Salander Lies غیبت، جھوٹ اور بہتان بازی سنگین گناہ

غیبت، جھوٹ اور بہتان بازی ہمارے معاشرہ میں اس طرح سرایت کر چکے ہیں کہ ان کو اب برا نہیں سمجھا جاتا:
خاص طور پر سوشل میڈیا, جہاں پرہر طرح کی بحث کی مادر پدر آزادی ہے، جھوٹ اور بہتان بازی کا بیدریغ استعمال کیا جاتا ہے- اپنے پسندیدہ سیاسی رہنما اورپارٹی کو تمام عیوب اور غلطیوں سے پاک صاف قرار دے کر مخالف لیڈر اور پارٹی کو تمام اخلاقی ، سیاسی اور مذہبی گناہوں کا مجموعہ قرار دیا جاتا ہے- یہ کامن سینس عقل کے خلاف ہے کہ کوئی انسان غلطیوں سے مبرا ہو-

إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللَّـهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ ﴿٢٢سورة الأنفال﴾ یقیناًاللہ کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے (8:22)

مناسب رویہ اختیار کرنا چاہے اپنے پسندیدہ لیڈروں کے اچھے اقدام کی تعریف کریں اور غلطیوں کی نشان دہی کرنے سے قوم ، ملک اور پارٹی کا فایدہ ہے اچھے کاموں سے ملک ترقی کرے گا، پارٹی کے ووٹ بنک میں اضافہ ہو گا اور عوام ان کو دوبارہ منتخب کر سکییں گے-

قرآن سوره التوبہ آیات 31 کی تفسیر سے معلوم ہوتا ہے کہ کتاب اللہ کی سند کے بغیر جو لوگ انسانی زندگی کے لیے جائز و ناجائز کی حدود مقرر کرتے ہیں وہ دراصل خدائی کے مقام پر بزعمِ خود متمکن ہوتے ہیں اور جو ان کے اس حقِ شریعت سازی کو تسلیم کرتے ہیں وہ انہیں خدابناتے ہیں۔ مذہبی یا سیاسی لیڈروں کو ایسا درجہ دینا ظاہر ہے اسلام کے خلاف ہے-
اسی طرح خواہش نفس پر عمل کرنا بھی اسی زمرہ میں اتا ہے:

  • تم اپنی نفسانی خواہشات کی بناپر ناانصافی نہ کرنا (النساء:۱۳۵)
  • کافر لوگ محض گمان کی پیروی کرتےہیں یا اس چیز  کی جو ان کے نفس چاہتےہیں۔ (النجم:۲۳)
  • کیا آپ کو اس شخص کا پتہ ہے جس نے نفس کی خواہش کواپنا معبود بنالیا ہے۔(الجاثیہ:۲۳)

ترقی یافتہ جمہوری معاشروں میں سیاسی رہنماوں کی اندھا دھند تقلید نہیں کی جاتی، ان کی غلطیوں سے پارٹی کے اندر رہ کر اختلاف کا اظہار کیا جاتا ہے-اس کوشش کے نتیجہ میں رہنما اپنا غلط نظریہ اور سوچ کو تبدیل کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے- اگر غلطیوں کی نشاندہی نہ کی جایے تو رہنما مطلق عنان بادشاہ کا روپ دھار لیتے ہیں جن سے جان چھڑانا مشکل ہو جاتا ہے- قوم احتجاج اورانتشار کا شکار ہو کر تباہی کے راستے پر چل پڑتی ہے-

ایک مثال: امریکہ میں ریببلکن پارٹی کا صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انسان دشمن نسل پرستانہ نفرت انگیز تقریروں کی وجہ سے تنقید کا نشانہ ہے- اس کی اپنی ہی پارٹی کے با ضمیر ٹاپ رہنما اس کی مخالفت میں پیش پیش ہیں انہوں نے اس کے مخالف ووٹ دینے کا اعلان کر دیا- اس سے سسٹم مضبوط ہو گا نا کہ کمزور- غیر مسلم لوگ کچھ اسلامی اصولوں پر عمل کرکہ ترقی کی راہ پر گامزن ہیں مگر ہم جہالت اور گمراہی کے اندھیروں میں گم-
آپ( ص) نے فرمایا (مفہوم) کہ مظلوم اور ظالم کی مدد کرو- صحابی نے فرمایا ظالم کی مدد کیسے؟ آپ نے فرمایا ظلم سے روک کر(مفہوم)- جھوٹی تعریف اور جھوٹی تنقید دونوں ہی غلط ہیں-
ملاحضہ کریں: ووٹ کی شرعی حیثیت: 
اگرچہ آج کل اس(سیاست کے) اکھاڑے کے پہلوان اور اس میدان کے مرد، عام طور پر وہی لوگ ہیں جو فکرِآخرت اور خدا و رسولؐ کی طاعت و معصیت سے مطلقاً آزاد ہیں اور اس حالت میں اُن کے سامنے قرآن و حدیث کے احکام پیش کرنا ایک بے معنی و عبث فعل معلوم ہوتا ہے، لیکن اسلام کا ایک یہ بھی معجزہ ہے کہ مسلمانوں کی پوری جماعت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہوتی۔ ہر زمانے اور ہرجگہ کچھ لوگ حق پر قائم رہتے ہیں جن کو اپنے ہرکام میں حلال و حرام کی فکر اور خدا اور رسولؐ کی رضاجوئی پیش نظر رہتی ہے۔ نیز قرآن کریم کا یہ بھی ارشاد ہے: وَذَکِّرْ فَاِِنَّ الذِّکْرٰی تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَo(الذّٰریٰت ۵۱:۵۵)، یعنی آپ نصیحت کی بات کہتے رہیں کیونکہ نصیحت مسلمانوں کو نفع دیتی ہے۔ اس لیے مناسب معلوم ہوا کہ انتخابات میں اُمیدواری اور ووٹ کی شرعی حیثیت اور اُن کی اہمیت کو قرآن و سنت کی رُو سے واضح کردیا جائے۔ شاید کچھ بندگانِ خدا کو تنبیہ ہو اور کسی وقت یہ غلط کھیل صحیح بن جائے۔ ( ووٹ کی شرعی حیثیت:  مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع)

اگر آپ کرپٹ بددیانت لوگوں کی وکالت کریں گے تو آپ ان کے گناہ میں حصہ دار بن جاتے ہیں، کیونکہ اللہ کا ارشاد ہے:
مَّن يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُن لَّهُ نَصِيبٌ مِّنْهَا ۖ وَمَن يَشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَكُن لَّهُ كِفْلٌ مِّنْهَا ۗ وَكَانَ اللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ مُّقِيتًا

جو بھلائی کی سفارش کریگا وہ اس میں سے حصہ پائے گا اور جو برائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا، اور اللہ ہر چیز پر نظر رکھنے والا ہے (قرآن ;4:85)

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ﴿٢٩﴾ َ

اے ایمان والو! اپنے آپس کے مال ناجائز طریقہ سے مت کھاؤ، مگر یہ کہ تمہاری  آپس کی رضا مندی سے ہو خرید وفروخت، اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو یقیناً اللہ تعالیٰ تم پر نہایت مہربان ہے (4:29 قرآن)

O you who have believed, do not consume one another’s wealth unjustly but only [in lawful] business by mutual consent. And do not kill yourselves [or one another]. Indeed, Allah is to you ever Merciful. (Quran:4:29)

حضرت عمر رضی اللہ، خلا فت کے منصب پر بیٹھے تو ا علان فرمایا کہ میری حیثیت یہاں یتیم کے ولی کی حیثیت ہنے اگر مجہے ضرورت ہی نہ ہوئی تو میں بیت المال سے کچھ نہ لوں گا اگر محتاجی ہوئی تو بطور قرض لوں گا اور جب آسانی ہو گی واپس کر دوں گا . (ابن ابی الدنیا ) 
یہ حدیث سعید بن منصور میں بھی ہی اور اس کی اسناد صحیح ہے. بیہقی میں بھی یہ حدیث ہے . ابن عباس رضی اللہ سے اسورہ النساء آیت ٦ کے اس جملے کی تفسیر میں موجود ہنے. ( تفسیر ابن کثیر)

یہ کہنا کہ یہ تو پرانی باتیں ہیں آج کل کے زمانے کے ساتھ چلنے کے لیے آج کے زمینی حقائق کو مد نظر رکھنا ضروری ہے- یہ ایک بودی فضول دلیل، بہانہ ہے- اگر ہم قرآن اور حدیث کو مانتے ہیں تو اس پر عمل کرنے سے ہی ترقی کر سکتے ہیں-

فَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ حَیْرًا یَّرَہٗ ومَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شرًا یَّرَہٗ (زلزال:۷-۸)

ترجمہ: جو ذرہ برابر بھی نیک عمل کرے گا وہ اس کو دیکھ لے گا اور جو ذرہ برابر برا عمل کرے گا وہ بھی اس کو دیکھ لے گا۔

عمل کے بغیرصرف نام کے مسلمان کہلانے سے کیا حاصل، اپنی قوم کی بربادی کے ہم خود ذمہ دار ہیں-

اِنَّ اللّٰہَ لایُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوا مَا بِأنفُسِہِمْ وإذَا أرَادَ اللّٰہُ بَقَوْمٍ سوئًا فَلاَ مردَّ لَہٗ ومَالَہُمْ مِنْ دُوْنہٖ مِن وَال (رعد:۱۱)
ترجمہ: بیشک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا؛ جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہ بدل ڈالے اور جب اللہ کسی قوم کو برے دن دکھانے کا ارادہ فرماتا ہے تو پھر اُسے کوئی ٹال نہیں سکتا اور اللہ کے سوا ایسوں کا کوئی بھی مددگار نہیں ہوسکتا:(رعد:۱۱)

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا

 سورئہ نحل میں جھوٹ کو سخت الفاظ میں مسترد کا گیا ہے ارشاد ہے:
اِنَّمَایَفْتَرِی الْکَذِ بُ الَّذِیْنَ لَایُوٴْمِنُوْنَ بِآیَاتِ اللّٰہِ (سورئہ نحل ,آیت نمبر۱۰۵)
“جھوٹ بہتان تو بس وہی لوگ باندھا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے!”
اورسورئہ زُمر میں ارشاد ہے:
اَنَّاللّٰہَ لَا یَھْدِیْ مَنْ ھُوَکَذِبُ کَفَّارُ (سورئہ زُمَر ۳۹: آیت نمبر ۳)
” بے شک خدا جھوٹ اور بہت ناشکرے آدمی کو ہدایت نہیں دیتا!”
اسِی طرح چند دیگر آیتوں سے معلوم ہوتا کہ جھوٹا شخص خدا کی لعنت کا مستحق ہے اور خدا اس سے غضب ناک رہتا ہے:
فَنَجْعَلْ لَٓعْنَةَاللّٰہِ عَلَی الْکاذِبِیْنَ (سورئہ آ لِ عمران ۳: آیت نمبر ۶۱)
” پھر ہم جھوٹوں پر خُدا کی لعنت کے لئے بددُعا کریں گے!”
اَنَّ لَعْنَةَاللّٰہِ عَلَیْہِ اِنَّ کَانَ مِنَ الْکاذبِیْنَ (سورئہ نور ۲۴: آیت نمبر ۷)

اور اس پر خدا کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹوں میں سے ہے!”

وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا ﴿٥٨﴾

“اور جو لوگ مومن مردوں اور عورتوں کو بے قصور اذیت دیتے ہیں اُنہوں نے ایک بڑے بہتان اور صریح گناہ کا وبال اپنے سر لے لیا ہے” (33:58)
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِّسَانِہٖ وَیَدِہٖ۔ {رواہ البخاری۱/۶ و مسلم۱/۴۸}

مسلمان تو وہی ہے جس کی زبان اور ہاتھ (کی ایذا) سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ 
وہ گناہ جو جو کہ زبان سے صادر ہوتے ہیں ان میں سے ایک گناہ جس کا رواج بہت زیادہ ہو چکا ہے اور جس کو کلمہ پڑھنے والا مسلمان شاید گناہ سمجھتا ہی نہیں وہ ہے ’’غیبت کا گناہ‘‘ یہ ایسا گناہ ہے اور ایسی مصیبت ہے جو ہماری مجلسوں پر اور ہمارے معاشرے پر چھا گئی ہے۔ کوئی محفل اس سے خالی نہیں۔ حضور اکرمﷺ نے اس پر بہت سخت وعیدیں ذکر فرمائی ہیں اور قرآن کریم نے غیبت کے لیے اتنے سخت الفاظ استعمال کیے ہیں شاید کسی اور گناہ کے لیے اتنے سخت الفاظ استعمال نہیں کیے۔
حدیث شریف میں ہے کہ حضور اکرمﷺ سے ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے پوچھا: یا رسول اللہ! غیبت کیا ہوتی ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اپنے بھائی کو اس کی غیر موجودگی میں ایسے انداز میں یاد کرنا جس کو وہ ناپسند کرتا ہو، یعنی اگر اس کو پتہ چلے کہ میرا ذکر اس مجلس میں اس طرح کیا گیا تو اس کو تکلیف پہنچے اور اس کوبرا سمجھے تو یہ غیبت ہے۔ پھر صحابی رضی اللہ عنہ نے سوال کیا: اگر وہ خرابی یا عیب واقعتا میرے بھائی میں موجود ہو جو میں کہہ رہا ہوں؟ آپ نے فرمایا: وہ خرابی، برائی یا عیب تیرے بھائی میں پایا جاتا ہو تب ہی تو غیبت ہے اگر نہیں پایا جاتا تو بہتان ہے۔ اس کا گناہ غیبت سے بھی زیادہ ہے۔ (ابو دائود )
ذرا اپنی محفلوں، مجلسوں پر نظر ڈالیے! کس قدر اس گناہ کا رواج ہو چکا ہے اور ہم دن رات اس گناہ میں مبتلا ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔ آمین
بعض لوگ بڑے بہادر بنتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ بات تو میں اس کے منہ پر بھی کہہ سکتا ہوں۔ بات اس کے منہ پر کہو یا نہ کہو ہر حالت میں غیبت ہے اورگناہ کبیرہ ہے۔ غیبت کی تعریف سرکار دوعالم ﷺ نے کردی ہے ۔ اس کے سامنے اپنے فاسد خیالات بیان نہیں کرنے چاہئیں ورنہ کفر کا خطرہ ہے۔
غیبت ایسا گناہ کبیرہ ہے جیسے ڈاکہ ڈالنا، بدکاری کرنا، بہتان لگانا وغیرہ۔ دوسری بات یہ کہ غیبت کا تعلق حقوق العباد سے ہے اور حقوق العباد کا معاملہ یہ ہے کہ جب تک بندہ اس کو معاف نہ کرے اس وقت تک یہ معاف نہ ہوگا۔
جس طرح غیبت کرنا گناہ کبیرہ ہے اسی طرح غیبت سننا بھی گناہ کبیرہ ہے۔ جس مجلس میں کسی کی غیبت ہو رہی ہو تو گفتگو کا رخ بدلنے کی کوشش کریں کوئی دوسرا موضوع چھیڑ دیں اگر یہ نہ ہو سکے تو اس مجلس سے اٹھ کر چلے جائیں-
ایک اور حدیث میں ہے حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: جو لوگ غیبت کرنے والے ہوں گے بظاہر انہوں نے دنیا میں اچھے اعمال کیے ہوں گے۔ نمازیں پڑھی ہوں گی، روزے رکھے ہوں گے، عبادتیں کی ہوں گی لیکن وہ لوگ جب پل صراط سے گزریں گے آپ جانتے ہوں گے پل صراط ایسا پل ہے جو کہ جہنم کے اوپر ہوگا ہر انسان کو اس پر سے گزرنا ہے جو انسان جنتی ہو گا اس پل کو پار کرکے جنت میں پہنچ جائے گا اور جو شخص جہنمی ہو گا اس کو اس پل پر روک لیا جائے گا تم آگے نہیں جاسکتے جب تک غیبت کا کفارہ ادا نہ کرو۔
غیبت کا کفارہ اس جہان میں یہ ہوگا کہ اپنے نیک اعمال اور کی ہوئی عبادتیں ا س کو دینی پڑیں گی جس کی غیبت کی ہے اور اس کے گناہ اپنے اوپر لے کر جہنم میں جانا پڑے گا۔
بہتان:
جن کبیرہ گناہوں کا کبیرہ ہونا ترجیحی بنیاد پر قطعی ثابت ہے ان میں بہتان بھی شامل ہے۔ یعنی دوسرے کو ایسی بات یا عیب سے منسوب کیا جائے جو اس میں نہیں ہے کیونکہ جب غیبت کرنا یعنی دوسرے کے ایسے عیب کا ذکر کرنا جو اس میں موجود ہے گناہِ کبیرہ ہے تو بہتان یعنی ایسے عیب کا ذکر کرنا جو اس شخص میں نہیں ہے ضرور اس سے بھی پہلے اور عقل کے قطعی حکم سے گناہِ کبیرہ ہو گا بلکہ بہتان میں دو گناہ کبیرہ شامل ہوتے ہیں غیبت اور جھوٹ۔ بہتان کی مصیبت عام ہے، اس کی خرابیاں ہیں، قرآن مجید اور روایتوں میں اس سے نہایت سختی سے منع کیا گیا ہے اور اس کے لیے سخت سزاؤں کا وعدہ کیا گیا۔
لوگوں پر بہتان تراشی پر جو سزا تہمت اندازی (قذف) کی ہے، یعنی اسی (۸۰) کوڑے، وہی سزا شراب نوشی پر بھی دے دی جانی چاہئے-
ایک عام گناہ دوسرے کو زانی کہنا ہے:
زنا کا الزام ثابت کرنے کے لیے چار چشم دید گواہان کا ہونا لازم ہے، اگرالزام لگانے والا تین گواہان پیش کرے توپھر بھی وہ جھوٹا ثابت ہوگا اور قذف ٨٠ کوڑے سزا کا مستحق-
زنا كے ثبوت كے ليے چار گواہوں (سورةالنساء،آیت١٥ ، النور، آیت ٤) كى گواہى ميں شرط يہ ہے كہ: ـ مسلمان اور آزاد اور عادل ہونے كے علاوہ ـ انہوں نے اپنى آنكھوں سے ديكھا ہو اور پورى وضاحت اور دقيق وصف كے ساتھ بيان كريں، اس ميں مرد اور اجنبى عورت كا ايك جگہ جمع ہونے كو ديكھ كر بيان كرنا كافى نہيں، چاہے انہيں اس نے بے لباس بھى ديكھا ہو، اور اس گواہى كى خصوصيت ميں يہ شامل ہے.اور وہ اس طرح كہيں: ہم نے مرد كا عضو تناسل عورت كى شرمگاہ ميں اس طرح داخل ہوتے ديكھا جس طرح سرمہ ڈالنے كى سلائى سرمہ دانى ميں داخل ہوتى ہے.
[ایسا تبھی ممکن ہے جب کھلے عام زنا کیا جائے، چھپ کر بھی زنا گناہ ہے اگر شریعی سزا سے بچ جائے مگر اس کی سزااللہ کے ذمہ ]
ابن رشد رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اور گواہوں سے زنا كا ثبوت:
علماء كرام اس پر متفق ہيں كہ گواہوں سے زنا ثابت ہوجاتا ہے، اور باقى سارے حقوق كے برخلاف اس ميں چار گواہوں كى شرط ہے (سورةالنساء،آیت١٥ ، النور، آیت ٤)-
اور وہ گواہ عادل ہوں، اور اس گواہى كى شرط يہ ہے كہ انہوں نے مرد كى شرمگاہ كو عورت كى شرمگاہ ميں ديكھا ہو، اور پھر يہ صراحت كے ساتھ بيان كيا جائے نہ كہ اشارہ كنايہ كے ساتھ ” انتہى.[ديكھيں: بدايۃ المجتھد ( 2 / 439 )]
اور امام الماوردى كہتے ہيں:
” اور زنا ميں گواہى كا طريقہ اور وصف يہ ہے كہ: اس ميں گواہوں كا يہ كہنا كافى نہيں: ہم نے اسے زنا كرتے ديكھا، بلكہ انہيں وہ وصف بيان كرنا ہو گا جس زنا كا انہوں نےمشاہدہ كيا ہے، اور وہ اس طرح كہيں: ہم نے مرد كا عضو تناسل عورت كى شرمگاہ ميں اس طرح داخل ہوتے ديكھا جس طرح سرمہ ڈالنے كى سلائى سرمہ دانى ميں داخل ہوتى ہے.
ايسا تين امور كى بنا پر كيا جائيگا:
اول:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ماعز رضى اللہ تعالى عنہ كے اقرار كو ثابت كرنے كے ليے فرمايا:
كيا تو نے اس طرح دخول كيا جس طرح كہ سرمہ ڈالنے والى سلائى سرمہ دانى ميں داخل ہو جاتى ہے، اور پانى كا ڈول كنوئيں ميں ؟
تو اس نے كہا: جى ہاں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے رجم كرنے كا حكم ديا “
تو يہ چيز اقرار ميں بطور ثبوت پوچھى گئى تو پھر گواہى ميں بالاولى يہ طريقہ ہو گا.
دوم:
جب عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے پاس گواہوں نے مغيرہ بن شعبہ رضى اللہ تعالى عنہ كے خلاف زنا كى گواہى دى اور وہ گواہ: ابو بكرہ، اور نافع، اور نفيع، اور زياد تھے تو ابو بكرہ اور نافع اور نفيع نے صراحت كے ساتھ بيان كيا، ليكن زياد كو عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے كہا:
“تمہارے پاس جو كچھ ہے وہ بيان كرو، اور مجھے اميد ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى تيرى زبان سے صحابى كى ہتك نہيں كريگا”.
تو زيادہ كہنے لگا: “ميں نے ايك نفس كو اوپر ہوتے ديكھا، يا دو سرين اوپر ديكھے، اور ميں نے اس عورت كى ٹانگيں اس كى گردن پر ديكھيں گويا كہ وہ دونوں ٹانگيں گدھے كے كان ہوں.
اے امير المومنين ميں نے جانتا كہ اس كے پيچھے كيا تھا”.
تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے نعرہ تكبير بلند كرتے ہوئے اللہ اكبر كہا، اور گواہى ساقط كر دى اور اسے مكمل نہ سمجھا “
سوم:
زنا لفظ مشترك ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” آنكھيں زنا كرتى ہيں، اور ان كا زنا ديكھنا ہے، اور ہاتھ بھى زنا كرتے ہيں، اور ان كا زنا پكڑنا اور چھونا ہے، اور اس سب كى تصديق يا تكذيب شرمگاہ كرتى ہے “
اس ليے زنا كے ثبوت كى گواہى ميں اس احتمال كى نفى كے ليے لازم ہے زہ انہوں نے جو كچھ ديكھا ہے وہ بيان كريں، كہ مرد كى شرمگاہ عورت كى شرمگاہ ميں داخل تھى ” انتہى.[ديكھيں: الحاوى ( 13 / 227 )]
تيسرا معاملہ:
زنا كے معاملہ ميں اس شدت كے ساتھ گواہى كى تخصيص ميں عزت و ناموس كى حفاظت ميں مزيد احتياط ہے، تا كہ لوگ طعن اور تہمت لگانا آسان نہ سمجھيں.
اور اس باريكى اور دقيق وصف كے ساتھ گواہى كى شرط ہونے كى بنا پر كسى شخص پر زنا كى حد كا جارى ہونا بہت مشكل ہے، الا يہ كہ وہ خود اعتراف كر لے، اور جس شخص پر اتنى دقيق اور باريكى سے گواہى ديے جانے پر حد جارى ہو تو يہ اس جرات اور شنيع فعل كى دليل ہے جس كى سزا ميں وہ عبرت ناك سزا كا مستحق ٹھرتا ہے.
امام مارودى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” جس معاملے كى گواہى دى جارہى ہے اس كے سخت ہونے اور شديد ہونے كے اعتبار سے گواہى بھى شديد ہو گى، جب زنا اور لواطت و بدكارى سب سے برے اور فحش كام ميں شامل ہوتى ہے جس سے منع كيا گيا ہے تو اس كے آخر ميں گواہى بھى اتنى ہى شديد ركھى گئى، تا كہ حرمت كى بےپردگى نہ ہو، اور اسے ختم كرنے كا باعث بنے ” انتہى.[ديكھيں: الحاوى ( 13 / 226 )]
اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” زنا پر گواہى كى وجہ سے كوئى حد نہيں لگائى جا سكتى، اور ميرے علم كے مطابق تو گواہى كے ساتھ زنا كى حد لگائى ہى نہيں گئى، بلكہ يہ يا تو اعتراف يا پھر حيلہ كے ساتھ لگائى جاتى ہيں ” [ديكھيں: منھاج السنۃ ( 6 / 95 )].
غیبت ، جھوٹ اور بهتان بازی کے نقصانات
  1. بهتان تراش، جھوٹا شخص اپنی نظروں سے گر جاتا هے، نیک بختیوں اور سعادتوں سے محروم کر دیا جاتا هے –
  2. غیبت اور بهتان لگانے والے شخص کو سماج اور معاشرے میں ناپسندیدہ اور بے وقعت سمجها جاتا هے –
  3. کسی پر بهتان لگانا اللہ تعالی، اس کے رسول اور ملائکہ مقربین کی ناراضگی کا باعث بنتا هے –
  4. بهتان تراشی سے ایک اچها خاصا بهترین معاشرہ فساد اور برائ میں مبتلا هو کر ره جاتا هے –
  5. بهتان تراشی ایک مسلمان کی شان سے بهت بعید هے یہ تو منافقین کا شیوہ وعادت هے-
اس لیے همیں ان وجوهات کی بنا پر بهتان نهیں لگانا چاهئیے،اللہ تعالی همیں کسی پر، جھوٹ ، تہمت اور بهتان تراشی سے محفوظ رکهے ، آمین
مزید پڑھیں: 
  1. مسلما نوں اور علماء کے نام کھلا خط : آج کے حالات میں مسلم معاشرہ نظریاتی  ابتری اور انحطاط کا شکار ہے. مادہ پرستی، دہشت گردی، عدم برداشت، اور جہالت انسانیت، امن اور مذھب کے لیے خطرہ بن چکے ہیں- ان حالات میں صاحب علم و ذی فہم حضرات سے ممکنہ حل کی توقع کی جا سکتی ہے. ہمارا مقصد ہے کہ آپ کی توجہ ضروری حل پذیر مسائل کی طرف مبذول کرنا ہے تاکہ جلد حل تلاش کیا جا سکے- آپ کی توجہ اور مدد سے ہم کوشش کر سکتے ہیں کہ معاشرہ کو اس  گہری دلدل سے نکال سکیں. مکمل خط اس لنک پر پڑھیں :>>>>>
  2. نظریاتی اور فکری کنفیوژن اور ممکنہ حل

  3. خطبات اقبال – اسلام میں تفکر کا انداز جدید Reconstruction of Religious Thought in Islam  http://goo.gl/lqxYuw
 

~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~