اسلامی تاریخ کو کسی اور واقعہ نے اس قدر اور اس طرح متاثر نہیں کیا جیسے سانحہ کربلا نے کیا۔ راہِ حق پر چلنے والوں پر جو کچھ میدانِ کربلا میں گزری وہ جور جفا ، بے رحمی اور استبداد کی بدترین مثال ہے۔ واقعہ کربلا کی تفصیلات کو بیان کرنے والے اکثر رواۃ’مجہول ’غیرمعتبر، فرقہ پسند ہیں’ انہوں نے مبالغہ آرائیوں اور داستانوں سے بھرے ہوئے واقعات بیان کئے اور بہت سی روایتیں خود گھڑی ہیں اور مؤرخین نے انکو بلا تحقیق اور بلا کسی نقد وتبصرہ نقل کیا – یہی وجہ ہے کہ واقعات کربلا کی اصل حقیقت سے مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ نا واقف رہ گیا- واقعات کربلا کے بیان میں تاریخ کی کتابوں میں اتنا تضاد ہے کہ ان میں واقعہ کی صحیح نوعیت کی پہچان بڑا مشکل امرہے اورکونسی روایت صحیح ہے اور کونسی غلط ہے اسکی تمییز کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں رہا ہے-
The Battle of Karbala (680 CE) has a central position in Shia history and the event is annually commemorated every year in the Islamic month of ‘Muharram’ (the first Islamic calendar month) by centrally the Shia and also by many Sunni Muslims … [ keep reading ………..] …. s
لیکن رسول اللہ ﷺ کےفرامین حدیث کی مستند کتب میں موجود ہیں جن سے رہنمائی بہت آسان ہے :
١.نبی کریم ﷺ نے فرمایا : (الحسن و الحسین سیدا شباب أھل الجنۃ )حسن اور حسین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔ (مسند احمد ۳/۳ ح ۱۰۹۹۹ عن ابی سعید الخدریؓ و سندہ صحیح، النسائی فی الکبریٰ : ۸۵۲۵و فی خصائص علی: ۱۴۰)
٢.نبی کریم ﷺ نے سیدنا حسن بن علیؓ اور سیدنا حسین بن علیؓ کے بارے میں فرمایا: “ھما ریحانتاي من الدنیا” وہ دونوں دنیا میں سے میرے دو پھول ہیں ۔ (صحیح البخاری : ۳۷۵۳)
٣.رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((حسین مني و أنا من حسین، أحبّ اللہ من أحبّ حسیناً، حسین بن سبط من الأسباط)) حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں ۔ اللہ اس سے محبت کرے جو حسین سے محبت کرتا ہے، حسین میری نسلوں میں سے ایک نسل ہے ۔ (سنن الترمذی : ۳۷۷۵، وقال : ھذا حدیث حسن، مسند احمد ۱۷۲/۴ ، ماہنامہ الحدیث: ۲۴ص ۴۸ ، یہ روایت حسن لذاتہ ہے )
٤.سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ جب یہ (مباہلے والی) آیت ﴿نَدعُ اَبْنَآءَنَا وَاَبْنَآءَکُمْ﴾اور (مباہلے کے لئے) اپنے بیٹے بلاؤ۔ (آلِ عمران: ۱۶)نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے علی ، فاطمہ ، حسن اور حسین (رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین) کو بلایا اور فرمایا : (اَللّٰھُمَّ ھؤلاء أھلي)اے اللہ ! یہ میرے اہل (بیت) ہیں۔(صحیح مسلم : ۲۴۰۲/۳۲ و ترقیم دارالسلام : ۶۲۲۰)
٥.سیدنا الامام ابوبکر الصدیقؓ نے فرمایا: “ارقبوا محمدًا ﷺ في أھل بیتہ“محمد ﷺ کے اہلِ بیت (سے محبت) میں آپ کی محبت تلاش کرو۔ (صحیح البخاری: ۳۷۵۱)
٦.عطاء بن یسار (تابعی) رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ انہیں ایک آدمی (صحابی) نے بتایا: انہوں نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ حسن اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو سینے سے لگا کر فرما رہے تھے : (اللھم إني أحبھما فأحبھما) اے اللہ ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو (بھی) ان دونوں سے محبت کر۔ (مسنداحمد ۳۶۹/۵ ح ۲۳۱۳۳ و سندہ صحیح)
حکمران یزید(بن معاویہ،رضی الله) کے سیاسی و فوجی اقدامات تاریخ کا حصہ ہیں جن پر صدیوں سے تنقید اور تبصرے ہو رہے ہیں- کچھ لوگ انہیں بے قصور ،معصوم سمجھتے ہیں اور بہت اکثریت انہیں اس سانحہ عظیم کا ذمہ دارقرار دیتے ہیں- “مغفور لہم” – قسطنطنیہ پر پہلا حملہ سیدنا معاویہؓ نے کیا یا یزید نے؟ سانحۂ کربلا کے بعد یزید بن معاویہ کو لگاتار برا بھلا کہا جاتا رہا ہے۔ البتہ یزید کے جنتی؍بخشے ہوئے ہونے کے بارے میں نبی کریمﷺ کی اُس بشارت کا تذکرہ کیا جاتاہے جس میں شہر قیصر کی طرف سب سے پہلے حملہ آور لشکر کو “مغفور لہم” ہونے کی خوش خبری دی گئی ہے۔ائمہؒ اسلاف میں سے امام ابن تیمیہ، حافظ ابن حجر، علامہ قسطلانی اور حافظ ابن کثیررحمہم اللہ وغیرہ نے یزید بن معاویہ کو اس پہلے لشکر کا سالار قرار دیا ہے جس نے تاریخ اسلامی میں سب سے پہلے شہر قیصر (قسطنطنیہ) پر حملہ کیا تھا۔ ان ائمہؒ اسلاف کے موقف کے برعکس بعض احادیث اور تاریخی واقعات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یزید بن معاویہؓ کے زیر قیادت قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والا یہ لشکر پہلا نہیں، بلکہ آخری ؍چھٹا تھا اور اس سے قبل سیدنا معاویہؓ بن ابو سفیان، عبدالرحمن بن خالدؓبن ولید اور سفیان بن عوف کی زیر قیادت قسطنطنیہ پر حملے ہوچکے تھے؛ اس بنا پر یزید بن معاویہ نبی کریمﷺ کی اس بشارت کا مستحق نہیں ٹھہرتا۔
حافظ ابن کثیرؒ نے اگرچہ یزیدبن معاویہؓ کے لشکر کو ‘اوّل جیش’ کا مصداق قرار دیا ہے لیکن وہ خود ہی دوسرے مقام پر لکھتے ہیں :
”اور ۳۲ھ میں سیدنا معاویہؓ نے بلادِ روم پر چڑھائی کی۔ یہاں تک کہ وہ خلیج قسطنطنیہ تک پہنچ گئے۔” [البداية والنہاية:ج۷؍ص۱۵۹]
حافظ زبیر علی زئی لکھتے ہیں: ”یہ حملہ ۳۲ھ بمطابق ۶۵۲،۶۵۳ھ میں ہوا تھا۔ [دیکھئے تاریخ طبری: ج۴؍ ص۳۰۴، العبر از ذہبی:ج۱؍ ص۲۴، المنظم از ابن جوزی:ج۵؍ ص۱۹ طبع۱۹۹۲ء، البداية والنھاية:ج۷؍ ص۱۵۹، ج۸؍ ص۱۲۶، تاریخ الاسلام از ذہبی وغیرہ]
س وقت یزید کی عمر تقریباً چھ سال تھی۔ [دیکھئے تقریب التہذیب وغیرہ] صرف اس ایک دلیل سے ہی روزِ روشن کی طرح ثابت ہوتا ہے کہ ‘اوّل جیش’ والی حدیث ِمبارکہ کو یزید پر فٹ کرنا صحیح نہیں ہے۔ ” [ماہنامہ ‘الحدیث’ حضرو: شمارہ ۶؍ ص۹؛ مقالات ج۱؍ ص۳۱۱]
اگرتمام تاریخی واقعات کو جھوٹ اور افسانہ قرار دے دیں تو حکمرانی اور ذمہ داری کے مروجہ اصولوں کے مطابق اتنے بڑے سانحہ کربلا کی ذمہ دای بادشاہ وقت، یزید (بن معاویہ رضی اللہ) پرآتی ہے- اس سانحہ کے براہ راست ذمہ داروں کی پزیرائی، انعام و اکرام اور دو سال بعد مدینہ پر چڑہائی (سانحہ ‘حرہ’)کسی با شعورانسان کو بہت کچھ واضح کرتی ہے-
درج بالا احادیث حضرت حسین (رضی اللہ) کے بلند مرتبہ، رسول اللہ ﷺ کی قربت، محبت اور “جنت کے نوجوانوں کے سرادر” ہونے کی بشارت کے بعد ایک عام مسلمان کےلیئے تاریخی افسانوں یا شہادتوں کی کوئی حیثیت اور ضرورت نہیں رہتی-
جو جس سے محبت کرے گا آخرت میں اس کے ساتھ ہوگا :
ایک شخص نے جناب رسالت مآبﷺ کی خدمت اقدس میں عرض کیا۔ حضورﷺ قیامت کب قائم ہوگی؟ آپ نے فرمایا… تو نے قیامت کے لئے کیا نیک عمل کئے ہیں… اس نے عرض کیا… میں اﷲ تعالیٰ اور اس کے محبوبﷺ کو دوست رکھتا ہوں… آپﷺ نے فرمایا … انت مع من احببت… (بخاری و مسلم عن حضرت انس رضی اﷲ عنہ)
اگر آپ کو رسول اللہ ﷺ کےبعد، مندرجہ ذیل میں سے ایک چوائس ہو کہ روز آخرت کیس کے ساتھ ہونا پسند کریں گے؟
١.حضرت حسین (رضی اللہ) [نواسہ رسول ﷺ اور جنت میں نوجوانوں کے سردار] یا
٢. یزید(بن معاویہ،رضی الله)
یہ فیصلہ آپ خود کریں ……
حب رسول اللہ ﷺ اور اہل بیت کی حقیقت:
ایک بات کا خیال رہے کہ حب رسول اللہ ﷺ اور حب حضرت حسین (رضی اللہ) صرف زبانی اظھار اور دعوی کا نام نہیں،بلکہ رسول اللہ ﷺ اور اہل بیت سے محبت کے دعوی کا اظھار و دلیل رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات اور اسوہ حسنہ پر عمل ہے- اگران کی تعلیمات اور اسوہ حسنہ کے برعکس، مخالف عمل کیئے جائیں تو یہ محبت نہیں بلکہ توہین کے مترادف ہے- یہ حسینیت نہیں یزیدیت ہے-
فرقہ واریت کا خاتمہ:
صدیاں گزر گئی ہیں اس سانحہ کے تمام لوگ اللہ کا عدالت میں پیش ہوں گے- مسلمان آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، جن معاملات میں اختلاف ہے اللہ نے ان کا آخرت میں فیصلہ کرنے کا وعدہ فرمایا ہے- ہم کو اللہ کے حکم پر سر تسلیم خم کرنا ہے اور تفرقہ نہیں ڈالنا:
“جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہ گروہ بن گئے یقیناً ان سے تمہارا کچھ واسطہ نہیں، ان کا معاملہ تو اللہ کے سپرد ہے، وہی ان کو بتائے گا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا ہے-( ١٥٩ سورة الأنعام)
“.. لہذا تم سب نیکیوں کی طرف سبقت کرو کہ تم سب کی بازگشت اللہ ہی کی طرف ہے -وہاں وہ تمہیں ان تمام باتوں سے باخبر کرے گا جن میں تم اختلاف کررہے تھے” (قرآن 5:48)
اور (ان کے لیے) جو ان کے بعد آئیں جو کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان ﻻچکے ہیں اور ایمان داروں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (اور دشمنی) نہ ڈال، اے ہمارے رب بیشک تو شفقت ومہربانی کرنے واﻻ ہے (قرآن59:10)
مکمل تحقیق پڑھیں درج ذیل……
……………………………………………
سانحۂ کربلا کی تاریخی اہمیت و حیثیت:
کربلا کا سانحہ اسلامی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے- سانحۂ کربلا10 محرم 61ھ (بمطابق 9 یا 10 اکتوبر، 680ء) کو موجودہ عراق میں کربلا کے مقام پر پیش آیا، جس میں نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت حسین (رضی الله) کو ان کے اہل خانہ اور ساتھیوں سمیت بیدردی سے شیہد کر دیا گیا، جبکہ یزید (بن معاویہ بن ابی سفیان(رض) بن حرب بن اُمیّہ الاُموی الدمشقی) اس وقت حکمران بادشاہ تھا-
اسلامی تاریخ کو کسی اور واقعہ نے اس قدر اور اس طرح متاثر نہیں کیا جیسے سانحہ کربلا نے کیا۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین نے جو اسلامی حکومت قائم کی اس کی بنیاد انسانی حاکمیت کی بجائے اللہ تعالٰی کی حاکمیت کے اصول پر رکھی گئی ۔ اس نظام کی روح شورائیت میں پنہاں تھی ۔ اسلامی تعلیمات کا بنیادی مقصد بنی نوع انسان کو شخصی غلامی سے نکال کر خداپرستی ، حریت فکر، انسان دوستی ، مساوات اور اخوت و محبت کا درس دینا تھا۔ خلفائے راشدین کے دور تک اسلامی حکومت کی یہ حیثیت برقرار رہی۔ یزید کی حکومت چونکہ ان اصولوں سے ہٹ کر شخصی بادشاہت کے تصور پر قائم کی گئی تھی ۔ لٰہذا جمہور مسلمان اس تبدیلی کو اسلامی نظام شریعت پر ایک کاری ضرب سمجھتے تھے اس لیےحضرت حسین (رضی الله) محض ان اسلامی اصولوں اور قدروں کی بقا و بحالی کے لیے میدانِ عمل میں اترے ، راہِ حق پر چلنے والوں پر جو کچھ میدانِ کربلا میں گزری وہ جور جفا ، بے رحمی اور استبداد کی بدترین مثال ہے۔ یہ تصور ہی کہ اسلام کے نام لیواؤں پر یہ ظلم یا تعدی خود ان لوگوں نے کی جو خود کو مسلمان کہتے تھے بڑا روح فرسا ہے۔ مزید براں، حضرت حسین (رضی الله) کا جو تعلق آنحضور سے تھا اسے بھی ظالموں نے نگاہ میں نہ رکھا۔ نواسۂ رسول کو میدانِ کربلا میں بھوکا پیاسا رکھ کر جس بے دردی سے قتل کرکے ان کے جسم اور سر کی بے حرمتی کی گئی۔ یہ اخلاقی لحاظ سے بھی تاریخ اسلام میں اولین اور بدترین مثال ہے۔ اس جرم کی سنگینی میں مزید اضافہ اس امر سے بھی ہوتا ہے کہ حضرت حسین (رضی الله) نے آخری لمحات میں جو انتہائی معقول تجاویز پیش کیں انھیں سرے سے درخورِ اعتنا ہی نہ سمجھا گیا ۔
حضرت حسینؓ نے فرمایا کہ میں ایسا شخص نہیں ہوں جو دب کر بیعت کرلے۔ میں تمھارے سامنے تین شرائط پیش کرتا ہوں۔ طبری اور دیگر مورخین نے ان شرائط کا ذکر کیا ہے جو درج ذیل ہیں:
۱- مجھے چھوڑ دو کہ میں براہِ راست یزید کے پاس چلا جاﺅں اور خود اس سے معاملہ کروں۔
۲- مجھے چھوڑ دو کہ میں جہاں سے آیا ہوں، وہیں واپس چلا جاﺅں۔
۳- مجھے چھوڑ دو کہ میں کسی سرحد پر چلا جاﺅں۔
مگر ابن زیاد (گورنر کوفہ) نے اس تجویزکوماننےسےانکارکردیااور اس بات پر اصرار کیا کہ پہلے وہ (یزید کے لیے)میرے ہاتھ پر بیعت کریں۔ (فکتب الیہ عبید اللہ (ابن زیاد) لا اقبل منہ حتی یضع یدہ فی یدی) (الاصابۃ: 71/2، الطبری: 293/4). حضرت حسینؓ اس کے لیے تیار نہ ہوئے اور ان کی طبع خوددار نے یہ گوارا نہیں ، چنانچہ اس شرط کو مسترد کردیا جس پر لڑائی چھڑ گئی اور آپ کی مظلومانہ شہادت کا یہ حادثہ ٔ فاجعہ پیش آگیا۔
(فانا للہ وانا الیہ راجعون۔ فامتنع الحسین فقاتلوہ۔۔۔ ثم کان آخر ذلک ان قتل ؓ وارضاہ)
[اس روایت کے مذکورہ الفاظ جس میں حضرت حسینؓ نے بیعت یزید پر رضا مندی کا اظہار فرمایا الاصابہ کے علاوہ *تہذیب التہذیب، 328/2، 353 *تاریخ طبری، 293/4 *تہذیب تاریخ ابن عساکر، 325/4، 337*البدایۃ والنہایۃ،170/8۔175 *کامل ابن اثیر،283/3 اور دیگر کئی کتابوں میں بھی موجود ہیں ۔ حتی کہ شیعی کتابوں میں بھی الفاظ کا فرق ہے-]
یہاں یہ نقطہ قابلِ غور ہے کہ جب شخصی اور ذاتی مصالح ، ملی ، اخلاقی اور مذہبی مصلحتوں پر حاوی ہو جاتے ہیں تو انسان درندگی کی بدترین مثالیں بھی پیش کرنے پرقادر ہے اور ایسی مثالوں سے تو یورپ کی ساری تاریخ بھری پڑی ہے ۔ لٰہذا ان حقائق کی روشنی میں سانحہ کربلا کا جائزہ لیا جائے تو یہ واقعہ جہاں اسلام کے نام پر دھبہ ہے مگر جہاں تک حق و انصاف ، حریت و آزادی اور اعلائے کلمۃ الحق کے لیے جدوجہد کا تعلق ہےتو سانحہ کربلا تاریخ اسلام کا ایک شاندار اور زریں باب بھی ہے- اسلامی تعلیمات میں شخصی حکومتوں یا بادشاہت کا کوئی تصور موجود نہیں۔ یزید کی نامزدگی اسلام کے نظامِ شورائیت کی نفی تھی۔ لٰہذا امام حسین (رضی الله) نے جس پامردی اور صبر سے کربلا کے میدان میں مصائب و مشکلات کو برداشت کیا وہ حریت، جرات اور صبر و استقلال کی لازوال داستان ہے۔
واقعہ حرہ:
شہادتِ حسین رضی الله کی خبر جب سرزمین حجاز میں پہنچی تو کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جو اس سانحہ پر اشکبار نہ ہو ۔ لٰہذا حجاز میں فوری طور پر انقلاب برپا ہوگیا۔ اہل مدینہ نے اموی حکام کو صوبہ سے نکال دیا اور عبداللہ بن زبیر(رضی الله) کی بیعت کر لی۔ یزید نے ولید بن عقبہ کی ماتحتی میں شامیوں کی فوج روانہ کی۔ جب اہل مدینہ نے اطاعت قبول نہ کی تو ولید بن عقبہ نے شہر پر حملہ کرنے کا حکم دیا ۔ اہل مدینہ نے اگرچہ بڑی بے جگری سے لڑے لیکن شامی افواج کے سامنے ان کو شکست ہوئی ۔ اس جنگ میں بڑے بڑے اکابر مدینہ شہید ہوئے جن میں فضل بن عباس اور عبداللہ بن حنظلہ قابل ذکر ہیں- تاریخ اسلام میں یہ واقعہ بہت اہم ہے اور سانحہ کربلا کے بعد یزید کا دوسرا بڑا سیاہ کارنامہ قرار دیا جا سکتا ہے- روایت میں بہت مبالغہ اور جھوٹ شامل ہو چکا ہے کے سچ اور جھوٹ کی تفریق مشکل ہے- تفصیل آخر ، نوٹ میں ہے-
عبداللہ بن زبیر کی خلافت:
اہل مدینہ نے یزید کے بجائے عبداللہ بن زبیر کو خلیفہ چن لیا۔ شہادت حسین نے لوگوں کے اندر سوئے ہوئے جذبات کو ازسرنو بیدار کر دیا اور سرزمین حجاز میں ناراضی کی ہمہ گیر لہر اموی اقتدار کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی۔ اہل حجاز کو ابن زبیر جیسی موثر شخصیت بطور رہنما میسر آئی ۔ چنانچہ اہل مدینہ نے بھی جلد آپ کو خلیفہ تسلیم کر لیا اور آپ کی بیعت کر لی۔ اس انقلاب نے اموی اقتدار کے لیے بے پناہ مشکلات پیدا کر دیں۔ حجاز کی سرزمین سے مخالفت کے یہ ابلتے ہوئے جذبات درحقیقت تمام عالم اسلامی میں پیدا شدہ ہمہ گیر اضطراب کے ترجمان تھے۔
اموی خلافت کا زوال:
واقعہ کربلا اموی خلافت کے زوال کا اہم سبب قرار دیا جاتا ہے۔ اموی حکومت اور اس کے عمال پہلے ہی عوام الناس میں مقبول نہ تھے۔ کیونکہ مسلمان جب ان کی حکومت کا موازنہ خلافت راشدہ سے کرتے تھے انہیں سخت مایوسی ہوتی۔ امام حسین کی شہادت نے ملت اسلامیہ کو بہت متاثر کیا۔ خود یزید کابیٹا معاویہ دل برداشتہ ہو کر خلافت سے ہی دست بردار ہوگیا۔ اگرچہ امویوں نے اپنی قوت اور استقلال کی بدولت حکومت کو وقتی طور پر اپنے خاندن میں محفوظ کرلیا لیکن خلیفہ مروان ثانی کے زمانہ تک کھلم کھلا اور زیر زمین کئی تحریکیں مسلسل اس بات کے لیے کوشاں رہیں کہ وہ امویوں کی حکومت کا تختہ الٹ دیں۔
عباسی تحریک:
عباسیوں نے امویوں کے خلاف اس ردعمل سے خوب فائدہ اٹھایا ۔ ان کے داعی ملک کے کونے کونے میں پھیل گئے اور اموی مظالم کی داستان اس قدر پر زور اور پر تاثیر انداز میں پیش کی کہ عوام کے جذبات بھڑک اٹھے ۔ چنانچہ عباسیوں نے بھی حسین کے انتقام کو اپنے مقاصد کے لیے نہایت کامیابی سے استعمال کیا۔
حق پرستوں کے لیے مثال:
اس واقعہ کا سب سے بڑا اہم تتیجہ یہ تھا کہ حضرت حسین (رضی الله) کا کردار عین حق کے لیے ہمیشہ کے لیے روشنی کا ایک مینار بن گیا۔ حریت ، آزادی ، اور اعلائے کلمۃ الحق کے لیے جب بھی مسلمانوں نے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا توحضرت حسین ( رضی اللہ )کی قربانی کو مشعل راہ پایا۔ آپ ہی سے مسلمانوں نے سیکھا کہ جبر و استبداد کے سامنے سینہ سپر ہونا عین رضائے الٰہی ہے۔
‘یزید بن معاویہ:
امام ابن تیمیہ، یزید بن معاویہ کے بارے میں اپنا موقف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”یزید بن معاویہ کے بارے میں لوگ تین گروہوں میں تقسیم ہوگئے ہیں۔
1۔ایک گروہ کا کہنا ہے کہ وہ کافر اور منافق تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انتقام لینے کی خاطراُس نے آپ کے نواسے کا قتل کرایاتھا۔ تاکہ اپنے داداعتبہ اور اُن کے بھائی شیبہ اور اپنے ماموں ولید بن عتبہ اور اپنے دیگر اُن اعزہ کا بدلہ لے جنہیں غزوہ بدر اور بعض دوسرے مواقع پر صحابہ رسول نے قتل کیا اور جو علی بن ابی طالب کے ہاتھوں قتل ہوئے۔یہ اور اِسی طرح کی بعض دیگر باتیں بھی اِس نقطہ نظر کے حاملین کرتے ہیں۔اور یہ اُن روافض کی رائے ہے جو سیدنا ابوبکر،عمر،عثمان رضی اللہ عنہم کی بھی تکفیر کرتے ہیں۔چنانچہ اُن کے لیے یزید کی تکفیر تو اوربھی ہلکی بات ہے۔
2۔ دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ یزید بن معاویہ ایک نیک اور صالح،عادل حکمران تھے۔اوراُن صحابہ میں سے تھے جن کی پیدائش نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوئی تھی۔ اور جنہیں آپ نے اپنے ہاتھوں میں اٹھایا اور برکت کی دعادی تھی۔یہاں تک کہ اِس نقطہ نظر کے بعض حاملین تو یزید بن معاویہ کوسیدنا ابوبکر وعمر رضی عنہما سے بھی زیادہ افضل قرار دیتے ہیں۔اور اُن میں بعض ان کو نبی کے درجے میں فائز سمجھتے ہیں۔
یزید بن معاویہ سے متعلق مذکورہ بالا دونوںہی نقطہ ہاے نظر ہر اُس شخص کے نزدیک بالبداہت باطل ہیں جسے اللہ نے علم وعقل سے نوازا ہے اور جو متقدمین کی سیرت سے واقف ہے۔چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اِن اقوال کو اہل سنت کے معروف علما اور اہل علم ودانش میں سے کسی کی نسبت بھی حاصل نہیں ہے۔
3۔ تیسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ یزید بن معاویہ مسلمانوں کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ تھے۔اُن کی شخصیت میں کچھ اچھائیاں تھیں،توکچھ برائیاں بھی موجود تھیں۔وہ سیدنا عثمان کے عہد خلافت میں پیدا ہوئے۔کافر نہیں تھے۔اُن کے سبب سے حضرت حسین کی شہادت کا حادثہ ہوا۔اور اہل حرۃ کے ساتھ اُنہوں نے جو کچھ کیا، وہ بھی معلوم ہے۔وہ صحابہ میں سے تھے،نہ اللہ کے نیک اور صالح اولیاء میں سے ہی تھے۔مسلمانوں کے عام اہل علم وعقل اوراہل سنت والجماعہ کا یہی نقطہ نظر ہے۔
پھر مسلمانوں میں مزید تین گروہ بن گئے۔:
ایک یزید پر لعن طعن کرتا،دوسرا اُنہیں پسند کرتا اور تیسرا برا کہتا ہے، نہ بھلا سمجھتا ہے۔یہ تیسرا رویہ ہی ہے جو امام احمد بن حنبل،اُن کے متوازن رائے رکھنے والے شاگردوں اور دیگر اہل علم سے منقول ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ”۔ (مجموع فتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیہ،٤/٤٨١-٤٨٤)
امام ذہبی اپنی کتاب” سیر اعلام النبلاء” میں لکھتے ہیں:
”یزید بن معاویہ غزوہ قسطنطینیہ میں مسلمانوں کے سپاہ سالار تھے،جبکہ اُسی لشکر میں ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ جیسے بعض صحابہ بھی موجود تھے۔مسلمانوں پر اُن کی ولایت اور حکمرانی کا معاملہ اُن والدحضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے حین حیات طے کرادیا تھا۔اُن کی وفات کے بعد یزید بن معاویہ نے ہجرت کے ٦٠ ویں سال رجب کے مہینے میں مسلمانوں کی حکمرانی کا عہدہ سنبھالا۔اُس وقت اُن کی عمر ٣٣ سال تھی۔اُن کا دور حکومت چار سال سے بھی کچھ کم رہا۔
امام ذہبی کہتے ہیں :
یزید بن معاویہ اُن شخصیات میں سے ہیں جنہیں ہم برا کہتے ہیں،نہ اچھا۔اُموی اور عباسی، دونوں سلطنوں کے حکمرانوں میں یزید جیسی اور بھی شخصیات گزری ہیں۔جیسا کہ اِن دونوں سلطنتوں کے علاوہ بھی مسلمان بادشاہوں میں اُن کے نظیر موجود ہیں۔بلکہ مسلمان بادشاہوںمیں تو بعض اِن سے بھی بد تر لوگ تاریخ میں گزرے ہیں۔اِن کا معاملہ تو بس اِس وجہ سے اہمیت اختیار کر گیا کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے محض ٤٩ سال بعد اُس دور میں مسلمانوں کے حکمران بن گئے،جب بعض اکابر صحابہ ابھی بقید حیات تھے۔مثال کے طور پر سیدنا عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ موجود تھے، جو اِس عہدے کے لیے یزید،اُن کے والد اور اُن کے دادا سے بھی بہتر تھے۔
حضرت حسین (رض) کی شہادت سے اُن کا دورِ اقتدار شروع ہوکر’حرۃ’ کے واقعے پر اختتام پذیر ہوا۔بہرحال لوگوں نے اِن کو پسند نہیں کیا۔اوریہ بہت طویل عرصے زندہ بھی نہیں رہے۔حضرت حسین کے بعد متعدد بار اُن کے خلاف بغاوت بھی ہوئی جیساکہ اہل مدینہ نے بغاوت کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے بغاوت کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ”۔ (٤/٨٣ )
امام غزالی فرماتے ہیں:
(ما صح قتلہ للحسین ؓ ولا امرہ ولا رضاہ بذٰلک ومھما لم یصح ذٰلک لم یجز ان یظن ذٰلک فان اسآءۃالظن ایضا بالمسلم حرام قال اللہ تعالیٰ: }يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱجْتَنِبُوا۟ كَثِيرًۭا مِّنَ ٱلظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ ٱلظَّنِّ إِثْمٌۭ {۔۔۔فھذا الامر لا یعلم حقیقہ اصلا واذا لم یعرف وجب احسان الظن بکل مسلم یمکن احسان الظن بہ) (وفیات الاعیان: 450/2، طبع جدید)
یعنی حضرت حسینؓ کو یزید کا قتل کرنا یا ان کے قتل کرنے کا حکم دینا یا ان کے قل پر راضی ہونا، تینوں باتیں درست نہیں اورجب یہ باتیں یزید کے متعلق ثابت ہی نہیں تو پھر یہ بھی جائز نہیں کہ اس کے متعلق اسی بدگمانی رکھی جائے کیونکہ کسی مسلمان کے متعلق بدگمانی حرام ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے، بنا بریں ہر مسلمان سے حسن ظن رکھنے کے وجوب کا اطلاق یزیدسےحسن ظن رکھنے پر بھی ہوتا ہے۔
سی طرح اپنی معروف کتاب احیاء العلوم میں فرماتے ہیں:
(فان قیل ھل یجوز لعن یزید بکونہ قاتل الحسین او آمراً بہ قلنا ھٰذا لم یثبت اصلاً ولا یجوز ان یقال انہ قتلہ او امر بہ مالم یثبت)(131/3)
یعنی اگر سوال کیا جائے کہ کیا یزید پر لعنت کرنی جائز ہے کیونکہ وہ (حضرت حسینؓ کا ) قاتل ہے یا قتل کاحکم دینے والا ہے ؟
تو ہم جواب میں کہیں گے کہ یہ باتیں قطعاً ثابت نہیں ہیں اور جب تک یہ باتیں ثابت نہ ہوں اس کے متعلق یہ کہنا جائز نہیں کہ اس نے قتل کیا یا قتل کا حکم دیا۔
پھر مذکورۃ الصدر مقام پر اپنے فتوے کو آپ نے ان الفاظ پر ختم کیا ہے:
(واما الترحم علیہ فجائز بل مستحب بل ہو داخل فی قولنا فی کل صلوٰۃ اللھم اغفر للمؤمنین والمؤمنات فانہ کان مؤمنا۔ واللہ اعلم) (وفیات الاعیان: 450/3، طبع جدید)
یعنی یزید کے لیے رحمت کی د عا کرنا (رحمۃ اللہ علیہ کہنا) نہ صرف جائز بلکہ مستحب ہے اور وہ اس دعا میں داخل ہے جو ہم کہاکرتےہیں ۔ (یا اللہ! مومن مردوں او ر مومن عورتوں سب کو بخش دے) اس لیے کہ یزید مومن تھا!( واللہ اعم)
اگرچہ یزید بذات خود ان دونوں سانحات میں براہ راست شریک نہیں تھا مگر بطور حکمران ذمہ داری سے مبرا نہیں ہو سکتا-
سانحہ کربلا کا جائزہ لیا جائے تو یہ واقعہ اسلام کے نام پر دھبہ ہے کیونکہ اس سے اسلامی نظامِ حکومت میں ایسی خرابی کا آغاز ہوا جس کے اثرات آج تک محسوس کر رہے ہیں۔ لیکن اگر ہم اس سانحہ کو اسلام کے نام پر ایک سیاہ دھبہ بھی قرار دیں تو یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہوگا۔ کیونکہ جہاں تک حق و انصاف ، حریت و آزادی اور اعلائے کلمۃ الحق کے لیے جدوجہد کا تعلق ہے یہ کہنا درست ہوگا کہ سانحہ کربلا تاریخ اسلام کا ایک شاندار اور زریں باب بھی ہے جہاں تک اسلامی تعلیمات کا تعلق ہے اس میں شخصی حکومتوں یا بادشاہت کا کوئی تصور موجود نہیں۔ یزید کی نامزدگی اسلام کے نظامِ شورائیت کی نفی تھی۔ لٰہذا حضرت حسین (رضی اللہ ) نے جس پامردی اور صبر سے کربلا کے میدان میں مصائب و مشکلات کو برداشت کیا وہ حریت، جرات اور صبر و استقلال کی لازوال داستان ہے۔ باطل کی قوتوں کے سامنے سرنگوں نہ ہو کر آپ نے حق و انصاف کے اصولوں کی بالادستی ، حریت فکر اور خدا کی حاکمیت کا پرچم بلند کرکے اسلامی روایات کی لاج رکھ لی ۔ اور انھیں ریگزارِ عجم میں دفن ہونے سے بچا لیا۔ حضرت حسین (رضی اللہ ) کا یہ ایثار اور قربانی تاریخ اسلام کا ایک ایسا درخشندہ باب ہے جو رہروان منزل شوق و محبت اور حریت پسندوں کے لیے ایک اعلیٰ ترین نمونہ ہے-
صحابہ کرام (رضی اللہ ) کا کردار:
اس سانحہ کی تفصیل سے صحابہ کرام (رضی اللہ )کا مثبت کردار واضح ہوتا ہے:
”ان(حسین ؓ ) کی زندگی میں اوران کے بعد بھی صحابہ وتابعین میں سے کسی ایک شخص کابھی یہ قول ہمیں نہیں ملتا کہ آپؓ کاخروج ناجائز تھااوروہ ایک فعل حرام کاارتکاب کرنے جارہے تھے۔“(مولانا مودودی،خلافت وملوکیت ،ص ۱۷۹)
حقیقت تو یہ ہے کہ کثیرتعداد میں صحابہ کرام اورتابعین نے حضرت حسین ؓ کی حمایت کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کردیں- حضرت حُسین رضی اللہ عنہ پر کربلا میں ظلم ہوا مگر وقت کے ساتھ ساتھ بھیانک مظالم کی بہت سی داستانیں،خود ساختہ کہانیاں اور خود تراشہ افسانے بھی وجود میں آ گئے- مستند روایات نہیں جن میں صحابہ کرام اورتابعین نے ان فضول داستانوں کی تصدیق کی ہو- وہ ایسے نہ تھے کہ ان داستانوں میں بیان واقعات اگر سچ ہوتے تو خاموش بیٹھ رہتے- یہ من گھڑت قصے ان عظیم ہستیوں کی تضحیک ہے، جن کے متعلق اللہ نے فرمایا:
’’اورجولوگ ایمان لائے ، ہجرت کی اوراللہ کی راہ میں جہادکیا، اوروہ لوگ جنھوں نے پناہ دی اورمددکی، یہی لوگ پکے مومن ہیں ۔ان کے لیے مغفرت اورباعزت روزی ہے ۔‘‘ (انفال8: 74)
صحابہ کرام اورتابعین نے اسلام کی حفاظت میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور دین کو حفاظت سے منتقل کیا کہ ہم آج بھی با آسانی گمراہ کن معلومات کو اصل سے علیحدہ پہچان سکتے ہیں- “تاریخ طبری” کو نہت ریفر کیا جاتا ہے مصنف خود کتاب کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:
“میں نے اس کتاب میں جو کچھ ذکر کیا ہے ا س میں میرا اعتماد اپنی اطلاعات اور راویوں کے بیان پر رہا ہے نہ کہ عقل و فکر کے نتائج پر ، کسی پڑھنے والے کو اگر میری جمع کردوں خبروں اور روایتوں میں کوئی چیز اس وجہ سے ناقابل فہم اور ناقابل قبول نظر آئے کہ نہ کوئی اسکی تک بیٹھتی ہے اور نہ کوئی معنی بنتے ہیں تو اسے جاننا چاہیے کہ ہم نے یہ سب اپنی طرف سے نہیں لکھا ہے بلکہ اگلوں سے جو بات ہمیں جس طرح پہنچی ہے ہم اسی طرح آگے نقل کردی ہے”۔ (مقدمہ تاریخ طبری)- روایت کی حقیقت کیا ہے؟ دیکھیے آخر میں ‘ نوٹ’-
خلاصہ کلام :
کربلااسلامی تاریخ کا ایک قابل افسوس سانحہ ہے، جہاں تک اسلام کا تعلق ہے تو اس سانحہ سے نصف صدی قبل جب حج الوداع کے موقع پر المائدہ کی آیات ٣ ، نازل ہوئی جس میں دین کے کامل (perfect) ہونے کا اعلان کر دیا گیا:
اس آیت میں بتایا گیا کہ جس دین کا داعی بنا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا گیا تھا آج وہ ظاہری اور باطنی، صوری اور معنوی ہر لحاظ سے پایہ تکمیل کو پہنچ گیا۔ اس دین کے غلبہ اور فتح مندی کا جو وعدہ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) سے کیا گیا تھا وہ پورا کر دیا گیا۔ نیز وہ عقائد جن پر انسان کی نجات کا انحصار ہے وہ مکمل طور پر سکھادئیے گئے۔ شریعت وقانون کے وہ بنیادی قواعد تفصیلا یا اصولا بتا دئیے گئے جو ہر زمانہ اور تمام حالات میں مسلمانوں کے لئے روشنی کا مینار ثابت ہوں گے۔ ایسے اصولوں کی تعلیم بھی دے دی جن کی مدد سے تم ہر نئی مشکل کا حل اور ہر جدید مسئلہ کا جواب معلوم کر سکو گے۔
حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اس دین اسلام کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے کامل(perfect) کر دیا ہے اور اپنے نبی اور مومنوں کو اس کا کامل ہونا خود اپنے کلام میں فرما چکا ہے اب یہ رہتی دنیا تک کسی زیادتی کا محتاج نہیں ، اسے اللہ نے پورا کیا ہے جو قیامت تک ناقص نہیں ہوگا۔ اس سے اللہ خوش ہے اور کبھی بھی ناخوش نہیں ہونے والا ۔ حج اکبر والے دن جبکہ یہ آیت اتری تو حضرت عمر رونے لگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سبب دریافت فرمایا تو جواب دیا کہ ہم دین کی تعمیل میں کچھ زیادہ ہی تھے ، اب وہ کامل ہو گیا اور دستور یہ ہے کہ کمال کے بعد نقصان شروع ہو جاتا ہے ، آپ نے فرمایا سچ ہے ، اسی معنی کی شہادت اس ثابت شدہ حدیث سے ہوتی ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے کہ اسلام غربت اور انجان پن سے شروع ہوا اور عنقریب پھر غریب انجان ہو جائیگا ، پس غرباء کیلئے خوشخبری ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک یہودی نے حضرت فاروق اعظم سے کہا تم جو اس آیت ( ۭ اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا) 5۔ المائدہ:3) کو پڑھتے ہو اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید منا لیتے ”حضرت عمر نے فرمایا واللہ مجھے علم ہے کہ آیت کس وقت اور کس دن نازل ہوئی ، عرفے کے دن جمعہ کی شام کو نازل ہوئی ہے ، ہم سب اس وقت میدان عرفہ میں تھے ، تمام سیرت والے اس بات پر متفق ہیں کہ حجتہ الوادع والے سال عرفے کا دن جمعہ کو تھا-(ابن کثیر)
سانحہ کربلا سے دین اسلام میں کوئی اضافہ یا کمی نہیں ہوسکتی، حکمران یزید(بن معاویہ،رضی الله)کے سیاسی و فوجی اقدامات تاریخ کا حصہ ہیں جن پر صدیوں سے تنقید اور تبصرے ہو رہے ہیں- صدیاں گزر گئی ہیں اس سانحہ کے تمام لوگ اللہ کا عدالت میں پیش ہوں گے- ہم کو ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کرنا چاہییے جو سب سے بڑا منصف ہے –
اور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کرے تو اس کی سزا دوزخ ہے کہ مدتوں اس میں رہے گا اور اس پر اللہ غضبناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور اس نے اس کے لئے زبردست عذاب تیار کر رکھا ہے (قرآن ;4:93)
اور وہ جو ان کے بعد آئے عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دل میں ایمان والوں کی طرف سے کینہ نہ رکھ اے ہمارے رب بیشک تو ہی نہایت مہربان رحم والا ہے (قرآن ;59:10)
جو کوئی راہ راست اختیار کرے اس کی راست روی اس کے اپنے ہی لیے مفید ہے، اور جو گمراہ ہو اس کی گمراہی کا وبا ل اُسی پر ہے کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا (قرآن ;17:15)
مگرکچھ لوگوں نے اس سانحہ کو امت مسلمه میں تفرقہ کی بنیاد رکھنے کے لئے استعمال کیا جو ایک افسوسناک عمل ہےجس کی قرآن اجازت نہیں دیتا:
“جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہ گروہ بن گئے یقیناً ان سے تمہارا کچھ واسطہ نہیں، ان کا معاملہ تو اللہ کے سپرد ہے، وہی ان کو بتائے گا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا ہے-
وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ ( آل عمران،3 :103)
’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی (قرآن) کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو۔‘‘( آل عمران،3 :103)
الله کا حکم بلکل واضح ہے، اللہ کے دئیے گئے نام میں تبدیلی ، کمی یا اضافہ کا کوئی جواز یا تاویل قابل قبول نہیں ہو سکتی:
اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام “مسلم” رکھا تھا اور اِس (قرآن) میں بھی (تمہارا یہی نام ہے) تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ –
تفرقہ بازی کو ختم کرنے کے لئیے:
1.پہلا قدم یہ ہے کہ اپنے آپ کو اللہ کے حکم کے مطابق صرف مسلمان کہلانا شروع کر دیں-
2.تمام نظریات اور اطوارجو دین اسلام میں آیت : ” الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ(المائدہ ،آیات ٣) کے بعد شامل کیئے گئے وہ دین اسلام کا جزو نہیں، ان کو ترک کر دیں-
3.مسلمان ایک دوسرے کومہذب اور پر امن طریقه سے “امر بالمعروف اور نہی عن المنکر” کی دعوت دیں مگراس کی آڑمیں زبردستی اپنا نقطہ نظر دوسروں پر ٹھونسنے سے احتراز کریں- یاد رکھیں الله منصف اعلی ہے جو اختلافی معاملات کا فیصلہ قیامت کے دن کرے گا- شدت پسندی اور دہشت گردی کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں-
پھر ہم دعوی کر سکتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور دین اسلام جو الله کے آخری نبی اور رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بنی نوع انسانی کے لئے تا قیامت لائے اس پر عمل پیرا ہیں- الله ہماری مدد فرمائے-
……………………………………
نوٹ :
روایت واقعہ کربلا کی تاریخی حقیقت :
واقعہ کربلا کو بیان کرنے والے اکثر رواۃ جھوٹے’مجہول ’غیرمعتبر’غالى اور کٹر فرقہ پسند ہیں’ انہوں نے مبالغہ آرائیوں اور داستانوں سے بھرے ہوئے واقعات بیان کئے اور بہت سی روایتیں خود گھڑی ہیں اور مؤرخین نے انکو بلا تحقیق اور بلا کسی نقد وتبصرہ نقل کیا – یہی وجہ ہے کہ واقعات کربلا کی اصل حقیقت سے مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ نا واقف رہ گیا اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور یزید(بن معاویہ، رضی اللہ) کے سلسلے میں طرح طرح کی غلط فہمیوں کا شکارہوگیا- واقعات کربلا کے بیان میں تاریخ کی کتابوں میں اتنا تضاد ہے کہ ان میں واقعہ کی صحیح نوعیت کی پہچان بڑا مشکل امرہے اور کونسی روایت صحیح ہے اور کونسی غلط ہے اسکی تمییز کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں رہا ہے-
تاریخ طبری:
تاریخ طبری کو بہت سے محقق ریفر کرتے ہیں- علامہ ابن جریر بن یزید طبری (المتوفی: ۳۱۰ھ)، کی تفسیر طبری کے علاوہ تاریخ طبری بہت زیادہ مشہور و معروف ہے- اسی نام کا دوسرا شخص “ابو جعفر محمد بن جریر بن رستم طبری” رافضی تھا،اس کی بہت ساری تصانیف بھی ہیں،ان میں سے ایک ”کتاب الرواة عن أہل البیت“ بھی ہے،حافظ سلیمانی رحمہ اللہ کے کلام ”کان یضع للروافض“ کا مصداق بھی یہی شخص ہے- چوں کہ دونوں کا نام ولدیت اور کنیت ایک جیسی ہے؛ اس لیے بہت سارے خواص بھی اس سے دھوکہ کھا جاتے ہیں،پہچان کا طریقہ یہ ہے کہ دونوں کے دادا کا نام جدا جدا ہے،سنی ابن جریر کے داد کا نام یزید ہے اور شیعہ ابن جریر کے دادا کا نام رستم ہے۔ خود شیعہ مصنّفین اور اصحابِ رجال میں سے بحرالعلوم طباطبائی،ابن الندیم، علی بن داوٴد حلّی، ابو جعفر طوسی،ابو العباس نجاشی اور سیّد خوئی وغیرہ نے ابن جریر بن رستم طبری کا اہلِ تشیع میں سے ہونے کی تصریح کی ہے- اسی تشابہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شیعہ علماء نے ابن جریر شیعی کی بہت ساری کتابوں کی نسبت ابن جریرسنی کی طرف کرنے کی کوشش کی ہے؛ چناں چہ ڈاکٹر ناصر بن عبداللہ بن علی قفازی نے ”أصول مذھب الشیعة الإمامیة الإثني عشریة عرض و نقد“ میں لکھا ہے :”روافض نے اس تشابہ کو غنیمت جان کر ابن جریر سنی کی طرف بعض ان کتابوں کی نسبت کی ہے جس سے ان کے مذہب کی تائید ہوتی ہے،جیسا کہ ابن الندیم نے الفہرست،ص:۳۳۵ میں ”کتاب المسترشد في الإمامة“ کی نسبت ابن جریر سنی کی طرف کی ہے؛ حالاں کہ وہ ابن جریر شیعی کی ہے،دیکھیے: طبقات أعلام الشیعة في المائة الرابعة،ص:۲۵۲،ابن شہر آشوب،معالم العلماء، ص:۱۰۶،آج بھی روافض بعض ان اخبار کی نسبت امام طبری کی طرف کرتے ہیں جن سے ان کے مذہب کی تائید ہوتی ہے؛حالاں کہ وہ اس سے بری ہیں،دیکھیے: الأمیني النجفي، الغدیر: ۱/۲۱۴-۲۱۶۔
علامہ ابن جریر بن یزید طبری بہت بڑے اور بلند مرتبہ کے عالم تھے، خاص کر قرونِ ثلاثہ کی تاریخ کے حوالہ سے ان کا نام اور کتاب کسی تعارف کے محتاج نہیں ،قدیم و جدید تمام موٴرخین نے ان سے استفادہ کیا. ان ساری خصوصیات کے باوجود تاریخ طبری میں جگہ جگہ حضرات صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم سے متعلق ایسی بے بنیاد اور جھوٹی روایات مروی ہیں، جن کی کوئی معقول و مناسب توجیہ نہیں کی جاسکتی ہے ،جب کہ عدالتِ صحابہٴ کرام پرموجود قطعی نصوص قرآن و سنت اور اجماعِ امت کے پیش نظر منصف مزاج اہل علم امام طبری اور خاص کر ان کی تاریخ میں مروی اس طرح کی روایات پر کلام کرنے پہ مجبور ہوئے ہیں، روایات پر کی گئی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ تاریخ طبری میں بڑے بڑے دروغ گو ، کذّاب اور متہم بالکذب راویوں کی روایات بھی جگہ جگہ موجود ہیں۔ جن میں مشہور دروغ گو راوی محمد بن سائب کلبی کی بارہ (۱۲) روایات،حشام بن محمد کلبی کی پچپن (۵۵) روایات ،ابو مخنف لوط بن یحی ٰ کی چھ سو بارہ (۶۱۲)روایات شامل ہیں ۔ ( تفصیل کے لیے دیکھیے : مدرسة الکذابین فی روایة التاریخ الإسلامي و تدوینیہ، ص:۴۵۔۴۷،دار البلاغ الجزائر)
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ طبری نے ان جھوٹے اور بدنام زمانہ لوگوں کی واضح جھوٹی روایات کو اپنی کتاب میں کیوں جگہ دی جن سے بعد میں فتنوں کا دروازہ کھلا اور اصحاب رسول کے خلاف زبان درازی کا لوگوں کا موقع ملا ؟ اس سوال کا جواب ہم خود طبری کی زبان سے ہی پیش کرتے ہیں۔ کتاب کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:
“میں نے اس کتاب میں جو کچھ ذکر کیا ہے ا س میں میرا اعتماد اپنی اطلاعات اور راویوں کے بیان پر رہا ہے نہ کہ عقل و فکر کے نتائج پر ، کسی پڑھنے والے کو اگر میری جمع کردوں خبروں اور روایتوں میں کوئی چیز اس وجہ سے ناقابل فہم اور ناقابل قبول نظر آئے کہ نہ کوئی اسکی تک بیٹھتی ہے اور نہ کوئی معنی بنتے ہیں تو اسے جاننا چاہیے کہ ہم نے یہ سب اپنی طرف سے نہیں لکھا ہے بلکہ اگلوں سے جو بات ہمیں جس طرح پہنچی ہے ہم اسی طرح آگے نقل کردی ہے”۔ (مقدمہ تاریخ طبری)
ابن جریر(سنی) کے ثقہ ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ “تاریخ طبری” کی تمام روایات صحیح ہیں، بلکہ ابن جریر سے لے کر اوپر تک ساری سند کا صحیح ہونا ضروری ہے۔ تاریخ طبری کی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب کا نوے (۹۰) فیصد حصہ موضوع و باطل ہے جس کی وجہ مجروح راوی ہیں، جن سے طبری نے روایات لے کر اپنی کتاب میں درج کررکھی ہیں۔
اس معاملہ کو اس سے بھی زیادہ سنگین اس بات نے کردیا کہ طبری کے بعد آنے والے اکثر موٴرخین نے قرونِ ثلاثہ کے بارے میں ان سے بہ کثرت روایات نقل کی ہیں ، جیسا کہ ابن جوزی نے اپنی کتاب ”المنتظم“‘ میں، ابن الاثیر نے ”الکامل“ میں اور ابن کثیر نے ”البدایہ“ میں بغیر سند کے نقل کیا ہے، اور ان حضرات کا اس طرح بغیر سند کے روایات نقل کرنے سے ثقہ اور دروغ گو راویوں کی روایات خلط ملط ہوگئیں ہیں، بسا اوقات تاریخ طبری کی طرف مراجعت کے بغیر ان روایات میں تمیز مستحیل ہوجاتی ہے۔
کیا صرف سند کے ساتھ رطب و یابس، غث و سمین اور ثقہ و غیر معتبر ہر طرح کی روایات کا نقل محض کسی بھی ثقہ مصنف کے لیے معقول عذر بن سکتا ہے؟ کیا اس بنیاد پر ثقہ مصنف کی نقل کردہ ہر روایت کو قبول کیا جاسکتا ہے. ؟
واقعہ کربلا کے راوی ابومحنف اور ہشام بن محمد سائب بھی ہیں۔ لیکن وہ قابل اعتبار نہیں۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ منہاج السنہ میں لکھتے ہیں :
((ابومحنف وھشام بن محمد بن سائب وامثالھما من المعروفین بالکذب عند اھل العلم))
(مفتاح السنہ ص : 13 ج : 1 ، میزان الاعتدال ذہبی ص : 550 ج : 3 )
ابومحنف اور ہشام اور ان جیسے راوی اہل علم کے نزدیک جھوٹے ہیں۔ ابومحنف اپنی کتاب ” مقتل حسین رضی اللہ عنہ ‘ میں ایسی عجیب و غریب روایات بیان کرتے ہیں جن کو عقل بھی تسلیم نہیں کرتی۔
مثلاً لکھتے ہیں
:” کہ جب امام حسین رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے تو ان کا گھوڑا ہنہنانے لگا وہ میدان کربلا میں مقتولین کی لاشوں کے پاس سے گزرتا ہوا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی لاش کے پاس آ کر ٹھہر گیا۔ اس نے اپنی پیشانی خون میں ڈبو دی۔ وہ اگلے پاؤں سے زمین پر ٹپکنے لگا اور اس قدر زور سے ہنہنانے لگا کہ اس کی ہنہناہٹ سے میدان کربلا گونج اٹھا۔ ابن سعد کی نظر جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے گھوڑے پر پڑی تو اس نے کہا خدا کی مار ہو تم پر اسے پکڑ کر میرے پاس لاؤ ، یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمدہ گھوڑوں میں سے ہے۔ لشکریوں نے اس کا تعاقب کیا ، جب گھوڑے نے دیکھا کہ لوگ اسے پکڑنا چاہتے ہیں تو وہ اپنے پاؤں زمین پر ٹپکنے لگا اور اپنی مدافعت کرنے لگا حتیٰ کہ اس نے بہت سے آدمیوں کو ہلاک کر دیا اور کئی شاہسواروں کو گھوڑوں سے گرا دیا۔ مگر لشکری اس پر قابو نہ پا سکے۔ “ (مقتل الحسین رضی اللہ عنہ ص : 94 )
دوسری جگہ لکھتا ہے کہ؛ حضرت حسین رضی اللہ عنہ جس روز شہید ہوئے آسمان سے خون کی بارش ہوئی۔ (مقتل الحسین رضی اللہ عنہ ص : 119 )
مذکورہ بالا نمونہ سے پتہ چلتا ہے کہ ابومحنف راوی اپنی طرف سے باتیں بنا لیتا ہے۔ لہٰذا قابل اعتبار راوی نہیں ہے- اسی طرح کے راویوں کی روایت کی بنیاد پراگر ایک نیا مذہبی بیانیہ ترتیب دیا جائےتو اس کی کیا حثیت ہو گی ، کوئی بھی اندازہ کر سکتا ہے!