ہے جو انھوں نے لوگوں کو اسلام سے روکنے کے لیے کیں
حضرت ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس سے علم کی کوئی بات پوچھی گئی اور اس نے اُسے چھپایا (جانتے ہوئے نہ بتایا) تو قیامت کے دِن اس کو آگ کی لگام پہنائی جائے گی۔ (ابو داوُد، ترمذی، کتاب العلم، حدیث نمبر(41 )
بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اکرم ﷺ نے فرمایا اس وقت تک مجھ سے حدیث بیان نہ کرو جب تک تمہیں صحیح علم نہ ہو (یا د رکھو) جس آدمی نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنالے۔ (ترمذی، باب کتاب العلم(44)
————–
قرآن کو چھوڑ کر اسلام سے دوری :
وَعَنْ عَلِیِّ رَضِیَ اﷲُعَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ یُوْشِکُ اَنْ یَّاْتِیَ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَا یَبْقَی مِنَ الْاِسْلَامِ اِلَّا اسْمُہۤ وَلَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرْاٰنِ اِلَّا رَسْمُہ، مَسَاجِدُ ھُمْ عَامِرَۃٌ وَھِیَ خَرَابٌ مِنَ الْھُدٰی عُلَمَآءُ ھُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ اٰدِیْمِ السْمَآءِ مِنْ عِنْدِھِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَۃُ وَفِیْھِمْ تَعُوْدُ۔ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان)
” اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ عنقریب لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ اسلام میں صرف اس کا نام باقی رہ جائے گا اور قرآن میں سے صرف اس کے نقوش باقی رہیں گے۔ ان کی مسجدیں (بظاہر تو) آباد ہوں گی مگر حقیقت میں ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماء آسمان کے نیچے کی مخلوق میں سے سب سے بدتر ہوں گے۔ انہیں سے (ظالموں کی حمایت و مدد کی وجہ سے ) دین میں فتنہ پیدا ہوگا اور انہیں میں لوٹ آئے گا (یعنی انہیں پر ظالم) مسلط کر دیئے جائیں گے۔” (بیہقی)
یہ حدیث اس زمانہ کی نشان دہی کر رہی ہے جب عالم میں اسلام تو موجود رہے گا مگر مسلمانوں کے دل اسلام کی حقیقی روح سے خالی ہوں گے، کہنے کے لئے تو وہ مسلمان کہلائیں گے مگر اسلام کا جو حقیقی مدعا اور منشاء ہے اس سے کو سوں دور ہوں گے۔ قرآن جو مسلمانوں کے لئے ایک مستقل ضابطۂ حیات اور نظام علم ہے اور اس کا ایک ایک لفظ مسلمانوں کی دینی و دنیاوی زندگی کے لئے راہ نما ہے۔ صرف برکت کے لئے پڑھنے کی ایک کتاب ہو کر رہ جائے گا۔ چنانچہ یہاں ” رسم قرآن” سے مراد یہی ہے کہ تجوید و قرأت سے قرآن پڑھا جائے گا، مگر اس کے معنی و مفہوم سے ذہن قطعاً نا آشنا ہوں گے، اس کے اوامر و نواہی پر عمل بھی ہوگا مگر قلوب اخلاص کی دولت سے محروم ہوں گے۔
مسجدیں کثرت سے ہوں گی اور آباد بھی ہوں گی مگر وہ آباد اس شکل سے ہوں گی کہ مسلمان مسجدوں میں آئیں گے اور جمع ہو قرآنں گے لیکن عبادت خداوندی، ذکر اللہ اور درس و تدریس جو بناء مسجد کا اصل مقصد ہے وہ پوری طرح حاصل نہیں ہوگا۔
اسی طرح وہ علماء جو اپنے آپ کو روحانی اور دنی پیشوا کہلائیں گے۔ اپنے فرائض منصبی سے ہٹ کر مذہب کے نام پر امت میں تفرقے پیدا کریں گے، ظالموں اور جابروں کی مدد و حمایت کریں گے۔ اس طرح دین میں فتنہ و فساد کا بیج بو کر اپنے ذاتی اغراض کی تکمیل کریں گے۔ (مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ علم کا بیان ۔ حدیث 263)
—————–