Postmodernism and Media پوسٹ ماڈرن ازم کا چیلنج اور میڈیا

 پوسٹ ماڈرن ازم کا چیلنج اور میڈیا Postmodernism and Media کے موضوع پر ہونے والی کانفرنس میں ملک کی مختلف جامعات کے طلبہ، اساتذہ اور محققین شریک تھے۔ ملک کے ممتاز صحافیوں نے اپنی گفتگو میں اہم نکات اٹھائے۔ یہ ایک سنجیدہ علمی محفل تھی جہاں مختلف سیشنز میں تحقیقی مقالے پڑھے گئے۔ Postmodernism  کانفرنس کے موضوع پر جو  گفتگو اصحاب نے کی  وہ ذیل میں پیشِ خدمت ہے …… مگر پہلے معلوم کریں کہ … ?What is Postmodernism 

Postmodernism describes a broad movement that developed in the mid- to late 20th century across philosophy, the arts, architecture, and criticism which marked a departure from modernism. While encompassing a broad range of ideas, postmodernism is typically defined by an attitude of skepticism, irony, or rejection toward grand narratives, ideologies, and various tenets of universalism, including objective notions of reason, human nature, social progress, moral universalism, absolute truth, and objective reality. Instead, postmodern thinkers may assert that claims to knowledge and truth are products of social, historical or political discourses or interpretations, and are therefore contextual or socially constructed. Accordingly, postmodern thought is broadly characterized by tendencies to epistemological and moral relativism, pluralism, irreverence, and self-referentiality.

The term postmodernism has been applied both to the era following modernity and to a host of movements within that era (mainly in art, music, and literature) that reacted against tendencies in modernism. Postmodernism includes skeptical critical interpretations of culture, literature, art, philosophy, history, linguistics, economics, architecture, fiction, feminist theory, and literary criticism. Postmodernism is often associated with schools of thought such as deconstruction and post-structuralism, as well as philosophers such as Jean-François Lyotard, Jacques Derrida, and Frederic Jameson.

Criticisms of postmodernism are intellectually diverse, including the assertions that postmodernism is meaningless and promotes obscurantism. For example, Noam Chomsky has argued that postmodernism is meaningless because it adds nothing to analytical or empirical knowledge. He asks why postmodernist intellectuals do not respond like people in other fields when asked, “what are the principles of their theories, on what evidence are they based, what do they explain that wasn’t already obvious, etc.?…If [these requests] can’t be met, then I’d suggest recourse to Hume’s advice in similar circumstances: ‘to the flames’.”

Christian philosopher William Lane Craig has noted “The idea that we live in a postmodern culture is a myth. In fact, a postmodern culture is an impossibility; it would be utterly unliveable. People are not relativistic when it comes to matters of science, engineering, and technology; rather, they are relativistic and pluralistic in matters of religion and ethics. But, of course, that’s not postmodernism; that’s modernism!”

Formal, academic critiques of postmodernism can also be found in works such as Beyond the Hoax and Fashionable Nonsense. However, as for continental philosophy, American academics have tended to label it “postmodernist”, especially practitioners of “French Theory”. Such a trend might derive from U.S. departments of Comparative Literature. It is interesting to note that Félix Guattari, often considered a “postmodernist”, rejected its theoretical assumptions by arguing that the structuralist and postmodernist visions of the world were not flexible enough to seek explanations in psychological, social and environmental domains at the same time.

Analytic philosopher Daniel Dennett declared, “Postmodernism, the school of ‘thought’ that proclaimed ‘There are no truths, only interpretations’ has largely played itself out in absurdity, but it has left behind a generation of academics in the humanities disabled by their distrust of the very idea of truth and their disrespect for evidence, settling for ‘conversations’ in which nobody is wrong and nothing can be confirmed, only asserted with whatever style you can muster.”

Daniel Farber and Suzanna Sherry criticised Postmodernism for reducing the complexity of the modern world to an expression of power and for undermining truth and reason: “If the modern era begins with the European Enlightenment, the postmodern era that captivates the radical multiculturalists begins with its rejection. According to the new radicals, the Enlightenment-inspired ideas that have previously structured our world, especially the legal and academic parts of it, are a fraud perpetrated and perpetuated by white males to consolidate their own power. Those who disagree are not only blind but bigoted. The Enlightenment’s goal of an objective and reasoned basis for knowledge, merit, truth, justice, and the like is an impossibility: “objectivity,” in the sense of standards of judgment that transcend individual perspectives, does not exist. Reason is just another code word for the views of the privileged. The Enlightenment itself merely replaced one socially constructed view of reality with another, mistaking power for knowledge. There is naught but power.” ... [continue reading ….]

1: پوسٹ ماڈرن ازم کا چیلنج اور میڈیا ( شاہد صدیقی)

پوسٹ مارڈن ازم کا چیلنج اور میڈیا کے موضوع پر ہونے والی دو روزہ کانفرنس میں ملک کی مختلف جامعات کے طلبہ، اساتذہ اور محققین شریک تھے۔ ملک کے ممتاز صحافیوں محترم سجاد میر صاحب، محترم فتح محمد ملک صاحب، محترم مجاہد منصوری صاحب، محترم خورشید ندیم صاحب، محترم وجاہت مسعود صاحب اور محترم شفیق جالندھری صاحب نے اپنی گفتگو میں اہم نکات اٹھائے۔ یہ ایک سنجیدہ علمی محفل تھی جہاں مختلف سیشنز میںتحقیقی مقالے پڑھے گئے۔ کانفرنس میں شرکا کوخوش آمدید کہنے کی خوشگوار ذمہ داری میری تھی۔ کانفرنس کے موضوع پر میںنے جو مختصر گفتگوکی پیشِ خدمت ہے۔
پوسٹ ماڈرن ازم بیسویں صدی کی ایک اہم تحریک ہے جو ماڈرن ازم کے ردِ عمل کے طور پر وجود میں آئی۔ اس تحریک کے اثرات ادب، تنقید، فلسفہ، موسیقی، آرٹس اور ابلاغِ عامہ میں دکھائی دیتے ہیں۔ اس تحریک نے ہر شے کے وجود خاص طور پر Grand Narratives کو چیلنج کیا۔ پوسٹ مارڈن ازم کا بنیادی نعرہ کسی بھی چیز کے حتمی پن سے انکار تھا اسی لیے اس میں بہت سی طے شدہ سچائیوں کوچیلنج کیا گیا کیونکہ پوسٹ مارڈن ازم میں سچائی کا تصور نہ تو جامد تھا، نہ ہی طے شدہ۔ پوسٹ ماڈرن ازم میں سچائی کے ایک سے زیادہ Versions ہو سکتے ہیںکیونکہ پوسٹ ماڈرن ازم میں سچائی ایک معاشرتی Social Construct ہے جس کی تشکیل میں سماجی ادارے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان سماجی اداروں میں خاندان، تعلیمی ادارے اور میڈیا شامل ہیں۔ یوں پوسٹ مارڈن ازم میں میڈیا ایک مرکزی کردار اختیارکر گیا ہے۔ اسی طرح پوسٹ مارڈن ازم میں زبان کا پرانا تصور بھی بدل گیا ہے اور لفظوں کے معنی بھی Fluid ہو گئے ہیں۔ زبان جوکبھی محض خیالات، تصورات اور محسوسات کی ترسیل کا ایک آلہ (Tool) گردانی جاتی تھی اب وہ ایک طاقتور ہتھیار کے طور پر سامنے آئی ہے جو سچائی کی تشکیل (Construction of Reality) میں محرک ہوتی ہے۔ یوں زبان کا سیاسی کردار کھل کر سامنے آیا ہے جس کا تعلق براہ راست طاقت کے ساتھ ہے۔ زبان اور طاقت کے باہمی تعلق کو سمجھنے کے لئے ہمیں معروف اطالوی دانشور گرامچی کی کتاب Prison Notebook سے رجوع کرنا ہو گا، جس میں پہلی بار بالادستی (Hegemony) کے موضوع پر بحث کی گئی۔ گرامچی کے مطابق بالادستی حاصل کرنے کے دو اہم طریقے ہیں۔ پہلا طریقہ: جس میں پولیٹیکل سوسائٹی طاقت کا استعمال کرتی ہے اور دوسرا سول سوسائٹی کا ذریعہ، جس میں طاقت کا استعمال نہیں ہوتا اور تعلیم، ادب، زبان اور ثقافت سے دوسروں کے ذہنوں کو مسخر کرکے انہیں زیر نگین لایا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ایک بالادستی حاصل کرنے کا جبری طریقہ ہے اور دوسرا Discourse کا طریقہ۔
گرامچی کے بقول ڈسکورس کا طریقہ زیادہ طاقتور اور مؤثر ہے جس میں ذہنوں کو غیر محسوس طریقے سے مرعوب کیا جاتا ہے اور مسخر ہونے والا گروپ اپنی رضا و رغبت سے ہتھیار ڈال دیتا ہے۔ یہ بالادستی کے عمل کی معراج ہے جسے گرامچیSpontaneous Consent کا نام دیتا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ تمام سماجی اداروں میں زبان کا اہم کردار ہے۔ خاص کر میڈیا میں۔ یہ کردار اور بھی اہم ہو جاتا ہے جہاں نہ صرف سچائیوں کو دوسروں تک پہنچایا جاتا ہے بلکہ سچائیوں کو تخلیق (Constrct) کیا جاتا ہے یوں میڈیا ایک اہم طاقت کے طور پر سامنے آیا ہے۔ جو شناختوں کی تشکیل(Construction of Identities) پر قادر ہے۔ شناخت (Identity) بھی اور چیزوں کی طرح پوسٹ ماڈرن دور میں ایک غیر جامد (Fluid) تصور بن گئی۔ میڈیا کسی شناخت کو عظمتوں کی بلندیوں پر بھی پہنچا سکتا ہے اور کسی شناخت کو بدنما بھی بنا سکتا ہے۔ یوں کسی زمانے میں اگر پیداواری ذرا ئع (Source of Production)اہم خیال کئے جاتے تھے تو اب Source of Production of Knowledge زیادہ اہم ہو گئے ہیں۔ اگر علم کے یہ ذرائع کسی گروپ یا ملک کے قبضے میں ہیں تو طاقت کا سرچشمہ اسی کے پاس ہو گا۔
معروف مفکر ایڈورڈ سعید نے اپنی کتاب Orientalism میں تفصیل سے بحث کی ہے کہ کیسے مغرب (Occident) نے مشرق (Orient) کی شناخت اپنی مرضی کے سے تشکیل دی ہے۔ ایڈورڈ سعید نے مغربی مصنفین کے ادب پاروں کی متعدد مثالوںسے واضح کیا ہے کہ کس طرح مستشرقین (Orientalists) نے مشرق کی شناخت کو تو پست اور بے وقعت بنایا اور اپنی یعنی مغرب کی شناخت کو پرشکوہ بنا دیا۔ یہ رویہ ایڈورڈ سعید کے بقول Positional Superiority سے جنم لیتا ہے۔
میڈیاکے حوالے سے ا یڈورڈ سعید نے اس کے سیاسی کردار کو واضع کیا اور Politics of Representation پر روشنی ڈالی۔ اس کے مطابق زور آور گروہ اپنی پوزیشن کا استعمال کرتے ہوئے اپنی مرضی اور اپنی عصبیتوںکے ہمراہ دوسروں کاچہرہ بناتے اور دکھاتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایڈورڈ سعید کی کتاب Covering Islam اہم ہے۔
فرانسیسی دانشور فوکو (Michel Foucault) کے مطابق طاقت اورعلم کا مضبوط گٹھ جوڑ ہے۔ طاقت اپنے مفادکے مطابق ایک خاص طرح کے بیانیے کو تشکیل دیتی ہے، اس کی بھرپور اشاعت کرتی ہے اور اس پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہے۔ یہ تشکیل کردہ بیانیہ ایک خاص طرح کی معاشرتی سچائی (Social Truth) کو جنم دیتا ہے اور یہ معاشرتی سچائی طاقت اور اس کے تمام تر اقدامات کو جواز فراہم کرتی ہے۔
عہدِ جدید میں نوم چومسکی نے میڈیا کے سیاسی پہلو کو اپنی تحریروں کا مرکز بنایا اور گرامچی کی اصطلاح Spontaneous Consent کے مقابل Manufacturing of Consentکی اصطلاح روشناس کرائی۔ یہ میڈیا کے اس طاقتور پہلو کی طرف اشارہ ہے جس میں میڈیا لوگوں کو اپنی مرضی کی چیزیں دکھاتا ہے اور اپنے طے شدہ ایجنڈے پر سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔
پوسٹ مارڈن دور میں میڈیا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی قیود توڑ کر سوشل میڈیا کے پُرشور سمندر میں اُتر گیا ہے۔ اس سمندر کی رفتار اور شور اسے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے ممتاز کرتا ہے۔ یوں سوشل میڈیا معاشرتی سچائیوں کی تشکیل کے ساتھ ساتھ انہیں تند و تیز سیلابی ریلے کی شکل میں پھیلانے پر قادر ہے۔
میڈیا شناخت سازی Construction of Identitiesمیںبھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ میڈیا کی یہ طاقت اس بات کی متقاضی ہے کہ میڈیا اپنی ذمہ داریوں کا تعین خود کرے۔ بیرونی پابندیاں کبھی اتنی مؤثر نہیں ہو سکیں جتنا خود احتسابی کا عمل۔
پوسٹ مارڈن ازم کے چیلنج نے میڈیا سے وابستہ افراد کی ذمہ داریوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ اس حقیقت کا ادراک صحافت سے وابستہ ہونے والے نوجوان صحافیوں کو ہونا چاہیے کہ وہ سچائیوں کی تشکیل کے سرچشمے سے وابستہ ہیں، ان کے پاس وہ رنگ ہیں جس سے کسی شناخت کوکوئی رنگ بھی دیا جا سکتا ہے۔

شاہد صدیقی دنیا http://m.dunya.com.pk/index.php/author/shahid-siddique/2017-12-26/21779/36335545

2: پوسٹ ماڈرن دنیا میں میڈیا کا کردار کیا ہو گا؟ (خورشید ندیم )


علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر شاہد صدیقی کے زرخیز ذہن میں یہ سوال اُٹھا‘ اور پھر ایک دو روزہ کانفرنس کا عنوان بن گیا۔ ابتدائی سیشن میں شرکت کے لیے گیا تو محترم و مکرم سجاد میر کا عالمانہ خطاب سننے کا موقع مل گیا۔ پاکستان بھر سے آئے ہوئے شعبہ صحافت سے متعلق اساتذہ اور طلبا و طالبات کی ایک بڑی تعداد جمع تھی۔ ڈاکٹر مجاہد منصوری اور ڈاکٹر شفیق جالندھری بھی تشریف فرما تھے۔ ملک کے نامور صحافی اس کانفرنس میں میڈیا کے طالبِ علموں سے ہم کلام ہوں گے۔ اساتذہ اور طالبِ علم بھی اپنے تحقیقی مقالات پیش کریں گے۔
مابعد جدیدیت (Post-modernism) کی اصطلاح نے مغرب میں جنم لیا۔ اس کی درست تفہیم مغرب کے تاریخی پسِ منظر ہی میں ہو سکتی ہے۔ مغرب کی تاریخ کو بالعموم تین ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ قبل از جدیدیت، جدیدیت اور بعد از جدیدیت۔ جدیدیت کے عہد میں حسی اور تجرباتی علم کو معیار مانا گیا۔ یہ کہا گیا کہ حقیقت وہی ہے جس کی تائید انسان کے حواس کریں یا پھر اس کا تجربہ۔ اسے سائنسی تحقیق کا دور کہا گیا۔ اس دور میں حقیقت اور سچ کو ایک معروضی حیثیت دی گئی۔
پوسٹ ماڈرنزم نے حقیقت کے اس تصور کو رد کر دیا۔ اب یہ کہا جانے لگا کہ دنیا میں حقیقت نام کی کوئی شے نہیں پائی جاتی۔ حقیقت ایک ایسا تصور ہے جو سماجی تشکیل کا نتیجہ ہے۔ یہ کلچرل تصور ہے۔ کلچرل کو نیچرل کے بالمقابل سمجھا گیا۔ فطری تصورات آفاقی اور زمان و مکان سے ماورا ہوتے ہیں اور فطرت سے پھوٹتے ہیں۔ کلچرل ایک تشکیلی (constructed) عمل ہے جو فطری طور پر موجود نہیں ہوتا بلکہ پیدا کیا جاتا ہے۔ نظریات اور اقدار سے تاریخی عمل جنم لیتا ہے۔ وہی حقیقت ہے جو اس کلچرل پیمانے پر پوری اُترتی ہے۔
پوسٹ ماڈرن ازم کو ماڈرن ازم کے تناظر میں سمجھنا چاہیے۔ سب سے پہلے اس نے آرکیٹیکچر میں ظہور کیا‘ جب آرائش کے ماڈرن تصور کو چیلنج کیا گیا۔ پھر یہ ایک نظریے اور سوچ میں ڈھل گیا‘ جس نے ادب، آرٹ، میڈیا، ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ میڈیا پوسٹ ماڈرن ازم میں ایک کلچرل سرگرمی نہیں بلکہ ایک تجارتی عمل ہے۔ اس کی نظر میں ہر شے جنسِ بازار ہے۔ مذہب، سیاست، کلچر، کسی شے کو کوئی استثنا نہیں۔ میڈیا ہمیں حقیقت کی خبر نہیں دیتا۔ میڈیا حقیقت کو تشکیل کرتا ہے۔ یوں تشکیلی عمل کا حصہ بن جاتا ہے۔ ٹی وی کی سکرین پر جو کچھ دکھائی دیتا ہے، وہ حقیقت نہیں ہوتا بلکہ وہ تشکیل شدہ (constructed) حقیقت ہوتی ہے۔ بعض سکالرز اسے ہائپر ریئلیٹی (Hyper reality) کہتے ہیں۔ ہائپر ریئلیٹی حقیقت سے زیادہ مؤثر ہوتی ہے۔ یہی تصور ہے جسے ایک دوسرے زاویے سے پوسٹ ٹروتھ بھی کہا جاتا ہے۔
مغرب میں پوسٹ ماڈرنزم کا دور جدیدت کے بعد آیا۔ وہاں اس کا جواز کسی حد تک تلاش کیا جا سکتا ہے۔ حسی اور تجرباتی علم کو جب حقیقت تک رسائی کا سیارہ تسلیم کیا گیا تو اپنی محدود قوتِ پرواز کے سبب، یہ علم منزلِ مراد تک پہنچانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ انسان کو اس ناکامی کا اعتراف ہوا تو اس نے پہلے سے قائم شدہ نظریات پر نظرثانی کرنے کے بجائے، مزید آگے بڑھنا چاہا اور اس بات ہی سے انکار کر دیا کہ دنیا میں سچائی یا حقیقت نام کی کوئی شے پائی جاتی ہے۔
انسان نے اپنا سفر مابعد الطبیعیاتی علم سے شروع کیا۔ اگلے مرحلے میں وہ طبیعیات کے دور میں داخل ہوا۔ یہ الہام سے فلسفے کی طرف رجوع تھا۔ فلسفے سے مایوسی نے حقیقت کی وجود ہی کو مشتبہ بنا دیا۔ اہلِ مغرب نے فلسفے سے دوبارہ الہام کی طرف مراجعت سے گریز کیا اور تلاشِ علم کے سفر کو خطِ مستقیم میں آگے بڑھایا۔ میڈیا اس کے ساتھ سفر کرتا ہوا، پوسٹ ماڈرن ازم کے دور میں داخل ہو گیا۔ مغرب میں یہ سارا عمل چونکہ ایک حسنِ ترتیب کے ساتھ آگے بڑھا، اس لیے مربوط ہونے کے ساتھ قابلِ فہم بھی ہے۔
ہمارے ساتھ یہ حادثہ ہوا کہ سماجی سطح پر ماڈرن دور میں داخل ہوئے بغیر، ہمارا میڈیا ٹیکنالوجی کے اعتبار سے پوسٹ ماڈرن دور میں داخل ہو گیا۔ ڈیجیٹل عہد میں داخل ہونے کے بعد ہمیں بالجبر پوسٹ ماڈرن دور میں داخل ہونا پڑا۔ اب ماڈرن دور سے گزرے بغیر پوسٹ ماڈرن دور میں جانا ایسا ہی ہے جیسے آٹھویں جماعت کے کسی طالب علم کو میٹرک کیے بغیر ایف اے کے امتحان میں بٹھا دیا جائے۔ اب یہ طالب علم جس انتشارِ فکر، پراگندگی اور ابہام کا شکار ہو سکتا ہے، ہم بطور معاشرہ اسی ابہام اور پراگندگی کا شکار ہیں۔
میڈیا کو اس کا کوئی شعور نہیں ہے۔ وہ سماجی ساخت سے واقف ہے‘ نہ اسے یہ خبر ہے کہ ہمارا معاشرہ کس تاریخی حادثے کا شکار ہو چکا۔ آج وہ ابہام پھیلانے اور معاشرے کو آلودہ کرنے کے سوا کچھ نہیں کر رہا۔ عوام کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ میڈیا سے مطمئن نہیں۔ انہیں یہ اندازہ ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے، یہ درست نہیں۔ تاہم وہ اپنے طور پر تجزیے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اس لیے اس حادثے کو محسوس کرنے کے باوجود، اس کی ماہیت سے ناواقف ہیں۔ عوام سے کیا شکایت کہ خواص کو بھی اس کا ادراک نہیں۔
آج میڈیا معاشرے کے ساتھ جو چاہے سلوک کرے، اسے روکنے والا کوئی نہیں۔ میڈیا پر ہمیں اگر کچھ اچھی چیزیں دکھائی دیتی ہیں تو اس وجہ سے نہیں کہ میڈیا کے ذمہ دار شعوری کوشش سے ایسا کرتے ہیں۔ میڈیا چونکہ سر تا پا ایک تجارتی عمل ہے، اس لیے اس کے نزدیک ہر شے جنسِ بازار ہے۔ معاملہ کاروباری اور تجارتی ہو تو لازم ہے کہ فیصلے کا اختیار مارکیٹنگ کے شعبے کے پاس ہو۔ چونکہ ہمارے معاشرے میں ابھی مذہب یا اس طرح کی بعض مثبت باتوں کی مارکیٹ موجود ہے، اس لیے اسی تناسب سے یہ ہمیں ٹی وی سکرین یا اخبارات کے صفحات پر دکھائی دیتے ہیں۔ جس روز معاشرہ مذہب بیزار ہو گیا، میڈیا سے بھی اسی دن غائب ہو جائے گا۔
پوسٹ ماڈرن ازم، اس طرح ہمارے لیے دُہرا عذاب ہے۔ ایک اس لیے کہ یہ کسی حقیقتِ مطلقہ سے انکار کرتا ہے۔ ہم جس تصورِ حیات کے ساتھ اپنی تہذیبی و مذہبی شناخت پر اصرار کرتے ہیں، اس کی اساس اللہ پر ایمان ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے نزدیک اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ پوسٹ ماڈرن ازم میں ایسے مابعدالطبیعیاتی تصورات کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ دوسرا عذاب یہ ہے کہ میڈیا سماج کی صورتِ حال سے الگ، لاشعوری طور پر پوسٹ مادڑن دور میں داخل ہو چکا اور معاشرہ ابھی قبل ازم جدیدت کے دور میں کھڑا یا کسی حد تک جدیدت کو سمجھنے کی جدوجہد کر رہا ہے۔ یوں میڈیا نے معاشرے میں اقدار کا ایک فساد برپا کر دیا ہے اور اسے اس بات کا کوئی ادراک بھی نہیں۔
ہمارا نوجوان طبقہ، جو میڈیا کی دنیا میں قدم رکھنے والا ہے، اگر پہلے ہی سے خبردار ہو جائے‘ اور اسے معلوم ہو کہ پوسٹ ماڈرن ازم کا چیلنج کیا ہے‘ تو یہ امکان پیدا ہو سکتا ہے کہ وہ سماج کو فکری پراگندگی سے بچانے کی کوئی تدبیر تلاش کر سکے۔ یہ اسی وقت ممکن ہو گا جب ہماری جامعات کے ذمہ داروں کو اس چیلنج کی سنگینی کا احساس ہو‘ جہاں سے پڑھ کر نوجوان میڈیا کا حصہ بنیں گے۔
ڈاکٹر شاہد صدیقی نے اگر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں اس کانفرنس کا اہتمام کیا تو یہ امید کی ایک کرن ہے۔ برادرم وجاہت مسعود جیسے لوگ اس کانفرنس میں مدعو ہیں جو باخبر ہیں کہ انسان کے علمی و فکری ارتقا نے ہمارے روایتی سماج کو کن چیلنجوں کے بالمقابل لا کھڑا کیا ہے۔ کاش میڈیا ہاؤسز کے ذمہ داران میں ایسے لوگ موجود ہوں جو صحافت کے میدان میں موجود رجالِ کار کی، اس پہلو سے تربیت کے بارے میں سوچ سکیں۔ اس کے لیے ناگزیر ہے کہ ان اداروں کی قیادت صاحبانِ علم کے پاس ہو۔ مارکیٹنگ کا شعبہ تو صرف پوسٹ ماڈرن کے ایک رضا کار اور خادم کا کردار ادا کر سکتا ہے‘ جس کے نزدیک دنیا کی ہر شے جنسِ بازار ہے۔

(خورشید ندیم ) http://m.dunya.com.pk/index.php/author/khursheed-nadeem/2017-12-23/21748/68585126

3:میڈیا اِن پوسٹ ماڈرن ٹائمز (مجاہد منصوری)

گزشتہ دو روز اسلام آباد میں گزرے۔ علامہ اقبال یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے زیراہتمام دو روزہ قومی کانفرنس بعنوان ’’میڈیا اِن پوسٹ ماڈرن ٹائمز، چیلنجز اور امکانات‘‘ میں بھرپور شرکت ہوئی۔ یوں گزری اتوار ’’آئین نو‘‘ کی اشاعت نہ ہوئی۔ اوپننگ سیشن میں وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر شاہد صدیقی، جناب خورشید ندیم اور جناب سجاد برکی کے موضوع پر عالمانہ خیالات سے آگاہی ہوئی۔ اس سے میڈیا کے جاری اور امکانی کردار کے حوالے سے سنجیدہ قومی مکالمے کے نئے دریچے کھلے۔ اس سال ملک میں میڈیا کے حوالے سے ہونے والی یہ پانچویں قومی کانفرنس تھی جو اس کا پتہ دیتی ہے کہ سوسائٹی اور میڈیا کی وابستگی اور معاشرے اور میڈیا کی اپنی پریکٹس پر ایک دوسرے کے اثرات گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ امر واقع یہ ہے کہ یہ موضوع پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کی کہانی ہے۔


کانفرنس کا دوسرا روز میڈیا پر تحقیق کے نئے ایونیوز کے حوالے سے بہت اہم تھا جس میں ملکی یونیورسٹیوں سے آئے ابلاغیات کے پروفیسرز اور پی ایچ ڈی /ایم فل اسکالرز کی گہری دلچسپی بہت واضح تھی۔ ناچیز نے بھی کانفرنس کے ایک سیشن کو چیئر کیا جس میں میزبان وائس چانسلر ڈاکٹر شاہد صدیقی بھی شریک ہوئے اور پنجاب یونیورسٹی کے ٹیڈیکس گروپ میں لا اور انگلش لٹریچر کے پی ایچ ڈی اور ایم فل اسکالرز نے اپنی مجوزہ تحقیقی تجاویز پیش کیں۔ کانفرنس کے اختتام پر Social Responsibilties of Media کے عنوان سے وائس چانسلر پروفیسر شاہد صدیقی کی صدارت میں پروفیسر فتح ملک اور وجاہت مسعود کے ساتھ کی نوٹ اسپیکر کے ساتھ موضوع پر اظہار خیال کیا۔
کانفرنس کی ہر ہر علمی سرگرمی میں موضوعات پر جو جو ذاتی اظہارخیال خاکسار نے کیا اور جو کچھ وقت کی کمی کے باعث نہ ہوسکا وہ قارئین خصوصاً موضوع میں دلچسپی رکھنے والے متعلقہ قارئین کے لئے آج کا ’’آئین نو‘‘ ہے۔ کمیونی کیشن سائنس کا بانی پروفیسر ڈاکٹر ولبر شریم جب 1940کے عشرے میں اپنی عالمانہ سوچ، مشاہدوں اور تجربات و تحقیق کے بعد تین صدی سے جاری پیشہ ٔ صحافت سمیت جملہ نوعیت کے ابلاغی عمل (کمیونی کیشن آپریشنز) کو ایک مکمل باڈی آف نالج (ڈسپلن) جیسا کہ فزکس، کیمسٹری، میتھ، اکنامکس اور بڑی تعداد میں جدید و قدیم علوم ہیں، کے طور پیش کیا تو ماس کمیونی کیشن کے غلبے کے ساتھ کمیونی کیشن ایک سائنس بن گئی۔ پروفیسر ولبرشریم نے اس علم کی جدید ترین حیثیت کو یوں واضح کیا کہ اگر کل تہذیب انسانی کے جاری و ساری ارتقائی عمل کو گھڑی کے ڈائل کے بارہ گھنٹوں کے برابر تسلیم کرلیا جائے تو ’’کمیونی کیشن سائنس‘‘ کی پیدائش 11 بج کر 59ویں سیکنڈ پر ہوئی ہے یعنی فرضی 12گھنٹے کی کل انسانی زندگی گزرے آخری سیکنڈ میں اس نے جنم لیا (کمیونی کیشن لینگویج اینڈ سائیکولوجی پبلی کیشن وائس آف امریکہ فورم )
پوسٹ ماڈرن میں میڈیا کے کردار کے جائزے سے قبل ایک نظر اختصار کے ساتھ ماڈرن پیریڈ پر ڈالنا ضروری ہے کہ اس کو میڈیا نے کیا دیا کیونکہ میڈیا اس کے آغاز 1601کی پیدائش ہے جو اخبار۱ت (صحافت) کا سال ِ ظہور ہے (وکی پیڈیا) اس کے بعد خود میڈیا نے ’’ماڈرن ٹائم‘‘ کو جو کچھ دینے میںکردار ادا کیا، وہ کردار سے زیادہ تاریخ عالم کا ایک جادو بھرا دور ہے۔ جس کا بڑا کردار میڈیا یا آزادی اظہارِ رائے) تحریک احیائے علوم، انقلاب فرانس، عوام کو ایمپاور کرنا، برطانوی پارلیمانی ارتقا، چرچ اسٹیٹ کے خلاف بیداری، سیکولر ازم اور پھر نتیجہ سیاسی بیداری اور لبرل ازم کا فروغ۔ اس مختصر عرصے میں اس ارتقائے عظیم کا بڑا فیصد اخبارات و کتاب کی اشاعت کے نہ رکنے والے اور مسلسل فروغ سے ہوا۔ پھرسامراج کے خلاف ان ’’کالونیوں‘‘ میں تحریک ہائے آزادی جو دوسری جنگ عظیم (پوسٹ ماڈرن ٹائم کے آغاز) پر نو آزاد ملک بننے لگے۔ خود متحدہ ہندوستان کی تقسیم اور اس کے نتیجے میں قیام پاکستان میں سرسید کی علمی و صحافتی کاوشوں سے قرارداد پاکستان تک، کارواں مسلمہ صحافت کا کردار تاریخ ساز رہا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد شروع ہونے والے پوسٹ ماڈرن ٹائم میں ناچیز کی نظر میں میڈیا (جس میں اب الیکٹرونک میڈیا بھی اپنی جملہ شکلوں میں شامل ہوتا گیا) کا کردار عظیم تر ہے۔ یوں کہ اس (میڈیا) نے جنگ عظیم دوم کے خاتمے کے بعد اقوام متحدہ کے قیام کے باوجود نئی ظہور پذیر عالمی طاقتوں امریکہ اور سوویت یونین میں اسلحے کی دوڑ تیز تر ہو جانے اور ایک سے بڑھ کر ایک ’’وسیع تر تباہی پھیلانے والے‘‘ اسلحے (WOMDS) کی ایجادات کے متوازی، نظریاتی جنگ یا کولڈ وار کا کامیاب ہتھیار بن کر تیسری جنگ عظیم کے امکانات کوکم ترکر دیا۔ ہر دو نئی عالمی طاقتوں نے پروپیگنڈے (بذریعہ میڈیا) کولڈ وار ایسے اور اتنی لڑی کے طاقت کے غرور اور خمار کا عناد پروپیگنڈے کی شکل میں سرد جنگ سے نکلتا رہا اور ایجاد وسیع تر تباہی کےہتھیاروں کے استعمال کی نوبت نہیں، یوں تیسری عالمی جنگ بھرپور سامان ہونے کے باوجود رکی رہی۔ پروپیگنڈہ سائنٹفک نہ ہوتا تو اس پروپیگنڈے کے بے سمت ہونے سے تیسری عالمی جنگ کا اشتعال پیدا ہوجاتا اور یہ ہو جاتی، لیکن پروپیگنڈہ جو اصل میں اب سائیکلوجیکل وار فیئر برائے تبدیلی نظریہ و رویہ بن چکا تھا، جو اب کمیونی کیشن میں شامل نالج اور ماس کمیونی کیشن کی ایک اسپیشلائزیشن ہے۔ یہ دو عالمی یا علاقائی طاقتوں جیسے امریکہ اور روس یا پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ میں ایک بڑی رکاوٹ جو حریف طاقتوں میں کتھارسس کا بڑا اہتمام کرکے گرم ہتھیاروں کی تباہ کن جنگ کے امکانات کو محدود کردیتا ہے۔
میڈیا ہی نے اطلاعات کی فراہمی کے جاری و ساری فلو کے متوازی حالات حاضرہ کے تجزیوں سے ’’رائے عامہ‘‘ کی تشکیل کا جو اہتمام کیا، اس نے بھی قیام عالمی امن اور انسانی رویئے کی سنگینی جو سخت گیر حکومتوں اور ملکی پالیسیوں اور سرحدوں کے پار ہمسایوں کے منفی عزائم کو کم تر کرنے، قابو میں رکھنے اور تبدیل کرنے میں سحرانگیز کردارادا کیا۔ گویا نرم ابلاغی ہتھیاروسیع تر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو جامد کرنے اور آمرانہ اور سامراجی رویوں کو تبدیل اور قابو میں رکھنے میں بے پناہ معاون ثابت ہوا۔
لیکن وہ وقت بھی آیا اور اب پھر سے جب عالمی رائے عامہ جو کشمیر و فلسطین کے دہکتے مسائل پراقوام متحدہ کی قراردادوں کی شکل میں آشکار ہوئی، تو عالمی میڈیا (جو بڑی طاقتوں کا ایجنٹ بن کر )نیشنل ازم کے نام پر عالمی رائے کا حریف بن کر عالمی امن کے لئے خطرہ بن گیا۔ بش انتظامیہ کے عراق پر حملہ رکوانے کے لئے امریکہ کے بڑے شہروں اور یورپی دارالحکومتوں میں ہماری طرح کے نہیں حقیقی ملین مارچ نہیں ہوئے؟ لیکن اس عالمی رائے عامہ کو خطرناک مجرموں نے نظرانداز کرکے ہلاکت کا جو سامان کیا وہ جاری و ساری ہے۔ چند روز قبل پھر القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے پر جو عالمی ر ائے عامہ آشکار ہوئی اس پر امریکہ اور اسرائیل کے سامراجی ر دعمل نے عالمی میڈیا کو پھر ایک چیلنج دیا ہے کہ اقوام متحدہ کے تحفظ اور اس کے مقابل واشنگٹن اور تل ابیب کی ہٹ دھرمی کو ختم کرا کر اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کو یقینی بنانے کے لئے عالمی ادارے کی قراردادوں کو نتیجہ خیز بنانے میں کیا پوزیشن لیتا ہے۔
یہ امر تشویشناک ہے کہ اگر عالمی میڈیا، عالمی رائے عامہ کے برعکس ہر دو مسائل پر مکمل واضح اور آشکار رائے عامہ (بشکل اقوام متحدہ کی قراردادوں) پر عملدرآمد کرانے میں اپنے کمزور کردار یا خاموشی کے باعث ناکام ہو گیا تو قیام عالمی امن کا ’’رائے عامہ‘‘ جیسا ہتھیار جو میڈیا نے پوسٹ ماڈرن ٹائم میں تیسری عالمی جنگ کو روکنے کے لئے تشکیل دیا، جنگ اور دوسرے منفی عالمی رجحانات کے امکانات بڑھتے جائیں گے۔

(مجاہد منصوری) https://jang.com.pk/print/423946-media-in-post-modern-times

پر ی ماڈرن ازم: یہ سولھویں صدی کے نصف تک کے زمانے کی مغربی فکر ٬  تب تک مغرب میں کلیسا طاقت میں تھا، تو لوگوں کی سوچ یہ ہوتی تھی کہ علم کسی اعلی و برتر ہستی (خدا) کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ سچ جاننے کا واحد طریقہ وحی ہے۔ اس سوچ کے تحت چرچ خود بخود علم کا مالک اور وارث بن جاتا تھا۔

ماڈرن ازم: یہ فکر 1650ء سے 1950ء تک چھائی رہی۔ اس کے تحت جو کچھ بھی ہم اپنی پانچ حسوں سے محسوس کر سکتے ہیں، وہی علم کا سورس ہے۔ وحی جیسے منبع علم  کو لوگوں نے ماننے سے انکار کر دیا۔ علم کا دوسرا سورس منطق (لاجک) اور فلسفہ مانا گیا۔ اس دور میں چرچ کی علم پر موجود ٹھیکے داری ختم ہوگئی اور یہ یونیورسٹیوں / پروفیسروں / فلسفیوں کے پاس آ گئی.

پوسٹ ماڈرن ازم: یہ نظریہ فکر 1950ء سے لے کر آج تک چل رہی ہے۔ اس سوچ کے تحت اب یہ کہا جاتا ہے کہ علم کا ماخذ وحی بھی ہو سکتی ہے، منطق بھی، فلسفہ بھی، چھٹی حس بھی، روحانی بھی، سائنسی بھی۔ (ارمغان احمد daleel.pk )

مزید تحقیقی مضامین […لنک …]