“انشاء اللہ” یا “ان شاء اللہ” In Sha Allah

سوشل میڈیا اس دور میں  انفارمیشن کا انقلاب لایا ہے – دین کے  معامله میں جید علماء کی  مستند کتب کا مطالعہ کیا جاتا تھا ، عوام دین کے اختلافی مسائل  علماء کی صوابدید چھوڑ دیتے تھے- مگر سوشل میڈیا پر ہزاروں ، لاکھوں عوام محدود دینی علم کے ساتھ فتوے جاری کرتے نظر آتے ہیں- شروع سے اردو میں “ان شاء اللہ” عربی سے دخیل ہوا  اور اردو میں “انشاء اللہ”  لکھنے کا رواج  پڑا ، بڑے بڑے علماء کی تفاسیر اور کتب دیکھیں تو اکثر  “انشاء اللہ” ہی لکھا ملے گا – سوشل میڈیا پر ایک بحث یہ بھی ہے کہ “انشاء اللہ “لکھنا غلط ہے بلکہ شرک اور کفر ہے ، درست طریقہ ہے کہ “ان شاء اللہ” لکھا جائے- دلائل کا ڈھیر بھی موجود ہے – کیاپرانے علماء اس حقیقت سے لا علم تھے ؟ کیا ان کو عربی نہیں آتی تھی؟ ممکن ہے کہ وہ غلطی پر ہوں! اس معاملہ کا جائزہ لیا تو 7  آراء ملیں –

خلاصہ تحققیق :

دراصل اردو اور عربی الگ الگ زبانیں ہیں ، لہذا الفاظ کے معانی ، ہجے، صرف و نحو بھی مختلف ہیں۔ جو مفہوم عربی لفظ “ان شاءاللہ” کے ذریعے ادا ہوتا ہے بعینہ یہی معنی و مفہوم عرصہ دراز سے اردو لغات میں لفظ “انشاءاللہ” کے ذریعے بیان ہوا ہے۔ اردو میں چونکہ عربی “ان شاء اللہ” دخیل ہوااور اس کو اردو میں “انشاء اللہ ” لکھنے کا رواج ہوگیا  لیکن  عربی معنی میں کوئی تبدیلی کے بغیر-  “مجھ سے” کو اگر کوئی  “مجھسے” لکھ دے تو  اس کا معنی بھی نہیں بدلتا تو معلوم ہوا کہ “ان شاء اللہ” کو اگر کوئی ” انشاء ﷲ” لکھتا ہے تو معنی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی-  انشاء اللہ لکھنا بھی صحیح ہے کہ ہم عربی نہیں اردو زبان میں لکھ رہے ہیں ، لفظ کے معنی وہ ہوتے ہیں جو اس دور میں مروجہ زبان میں دخیل لفظ کو لوگ سمجھتے ہوں۔ 

عربی میں لکھنے کادرست طریقہ تو “ان شاء اللہ” ہی ہے،مگر جو لوگ اردو میں “انشاء اللہ” لکھتے ہیں ان کے پیش نظر بھی “اللہ کا پیدا کیا ہوا” معنی نہیں ہوتا ۔اگر ہم اسی طرح املا کی غلطی سے ہر لفظ کا دوسرا معنی لینے لگ جائیں تو بات بہت پھیل جائے گی اور سینکڑوں الفاظ تک اس قاعدے کا دائرہ پھیل جائے گا ،اس لیے بہتر یہی ہے لوگوں کو ان کی عام اور مانوس عادت پر چھوڑ دیا جائے کیونکہ عادت جب پختہ ہوجاتی ہے تو اس میں تبدیلی بہت مشکل ہوجاتی ہے – بلكه فتاوی کی مشہور کتاب شامی میں ہے کہ :

“الخطأ المشہور أولی من الصواب المہجور”

مطلب یہ ہے کہ ایک لفظ غلط ہے مگر عوام میں رواج پاچکا ہے تو وہ اس سےبہتر ہے جو درست ہے مگر لوگ اسے چھوڑ چکے ہیں- اس کی تصدیق رسول الله صلعم کا حطیم کو   حقیقت اور خواہش کے باوجود کعبہ میں شامل نہ کرنا تھا -( مفھوم صحیح مسلم : 3244)

ویسے بھی دخیل الفاظ کو اصل زبان کے نہیں بلکہ اردو کے قوائد اورمروج معنی کے مطابق دیکھا جایے گا ، اگر کوئی عربی میں ہی اردو لکھنے پر مطمئن ہے تو وہ بھی درست ہے – واللہ اعلم


اردو میں دوسری زبانوں کے دخیل’’ الفاظ کے قوائد :

اردو زبان میں جو دوسری زبانوں کے الفاظ شامل ہوتے ان پر اردو کے قوائد نافذ ہوتے ہیں- غیر زبانوں کے جو لفظ کسی زبان میں پوری طرح کھپ جاتے ہیں، انھیں ‘‘دخیل’’ کہا جاتا ہے۔ اصول یہ ہے کہ صرف اور نحو کے اعتبار سے دخیل لفظ اور غیر دخیل لفظ میں کوئی فرق نہیں۔جب کوئی لفظ ہماری زبان میں آگیا تو وہ ہمارا ہوگیا اور ہم اس کے ساتھ وہی سلوک روا رکھیں گے جو اپنی زبان کے اصلی لفظوں کے ساتھ روا رکھتے ہیں، یعنی اسے اپنی مرضی اور سہولت کے مطابق اپنے رنگ میں ڈھال لیں گے اور اس پر اپنے قواعد جاری کریں گے۔ لہٰذا یہ بالکل ممکن ہے کہ کسی دخیل لفظ کے معنی، تلفظ، جنس یا املا ہماری زبان میں وہ نہ ہوں جو اس زبان میں تھے جہاں سے وہ ہماری زبان میں آیا ہے۔ اردو میں عملاً اس اصول کی پابندی تقریباً ہمیشہ ہو ئی ہے۔

اردو میں دخیل الفاظ بہت ہیں اور دخیل الفاظ کے ذخیرے سے بھی بہت بڑا ذخیرہ ایسے الفاظ کا ہے جو دخیل الفاظ پر تصرف کے ذریعہ بنائے گئے ہیں۔ یہ تصرف کئی طرح کا ہو سکتا ہے۔

(1) غیر زبان کے لفظ پر کسی اور زبان کے قاعدے سے تصرف کر کے نیا لفظ بنانا۔ اس کی بعض مثالیں ہیں: فارسی لفظ ‘‘رنگ’’ پر عربی کی تاے صفت لگا کر ‘‘رنگت’’ بنا لیا گیا۔ فارسی ‘‘نازک’’ پر عربی قاعدے سے تاے مصدر لگا کر ‘‘نزاکت’’ بنا لیا گیا۔ عربی لفظ ‘‘طرفہ’’ پر فارسی کی علامت فاعلی لگا کر ‘‘طرفگی’’ بنایا گیا۔ فارسی لفظ ‘‘دہ /دیہہ’’ پر عربی جمع لگا کر ‘‘دیہات’’ بنایا اور اسے واحد قرار دیا۔ عربی لفظ ‘‘شان’’ کے معنی بدل کر اس پر فارسی کا لاحقہِ کیفیت لگایا اور ‘‘شاندار’’ بنا لیا۔ عربی لفظ ‘‘نقش’’ پر خلاف قاعدہ تاے وحدت لگا کر ‘‘نقشہ’’ بنا یا، اس کے معنی بدل دیے، اور اس پر فارسی لاحقے لگا کر ‘‘نقشہ کش/نقش کشی؛ نقشہ نویس/ نقشہ نویسی؛ نقشہ باز’’ وغیر بنا لیے۔ عربی لفظ ‘‘تابع’’ پر فارسی لاحقہ ‘‘دار’’ لگا لیا اور لطف یہ ہے معنی اب بھی وہی رکھے کیوں کہ ‘‘تابع’’ اور ‘‘تابع دار’’ ہم معنی ہیں۔

(2) غیر زبان کے لفظ پر اپنی زبان کے قاعدے سے تصرف کرنا۔ اس کی بعض مثالیں حسب ذیل ہیں: عربی ‘‘حد’’ پر اپنا لفظ ‘‘چو’’ بمعنی ‘‘چار’’ اضافہ کیا ، پھر اس پر یاے نسبتی لگا کر ‘‘چو حدی’’ بنا لیا۔ عربی لفظ ‘‘جعل’’ کے معنی تھوڑا بدل کے اس پر اردو کی علامت فاعلی لگا کر ‘‘جعلیا’’ بنایا گیا۔ فارسی کی علامت فارعلی لگا کر ‘‘جعل ساز’’ بھی بنا لیا گیا۔ عربی لفظ ‘‘دوا’’ کو ‘‘دوائی’’ میں تبدیل کر کے اس کی جمع اردو قاعدے سے ‘‘دوائیاں’’ بنائی۔فارسی لفظ ‘‘شرم’’ پر اپنا لاحقہِ صفت بڑھا کر ‘‘شرمیلا’’ بنا لیا۔ فارسی لفظ ‘‘بازار’’ پر اردو لفظ ‘‘بھاؤ’’ لگا کر اردو قاعدے کی اضافت بنا لی گئی؛ ‘‘بازار بھاؤ’’۔

(3) اپنی زبان کے لفظ پر غیر زبان کا قاعدہ جاری کر کے نیا لفظ بنا لینا۔ بعض مثالیں حسب ذیل ہیں: ‘‘اپنا’’ میں عربی کی تاے مصدری اور اس پر ہمزہ لگا کر ‘‘اپنائیت’’ بنایا گیا۔ لکھنؤ میں ‘‘اپنایت’’ بولتے تھے لیکن بعد میں وہاں بھی ‘‘اپنائیت’’ رائج ہوگیا۔ ‘‘آصفیہ’’ میں ‘‘اپنائیت’’ ہی درج ہے۔ اردو کے لفظ پر ‘‘دار’’ کا فارسی لاحقہ لگا کر متعدد لفظ بنائے گئے؛ ‘‘سمجھ دار، چوکیدار، پہرے دار’’ وغیرہ۔ اردو کے لفظ ‘‘دان’’ کا لاحقہ لگا کر بہت سے لفظ بنا لیے گئے ، جیسے:’’ اگلدان، پیک دان، پان دان ’’ وغیرہ۔

(4) غیر زبان کے لفظ سے اپنے لفظ وضع کرلینا۔ بعض مثالیں حسب ذیل ہیں: مصدر ‘‘گرم’’ سے ‘‘گرمانا’’؛’’شرم’’ سے ‘‘شرمانا’’ وغیرہ۔ اسم ‘‘نالہ’’ سے ‘‘نالش’’؛ ‘‘چشم’’ سے ‘‘چشمہ(بمعنی عینک)’’ وغیرہ۔ صفت ‘‘خاک’’ سے ‘‘خاکی’’ (رنگ، انگریزی میں Khaki کا تلفظ ‘‘کھیکی’’)

(5) غیر زبان کے طرز پر نئے لفظ بنا لینا۔ مثلاً حسب ذیل لفظ فارسی / عربی میں نہیں ہیں، اردو والوں نے وضع کیے ہیں: بکر قصاب؛ دل لگی؛ دیدہ دلیل؛ ظریف الطبع؛ قابو پرست؛ قصائی؛ ہر جانہ؛ یگانگت وغیرہ۔

(6) اپنا اور غیر زبان کا لفظ ملا کر، یا غیر زبان کے دو لفظ ملا کر اپنا لفظ بنا لینا- آنسو گیس (اردو، انگریزی)؛ بھنڈی بازار (اردو، فارسی)؛ خود غرض (فارسی، عربی)؛ گربہ قدم (فارسی، عربی) وغیرہ-

جیسا کہ پہلے لکھا ، دخیل الفاظ ، چاہے وہ براہ راست دخیل ہوئے ہوں یا ان کے زیر اثر مزید لفظ بنے ہوں، سب ہمارے لیے محترم ہیں۔ کسی دخیل لفظ، کلمے یا ترکیب کو، یا اس کے رائج تلفظ یا املا کو یہ کہہ کر مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ جس زبان سے یہ لیا گیا ہے وہاں ایسا نہیں ہے۔ جب کوئی لفظ ہماری زبان میں آگیا تو اس کے غلط یا درست ہونے کا معیار ہماری زبان،اس کے قاعدے، اور اس کا روز مرہ ہوں گے نہ کہ کسی غیر زبان کے۔

اردو ، فارسی اورعربی مختلف زبانیں  ہیں-یہ بات صحیح ہے کہ اردو نے فارسی /عربی سے بے شمار الفاظ ، محاورات اور تراکیب حاصل کیے ہیں۔لہٰذا یہ بالکل ممکن ہے کہ اگر اردو میں کسی عربی/فارسی لفظ کے بارے میں کوئی بحث ہو تو ہم عربی/فارسی کی سند لا کر جھگڑا فیصل کرلیں۔ لیکن شرط یہی ہوگی کہ عربی /فارسی کی سند ہمارے رواج عام یا روزمرہ کے خلاف نہ ہو۔ مثلاً لفظ ‘‘کتاب’’ کی جنس کے بارے میں اختلاف ہو تو یہ سند فضول ہوگی کہ عربی میں ‘‘کتاب’’مذکر ہے، لہٰذا اردو میں بھی یہ لفظ مذکر ہوگا/ہونا چاہیے۔ اسی طرح، اگر یہ سوال اٹھے کہ ‘‘طشت از بام ہونا’’ صحیح ہے کہ نہیں، تو یہ استدلال فضول ہوگا کہ فارسی میں ‘‘طشت از بام افتادن’’ ہے، لہٰذا اردو میں بھی ‘‘طشت از بام گر پڑنا’’ ہونا چاہیے۔ دوسری بات یہ کہ ہمارے یہاں یوں بولتے ہیں، ‘‘سارا معاملہ طشت از بام ہو گیا’’، جب کہ فارسی میں یہ محاورہ ‘‘طشت’’ کے حوالے سے بولتے ہیں، یعنی یوں کہتے ہیں:’’طشت از بام افتاد’’۔ ظاہر ہے کہ یہ ضد کرنا بھی غلط ہے کہ اردو میں بھی یوں ہی بولنا چاہیے۔

مثلاً اردو میں ‘‘لطیفہ’’ کے معنی ہیں، ‘‘کوئی خندہ آور چھوٹی سی کہانی یا چٹکلا’’  اور عربی میں بمعنی ‘‘اچھی چیز’’۔ یہ معنی نہ فارسی میں ہیں نہ عربی میں۔ لیکن ظاہر ہے کہ اردو میں رائج معنی کو اس بنا پر مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ اگر کوئی شخص ‘‘لطیفہ’’ کو اردو میں ‘‘سخن خوب و نیکو’’ ، یا ‘‘اچھی چیز، اچھائی’’ کے معنی میں استعمال کرے اور کہے کہ (مثلاً) ‘‘مقدمہ شعر و شاعری لطیفوں [یا لطائف] سے بھری ہوئی ہے’’ درست استعمال ہے ، کیوں کہ فارسی میں ‘‘لطیفہ’’بمعنی ‘‘سخن خوب’’ اور عربی میں بمعنی ‘‘اچھی چیز’’ وغیرہ ہے، تو اس کی بات قطعی غلط قرار دی جائے گی۔لہٰذا بنیادی بات یہی ہے کہ جو استعمال، لفظ ، ترکیب، کلمہ ، اردو کے قاعدے یا رواج کے مطابق ہے، وہ صحیح ہے۔ دوسری بات یہ کہ اردو پر غیر زبانوں، خاص کر عربی /فارسی کے قاعدے جاری کرنا درست نہیں ہے، اس لے کو جتنا دھیما کیا جائے ، اچھا ہے۔ ( ریفرنس -ریختہ )

عربی”ان شاء اللہ”  دخیل  اردو “انشاء اللہ”

شروع سے اردو میں “ان شاء اللہ” عربی سے دخیل ہوا  اور اردو میں “انشاء اللہ”  لکھنے کا رواج  پڑا ، بڑے بڑے علماء کی تفاسیر اور کتب دیکھیں تو اکثر  “انشاء اللہ” ہی لکھا ملے گا – سوشل میڈیا پر ایک بحث یہ بھی ہے کہ “انشاء اللہ “لکھنا غلط ہے بلکہ شرک اور کفر ہے ، درست طریقہ ہے کہ “ان شاء اللہ” لکھا جائے- اس معاملہ کا جائزہ لیا تو مختلف 7 آراء ملیں ، جو پیش خدمت ہیں- ایاد رکھیں کہ اردومیں دخیل الفاظ پراردوقوائد نافذ ہوتے ہیں ، جیسا کہ اوپر تفصیلا بیان کیا گیا ہے!


سوال 

سوشل میڈیا پر “انشاءاللہ” کو لے کر ایک تحریر گردش کر رہی ہے لکھنے والے نے کہاں تک صحیح لکھا ہے اس کا ہم نے جائزہ لیا ہے جو آپ کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔ ایک لفظی غلطی جسکی درستگی لازم هے- ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﺴﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ” ﺍﻧﺸﺎﺀ ﺍﻟﻠﮧ ” ﻟﮑﮭﺎ، ﺗﻮ کسی ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﮩﺎ: ﻟﻔﻆ “ﺍﻧﺸﺎﺀﺍﻟﻠﮧ” ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ، ﺑﻠﮑﮧ یه ” ﺍﻥ ﺷﺎﺀﺍﻟﻠﮧ ”  ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ… ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻟﻔﻈﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﻟﮓ الگ ﻣﻌﻨﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮑﯽ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﺑﮩﺖ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮا- ﭘﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻋﻠﻢ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻓﻼﮞ ﺳﻮﺭﮦ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﮯ ﮨﯽ ﻟﮑﮭﺎ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮨﮯ، ﺁﭖ ﮐﯿﺴﮯ ﮐﮩﮧ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻏﻠﻂ ﮨﮯ-ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﻭﺿﺎﺣﺖ ﺩﯼ، ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ: “ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﮐﺮﻭﮞ گا”. خود سے ﺗﺤﻘﯿﻖ کی تو ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺻﺎﺣﺐ ﺻﺤﯿﺢ ﻓﺮﻣﺎ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ۔۔  ﻟﻔﻆ ” ﺍﻧﺸﺎﺀ ” ﺟﺴﮑﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ “ﺗﺨﻠﯿﻖ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ” ﻟﯿﮑﻦﺍﮔﺮ ” ﺍﻧﺸﺎﺀﺍﻟﻠﮧ ” ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ مطلب بنتا هے “ﺍﻟﻠﮧ ﺗﺨﻠﯿﻖ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ” ﻧﻌﻮﺫﺑﺎﺍﻟﻠﮧ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﺻﺎﻑ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻟﻔﻆ ” ﺍﻧﺸﺎﺀ ” ﮐﻮ ﻟﻔﻆ “ﺍﻟﻠﮧ “ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﮑﮭﻨﺎ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻏﻠﻂ ﮨﮯ- ﺍﺳﮑﮯ ﻟﺌﮯ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﯽ ﮐﭽﮫ ﺁﯾﺎﺕ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﻟﻔﻆ ” ﺍﻧﺸﺎﺀ ” ﺍﮐﯿﻼ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮨﻮﺍ ہے…

  1. ﻭَﻫﻮَ ﺍﻟَّﺬِﯼ ﺃَﻧْﺸَﺄَ ﻟَﮑُﻢُ ﺍﻟﺴَّﻤْﻊَ ﻭَﺍﻟْﺄَﺑْﺼَﺎﺭَ ﻭَﺍﻟْﺄَﻓْﺌِﺪَۃَ ﻗَﻠِﯿﻠًﺎ ﻣَﺎ ﺗَﺸْﮑُﺮُﻭﻥَ   – سورة ﺍﻟﻤﻮﻣﻦ 78
  2. ﻗُﻞْ ﺳِﯿﺮُﻭﺍ ﻓِﯽ ﺍﻟْﺄَﺭْﺽِ ﻓَﺎﻧْﻈُﺮُﻭﺍ ﮐَﯿْﻒَ ﺑَﺪَﺃَ ﺍﻟْﺨَﻠْﻖَ ﺛُﻢَّ ﺍﻟﻠَّﻪ ﯾُﻨْﺸِﺊُ ﺍﻟﻨَّﺸْﺄَۃَ ﺍﻟْﺂَﺧِﺮَۃَ ﺇِﻥَّ ﺍﻟﻠَّﮧَ ﻋَﻠَﯽ ﮐُﻞِّ ﺷَﯽْﺀ ٍ ﻗَﺪِﯾﺮ. – سورة ﺍﻟﻌﻨﮑﺒﻮﺕ 20
  3. ﺇِﻧَّﺎ ﺃَﻧْﺸَﺄْﻧَﺎﻫﻦَّ ﺇِﻧْﺸَﺎﺀ ً- سورة ﺍﻟﻮﺍﻗﻌﮧ 35
  4. ﺍﻥ ﺁﯾﺎﺕ ﺳﮯ ﺻﺎﻑ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ ” ﺍﻧﺸﺎﺀ ” ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﮩﯿﮟ ” ﺍﻟﻠﮧ ” ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮑﮭﺎ ﮔﯿﺎ. ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮧ ﻟﻔﻆ ﺍﻟﮓ ﻣﻌﻨﯽ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ۔۔ ﻟﻔﻆ *”ﺍﻥ ﺷﺎﺀﺍﻟﻠﮧ “* ﺟﺴﮑﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ  *” ﺍﮔﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﭼﺎﮨﺎ “* ” ﺍﻥ ” ﮐﺎ ﻣﻌﻨﯽ ﮨﮯ ” ﺍﮔﺮ ” “ﺷﺎﺀ “ﮐﺎ ﻣﻌﻨﯽ ﮨﮯ ” ﭼﺎﮨﺎ” “ﺍﻟﻠﮧ “ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ” ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ” ﺗﻮ ثابت هوا که ﻟﻔﻆ ” ﺍﻥ ﺷﺎﺀﺍﻟﻠﮧ * ﮨﯽ ﺩﺭﺳﺖ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﮐﭽﮫ ﺁﯾﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻭﺍﺿﺢ ﮨﮯ ۔۔
  5. ﻭَﺇِﻧَّﺎ ﺇِﻥْ ﺷَﺎﺀ َ ﺍﻟﻠَّﻪ ﻟَﻤُﮩْﺘَﺪُﻭﻥَ – سورة ﺍﻟﺒﻘﺮﮦ 70
  6. ﻭَﻗَﺎﻝَ ﺍﺩْﺧُﻠُﻮﺍ ﻣِﺼْﺮَ ﺇِﻥْ ﺷَﺎﺀ َ ﺍﻟﻠَّﻪ ﺁَﻣِﻨِﯿﻦَ – سورة ﯾﻮﺳﻒ 99
  7. ﻗَﺎﻝَ ﺳَﺘَﺠِﺪُﻧِﯽ ﺇِﻥْ ﺷَﺎﺀ َ ﺍﻟﻠَّﻪ ﺻَﺎﺑِﺮًﺍ ﻭَﻟَﺎ ﺃَﻋْﺼِﯽ ﻟَﮏَ ﺃَﻣْﺮًﺍ – سورة ﺍﻟﮑﮩﻒ 69
  8. ﺳَﺘَﺠِﺪُﻧِﯽ ﺇِﻥْ ﺷَﺎﺀ َ ﺍﻟﻠَّﻪ ﻣِﻦَ ﺍﻟﺼَّﺎﻟِﺤِﯿﻦَ – سورة ﺍﻟﻘﺼﺎﺹ 27
  9. ﺍﻥ ﺁﯾﺎﺕ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻟﻔﻆ *” ﺍﻥ ﺷﺎﺀﺍﻟﻠﮧ “* ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ *” ﺍﮔﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﭼﺎﮨﺎ ” انگریزی میں یوں لکھ جاسکتا ھے.. “In Sha Allah” 

ان شاءاللہ کو انشاءاللہ لکھنے میں کوئی غلطی یا حرج نہیں ہے۔ لفظوں کو جوڑ کر لکھنا عربی و فارسی اور اردو میں عام ہے۔ ہم لوگ اردو میں “بلکہ” کو “بل کہ” نہیں لکھتے اور نہ “خوشبو” کو “خوش بو” لکھتے ہیں۔ عربی کے “علیحدہ” کو “علیٰ حدہ “نہیں لکھا جاتا۔ یہ چلن کی بات ہے کہ کس لفظ کو کیسے لکھا جا رہا ہے۔ چنانچہ “انشاءاللہ” اور “ان شاءاللہ” میں کوئی فرق نہیں ہے اور اس سے کوئی کفر لازم نہیں  کیونکہ مطلب، معنی  ایک ہی لیا جاتا ہے-

رواج کا احترام وقبولیت:

سعید یعنی ابن بیناء سے روایت ہے کہا میں نے عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا وہ کہہ رہے تھے ۔ مجھ سے میری خالہ یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حدیث بیان کی انھوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

“عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اگر تمھاری قوم کا شرک کا زمانہ قریب کا نہ ہو تا تو میں ضرور کعبہ کو گرا تا اس ( کے دروازے ) کو زمین کے ساتھ لگا دیتا اور میں اس کے دو دروازے شرقی دروازہ اور دوسرا غربی دروازہ بنا تا اور حجر (حطیم) اسے چھ ہاتھ (کا حصہ) اس میں شامل کر دیتا ۔ بلا شبہ قریش نے جب کعبہ تعمیر کیا تھا تو اسے چھوٹا کر دیا. (صحیح مسلم : 3244)


جواب-1

درست طریقہ تو “ان شاء اللہ” لکھنا ہے کیوں کہ یہ عربی کا جملہ ہے اور عربی میں “ان” حرف شرطیہ دوسرے کلمات سے ہمیشہ جدا کر کے لکھا جاتا ہے ملا کر لکھنا عربی رسم الخط کے خلاف ہے ….

 اور رہا معنی کا سوال تو ان شاء اللہ کا معنی ہے “اگر اللہ نے چاہا ” اور انشاء اللہ کا معنی “اللہ کا (کسی چیز کو) پیدا کرنا…. “انشاء” فعل انشا ینشئ کا مصدر ہے اور جب تک کوئی قرینہ نہ پایا جائے مصدر کا مفعولی ترجمہ نہیں کیا جاتا اس لیے “انشاء” کا ترجمہ” اللہ کا پیدا کیا جانا” کرنا محض جہالت ہے …

اردو میں چونکہ ان شاء اللہ کو ملاکر “انشاء اللہ ” لکھنے کا رواج ہوگیا ہے لیکن اس سے معنی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی …  “مجھ سے” کو اگر کوئی نادانی کی وجہ سے “مجھسے” لکھ دے تو انشاء اللہ کی طرح اس کا معنی بھی بدلنا چاہیے لیکن نہیں بدلتا تو معلوم ہوا کہ ان شاء اللہ کو اگر کوئی جہالت کی وجہ سے انشاء ﷲ لکھتا ہے تو معنی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی … اور اگر کوئی معنی کی تبدیلی پر مصر بھی ہے تو بھی ایسا معنی نہیں بنتا جس پر کفر کا فتوی ٹھونکا جائے بلکہ اس وقت بھی اللہ ہی کی ایک قدرت کی طرف اشارہ ہوتا ہے… “انشاء”کے معنی پیدا کرنا، تخلیق کرنا ہے اس کا ترجمہ “تخلیق کیا گیا” کرنا بالکل درست نہیں!

قرآن کی جتنی آیتیں پیش کی گئی ہیں سب میں “انشاء ” کا ترجمہ ” پیدا کرنا اور تخلیق کرنا ” ہی ہے! 

اور یہ کہنا کہ لفظ “انشاء” کو اللہ کے ساتھ لکھنا بالکل غلط اور کفر ہے جہالت کی انتہا ہے۔۔۔کیونکہ قرآن میں جہاں جہاں انشاء آیا ہے اس کا فاعل اللہ ہی ہے ان تمام آیتوں میں اگر انشاء کا فاعل اللہ کے علاوہ کسی اور کو بنادیا گیا تو کفر ہوجائے گا۔۔۔

خلاصہ یہ ہے کہ “انشاء اللہ” کو کفر بتانے والا انتہائی درجہ کا جاہل تھا اسے صحیح ترجمے کا بھی علم نہیں تھا اس لیے اس کی تحریر کو لائق التفات نہ سمجھا جائے۔۔۔!

کمنٹس :

درست طریقہ تو “ان شاء اللہ” لکھنا ہے کیوں کہ یہ عربی کا جملہ ہے اور عربی میں “ان” حرف شرطیہ دوسرے کلمات سے ہمیشہ جدا کر کے لکھا جاتا ہے ملا کر لکھنا عربی رسم الخط کے خلاف ہے …. 

صحیح فرمایا  – مگر بعض کہتے ہیں کہ  انشاء اللہ لکھنا بھی صحیح ہے

دلیل یہ کہ ہم عربی نہیں اردو زبان میں لکھ رہے ہیں ، ہم آزاد ہیں کہ اپنی زبان جیسے چاہے استعمال کریں

درست کہا آپ نے۔ لفظ کے معنی وہ ہوتے ہیں جو اس دور میں لوگ سمجھتے ہوں۔تخلیق کرنے کے –


جواب-2

انشاءاللہ کو ان شاءاللہ لکھنا کوئی ضروری نہیں ہے اور انشاءاللہ لکھنا کوئی غلطی نہیں ہے۔ جو قرآن نبی کریم کے دور میں تھا اور جس کی نقل حضرت عثمان کے پاس تھی اور جس کی بہت سی نقول جگہ جگہ بھجوائی گئی تھیں ان میں نہ نقاط تھے اور نہ ہمزہ تھا۔ حضرت عثمان والا یہ نسخہ محفوظ ہے اور اس کی عکسی نقول عام دستیاب ہیں۔ ان نقول سے تقابل کرکے میرے دعوے کی تصدیق کوئی بھی کرسکتا ہے کہ اس میں انشا کو ان شا (غیر منقوط) نہیں لکھا ہوا ہے۔

قرآن میں الفاظ پر اعراب بعد میں لگے اور حیرت ناک طور پر ایک بھی ایسا مخطوطہ محفوظ نہیں ہے جس کے بارے میں یقینی طور پر دعویٰ کیا جا سکے کہ یہ وہ اولین نسخہ ہے جس پر اعراب لگے۔ رفتہ رفتہ عربی رسم الخط میں نمایاں تہذیب و ترقی ہوئی تو کسی وقت میں حروف پر نقاط بھی لگ گئے۔ قرآن میں یہ نقاط خواہ جب بھی لگے ہوں تاہم وہ اولین نسخہ جس میں ترمیم و تہذیب و تصحیح شدہ جدید عربی املا لکھا گیا، تاحال مفقود ہے۔

دریں احوال، یہ دعویٰ و تحقیق کہ قرآن میں فلاں لفظوں کو فلاں طریقِ املا میں لکھنا درست ہے اور فلاں طرح سے لکھنا غلط، یہ ایک اکڈیمک بحث ہے جس کا ایمانیات اور کفر و اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ ساٹھ ستر سال پرانے چھپے نسخوں میں واللیل لکھا ہوتا تھا جو آج والیل ہوتا ہے۔ یہ املا یعنی orthograph کا ارتقا ہے جو ہر دور میں ہوتا رہتا ہے چنانچہ قرآن کی ترسیم میں بھی ہوتا رہا ہے۔ فرض کیجیے کہ ماہرینِ رسم الخط کچھ عرصہ بعد ث اور ش پر تین نقطوں کی جگہ اگر کوئی اور علامت تجویز کرکے اسے چلا دیں اور پھر قرآن میں بھی ث اور ش اسی جدید املا میں لکھے جانے لگیں تو اس کو تحریف نہیں کہیں گے اور نہ اس پر کفر و اسلام کا فیصلہ ہوگا۔ قرآن ہے ہی قرات کے لیے، اور یہ قرات یعنی پڑھنے یاد کرنے سے محفوظ ہوا ہے اور رہے گا۔

القصہ انشاءاللہ اور ان شاءاللہ دونوں درست ہیں اور ان میں فرق صرف ذوقی معاملہ ہے جس سے کفر لازم نہیں آتا۔

ان شاءاللہ کو انشاءاللہ لکھنے میں کوئی غلطی یا حرج نہیں ہے۔ لفظوں کو جوڑ کر لکھنا عربی و فارسی اور اردو میں عام ہے۔ ہم لوگ اردو میں بلکہ کو بل کہ نہیں لکھتے اور نہ خوشبو کو خوش بو لکھتے ہیں۔ عربی کے علیحدہ کو علیٰ حدہ نہیں لکھا جاتا۔ یہ چلن کی بات ہے کہ کس لفظ کو کیسے لکھا جا رہا ہے۔ چنانچہ انشاءاللہ اور ان شاءاللہ میں کوئی فرق نہیں ہے اور اس سے کوئی کفر لازم نہیں آتا۔ ( حافظ صفوان)


جواب-3

لکھنے کادرست طریقہ تو ان شاء اللہ ہی ہے،مگر جو لوگ انشاء اللہ لکھتے ہیں ان کے پیش نظر بھی اللہ کا پیدا کیا ہوا معنی نہیں ہوتا ۔اگر ہم اسی طرح املا کی غلطی سے ہر لفظ کا دوسرا معنی لینے لگ جائیں تو بات بہت پھیل جائے گی اور سینکڑوں الفاظ تک اس قاعدے کا دائرہ پھیل جائے گا ،اس لیے بہتر یہی ہے لوگوں کو ان کی عام اور مانوس عادت پر چھوڑ دیا جائے کیونکہ عادت جب پختہ ہوجاتی ہے تو اس میں تبدیلی بہت مشکل ہوجاتی ہے ،جو لوگ اس طرح کی مہم چلارہے ہیں اس کا انجام سوائے بے چینی اور ہل چل پیدا کرنے کے کچھ اور نہیں نکلے گا ۔ بلكهفتاوی کی مشہور کتاب شامی میں ہے کہ :الخطأ المشہور أولی من الصواب المہجور، مطلب یہ ہے کہ ایک لفظ غلط ہے مگر عوام میں رواج پاچکا ہے تو وہ اس سےبہتر ہے جو درست ہے مگر لوگ اسے چھوڑ چکے ہیں ۔ واللہ اعلم

ان شاء اللہ لکھنے کادرست طریقہ تو “ان شاء اللہ ”ہی ہے، (یعنی تینوں الفاظ کو جدا جدا لکھنا)، اور ” انشاء اللہ” لکھنا اگر چہ عربی اِملا کے قواعد کے مطابق درست نہیں ہے، مگر جو لوگ ”انشاء اللہ” لکھتے ہیں ان کے پیشِ نظر بھی اللہ کا پیدا کیا ہوا معنی نہیں ہوتا، اور قاعدہ ہے: ”الخطأ المشهور أولی من الصواب المهجور”۔(فتاویٰ شامی) یعنی ایک لفظ غلط ہے مگر عوام میں رواج پاچکا ہے تو وہ اس سے بہتر ہے جو درست ہے مگر لوگ اسے چھوڑ چکے ہیں ؛ اس لیے “”انشاء اللہ” (یعنی ”ان” اور ”شاء” کو ملاکر انشاء) لکھنے کی بھی اجازت ہے۔ فقط واللہ اعلم

فتوی نمبر : 143908200680 , دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن


جواب-4

”ان شاء اللہ“ عربی قواعد کے اعتبار سے تین کلمات ”إن“ ”شاء“ ”اللہ“ پر مشتمل ہے، اس کا معنی ہے، ”اگر اللہ نے چاہا“۔ ان شاء اللہ تین الگ الگ کلمات کے ساتھ ہی لکھنا چاہیے، ان ش شاء (جو دو کلمات ہیں“ کو ایک ساتھ ملاکر ”إنشاء“ نہیں لکھنا چاہیے، مناسب یہی ہے، یہ مروجہ قواعدِ املاء کے خلاف ہے؛ لیکن پرانی تحریروں میں دونوں کلمات کو ملاکر لکھے جانے کا رواج رہا ہے (جیسا کہ تحریوں کے رسم الخط دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے) اور پڑھنے والے سیاق وسباق سے معنی چونکہ بہرحال سمجھ جاتے ہیں؛ غلط کا منفی کا وہم نہیں ہ وتا ہوتا اس لیے اگر کوئی ملاکر لکھ دے تو غلط بھی نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے لکھنے والے کو برا بھلا کہا جائے۔باقی آپ نے جو معنی اور جس انداز سے پیش کیا وہ صحیح نہیں ہے، یہ تو رسم الخط کا مسئلہ ہے، اس میں کافی توسع ہے۔ (دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند)


جواب-5

ان شاء اللہ ملا کر “انشاء اللہ” لکھنا غلط ہے، “ان” اور “شاء” دو الگ الگ حروف ہیں، لہذا انہیں الگ الگ ہی لکھا جائے گا۔ اکھٹے لکھنے کی صورت میں معنی بدل جاتا ہے۔ ہر زبان کے کچھ قواعد ہوتے ہیں، قاعدہ ہے کہ ان اور شاء کو الگ رکھتے ہیں، یہ کتابت کا قاعدہ ہے، انشاء کا معنی ہے پیدا کرنا اور مصدر ہے، تخلیق کرنا۔ قرآن میں انشاکم، ینشئکم، کے الفاظ آئے ہیں، جن کا معنی ہے پیدا کرنا اور “ان” حروف شرط ہے اس کا معنی ہے، “اگر” ۔ “شاء” فعل ماضی ہے، اس کا معنی ہے اس نے چاہا۔ تو معنی ہوگا۔ اگر اس نے چاہا۔ انشاء مصدر کا معنی ہوا، پیدا کرنا۔ تو ایسا لکھنا غلط ہے، اس سے معنی بدل جاتے ہیں، جو جائز نہیں ہے۔ اردو میں انشاء کا اپنا معنی ہے اور عربی میں اپنا۔ لہذا الگ الگ ہی لکھا جائے گا۔ اردو اور عربی کے کلمات کو آپس میں ملانا جائز نہیں۔ اس سے معنی بدل جاتا ہے۔ واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔ مفتی: عبدالقیوم ہزاروی


جواب-6

ان شاء اللہ لکھنے کا درست طریقہ تو یہی ہے کہ ’’ان‘‘کواور’’شاء‘‘کوالگ الگ لکھا جائے، لیکن اگر کوئی شخص ان شاء اللہ کے بجائے ملا کر ’’انشاءاللہ‘‘ لکھتا ہے تو یہ عربی قواعدکے اعتبار سے توغلط ہے، تاہم لکھنے والےکے پیش نظرغلط معنی (اللہ کا پیدا کرنا) نہیں ہوتا بلکہ عربی زبان سے ناواقفیت یا عدم توجہی کہ وجہ سے اکٹھے لکھدیا جاتا ہے، چونکہ غلط معنی پیش نظر نہیں ہوتا اس لئے لکھنے والاگناہ گار تو نہ ہوگا اور لکھنے والے پر شدید نکیرکے بجائے پیارومحبت سے مسئلہ بتادیا جائےاور درست تلفظ معلوم ہونے کے بعد درست تلفظ ہی لکھنے کا اہتمام فرمائیں۔


جواب-7

تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ انگریزی میں بھی اس طرح کا لکھنا غلط ہوگا؟ Insha Allah اور صحیح ہوگا۔In Sha Allah کیا خیال ہے آپ کا؟ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ بعض مخلص احباب نے جذباتیت کے زیراثر اس کو بہت بڑا ہوا بنایا ہوا ہے : ۔ دراصل اردو اور عربی الگ الگ زبانیں ہیں ، لہذا الفاظ کے معانی ، ہجے، صرف و نحو بھی مختلف ہیں۔ جو مفہوم عربی لفظ “ان شاءاللہ” کے ذریعے ادا ہوتا ہے بعینہ یہی معنی و مفہوم عرصہ دراز سے اردو لغات میں لفظ “انشاءاللہ” کے ذریعے بیان ہوا ہے۔ ہاں ، ذاتی طور پر میں اس بات کو ترجیح دیتا ہوں ان شاءاللہ لکھا جائے۔ اور انشاءاللہ لکھنے کو بھی غلط نہیں سمجھتا کہ اردو کی تقریباً تمام لغات میں ایسا ہی لکھا ہے۔  مشہور لغت کا حوالہ ذیل میں دیکھیے :

خلاصہ :

دراصل اردو اور عربی الگ الگ زبانیں ہیں ، لہذا الفاظ کے معانی ، ہجے، صرف و نحو بھی مختلف ہیں۔ جو مفہوم عربی لفظ “ان شاءاللہ” کے ذریعے ادا ہوتا ہے بعینہ یہی معنی و مفہوم عرصہ دراز سے اردو لغات میں لفظ “انشاءاللہ” کے ذریعے بیان ہوا ہے۔ اردو میں چونکہ عربی “ان شاء اللہ” دخیل ہوااور اس کو اردو میں “انشاء اللہ ” لکھنے کا رواج ہوگیا  لیکن  عربی معنی میں کوئی تبدیلی کے بغیر-  “مجھ سے” کو اگر کوئی  “مجھسے” لکھ دے تو  اس کا معنی بھی نہیں بدلتا تو معلوم ہوا کہ “ان شاء اللہ” کو اگر کوئی ” انشاء ﷲ” لکھتا ہے تو معنی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی-  انشاء اللہ لکھنا بھی صحیح ہے کہ ہم عربی نہیں اردو زبان میں لکھ رہے ہیں ، لفظ کے معنی وہ ہوتے ہیں جو اس دور میں مروجہ زبان میں دخیل لفظ کو لوگ سمجھتے ہوں۔ 

عربی میں لکھنے کادرست طریقہ تو “ان شاء اللہ” ہی ہے،مگر جو لوگ اردو میں “انشاء اللہ” لکھتے ہیں ان کے پیش نظر بھی “اللہ کا پیدا کیا ہوا” معنی نہیں ہوتا ۔اگر ہم اسی طرح املا کی غلطی سے ہر لفظ کا دوسرا معنی لینے لگ جائیں تو بات بہت پھیل جائے گی اور سینکڑوں الفاظ تک اس قاعدے کا دائرہ پھیل جائے گا ،اس لیے بہتر یہی ہے لوگوں کو ان کی عام اور مانوس عادت پر چھوڑ دیا جائے کیونکہ عادت جب پختہ ہوجاتی ہے تو اس میں تبدیلی بہت مشکل ہوجاتی ہے – بلكه فتاوی کی مشہور کتاب شامی میں ہے کہ :

“الخطأ المشہور أولی من الصواب المہجور”

مطلب یہ ہے کہ ایک لفظ غلط ہے مگر عوام میں رواج پاچکا ہے تو وہ اس سےبہتر ہے جو درست ہے مگر لوگ اسے چھوڑ چکے ہیں- اس کی تصدیق رسول الله صلعم کا حطیم کو   حقیقت اور خواہش کے باوجود کعبہ میں شامل نہ کرنا تھا -( مفھوم صحیح مسلم : 3244)

ویسے بھی دخیل الفاظ کو اصل زبان کے نہیں بلکہ اردو کے قوائد اورمروج معنی کے مطابق دیکھا جایے گا ، اگر کوئی عربی میں ہی اردو لکھنے پر مطمئن ہے تو وہ بھی درست ہے – واللہ اعلم

References:


 انگریزی زبان میں گردش میں رہنے والے 100 سے زیادہ الفاظ ایسے ہیں جن کی اصل عربی زبان ہے۔ جب عربی الفاظ دوسری زبان میں منتقل ہوتے :ہیں  تو ان کی شکل بدل جاتی ہے ، ان میں چند مشہور الفاظ یہ ہیں

Coffee : اس کی اصل عربی زبان کا لفظ “قہوة” ہے۔ بعد ازاں یہ ترک زبان میں “کہفا” بن گیا اور پھر یورپ کے اندر پھیل گیا۔

Cotton : اس کی اصل “قطن” ہے۔

Mummy : اس کی اصل “مومیاء” ہے۔

Safari : اس کی اصل “سفر” ہے۔

Magazine : اہل یورپ نے اسے اطالیہ سے لیا جہاں یہ “ماگازینو” بولا جاتا ہے۔ یہ لفظ درحقیقت عربی سے لیا گیا اور اس کی اصل “مخزن” ہے۔

Candle : اس کی اصل “قندیل” ہے۔

Ginger : اس کی اصل “زنجبیل” ہے۔

Mirror : اس کی اصل “مرآة” ہے۔

Mattress : اس کی اصل “مطرح” ہے یعنی جس جگہ تکیے رکھے جاتے ہیں۔

Sofa : اس کی اصل “صُفّہ” ہے۔ عربی میں صُفّہ کا معنی گھر یا زین میں بیٹھنے کی جگہ ہے۔

Jar : اس کی اصل “جرّة” ہے۔

Algorithm : اس کی اصل “الخوارزمیة” ہے۔ یہ مسلم سائنس داں اور ماہر فلکیات محمد بن موسی الخوارزمی کی طرف منسوب ہے۔

Algebra : اس کی اصل “الجبر” ہے جو الخوارزمی کی کتاب “المختصر في حساب الجبر والمقابلة” سے آیا۔