ایک امریکی یونی ورسٹی کے ایک ممتاز پروفیسر نے خطے میں مذہبی فکر اور اس کے اثرات اور جوابی اثرات کا مطالعہ کرنے کی خاطر برعظیم پاک وہند کاد ورہ کیا۔فطری طور پر اسے اقبال کے متعلق جاننے کے لیے خاصا وقت صرف کرنا پڑا۔اس سفر کے دوران موصوف نے راقم کے ساتھ مفصل گفتگوکی۔
Muhammad Iqbal (1873-1938) is a prominent philosopher and great thinker in Indian Sub- continent as well as a dominant figure in the literary history of the East. His thought and literature are not simply for his countrymen or for the Muslim Ummah alone but for the whole of humanity. He explores his distinctive thoughts on several issues related to Western concepts and ideologies. Iqbal had made precious contribution to the reconstruction of political thoughts. The main purpose of the study is to present Iqbal’s distinctive thoughts and to evaluate the merits and demerits of modern political thoughts. The analytical, descriptive and criticism methods have been applied in conducting the research through comprehensive study of his writings both in the form of prose and poetry in various books, articles, and conferences. It is expected that the study would identify distinctive political thought by Iqbal. It also demonstrates differences between modern thoughts and Iqbalic thoughts of politics… keep reading ….[……..]
اقبال کے متعلق اس پروفیسر کاایک بنیادی اعتراض یہ تھا کہ:
’’اقبال حقیقت پسند نہیں تھے۔ اسلامی نشاتِ ثانیہ کے بانی کی حیثیت سے،انھوں نے قیاس کی طرف بہت زیادہ توجہ کی، اور ’’جس معاشرے کا اقبال نے تصور کیاتھا،وہ انسانوں کے بجاے ولیوں کا معاشرہ تھا‘‘۔
یہ ایک امریکی پروفیسر ہی نہیں ہے،بلکہ اکثر مغربی مفکر، اقبال کے بارے میں اسی طرح سوچتے ہیں۔ ہم یہاں ان لوگوں کے نظریات پر نظر ڈالنے کی کوشش کریں گے، جو اس اعتراض کے علَم بردار ہیں۔
اقبال کیاچاہتے تھے؟
اس سے پہلے کہ مذکورہ اعتراض کو پرکھیں، یہ بہتر ہو گا کہ ہم یہ امر واضح کر لیں کہ دراصل اقبال چاہتے کیا تھے؟
اور مسلمانوں کا اعتماد کس پر تھا؟
اقبال بیسویں صدی میں اسلامی نشاتِ ثانیہ کے بانیوں میں سرفہرست تھے۔انھوںنے مسلم تاریخ کے عصری دور کاناقدانہ مطالعہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچے: ’’مسلمان جوں جوں اسلام سے دُور ہوتے گئے، تو وہ بتدریج زوال پذیرہوتے گئے۔ اب ان کا احیا صرف اس صورت میں ہوسکتا ہے کہ وہ اسلام کے اصولوںکے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی کی ازسرنو تشکیل کریں‘‘۔ اقبال نے مغرب کی اندھادھند تقلید کا نظریہ مسترد کردیا اور اُمیددلائی کہ: ’’مسلمان اسلامی نشاتِ ثانیہ لانے کے ذریعے مغرب کی استعماری قوتوں کو بھی مات دے سکتے ہیں، جو انسانیت کی زندگی میں ایک نیا باب کھولنے کا باعث ہوسکتی ہے‘‘۔وہ مغرب کے روحانی بحران پر بہت زیادہ مضطرب تھے اور اس کا حل انھیں صرف اسلامی احیا ہی کی صورت میں نظر آتا تھا۔ان کا تجویزکردہ حل درج ذیل ہے:
گویا عصرِحاضر کا انسان اگر پھر سے وہ اخلاقی ذمہ داری اُٹھا سکے گا، جو علومِ جدید (سائنس) کے نشوونما نے اس پر ڈال رکھی ہے، تو صرف مذہب کی بدولت۔ یوں ہی اس کے اندر ایمان اور یقین کی اس کیفیت کا احیا ہوگا، جس کی بدولت وہ اس زندگی میں ایک شخصیت پیدا کرتے ہوئے آگے چل کر بھی اسے محفوظ اور برقرار رکھ سکے گا۔ اس لیے کہ مذہب، یعنی جہاں تک مذہب کے مدارجِ عالیہ کا تعلق ہے، نہ تو محض عقیدہ ہے، نہ کلیسا، نہ رسوم و ظواہر۔ لہٰذا، جب تک انسان کو اپنے آغاز اور انجام، یا دوسرے لفظوں میں اپنی ابتدا اور انتہا کی کوئی نئی جھلک نظر نہیں آتی، وہ کبھی اس معاشرے پر غالب نہیں آسکتا۔ جس میں باہم دگر مقابلے اور مسابقت نے ایک بڑی غیرانسانی شکل اختیار کر رکھی ہے، نہ اس تہذیب و تمدن پر، جس کی روحانی وحدت اس کی مذہبی اور سیاسی قدروں کے اندرونی تصادم سے پارہ پارہ ہوچکی ہے۔{ FR 644 }
اس لیے انھوںنے انسانی معاشرے کی اخلاقی بنیادوں پر اَزسرنوتشکیل اور باطل پر حق اور بُرائی پر نیکی کے غلبے کی کوشش کی۔یہ محمد اقبال کے اثرات ہی ہیں کہ اسلام کی مزاحتمی قوتیں [اور تحریکیں] فرد کی اصلاح، سماجی تنظیم اور ریاست کی اصلاح کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ لالچ اور طاقت ، سماجی عداوت اور معاشی استحصال کے بجاے اخلاقی اقدار ہی برتر اور غالب ہوں، نیز انفرادی اور اجتماعی زندگی کو محبت،سچائی،انسانی اخوت،سماجی ہم آہنگی اور سیاسی تعاون کی بنیادوں پر منظم کیا جائے۔وہ یہ نہیں سمجھتے کہ آنکھ جھپکنے میں حالات تبدیل ہو سکتے ہیں لیکن وہ یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ اصلاح بتدریج اور یقینی طور پر واقع ہوگی۔یہ ایک انتہائی منطقی اور اخلاقی نظریہ ہے اور اس کے داعی، امید، حوصلے اور اعتماد کے ساتھ مستقبل کی طرف دیکھتے ہیں۔
{ FN 644 } محمد اقبال، The Reconstruction of Religious Thought in Islam، [پیش لفظ: جاوید مجید، مرتب: ایم سعید شیخ] اسٹن فرڈ یونی ورسٹی پریس، امریکا، بہ اشتراک اقبال اکادمی پاکستان، لاہور،۲۰۱۲ء، ص ۱۴۹
کے رُوبرو منکشف ہوئی ہے۔بذات خود ہماری اپنی تہذیب وثقافت کی تباہی۔ اگر خام تہذیب وثقافت تباہ ہو سکتی ہے، تو پھر یہ عمل بتدریج واقع ہوناچاہیے کیونکہ یہ زندہ رہنے کے لیے اچھا نہیں‘‘۔
پروفیسر لزی سوسن سٹیبنگ [م: ۱۹۴۳ء] نے Ideals and Illusions [۱۹۴۸ء] میں کہا ہے: ’’میرے وطن [برطانیہ] کے علاوہ کسی بھی دوسرے ملک میں اس قدر انسان، مرد، عورت اور بچے، تکلیف، دلی صدمہ، روحانی تلخی اور غیرضروری موت میں مبتلا نہیں ہوئے‘‘۔
ڈاکٹرآرنلڈجے ٹوائن بی [م:۱۹۷۵ء] نے جدید انسان کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے: ’’بیسویں صدی کی تہذیب وثقافت پر نظر ڈالتے ہوئے میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ اگر انسان نے اپناہدف محض دنیاوی مقاصد کوبنائے رکھا، تو مجھے اُمید نہیںکہ وہ ایک اچھا اخلاقی فیصلہ کر سکے گا‘‘۔
علمِ تاریخ کا ایک نامور مؤرخ البرٹ شیواٹزر[م:۱۹۶۵ء] نے یہ اعلان کیا ہے :’’ ہم تاریکی کے عہد میں ایک تاریک سفر میں داخل ہو گئے ہیں‘‘۔
جان جوزف سینڈرز [م:۱۹۷۲ء]نے انتہائی معقول انداز میں اس صورتِ حال کا مختصر احوال بیان کیا ہے: ’’اٹلی میں تہذیب وثفافت کی ازسرنو بیداری کو اب تک پانچ صدیاں گزر چکی ہیں، جسے ہم نشاتِ ثانیہ کے نام سے جانتے ہیں، جو مغربی یورپی تاریخ کے ایک انتہائی شان دار اور مفید دور میں واقع ہوئی۔ آج، سائنس، فکر، فن اور ادب میں عالم گیر مہارت کو جوہمارے براعظم نے انیسویں صدی میں حاصل کی، اندر سے خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔ لامحدود اور بلارکاوٹ ترقی کا اعتقاد معدوم ہو چکا ہے، عالمی جنگ نے پاے دار امن اور خوش حالی کی امیدیں ملیامیٹ کر دی ہیں، قومی نفرتیں اور مسابقتیں،کم ہونے کی بجاے کہیں زیادہ ہو گئی ہیں، جب کہ ’مغرب کے زوال‘کی مایوس کن پیش گوئیاں، چند خبطی فلسفیوں کے تخیلات کی نسبت کہیں زیادہ پُراثر ہیں‘‘۔
اپنی فراست پر مبنی فلسفیوں کا موقف
بے چینی اور محرومی ومایوسی کا یہ ایک عمومی احساس ہے، جس نے عین اسی طرح جدید دنیا کو بھر دیا ہے، جس طرح پانی،سمندروں کو بھر دیتا ہے۔ انسانی و تہذیبی ترقی کے علَم بردار اور نغمے الاپتے فلسفی، اب مایوسی کے فلسفی بن چکے ہیں۔ نکولس برڈیف [م:۱۹۴۸ء]ہمارے عہد کا ایک عظیم فلسفی ہے۔ وہ کہتا ہے:’’آفاقی تاریخ کے ہاتھ ایک خطرناک لمحے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں، ایک دھندلکے کی طرف، حالاں کہ اس وقت تو ہمیں اپنے چراغ روشن اور رات کے لیے تیار ہونے کی ضرورت ہے‘‘۔ وہ جدید دور کی میکانکیت کو ’انسانی تشخص کا انتشار‘اور انسان کا بکھرائو قرار دیتا ہے۔
ڈنمارک کے مشہور فلسفی سورین کرکے گارڈ [م:۱۸۵۵ء] نے انتہائی ہیجان کے عالم میں کہا تھا:’’جب میں اس [یعنی مسرت اور سکون]کی خواہش کرتا ہوں،تو درحقیقت میں اپنے منہ پرتھوکتا ہوںــــ‘‘۔
حتیٰ کہ الفرڈ این وہایٹ ہیڈ [م:۱۹۴۷ء] نے Adventures of Ideas میں اعلان کیا: ’’انیسویں صدی،تہذیبی ترقی کا ایک عہد تھی لیکن مجموعی طور پر انحطاط کی صدی تھی۔ زندگی کی اقدار بہ تدریج ختم ہو رہی ہیں۔اب محض تہذیب کی چمک ہی باقی رہ گئی ہے، جب کہ اس کی اصل موجود نہیں اور اس کی حقیقت معدوم ہوچکی ہے‘‘۔
خوش حالی اور بحران کے مستقل ادوار اورترقی کے دوران غربت کی موجودگی کی استہزائی صورت نے ماہرینِ معیشت کوپریشان کر دیا ہے۔ماہرینِ نفسیات،اعصابی خلل کے حامل انسان کے حالات پر متفکر ہیں، جب کہ مضطرب نفسیات کا مطالعہ نفسیات کا بنیادی مسئلہ بن چکا ہے۔سگمنڈفرائڈ [م:۱۹۳۹ء] کے نظریات مایوسی کے عہد کی پیداوار ہیں۔ ڈاکٹر کارل یونگ [م:۱۹۶۱ء] کی کتاب Modern Man in Search of a Soul پڑھنے والے جانتے ہیں کہ جدید ماہر نفسیات کو کون سی چیز مضطرب کرتی ہے۔جدید ادب بھی مایوس آدمی اور اس کی پژمردہ خواہشات کی عکاسی کرتا ہے۔
مشہور امریکی نژاد دانش ور اور ادیب ٹی ایس ایلٹ [م:۱۹۶۵ء] نے لکھا ہے:
ہمارا تمام علم ہمیں ہماری جہالت کے قریب تر لے آتا ہے،
اور ہماری تمام ترجہالت ہمیں موت کے قریب تر لے آتی ہے۔
لیکن موت سے قربت،خدا کی قربت نہیں۔
زندگی کہاں ہے، جسے ہم اپنی معاشرت میں گنوا چکے ہیں؟
فراست کہاںہے،ہم اسے علم میں کھو چکے ہیں؟
علم کہاں ہے،ہم اسے معلومات میں گم کر چکے ہیں؟
بیس صدیوں میں آسمانوں کا سلسلہ
ہمیں خدا سے مزید دور اور دھول سے نزدیک تر کر سکتا ہے۔
اور یہ کہ:
ہم کھوکھلے انسان ہیں،ہم میں بھس بھرا ہوا ہے
اور باہم مل کر اپنے وہ سرجھکاتے ہیں جو گھاس پھوس سے پُرہیں۔
افسوس!ہمار ی خشک آوازیں،جب ہم سرگوشی کریں،خاموش اوربے معنی ہوتی ہیں
اور جیسے خالی گلاس میں ہوا ہوتی ہے
ہمارے خشک تہ خانے میں
چوہے ہمارے ٹوٹے ہوئے گلاس پر پھدکتے پھرتے ہیں
بے صورت،بے رنگ سایے، مفلوج،بے حس وحرکت
ہمیں یہ سب نظر آئے
ہم نے اپنی آنکھوںسے دوسری سلطنت کی موت دیکھی
ہمیں یاد رکھو ___اگر یقینی رکھ سکتے ہو___اگر ہم معدوم نہیں ہوئے
متشدد روحیںہیں، اور کھوکھلے انسان،بھس بھرے انسان۔
ڈبلیو ایچ آڈن [م:۱۹۷۳ء]نے ، یوں لگتا ہے کہ کراہتے ہوئے بیان کیا ہے:
مجھے یہ ثابت کرنے کے لیے بہت دور آنا پڑا،
کہ نہ زمین ہے،نہ پانی ہے اورنہ محبت ہے۔
میں یہاں ہوں،تم بھی یہیں ہو،
لیکن اس کا کیا مطلب ہے؟ہم کیا کرنے کو ہیں؟
الڈوس ہکسلے [م:۱۹۶۳ء]کے ادبی شاہکارApe and EssenceاورTime Must Have a Stop،مایوسی کی بھرپور نقشہ گری کرتے ہیں۔جیمزجوائس [م:۱۹۴۱ء] نے بھی ایک مایوس انسان کو ادبی اسلوب میں پیش کیا ہے، اور ٹی ایف پوئز [م:۱۹۵۳ء]نے بھی اسی دھن پر نغمہ سرائی کی ہے۔ اس سے پہلے، فریڈرک نطشے [م:۱۹۰۰ء] اور دوستووسکی [م:۱۸۸۱ء] مایوس آدمی کے دوعظیم داعی تھے۔ دوستووسکی کی The Possessed، (خاص طور پر Kirilov کا کردار)، An Author’s Diary اور Pages from Journal of an Author اپنے عہد کی مایوسی کی واضح عکاس ہیں۔ معروف فرانسیسی ادیب، البرٹ کیمس [م:۱۹۶۰ء] اس نئے رجحان کا بہترین نمایندہ ہے۔
اس کا ناول The Outsider مایوسی کے ادب کا ایک شاہکار بن چکا ہے۔اس کے مرکزی خیالات،موت اور خودکشی ہیں۔انگریزی کے Angry Youngmenاور عصری ادب بھی اسی رجحان کی نمایندگی کرتا ہے۔کولن ولسن،انگریزی،فرانسیسی اور جرمن ادب (The Outsider) کے ماہرانہ جائزے میں یہ دکھاتا ہے کہ جدید ناول کا ہیرو ایک ایسا شخص ہے، جو زندگی،ا قدار اور خوداپنی ذات سے لاپروا ہوتا ہے۔وہ خود کو اپنے معاشرے میں ایک اجنبی اورایک بدیسی محسوس کرتا ہے۔
ایچ جی ویلز نے، پہلی جنگ عظیم [۱۸-۱۹۱۴ء] سے پہلے انسانیت کےمستقبل کو بڑے خوش رنگ انداز میں پیش کیا تھا، مگر اپنی زندگی کے آخری ایام میں مایوسی کا اظہار کرنے پر مجبور ہوگیا۔ اس کے تصور کا چراغ Fate of Homo Sapiens میں اس وقت گُل ہو گیا، اور اس نے یہ لکھا: ’’میری ہر قسم کی کوشش کے باوجود کہ میں دلیرانہ طور پر رجائیت پسند نظر آئوں، میں سمجھتا ہوں کہ کائنات اس(انسان )سے اکتا چکی ہے،اس پر مشکلات کا بوجھ لاد رہی ہے، اور میں دیکھ رہا ہوں کہ انسان کم از کم ذہانت اور زیادہ سے زیادہ تیزی کے ساتھ انحطاط،مصیبت اور موت کی طرف رواں ہے‘‘۔ اور بنی نوع انسان کے لیے اس کا آخری وصیت نامہ اس کی دل سوز اور جذباتی کتاب Mind at the End of Its Tether [۱۹۴۵ء]ہے، جس میں اس نے کہا ہے:’’اس مصیبت اور پریشانی سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں،اب یہی انجام ہے‘‘۔
قنوطیت و مایوسی کیوں؟
اب، یہ ایک عقلی او رثقافتی تناظر ہے جس میں ہمارا جدید نقاد رہتا اور سانس لیتا ہے۔ وہ یہ دھچکا برداشت کرنے پرمجبور ہے کہ انسان پر اس کا اعتماد منتشر ہو چکا ہے۔وہ یہ دیکھنے سے قاصر ہے کہ انسان نیک بن سکتا ہے اور معاشرے کو اخلاقی اقدار کی بنیاد پر منظم کیا جا سکتا ہے۔اس کی یادداشت اس قدر تلخ ہے کہ ایک بہتر معاشرے کا تصور اسے پریشان اور مضطرب کردیتا ہے اور وہ تعجب کے عالم میں یوں آہ و بکا کرتا ہے:’’تم تو ولیوں کا معاشرہ قائم کرنا چاہتے ہو!‘‘
حقیقت یہ ہے کہ ہمیں انسان اور خدا پر بھروسا اور یقین ہے۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وہ آفت جس نے مغرب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے،اس کی اپنی پیدا کردہ ہے۔جدید انسان کی اُٹھان اور اس کا آغاز مذہب سے بغاوت اور محض عقل و تجربے پر اندھے بھروسے سے ہوا، لیکن اس کا انجام مایوسی پر ۔اگر وہ کائنات میں اپنی درست حیثیت کا ادراک کرلیتا، وہ یوں جوکھم میں نہ پڑتا اور نہ تباہ ہی ہوتا۔ یہ مسئلے کا بنیادی نکتہ ہے۔
اقبال عصرحاضر کے انسان کی نشاتِ ثانیہ کے علَم بردار ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انسان منطقی طور پر اس قابل ہے کہ بھوسے سے کچھ تلاش کر سکے اور ایک نئی اور خوش حال تہذیب کی پرداخت کرسکے۔ہم دوسروں کی کامیابیوں اور ناکامیوں سے سیکھنے کے لیے تیار ہیں، لیکن ہم پُرعزم ہیں کہ مطلوب نشاتِ ثانیہ کے حصول کے لیے اپنی بساط بھر کوشش کریں۔اقبال نے اپنے معرکہ آرا فکری خطبات میں اس تمام صورت حال کا مختصر اور مؤثر الفاظ میں یوں احاطہ کیا ہے:
اس میں کوئی شک نہیں کہ جدید یورپ نے اسی نہج پر متعدد عینی نظامات قائم کیے، لیکن تجربہ کہتا ہے کہ جس حق و صداقت کا انکشاف عقلِ محض کی وساطت سے ہو، اس سے ایمان و یقین میں وہ حرارت پیدا نہیں ہوتی، جو وحی و تنزیل کی بدولت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عقلِ محض نے انسان کو بہت کم متاثر کیا۔ برعکس اس کے، مذہب کو دیکھیے تو اس نے افراد میں اضافۂ مراتب کے ساتھ ساتھ، معاشروں تک کو بدل ڈالا۔ لہٰذا، یورپ کے عینی فلسفے کو کبھی یہ درجہ حاصل نہیں ہوا کہ زندگی کا کوئی مؤثر جزو بن سکے، اور اس لیے اب حالت یہ ہے کہ یورپ کی فساد زدہ خودی باہم دگر حریف جمہوریتوں کی شکل میں، جن کا مقصد وحید ہی یہ ہے کہ دولت مندوں کی خاطر ناداروں کا حق چھینے، اپنے تقاضے پورا کر رہی ہے۔ یقین کیجیے، یورپ سے بڑھ کر آج انسان کے اخلاقی ارتقا میں بڑی رکاوٹ اور کوئی نہیں۔ برعکس اس کے مسلمانوں کے نزدیک ان بنیادی تصورات کی اساس چونکہ وحی و تنزیل پر ہے، جس کا صدور ہی زندگی کی انتہائی گہرائیوں سے ہوتا ہے۔{ FR 645 }
اگر اس ضمن میں مغرب، اقبال اور ان کی تجدیدی فکر کو سمجھ نہیں سکتا تو پھر قصور سراسر تعلیم یافتہ ناقد کی نفسیاتی اور ثقافتی تشکیل کا ہی ہے اور بہتر یہی ہوگا کہ مغرب اس کا جلداز جلدادراک کرلے۔{ FR 646 } [انگریزی سے ترجمہ: ریاض محمود انجم/ س م خ]
_______________
اب، وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ یہ ایک خیالی جنت ہے، جو ناممکن امراور لاحاصل امید ہے، درحقیقت وہ یہ کہتے ہیں کہ انسان بُرائی کا مظہر ہےاور اس میں معقولیت نہیں ہے۔ ان کاالزام ہے کہ انسان کبھی استدلال کی حقیقی روشنی میں نہ عمل کر سکتا ہے اور نہ کرے گا،اور یہ کہ انسانی فطرت میں مکاری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، اور اس کے غیراخلاقی جذبات انسان کی فطرتِ سلیم پر اس قدر حاوی ہو جاتے ہیں کہ وہ شائستہ اور اخلاقی اقدار کے مطابق اپنی زندگی کو منظم نہیں کر سکتا‘‘۔ وہ انسان، اس کے اخلاقی طرزِعمل اور صلاحیت،اس کی تخلیقی صلاحیتوں،استدلال کرنے کی اس کی قوتوں اور اس کی نیک فطرت پر اعتماد کھو چکے ہیں۔ یہ ان کا مایوسی زدہ طرزِعمل ہی ہے جو انھیں دائمی قنوطیت کا مجسم نمونہ بنا دیتا ہے۔اور بدقسمتی سے متعدد مغربی مفکر مایوسی کے اسی گرداب کا شکار ہیں۔
تاریخی پس منظر
اس طرزِ عمل اور رویّے کی اپنی ایک تاریخ ہے۔جب یورپ میں نشاتِ ثانیہ کا آغاز ہوا، تو دراصل یہ انسان کی صلاحیتوں پر ایک نئے اعتماد کا اظہار تھا۔ مگر پھر جدید انسان خدا کے خلاف بغاوت کا مرتکب ہوا اور اس نے انسانی اور الوہی طاقتوں کا بے جا دعویٰ کر دیا۔ایک نئے سماجی فلسفے، انسان دوستی(مذہب انسانیت) کے فلسفے نے جنم لیا، جس کے حسب ذیل تین اہم اجزاے ترکیبی یہ ہیں:
۱- ہر اس چیز کی پذیرائی، جو انسان اور فطرت کے کام میں اچھی اور دل کش ہے۔
۲- علم(سائنس) کی قوتوں پرکامل بھروسا اور یہ اعتماد کہ محض تعلیم ہی ایک نیا اور کامل ضابطۂ حیات تشکیل دے سکتی ہے؛ اور
۳- ترقی کی ناگزیریت ۔
انسان دوستی سے یہ مراد لی گئی کہ دنیا اور اس کے تمام مکین نسل درنسل بہتر سے بہتر ہوتے جائیں گے اور بالآخر بین الاقوامی انصاف کی بنیاد پر ایک کامل معاشرہ تشکیل دے لیں گے۔ فریڈرک ہیگل [م: ۱۸۳۱ء]کا Dialectical Idealism[جدلیاتی خیال اندیشی]، کارل مارکس [م:۱۸۸۳ء] کی تاریخی مادیت پرستی، چارلس ڈارون [م:۱۸۸۲ء]اور ہربرٹ سپنسر [م:۱۹۰۳ء] کے ارتقائی نظریات___ ان سب نے مل کر انسانیت کے مسلسل ترقی کے اعتقاد کو تقویت بخشی کہ جس طرح ہربرٹ سپنسر نے کھلے عام اعلان کیا کہ:’’ترقی محض کوئی اتفاق نہیں بلکہ ضرورت ہے۔
یہ یقینی ہے کہ انسان کو لازمی طور پر پورا انسان ہونا چاہیے‘‘۔
مؤرخ ایچ جی ویلز [م:۱۹۴۶ء]نے یوں للکارا ہے:’’انسان زمان و مکان میں اپنی ذات کی نفی کرتے ہوئے پیدا ہوئے کہ جیسے وہ انسان ہی کی عظمت کو بیدا رکرنے کے لیے آئے ہیں‘‘۔
اسی جذبے کے تحت مارکیس کنڈورسٹ [م: ۱۷۹۴ء] نے لکھا:’’جب تک یہ کرۂ ارض اس نظام شمسی میں قائم ہے،انسان کبھی فنا نہیں ہوگا۔ترقی،علم طب کا ایک فن ہے جو زندگی میں اس قدر اضافہ کر دے گا کہ موت کااصول بھی مستثنیٰ ہو جائے گا‘‘۔
اور ولیم ورڈزورتھ [م:۱۸۵۰ء]نے رجائیت پسندانہ دعویٰ کرتے ہوئے کہا:’’کیمیا کی اپنی کتابیں نذرِ آتش کر دو اور ضرورت محسوس ہونے پر ولیم گوڈون [م: ۱۸۳۶ء]کا مطالعہ کرو‘‘۔
ترقی کی یہ ناگزیریت، جدید انسان کے اعتقاد کا ایک جزوبن گئی لیکن تاریخ نے سفر کرتے ہوئے ان بھڑکیلے تخیلات کی پیروی نہیں کی۔انسان پُراعتماد تھا کہ وہ کرۂ ارض پر ایک جنت تخلیق کررہا ہے اور اس نے اپنی تدبیروچال سے خدا کو پیچھے چھوڑ دیا ہے؛ لیکن کوئی ایسی چیز تھی جو اس کی بے خبر آنکھوں کے رُوبرو منکشف ہوئی [لیکن پھر اُسے اچانک احساس ہوا کہ] اس کی ناکام تہذیب وثقافت، جنگیں، انسانوں کا اجتماعی قتل عام،کسادبازاری کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ، بھوکے اور ناکافی غذا کے حامل انسانوں کی آہ وبکا،سماجی تضاد،طبقاتی جنگ،جرم اور عدم رواداری کی بڑھتی ہوئی لہریں___ یہ تمام عناصر اس کی خودکار ترقی کی خیالی جنت کی ہوا کواڑا کر لے گئے۔ اس کا اعتماد منتشر ہو گیا،اس کا اعتقاد تحلیل ہو گیا اور سراب اور فریب کا ایک عمومی احساس چھاگیا۔ مایوسی اور محرومی کا احساس آج پہلے سے کہیں زیادہ اُفق پر غالب ہے۔
اس موقف کی تائید کے لیے ہم یہاں مغرب کے جدید فکری رجحانا ت کی چند جھلکیاں پیش کررہے ہیں۔جن سے یہ معلوم ہوجائے گا کہ مغربی نقاد جو کچھ کہتے ہیں،وہ کیوں کہتے ہیں:
جدید رجحانات
لیوس ممفورڈ [م:۱۹۹۰ء] عصرِحاضر کا ایک معروف مؤرخ ہے۔وہ کہتا ہے:’’آج کا انسان تشدد کے بھیانک دور میں زندگی گزار رہا ہے۔اب،انسانی تاریخ میں پہلی بار زمین پر کوئی ایسی جگہ نہیں رہی کہ جہاں ایک معصوم اور بے گناہ شخص پناہ حاصل کر سکے ۔
Source: http://tarjumanulquran.org/مایوس-انسان-اقبال-کے-مغربی-نقاد-کو-ج/
Reconstruction of Religious Thought in Islam خطبات اقبال – اسلام میں تفکر کا انداز جدید