1974 میں___ جب قومی اسمبلی میں فیصلہ ہوا کہ قادیانیت کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنا موقف اور دلائل دینے قومی اسمبلی میں آئیں تو۔۔۔
مرزا ناصر قادیانی سفید شلوار کرتے میں ملبوس طرے دار پگڑی باندھ کر آیا۔متشرع سفید داڑهی۔قرآن کی آیتیں بهی پڑھ رہے تهے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا اسم مبارک زبان پر لاتے تو پورے ادب کے ساتھ درودشریف بهی پڑہتے۔ مفتی محمود صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایسے میں ارکان اسمبلی کہ ذہنوں کو تبدیل کرنا کوئی آسان کام نہیں تها۔ماہ نامہ ”الحق اکوڑہ خٹک“ کے شمارہ جنوری 1975 کے صفحہ نمبر 41 پر بیان فرماتے ہیں۔۔۔
”یہ مسلہ بہت بڑا اور مشکل تها“
اللہ کی شان کہ پورے ایوان کی طرف سے مفتی محمود صاحب کو ایوان کی ترجمانی کا شرف ملا اور مفتی صاحب نے راتوں کو جاگ جاگ کر مرزا غلام قادیانی کی کتابوں کا مطالعہ کیا۔حوالے نوٹ کیئے۔سوالات ترتیب دیئے۔ اسی کا نتیجہ تها کہ مرزا طاہرقادیانی کے طویل بیان کے بعد جرح کا جب آغاز ہوا تو اسی ”الحق رسالے“ میں مفتی محمود صاحب فرماتے ہیں کہ
”ہمارا کام پہلے ہی دن بن گیا“
اب سوالات مفتی صاحب کی طرف سے اور جوابات مرزا طاہر قادیانی کی طرف سے آپ کی خدمت میں۔۔۔۔
جواب۔وہ امتی نبی تهے۔امتی نبی کا معنی یہ ہے کہ امت محمدیہ کا فرد جو آپ کے کامل اتباع کی وجہ سے نبوت کا مقام حاصل کر لے۔
سوال #2۔اس پر وحی آتی تهی؟
جواب۔آتی تهی۔
سوال#3 (اس میں) خطا کا کوئی احتمال؟
جواب۔بالکل نہیں۔
سوال #4 مرزا قادیانی نے لکها ہے جو شخص مجھ پر ایمان نہیں لاتا“ خواہ اس کو میرا نام نہ پہنچا ہو (وہ) کافر ہے۔پکا کافر۔دائرہ اسلام سے خارج ہے۔اس عبارت سے تو ستر کروڑ [ اب 2بلین] مسلمان سب کافر ہیں؟
جواب ۔کافر تو ہیں۔لیکن چهوٹے کافر ہیں“جیسا کہ امام بخاری نے اپنے صحیح میں ”کفردون کفر“ کی روایت درج کی ہے۔
سوال# 5 آگے مرزا نے لکها ہے۔پکا کافر؟
جواب۔اس کا مطلب ہے اپنے کفر میں پکے ہیں۔
سوال #6 آگے لکها ہے دائرہ اسلام سے خارج ہے۔حالانکہ چهوٹا کفر ملت سے خارج ہونے کا سبب نہیں بنتا ہے؟
جواب۔دراصل دائرہ اسلام کے کئیں کٹیگیریاں ہیں۔اگر بعض سے نکلا ہے تو بعض سے نہیں نکلا ہے۔
سوال #7 ایک جگہ اس نے لکها ہے کہ جہنمی بهی ہیں؟
(یہاں مفتی صاحب فرماتے ہیں جب قوی اسمبلی کے ممبران نے جب یہ سنا تو سب کے کان کهڑے ہوگئے کہ اچها ہم جہنمی ہیں اس سے ممبروں کو دهچکا لگا)
اسی موقع پر دوسرا سوال کیا کہ
جواب۔ نہیں تھے۔
اس جواب پر مفتی صاحب نے کہا پهرتو مرزا قادیانی کے مرنے کے بعد آپ کا ہمارا عقیدہ ایک ہوگیا۔بس فرق یہ ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد نبوت ختم سمجهتے ہیں۔تم مرزا غلام قادیانی کے بعد نبوت ختم سمجهتے ہو۔تو گویا تمہارا خاتم النبیین مرزا غلام قادیانی ہے۔اور ہمارے خاتم النبیین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
جواب۔وہ فنا فی الرسول تهے۔یہ ان کا اپنا کمال تها۔وہ عین محمد ہوگئے تهے (معاذ اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی اس سے زیادہ توہین کیا ہوسکتی تهی )
سوال #9 ۔مرزا غلام قادیانی نے اپنے کتابوں کے بارے میں لکها ہے۔اسے ہر مسلم محبت و مودت کی آنکھ سے دیکھ لیتا ہے۔اور ان کے معارف سے نفع اٹهاتا ہے۔ مجهے قبول کرتا ہے۔اور(میرے) دعوے کی تصدیق کرتا ہے۔
جواب۔ بغایا کہ معنی سرکشوں کے ہیں۔
سوال #10۔بغایا کا لفظ قرآن پاک میں آیا ہے” و ما کانت امک بغیا“ (سورہ مریم ) ترجمہ ہے تیری ماں بدکارہ نہ تهی“
جواب۔قرآن میں بغیا ہے۔بغایا نہیں۔
اس جواب پر مفتی صاحب نے فرمایا کہ صرف مفرد اور جمع کا فرق ہے۔نیز جامع ترمذی شریف میں اس مفہوم میں لفظ بغایا بهی مذکور ہے یعنی ”البغایا للاتی ینکحن انفسهن بغیر بینه“ )پھر جوش سےکہا) میں تمہیں چیلنج کرتا ہوں کہ تم اس لفظ بغیه کا استعمال اس معنی (بدکارہ) کے علاوہ کسی دوسرے معنی میں ہر گز نہیں کر کے دکها سکتے۔!!!
(اور مرزا طاہر لاجواب ہوا یہاں، کیا ایسے غلیظ الفاظ کوئی شریف انسان استعمال کر سکتا ہے؟)
13 دن کے سوال جواب کے بعد جب فیصلہ کی گهڑی آئی تو 22 اگست1974 کو اپوزیشن کی طرف سے 6 افراد پرمشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی۔جن میں مفتی محمود صاحب“ مولانا شاہ احمدنورانی صاحب“پروفیسر غفور احمد صاحب“چودہری ظہور الہی صاحب“مسٹر غلام فاروق صاحب“سردار مولا بخش سومرو صاحب اور حکومت کی طرف سے وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ صاحب تهے۔ان کے ذمہ یہ کام لگایا گیا کہ یہ آئینی و قانون طور پر اس کا حل نکالیں۔تاکہ آئین پاکستان میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان کے کفر کو درج کردیا جائے۔لیکن اس موقع پر ایک اور مناظرہ منتظر تها۔۔۔۔۔
کفرِ قادیانیت و لاہوری گروپ پر قومی اسمبلی میں جرح تیرہ (13) روز تک جاری رہی۔گیارہ (11) دن ربوہ گروپ پر اور دو (2) دن لاہوری گروپ پر۔
مسلسل بحث مباحثہ کے بعد۔۔۔۔۔۔
22 اگست سے 5 ستمبر 1974 کی شام تک اس کمیٹی کے بہت سے اجلاس ہوئے۔مگر متفقہ حل کی صورت گری ممکن نہ ہوسکی۔سب سے زیادہ جهگڑا دفعہ 106 میں ترمیم کے مسلے پر ہوا۔حکومت چاہتی تھی اس میں ترمیم نہ ہو۔اس دفعہ 106 کے تحت صوبائی اسمبلیوں میں غیر مسلم اقلیتوں کو نمائندگی دی گئی تهی۔ ایک بلوچستان میں۔ایک سرحد میں۔ایک دو سندھ میں اور پنجاب میں تین سیٹیں اور کچھ 6 اقلیتوں کے نام بهی لکهے ہیں۔عیسائی۔ہندو پارسی۔بدھ اور شیڈول کاسٹ یعنی اچهوت۔
مفتی محمود صاحب اور دیگر کمیٹی کے ارکان یہ چاہتے تهے کہ ان 6 کی قطار میں قادیانیوں کو بهی شامل کیا جائے۔تاکہ کوئی “شبہ” باقی نہ رہے۔
اس کے لیے بهٹو حکومت تیار نہ تهی۔وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ نے کہا اس بات کو رہنے دو۔
مفتی محمود صاحب نے کہا جب اور اقلیتوں اور فرقوں کے نام فہرست میں شامل ہیں تو ان کا نام بهی لکھ دیں۔
پیرزادہ نے جواب دیا کہ ان اقلیتوں کا خود کا مطالبہ تها کہ ہمارا نام لکھا جائے۔ جب کہ مرزائیوں کی یہ ڈیمانڈ نہیں ہے۔
مفتی صاحب نے کہا کہ یہ تو تمہاری تنگ نظری اور ہماری فراخ دلی کا ثبوت ہے کہ ہم ان مرزائیوں کو بغیر ان کی ڈیمانڈ کے انہیں دے رہے ہیں (کمال کا جواب )
اس بحث مباحثہ کا 5 ستمبر کی شام تک کمیٹی کوئی فیصلہ ہی نہ کرسکی۔چنانچہ 6 ستمبر کو وزیراعظم بهٹو نے مفتی محمود سمیت پوری کمیٹی کے ارکان کو پرائم منسٹر ہاوس بلایا۔لیکن یہاں بهی بحث و مباحثہ کا نتیجہ صفر نکلا۔حکومت کی کوشش تهی کہ دفعہ 106 میں ترمیم کا مسلہ رہنے دیا جائے۔
جب کہ مفتی محمود صاحب اور دیگر کمیٹی کے ارکان سمجهتے تهے کہ اس کے بغیر حل ادهورا رہے گا۔
بڑے بحث و مباحثہ کے بعد بهٹو صاحب نے کہا کہ میں سوچوں گا۔
عصر کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا۔وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ نے مفتی صاحب اور دیگر کمیٹی ارکان کو اسپیکر کے کمرے میں بلایا۔ مفتی محمود صاحب اور کمیٹی نے وہاں بهی اپنے اسی موقف کو دهرایا کہ دفعہ 106 میں دیگر اقلیتوں کے ساتھ مرزائیوں کا نام لکها اور اس کی تصریح کی جائے۔
اور بریکٹ میں قادیانی اور لاہوری گروپ لکها جائے۔
پیرزادہ صاحب نے کہا کہ وہ اپنے آپ کو مرزائی نہیں کہتے، احمدی کہتے ہیں۔
مفتی محمود صاحب نے کہا کہ احمدی تو ہم ہیں۔ہم ان کو احمدی تسلیم نہیں کرتے۔پهر کہا کہ چلو مرزا غلام احمد کے پیرو کار لکھ دو۔
وزیرقانون نے نکتہ اٹهایا کہ آئین میں کسی شخص کا نام نہیں ہوتا (حالانکہ محمد علی جناح کا نام آئین میں موجود ہے ) اور پهر سوچ کر بولے کہ مفتی صاحب مرزا کا نام ڈال کر کیوں آئین کو پلید کرتے ہو؟۔وزیر قانون کا خیال تها شاید مفتی محمود صاحب اس حیلے سے ٹل جائیں گے۔ (لیکن مفتی تو پهر مفتی صاحب تهے )
مفتی صاحب نے جواب دیا کہ شیطان۔ابلیس۔خنزیر اور فرعون کے نام تو قرآن پاک میں موجود ہیں۔کیا ان ناموں سے نعوذ باللہ قرآن پاک کی صداقت و تقدس پر کوئی اثر پڑا ہے۔؟
اس موقع پر وزیر قانون پیرزادہ صاحب لاجواب ہو کر کہنے لگے۔
چلو ایسا لکھ دو جو اپنے آپ کو احمدی کہلاتے ہیں۔
مفتی صاحب نے کہا بریکٹ بند ثانوی درجہ کی حیثیت رکهتا ہے۔صرف وضاحت کے لیے ہوتا ہے۔لہذا یوں لکھ دو قادیانی گروپ۔لاہوری گروپ جو اپنے کو احمدی کہلاتے ہیں۔اور پهر الحمدللہ اس پر فیصلہ ہوگیا۔
تاریخی فیصلہ۔۔۔۔۔۔۔۔
7 ستمبر 1974 ہمارے ملک پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا وہ یادگار دن تها جب 1953 اور 74 کے شہیدانِ ختم نبوت کا خون رنگ لایا۔اور ہماری قومی اسمبلی نے ملی امنگوں کی ترجمانی کی اور عقیدہ ختم نبوت کو آئینی تحفظ دے کر قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا۔
دستور کی دفعہ 260 میں اس تاریخی شق کا اضافہ یوں ہوا ہے۔
”جو شخص خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی ختم نبوت پر مکمل اور غیرمشروط ایمان نہ رکهتا ہو۔اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کسی بهی معنی و مطلب یا کسی بهی تشریح کے لحاظ سے پیغمبر ہونے کا دعویٰ کرنے والے کو پیغمبر یا مذہبی مصلح مانتا ہو۔وہ آئین یا قانون کے مقاصد کے ضمن میں مسلمان نہیں۔
اور دفعہ 106 کی نئی شکل کچھ یوں بنی۔۔۔۔۔
بلوچستان پنجاب سرحد اور سندھ کے صوبوں کی صوبائی اسمبلیوں میں ایسے افراد کے لیے مخصوص نشستیں ہوں گی جو عیسائی۔ہندو سکھ۔بدھ اور پارسی فرقوں اور قادیانیوں گروہ یا لاہوری افراد( جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں ) یا شیڈول کاسٹس سے تعلق رکهتے ہیں۔ (ان کی) بلوچستان میں ایک۔سرحد میں ایک۔پنجاب میں تین۔اور سندھ میں دو سیٹیں ہوں گی، یہ بات اسمبلی کے ریکارڈ پر ہے۔کہ اس ترمیم کے حق میں 130 ووٹ آئے اور مخالفت میں ایک بهی ووٹ نہیں آیا ۔( آجاتا اگر غامدی صاحب اس وقت موجود ہوتے ) اس موقع پر اس مقدمہ کے قائد مفتی محمود رحمہ اللہ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔۔
اس فیصلے پر پوری قوم مبارک باد کی مستحق ہے اس پر نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام میں اطمینان کا اظہار کیا جائے گا۔میرے خیال میں مرزائیوں کو بهی اس فیصلہ کو خوش دلی سے قبول کرنا چاہیئے۔کیونکہ اب انہیں غیر مسلم کے جائز حقوق ملیں گے۔اور پهر فرمایا کہ سیاسی طور پر تو میں یہی کہہ سکتا ہوں (ملک کے) الجھے ہوئے مسائل کا حل بندوق کی گولی میں نہیں۔بلکہ مذاکرات کی میز پر ملتے ہیں۔۔۔
بے غیرت کھل کر سامنے آگئے ۔۔ ان کی قادیانیت پر اصلیت پر جس کو شک ہے ۔۔ اپنا دماغی معائینہ کروا لے ۔۔
۔۔۔۔۔۔
انتخابی اصلاحات بل کی آڑ می ںختم نبوت کا حلف نامے سے خارج ہونا اور ’’حلفیہ بیان‘‘ کے الفاظ کی جگہ ’’اقرار کرتا ہوں‘‘ کے الفاظ شامل کرنا ایک ایسا ہی معاملہ ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وزیراعظم، کابینہ اور پارلیمنٹ نا اہل اور اسلام دشمن ہیں۔ اسپیکر کے بقول یہ ٹیکنیکل غلطی تھی جبکہ ماہرین قانون کی نظر میں یہ نیت کا فساد تھا کیونکہ اس فارم میں جہاں ختم نبوت کے حوالے سے حلفیہ بیان کو حذف کیا گیا وہاں سیکشن سات (سی) منسوخ کر کے قادیانی ووٹر کو مسلمانوں کی ووٹر لسٹ سے نکالنے کا کوئی قانونی طریقہ ہی باقی نہ بچا اور ایسی کئی تبدیلیاں حادثاتی یا تکنیکی غلطیاں نہیں بلکہ نیت کے فتور کو ظاہر کرتی ہیں۔ مغربی سفیروں اور کچھ مخصوص این جی اوز سے روابط بھی حکومتی جھوٹ کی قلعی کھول رہے ہیں ۔ کیا قانون سازوں کو علم نہیں تھا کہ پاکستان کے مسلمان ختم نبوت اور ناموس رسالتؐ پر جان قربان کرنا اعزاز اور بخشش کا سامان سمجھتے ہیں اور حب رسولؐ کو زندگی کی قیمتی ترین متاع سمجھتے ہیں-
نواز شریف حکومت کی قادیانیت کے حق میں آینی ترمیم کیا تھی ؟
قومی اسمبلی میں قادیانیت کا مقدمہ
1974 میں___ جب قومی اسمبلی میں فیصلہ ہوا کہ قادیانیت کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنا موقف اور دلائل دینے قومی اسمبلی میں آئیں تو۔۔۔ مرزا ناصر قادیانی سفید شلوار کرتے میں ملبوس طرے دار پگڑی باندھ کر آیا۔متشرع سفید…[Continue reading…]
مرزا غلام قادیانی مرتد، زندیق کا مختصر
مرزا غلام قادیانی مرتد، زندیق کا مختصر پسِ منظر: جس نے ختم نبوت سے انکار کیا وہ مرتد بنا، پلید ہوا، کذاب بنا ، پیروکار شیطان بنا، مغربیوں کا کتا بنا ، کافر ہوا، اور گندگی و غلاظت میں ہی واصل… [Continue reading…]
ختم نبوت – ذوالفقار علی بھٹو کی قومی اسمبلی میں تقریر
فتنہ قادیانیت کے تابوت میں پہلی کیل-مقدمہ بهاولپور
ردِّ قادنیت کے حوالے سے مقدمہ بہاول پوربہت اہمیت کا حامل ہے اوراسے قادیانیت کے تابوت میں پہلی کیل کہنا بے جا نہ ہوگا۔ ختم نبوت کے محاذ پر مضبوط بنیاد اور قانونی واخلاقی بالادستی اسی مقدمہ نے مہیا… [Continue reading…]
Sectarianism in Islam اسلام میں فرقہ واریت – تاویلیں، دلائل اور تجزیہ
هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَـٰذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ ۚ ( سورة الحج22:78) اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام “مسلم” رکھا تھا اور اِس (قرآن) میں بھی (تمہارا یہی نام ہے) تاکہ رسول تم… [Continue reading…]
مزید پڑھیں >>>ختم نبوت اور قادیانی فتنه- تحقیقی جائزہ
https://goo.gl/HDpr4t ختم نبوت اسلام کے اہم عقائد میں سے ایک ہے، ایک صدی قبل ہندوستان میں انگریز کی سرپرستی میں مسلمانوں کی وحدت کی مزید تقسیم کے لیے قادیانی فتنه پیدا کیا گیا – بہت جدو جہد کے بعد 1974 میں پاکستان میں آیینی طور پر قادیانوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تاکہ …
Source: Khatm-e-Nabuwat-Qadyani Fitnah
ختم نبوت اور قادیانی فتنه- تحقیقی جائزہ – Salaam One سلام