نقاب ، حجاب: قرآن , حدیث اور اجماع Niqab, Veil

Niqab or Hijab
The question of hijab for Muslim women has been a controversy for centuries and will probably continue for many more. Is it fard (obligatory), mustahab (recommended/preferable), or ‘urf (cultural).
فقہی مسائل میں علماءاسلام میں اختلاف راے ایک خالص علمی معاملہ ہے جن کواتحاد امت کی وجہ سے مساجد میں عوام الناس کے سامنے پیش کرنے سے اجتناب کیا جاتا ہے.
Some learned people do not consider the subject open to discussion and consider that covering the face is required. While a majority are of the opinion that it is not required (some conditional). A middle line position is taken by some who claim that the instructions are vague and open to individual discretion depending on the situation. The wives of the Prophetﷺ were required to cover their faces so that men would not think of them in sexual terms since they were the “Mothers of the Believers,” but this requirement was not extended to other women…. keep reading >>>
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
نقاب ، حجاب: قرآن , حدیث اور اجماع
فقہی مسائل میں علماءاسلام میں اختلاف راے ایک خالص علمی معاملہ ہے جن کواتحاد امت کی وجہ سے مساجد میں عوام الناس کے سامنے پیش کرنے سے اجتناب کیا جاتا ہے.  حصول علم کے لیے علماء سے علیحدہ مخصوص مجالس میں معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں. ہم جانتے ہیں کہ نماز جیسے بنیادی رکن اسلام کی ادایگی میں رفع یدین، سورہ فاتحہ کے بعد بلند آواز سے یا آہستہ “آمین” کہنے میں فقہی اختلاف ہے. جس کو قبول کیا جاتا ہے.اپنے نظریات کو درست اور دوسروں کو غلط نہیں کہا جاتا کیوں کہ فقہاء قران و سنت سے دلائل حاصل کرتے ہیں. اسی طرح خواتین کے پردہ کے احکام پربھی علماء میں فقہی اختلاف ہے.
تمام علماء اس پر متفق ہیں کہ بالغ مسلمان عورت کو نامحرم مردوں سے پردہ کرنا چاہیے. اختلاف چہرہ (وَجْهِهِ) ہاتھوں اور پاوں کےپردہ پر ہے.علماء کی اکثریت کی رایے ہے کہ  چہرہ (وَجْهِهِ) ہاتھوں  اور پاوں کا  پردہ فرض یا واجب نہیں. جبکہ کچھ علماء چہرہ (وَجْهِهِ) اور ہاتھوں کے پردہ  کو بھی فرض یا واجب قرار دیتے ہیں. دونوں طرف سے قرآن اور احادیث کے حوالے اور مظبوط دلایل  دیے جاتے ہیں جن کا احترام ہے. (ملاحظہ کریں حوالہ جات آخر میں).


یہاں مقصد کسی نقطہ نظرکو صحیح یا غلط ثابت کرنا نہیں بلکہ ممکن حد تک حقائق کو پیش کرنا ہے تاکہ فکری کنفیوژن، ابہام میں کمی اوراجماع (اتفاق رائے) میں آسانی ہو.  


اس موضوع پرتحقیق سے درج ذیل حقایق معلوم ہوتے ہیں:
  1. قرآن اور حدیث میں چہرہ (عربی- وَجْهِهِ) کو ڈھانپنے یا کھلا رکھنے کے متعلق ایسا حکم جس میں لفظ” وَجْهِهِ” استمال ہوا ہو، نہیں مل سکا، ما سوا حدیث نمبر4104 سنن أَبُو دَاوُدَ (صحیح البانی) جس میں رسول اللہ ﷺ کی طرف سے بالغ خواتین کوصرف چہرہ (وَجْهِهِ) اور ہاتھوں کے کھلا رکھنے کی اجازت دی گیئ. یہ ابن عبّاس رضی اللہ عنہ کی سورة النور,آیات ٣١ کی تفسیر کے عین  مطابق ہے.انہوں نے  “إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا”  (علاوہ اس کے جو ازخود ظاہر ہے) کے معتلق فرمایا کہ اس سے مراد “چہرہ (وَجْهِهِ) اور ہا تھ” ہیں.جس پرعلماء کی اکثریت کا اتفاق ہے. مگر حضرت عبدللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو ابن عبّاس رضی اللہ عنہ کی اس تفسیر سے اختلاف ہے.( تفصیل ملاحظہ کریں حوالہ جات آخر میں.)
  2. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوجب بھی دو چیزوں میں سے ایک کا اختیار دیا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے آسان کو اختیار فرماتے۔ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے”ان الدین یسر“ یعنی دین آسان ہے․ (بخاری ص:10)
  3. جو علماء عورت کے چہرہ ( وَجْهِهِ) اور ہاتھوں کے پردہ  کو فرض یا واجب قرار دیتے ہیں وہ چہرہ ( وَجْهِهِ)  کے پردہ کے مخصوص الفاظ (وَجْهِهِ) کی غیر موجودگی کی وجہ سے “قرآن اور حدیث” کی تفسیر اورتاویلوں سے نتایج اخذ کرتے ہیں. یہ ایک انسانی کوشش ہے جس کے مکمل یاجزوی طور پر درست یا غلط ہونے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا.
  4. امہات المومنین کا درجہ عام عورتوں سے بلند ہے وہ عام خواتین کی طرح نہیں (قران 33:32). کچھ احکام صرف ان کے لیے خاص تھے جیسے رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد نکاح کی ممانعت.
  5. معلوم ہوتا ہے کہ امہات المومنین چہرہ ( وَجْهِهِ) کا  پردہ کرتی تھیں تھیں. کچھ دوسری خواتین بھی ان کی سنت کی پیروی میں  ایسا کرتی تھیں.
  6. بہت خواتین چہرہ (وَجْهِهِ) کا پردہ نہیں کرتی تھیں، رسول اللہﷺ کی طرف سے ان کو چہرہ (وَجْهِهِ) کا پردہ کرنے کا کوئی حکم روایا ت میں نہیں ملتا.
  7. نماز صلاہ اور حج و عمرہ میں تمام خواتین کو (بشامل امہات المومنین) چہرہ ( وَجْهِهِ) کھلا رکھنے کا حکم ہے.
  8. رسول اللہﷺ کے زمانہ میں خواتین مسجد میں مردوں کے پیچھےالگ صف میں کھلے چہرہ سے باجماعت نماز ادا کرتیں ، حج اور عمرہ ادا کرتیں تھیں جہاں مردوں کی اچانک نظر پڑنے کے امکان کومکمل طور پرمسترد نہیں کیا جا سکتا. خواتین دنیاوی معاملات، خریدوفروخت وغیرہ میں شامل ہوتی تھیں. جنگ میں زخمیوں کی دیکھ بھال، پانی پلانا ظاہر کرتا ہے کہ وہ گھروں میں بند مخلوق نہیں تھی.  حتی کہ ام المومنین حضرت عَائِشَةَ رضی اللہ عنه انےجنگ جمل میں حصہ لیا.
  9. اگر آج سے چودہ سو سال قبل عرب کے حالات کا تصور کریں تو سخت گرم صحرائی ماحول میں بجلی ایئر کنڈیشنر، اٹیچ باتھ روم  کے بغیر کچے مکانات اور خیموں میں زندگی بہت مشکل ہو گی. اعلی طبقہ کی خواتین کے علاوہ عام خواتین معاشی اور معاشرتی طور پر گھر بیٹھ کر گزارہ نہیں کر سکتیں، چہرہ کا پردہ کام کاج کرنے والی خواتین کے لیے اگر نا ممکن نہیں تو مشکل ضرورہے.اپنے سعودی عرب میں طویل قیام کے دوران صحرائی علاقه کی بدوخواتین کو حجاب پہنے بکریاں چروا تے، ہائی لکس ڈرائیوکرتے کام کاج میں مشغول پایا.  
  10. واضح رہے کہ اسلام کسی خاص علاقه یا طبقہ کے لیے نہیں بلکہ پوری  انسانیت کے لیے تا قیامت ہے. طالبان کے افغان ماڈل کا اصل اسلام سے کیا واسطہ؟ اس کا جواب آپ تلاش کریں.    
  11. آج بھی تمام دنیا میں عام غریب خاندانوں میں خواتین کام کآج میں مصروف نظر آتی ہیں.پاکستان میں غریب خواتین ھلکے پھلکے کاموں کے ساتھ ساتھ گرمی میں سخت کام جیسے بھٹہ خشت پر اینٹیں بنانا، بلڈنگ کی تعمیر میں اینٹیں اٹھانے کی سخت مزدوری جیسے کام کرتی نظر آتی ہیں.ان کا پورا جسم ڈھکا ہوتا ہے ، سر پر دوپٹہ ہوتا ہے چہرہ اور ہاتھ کھلے ہوتے ہیں.
Image result for women working bricks  Image result for women working bricks
Image result for Arab women goat grazing
   
  1. رسول اللہﷺ کا فرمان ہے”ان الدین یسر“ یعنی دین آسان ہے․ (بخاری ص:10). آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوجب بھی دو چیزوں میں سے ایک کا اختیار دیا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے آسان کو اختیار فرماتے۔ اللہ کا فرمان ہے:
  • يُرِيدُ اللَّـهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ( البقرة:١٨٥)
  • اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا (2:185)
  • يُرِيدُ اللَّـهُ أَن يُخَفِّفَ عَنكُمْ ۚ وَخُلِقَ الْإِنسَانُ ضَعِيفًا ﴿النساء٢٨﴾
  • اللہ تم پر سے پابندیوں کو ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے (4:28)
  1. جب کسی فقہی معاملہ میں ایک سے زیادہ آراء ہوں توایک دوسرے پر طعن و تشنیع کی بجایے  فقہ میں (١) قرآن (٢)سنت کے بعد (٣)اجماع کا اصول اپنایا جاتا ہے اور اس کا احترام کیا جاتا ہے کیوں کہ  رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ:اللہ تعالٰیٰ میری امت کو ضلالت وگمراہی پر مجتمع نہیں کریگا۔
  2. اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان، الازھرمصراور امت مسلمہ کے علماء کی اکثریت کا اجماع ہےکہ چہرے، ہاتھوں اور پاؤں کا پردہ واجب نہیں.اس وقت دنیا کے ١.٦ ارب مسلمانوں کی اکثریت علماء کے اس  اجماع پر متفق ہے لہذا حجاب کے مقابل چہرے کے نقاب کا استعمال بہت کم ہے.
  3. اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان، (تمام مکاتب فکر کے علماء پر مشتمل اعلی ریاستی آیینی ادارہ)  کا اجلاس (20اکتوبر 2015) مولانا محمد خان شیرانی کی زیر صدارت ہوا جس میں سوچ بچار کے بعد  فیصلہ ہوا کہ  کہ مسلمان خواتین کے لیے چہرے، ہاتھوں اور پاؤں کا پردہ واجب نہیں۔ کسی علماء کی تنظیم کی طرف سے اس کے خلاف کسی مہم کا نہ ہونا مکمل اجماع کو تقویت دیتا ہے. اس وقت دنیا کے   ١.٦ ارب مسلمانوں کی اکثریت علماء کے اس  اجماع پر متفق ہے.
کسی ایسے فقہی معاملہ جس پرعلماء اور جمہور کا اجماع ہو اس  پر ضرورت سے زیادہ اصرار کرنا امت میں فکری کنفیوژن، تفرقہ، فتنہ و فساد کا باعث ہو سکتا ہے. متنازعہ فقہی مسائل پر علمی بحث کے لیے مناسب فورم اعلی مدارس، تعلیمی تحقیقی ادارہ جات اور یونیورسٹیاں ہیں نہ کہ عوام الناس، مسجد کا منبر. لہٰذا ایسے متنازعہ موضوعات کی بجایے مساجد میں ایمان ،اخلاقیات حقوق العباد، شدت پسندی، دہشت گردی اور دوسرے ضروری معاملات پر توجہ کی ضرورت ہے. جزاک اللہ خیر (واللہ عالم)
رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ  اے ہمارے رب! ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہو جائیں، ان پر گرفت نہ کر
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
مزید معلومات اور تحقیق کے لیے نوٹس و حوالہ جات
References, Notes & Links for further study:
  1. دین اسلام آسان ہے :
رسول اللہﷺ کا فرمان ہے”ان الدین یسر“ یعنی دین آسان ہے․(بخاری ص:10). آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوجب بھی دو چیزوں میں سے ایک کا اختیار دیا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے آسان کو اختیار فرماتے۔ اللہ کا فرمان ہے:
  • يُرِيدُ اللَّـهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ( البقرة:١٨٥)
  • اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا (2:185)
  • يُرِيدُ اللَّـهُ أَن يُخَفِّفَ عَنكُمْ ۚ وَخُلِقَ الْإِنسَانُ ضَعِيفًا ﴿النساء٢٨﴾
  • اللہ تم پر سے پابندیوں کو ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے (4:28)
  • وَأَمَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُ جَزَاءً الْحُسْنَىٰ ۖ وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنَا يُسْرًا (88:الكهف)
  • اور جو شخص ایمان لے آئے گا اور نیک عمل کرے گا تو اس کے لئے بہتر جزا ہے اور ہم (بھی) اس کے لئے اپنے احکام میں آسان بات کہیں گے،(18:88)
  • هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ ۚ (الحج 78)
  • اُس نے تمہیں اپنے کام کے لیے چن لیا ہے اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی (22:78)
  • نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقینا دین (اسلام) آسان ہے اورجوبھی دین میں طاقت سے زيادہ سختی کرتا ہے وہ اس کی طاقت نہیں رکھتا ، توتم میانہ روی اختیار کرو ، اور صحیح کام کرو اورخوشياں بانٹو.(صحیح بخاری حدیث نمبر39)
  • آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی کسی کو کسی علاقے کا بڑا یاحکمران بنا کر روانہ فرماتے تو دیگر نصیحتوں کے علاوہ اُسے یہ نصیحت بھی فرماتے :’’لوگوں کو خوشخبری دو اور نفرت نہ پھیلاؤ، آسانی پیدا کرو اور خلق خدا کو تنگی میں نہ ڈالو۔”
  • حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اے عائشہ اللہ تعالیٰ رفیق (آسانی کرنے والے) ہیں اور رفق اور نرمی کو پسند کرتے ہیں۔ وہ نرمی کی وجہ سے اتنی چیزیں عطا فرماتے ہیں جو سختی یا کسی اور وجہ سے عطا نہیں فرماتے۔(مسلم، کتاب البر والصلۃ)
  • ۔سید نا انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آسانیاں پیدا کرنا اور مشکل مت کرنا، خوشخبری سنانا اور نفرت انگیزی مت کرنا”۔ (صحیح مسلم: ۴۶۲۲)
  • آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات اس قدر خیال رہتا تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی صحابی کو کسی علاقہ یا قبیلہ میں دعوت یا امارت کی مہم میں بھیجتے تو جو نصیحت بطور خاص کرتے اس کا خلاصہ یہ ہوتا کہ دیکھو آسانیاں پیدا کرتے رہنا، صرف دشوار و مشکل مسائل و احکام مت بتاتے و نافذ کرتے رہنا۔ ایسا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد بار فرمایا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خود اپنا عمل بھی یہی تھا۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو پہلوؤں میں کسی ایک کو اختیار کرنے کا موقع ہوتا تو آسان پہلو ہی اختیار فرماتے۔ (صحیح بخاری: ۶۷۸۶)
2. سورة النور,:24:31
وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ(سورة النور,24:31).
ترجمہ : “اور مومنات سے کہہ دیجئے کہ وہ بھی اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنی عفت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کا اظہار نہ کریں علاوہ اس کے جو ازخود ظاہر ہے…” ۖ(سورة النور,24:31).
حضرت عبدللہ بن عبّاس رضی اللہ عنہ نے “إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا”  (علاوہ اس کے جو ازخود ظاہر ہے) کے معتلق فرمایا کہ اس سے مراد “چہرہ (وَجْهِهِ) اور ہا تھ” ہیں کیونکہ کام کے دوران ان کا چھپانا مشکل ہے. یہ تفسیرسنن أَبُو دَاوُدَ حدیث نمبر4104 میں فرمان رسول اللہ ﷺ سے مطابقت رکھتی ہے.
ابن کثیرمیں بھی اس کا ذکر ہے. مگر حضرت عبدللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو ابن عبّاس رضی اللہ عنہ کی اس تفسیر سے اختلاف ہے. دونوں اصحاب رسول اللہﷺ اعلی درجہ کےعالم اورمفسر قرآن تھے.قاضی بیضاوی اور خازن اس آیت کی تفسیرمیں کہتے ہیں کہ کام کے دوران چہرہ ہاتھ کھلے ہوں تو گناہ نہیں مگر غیر محرم کو نہیں دیکھنا چا ہیے.اس سے دونوں باتیں پوری ہو جاتی ہیں.امام مالک کا بھی یہی مذھب ہے کہ غیر محرم عورتوں کے چہرہ اور ہتھیلیوں پر نظر کرنا بغیر ضرورت مبیحہ کے جائز نہیں. بحر حال تمام علماء کا اجماع ہے کہ اگر فتنہ کا احتمال ہو تو چہرہ اور ہاتھ کھلے نہیں رکھنے چاہیئیں. فتنہ کی تعریف معاشرہ کے حالات کے مطابق کی جا سکتی ہے.
3. سنن أَبُو دَاوُدَ حدیث نمبر4104
حدیث نمبر4104 سنن أَبُو دَاوُدَ میں رسول اللہ ﷺ کی طرف سے بالغ خواتین کوصرف چہرہ ( وَجْهِهِ) اور ہاتھوں کے کھلا رکھنے کی اجازت دی گیئ. حدیث میں وَجْهِهِ وَكَفَّيْهِ”  (چہرہ اور ہاتھ) کے الفاظ موجود ہیں.یہ حدیث حضرت عبدللہ بن عبّاس رضی اللہ عنہ کی سورة النورآیت ٣١ کی تفسیر  سے مطابقت رکھتی ہے. ملاحظہ کریں:
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ كَعْبٍ الأَنْطَاكِيُّ، وَمُؤَمَّلُ بْنُ الْفَضْلِ الْحَرَّانِيُّ، قَالاَ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ بَشِيرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ خَالِدٍ، – قَالَ يَعْقُوبُ ابْنُ دُرَيْكٍ – عَنْ عَائِشَةَ، رضى الله عنها أَنَّ أَسْمَاءَ بِنْتَ أَبِي بَكْرٍ، دَخَلَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَعَلَيْهَا ثِيَابٌ رِقَاقٌ فَأَعْرَضَ عَنْهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَقَالَ ‏ “‏ يَا أَسْمَاءُ إِنَّ الْمَرْأَةَ إِذَا بَلَغَتِ الْمَحِيضَ لَمْ تَصْلُحْ أَنْ يُرَى مِنْهَا إِلاَّ هَذَا وَهَذَا ‏”‏ ‏.‏ وَأَشَارَ إِلَى وَجْهِهِ وَكَفَّيْهِ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ هَذَا مُرْسَلٌ، حكم: صحيح(الألباني)
ترجمہ حدیث نمبر4104 سنن أَبُو دَاوُدَ:
ام المومنین عَائِشَةَ رضی اللہ عنها فرماتی ہیں کہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آییں . وہ باریک  کپڑے پہنے ہوے تھیں . آپ ﷺ نے ان سے منہ پھر لیا اور فرمایا :”اسماء جب عورت بالغ ہو جائے تو درست نہیں کہ اس کی کوئی چیز نظرآے سواے اس کہ اور اس کہ”، آپ ﷺ نے اپنے چہرہ ( وَجْهِهِ ) اور ہتھیلیوں( كَفَّيْهِ) کی جانب  اشارہ کیا۔ قَالَ أَبُو دَاوُدَ هَذَا مُرْسَلٌ، حكم: صحيح(الألباني)
4. چہرہ اور ہاتھ کا پردہ:
بالغ مومن عورت کو چہرہ ( وَجْهِهِ ) اور ہتھیلیوں( كَفَّيْهِ)  کا پردہ یا کھلا رکھنے کا مسئلہ ایسا ہے جس پرشروع سے دو واضح فقہی آراء ہیں. حضرت عبدللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور ابن عبّاس رضی اللہ عنہ کی سورة النورآیت ٣١ کی تفسیرآپس میں مطابقت نہیں رکھتیں.دونوں اصحاب رسول اللہﷺ اعلی درجہ کےعالم اورمفسر قرآن تھے.  یہ مسئلہ اسلام کے٦ بنیادی ارکان یا٥ بنیادی ستونوں میں شامل نہیں. چہرہ اورہاتھ کھلا رکھنے پر اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان، الازھراور امت مسلمہ کے علماء کی اکثریت کا اجماع ہے.اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان، (تمام مکاتب فکر کے علماء پر مشتمل اعلی ادارہ)  کا اجلاس(20اکتوبر 2015) مولانا محمد خان شیرانی کی زیر صدارت ہوا جس میں ان کا کہنا تھا کہ مسلمان خواتین کے لیے چہرے، ہاتھوں اور پاؤں کا پردہ واجب نہیں۔ اس وقت 1.٦ ارب مسلمانوں کی اکثریت علماء کے اجماع پر متفق ہے.
5. اجماع:
“اجماع”،  فقہ اسلام کی ایک اصطلاح اور اسلامی شریعت کا تیسرا اہم مآخد ہنے.اجماع سے مراد علمائے امت کا یا ان کی بڑی اکثریت کا، ہر زمانے میں کسی مسئلہ پر متفق ہوجانا ہنے.
آپ (صلى الله عليہ وسلم) کا ارشاد ہے:
“عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللَّهَ لَايَجْمَعُ أُمَّتِي أَوْقَالَ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ضَلَالَةٍ”۔ (ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي لُزُومِ الْجَمَاعَةِ، كِتَاب الْفِتَنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حدیث نمبر:۲۰۹۳)
ترجمہ:حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ:اللہ تعالٰیٰ میری امت کو یا (راوی نے کہا) کہ محمد صلى الله عليه وسلم کی اُمت کو ضلالت وگمراہی پر مجتمع نہیں کریگا۔
نیز آپ (صلى الله عليه وسلم) کا فرمان ہے:
“فَمَا رَأَى الْمُسْلِمُونَ حَسَنًا فَهُوَعِنْدَ اللَّهِ حَسَنٌ وَمَارَأَوْا سَيِّئًا فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ سَيِّئٌ”۔(مسندِاحمد، حدیث نمبر۳۶۰۰)
ترجمہ:جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھی ہے اور جس چیز کو مسلمان بُرا سمجھیں وہ اللہ تعالٰیٰ کے نزدیک بھی بری ہے۔
ایک اور موقع سے آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا:
“مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ شِبْراً فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَةَ الْإِسْلَامِ مِنْ عُنُقِهِ”(مشکوٰۃ:۳۱)
ترجمہ:جوشخص جماعت سے بالشت برابر جدا ہوا تواس نے اسلام کی رسی اپنی گردن سے الگ کردی۔
6. ’شریعت میں خواتین کے چہرے کا پردہ واجب نہیں ،اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان:
اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان، (تمام مکاتب فکر کے علماء پر مشتمل اعلی ادارہ)  کا اجلاس(20اکتوبر 2015) مولانا محمد خان شیرانی کی زیر صدارت ہوا جس میں ان کا کہنا تھا کہ مسلمان خواتین کے لیے چہرے، ہاتھوں اور پاؤں کا پردہ واجب نہیں۔ کونسل کے پہلے روز کے اجلاس میں دیگر ممبران کے علاوہ جماعت اسلامی کی ڈاکٹر سمعیہ راحیل قاضی بھی شریک تھیں جنہوں نے خود نقاب میں ہونے کے باوجود پردے کے حوالے سے رولنگ کی مکمل حمایت کی۔ اجلاس کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے مولانا محمد خان شیرانی کا کہنا تھا کہ اسلامی شریعت خواتین کو چہرے، ہاتھوں اور پاؤں کے پردے کا پابند نہیں کرتی تاہم اگر فتنے کا خطرہ ہو تو عورت پر چہرے، ہاتھ اور پاؤں کا پردہ واجب ہے۔ تاہم خواتین کو کس طرح کا فتنہ لاحق ہوسکتا ہے، مولانا شیرانی نے اس کی وضاحت نہیں کی۔


References/ Links for further Study & Research:

 

  1. نقاب ، حجاب: قرآن , حدیث اور اجماع  – http://goo.gl/X9iI51
  2. http://www.apologeticsindex.org/505-muslim-veils-hijab-burqa
 ————————————————
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
مزید پڑھیں: 

 

  1. مسلما نوں اور علماء کے نام کھلا خط : آج کے حالات میں مسلم معاشرہ نظریاتی  ابتری اور انحطاط کا شکار ہے. مادہ پرستی، دہشت گردی، عدم برداشت، اور جہالت انسانیت، امن اور مذھب کے لیے خطرہ بن چکے ہیں- ان حالات میں صاحب علم و ذی فہم حضرات سے ممکنہ حل کی توقع کی جا سکتی ہے. ہمارا مقصد ہے کہ آپ کی توجہ ضروری حل پذیر مسائل کی طرف مبذول کرنا ہے تاکہ جلد حل تلاش کیا جا سکے- آپ کی توجہ اور مدد سے ہم کوشش کر سکتے ہیں کہ معاشرہ کو اس  گہری دلدل سے نکال سکیں. مکمل خط اس لنک پر پڑھیں :>>>>>
  2. نظریاتی اور فکری کنفیوژن اور ممکنہ حل

  3. خطبات اقبال – اسلام میں تفکر کا انداز جدید Reconstruction of Religious Thought in Islam  http://goo.gl/lqxYuw
 

~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~