علامہ مشرقی کی کتاب: تذکرہ، تحریک پاکستان کے مخالف علماء اور خاکسار تحریک Khaksar and other Indian Freedom movements

The great freedom fighter our elite deliberately ignore

علامہ عنایت اللہ خان المشرقی، “ ایک ایسا شخص جس نے تقریباً نوبل انعام جیت لیا تھا، اور شاید برصغیر کا سب سے بڑا آزادی پسند جنگجو” یہ کہا تھا  البرٹ آئن اسٹائن نے –

The Khaksar movement (تحریکِ خاکسار) was a social movement based in Lahore, Punjab, British India, established by Allama Mashriqi in 1931, with the aim of freeing India from the rule of the British Empire and establish a Muslim government in India, uniting both Hindus and Muslims. The membership of the Khaksar movement was open to everyone and had no membership fee regardless of the person’s religion, race and caste or social status. The emphasis was on the brotherhood of mankind and being inclusive for all people. Around 1930,[a] Allama Mashriqi, a charismatic Muslim intellectual whom some considered to be of anarchist persuasion, revisited the principles for self-reform and self-conduct that he had laid out in his 1924 treatise, entitled Tazkira. He incorporated them into a second treatise, Isharat, and this served as the foundation for the Khaksar movement, which Roy Jackson has described as being “… essentially to free India from colonial rule and to revive Islam, although it also aimed to give justice and equal rights to all faiths.” They took their name from the Persian words khak and sar, respectively meaning dust and like and roughly combined to translate as a “humble person”. By 1942 it was reported that the movement  membership was four million. Keep reading .….[….]

اگر آپ اچھرہ میں زیلدار روڈ پر چلتے ہیں، تو آپ کو کھڑکیوں کے پیچھے پرانی گاڑی والا گھر نہیں چھوٹ سکتا۔ یہ ایک “ان کہی امکانات کے ذہین” کا گھر ہے- اس عظیم انسان پر گزشتہ 12 سالوں میں یہ میرا تیسرا کالم ہے، ایک ایسا شخص جسے پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کی اسٹیبلشمنٹ نے مکمل طور پر، اور جان بوجھ کر نظر انداز کر دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کا خیال تھا کہ تقسیم کے تصور نے ہی اسلام کی تعلیمات کے تصور کو نظر انداز کر دیا۔ ’’یہ مدینہ کے پیغام کے خلاف ہے‘‘۔ اس بات کے لیے ان کی نوبل انعام کی سفارش ان کی کتاب ‘تذکرہ’ کے لیے تھی، جس میں اس بات کی حیرت انگیز وضاحت تھی کہ اسلام سب سے زیادہ سائنسی مذہب کیوں ہے، کہ ‘ملا’ طبقے نے اللہ کے پیغام کو ‘بیچ’ کر پیسہ کمایا، جو کہ حرام ہے۔

جس طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ‘عمل’ (عمل) پر توجہ دی، آپ کا عقیدہ تھا کہ تمام سیاسی رہنماؤں کو غریبوں کی طرح رہنا چاہیے اور ان کے لیے کام کرنا چاہیے۔ تمام سیاسی رہنما ایسے مطالبات کو ناپسند کرتے ہیں۔
ان کی نوبل انعام کی تجویز کردہ کتاب نے وضاحت کی کہ اسلام کیا ہے۔ ان اور دیگر وجوہات کی بنا پر پاکستان اسے نظر انداز کرتا ہے۔ اس شخص کا نام عنایت اللہ خان مشرقی تھا جو علامہ مشرقی کے نام سے مشہور تھے۔ ان کی قبر خاکسار قبرستان کے قریب ہی ذیلدار روڈ پر ہے۔ ایک سادہ آدمی جس کی وضاحت سے باہر ہے۔
ان کی تحریک کو خاکسار تحریک، ‘عاجزی کی تحریک’ کہا جاتا تھا۔ لوگوں کے رویے کے بارے میں ان کا نظریہ، تاریخی مثالوں سے بیان کیا گیا، یہ تھا کہ “لوگ اپنے لیڈروں کے رویے کے عین مطابق برتاؤ کرتے ہیں”۔ ‘دی ٹائمز آف لندن’ (29 اگست 1963) میں ان کی موت کا بیان ہے کہ انھوں نے
ثابت کیا کہ عوام، غریب، اپنے لیڈروں کے طرز عمل کی ہر تفصیل کو بہت جلد سیکھ لیتے ہیں۔ انہوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ اگر لیڈر کرپٹ ہیں تو ان کے لوگ بھی بنتے ہیں۔

جس چیز نے مجھے اس عظیم انسان کے بارے میں یہ تحریر دوبارہ لکھنے پر مجبور کیا وہ ایک مضمون تھا جو میں نے ابھی پڑھا تھا، جس میں کہا گیا تھا:
“میرا تجزیہ یہ ہے کہ انڈین نیشنل کانگریس ‘دودھ میں پانی’ قوم پرستی کو فروغ دیتی ہے، جو ایک پوشیدہ قوم پرستی ہے جو مذہبی منافرت کو فروغ دے گی۔ مذموم اور مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچائے گا۔ ایک تجزیہ کتنا پیغمبرانہ ہو سکتا ہے؟
اس نے جناح کو مسلمانوں کے ایک الگ قوم ہونے کے الٹے تصور کو فروغ دیتے ہوئے دیکھا۔ ان خیالات نے برطانوی حکمرانوں کو چونکا دیا، جنہوں نے اسے فوری طور پر نائٹ ہڈ کی پیشکش کی۔ وہ حیران رہ گئے جب عنایت اللہ خان نے انکار کر دیا اور ان کے ساتھ یہ دعویٰ کیا کہ وہ ان کی روح خریدنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اگست 2014 میں لکھی گئی ایک تحریر میں، ہم نے اس شخص اور اس کی کامیابیوں پر بات کی تھی۔ وہ دہرانے کے مستحق ہیں۔
انہیں نوبل انعام نہ ملنے کی واحد وجہ یہ تھی کہ ‘اردو تسلیم شدہ زبان نہیں تھی’۔ اس ذہین کو کیمبرج یونیورسٹی سے صرف پانچ سالوں میں چار ٹرائیپو ڈگریاں حاصل کرنے کا نایاب امتیازی تعلیمی کارنامہ حاصل ہے۔ برطانوی علمی دنیا میں ہلچل مچ گئی۔

* البرٹ آئن سٹائن کا کہنا تھا: “یہ ذہین ریاضی کے اس مسئلے کو حل کر سکتا ہے جس سے ہم سگریٹ کے پیکٹ کے پیچھے ایک گھنٹے میں جدوجہد کرتے ہیں”۔*
کیمبرج یونیورسٹی لائبریری کے آرکائیوز، جس سے میں نے اس ٹکڑے کے لیے مشورہ کیا تھا، انھیں “برطانوی ہندوستان کا سب سے بڑا دماغ” قرار دیتا ہے۔
لیکن علامہ مشرقی کی پیشین گوئیاں پڑھ کر حیران کردیتی ہیں۔

1953 میں اسے لکھنا تھا:
“میرے حساب سے، بڑھتی ہوئی سیاسی بدعنوانی اور مشرقی پاکستان کے انتہائی معاشی استحصال کے پیش نظر، میں انہیں 1970 تک آزادی کا اعلان کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں”
لیکن پھر کشمیر پر ان کا حساب بھی درست ثابت ہوا۔ انہیں لکھنا تھا:

’’کشمیر کاز کو اقوام متحدہ میں نہ لے جائو۔ اس حقیقت کو قبول کریں اور کھویا ہوا حصہ دوبارہ حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کریں۔ یہ پاکستان کے لیے بہتر ہوگا۔ ورنہ ہم ایک دن اس کی تقسیم کو اسی طرح قبول کر لیں گے جس طرح ہم نے پنجاب کو قبول کیا ہے۔
SalaamOne.com
ان تمام نظاروں نے اس عظیم انسان کو کئی بار جیل کاٹتے دیکھا۔ اسے جیل سے لکھنا تھا:
’’جاگیردارانہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے فروغ پانے والے ملا کا عروج اسلام کو بہت زیادہ نقصان پہنچائے گا۔پاکستان کو بہت بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ ہو سکتا ہے کہ ملا ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں کامیاب ہو جائے۔
جیسا کہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے اقوال اور تحریریں، جیسا کہ ان کی کتابیں، دبی رہتی ہیں۔ جب ہر سال 14 اگست آتا ہے تو ان کا ذکر برصغیر کے عظیم ترین جنگجو کے طور پر نہیں ہوتا۔

لیکن ان کی زندگی بھر کی کامیابیوں کو دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے اور غریبوں، عوام کو، ریاست پاکستان کو ہم نے جو بے پناہ نقصان پہنچایا ہے اس سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمارے موجودہ قائدین ’’پیغامِ مدینہ‘‘ کی ترویج کرتے ہیں، لیکن کیا انہوں نے علامہ مشرقی کی اس پیغام کی تشریح شدہ کتاب کبھی پڑھی ہے؟ تو آئیے اب ذرا اس طرف لوٹتے ہیں کہ وہ شخص کون تھا، زیلدار روڈ پر وہ فریم شدہ موٹر کار کون سی ہے اور ہم اسے برصغیر کا عظیم ترین مجاہد آزادی کیوں مان لیں۔

عنایت اللہ خان اگست 1888 میں امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے آباؤ اجداد نے مغل اور سکھ درباروں میں خدمات انجام دی تھیں اور یہ خاندان ان دور کی اشرافیہ کو اچھی طرح جانتا تھا۔ امرتسر میں اسکول کی تعلیم کے بعد اس نے لاہور کے ایف سی کالج میں داخلہ لیا اور پنجاب یونیورسٹی کی تاریخ میں ریاضی میں فرسٹ کلاس حاصل کرنے والے پہلے شخص تھے۔
اس نے 1907 میں کرائسٹ کالج کیمبرج میں داخلہ لیا اور ریاضی میں ٹرائیپوس کی تعلیم حاصل کی۔ اس نے مشرقی زبانوں اور قدرتی علوم کا مطالعہ کیا۔

اس کے بعد عنایت اللہ خان نے بھی مکینیکل سائنس کی تعلیم حاصل کی اور تاریخ کے پہلے آدمی بن گئے جنہوں نے چار ٹرپوز حاصل کیے۔ گریجویشن پر انہیں ریاضی میں ڈی فل سے نوازا گیا۔ انہیں انگریزوں نے افغانستان کی سفیر کے ساتھ ساتھ نائٹ ہڈ کی بھی پیشکش کی تھی۔ اس نے دونوں سے انکار کر دیا اور اچھرہ میں اپنے پرانے خاندانی گھر میں سکونت اختیار کر لی۔

اپنی کتاب میں ان کا نظریہ یہ تھا کہ کچھ استثناء کے ساتھ، جو کچھ ڈارون نے دریافت کیا وہ درست تھا، صرف یہ کہ تمام مذاہب انسانی نسل کے اجتماعی ارتقا کی سائنس ہیں۔ “تمام انبیاء بنی نوع انسان کو جوڑنے کے لیے آئے تھے، انہیں تقسیم کرنے کے لیے نہیں۔ یہی اسلام کا مرکزی پیغام ہے۔” ان کے خیالات کو، واضح وجوہات کی بنا پر، تمام مولویوں نے تنقید کا نشانہ بنایا، جو اسے ایک انارکیسٹ کے طور پر دیکھتے تھے۔ لیکن پھر
آئن سٹائن کا کہنا تھا کہ ’’عنایت اللہ ایک مذہبی کارکن ہے جو اپنے وقت سے بہت پہلے پیدا ہوا‘‘۔

دو قومی نظریہ کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ یہ برطانوی ایجاد ہے تاکہ دونوں ملک ایک دوسرے کے خلاف کھڑے رہیں اور ہر دور کے استعمار دونوں کا استحصال کریں۔ مشرقی کے تجزیے سے زیادہ سچائی کے قریب تر آج کسی چیز کا تجزیہ نہیں کیا جا سکتا۔

1958 کے ایوب خان کی بغاوت سے ٹھیک پہلے، علامہ مشرقی نے اپنے 300,000 سپیڈ بردار پیروکاروں کو کشمیر کی سرحدوں تک پہنچایا تاکہ اسے پاکستان کے پانچویں صوبے کے طور پر متحد کیا جا سکے۔ اسٹیبلشمنٹ اسے اپنی اسکیم ترک کرنے پر راضی کرنے میں کامیاب ہوگئی کیونکہ بہت زیادہ خونریزی ہوگی۔

کھڑکی کے کیس میں اس پرانی بوسیدہ کار کے بارے میں صرف ایک لفظ۔ یہ ایک مرسڈیز رینالٹ ہے جسے خاص طور پر مرسڈیز کمپنی نے فرانس کی رینالٹ فیکٹری میں ایڈولف ہٹلر کے ذریعے تیار کیا تھا، جس نے اسے دنیا کے عظیم دماغوں میں سے ایک ہونے کی وجہ سے پیش کیا تھا۔ وہاں گاڑی بوسیدہ پڑی ہے۔ ان کے پیغام اور ان کی حیرت انگیز کتابوں کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا گیا ہے یا یوں کہہ لیں کہ دبا دیا گیا ہے۔ ان کا انتقال 27 اگست 1963 کو ہوا اور آس پاس ہی میں دفن ہوئے۔ آپ قاری اس عظیم انسان کے خیالات اور کام کو کیسے بیان کریں گے؟
ہم جانتے ہیں کہ پاکستان میں کرپٹ سیاستدانوں اور پارٹیوں کی ایک صف ہے، تمام غیر جمہوری ون مین شوز۔ ہمارے ہاں ایک عدلیہ ہے جس نے فیصلہ سازی کے عمل میں بے تحاشہ طویل وقفہ دے کر، سقم سے بھرے قوانین کی کیا بات کی جائے، خود کو غیر موثر بنا دیا ہے۔ ہمارے ہاں ایک ایلیٹ کلاس ہے جس کی تمام اقدار اس کے مخالف ہیں جو وہ دعویٰ کرتے ہیں۔ آخر میں، ہمارے پاس ایک امیر اور بااثر مبلغ طبقہ ہے، جو سادگی سے عاری ہے، اور طاقت کے دلالوں پر گرفت رکھتا ہے، کیونکہ وہ توہم پرستی کو فروغ دیتے ہیں۔ کیا یہ وقت پاکستانیوں کے لیے علامہ مشرقی کی تحریر کا مطالعہ کرنے کا نہیں ہے؟ یہ سوچنے کا وقت ہے۔ (ترجمہ)
ماجد شیِخ ، ڈان (1)-(2)

TAZKIRAH علامہ مشرقی کی کتاب: “تذکرہ” خلاصہ

Allama Mashriqi’s “TAZKIRAH”: Its Essence By Prof. Amalende De علامہ مشرقی کی کتاب: “تذکرہ” خلاصہ: پروفیسر امالینڈے ڈی http://allama-mashriqi.blogspot.com/ 2012/06/allama-mashriqis-tazkirah-its-essence.html https://allama–mashriqi-blogspot-com.translate.goog/2012/06/allama-mashriqis-tazkirah-its-essence.html?_x_tr_sch=http&_x_tr_sl=auto&_x_tr_tl=ur&_x_tr_hl=en https://allama-mashriqi.blogspot.com https://www.facebook.com/TazkirahByAllamaMashriqi “Do you believe that your actions will benefit you during your lifetime in this world?” He replying to this question Inayatullah said: It is regrettable that being misguided you are blissfully oblivious of God, and fully sunk in pleasure.

تحریک پاکستان کے مخالف مسلمان 

جن مسلمان لوگون نے قیام پاکستان کی مخالفت سوچ سمجھ کر اس لئیے کی کہ وہ اس کو مسلمانوں کے مفاد میں سمجھتے تھے اور دوسرا گروپ قائئد اعظم (ر ح) کا تھا ۔ قیام پاکستان  ایک سیاسی مسئلہ تھا جس کا دین سے بھی تعلق ہے کہ مسلمانوں کے مفادات interests کس طرح سے بہتر serve ہو سکتے ہیں ۔
اپ شائید حیران ہوں مگر دونوں کو درست سمجھا  جا سکتا ہے، ان کے خلوص نیت کی وجہ سے۔ جیسے کسی اجتہادی معاملہ میں دو مجتہد مختلف اجتہاد کرتے ہیں ظاہر ہے دونوں درست نہیں ہوسکتے مگر ان کے خلوص نیت کی بنیاد پر جو درست اجتہاد کرتا ہے اسے دوگنا ثواب اور جو غلط اجتہاد کرتا ہے ادے ایک ثواب ملتا ہے ۔ یہ فقہ کا اصول ہے۔
اسی طرح سے یہ دونوں درست سیاسی اجتہاد تھے ۔
مگر مسلمانان ہند نے 75% اکثریت نے قائید اعظم( رح) کا ساتھ دیا 1946 کے الیکشن میں جس سے پاکستان ممکن ہوا۔ پاک مخالفین نے اسے قبول کیا جیسا پہلے کی ( زاہدالراشدی) کے مضمون ذیل  میں تفصیل ہے
ان مسلمانوں نے جن کو معلوم تھا کہ وہ پاکستان میں شامل نہیں ہو سکتے ، UP, بمبئی اور بہت سارے مسلمان لیکن انہوں نے قربانی دی اور آج تک بھگت رہے ہیں اور ہم مزے کر رہے ہیں الٹا ان کو قصور وار کہتے ہیں یہ بے شرمی اور ڈھیٹا ی ہے ۔ اگر وہ ووٹ نہ دیتے تو پاکستان نہیں بن سکتا تھا ۔ ہم ان کے مقروض ہیں ہم کو ان کے لئیے کچھ کرنا ہوگا۔
اب دوسرا blessing in disguise فائیدہ
سارے مسلمان پاکستان ہجرت نہیں کرسکتے تھے نہ ہی پاکستان ان کو sustain کر سکتا تھا نہ اب کر سکتا ہے ۔ کیا آج 20 کروڑ انڈین مسلم کو سنبھال accommodate کر سکتے ہیں ہم ؟ کچھ لاکھ بہاری پاکستانی ابھی تک بنگلہ دیش میں خوار ہو رہے ہیں –
جن مسلمانوں نے قیام پاکستان کی مخالفت کی وہ کانگرس کے ساتھ مل کر ان مسلمانوں کو سیکولر انڈیا میں look after کر رہے ہیں۔ اب 70 سال بعد BJP اور RSS کے دور میں ظلم بڑھ گیا ہے مگر وہ کہتے ہیں کہ بھئی ہم نے تمہارا ساتھ دیا اب ہم کو ادھر India میں جینا مرنا ہے ۔
اس لئیے ہم جب selfishness سے بلند ہو کر سوچیں تو پاک مخالف مسلمان لیڈرشپ انڈین مسلمانوں کے مفاد کے لئیے ضروری تھی اور ہے۔
اور اگر پاک مخالف مسلمان نہ ہوتے تو شائید ہم کو خود بنانا پڑتے تاکہ پیچھے رہ جانے والے بھائیوں کا خیال رکھا جا سکے ۔۔ مگر یہ اللہ کا پلان تھا جس نے دونوں طرف کے مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ کیا ۔ انسان بہت خودغرض اور ناشکرا ہے ۔
جو لوگ پاکستان مخالف تھے مگر پھر پاکستان آگئیے اور انہوں نے پاکستان کو اپنا وطن قبول کرلیا تو ہم کو حق نہیں کہ ان پر ہر وقت طعنے بازی کرتے رہیں، اگر وہ ملک سے محبت کرتے ہیں ۔۔۔ اب بھی لاکھوں افغان پاکستانی بن چکے ہیں انہوں نے ہمارے لئیے کیا کیا؟ آج بھی ڈیونڈر لائین کو نہیں مانتے۔
جبکہ انڈیا سے ہجرت کرنے والوں نے پاکستان کئ بہت خدمت کی ہے۔
فتح مکہ کے بعد جو مسلمان ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو قبول کیا ، منافق بھی یوں گے جن کا معاملہ اللہ کے پاس ہے بروز قیامت اللہ فیصلہ کرے گا۔
مودودی صاحب کی جماعت اسلامی تقسیم کے وقت infancy stage میں تھی 1941 founded ان کی خاص سیاسی اہمیت نہیں تھی۔ وہ تقسیم ہند کو مسلم امہ کی وحدت کے خلاف سمجھتے تھے۔ یہی نظریہ خاکسار اور دوسرے لوگوں کا تھا ، لیکن جب پاکستان بن گیا تو پھر ساری قوت اس کو اسلام کا مرکز بنانے کی طرف لگا دی ۔۔
اگر ان کی مخالفت کی وجہ پاکستان کو اسلامی تشخص کی وجہ سے ہے تو یہ کام ہونا ہی تھا ، پاکستان کبھی بھی سیکولر نہئں ہو سکتا ۔۔ یہ بحث لاحاصل ہے ۔ ہاں پاکستان کو ایرانی طرز کی ملائیت بننے سے بچانا یوگا ۔۔

~~~~~~~~~~

خاکسار تحریک 

مصطفی کمال پاشا نے جب ترکی خلافت کا خاتمہ کر دیا تو ہندوستان گیر تحریک خلافت از خود دم توڑ گئی۔ ملتِ اسلامیہ ہند سخت پریشانی میں مبتلا ہو گئی کہ اب کیا کرے۔ ان حالات میں دو جماعتیں وجود میں آئیں جنہوں نے مسلمانوں کو مایوسی کے اندھیروں سے نکالنے کی جدوجہد کی۔ وہ تھیں: مجلس احرار اسلام اور خاکسار تحریک۔ احرار کے بانی پنجاب کے خلافتی زعماء تھے۔ اگلے برس یعنی 1930ء میں علامہ عنایت اللہ المشرقی نے خاکسار تحریک کی بنیاد رکھی۔ یہ نیم فوجی قسم کی تنظیم تھی بندوق کی جگہ بیلچہ ان لوگوں کے کاندھے کی زینت بنا۔ علامہ صاحب کا تجزیہ یہ تھا کہ مسلمانوں کی زبوں حالی کا سبب دین سے دوری ہے۔ اگر وہ اپنے ایمان میں مضبوطی اور استحکام پیدا کر لیں، سپاہیانہ زندگی اپنا لیں، اخوت و مساوات اور خدمت خلق کو اپنا شعار بنا لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ انہیں گمشدہ عظمت دوبارہ حاصل نہ ہو جائے۔ علامہ صاحب کی کتاب ’’تذکرہ‘‘ نے خاصی دھوم مچائی۔ اس کا مرکزی نکتہ قرآنی الفاظ ’’انتم الاعلون اِن کنتم مومنین‘‘ تھے یعنی اگر ایمان والے ہو تو تمہی غالب رہو گے۔گزشتہ اتوار میں مال روڈ پر پرانی کتابیں دیکھنے گیا تو بابا جی سرور کشمیری صاحب نے سب سے پہلے میرے سامنے ہفت روزہ ’’الاصلاح‘‘ کا فائل رکھ دیا۔ یہ جریدہ خاکسار تحریک کا ترجمان تھا۔ 16صفحات پر مشتمل اس رسالے میں مقالات، مضامین کے علاوہ ہندوستان بھر کی تحریک کی سرگرمیوں کی خبریں ہوتی تھیں۔ مجھے جو فائل دستیاب ہوا ہے اس میں 27 شمارے ہیں جن کا تعلق 1936-37ء کے دور سے ہے۔

وہ غلامی کا دور تھا۔ چونکہ حکومت مسلمانوں کے ہاتھوں سے چھنی تھی اس لئے وہ کچھ زیادہ ہی دل گرفتہ تھے۔ ان ایام میں جب خاکسار تحریک کے پیر و جواں مخصوص فوجی وردی میں چمکتا دمکتا بیلچہ کاندھے پر سجا کر چپ راست کرتے نظر آتے تو یوں لگتا جیسے طارق یا محمد بن قاسم کا لشکر جا رہا ہے۔ اس پر مستزاد فوجی بینڈ باجے کی دل کی دھڑکنیں تیز کر دینے والی آواز! عام مسلمان جب خاکساروں کی مصنوعی جنگیں دیکھتے کہ گولے برس رہے ہیں، دھوئیں کے بادل اُٹھ رہے ہیں، تلواریں ٹکرا رہی ہیں اور دشمن فوج پسپا ہو رہی ہے تو ناظرین متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتے۔ انہیں یوں لگتا جیسے خاکسار تحریک ہی انہیں آزادی کی نعمت دلا سکتی ہے۔ افسوس کہ علامہ مشرقی کی ولولہ انگیز تقریروں اور خاکساروں کی چپ راست دھری کی دھری رہ گئیں اور عملی سیاست کی بازی قائد اعظم اور ان کی جماعت نے جیت لی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس دور میں تنظیم اور اطاعت کے لحاظ سے خاکساروں سے زیادہ منظم اور مستحکم پارٹی اور کوئی نہ تھی۔ کارکنان تحریک اپنی دعوتی اور تنظیمی سرگرمیوں کے علاوہ خدمت خلق میں جتے رہتے تھے۔ ’’الاصلاح‘‘ کے ان چند شماروں میں بے شمار ایسی خبریں ملتی ہیں کہ کسی جگہ کوئی غریب آدمی فوت ہوا تو اس کے کفن دفن کا کام خاکساروں نے انجام دیا۔ کہیں آگ لگ گئی تو اسے بجھانے پہنچ گئے، کوئی بھوکا پیاسا ملا تو اُسے کھانا کھلا دیا، کوئی پریشان حال دکھائی دیا تو اُسے مہمان بنا لیا، خدمت کرتے ہوئے ہندو اور مسلمان میں تفریق روا نہ رکھی جاتی۔ ہندو اور سکھ بھی خاکساروں کے جذبۂ خدمت کو سلام کرتے تھے۔ جہلم میں سوشلسٹ پارٹی کا دو روزہ پروگرام تھا، انہوں نے مدد طلب کی تو خاکسار وہاں پہنچے سٹیج بنوایا، دریاں بچھائیں، اگلے روز پروگرام ختم ہوا تو دریاں بھی خود ہی لپیٹیں پروگرام میں شریک ہونے والے جن رہنماؤں کو باقاعدہ سلامی دی، ان میں ڈاکٹر خان صاحب، میاں افتخار الدین، سوہن سنگھ جوش وغیرہ کے اسمائے گرامی ممتاز تھے۔

مجلس احرار کی طرح خاکسار بھی قرآن و حدیث سے باہر کتاب سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔ یہ نہیں کہ وہ مطالعہ کے خلاف تھے، اصل میں وہ عملیت پسند تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اب کتابوں میں گم ہونے کا نہیں، میدان میں نکلنے اور جدوجہد کرنے کا وقت ہے۔احرار کے مرکزی رہنما حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ اپنے وقت کے بہترین خطیب تھے ان کی تقریروں نے مسلمانوں میں حصول آزادی کی تڑپ پیدا کی وہ کہا کرتے تھے: ’’مَیں نے تو زندگی بھر کتابوں کی گرد بھی نہیں جھاڑی۔‘‘خاکسار تحریک میں علامہ عنایت اللہ المشرقی کا ’’تذکرہ‘‘ اور ان کے دیگر مضامین و مقالات پڑھے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ علامہ صاحب کی تقریریں پہلے ’’الاصلاح‘‘ میں چھپتی تھیں پھر انہیں پمفلٹوں کی صورت میں شائع کیا جاتا تھا۔ انہوں نے ’’مولوی کا غلط مذہب‘‘ کے عنوان سے کوئی30سے زائد پمفلٹ لکھے تھے جنہیں خاکسار لوگ گلیوں بازاروں میں بیچتے پھرتے تھے، آواز لگتی: ’’مولوی کا غلط مذہب دو پیسے میں‘‘، ’’مولوی کا غلط مذہب دو پیسے میں‘‘ ان الفاظ نے علمائے دین کے حلقوں میں خاکسار تحریک کے خلاف آگ لگا دی۔چنانچہ خاکساروں کے خلاف کفر اور زندیقیت کے فتوے آنے لگ پڑے۔علامہ صاحب کا لب و لہجہ مولوی حضرات کے بارے میں کس طرح کا ہوتا تھا اس کی ایک مثال مَیں علامہ صاحب کی سیالکوٹ کیمپ(1936ء) میں کی جا نے والی تقریر کے اقتباس سے پیش کرتا ہوں۔

علامہ صاحب فرماتے ہیں: ’’مسجد کا مولوی اور مُلا جو بے چارہ ایسے تنگ اور تاریک حجرے میں روٹی کے غم میں پھنسا ہے اور جسم کے داؤ اور جال میں تم مسلمان کم از کم ایک سو سال سے پھنسے بیٹھے ہو، قرآن کی عظیم الشان کتاب کو جو کوہ طور بلکہ کوہ ہمالیہ سے بڑی اور بھاری کتاب ہے کچھ نہیں سمجھتا، گھر گھر اور در در کے ٹکڑوں کی فکر میں اسے کچھ نہیں سوجھتا کہ وہ کیا عمل تھا جس نے مسلمان کو 23برس کے اندر اندر تمام عرب کا بادشاہ بنا دیا تھا‘‘۔ ’’الاصلاح‘‘ کے انہی شماروں میں ایک جگہ یہ واقعہ مرقوم ہے کہ کسی کارخانہ دار نے ایک خاکسار کو صرف اس لئے ملازمت سے فارغ کر دیا کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ اس بے چارے نے بہت منتیں کیں تو اسے کہا گیا کہ دہلی جاؤ اور مفتی کفایت اللہ سے اپنی مسلمانی کے بارے فتویٰ لے کر آؤ۔ وہ بے چارہ دہلی گیا اور مدرسہ امینیہ پہنچا وہاں اتفاق سے مولانا ابوالکلام آزاد بھی موجود تھے۔ اس خاکسار نے دونوں ہستیوں سے اپنے لئے فتویٰ طلب کیا تو جواب میں ان کی طرف سے سرد مہری کا رویہ سامنے آیا۔

البتہ رئیس الاحرار سید عطاء اللہ بخاری اور ان کی جماعت نے خاکساروں کے بارے صلح جوئی اختیار کی ’’الاصلاح‘‘ کے 4ستمبر 1936ء کے شمارے میں اس نوعیت کی ایک خبر ملتی ہے:’’مولوی عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب ڈیرہ دون تشریف لائے۔ ان سے لوگوں نے خاکساروں کے اعمال و افعال کے برخلاف کہلانا چاہا، لیکن حضرت سید عطا اللہ شاہ صاحب بخاری نے یہ فرما کر وہاں کی مخالفت کو کم کر دیا، جس کی توقع نہ تھی کہ ’’ہمارا اور علامہ مشرقی کا جھگڑا ہے۔ وہ اور ہم سمجھ لیں گے، لیکن ان خاکساروں کو کچھ نہ کہا جائے یہ جو کچھ کرتے ہیں ان کو کرنے دو۔ یہ ہمارے بچے ہیں‘‘۔

تحریک سے وابستگی کے خواہش مند کو شروع میں باور کرا دیا جاتا کہ یہ راستہ مصائب سے پر ہوگا اس لئے جلدی فیصلہ نہ کیجئے۔ جو لوگ یکسو ہو جاتے وہ ’’خونی معاہدہ‘‘ تحریر کرتے تھے کہ میں دل و جان سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں تحریک کے ساتھ رہوں گا اور کسی قربانی سے دریغ نہیں کروں گا۔ کوئی معاہدہ یہاں تک ہوتا، لیکن کسی میں کہا جاتا اگر میں اس مشن سے بے وفائی کروں تو خدا مجھے جہنم میں ڈالدے۔ کسی میں ’’جہنم کے نچلے درجے میں ڈالدے‘‘ تک کے الفاظ شامل ہوتے تھے۔ عبارت بعض اوقات خون سے لکھی جاتی تھی، اس لئے اسے خونی معاہدہ کہا جاتا تھا۔

ایسا ہی ایک حلف راولپنڈی کے ممتاز ادیب افضل پرویز نے بھی اٹھایا تھا:’’مَیں خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر اعترافِ گناہ کرتے ہوئے توبہ کرتا ہوں اور اس خونی معاہدے کے ذریعے اعلان کرتا ہوں کہ اپنی جان و مال خدا، خدا کے رسولؐ اور اسلام کے لئے ادارہ علیہ ہندیہ(خاکسار تحریک کا مرکز) کے سپرد کرتا ہوں اور اس کے ہر حکم کی جو اسلام کی خاطر ہو ، ہر گھڑی بسرو چشم تعمیل کرنے کو تیار ہوں۔ خواہ وہ دُنیا میں سب سے پیاری(اپنی جان) کا حکم ہی کیوں نہ ہو تب بھی اسماعیل ؑ کی طرح سُن کر خندہ پیشانی سے اسلام کی خاطر قربان ہونے کے لئے تیار ہو جاؤں گا‘‘۔۔۔’’الاصلاح‘‘ شمارہ4ستمبر1936ء)

تحریک کے ڈسپلن کا یہ حال تھا کہ اگر علامہ صاحب بھی قواعد و ضوابط کے معاملے میں کوتاہی کرتے تو سر عام کوڑے کھاتے۔ نواب بہادر یار جنگ بھی کچھ عرصہ خاکسار رہے، ’’الاصلاح‘‘ کے ایک شمارے میں ان کا مکتوب چھپا ہے کہ وہ اپنی بعض مجبوریوں کی وجہ سے دہلی اجلاس میں شرکت نہ کر سکے اس لئے وہ سزا بھگتنے کو تیار ہیں۔خاکسار تحریک ایک عظیم الشان جماعت تھی لیکن اس کا انجام علامہ صاحب ہی کے ہاتھوں بڑا افسوسناک ہوا۔ تقسیم کے وقت انہوں نے اپنے پیرو کاروں کو تین لاکھ کی تعداد میں دہلی میں جمع ہونے کا حکم دیا اور کہا کہ اگر تعداد پوری ہو گئی تو وہ کوئی نیا لائحہ عمل دیں گے۔ خاکسار بڑے جوش اور ولولے کے ساتھ دہلی پہنچے مگر اُن کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے آگے نہ بڑھ سکی۔ علامہ صاحب خود سامنے نہیں آئے، پس پردہ ہی کہیں بیٹھ کر لاؤڈ سپیکر پر تحریک کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ پرانے خاکسار بتایا کرتے تھے کہ ’’ہم علامہ صاحب کے اس فیصلے پر دھاڑیں مار مار کر روئے تھے۔ ہماری التجا نہ سنی گئی اور ہم خستہ و نامراد گھروں کو لوٹ آئے‘‘۔

مولانا مودودیؒ نے تو 1938ء ہی میں پیش گوئی کر دی تھی کہ علامہ صاحب جس مزاج کے آدمی ہیں،مجھے خدشہ ہے کہ وہ کسی موقع پر تحریک کی گاڑی کو اچانک کسی گہری کھڈ میں دھکیل دیں گے۔ وہی ہوا، ملت اسلامیہ ہند کی تاریخ میں یوں ایک اور درد ناک باب رقم ہو گیا!! [بشکریہ خالد ہمایوں ، ڈیلی پاکستان ]

~~~~~~~~~~

            نیرنگی   سیاست    دوراں    تو    دیکھئے
منزل انہیں ملی، جو شریک سفر نہ تھے
(محسن بھوپالی)
تاریخ کے چہرے کو مسخ کرنے کی کوشش کبھی ثمربار نہیں ہوتی۔ تاریخ کو توڑ مروڑ کے پیش کیا جا سکتا ہے مگر یہ عمل وقتی ثابت ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ کبھی جھوٹ میں ڈھل نہیں سکتی۔اسکولوں اور کالجوں میں پڑھائی جانے والی پاکستانیات اور تاریخ، تاریخ کے ساتھ مذاق ہے اور اسے سیاسی چمگادڑوں نے ایک خاص مصلحت کے تحت تیار کیا ہے۔
آج حالت یہ ہے کہ جو لوگ یا صوبے تحریک پاکستان کی مخالفت میں پیش پیش تھے، آج انہیں کی اولادیں مسندِ اقتدار پر جلوہ افروز ہیں اور یہ ڈرامہ آج سے نہیں پچھلے ساٹھ سالوں سے تواتر کے ساتھ پاکستان کے بھوکے ننگے عوام کو دکھایا جا رہا ہے اور شاید دکھایا جاتا رہے گا کہ بھوکے ننگے عوام کا مسئلہ روٹی کا ہے اور بقول شیخ ایاز بھوکے کو چاند بھی روٹی نظر آتا ہے۔
پنجاب کیکی یونیسٹ پارٹی اور سر فضل حسین خضر حیات ٹوانہ کی قائداعظم اور ڈاکٹر محمد علامہ اقبال سے دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ پنجاب نے آخر دم تک پاکستان کی مخالفت کی اور کانگریس کی حمایت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ کو پنجاب میں کبھی کامیابی نہ ہو سکی بلکہ پنجاب میں ہمیشہ یونیسٹ پارٹی ہی سیاسی شطرنج پر راج کرتی رہی۔
آج پنجاب پاکستان کی سیاست کا پیش رو اور رہنما بنا ہوا ہے۔ محض آباد ی کی اکثریت کی وجہ سے پنجاب پاکستان کے سیاسی ڈھانچے کو متاثر کرتا ہے۔ اسی لیے تو محسن بھوپالی کہتے ہیں کہ منزل انہیں ملی، جو شریکِ سفر نہ تھے۔
نیرنگی   سیاست    دوراں    تو    دیکھئے
منزل انہیں ملی، جو شریک سفر نہ تھے

بلوچستان کی بات جانے دیجیے کہ وہ تو خان آف قلات کی جاگیر تھی۔ آئیے خیبرپختونخواہ کی طرف چلتے ہیں۔ یہ سرزمین اُس شخص کی ہے جس نے پاکستان دشمنی کی مثال قائم کی اور کانگریس کی چاپلوسی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جیسے Frontier Gandhi کے ”اعلیٰ و ارفع“خطاب سے نوازا گیا۔ آج اے۔این۔پی جو درحقیقت خان عبدالغفار خان کا لگایا ہوا پودا ہے آج خیبرپختونخواہ پر راج کر رہا ہے۔ کیا یہ تاریخ کا مذاق نہیں؟

بعض اسلامی جماعتوں نے قائداعظم کو کافر اعظم کہا۔ اقبال پر کفر کا فتویٰ عائد کیا اور پاکستان کو ایک حرافہ سے تشبیح دی۔ مگر آج وہی پاکستان کی ایک کثیر آبادی پر اپنا تسلط قائم رکھنا چاہتی ہیں کیا یہ تاریخ کا ظلم نہیں؟
درباری ملاؤں نے پاکستان کو جس قدر نقصان پہنچایا ہے اتنا دھچکا کسی ڈکٹیٹر کو نہیں پہنچایا۔ بازاری عورتیں ان سے افضل ہیں کہ جہاں وہ بے چاری اپنا جسم فروخت کرتی ہیں وہاں یہ چند کھوٹے سکوں کے عوض اپنا ایمان فروخت کرتے ہیں یہ وہی ہیں۔جنہوں نے شیعہ کو سنی کے ہاتھوں اور سنیوں کو شیعوں کے ہاتھ شہید کروایا۔خدا کی لعنت ہو ایسے ملاؤں پر۔ خدا کی مار پڑے ایسے جہنمیوں پر۔وگرنہ میرے آقا محمد ﷺ نے تو سدا امن کا،پیار و محبت کا آشتی اور مذہبی رواداری کا پیغام دیا۔
اب آگے چلتے ہیں۔تحریک پاکستان میں ہندوستان کے اقلیتی صوبوں نے جتنا ساتھ دیا۔اتنا ساتھ سندھ کے سوا، کسی نے نہیں دیا جو آج پاکستان میں شامل ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ قائداعظم کے پاس آبادی کی منتقلی کا کوئی پلان نہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ مسلم لیگ نے کبھی بھی بھارت سے مہاجرین کی آمد کے سلسلے میں کوئی بات نہیں کی ۔
چاہے وہ مسلم لیگ کا قیام ہو، علامہ اقبال کا خطبہ الہ آباد ہواور لاہور کی قرارداد ہو۔ کہیں بھی مہاجرین کا ذکر تک نہیں مگر اس کے باوجود کلکتہ، پٹنہ، بہار اور دوسرے صوبوں نے جس میں مسلمان اقلیت میں تھے بھرپور ساتھ دیا اس وجہ سے نہیں کہ وہ پاکستان آنا چاہتے تھے بلکہ اس لیے کہ وہ کانگریس اور ہندو بنیے کو دھول چٹانا چاہتے تھے۔
علامہ اقبال کے خطبہ الہٰ آباد جو انہوں نے 1930 ء میں دیا، واضح طور پر اشارہ تھا کہ صرف وہ خطے جن میں مسلمان اکثریت میں ہیں انہیں ایک علیحدہ ریاست کا درجہ دے دیا جائے۔
1936 ء کے الیکشن میں قائداعظم کی مسلم لیگ کو شرمناک شکست سے دوچار ہونا پڑا مگر 1936 ء میں کانگریس کی جن صوبوں میں حکومت قائم ہوئی وہاں کے مسلمانوں کے( جو اقلیت میں تھے )آنکھیں کھل گئیں
۔ظلم و ستم کے پہاڑ، جبر کے طوفان، خونریزی اور قیامت خیز شر انگزیاں کچھ اس طرح سے کانگریس نے روا رکھیں کہ مسلمانوں نے تہیہ کر لیا کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے وہ بنیے کی ذہنیت کا مقابلہ کریں گے اس ظلم ستم پر رپورٹیں شائع ہوئیں جن میں مشہور رپورٹیں ”شریف رپورٹ“وغیرہ میں بنگال کے بارے میں ایک رپورٹ Muslims suffering in bengal بھی شائع ہوئی۔
غرض یہ کہ 1940 ء میں قرارداد لاہور پاس ہوئی۔ جس میں کم و بیش خطبہ الہٰ آبادکو ہی دہرایا گیا ۔اقلیتی صوبوں والے مسلمان یہ جانتے تھے کہ ان کے بارے میں مسلم لیگ سنجیدہ نہیں مگر ان کا پاکستان کے جنون اور پاکستانی خطے میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے شاید وہ پیار تھا جس کی نظیر کم از کم دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔
بہرکیف، قصہ مختصر بھارتی اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں نے دامے درمے سخنے تحریک پاکستان میں حصہ لیا اور اپنے لہو سے تحریک پاکستان کو سینچا مگر اس بات میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ نہ تو قائداعظم اور نہ ہی مسلم لیگ کے پاس آبادی کی تقسیم کا کوئی واضح فارمولا موجود تھا۔ اسے زیادہ سے زیادہ تحریک پاکستان کا fallout کہا جا سکتا ہے۔
دو قومی نظریہ جسے عام طور پر سرسید سے جوڑا جاتا ہے اور طالب علموں کو اسکولوں کالجوں میں بتایا جاتا ہے کہ دو قومی نظریے کی بنیاد سرسید احمد خان نے رکھی تو یہ بھی تاریخ کے ساتھ ایک مذاق ہے۔
دو قومی نظریے کی بنیاد غیر منقسم ہندوستان میں سب سے پہلے البیرونی نے اپنی کتاب ”کتاب الہند“میں پیش کی۔ اس نے واضح طور پر لکھا کہ مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں بلکہ اس نے تو یہاں تک بتایا کہ ہندو مسلمانوں کو نیچ قوم قرار دیتے ہیں اور ان سے کراہیت کرتے ہیں۔
1193 ء میں شہاب الدین غوری نے اُس وقت کے راجہ پرتھوی راج چوہان کے سامنے دو قومی نظریہ پیش کیا اور پرتھوی راج چوہان کو جنگ سے بچنے کے لیے مشورہ دیا کہ دریائے سندھ کا اس طرف والا حصہ (جو اب پاکستان میں شامل ہے) غوری کو دے دیا جائے جبکہ دریائے سندھ کا دوسری طرف والا حصہ(جس میں آج کا بھارت شامل ہے) وہ رکھ لے مگر چوہان نے اس کی بات نہ مانی اور شرمناک شکست سے دوچار ہوا۔
نیرنگی   سیاست    دوراں    تو    دیکھئے
منزل انہیں ملی، جو شریک سفر نہ تھے
دو قومی نظریے کا سہرا سرسید کے سر ، اس میں کوئی شک نہیں کہ سرسید کی خدمات تحریک پاکستان کے لیے بلاواسطہ کہیں زیادہ ہیں اور یہ انہی کے علی گڑھ کالج کے فیضان کا اثر تھا کہ پاکستان کی تحریک نے زور پکڑ لیا
وگرنہ مسلمانوں کے لیے پاکستان کا حصول کم از کم ایک صدی تک ممکن نہ تھا مگر جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ پاکستان میں تاریخ کو جتنا مسخ کر کے پیش کیا گیا ہے شاید ہی کسی اور ملک میں کیا گیا ہو۔
یہ اور ایسی بہت سی مثالیں ہیں جنہوں نے بھوپالی کو یہ کہنے پر مجبور کیا کہ منزل ایسے لوگوں کو ملی جو کبھی اس سفر میں شریک ہی نہ تھے آج پاکستان کی زبوں حالی پر دل خون کے آنسو روتا ہے ۔

~~~~~~~~~~

تحریکِ پاکستان میں علامہ شبیراحمدعثمانی رحمہ اللہ کا کردار

شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کا شمار اُن چند جانباز علماء اور مخلص ترین لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے مسلمانانِ ہند کو انگریزوں اور ہندوؤں کی غلامی سے چھٹکارا دلاکر آزادی کا پرچم اُن کے ہاتھوں میں تھمایا، اور ان کے لئے آزادامذہبی زندگی گزارنے کا پُرخار راستہ ہم وَار کیا۔ آپؒ 1885ء کو ضلع بجنور غیر منقسم ہندوستان میں پیدا ہوئے، جہاں آپؒ کے والد ماجد علامہ فضل الرحمن عثمانیؒ سرکاری مدارس کے ڈپٹی انسپکٹر تھے۔ آپؒ حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کے تلمیذ رشید اور اُن کے صحیح علمی و سیاسی جانشین تھے۔ آپؒ نے 1908ء میں دورۂ حدیث کا امتحان اعلیٰ نمبروں میں پاس کیا اور مدرسہ بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کرکے دار العلوم دیوبند سے سند فراغت حاصل کی۔
علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ کی زندگی کے دو پہلو ہیں:ایک پہلو آپؒ کی زندگی کا خالص علمی و تحقیقی ہے۔ آپؒ نے اپنے استاذ شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمہ اللہ کی تفسیر کا تکملہ لکھا جواُنہوں نے مالٹا جیل میں سورۃ النساء تک لکھی تھی۔ اِس تفسیر کی تکمیل آپؒ نے اِس خوبی سے کی کہ بڑے بڑے علماء کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔حدیث کے میدان میں آئے تو صحیح مسلم کی شرح فتح الملہم عربی زبان میں تصنیف کرڈالی ۔ تدریس کے میدان میں آئے تو علمی جوہر دکھلائے۔ آپ کا شماردار العلوم دیوبند کہنہ مشق اور اعلیٰ مدرسین میں ہوتا تھا۔ آپؒ نے 1910ء سے 1928ء تک دارالعلوم دیوبند میں متوسط کتب سے لے کر صحیح مسلم تک کی تدریس کی۔ 1928ء میں آپؒ جامعہ اسلامیہ ڈابھیل ضلع سورت چلے گئے، اور وہاں تفسیر و حدیث پڑھاتے رہے۔ 1935ء میں دارالعلوم دیوبند کے صدر مہتمم قرار دیے گئے اور1943ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔
علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ کی زندگی کا دوسرا پہلوسیاسی ، ملی اور ملکی خدمات کا ہے جس کا باقاعدہ آغاز جنگ بلقان سے ہوا۔ آپؒ نے تحریک خلافت میں زبردست حصہ لیا۔ آپؒجمعیت علمائے ہند کی مجلس عاملہ کے زبردست رکن تھے۔ 1919ء سے لے کر 1945ء تک آپؒ اسی میں شریک رہے۔بعد ازاں آپؒ نے مسلم لیگ میں شریک ہوکر تحریک پاکستان کو تقویت بخشی۔ اور تحریک پاکستان کے حامی علماء پر مشتمل ایک جماعت ’’جمعیت علمائے اسلام ‘‘ کے نام سے تشکیل دی، جس پہلے صدر آپؒ منتخب ہوئے، اور نائب صدر علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ کو مقرر کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح رحمہ اللہ کے بعد پاکستان کا وجود اِن دونوں حضرات کا مرہونِ منت ہے۔ اگر یہ حضرات مسلم لیگ میں شرکت کرکے شریعت اسلامیہ کی رُوشنی میں متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کے سوادِ اعظم کی رہبری نہ کرتے تو مسلم لیگ کی طرف ہوا کے رُخ کو موڑنا اور نظریۂ پاکستان کی طرف سیاست کے دھارے کا منہ پھیرنا ناممکن نہیں تو دُشوار ضرورر تھا۔ علامہ عثمانی رحمہ اللہ نے اِس سلسلہ میں جمعیت علمائے اسلام کے صدر کی حیثیت سے ملک بھر کے دورے کیے ، سرحد کے ریفرینڈم میں کامرانی حاصل کی ، آزادیٔ کشمیر کی جد و جہد میں حصہ لیا اور قیام پاکستان کی تحریک کو اپنی علمی، تحقیقی، اور سیاسی تجربات کی بنیاد پر کام یابی سے ہم کنار کرایا۔
اِس میں شک نہیں کہ تمام مکاتب فکر کے جید علماء و مشائخ نے تحریک پاکستان میں حصہ لیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ علامہ عثمانی رحمہ اللہ کا کردار اِس تحریک میں سب سے بڑھ چڑھ کر تھا۔اِس لئے کہ مسلمانانِ ہند کی جس بالغ نظری اور حکمت عملی سے رہنمائی علامہ عثمانی رحمہ اللہ نے کی وہ کوئی دوسرا نہیں کرسکا۔
اِس حقیقت کا اندازہ علامہ عثمانی رحمہ اللہ کی اُس تقریر سے لگایا جاسکتا ہے جو آپؒ نے 26 دسمبر 1945ء کو دیوبند کے ایک جلسے میں کی، جس میں آپؒ نے فرمایا:’’عرصہ دراز کی کاوشوں اور غور و خوض کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر حصولِ پاکستان کے لیے میرے خون کی ضرورت ہو تو میں اس راہ میں اپنا خون دینا باعثِ افتخار سمجھوں گا۔ اس ملک میں ملتِ اسلامیہ کی بقا اور مسلمانوں کی باعزت زندگی قیامِ پاکستان سے وابستہ ہے۔ میں اپنی زندگی کی کامیابی سمجھوں گا اگر اس مقصد کے حصول میں کام آجاؤں۔‘‘
تحریک پاکستان کی یہ کوشش اور جد و جہد محض اِس مقصد کے لئے کی گئی تھی کہ اِس خطۂ زمین میں مسلمانانِ پاکستان قرآن و سنت کے قوانین نافذ کریں گے اور اپنی تہذیب و ثقافت، علوم و فنون اور اپنی قومی اُردُو زبان کو فروغ دینے کے لئے کسی کے تابع و محتاج نہیں رہیں گے۔ اسی عظیم مقصد کی خاطر علماء و مشائخ نے قربانیاں دیں ، بالخصوص علامہ عثمانی رحمہ اللہ نے اپنی حیاتِ مستعار کے آخری سال مقصد کے حصول کی خاطر قربان کیے ۔ آپؒ کے دل میں یہ تڑپ تھی کہ وطن عزیز ملک پاکستان میں اسلامی احکام اور دینی قوانین کا اجراء اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں، مگر قدرت نے جس سے جتنا کام لینا مقرر کیا ہوتا ہے اُسی قدر اُس سے کام لیا جاتا ہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح رحمہ اللہ کی زندگی کا مشن مسلمانانِ ہند کے لئے علیحدہ ایک نئے خطے کی صورت میں وطن عزیز ملک پاکستان کا عدم سے وجود میں لانا تھا۔ اور شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ کی زندگی کا مطمح نظر قدرت کے نزدیک قرار دادِ مقاصد کی تجویز کا پاس کراکر اِس مملکت خداداد کا آئین و دستور قرآن و سنت پر رکھنا تھا۔
بالآخر تحریک پاکستان کامیابی سے ہم کنار ہوئی۔علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ پاکستان بننے پر مؤرخہ 14 اگست 1947ء بمطابق 27 رمضان1366ء کی دوپہر کو افتتاحِ پاکستان کی تقریب سعید میں حصہ لینے کے لئے دیوبند سے کراچی تشریف لائے۔ اور 14 اگست کو کراچی میں جشن آزادی میں شرکت فرمائی۔ قائد اعظم محمدعلی جناح رحمہ اللہ نے آپؒ کی غیر معمولی خدمات کے اعتراف میں ملک کے دارالحکومت کراچی میں پہلی پرچم کشائی آپؒ ہی کے مبارک ہاتھوں سے کرائی۔ اور مجلس دستور ساز میں رُکنیت بھی آپؒ کودلوائی۔ 11 ستمبر 1948ء کو جب قائد اعظم محمد علی جناح رحمہ اللہ کی وفات ہوئی تو اُن کی وصیت کے مطابق اُن کا نمازِ جنازہ علامہ شبیراحمد عثمانی رحمہ اللہ نے ہی پڑھایا۔

پھر اِس کے تقریباً ایک سال اور چند ایام بعد علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ کو 8 دسمبر 1949ء کی شب کو بخار ہوا، صبح طبیعت ٹھیک ہوگئی، آٹھ بجے صبح پھر سینہ میں تکلیف ہوئی اور سانس میں رُکاوٹ ہونے لگی۔ بالآخر مؤرخہ 13 دسمبر 1949ء بمطابق 21 صفر 1369ھ کو 11:40.AMمنٹ پر سہ شنبہ (منگل کے روز) 64 سال کی عمر میں علم و عمل اور دین و اسلامی سیاست کا یہ آفتاب و ماہتات ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اِس عالم رنگ و بو سے غروب ہوگیا۔ انان للہ وانا ا لیہ راجعون۔
یہ خبر بجلی کی طرح سارے عالم اسلام میں پھیل گئی۔ اور دُنیا بھر میں ایک کہرام مچ گیا۔ سرکاری دفاتر اور کاروباری ادارے بند ہوگئے۔ گورنر جزل خواجہ نظام الدین اور وزیر اعظم لیاقت علی خان نے اپنے اپنے دورے منسوخ کردیئے۔ عوام و خواص اور ممالک اسلامیہ میں گہرے رنج و غم کا اظہار کیا گیا۔ میت بغداد الجدید بہاول پور سے کراچی پہنچائی گئی۔ آپؒ کے شاگردِ رشید علامہ بدرِ عالم میرٹھی رحمہ اللہ نے آپؒ کو غسل دیا اور مفتیٔ اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ نے آپؒ کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ تقریباً دو لاکھ سے زائد مسلمانوں نے آپؒ کے جنازہ میں شرکت کی سعادت حاصل کی۔ اور آپؒ کا جسد خاکی اسلامیہ کالج جمشید روڈ کراچی میں سپردِ خاک کردیا ؎
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم!
تو نے وہ’’ گنج ہائے گراں مایہ ‘‘ کیا کیے؟

(تحریر: احسان اللہ خان)

~~~~~~~~

پاکستان بنانے کا گناہ‘‘ اور مولانا مفتی محمودؒ
(علامہ زاہد الراشدی )
گزشتہ ایک کالم میں قارئین سے وعدہ کیا تھا کہ حضرت مولانا مفتی محمودؒ سے منسوب کیے جانے والے اس جملے کے بارے میں اصل صورتحال کی وضاحت کروں گا کہ:

’’ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے۔‘‘

یہ بات میرے سامنے ہوئی تھی اس لیے اس سلسلہ میں اصل قصہ کو تاریخ کے ریکارڈ پر لانا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں۔ لیکن پہلے اس پس منظر کا ذکر ضروری ہے کہ مولانا مفتی محمودؒ کا تعلق اصلاً جمعیۃ علماء ہند سے تھا جس نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی۔ جمعیۃ علماء ہند کے ساتھ مجلس احرار اسلام نے بھی تحریک پاکستان کی مخالفت کی تھی اور ہندوستان کی تقسیم سے اختلاف کیا تھا اور روایتی جوش و خروش کے ساتھ کیا تھا۔ جبکہ علماء دیوبند کی ایک بڑی تعداد نے جمعیۃ علماء ہند سے الگ ہو کر جمعیۃ علماء اسلام کے نام سے تحریک پاکستان میں سرگرم کردار ادا کیا تھا۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس انکار کی ضرورت ہے کہ جمعیۃ علماء ہند اور مجلس احرار اسلام دونوں قیام پاکستان کے خلاف تھیں اور انہوں نے اس کی مخالفت میں اپنی طرف سے کوئی کمی نہیں کی۔ ان جماعتوں کا موقف یہ تھا کہ:

مسلم لیگی قیادت نفاذ اسلام میں سنجیدہ نہیں ہے اور نہ ہی اس کی اہلیت رکھتی ہے۔
قیام پاکستان سے برصغیر کے مسلمان تقسیم ہو جائیں گے اور ایک دوسرے کے کسی کام نہیں آسکیں گے۔
مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد بھارت میں ہندوؤں کے رحم و کرم پر رہ جائے گی۔
جہاں تک نتائج کا تعلق ہے نصف صدی بعد ہمیں انہی نتائج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جن کا اظہار ان جماعتوں کے قائدین تحریک پاکستان کی مخالفت میں خدشات کی صورت میں کیا کرتے تھے۔ چنانچہ مسلم لیگی قیادت کئی بار اقتدار ملنے کے باوجود نفاذ اسلام کی طرف نصف صدی میں کوئی پیش رفت نہیں کر سکی۔ اور برصغیر کے مسلمانوں کی عظیم قوت کے تقسیم ہو جانے کے بعد مسلم لیگی راہنما چودھری خلیق الزمان مرحوم کے اس اعتراف کے بعد مزید کچھ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی جو انہوں نے سقوط ڈھاکہ کے فورًا بعد ’’اخبار جہاں‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ

’’ہمارے طرز عمل کے باعث برصغیر کے مسلمان تین حصوں میں تقسیم ہوگئے ہیں جو ایک دوسرے کی کسی مشکل میں کام نہیں آسکتے۔‘‘

تاہم اس سب کچھ کے باوجود قیام پاکستان کی مخالفت ایک سیاسی رائے تھی جسے جمعیۃ علماء ہند اور مجلس احرار اسلام کے راہنماؤں نے اپنی انا کا مسئلہ نہیں بنایا۔ بلکہ جب دیکھا کہ مسلمانان ہند نے ان کی رائے کی حمایت نہیں کی اور مسلم لیگ کا ساتھ دیا ہے تو انہوں نے خوش دلی کے ساتھ اس فیصلہ کو قبول کر لیا۔ چنانچہ اس سلسلہ میں کچھ حقائق قارئین کے سامنے لانا ضروری سمجھتا ہوں۔تحریک پاکستان کی مخالفت میں علماء کرام میں سب سے نمایاں تین نام ہیں:

مولانا سید حسین احمد مدنیؒ
امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ
مولانا ابوالکلام آزادؒ
بلاشبہ ان تینوں حضرات نے قیام پاکستان کے خلاف اپنی رائے کو پورے شد و مد کے ساتھ پیش کیا مگر پاکستان بن جانے کے بعد ان کا طرز عمل کیا تھا اسے بھی سامنے رکھ لیجیے

حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ سے ان کے پاکستان میں رہنے والے عقیدت مندوں نے آئندہ کے بارے میں راہنمائی طلب کی تو انہوں نے واضح طور پر ہدایت کی کہ پاکستان کی سالمیت و استحکام کے لیے کام کریں اور ماضی کو بھول جائیں۔ مولانا مدنیؒ نے اس سلسلہ میں بڑی خوبصورت مثال دی جو ان کے مکتوب کی صورت میں شائع ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسجد بننے سے پہلے اہل محلہ کا اختلاف ہو سکتا ہے کہ مسجد یہاں بنے وہاں نہ بنے، اتنی جگہ میں بنے اور اتنی میں نہ بنے۔ لیکن جب ایک فریق کی رائے غالب آگئی اور انہوں نے دوسرے فریق کی رائے کے خلاف مسجد بنا لی تو اب یہ مسجد سب کے لیے مسجد ہی ہے۔ اور اس کا احترام اور اس کے تقدس کی حفاظت سب کی ذمہ داری ہے۔

اسی طرح امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے لاہور میں جلسہ عام منعقد کر کے اعلان کیا کہ قوم نے ان کی رائے کو قبول نہیں کیا اس لیے وہ قوم کا فیصلہ تسلیم کرتے ہوئے اس کے حق میں دستبردار ہوتے ہیں، اور اب وہ پاکستان کی سالمیت و استحکام کے لیے بھرپور کردار ادا کریں گے۔ چنانچہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کی پہلی جنگ میں مسلم لیگ کے ساتھ جس جماعت نے جہاد کشمیر کی حمایت میں رائے عامہ کو بیدار کرنے کے لیے سب سے زیادہ کام کیا وہ مجلس احرار اسلام تھی۔

اور مولانا ابوالکلام آزادؒ کے بارے میں بھی یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر آچکی ہے کہ تقسیم ہند کے موقع پر جب ریاستوں کو اس بات کا اختیار ملا کہ وہ اپنی مرضی سے پاکستان یا بھارت میں سے کسی کے ساتھ شامل ہو سکتے ہیں تو بلوچستان کی ریاست قلات کے نواب میر احمد یار خان مرحوم نے بھارت کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا۔ مگر اس کے اعلان سے قبل کانگریسی راہنماؤں سے رابطہ کے لیے اپنے وزیر دربار میر غوث بخش بزنجو مرحوم کو بھیجا تاکہ بھارتی حکومت سے گفت و شنید کے بعد بھارت کے ساتھ قلات کے الحاق کا باقاعدہ اعلان کر دیا جائے۔ میر غوث بخش بزنجو مرحوم دہلی پہنچے تو اس خیال سے پہلے مولانا ابوالکلام آزادؒ سے ملے کہ اس طرح کانگریس کی ہائی کمان کے ساتھ معاملات طے کرنے میں آسانی رہے گی۔ مولانا آزادؒ نے نواب قلات کے فیصلے پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ انہوں نے میر غوث بزنجو کو دوسرے کانگرسی راہنماؤں کے ساتھ ملنے سے روک دیا اور یہ تلقین کر کے واپس بھیج دیا کہ پاکستان بن چکا ہے اس لیے آپ لوگ پاکستان کے ساتھ الحاق کریں اور اسے مضبوط بنائیں۔

مولانا مفتی محمودؒ کا تعلق اسی قافلہ سے تھا اور اپنے ان اکابر کے اسی طرز عمل کے مطابق انہوں نے خود کو پاکستان کی سالمیت و استحکام میں اسلامی نظام کے نفاذ کی جدوجہد کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ اس سلسلہ میں ایک تاریخی واقعہ کا ذکر بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۷۰ء کے عام انتخابات کے بعد جب صدر یحییٰ خان نے پارلیمنٹ کا طلب کردہ اجلاس ملتوی کر دیا اور شیخ مجیب الرحمن نے اس کے رد عمل میں ہڑتال کا اعلان کر کے مشرقی پاکستان کا پورا نظام جام کر دیا تو پاکستان کی تقسیم کا خطرہ حقیقی طور پر بالکل سامنے نظر آنے لگا۔ اس موقع پر معاملات کو سلجھانے کے لیے قومی اسمبلی کی چھوٹی پارلیمانی پارٹیوں نے لاہور میں اجلاس منعقد کر کے فریقین سے مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے وفد میں مولانا مفتی محمودؒ بھی مذاکرات میں شرکت کے لیے ڈھاکہ گئے اور شیخ مجیب الرحمن سے ملے

مولانا مفتی محمودؒ نے جمعیۃ علماء اسلام کی مرکزی مجلس شوریٰ میں ان مذاکرات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اور خان عبد الولی خان دونوں شیخ مجیب سے ملے اور ان سے دیگر بہت سی باتوں کے علاوہ لیہ بھی کہا کہ:

’’شیخ صاحب! یہ بات یاد رکھیں کہ آپ مسلم لیگی ہیں اور ہم کانگرسی۔ کل آپ پاکستان بنا رہے تھے تو ہم نے کہا تھا کہ نہ بنائیں اس سے مسلمانوں کا نقصان ہوگا۔ اور آج آپ پاکستان توڑ رہے ہیں تو ہم آپ سے یہ کہنے آئے ہیں کہ اسے نہ توڑیں مسلمانوں کو نقصان ہوگا۔‘‘

اس پس منظر میں بعض مجالس میں اس وقت کے وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے ایک بیان کا جواب دیتے ہوئے، جس میں بھٹو مرحوم نے اپوزیشن پر پاکستان کی تقسیم کی ذمہ داری کا الزام عائد کیا تھا اور مفتی صاحبؒ اس وقت اپوزیشن لیڈر تھے، مولانا مفتی محمودؒ نے کہا تھا کہ:

’’ہم پاکستان کی تقسیم کے ذمہ دار نہیں ہیں، اس کی ذمہ داری تم پر عائد ہوتی ہے۔ ہم تو ہندوستان کی تقسیم کے حق میں بھی نہیں تھے پاکستان کی تقسیم کے کس طرح حق میں ہو سکتے ہیں؟ یہ تقسیم کرنا تمہارا ہی کام ہے، کل بھی ملک تم نے تقسیم کیا اور آج بھی تم نے ملک کو دولخت کیا ہے۔ اگر یہ تقسیم گناہ ہے تو اس گناہ میں ہم نہ کل شریک تھے اور نہ آج اس گناہ میں ہم حصہ دار ہیں۔‘‘

الفاظ اور جملوں کی ترتیب میں کمی بیشی ہو سکتی ہے لیکن میں نے پوری کوشش کی ہے کہ مولانا مفتی محمودؒ نے جو کچھ کہا اس کا پورا مفہوم بیان ہو جائے۔ یہ بات انہوں نے اکتوبر ۱۹۷۵ء کے دوران جامع مسجد نور مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں جمعیۃ علماء اسلام کے ملک گیر کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے تفصیل کے ساتھ کی تھی، اور میں اس کنونشن کا اسٹیج سیکرٹری تھا۔ جبکہ بعض دیگر مجالس میں بھی انہوں نے یہ بات کہی جسے یار دوستوں نے اس جملے میں تبدیل کر دیا کہ ’’ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے۔‘‘ اور اس کے بعد سے اس بات کو مسلسل دہرایا جا رہا ہے۔

بہرحال علماء کا وہ حلقہ جس نے ایک سیاسی رائے اور موقف کے طور پر پاکستان کے قیام کی مخالفت کی تھی اور اسے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے مجموعی مفاد میں مفید نہیں سمجھا تھا، انہوں نے پاکستان بن جانے کے بعد نہ صرف اسے خوش دلی کے ساتھ تسلیم کیا بلکہ آج وہی علماء پاکستان کے استحکام و سالمیت اور اسے ایک اسلامی نظریاتی ریاست بنانے کے لیے سب سے زیادہ سرگرم عمل ہیں، اور غالباً تحریک پاکستان کی اصل منزل بھی یہی

 آج تک جن حضرات کے نام تحریک پاکستان میں لیے جاتے رہے ان میں سے اکثر نے اس کی مخالفت کی تھی جن حضرات کو آج قائد کے طور پر پیش کیا جاتا ہے انہوں نے اس وقت مخالفت کی تھی اور جن حضرات نے حقیقی طور پر قیام پاکستان کے لیے کام کیا آج ان کے ناموں کو پسِ پشت ڈال دیا گیا ہے بہرحال میں یہاں پر مختصر طور پر ان افراد کے نام اور ان کے اقوال نقل کروں گا جنہوں نے اس وقت قیامِ پاکستان کی مخالفت کی تھی ۔ حقایق پڑھیں اور پاکستان کے مخالفین کو پہچانیں >>>>>

تحریک پاکستان اور علماء دیوبند >1>>> (2)>>

~~~~~~~~~~~

تحریکِ‌ پاکستان: علمائے کرام جو قائدِ اعظم کا دست و بازو بنے

تحریکِ پاکستان میں لاکھوں مسلمانوں نے بے شمار اور ناقابلِ فراموش قربانیاں پیش کیں اور اس تحریک میں علمائے کرام کی خدمات بھی سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ یہ علما اور صوفی بانیِ پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح کے دست و بازو تھے۔ یہاں ہم تحریکِ پاکستان میں نمایاں کردار ادا کرنے والے چند علمائے کرام کا تذکرہ کررہے ہیں۔

پیر جماعت علی شاہ، مولانا ابو الحسنات و دیگر، مولانا اشرف علی تھانوی اور ان کے رفقا، مولانا شفیع دیو بندی، مولانا ادریس کاندھلوی، مولانا شبیراحمد عثمانی، مولانا ظفراحمد عثمانی نے اپنے مکتبِ فکر کی قیادت کی، ان علمائے کرام نے عبادت گاہوں، خانقاہوں اور جلسے، جلوس کے دوران اور عام لوگوں سے ملاقاتیں کرکے ان میں آزادی کی اہمیت اجاگر کی جس نے تحریک کو کام یابی سے ہم کنار کیا۔

پیر جماعت علی شاہ: آپ نے تحریکِ پاکستان میں بھرپور حصّہ لیا اور قائداعظم محمد علی جناح سے رابطہ و مشاورت میں پیش پیش رہے۔ آپ مسلم لیگ اور قائدِاعظمؒ پر مکمل اعتماد کا اعلان کرتے ہوئے تحریک کو آگے بڑھانے میں ہر طرح سے ممد و معاون ثابت ہوئے۔ وائسرائے ہند کے نام تار میں آپ نے فرمایا ’’مسلم لیگ‘‘ مسلمانانِ ہند کی واحد نمائندہ جماعت ہے اور قائدِاعظم محمد علی جناح اسلامیانِ ہند کے واحد لیڈر ہیں۔ ایگزیکٹو کونسل کے مسلم ارکان کی نام زدگی مسلم لیگ اور قائدِاعظم کا کام ہے۔ طول و عرضِ ہندوستان میں میرے لاکھوں مرید مسلم لیگ کے ساتھ ہیں۔

مولانا عبدالحق بدایونی: تحریک پاکستان کے ہراول دستے میں شامل مولانا صاحب نے لاہور کے منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تاریخ ساز اجلاس میں قراردادِ پاکستان پیش کرنے کی بھرپور تائید کی اور اپنے رفقا سمیت قراردادِ پاکستان کی حمایت کا اعلان کیا۔ برطانوی ہند میں انتخابات کے موقع پر آپ کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ آپ نے یو پی، بہار،اڑیسہ، بنگال، آسام، بمبئی، سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے دور افتادہ علاقے میں جا کر مسلمانوں کو مسلم لیگ کے حق میں ووٹ دینے پر آمادہ کیا۔ صوبہ سرحد کے ریفرنڈم میں قائداعظم نے مسلم لیگ کے جس وفد کو بھیجا تھا اس میں مولانا بدایونی شامل تھے۔

شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی: تحریکِ پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لینے والوں میں ایک نام شاہ صاحب کا بھی ہے جنھوں نے قائدِاعظم سے کئی ملاقاتیں کیں جس میں اسلامیانِ ہند کے لیے الگ ریاست اور مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرتے ہوئے دنیا بھر میں اہم شخصیات اور بالخصوص مسلمانوں کی اس حوالے سے تائید اور حمایت حاصل کرنے کے لیے کوششوں پر مفید بات چیت ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ قائداعظم کے کہنے پر آپ نے اپنے بیرونِ ممالک اپنے دوروں میں عالمی راہ نماؤں کو پاکستان کے قیام کی کوششوں کی ضرورت اور اس کے اغراض و مقاصد سے آگاہ کیا۔

علّامہ سید احمد سعید کاظمی: ہندوستان کے علما میں ایک نام کاظمی صاحب کا ہے جنھوں نے آل انڈیا سنی کانفرنس بنارس جس میں لاکھوں لوگ اور ہزاروں علمائے کرام شریک ہوئے تھے، اپنی شرکت یقینی بنائی اور کانفرنس میں تشریف لائے جس سے اس وقت ہند بھر میں ان کے ماننے والوں تک بھی تحریکِ پاکستان کا مقصد پہنچا اور اسے تقویت ملی۔ 27 اپریل 1946ء کو منعقدہ آل انڈیا سنی کانفرنس کو جدوجہدِ آزادی میں ایک سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے۔

مجاہدِ ملّت مولانا عبدالستار خان نیازی: مولانا نیازی نے علامہ محمد اقبال کے حکم پر ’’مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن‘‘ کی بنیاد رکھی اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ تحریک پاکستان کے لیے بہت کام کیا۔ آپ کی بانی پاکستان کے ساتھ خط و کتابت اور ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ قائدِاعظم نے آپ کے لیے فرمایا ’’جس قوم کے پاس نیازی جیسے نوجوان ہوں، اسے پاکستان بنانے سے کون روک سکتا ہے۔‘‘

ہندوستان کے مسلمانوں کی آزادی کی تحریک کے قافلے میں یوں تو مجاہدوں، قائداعظم کے جاں نثاروں، مسلم لیگ کے متوالوں اور آزادی کے لیے کٹ مرنے کا جذبہ رکھنے والوں کی قربانیوں، شبانہ روز محنت، کاوشوں اور ان کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔

ہم نے یہاں فقط چند نام تحریر کیے ہیں جن کے کردار اور کارناموں کی تفصیل کئی ابواب کی متقاضی ہے، لیکن سچ یہ ہے کہ اس وقت ہر قسم کی مسلکی تفریق اور تمام تر اختلافات کو ایک طرف رکھ کر تمام مکاتبِ فکر کے علمائے کرام نے پاکستان کے قیام کو ایک مذہبی فریضہ قرار دیا اور قائدِ اعظم کی قیادت اور ان کی ہدایت پر علمائے کرام ملک کے طول و عرض میں اپنے ارادت مندوں کو تحریکِ پاکستان کی کام یابی کے لیے اکٹھا کرنے کے لیے پھیل گئے۔

پیر جماعت علی شاہ، مولانا ابو الحسنات و دیگر، مولانا اشرف علی تھانوی اور ان کے رفقا، مولانا شفیع دیو بندی، مولانا ادریس کاندھلوی، مولانا شبیراحمد عثمانی، مولانا ظفراحمد عثمانی نے اپنے مکتبِ فکر کی قیادت کی، ان علمائے کرام نے عبادت گاہوں، خانقاہوں اور جلسے، جلوس کے دوران اور عام لوگوں سے ملاقاتیں کرکے ان میں آزادی کی اہمیت اجاگر کی جس نے تحریک کو کام یابی سے ہم کنار کیا۔ (ary)

قائد اعظم نے خود پرچم کشائی کی رسم ادا نہیں کی۔ بلکہ کراچی میں شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ کے مبارک ہاتھوں سے پاکستان کی پرچم کشائی کروائی اور پاکستان کے دوسرے حصے یعنی مشرقی پاکستان کے دارالحکومت ڈھاکہ میں قائداعظم کی ہدایت کے مطابق خواجہ ناظم الدین نے شیخ الحدیث حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ کو دعوت دی کہ پرچم کشائی آپ فرمائیں۔چنانچہ یہ اعزاز مولانا ظفراحمد عثمانی رح نے حاصل کیا۔ سواد اعظم اھل سنت والجماعت کے ناظم اعلی مولانا قاری عبدالرشید نے اولڈھم سے اپنے پیغام میں کہا کہ ڈھاکہ اور کراچی میں پرچم کشائی کروانے کا جو اعزاز دونوں بزرگوں کو ملا وہ درحقیقت پاکستان کے لئے بے پناہ قربانیوں کے اعتراف کے طور دیا گیا۔

~~~~~~~~

‏أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ

“تم لوگوں کی ر ہنما ئی کرتے ہو، لیکن تم ہی اندھے ہو. تم تو شربت میں مچھر پکڑتے ہو اور خود اونٹ کو نگل جا نے وا لو ں کی طرح ہو”(حضرت عیسی علیہ السلام نے علماء یہود کو کہا تھا)

آج دو ہزار سال بعد یہی، حال ہمارے علما ء اور دانشوروں کی اکثریت کا ہے- اس کا کیا جواز ہے کہ سال سے قرآن اور رسول ﷺ کے احکام کے مطابق احادیث مرتب نہیں کی گیئں؟
‏أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ کے مطابق فوری طور پر اہل علم کو اب یہ کام کرنا ہو گا:
.اصول علم الحديث [https://bit.ly/Hadith-Basics]