صادق و امین قرآن اور آئین  پاکستان

اسلامی جمہوریہ پاکستان کےآئین کے مطابق کوئی  بددیانت شخص جو “صادق اور امین” نہیں پارلیمنٹ کا ممبر بننے کا اہل نہیں- یہ شق اسلامی تعلیمات اور قران  کے عیین مطابق ہے- آئین پاکستان کے مطابق کوئی قانون قرآن و سنت کے برخلاف نہیں بنایا جا سکتا-

اب جبکہ سپریم کورٹ نے کچھ طاقتور سیاست دانوں کو اس بنیاد اہل قرار دیا ہے تو مخصوص طریقہ سے سرکاری علماء، نام نہاد دانشوروں اورصحافیوں کے زریعہ سے  میڈیا میں ایک کمپین چلایا جا رہا ہے، جس کا بیانیہ ہے کہ:

بیانیہ :

” صادق اور امین” کی خصوصیات صرف رسول اللہ ﷺ کی ذات تک محدود تھیں، کوئی شخص رسول اللہﷺ کی طرح  نہیں سکتا ،” صادق اور امین” صرف رسول اللہ ﷺ کی شان ہے…عام مسلمان اور سیاست دان کیسے رسول اللہ کا مقابلہ کر سکتا ہے … وغیرہ وغیرہ.. لہٰذا اس شق کو آئین پاکستان سے نکال دیا جائے!”

معلوم ہوا ہے کہ جلد ہی ایک آئینی ترمیم لائی جا رہی ہے، جس کوتمام سیاسی پارٹیاں  اکثریت سے منظور کر لیں گی، کیونکہ اشرافیہ کی اکثریت بد دیانت خائین لوگوں پر مشتمل ہے-

یہ ایک قبیح اور دھوکہ پر مبنی بیانیہ اور کوشش ہے جو قرآن و سنت پر عمل درآمد کو روکنے کی سازش ہے- کچھ سادہ لوگ لاعلمی میں اس دھوکہ کا شکار رہے ہیں، حقائق پیش خدمت ہیں:

تجزیہ :

چند بنیادی سولات کے جوابات شکوک و شبھات دور کر دیں گے:

1. کیا ” ” صادق اور امین” کی خصوصیات صرف رسول اللہ کی ذات تک محدود تھیں ؟

2. کیا ” ” صادق اور امین” کی خصوصیات ایک عام انسان ، مسلمان اور مومن میں نہیں ہونا چاہیئں ؟

3.” ” صادق  اور امین” کے متلعق حکمرانوں اور مسلمانوں کے لیتے قرآن کے  احکام ہیں؟

4.کیا مسلمانوں کو اللہ کے حکم کے مطابق رسول الله کا اتباع نہیں کرنا چاہئیے؟

رسول اللہ رول ماڈل ہیں ان کی سنت پر عمل کرنے کی کوشش کرنا  مسلمان پر لازم ہے۔ان کی زات اقدس ہمارے لئیے بہترین نمونہ ہے۔

اس کا ہرگز ہرگز مطلب یہ نہیں کہ ہم نعوز باللہ، رسول الله کا مقابلہ کر رہے ہیں ، ہم تو اللہ کے حکم کی تعمیل کی کوشش کرتے ہیں مگر کبھی بھی ان کے درجات کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتے مگرایک عام مسلمان سے بہترمومن ، بہتر انسان تو بن سکتے ہیں۔

جو معاملات صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زات تک مخصوص تھے ان کی تشریح اللہ یا  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادی تھی ۔۔ مثلا بیویوں کی تعداد ۔۔۔ تہجد نماز کی فرضیت ، مسلسل روزے رکھنا ۔۔۔ وغیرہ ۔۔

مگر کہیں نہیں کہا گیا کہ “صادق اور امین” صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور مسلمانوں کو صادق و امین بننے کی کوشش نہ کرنی چاہئیے؟ بلکہ قرآن تو اس پر زور دیتا ہے …

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی قول و فعل اور زبان و عمل سے قرآن کی مفسر اور معلم تھی ۔ گویا کہ آپ چلتا پھرتا (living) قرآن تھے  …. قاری نظر آتے تھے حقیقت میں تھے قرآن …

کچھ بدکردار لٹیرے ,سیاستدانوں کو تحفظ مہیا کرنے کے لئیے ایک غلط توجیہ گھڑ لی گئی ہے کہ “صادق اور امین” صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زات تک محدود تھا ۔

الله کا فرمان ہے :

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (٣٣:٢١)

تمھارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بہترین نمونہ ہے (٣٣:٢١)

“ٹھوس دلائل اتباع رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو لازم قرادتیے ہیں۔ یہ آیت بہت بڑی دلیل ہے اس امر پر کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے تمام اقوال افعال احوال اقتدا پیروی اور تابعداری کے لائق ہیں ” (ابن کثیر)

قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ ( العمران ٣١)

آپ فرما دیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میرا اتباع کرو ۔  ( العمران ٣١)

وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّه (سورة النساء ٦٤ )

ہم نے ہر رسول اس لیے بھیجا تاکہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے ۔(سورة النساء ٦٤ )

رَبَّنَا آمَنَّا بِمَا أَنْزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُولَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ ( آل عمران ٥٣ )

اے ہمارے رب ہم تیرے نازل کئے ہوئے احکام پر ایمان لائے اور ہم نے رسول کا اتباع کیا۔( آل عمران ٥٣ )

صادق اور امین کی قرآن میں اہمیت :

1.إِنَّ اللَّـهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ إِنَّ اللَّـهَ نِعِمَّا يَعِظُكُم بِهِ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا ﴿النساء: ٥٨﴾

مسلمانو! اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ (الْأَمَانَاتِ) امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو، اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقیناً اللہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے ﴿النساء: ٥٨﴾

2.يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّـهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ﴿الأنفال: ٢٧﴾

اے ایمان لانے والو، جانتے بُوجھتے اللہ اور اس کے رسُولؐ کے ساتھ خیانت نہ کرو، اپنی امانتوں میں غداری کے مرتکب نہ ہو﴿الأنفال: ٢٧﴾

مومنین  (اہل ایمان) کی خصوصیات میں صادق و امین شامل ہے :

الله فرماتا ہے :

1.وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ ﴿المؤمنون: ٨﴾

اپنی امانتوں اور اپنے عہد و پیمان کا پاس رکھتے ہیں  ﴿المؤمنون: ٨﴾

2.إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ أُولَـٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ ﴿الحجرات: ١٥﴾

حقیقت میں تو مومن وہ ہیں جو اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لائے پھر انہوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا وہی (الصَّادِقُونَ) سچے لوگ ہیں ﴿الحجرات: ١٥﴾

3.الصَّابِرِينَ وَالصَّادِقِينَ وَالْقَانِتِينَ وَالْمُنفِقِينَ وَالْمُسْتَغْفِرِينَ بِالْأَسْحَارِ ﴿٣:١٧﴾

“یہ لوگ صبر کرنے والے ہیں، الصَّادِقِينَ (راستباز) ہیں، فرمانبردار اور فیاض ہیں اور رات کی آخری گھڑیوں میں اللہ سے مغفرت کی دعائیں مانگا کرتے ہیں” (3:17)

4.لِّيَسْأَلَ الصَّادِقِينَ عَن صِدْقِهِمْ وَأَعَدَّ لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا أَلِيمًا ﴿الأحزاب: ٨﴾

تاکہ سچے لوگوں سے (ان کا رب) ان کی سچائی کے بارے میں سوال کرے، اور کافروں کے لیے تو اس نے درد ناک عذاب مہیا کر ہی رکھا ہے ﴿الأحزاب: ٨﴾

5.لِّيَجْزِيَ اللَّـهُ الصَّادِقِينَ بِصِدْقِهِمْ وَيُعَذِّبَ الْمُنَافِقِينَ إِن شَاءَ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴿الأحزاب: ٢٤﴾

تاکہ خدا سچّوں کو اُن کی سچائی کا بدلہ دے اور منافقوں کو چاہے تو عذاب دے اور (چاہے) تو اُن پر مہربانی کرے۔ بےشک خدا بخشنے والا مہربان ہے﴿الأحزاب: ٢٤﴾

6.إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَوَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّـهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّـهُ لَهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا ﴿الأحزاب: ٣٥﴾

بالیقین جو مرد اور جو عورتیں مسلم ہیں، مومن ہیں، مطیع فرمان ہیں، راست باز ہیں، صابر ہیں، اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں، صدقہ دینے والے ہیں، روزہ رکھنے والے ہیں، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہیں، اللہ نے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے ﴿الأحزاب: ٣٥﴾

7.لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّـهِ وَرِضْوَانًا وَيَنصُرُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ أُولَـٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ ﴿الحشر: ٨﴾

(نیز وہ مال) اُن غریب مہاجرین کے لیے ہے جو اپنے گھروں اور جائدادوں سے نکال باہر کیے گئے ہیں یہ لوگ اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں اور اللہ اور اُس کے رسولؐ کی حمایت پر کمر بستہ رہتے ہیں یہی راستباز لوگ ہیں  ﴿الحشر: ٨﴾

8.يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ ﴿التوبة: ١١٩﴾

. وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِسْمَاعِيلَ إِنَّهُ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُولًا نَّبِيًّا ﴿مريم: ٥٤﴾

اختتامیہ  

لاکھوں جانوں کا نذرانہ اور قربانیاں دے کر پاکستان چند بدکردار، بد دیانت  لٹیروں لیے قائم کیا گیا تھا؟ ہرگز نہیں یہ پاکستان مسلمانوں نے قرآن و سنت کے قانون پر قائم رکھنے کے لیے بنایا گیا تھا تاکہ عوام اسلام کے مطابق امن سے ترقی کرتے ہوے دنیا میں مثبت کردار ادا کر سکیں- عوام پاکستان اور اسلام دشمن قوتوں کو  اپنے مذموم عزائم میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے- آپ اپنا کردار ادا کریں … کل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے ، جب قرآن کو ترک کر دینے کا مقدمہ روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کے حضور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مخاطبین کے حوالے سے پیش کریں گے:

وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَـٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (الفرقان25:30)

“اور پیغمبر کہیں گے کہ اے پروردگار میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا” (الفرقان)25:30)

(تحریر : آفتاب خان )