سید احمد بریلوی شہید اور شاہ اسماعیل دہلوی شہید کی جہاد تحریک

سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی کی جہاد تحریک  کی حقیقت؟
(ڈاکٹر مبارک علی)۔۔۔۔حمزہ ابراہیم

سید احمد شہید 1786ء میں بریلی میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم کے بعد  18سال کی عمر میں ملازمت کی تلاش میں نکلے اور لکھنؤ آئے مگر انہیں ناکامی ہوئی اور ملازمت نہ مل سکی ۔ اس پر انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے دہلی میں شاہ عبدالعزیز کے مدرسے میں تعلیم حاصل کریں گے۔ 1806ء سے 1811ء تک انہوں نے دہلی میں قیام کیا ، اس کے بعد 25سال کی عمر میں امیر خان ،جو کہ ایک فوجی مہم جُو تھے، کے ہاں ملازمت کرلی۔ اس سلسلے میں ان کے سیرت نگار یہ کہتے ہیں کہ امیر خان کے لشکر میں ملازمت کا مقصد یہ تھا کہ آپ عملی طور پر فوجی تجربوں سے واقف ہوں تاکہ جہاد کی تیاری میں وہ کام آسکیں۔ لیکن حالات اس بات کی نشا ندہی کرتے ہیں کہ آپ کی مالی حالت اچھی نہیں تھی اور آپ ملازمت کے لیے کوشاں تھے اوراپنےعہد کے نوجوانوں کی طرح آپ بھی امیر خان کے لشکر میں اس امید پر شامل ہوئے کہ اس طرح سے  مالِ غنیمت  حاصل کرنے کے مواقع تھے۔ چونکہ یہ عہد فوجی مہم جوؤں کا تھا کہ جس میں وہ اپنی فوجی طاقت و قوت کے بل بوتے پر علاقوں پر قبضہ کرکے اپنا اقتدار قائم کرلیتے تھے،  اس لیے ہوسکتا ہے کہ آپ نے یہ منصوبہ بنایا ہو کہ اپنی  ایک جماعت تیار کرکے مذہبی بنیادوں  پر کسی علاقے پر قابض ہو کر وہاں اپنا اقتدار قائم کریں۔  انہوں نے امیر خاں کی ملازمت میں سات سال گزارے اور یہ وقت امیر خان کو سمجھنے کے لیے کافی تھا کیوں کہ وہ محض لوٹ مار کی غرض سے جنگیں کرتا تھا اور اس کے سامنے کوئی بڑا اور واضح مقصد نہیں تھا۔ انہو ں نے امیر خاں کی ملازمت کو اس وقت چھوڑا جب   1817ء  میں اس کی برطانوی حکومت سے صلح ہوگئی۔ اس کی ملازمت میں اس وقت 30ہزار سپاہی ملازم تھے وہ صلح کے  بعد  بے روزگار ہوگئے۔ انہیں بے روزگاروں میں سید احمد شہید بھی شامل تھے۔ملازمت کے خاتمے کے بعد دہلی آئے اور یہاں سے انہوں نے اپنی تحریک کا آغاز کیا۔  اس میں ان کے ساتھ ولی اللہ خاندان کے دو اراکین شامل ہوئے: شاہ  اسماعیل شہید  (1771ء –  1831ء) اور مولوی عبدالحئی (وفات 1828ء)۔

اس تحریک کی ابتداء اس سے ہوئی کہ توحید کا تصور جو مسخ ہوگیا ہے، اسے دوبارہ مسلمانوں میں خالص  اور  اصل شکل   میں راسخ کیا جائے اور جن عوامل نے اسلام کو کمزور کر دیا ہے انہیں دور کیا جائے ۔ ان میں ہندو رسومات اور جھوٹے صوفی اور شیعہ عقائد خصوصیت سے قابل ذکر تھے ۔ اپنی تحریک کو روشناس کرانے کی غرض سے آپ   نے  1818ء اور 1819ء میں دوآبہ کے علاقوں کا دورہ کیا اور غازی آباد، مراد نگر، میرٹھ، سدھانہ، کاندھیلہ، پھولت، مظفر نگر، دیوبند، گنگوہ، نانوتہ، تھانہ بھون، سہارنپور، روھیل، کھنڈ، لکھنؤ اور بریلی گئے۔ 1821ء میں انہوں نے ایک جمیعت کے ساتھ حج  کیا ۔  اس کا مقصد یہ تھا کہ ہندوستان میں اس اہم رُکن کا احیاء کیا جائے۔ کیوں کہ سمندروں پر یورپی اقوام کے قبضے اور بحری سفر کی مشکلات کی وجہ سے بہت کم ہندوستانی مسلمان حج پر جایا کرتے تھے اور ان حالات کے پیش نظر کچھ علماء نے یہ فتویٰ دے دیا تھا کہ ان حالات میں حج فرض نہیں  ہے۔ اس لیے سید احمد شہید نے حج کے اہم رکن کو دوبارہ نافذ کرکے مسلمانوں کی شناخت کو اجاگر کیا۔  1823ء میں حج سے واپسی کے بعد آپ نے ایک بار پھر ہندوستان کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا اور جیسا کہ آپ کی سیرت کی کتابوں میں لکھا ہے کہ لوگ جوق در جوق بیعت کرکے آپ کی تحریک میں شامل ہوئے۔  اس لئے یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کی تحریک کے وہ کون سے مقاصد تھے کہ جن سے لوگ متاثر ہوئے؟

تحریک کے معاشی اسباب

اٹھارویں اور انیسویں صدی کا ہندوستان سیاسی و معاشی اور معاشرتی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا ۔ مغل  سلطنت   کی مرکزیت ختم ہوچکی تھی۔ صوبائی طاقتیں خود مختار ہوکر خانہ جنگیوں میں مصروف تھیں۔ انگریز آہستہ آہستہ ہندوستان میں اپنے قدم جما رہے تھے۔ مسلمان معاشرے میں امراء اور علماء اپنی مراعات کو کھونے کے بعد عدم تحفظ کا شکار تھے۔ اگرچہ ایک عام مسلمان کے لیے ان حالات نے کوئی تبدیلی پیدا نہیں کی تھی،  وہ پہلے ہی سے سماجی طور پر پسماندہ تھا اور اس کے پاس بگڑتے ہوئے حالات میں کھونے کے لیے کچھ نہ تھا۔ اس لیے امراء اور علماء مغل حکومت کے سیاسی استحکام کے خاتمے کے بعد ذہنی طور پر انتشار کا شکار تھے جس کا اثر ہندوستان کے پورے مسلمان معاشرے پر پڑ رہا تھا۔  اور اس احساس کو پیدا   کیا جارہا تھا کہ مسلمان زوال پذیر ہو کر ختم ہورہے ہیں۔ اس احساس کو اور زیادہ بڑھانے  میں وہ حالات تھے جن میں ملازم  ملازمت کرتے تھے۔  وہ سیاسی طاقت کے زوال  کے ساتھ ختم ہوچکے تھے اور اگر تھے تو آمدنی کے ذرائع محدود ہونے کی وجہ سے تنخواہوں کی ادائیگی نہیں ہوتی تھی۔ ان حالات میں مسلمان ان فوجی مہم جوؤں کے جتھوں میں شامل ہوگئے کہ جو ہندوستان بھر میں لوٹ مار کرنے کی غرض سے  پھرا  کرتے  تھے یا معاوضے پر حکمرانوں کی جانب سے ان کے دشمنوں سے جنگ لڑتے تھے۔ لیکن جب انگریزی اقتدار بڑھا تو انہوں نے ان جتھوں کو بھی ختم کرنا شروع کردیا۔ ان ہی میں سے اک جتھہ امیر خان  (وفات1834ء)  کا تھا کہ جس نے انگریزوں سے صلح کرکے ٹونک کی ریاست لے لی۔ لہذا اس صورت حال نے مسلمان فوجیوں میں بے روزگاری کو پیدا کیا ان فوجیوں کے ساتھ ان مولویوں اور علماء کا طبقہ تھا جو مدرسوں سے فارغ التحصیل ہوکر نکل رہے تھے اور جن کے لیے ملازمتوں کے مواقع محدود تھے۔

ان حالا ت میں کہ جب معاشرے کو  سدھارنے  کے تمام وسائل ختم ہوچکے تھے حکومت ہاتھوں سے نکل چکی تھی۔ جاگیروں پر قبضہ کمزور پڑ چکا تھا، اس وقت عدم تحفظ کا احساس دل میں جاگزیں تھا۔ ذہن کھوکھلا اور  خیالات   پراگندہ تھے، مستقبل سے مایوسی تھی۔  اس لیے اگر اس زوال اور مایوسی کے دور میں کوئی ایسی تحریک  اٹھے کہ جس میں مستقبل کی امید ہو اور جس میں حالات کو سدھارنے کی خوش خبری ہو  تو  یہ مایوس دلوں میں ایک نیا ولولہ ، جذبہ اور جوش پیدا کردیتی ہے۔ماضی کا شاندار تصور ہمیشہ انسان کے ذہن میں زندہ و تابندہ رہتا ہے اور یہ قصہ کہانیوں کے  ذریعے نسل درنسل منتقل ہوتا رہتا ہے۔وہی جذبات احیاء کی تحریکوں کو تقویت دیتے ہیں۔

اس لیے سید احمد شہید کی تحریک نے اس بے مقصدیت کے ماحول میں لوگوں کو ایک مقصد دیاا ور متوسط طبقے کی زندگی میں جو ایک خلا تھا اِسے پُر کیا۔ ان کے معتقدین کی اکثریت کا تعلق متوسط طبقے سے  تھا جو شہروں اور قصبوں میں رہتے تھے۔ انہوں نے جگہ جگہ سید احمد شہید کا استقبال کیا اور ان کی دعوتیں کیں، اور ان موقعوں پر سید احمد اور اسماعیل شہید کے وعظوں کے ذریعے لوگوں میں جوش و خروش پیدا کرنے کی کوشش کی۔ کیوں کہ لوگوں کی زندگی روزمرہ کے معمولات سے آگے نہیں بڑھی تھی۔ اس تحریک نے اس جمود کو توڑا اور اس میں شمولیت کے ذریعے انہوں نے خود کو عملی طور پر ایک بڑے مقصد کے لجے تیار پایا۔ اس تحریک نے  ان میں دوبارہ سیاسی طاقت حاصل کرنے کی آرزو کو پیدا کیا۔ علماء اور متوسط طبقے کے لوگ اس امید  پر  اس  میں  اس  لیے شامل ہوئے تاکہ وہ اپنی مرضی کی حیثیت کو دوبارہ بحال کرسکیں۔ ہر تحریک کا سربراہ اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ اپنے پیروکاروں کی ایک برادری تشکیل دے اور ان میں رسومات اور نظریات  کے ذریعے ایسا جذبہ پیدا کرے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہوجائیں۔ ان کی کوشش یہ تھی کہ مسلمانوں کی شناخت کو اس طرح سے اجاگر کیا جائے کہ ان سے نہ صرف ہندو رسومات خارج ہوں بلکہ شیعہ عقا ئد اور صوفیانہ اثرات کا بھی خاتمہ ہو، تاکہ وہ متحد ہو کر جدوجہد کرسکیں۔

مسئلہ یہ تھا کہ یہ جدوجہد کس کے خلاف ہو؟ اس مرحلے پر یہ سوال پیدا ہوا کہ کیا ہندوستان انگریزی قیام کے بعد دارالحرب ہے یا دارالسلام؟ اگرچہ اس وقت مغل بادشاہ ہندوستان کا سربراہ تھا لیکن عملی طور پرکنٹرول ایسٹ انڈیا کمپنی کا تھا۔  انتظامیہ اس کے ماتحت تھی اور اسی کے احکامات کا نفاذ ہوتا تھا ۔ اگرچہ کمپنی کی حکومت میں مسلمانوں کو پور ی مذہبی آزادی تھی مگر اس مذہبی آزادی کے باوجود کچھ علماء کے نزدیک ہندوستان دارالحرب بن گیا تھا، کیونکہ دارالحرب بننے میں یہ تھا کہ  کافرانہ رسومات کو بغیر خوف اور جھجک کے نافذ کیا جائے اور ایسی صورت حال پیدا ہوجائے کہ کوئی مسلمان اور ذمی امن و امان کے ساتھ نہ رہ سکے۔ اور مسلمان اگر ذمیوں کے حقوق کی حفاظت نہ کرسکے تو اس صورت میں وہ علاقہ دارالسلام رہے گا جب تک کہ مسلمان مغلوب نہ ہوجائے اور کافر فتح یاب نہ ہوجائیں۔ اس کے بعد اگر کافر مسلمانوں کو مذہبی آزادی دے دیں اور انہیں امن و امان سے رہنے دیں ، تب بھی وہ علاقہ دارالحرب رہے گا۔ اس لئے ہندوستان دارالحرب تو تھا مگر چونکہ مسلمانوں کو مذہبی آزادی تھی اس لئے ان کے علاقے سے ہجرت ضروری نہیں تھی۔

اس کے برعکس کچھ علماء کا یہ خیال تھا کہ جب تک کوئی اسلامی قانون اور رواج باقی رہتا  ہے اس وقت تک علاقہ دارالسلام ہے۔  یہ دارالحرب اس وقت بنتا ہے جب کہ اسلام کو اس علاقے سے بالکل مٹا دیا جائے۔اس سے یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ اگر کوئی علاقہ دارالحرب ہے تو اس میں مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس علاقے میں ہجرت کر جائے جو کہ دارالسلام ہے یا وہ جہاد  کریں اور اس کے ذریعے دارالحرب کو دارالسلام بنائیں۔ شاہ ولی اللہ کی دلیل تھی کہ دارالحرب سے دارالسلام ہجرت کرنا لازمی ہے۔   جو ایسا نہیں کرے گا وہ گناہ کا مرتکب ہوگا۔ جب جاٹوں، سکھوں اور مرہٹوں نے مغل علاقوں پر قبضہ کرلیا تو انہیں باغی سمجھا گیا اور مقبوضہ  علاقے دارالسلام  رہے۔ اس طرح شاہ ولی اللہ کے نقطہ نظر سے ہندوستان میں مسلمانوں کی جنگیں جہاد تھیں اور خود مختار ہندو ریاستیں باغی تھیں۔ انھوں نے ان باغی ریاستوں کے ساتھ جنگ کو جہاد کہنا چھوڑ دیا تو اس کا مطلب ہے کہ مسلمان گائے کی دموں کے پیچھے چلے گئے یعنی ہندوؤں کے ساتھ تعاون کیا[1]۔

سید احمد شہید کے زمانے میں صورت حال یہ تھی کہ ہندوستان میں برطانوی راج تھا ۔ مسلمان ریاستوں کے حکمران برطانوی حکومت کے وفادار تھے  اور مسلمانوں کا کوئی امام اور خلیفہ نہیں تھا کہ جو جہاد کا اعلان کرتا۔  اس لیے فیصلے کا اختیار مسلمان معاشرے کے مختلف طبقوں کو تھا۔  اس لیے جنہیں برطانوی اقتدار سے فائدہ تھا نہوں نے اسے دارالسلام قرار دیا اور جنہیں نقصان ہوا تھا انہوں نے دارالحرب ۔ سید احمد اور فرائضی تحریک کے پیرو کاروں کے لیے ہندوستان دارالحرب تھا اور اس لیے مسلمانوں کے لیے جہاد لازمی تھا [2]۔”صراط مستقیم“میں کہا گیا ہے کہ: ۔

”موجودہ ہندوستان کا بڑا حصہ دارالحرب بن چکا ہے، اس کا مقابلہ دو سو تین سو برس پہلے کے ہندوستان سے کرو آسمانی برکتوں کا کیا حال تھا“[3]۔

اس بیان میں ان کااشارہ عہد سلاطین اور مغل دور حکومت کی جانب تھا جب ہندوستان میں مسلمان حکومت سیاسی و فوجی لحاظ سے طاقت ور تھی اور ہندوؤں کے مقابلے میں وہ برابر کامیاب ہورہی تھی۔ خراج کی آمدنی اور ٹیکسوں کی بہتات تھی، ارباب اقتدار خوش حال اور فارغ البال تھے۔ لیکن کیا اس عروج کے زمانے میں مسلمان عوام جن میں کسان، کاشت کار اور دست کار شامل تھے، بھی خوش حال تھے؟ اس سوال کا جواب اس کتاب میں نہیں ملتا ہے ،کیونکہ اس کے مخاطب مسلمان امراء اور جاگیردار تھے جو کہ مرہٹوں، سکھوں، جاٹوں اور انگریزوں کے  اقتدار میں آنے کے بعد مراعات و فوائد سے محروم ہوگئے تھے اس لیے ان میں جہاد کے فوائد بیان کرکے انہیں متحرک کرنے کی کوشش کی گئی اور لکھا کہ:

”آسمانی برکتوں کے سلسلے میں روم اور ترکی سے ہندوستان کا مقابلہ کرکے دیکھ لو“[4] ۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت ہندوستان کے مسلمانوں کی دنیا کی تاریخ و جغرافیہ اور خود اسلامی ممالک کے بارے میں معلومات محدود تھیں۔ ترکی اور روم دو ملک نہیں ، ایک ہی ملک تھا جو اس وقت سلطنت عثمانیہ کہلاتا تھا۔ انیسویں صدی میں ترکی ایک زوال پذیر سلطنت تھی جو خود  اپنے  گناہوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی تھی۔ لیکن ہندوستان کا مسلمان جو سلطنت عثمانیہ سے ناواقف تھا، اس کے لیے وہاں خدا کی رحمتوں کا نزول ہورہا تھا۔ چونکہ سید احمد کی تحریک کی بنیاد جہاد پر تھی اس لئے صراط مستقیم میں اس پر تفصیل سے لکھا گیا ہے تاکہ لوگوں میں جذبہ پیدا ہو۔

”باقی رہے خصوصی فوائد تو شہدائے مومنین، مسلمان مجاہدین،  صاحب اقتدار سلاطین اور میدان کارزا ر کے جواں  مردوں کو فوائد پہنچتے ہیں۔ ان کی تفصیل کی ضرورت نہیں “[5]۔

دشمن کون؟ انگریز،  یا  غیر مسلم ہم وطن؟

جب جہاد کے لیے عمل کا وقت آیا تو اس وقت مسلمان والیان ریاست اور جاگیر  دار طبقے نے ان کی مالی امداد تو کی مگر جہاد کے لیے ان کے ساتھ جانےکو  تیار نہیں ہوئے۔ ان  کے ساتھ جو 8 ہزار مجاہدین کی تعداد تھی ان میں اکثریت علماء کی تھی یا پھر متوسط طبقے کے لوگ تھے جو اس امید میں شامل ہوئے تھے کہ انہیں ثواب اور مادی فوائد دونوں حاصل ہوں گے۔ ان کی تحریک کی کچھ والیان ریاست نے ضرور مدد کی جن میں ٹونک، رامپور، اور گوالیار کی ریاستیں قابل ذکر ہیں اور یہ امداد انہوں نے یقیناً اس وجہ سے کی کہ  انہیں انگریزی حکومت کی ناراضگی کا کوئی خطرہ نہیں تھا۔ ورنہ ان میں سے کوئی بھی انگریز کی مرضی کے بغیر انہیں  مالی مدد نہ دیتا۔

ایک سوال اور پیدا ہوتا ہے کہ آخر انہوں نے سکھوں سے جہاد کا فیصلہ کیوں کیا؟ اس کے پس منظر میں کئی وجوہات تھیں ، انگریزی عمل داری میں وہ جہاد اس لیے نہیں کرسکتے تھے کہ انگریز سیاسی لحاظ سے طاقت ور تھے اور ان کے خلاف کامیابی کے کوئی امکانات نہیں تھے اور نہ انگریزوں کے خلاف جہاد میں انہیں کسی قسم کی مالی امداد مل سکتی تھی۔سکھوں کے خلاف جنگ کے لیے انہوں نے سرحد کے علاقے کو اس لیے اختیار کیا کہ شمالی ہندوستان میں پٹھانوں کے بارے میں عام تاثر ہے کہ وہ بڑے مذہبی جنگ جو اور مذہب کی خاطر جان دینے والے ہوتے ہیں۔ اس لیے سید احمد اور ان کے پیرو کاروں کا شاید یہ خیال ہو کہ چونکہ ان کی تحریک خالص مذہبی ہے،  اس لیے جیسے ہی وہ اپنا منصوبہ ان کے سامنے رکھیں گے پٹھان فوراً ان کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہوجائیں گے اور ان کی مدد سے وہ سکھوں کے خلاف موثر طور پر لڑ سکیں گے۔ چونکہ یہ جنگ مذہب کے لیے ہوگی، اس لیے پنجاب کے مسلمان بھی ان کا ساتھ دیں گے۔

جہاد تحریک میں جو لوگ شامل تھے ان میں جوش ، ولولہ، اور سادگی تھی اور انہیں یہ امید تھی جس طرح قرون اولیٰ کے مسلمانوں نے اپنی قلیل تعداد کے باجود عراق و ایران  کو فتح کرلیا تھا اسی جذبے کے تحت وہ بھی سکھوں کو شکست دے دیں گے اور جس طرح بکھرے ہوئےعرب قبائل مذہبی طور پر متحد ہوگئے تھے اسی طرح پٹھان قبائل بھی ایک جگہ جمع ہوجائیں گے۔اسی لیے سید احمد شہید نے سکھوں کے خلاف جہاد کو ایک مرکز بنایا تاکہ اپنے پیروکاروں کو اس  پر جمع کرسکیں۔  انہوں نے سکھوں سے جنگ کو ایک الہیٰ حکم قرار دیا جس  کا  اظہار انہوں نے اپنے ایک مکتوب میں اس طرح سے کیا ہے:۔

”اس فقیر کو پردہ غیب سے کفار یعنی لانبے بالوں والے سکھو ں کے استیصال کے لیے مامور کیا گیا ہے۔ جس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں ، رحمانی بشارتوں کے ذریعے نیک کردار مجاہدین کو ان پر غلبہ پانے  بشارت دینے والا مقرر کیا گیا ہے۔ لہذاٰ جو شخص آج اپنی جان و مال عزت اور وجاہت کو اس پاک پروردگار کے کلمے اور سنت رسول کو زندہ کرنے میں بطیب خاطر خرچ نہیں کرے گا اس سے کل ضرور جبراً مواخذہ کیا جائے گا اور اس کو سوائے حسرت و ندامت کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا“[6]۔

سکھوں سے جہاد کا جواز فراہم کرنے کے لیے جو باتیں کہی گئیں ہیں وہ اس قسم کی تھیں کہ وہاں مسلمانوں کو  مذہبی آزادی نہیں ، مساجد میں گھو ڑے باندھے  جاتے ہیں، اذانیں بند ہیں ، قرآن کی بے حرمتی کی جاتی ہے اور سکھوں نے مسلمان عورتوں کو زبردستی اپنے گھروں میں ڈال رکھا ہے۔ ان میں سے کچھ باتیں صحیح تھیں اور متعصب سکھوں کی جانب سے مذہبی تعصب کا اظہار ہوتا ہے۔ لیکن بحیثیت مجموعی رنجیت سنگھ کی حکومت میں رواداری کا جذبہ تھا ۔ اس کی انتظامیہ اور فوج میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد تھی۔  ان کے مذہبی معاملات میں حکومت مداخلت نہیں کرتی تھی اور ان کے فیصلے شریعت کے مطابق ہوتے تھے۔ اس لیے پنجاب کے مسلمانوں نے سید احمد شہید کا ساتھ نہیں دیا۔  اس کے برعکس سکھوں کی فوج میں مسلمان بڑی تعداد میں تھے جو ان سے جنگ لڑے، بلکہ ساتویں جنگ میں درانی پٹھان زیادہ تھے اور سکھ بہت کم تھے[7]۔

وادئ سندھ کی پہلی طالبانی ریاست

سید احمد شہید اور ان کے ساتھیوں نے 1825ءمیں اپنا سفر شروع کیا، اور راجپوتانہ ، مارواڑ، سندھ ، بلوچستان  اور افغانستان سے ہوتے ہوئے سرحد(خیبر پختونخواہ) کے علاقے میں داخل ہوئے اور یہاں سے انھوں نے رنجیت سنگھ کو یہ پیغام بھیجا کہ یا تو مسلمان ہو جاؤ، جزیہ دو یا جنگ کرو اور یہ یاد رکھو کہ جنگ کی صورت میں یاغستان ہندوستان کے ساتھ ہے۔سید احمد کی پہلی جنگ21 دسمبر 1826ء کو بمقام اکوڑہ ہوئی اور اس میں نہ صرف انہیں کامیابی ہوئی بلکہ مال غنیمت بھی ہاتھ آیا۔ اس کامیابی نے ان کے حوصلے بڑھا دیے اور سرحد کے قبائل میں اس فتح نے ان کے اثر و رسوخ کو بڑھا دیا۔ اس لیے یہ فیصلہ ہوا کہ انتظامات اور دوسرے امور کے لیے باقاعدہ تنظیم ہو تاکہ شریعت کے مطابق باقاعدہ فیصلے کیے جائیں۔ اس کی روشنی میں 11جنوری 1827ءکو آپ کے ہاتھ پر بیعت کی گئی اور آپ کو امیر المومنین منتخب کرکے خلیفہ کے خطاب سے پکارا جانے لگا۔

احیاء کی تحریکوں میں ہمیشہ اس بات کی کوشش کی جاتی ہے کہ ماضی کے قدیم ڈھانچہ کو دوبارہ تشکیل دیا جائے اور قدیم الفاظ اور اصطلاحات کا استعمال کیا جائے۔ اس لیے امیر المومنین ، خلیفہ، امام، مجلس شوریٰ ، اور بیت المال کی اصطلاحات کا استعمال ہوا ۔ سید احمد نے اپنے پیروکاروں میں حوصلہ پیدا کرنے کی غرض سے اپنے ہاتھ ہونے  والے واقعات کو قدیم اسلامی تاریخ سے تشبیہ دی۔ مثلاً وینٹورا سے ایک جنگ کے موقع پر انہوں نے دفاع کے لیے ایک دیورا تعمیر کرائی اور اس معرکے کو غزوہ  خندق سے تشبیہ دی۔

سید احمد کے دعوی  امامت نے نہ صرف سرحد میں انکی مخالفت کو ابھار ا بلکہ ہندوستان میں بھی ان کے اس دعوے کو شک وشبہ سے دیکھا گیا۔ جب خطبے میں ان کا نام بحیثیت خلیفہ اور امام پڑھا گیا تو سرحد کے سرداروں پر یہ بات واضح ہوگئی کہ وہ ان کے علاقے میں اپنی حکومت  قائم  کرکے انہیں اقتدار اور سرداری سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ انہوں نے اپنے خطوط میں جو انہوں نے ہندوستان اور دوسرے مسلمان حکمرانوں کو لکھے اس بات کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان کا مقصد دنیاوی حکومت نہیں بلکہ کافروں سےجہاد کے لئے امام بننے پر تیار ہوئے ہیں، خط میں لکھتے ہیں کہ:

“اللہ کا شکر اور احسان ہے کہ اس مالک حقیقی اور بادشاہ حقیقی نے اس گوشہ نشین فقیر ،عاجز اور خاکسار کو پہلے تو غیبی اشاروں اور اپنے الہامات کے ذریعے ، جن میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں ، خلافت کا اہل ہونے کی بشارت دی۔ دوسرے یہ کہ مسلمانوں کی بڑی جماعت اور خاص و عام کی تالیف قلوب کے لئے مرتبہ امامت سے مجھ کو مشرف فرمایا“[8]۔

مخالفوں پر تنقید کرتے ہوئے شاہ اسماعیل شہید نے  لکھا کہ: ۔

”لہذا جناب والا کی اطاعت تمام مسلمانوں پرلازمی ہے۔ جو شخص جناب والا کی امامت کو ابتداء میں قبول نہ کرے یا قبو ل کرنے کے بعد اس سے انکار کرے تو یہ سمجھ لیجیے کہ وہ باغی ، مکار ، فریبی اور اس کا قتل کرنا  کافروں  کے قتل کی طرح عین جہاد ہے۔ پس معترضین کے جوابات اس خصوص میں اس عاجز کے پاس تو ان کو تلوار کے گھاٹ اتارنا ہے نہ کہ تحریر و تقریر سے(انہیں جوابات دینا ہے) “[9]۔

اپنی امامت کے بارے میں سید احمد نے  نواب وزیر الدولہ والی ٹونک کو لکھا کہ: ۔

”آپ اس کو بالکل یقین  جانیں ،جو شخص دل سے میرے اس منصب کا اقرار کرتا ہے وہ مقبول بارگاہ لم یزل ہے اور جو شخص انکار کرتا ہے وہ بے شک اس حق جل شانہ کے پاس مردود ہے۔ میرے مخالفین کو جو میرے اس عہدے سے انکار کرتے ہیں، ان کو ذلت و رسوائی ہوگی“[10]۔

سید احمد کے سیاسی اور مذہبی اقتدار نے سرحد میں ان کی زبردست مخالفت پیدا کردی۔ کیونکہ انہوں نے اچانک سرحد آکر وہاں کے پورے سیاسی ڈھانچے کو بدل ڈالا جس کے لیے سردار بالکل تیا ر نہ تھے۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ پٹھان سردار اور عوام شمالی ہندوستان سے آنے والے غیروں اور اجنبیوں کو اپنا حکمراں تسلیم کرنے پر تیار نہ تھے۔  اس لیے اگرچہ ان کے معرکے سکھوں سے رہے، لیکن بہت جلد وہ سکھوں سے زیادہ پٹھان سرداروں سے مصروف جنگ ہوگئے۔ اور جب ان میں سے کچھ نے ان کی اطاعت نہیں کی تو انہیں منافق،  ضعیف الاعتقاد  اور  ملعون کہنا  شروع کردیا۔ سرحد کے سرداروں کا اپنا یہ نقطہ نظر تھا کہ وہ سید احمد کی مدد سے سکھوں کو نکال کر اپنی خودمختار ی بحال کرلیں گے۔ مگر جب انہوں نے  خود کو امام اور خلیفہ منتخب کرلیا تو ان کے لیے ان میں اور سکھوں میں کوئی فرق  نہ  رہا ۔ اگرچہ سید احمد شہید خود کو ایک برتر مذہبی مقام پر فائز سمجھتے تھے ۔انہیں فتح  کی خوش خبری ،  مال غنیمت کے حصول اور رحمت الہیٰ کی برکتوں کا ذکر کرتے تھے۔ مگر سرداروں کے لئے ان سے زیادہ اقتدار عزیز تھا جو وہ اس طرح سے ان کے حوالے کرنے پر تیار نہ تھے۔ پٹھان سردار مولویوں کو کسی بھی صورت برتر سماجی حیثیت دینے پر تیار نہ تھے۔  خادی خان، ایک پٹھان سردار،  کے مطابق ریا ست کی دیکھ بھال کرنا سرداروں کا کام ہے، ملا  زکوٰۃ اور خیرات   کھانے والے ہیں اور انہیں ریاست کے معاملات کا شعور نہیں[11] ۔

اس مخالفت کے بعد سید احمد کے لیے ضروری ہو گیا کہ پہلے وہ اپنی بنیادوں کو محفوظ کریں اور جب ان کا تمام علاقے پر تسلط ہوجائے تو وہاں اسلامی نظام نافذ کرکے شریعت کو قائم کریں۔  اس طرح ان کی پوری جہاد تحریک ،  خانہ جنگی میں بدل گئی۔ چناچہ جب سرحد کے سرداروں کے خلاف معرکوں کا سلسلہ شروع ہوا تو انہوں نے ان کے علاقوں پر حملے کو اس لیے جائز کہا کہ وہاں فسق و فجور تھا۔ لوگ شرع سے ہٹے ہوئے تھے اور ان میں جاہلیت کی رسومات تھیں۔ ان حالات میں امام کے لیے یہ لازمی ہوجاتا ہے کہ ایسے ملک پر لشکر کشی کرکے ان کا فرانہ  رسومات  کا  خاتمہ  کرے۔ اس کے ثبوت میں امیر تیمور کا وہ فتویٰ دیا گیا کہ جس میں اس وقت کے علماء نے ہندوستان  پر  حملے کو جائز قرار دیا تھا۔ اس فتوے کے تحت ایسے ملک پر حملہ کرنا کہ جہاں کافرانہ رسومات ہوں جائز ہے۔ چاہے وہاں کا حکمراں مسلمان ہی کیوں نہ ہو۔ ایسے ملک میں فوج کا لوگوں کو قتل کرنا اور مال غنیمت و دولت لوٹنا بھی جائز  ہے[12]۔

اس سلسلے میں پہلی لڑائی یار محمد خاں حاکم یاغستان سے ہوئی جو لڑائی میں مارا  گیااور1830ء میں پشاور پر سید احمد کا قبضہ ہوگیا۔ اس کے بعد رئیس پنجتار اور پلال قوم کا سردار ان کے مرید ہوگئے۔ لیکن سردار پابندہ خاں نے ان کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی۔ اس لیے اس پر کفر کا فتوی ٰ لگا دیا گیا اور اس  کے خلاف جہادکیا گیاجس میں اسے  شکست ہوئی۔  خادی  خاں ، رئیس ہند کے خلاف اس لیے  اعلان جنگ کیا گیاکہ اس نے بیعت کے بعد ان کے خلاف بغاوت کی تھی، اس لیےوہ واجب القتل ہوا۔ قتل کے بعد اس کی نمازہ جنازہ پڑھانے سے بھی انکار کردیا، جس پر پٹھان مولویوں نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔

پشاور کی فتح کے بعد انہوں نے شریعت کے نفاذ کے لیے  ایک پرتشدد پالیسی کا آغاز کیا اور وہ تمام قبائلی رسومات جو ان کے نزدیک غیر شرعی تھیں ان کے خاتمے کا اعلان کیا۔ ان رسومات میں اہم یہ تھیں: شادی کے لیے بیوی کی باقاعدہ قیمت ادا کی جاتی تھی۔ مرنے والے کی بیویاں اس کے وارثوں میں تقسیم ہوتی تھیں ۔  چار سے زیادہ شادیوں کا رواج تھا، عورت جائیداد کی وارث نہیں ہوسکتی تھی، آپس کی جنگیں جہاد تصور کی جاتی تھیں اور لوٹ کا مال، مال غنیمت میں شمار ہوتا تھا۔لہٰذا پشاور کی فتح کے بعد یہ احکامات ہوئے کہ جن لوگوں نے اپنی بیویوں کی آدھی رقم بھی دے دی ہے وہ انہیں لے جائیں، جو عورتیں شادی کے قابل ہیں ان کی فوری شادی کردی جائے۔ شرعی احکام کے نفاذ کے لیے  انہوں نے امام قطب الدین کو محتسب مقرر کیا جن کے ساتھ 30مسلح سپاہی رہا کرتے تھےاور وہ ان کے ہمراہ قرب و جوار کے دیہاتوں میں جاکر ان افغان جوانوں کو مارا پیٹا کرتے تھے جنہوں نے نماز ترک کردی تھی۔ مارنے پیٹنے اور کوڑے مارنے کا یہ عالم ہوگیا تھا کہ اگر کوئی ہندوستانی دیہات میں چلا جاتا تو وہاں افراتفری اور بھگدڑ مچ جاتی تھی۔ سزا دینے کے معاملے میں انتہائی تشدد سے کام لیا گیااور یہاں تک ہوا کہ لوگوں کو درختوں کی شاخوں پرلٹکا  دیا جا تا تھا۔ عورتوں میں بھی جو نماز چھوڑ دیتی تھیں انہیں زنان خانے میں سزائیں دی جاتی تھیں، اس لیے  بہت جلد لوگ ان سے تنگ آگئے کیوں کہ یہ قاضی و محتسب  حد سے زیادہ لوگوں کو تنگ کرنے لگے اور ان کی استطاعت سے زیادہ ان پر جرمانے عائد کرنے لگے[13]۔

جس چیز نے سرحد کے علماء کو ناراض کیا وہ سید احمد اور مجاہدین کا عشر وصول کرنا تھا کیونکہ اس کے حقدار اب تک سرحد کے علماء تھے۔ مجاہدین کا کہنا تھا کہ اس کا حقدار امام ہوتا ہے اور وہ اسے  بیت المال میں جمع کرکے مستحقین میں تقسیم کرتاہے۔ چونکہ اس سے سرحد کے علماء کی روزی پر اثر پڑا، اس لیے وہ ان کے زبردست مخالف ہوگئے۔ یہ مخالفت بعد میں ان کے عقائد کیوجہ سے اور بڑھ گئی چونکہ آمین  بالجہر(زور سے آمین کہنا) اور رفع یدین (نماز میں ہاتھ اٹھانا) ان کے عقائد میں شامل تھے۔ اس کے علاوہ ہندوستان میں ان کے مخالف علماء نے ان کے پاس  محضر  نامہ بھیجا کہ سید احمد انگریزوں کے ایجنٹ ہیں اس لیے ان سے ہوشیار رہاجائے، ان تمام باتوں نے ان کی حیثیت کو بڑا کمزور کردیا[14] ۔

علماء سرداروں اور عام لوگوں میں اس وقت بے چینی پھیلنا شروع ہوئی کہ جب مجاہدین نے کہ جن کی اکثریت اپنے اہل و عیال کو ساتھ نہیں لائی تھی ، پٹھانوں میں زبردستی شادیاں کرنا شروع کردیں۔یہاں تک ہوا کہ کوئی لڑکی جارہی ہے اور کسی مجاہد نے اسے پکڑ لیا اور مسجد لے جاکر زبردستی نکاح کرلیا۔ ایک ہندوستانی  نے جب اس طرح سے ایک خوشیکی سراد ر کی  لڑکی سے شادی کی تو اس نے اپنے مخالف خٹک قبیلے کے سردار سے درخواست کی کہ اس کی مدد کرے ۔ اس پر خٹک سردار نے قبیلے کے سامنے اپنی لڑکی کا دوپٹہ اتار کر یہ عہد کیا کہ وہ جب تک پٹھان کی عزت کا بدلہ نہیں لے گا چین سے نہیں بیٹھے گا[15]۔ ستم بالائے ستم یہ کہ جن خاندانوں کی لڑکیوں کی شادیاں ان ہندوستانیوں میں ہوئی تھیں  انہیں  دوسرے پٹھان طعنے دیتے تھے کہ تم نے کالے کلوٹے ہندوستانیوں میں شادی کردی، اس پر ان طعنہ دینے والوں کو مجاہدین  نے سزائیں دیں[16]۔ یہ وہ وجوہا ت  تھیں کہ سرحد کے علماء ، سردار اور عوام ان کے مخالف ہوگئے اور انہوں نے ایک منصوبے کے تحت تمام مجاہدین کو،  جو پشاور اور اس کے گردو نواح میں انتظامی امور پر فائز تھے ،قتل کردیا۔ اس واقعہ کے بعد سید احمد کشمیر جانا چاہتے تھے، مگر اس سے پہلے ان کا آخری معرکہ سکھوں سے ہوا  اور 1831ء میں وہ ان کے ساتھی بالاکوٹ کے مقام پر شہید ہوئے۔

ناکامی کے اسباب

سید احمد کی تحریک جہاد کا اگر تنقیدی جائزہ لیا جائے تو اس کی بنیادی کمزوریوں کا اندازہ  لگایا جاسکتا ہے۔ سرحد کے علاقے کو اپنا مرکز بنانے سے پہلے نہ تو سید احمد نے اور نہ ان کے پیروکاروں نے اس علاقے کے جغرافیہ کو سمجھا نہ اس کی تاریخ کو۔ اور نہ قبائل کی تشکیل، ان کی روایات و رسومات اور ذہن کو۔  نہ انہوں نے ان کی زبان سیکھی اور نہ ان کے طور طریق۔ نہ انہوں نے اس بات کا ادراک کیا کہ مذہب سے زیادہ لسانی اور قبائلی رشتے مضبوط ہوتے   ہیں۔ اور وہ شمالی ہندوستان سے آنے والوں کو کسی بھی صورت اپنا حکمران نہیں بنائیں گے۔ کیونکہ مذہب ایک سہی، مگر ثقافتی اختلافات ان کو ایک دوسر ے کے قریب کرنے میں رکاوٹ بنے رہے۔ ان کے ساتھ جو مجاہدین اور رضاکار آئے تھے ،ان کی مدد سے قبائل کو شکست دے کر وہاں بزور طاقت حکومت قائم کرنا مشکل تھا۔  اس لیے ان کی سرگرمیوں کو پٹھانوں نے شروع ہی سے شک و شبہ سے دیکھا اور ان کے لیے یہ سمجھنا یقیناً  مشکل ہوگا کہ یہ لوگ ہندوستان سے جہاد کرنے یہاں کیوں آئے ہیں ؟ اس کا احساس اسماعیل شہید کو ہوا جس کا اظہار انہوں نے اس طرح سے کیا: ۔

”اس علاقے میں آکر ایسا معلوم ہو ا کہ اگرچہ طویل مدت میں خدا کی  مہربانی  مقصود کا  حصول متوقع ہے ۔ لیکن ابھی اس نواح میں لشکر آنے  کا  وقت نہیں آیا تھا۔ ابھی تو اس کی ضرورت تھی کہ فدوی چند خدمت گاروں کے ساتھ اس نواح میں آتا اور دیہاتوں اور بستیوں  کاخفیہ اور اعلانیہ دورہ کرتا ۔ جب اس علاقے کے  روسا ء تیارہوجاتے اور لشکر کے قیام کے لیے  کوئی جگہ معین ہوتی تو اس وقت لشکر اسلام رونق افروز ہوتا۔ یا  ابتداء  ہی میں ایک بڑا لشکر ِجراریہاں کا رخ کرتا اور یہاں کے باشندوں کی موافقت یا مخالفت  سے  قطع نظر کرتے ہوئے علم جہاد بلند کرتا اور بغیر کسی تردد اور دغدغہ کے کفار و منافقین پر دست اندازی کرتا ،  پھر جو  مخالفت کرتا سزا پاتا“[17]۔

اس کے علاوہ  ان کے ساتھ جو لوگ آئے تھے وہ سب دین کی خاطر جہاد کرنے والے نہیں تھے۔ ان میں ایسی تعداد بھی تھی جو محض لوٹ مار کی غرض سے آتی تھی۔ کیونکہ ان میں وہ فوجی بھی شامل تھے جو امیرخان کی فوج کاایک حصہ تھے ۔  جنگ کرنا ان کا پیشہ تھا اور اس کے ذریعہ وہ دولت اکھٹی کرتے تھے۔ جب ہندوستان میں مہم جوئی کے مواقع ختم ہوگئے تو وہ اس امید میں آئے کہ دین کی خدمت بھی ہوگی اور مال غنیمت بھی ملے گا۔اس کے ساتھ ہی اس بات کے شواہد بھی ملتے ہیں کہ جہاد میں حصہ لینے والوں کی کوئی فوجی تربیت نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی ان میں نظم و ضبط تھا۔ فوجی اخراجات اور اسلحہ کےلیے  انہیں ہندوستان کے چندوں پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔ ابتداء  میں لوگوں نے خوب چندہ دیا ،مگر جب کامیابی کے امکانات کم ہوئے تو اسی طرح سے چندے میں کمی آتی گئی۔اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ تحریک محض مذہبی جوش کے سہارے شروع ہوئی تھی اور اسے مفروضوں پر تشکیل دیا گیا تھا ۔ جو حقیقتیں  تھیں انہیں نظر انداز کردیا گیا تھا ۔تحریکیں محض جوش اور تشدد اور تعصب و سختی  سے کامیاب  نہیں ہوتی ہیں۔ اور اس کے نتیجے میں معاشرے کی قوت و توانائی ضائع ہوتی ہے۔

اثرات

سید احمد شہید کی تحریک نہ تو سکھو ں کے خلاف کوئی کامیابی حاصل کرسکی اور نہ سرحد  میں  اسلامی معاشرے کا قیام  ممکن ہوسکا ۔ جب 1849ء میں پنجاب پر انگریزوں کا قبضہ ہوا تو انہوں نےسختی سے اس تحریک کو ختم کردیا اور ان پر 1870ءتک ”وہابی مقدمات “چلائے گئے جن میں ملوث علماء کو مختلف سزائیں دی گئیں۔ آخر میں مولوی محمد حسین بٹالوی  نے اس کو اہلحدیث کا نام دے کر انگریزی حکومت سے مصالحت کرلی، اوار جہاد کی مخالفت میں ایک رسالہ بھی لکھا۔ سید احمد کی تحریک کی چند خصوصیات یہ تھیں کہ یہ مکمل طور پر ایک ہندوستانی تحریک تھی۔ اور اس کا تعلق باہر سے نہیں تھا اور نہ یہ بیرونی امدار پر چلی ۔ اس تحریک کے لیے  تمام چندہ ہندوستان ہی سے جمع ہوا کرتا تھا، اس کی وجہ سے ہندوستان میں مسلمان معاشرے میں علیحدگی کے جذبات پیدا ہوئے اور مغل ثقافت، جو سیکولر ثقافت کے طور پر ابھر رہی تھی، اس تحریک نے اس کے پھیلاؤ اور اس کی ترقی کو روکا۔

اس تحریک کا اثر یہ ہوا کہ اس کے بعد علماء نے جہاد کی بجائے تبلیغی مشن شروع کئے اور اپنے اثر و رسوخ  کے  لئے  مدرسے اور درس گاہیں قائم کیں۔  اس تحریک نے  ہندوستان کے علماء کے طبقے میں بھی گہرے اختلافات  پیدا کیے اور یہ اختلافات مناظروں اور وعظوں کی صورت میں اور زیادہ شدید ہوتے چلے گئے۔ اس لیے  علماء اور ان کے پیرو کاروں کی جماعتوں نے اس تحریک سے قطعی  لاتعلقی  کا  اظہا رکیا اور یہاں تک ہوا کہ ان کی  شکست پر خوشیاں منائی گئیں۔  اور اس تحریک کا انجام بھی وہی ہواجو اکثر احیاء کی تحریکوں کا ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں میں اتفاق و اتحاد پیدا کرنے کی بجائے ان میں تفرقہ ڈال کر خود کو ایک نئے فرقے کی حیثیت سے تشکیل دے دیتی ہیں۔ چنا نچہ  ان مذہبی تنازعوں اور اختلافات کی چھاپ اب تک مذہبی جماعتوں اور گروہوں میں موجود ہے۔

ماٴخذ: ڈاکٹر مبارک علی، ”المیہ تاریخ“، باب 11،صفحات 107 ۔ 121، فکشن ہاؤس لاہور، (2012).

نوٹ:مکالمہ پر یہ مضمون آزادی ء اظہارِ رائے کے تحت شائع کیا گیا ہے۔مصنف نے اس مضمون کی تیاری میں مختلف کتب سے استفادہ کیا ہے،جن کے حوالہ جات  آخر میں درج ہیں۔اگر کوئی دوست اس مضمون کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہے تو مکالمہ کے صفحات حاضر ہیں!
https://www.mukaalma.com/72639/

نوٹ: مجدد الف ثانی اور شاہ ولی الله کے بارے میں ڈاکٹر مبارک علی  کا مضمون درج ذیل لنک پر پڑھا جا سکتا ہے:-

حوالہ جات

[1]  شاہ ولی اللہ: حجتہ الله  البالغہ ، کراچی، 1926ء، ص 28

[2] پیٹر ہارڈی: ہندوستانی مسلمان، کیمبرج، 1982ء، ص109

[3]   صراط مستقیم: ص 49

[4]   ایضاً: ص 50

[5]  ایضاً:  ص 51

[6] جعفر تھانیسری: مکتوبات سید احمد شہید، کراچی 1949ء، ص 44

[7] حیات طیبہ: 261

[8] مکتوبات سید احمد: ص 119

[9] ایضاً: ص 175

[10] ایضاً: ص 295

[11]  ابوالحسن ندوی: سیرت  سید احمد شہید، کراچی 1975ء، ص 114-115

[12] حیات طیبہ: ص 383-384

[13] مکتوبات سید احمد:  ص 277، 280

[14] عبیداللہ سندھی: شاہ ولی اللہ کی سیاسی تحریک، لاہور، 1951ء، ص 96-102

[15] ابوالحسن ندوی: ص 212
[16] ایضاً: 46
[17] حیات طیبہ: ص 260


Source: https://www.mukaalma.com/72639/