پیری مریدی کے متعلق مسمانوں میں خاص طور پر پاک و ہند میں بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں- ایک بات واضح ہے کہ تمام مکاتب فکر کے علماء خرافات اور پیری مریدی کے نام پر مکروہ، غیر اسلامی ، غیر شرعی خرافات کو مسترد کرتے ہیں- یھاں پر مختلف آرا پیش خدمت ہیں، تاکہ اس مکروہ جہالت کے دھندہ سے محفوظ رہنے کے لیے مسلمانوں کی رہنمائی ہو سکے- ضرورت ہے کہ تمام علماء مل کر ون پوانٹ ایجنڈا … توحید … کے متلعق مسمانوں کو آگاہی مہیا کریں- توحید ، قرآن و سنت اور اسلام کی روح ہے جس پر سب متفق ہیں اور خرافات کا توڑ ہے-
لوگ گو زبان سے تو اللہ تبارک و تعالیٰ کا اقرار کرتے اور دل کے کسی گوشے میں بھی اس کو مانتے ہیں‘ لیکن عبادات اور دعاؤں کو کرتے ہوئے وہ اللہ کے ساتھ ساتھ غیر اللہ کو بھی شامل کر لیتے ہیں۔ اسلام میں غیر اللہ کی پرستش کے ہر انداز کی مذمت کی گئی ہے اور قرآن مجید کا سب سے اہم مضمون توحید باری تعالیٰ کا اثبات اور غیر اللہ کی پرستش کی تردید ہے-
مسلمان دعوت توحید کے پاسبان اور نبیء رحمتﷺ کی تعلیمات کے وارث ہیں۔ لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ بعض لاعلم اور نادان لوگ قرآن و سنت کی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر پیروں اور فقیروں کو اس حد تک بڑھا دیتے ہیں کہ ان کو اللہ تبارک و تعالیٰ کا ہم نشیں بنا دیا جاتا ہے۔ جعلی عاملین اور نام نہاد پیر ہر دور میں لوگوں کا استحصال کرنے میں مصروف رہے ہیں۔ ماضی میں اس طرح کی باتیں سامنے آئیں کہ بعض درندہ صفت جعلی عاملین نے بہت سی خواتین کی عزتوں کو پامال کیا۔ اسی طرح معصوم بچوں کو نامرد بنا دیا گیا۔ حال ہی میں ایک جعلی پیر نے 20 بے گناہ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم توحید پرست لوگ ہیں اور ہمارے پاس قرآن مجید اور حضرت رسول اللہﷺ کی تعلیمات کی شکل میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات اور صفات کا واضح تصور موجود ہے تو نجانے ہم اپنی مشکلات، دکھ اور تکالیف کے ازالے کے لیے مساجد اور اللہ کے گھروں کی طرف رجوع کرنے کی بجائے ان پیروں اور فقیروں کے آستانے پر کیوں جھکنا شروع ہو جاتے ہیں۔ حقیقی ولی اللہ اپنی پوجا کا سبق دینے کی بجائے اللہ کی بندگی کا درس دیتا ہے۔ جب کہ جادوگر، نجومی، کاہن اور جعلی عاملین لوگوں کی جان و مال اور عزت کو سلب کرکے ان کو سیدھے راستے سے بھٹکا دیتے ہیں۔ توہم پرستی جہاں پر انسان کی آخرت کو تباہ کرنے کا سبب ہے‘ وہیں پر دنیا میں بھی اس کے لیے نقصان اور اذیتوں کا باعث بن جاتی ہے۔ اس کے بالمقابل اللہ کی ذات کے سامنے سجدہ ریز ہونے والے لوگ جہاں پر آخرت میں سر بلند ہوں گے وہیں پر دنیا میں بھی ان کی تکالیف اور مشکلات دور ہو جائیں گی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہماری قوم کی اصلاح فرمائے اور انہیں توہم پرستی کے جال سے نکال کر صحیح عقیدہ توحید کی سمجھ بوجھ عطا فرمائے۔ آمین!
مدرسہ تعلیم کے لیے تھا۔ خانقاہ تزکیۂ نفس کے لیے۔ جب یہ دونوں کاروبار اور متاع دنیا کے حصول کا ذریعہ بن گئے تو پھر تعلیم باقی رہی نہ تزکیہ۔ اب جو باقی ہے اس کے مظاہر ہمارے ارد گرد بکھرے ہوئے ہیں۔ یہ ایک آدھ مدرسے یا ایک آدھ خانقاہ کا معاملہ نہیں۔ یہ ایک وبا ہے جو پھیل چکی ہے۔بلاشبہ آج یہ اربوں روپے کی معیشت ہے۔اس پر عالمی وعلاقائی سیاست کے اثرات ہیں اور مقامی سیاست کے بھی۔ایک حلقہ انتخاب میں ہر امیدوار ووٹوں کے لیے پیروں کو خوش کرتا ہے۔
اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ریاست اس مدرسہ و خانقاہ کو کسی نظام کے تابع کرے ۔ مدرسہ کو کسی نظم کا پابند کرنا آسان ہے۔اس کاایک نصاب ہے، ایک نظام ہے۔یہ ایک علانیہ کام ہے جس پر بات ہو سکتی ہے۔اس موضوع پہ بہت سی تجاویز بھی پیش کی جا چکی ہیں۔ خانقاہ کا معاملہ البتہ پیچیدہ ہے۔” روحانیت‘‘ کا کوئی پیمانہ نہیں، جس سے اسے ناپا جا سکے۔اس پہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس معاملے سے کی سے نمٹا جائے۔اب یہاں بھی مدرسے کی طرح باپ کے بعدبیٹا گدی پر بیٹھتا ہے۔کوئی کسی کو پوچھنے والا نہیں۔ پرانے دور میں اولیائے کرام اپنے کسی مرید کو اپنا خلیفہ مجاز مقرر کیا کرتے تھے ۔ایک روایت میں رہنے والا ہی پیر بنتا تھا۔ اگر اسی روایت ہی کو بحال کر دیا جائے تو شاید کچھ بہتری آ جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ریاست ان خانقاہوں کے معاملات اپنے ہاتھ میں لے اور وہی سجادہ نشین ہو جو شریعت مطاہرہ کا پابند اور کسی مستند سلسلے میں بیعت ہو۔ اس سے خانقاہ کی روایت سے وابستہ سب قباحتیں تو ختم نہیں ہوں گی لیکن امید ہے کہ بہت حد تک کم ضرور ہو جائیں گی۔
یہ ان سماجی اداروں کی اصلاح کی طرف پہلا قدم ہو گا۔ اصل تبدیلی البتہ اسی وقت آئے گی جب سماج اور دین کا باہمی تعلق حقیقی اور فطری بنیادوں پر استوار ہو گا۔ وہی بنیادیں جو اسلام کے دور اوّل میں رکھی گئیں۔خانقاہ کی روایت بھی اس دین کے تابع ہو جو اللہ کے پیغمبر لے کر آئے۔اگر اس کی اصلاح نہ ہو سکی تو سرگودھا جیسے واقعات ہوتے رہیں گے۔
کیا بیعت پیری مریدی والی بیعت ہے؟ آجکل جہاں اور بہت سے اسلامی مسائل میں ایک عام آدمی صحیح فیصلہ نہیں کر پارہا ان میں ایک اہم مسئلہ بیعت کا بھی ہے کہ وہ کس کے ہاتھ پر بیعت کر کے جاہلیت کی موت سے بچ سکے کیونکہ اس پر اقوال موجود ہیں کہ جس نے بیعت نہ کی اور مرگیا تو اس کا مرنا جاہلیت کا سا مرنا ہے، اور یہ معاملہ ہے بھی بہت تشویش والا اس میں ہم سب کو پریشانی ہونی چاہیے کہ کہیں وہ جاہلیت کی موت نہ مارا جائے۔ تو بعض لوگوں نے اس کا غلط مطلب لے کر یہ ثابت کرنے کی بھی کوشش کی ہے کہ اب بیعت ہے ہی نہیں ہےبیعت تو اسلام کی ہوا کرتی تھی اس کے علاوہ کون سی بیعت ہوتی ہے، تو اس طرح انہوں نے بیعت کا ہی انکار کر دیا ہےجو کہ اچھی بات نہیں ہے۔ اور بعض لوگوں نے اس بیعت کو ہرکسی کے لیے جائز ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ آدمی کو جو کوئی بھی اچھالگے تو اس کی بیعت کر لینی چاہیے وہ جائز ہے، اور اب چاہے ایک ہی علاقے میں سینکڑوں کی تعداد میں لوگ ہوں کہ جن کے ہاتھ پر بیعت کی گئی ہوئی ہو، تو یہ دونوں طریقے قرآن و سنت سے ہٹے ہوئے ہیں، اب یہ عرض بھی کرتا چلوں کہ اب کوئی یہ نہ کہے کہ فلاں مولوی صاحب نے اس پیری مریدی کو جائز کہا ہے فلاں نے اس کو جائز کہا ہے بلکہ خود بیعت لیتے ہیں تو ہم نے جس عظیم ہستی کی رسالت کا اقرار کلمے میں کیا ہے ہم کو چاہیے کہ اپنے عمل سے بھی اس کو ثابت کریں اور جو حقِ پیروی ان صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے وہ کسی کو بھی نہ دیں، کیونکہ دین اسلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی مکمل ہو گیا تھا اگر تو کوئی قرآن و صحیح حدیث سے موجودہ پیری مریدی کو ثابت کردے تو صحیح ورنہ کسی کی بات کو جواز بنا کر ہم دین میں کوئی اضافہ کرنے کی جسارت نہ کریں تو یہ ہمارے حق میں اچھا رہے گا۔ اب آتے ہیں اس بات کی طرف کہ قرآن و صحیح حدیث میں جو بیعت کا ذکر ہے وہ بیعت کس کی ہے اور اس کا مقصد کیا ہے؟ >>>
…………………………………………………..
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~ تعلیماتِ طریقت و شریعت سے بے بہرہ جعلی پیری مریدی
حافظ محمد عون سعیدی
لگا ہے جھوٹ کا بازار آؤ سچ بولیں
نہ ہوں بلا سے خریدار آؤ سچ بولیں
اس مضمون میں معاشرے کے اندر سرطان کی طرح پھیلے ہوئے نام نہاد جھوٹے کاروباری پیروں کی خبر لی گئی ہے اور مسلک حق اہلسنت کی بدنامی کے اہم ترین پہلو کی طرف، فکر مند دماغ اور درد مند دل رکھنے والے دلوں کو متوجہ کیا گیا ہے۔ لہذا اس سارے مضمون کو کارباری پیروں کے تناظر میں ہی پڑھا جائے ورنہ ہمارے نزدیک ولایت برحق ہے، کرامات اولیاء بھی برحق ہیں۔
شرائطِ مرشد
کسی جامع شرائط مرشد کی بیعت بھی ایک مستحب اور بابرکت کام ہے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے مرشد کامل کی چار شرائط ارشاد فرمائی ہیں ان کے بغیر اس کا بیعت لینا جائز نہیں۔
صحیح العقیدہ مسلمان ہو یعنی اہل سنت والجماعت سے وابستہ ہو، بد عقیدہ اور بد مذہب نہ ہو۔
عقائد کے دلائل اور تمام احکام شرعیہ کا عالم ہو حتی کہ ہر پیش آمدہ مسئلہ کا حل بیان کر سکتا ہو (یعنی مفتی ہو)۔
علم کے مطابق عمل کرتا ہو۔ فرائض، واجبات، سنن اور مستحبات پر دائمی عمل پیرا ہو اور تمام محرمات و مکروہات سے بچتا ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک اس کی نسبت متصل ہو، یعنی اس کے مشائخ کا سلسلہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچتا ہو۔ ہمارے زمانے میں بعض بے علم لوگ وعظ و تبلیغ کرتے ہیں اور جب کچھ حلقہ بن جاتا ہے تو لوگوں سے بیعت لینا بھی شروع کر دیتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی بے علمی کا عیب چھپانے کے لئے علماء کی تنقیص کرتے ہیں، ان کو منافق اور بے عمل کہتے ہیں۔ ساتھ ہی خود کو اہل اللہ کا محب کہتے ہوئے اولیاء اللہ کی صف میں شمار کروانے کی ترغیب دیتے ہیں۔ سادہ لوح عوام علماء کو چھوڑ کر ایسے بے علم واعظین اور بے عمل ’’مرشدین‘‘ کے حلقہ ارادت میں کثرت کے ساتھ شامل ہو رہے ہیں۔ ہم اس جہالت اور تعصب سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔
مذکورہ شرائط کو سامنے رکھتے ہوئے اگر موجودہ پاکستانی معاشرہ پر نظر ڈالیں تو ہمیں ہر طرف ایسے کاروباری پیروں کی فوج ظفر موج نظر آئے گی جن میں مذکورہ شرائط کا دور دور تک پتہ نہیں ہو گا۔ کسی کا عقیدہ خراب ہے تو کسی کا سلسلہ غیر متصل۔۔۔ کوئی پابند سنت نہیں ہے تو کوئی اعلانیہ فاسق و فاجر۔۔۔ علم کی شرط ملاحظہ کریں تو اس پر پورے ملک میں معدودے چند پیر صاحبان ہی بمشکل پورے اترتے نظر آئیں گے۔ جعلی پیروں کا بہت بڑا لشکر نہ صرف یہ کہ قرآن و حدیث اور فقہ و کلام سے بے خبر ہے بلکہ وہ علم اور علماء کا سخت دشمن بھی ہے۔ کیونکہ جس طرح سرمایہ دار، جاگیردار اور سیاستدان کی خیر اسی میں ہے کہ قوم جاہل مطلق رہے اسی طرح جھوٹے پیروں کی شان و شوکت کا راز بھی اسی میں پوشیدہ ہے کہ قوم علم و عمل سے بے گانہ رہے۔ کیونکہ ان پڑھ لوگ ان کو جس طرح چومتے چاٹتے ہیں اس طرح پڑھے لکھے لوگ نہیں کرتے۔ کسی بھی پیر کے ملاقاتیوں کو ملاحظہ کر لیجئے آپ کو ان پڑھ اور پڑھے لکھے لوگوں کے اندر ملاقات میں نمایاں فرق نظر آئے گا۔
انتہائی افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس طرح کے تمام جعلی، بناوٹی اور کاروباری پیر اپنے آپ کو مسلک حق اہل سنت وجماعت سے منسوب کرکے اس کی بدنامی اور رسوائی کا سبب بنتے ہیں۔ نیز وہ علماء سے یہ توقع بھی رکھتے ہیں کہ وہ ان کی نام نہاد بزرگی پر مہر تصدیق ثبت کریں۔ یہ ننگِ ملت، ننگ دیں، ننگ وطن لوگ ایسے زہریلے ہیں کہ انہوں نے اپنی شہوت کاریوں سے مسلک حق کو ادھ موا کرکے رکھ دیا ہے۔ ان میں سے کچھ لوگ نامور بزرگوں کی گدیوں سے منسوب ہیں۔ عمل صالح اور شریعت کی پابندی تو کجا وہ کرپٹ لوگوں کی سرپرستی کرتے ہیں رسہ گیروں سے ان کی دوستیاں ہیں۔ الیکشن میں مسلک کے نام کو استعمال کرتے ہوئے یہ لوگ ممبر اسمبلی بنتے ہیں اور پھر سیکولر جماعتوں کے ساتھ مل کر انہی کے ایجنڈے کو فروغ دینے کا باعث بنتے ہیں۔ اس تمام خرابی کی بنیاد درحقیقت ان کاروباری مولویوں نے فراہم کی ہے جو انہیں (معمولی خدمت کے عوض) لوگوں کے سامنے غوث زماں، قطب عالم، شہنشاہ ولایت وغیرہ بنا کر پیش کرتے ہیں۔
ان حضرات کی سیرت و کردار کو قریب سے دیکھیں تو ان کے فرعونی لہجے، شیطانی عادات و اطوار، یزیدی رسوم و رواج۔۔۔ غنڈوں اور بدمعاشوں کی سرپرستی، چوروں اور ڈاکوؤں کی پشت پناہی۔۔۔ باطل اعمال اور عقیدے، اعراس کے نام پر اسلام کش میلے ٹھیلے۔۔۔ کتوں اور ریچھوں کے مقابلے، قبروں اور مزاروں کی تجارت۔۔۔ صالحین کی تعلیمات پر عمل کی بجائے تعمیرات سے ولایت کی پیمائش۔۔۔ علماء کے خلاف سینوں میں بھڑکتی آگ، جہالت و رعونت میں اپنی مثال آپ۔۔۔ دین و شریعت کی بات پر منہ سے نکلتے انگارے۔۔۔ نماز روزے کا وقت آنے پر مرض اسہال، زکوۃ و جہاد کا نام سنتے ہی پیٹ میں درد قولنج۔ ۔ ۔ غیر محرم عورتوں کو بے پردہ مرید کرنا اور ان سے ٹانگیں دبوانا۔۔۔ یہ ہیں وہ کالے کرتوت جو ان ’’پیروں‘‘ کے نامہ اعمال میں درج ہیں۔
اگر آپ ان کے کفریہ و شرکیہ اور مبالغہ آمیز اشعار پر مصنوعی طور پر بدمست ہو کر جھومنے اور ناچنے والے جاہل مریدوں کو دیکھیں تو گویا انہیں ذبح کیا جا رہا ہے۔۔۔ ان کے تعویذوں اور وظیفوں کو دیکھیں تو شیاطین سے استغاثہ پر مبنی جادو ٹونے کے پلندے معلوم ہوں۔۔۔ ان کی ’’مقدس مسندوں‘‘ کو دیکھیں تو ان پر کسی نیک سے نیک آدمی کا بیٹھ جانا یا صرف پاؤں لگ جانا بھی اعلیٰ درجے کی گستاخی شمار ہو۔
پھر پیران عظام کی ان گدیوں میں بھی مال و جائیداد کی طرح وراثت چل نکلی ہے (کیونکہ یہ بھی اب ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے) باپ کی گدی پر اولاد ہی بیٹھے گی خواہ وہ کیسی ہی کیوں نہ ہو۔ کسی مرید کی کیا مجال کہ وہ پیر مغاں کی سجادگی کا حقدار ٹھہرے خواہ وہ کیسا ہی رازی و غزالی کیوں نہ ہو اور یہی نااہلی اور وراثت سب سے بڑا سبب ہیں خانقاہی نظام کی تباہی کا۔
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن
یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ تقریباً ایسے تمام ’’پیر صاحبان‘‘ کا ذاتی طور پر قرآن و حدیث اور فقہ و کلام کی تعلیم و تعلم اور درس و تدریس سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ پورے ملک میں شاید ہی کوئی جاگیردار اور کھاتا پیتا پیر آپ کو ایسا نظر آئے جس کی اولاد کسی دینی مدرسہ میں درس نظامی کی تعلیم حاصل کر رہی ہو، وہ تو آپ کو ملکی و غیر ملکی مہنگے ترین سکولوں، کالجوں میں طبقہ امراء کے ساتھ کھیلتی کودتی نظر آئے گی اور علم دین سے کوری ہونے کے باوجود مسند پر بھی وہی بیٹھے گی۔
تقریباً ہر پیر یہ خواہش رکھتا ہے کہ اس کے مریدوں کی تعداد روز افزوں ہو، دوسرے پیروں کے مرید بھی فیضیاب ہونے کے لئے کسی نہ کسی طرح اس کے ’’سلسلہ عالیہ‘‘ میں شامل ہو جائیں اور اس خواہش نفس کو پورا کرنے کے لئے طرح طرح کے تشہیری و ترغیبی ہتھکنڈے بھی استعمال کئے جاتے ہیں۔ اگر کسی پیر کے مرید کم ہوں تو وہ احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتا ہے اور زیادہ ہوں تو احساس برتری کا شکار ہوتا ہے۔
کئی نام نہاد پیر دینی مدارس بنانے اور تبلیغ و بیان کے خلاف ہوتے ہیں اور اس کی مضحکہ خیز دلیل یہ دیتے ہیں کہ یہ ہمارے بزرگوں کا طریقہ نہیں ہے۔ مجھے میرے ایک نہایت معتبر صاحبِ علم و عمل دوست جو خود اہلِ طریقت میں سے ہیں نے اپنا ذاتی واقعہ بتایا کہ
میں سرگودھا کے ایک پیر صاحب کی تیمارداری کرنے گیا تو ان کے ہاں بچوں کو سارا وقت کھیلتے کودتے اور شرارتیں کرتے دیکھ کر پیر صاحب سے پوچھا کہ کیا آپ کے ہاں مسجد میں بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم دلوانے کا کوئی انتظام نہیں ہے؟ فرمانے لگے : ایک مولوی کو بچے پڑھانے کے لئے رکھا تھا مگر وہ ہمیں ہی تلقین کرتا رہتا کہ مسجد میں آ کے نماز پڑھیں اب بتائیں کیا ہم اپنی مصروفیات اور مریدین کی بھلائی اور امور کے کاموں کو چھوڑ کر مسجد میں نماز پڑھنے کس طرح جا سکتے تھے۔ لہذا اس کے بار بار ہمیں ہی نماز کی تلقین کرنے کی وجہ سے اسے فارغ کر دیا گیا۔
کئی پیر اپنی شان میں قصیدے لکھواتے ہیں اور کتابیں شائع کرواتے ہیں۔ کئی پیر اشتہاروں اور بینروں پر صرف اپنا نام لکھنے کا حکم جاری کرتے ہیں کسی دوسری شخصیت کا نام ان کے لئے سوہان روح ہوتا ہے۔ کسی پیر کا مرید اگر زیادہ مشہور ہونے لگ جائے تو اسے فوراً حلقہ ارادت سے فارغ کر دیا جاتا ہے۔ تقریباً ہر پیر دوسرے پیر کی شان گھٹانے کے لئے صراحتاً نہ سہی اشارتاً و کنایۃً ضرور تنقیص کرتا ہے۔ اپنے آپ کو کامل سمجھتا ہے اور دوسرے کو ناقص۔ جاہل پیر، عالم پیر کے متعلق یوں کہتا ہے کہ ’’وہ تو علماء میں سے ہے‘‘، طریقت کا بادشاہ تو میں ہوں۔
ان جاہل پیروں کی اہل علم سے بھی بظاہر خاصی دوستی ہوتی ہے۔ انہیں شوق ہوتا ہے کہ علماء ان کے مرید تو ضرور بنیں مگر ہر بات میں آنکھیں بند کر کے ان کے پیچھے چلتے رہیں، کسی مسئلہ میں اختلاف کی ان کے ہاں کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ ایسے پیروں کا اکثر یہ مقولہ ہوتا ہے کہ ’’علم اپنے گھر میں رکھ کے آؤ تو پھر کچھ پاؤ گے‘‘ اور اس بات کے لئے وہ واقعہ خضر و موسیٰ علیہما السلام کا سہارا لیتے ہیں۔
چہ نسبت خاک رابعالم پاک
اپنی تعریفیں سن سن کر پیر صاحب کا نفس اتنا متکبر ہو چکا ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص ان کی اصلاح کے لئے ہلکا سا اشارہ بھی کر دے تو ان کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔ اگر پیر صاحب کی کسی محفل میں کوئی بیرونی عالم بھی مدعو ہو اور وہ صرف اللہ و رسول کی تعریف کر کے چلا جائے تو پیر صاحب آئندہ کے لئے اس کو نہ بلانے کا عندیہ دے دیتے ہیں۔
بعض پیروں کے ہاں شریعت و طریقت کی باقاعدہ جنگ کروائی جاتی ہے اور بالآخر طریقت کا پہلوان شریعت کے پہلوان کو چاروں شانے چت گرا دیتا ہے اور اس کی فتح کا نعرہ لگا دیا جاتا ہے۔ کئی جاہل پیر اپنے مریدوں کو یوں درس دیتے ہیں کہ ہمارے پاس باطنی علم ہے اور علماء کے پاس ظاہری علم، رس ہم نے پی لیا ہے پھوک مولویوں (علمائ) کے آگے ڈال دی ہے، گریاں ہم نے کھا لی ہیں چھلکے مولویوں (علماء) کے سامنے پھینک دیئے ہیں۔ حال ہی میں ایک مقام پر کچھ پیروں کے زیر سرپرستی لاکھوں روپے لگا کر محفل نعت و قوالی منعقد ہوئی جس کے پنڈال کے مین گیٹ پر یہ ہدایت لکھی ہوئی تھی ’’مولویوں کا داخلہ ممنوع ہے‘‘ اس محفل میں جو ایمان سوز اور دل دوز قسم کی ہڑبونگ مچائی گئی اس پر اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم ہی کہا جا سکتا ہے۔
علامہ ابن جوزی لکھتے ہیں : اگر ان جاہل پیروں کو علماء کے مرتبے کا پتہ چل جاتا تو یہ اپنے آپ کو ان کے سامنے گونگا اور اندھا سمجھتے
(تلبیس ابلیس، ص : 2511)
بعض پیر بتیاں بند کروا کے عورتوں اورمردوں کے مخلوط مراقبے کرواتے ہیں۔ کئی پیر رمضان کے مقدس مہینہ میں مردوں اور عورتوں کو آمنے سامنے بٹھا کر افطاریاں کرواتے ہیں۔ پھر ان پیروں کی زیر نگرانی صالحین کے مزارات پر جو اودھم مچائے جاتے ہیں اور جو جرائم وہاں پنپتے ہیں کبھی جا کر ان کی بھی خبر لیجئے۔ بہت سے نفع بخش مزارات محکمہ اوقاف کے قبضہ میں ہیں۔ وہاں کے گلوں میں عوام الناس جو لاکھوں روپے ڈال جاتے ہیں ان کا مصرف عام طور پر کیا ہوتا ہے یہ کسی باخبر سے پوچھ لیجئے۔ علماء کو چاہئے کہ وہ لوگوں کو ان کی دولت کے حقیقی مصرف سے آگاہ کریں۔
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی
یہ پیر، مسلک کی تنظیمی ترقی، تعلیمی و تدریسی خدمت اور اجتماعیت کے لئے بھی سنگ گراں ثابت ہوتے ہیں نہ خود کام کرتے ہیں نہ کسی دوسرے کو کرنے دیتے ہیں۔ بہت سے پیر اپنے مریدوں کو کسی بھی فعال تنظیم سے وابستہ نہیں ہونے دیتے۔ ہاں اگر پیر نے اپنی کوئی تنظیم بنا رکھی ہے تو اس کو چلانا سب مریدوں کے لئے فرض عین ہوتا ہے۔
گر ہمیں خانقاہ وہمیں پیراں، کار مریداں تمام خواہد شد
ان سب حالات کے باوجود آپ دیکھیں گے کہ ہر جگہ جاہل مریدوں کا ایک بہت بڑا گروہ ان جعلی پیروں کے پیچھے بڑے ادب کے ساتھ ہاتھ باندھے نظر آئے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وظیفہ خور علماء جب بھی تقریر کرتے ہیں تو اَلاَ اِنَّ اَوْلِيَاءَ اللّٰه لَا خُوْفٌ عَلَيْهم وَلاَ هُم يَحْزَنَون پڑھ پڑھ کر پیر کی طرف اشارے کرتے ہیں۔ کاروباری نعت خوان حمد و نعت پڑھ پڑھ کر پیر کی جانب اشارے کرتا ہے اور اس طرح جہلاء کو پیر کا بے دام غلام بن جانے کی جذباتی ترغیب ملتی ہے۔ ویسے آج کل کاروباری علماء کا کاروبار خاصا مندا جا رہا ہے کیونکہ اب اس کی سیٹ کاروباری نعت خواں نے سنبھال لی ہے۔ اس لئے پیروں کو اپنا کاروبار چمکانے کے لئے اب مولویوں کی کوئی ضرورت نہیں رہی۔
تربیت کے عجیب کرشمے
ان پیروں کے ذریعے مریدوں کی جس طرح تربیت ہو رہی ہے وہ بھی انتہائی اذیت ناک ہے، چند ایک تربیتی مناظر ملاحظہ ہوں :
پیر صاحب جونہی اپنے دولت خانہ کی دہلیز سے باہر قدم رکھتے ہیں تو دروازے پر نظریں گاڑے مریدین پر گویا نزع کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ ہاؤ ہو کی صدائیں بلند ہوتی ہیں، کوئی شوں شوں کی آواز نکالتا ہے کوئی تالیاں بجاتا ہے، کوئی درود و سلام پڑھتا ہے، کوئی نعرے لگاتا ہے کوئی جوتے اتارتا ہے۔ کوئی کچھ کرتا ہے اور کوئی کچھ کرتا ہے۔ اب ملاقات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، پیر صاحب مریدوں کے جراثیم سے بچنے کے لئے ہاتھوں پہ دستانے چڑھا لیتے ہیں، کوئی مرید قدموں میں گرا ہوا ہے، کسی نے گھٹنے تھام رکھے ہیں، کوئی کندھوں کو بوسے دے رہا ہے، کوئی پشت سے چمٹا ہوا ہے، کوئی ہاتھ چومنے کے چکر میں ہے۔ غرضیکہ ایک ہنگامہ بپا ہے اور دھکم پیل ہو رہی ہے۔ (حالانکہ ایک مسلمان کو نماز کے لئے بھی دھکم پیل اور بھاگ دوڑ کی اجازت نہیں ہے) جبکہ پیر صاحب نے بڑی شان بے نیازی سے ہاتھ آگے کیا ہوا ہے کسی کو ایک ہاتھ ملاتے ہیں تو کسی کے لئے سر ہلاتے ہیں، کسی کو ایک انگلی تھماتے ہیں تو کسی کو دو انگلیاں۔ پیر صاحب کی آمد و رفت پر بار بار کی اٹھک بیٹھک ہوتی ہے۔ ہاتھ جوڑ جوڑ کر بات کی جاتی ہے جان کی امان طلب کی جاتی ہے۔ کوئی حالت قیام میں ہے تو کوئی حالت رکوع میں، کوئی سجدہ کر رہا ہے تو کوئی التحیات میں بیٹھا ہوا ہے۔ اگر خدانخواستہ آپ نے پیر صاحب کے ہاتھ چومنے میں ذرا سی کوتاہی کر لی تو بس! پیر صاحب کا غیظ و غضب دیکھنے والا ہوتا ہے، آنکھیں شعلہ بار ہو جاتی ہیں اور جسم تھرتھرانے لگتا ہے۔ آپ ایک نظر کی جنبش میں مریدین سے مرتدین کی صف میں شامل کر لئے جاتے ہیں۔ اسی طرح اگر آپ نے کسی مجبوری کے تحت نذرانہ کی ادائیگی میں کچھ پس و پیش کی ہے تو آپ ہمیشہ کے لئے پیر صاحب کی نظروں میں کھٹک جاتے ہیں، توجہات و تصرفات سے محرومی کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، زمین و آسمان کی تمام آفات و بلیات آپ کے گھر کا مقدر ٹھہرتی ہیں۔ ایسے مرید کے گھر میں قدم رکھنا گویا پیر صاحب کے لئے جہنم میں جانے کے برابر ہوتا ہے۔
پیر صاحب کی اولاد کے لئے شاہانہ القاب اور مریدوں کے لئے انسانیت سے بھی گرے ہوئے القاب استعمال کئے جاتے ہیں۔ کئی پیروں سے اتنا استغاثہ کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے بھی اتنا نہیں کیا جاتا۔ کئی پیر بڑے تجسس پھیلانے والے (Suspense creative) ہوتے ہیں۔ ہمیشہ نظریں جھکا کے رکھتے ہیں۔ جاہل مرید اپنے پیر کی صرف ایک نظر کرم کے لئے تڑپتے پھڑکتے رہتے ہیں مگر پیر بھی ایسا پکا ہوتا ہے کہ لمحہ بھر کے لئے دیکھنا گوارا نہیں کرتا۔ اگر کوئی مرید اپنے پیر کے بغیر کعبۃ اللہ کا طواف کر لے تو پیر صاحب اس بات کو رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے واقعہ پر قیاس کر کے اس پر ہمیشہ کے لئے ناراض ہو جاتے ہیں۔
ہر پیر کے مریدوں کی علیحدہ شناخت ہوتی ہے۔ خاص رنگ کی ٹوپی اور خاص قسم کی سلائی، خاص رنگ کی پگڑی اور خاص قسم کی بندش۔ یہ بات شاید کوئی ایسی قابل اعتراض نہ ہوتی مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ علیحدہ علیحدہ شناختوں والے مرید جب ایک دوسرے کو ملتے ہیں تو یوں گھور کے دیکھتے ہیں جیسے ابھی کچا چبا جائیں گے۔ کچھ عرصہ پہلے سلسلہ ہائے بیعت الفتوں اور چاہتوں کا سبب ہوتے تھے مگر اب نفرتوں اور عداوتوں کا باعث ہیں۔ قرآن کے غلاف کو وہ عظمت حاصل نہیں ہوتی جو پیر صاحب کی چادر کو حاصل ہوتی ہے۔ کتاب اللہ کی گرد تو جھاڑ دی جاتی ہے مگر پیر صاحب کی مٹی کو غازہ بنایا جاتا ہے۔ مسجد کی صفائی سے برکت حاصل کرنے کے متعلق کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا مگر پیر صاحب کی گاڑی کو عماموں کے ساتھ صاف کیا جاتا ہے اور چادریں لگا لگا کر حجر اسود کی طرح بوسے دیئے جاتے ہیں۔ کئی پیروں کا لعاب دہن بطور تبرک استعمال کیا جاتا ہے اور کئی پیروں کے ہاتھوں کا ماء مستعمل نوش جان کیا جاتا ہے۔
مرید کی انواع و اقسام
’’جیسا منہ ویسی چپیڑ‘‘ کے مصداق آج کل کے مرید بھی انواع و اقسام کے ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ مرید ہوتے وقت ایسے پیر کا انتخاب کرتے ہیں جس کے تعلقات وسیع تر ہوں اور وہ بازار سیاست میں بڑے اثر و رسوخ کا مالک ہو۔ بعض لوگ صرف ایک پیر پر اکتفاء نہیں کرتے بلکہ حسب ضرورت موقع بہ موقع پیر بدلتے رہتے ہیں۔ بعض مرید اپنی گدی کے اسی پیر سے زیادہ تعلقات بنا کے رکھتے ہیں جس سے وقتاً وفوقتاً اپنے مفادات حاصل کئے جا سکیں۔ بعض مرید ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا مقصد حیات اپنے پیر کی نظر میں دوسرے پیر بھائیوں کی حیثیت کو گرانا اور اپنی حیثیت کو بڑھانا ہوتاہے اور اس کے لئے شکایات کی ایک بہت بڑی پوٹلی ہر وقت ان کے ساتھ رہتی ہے۔
بعض مرید جب چہرے پہ داڑھی اور سر پہ پگڑی سجا لیتے ہیں تو وہ اپنے آپ کو مفتی اعظم سمجھنا شروع کر دیتے ہیں، اب ان کے نزدیک بڑے بڑے شیوخ الحدیث والتفسیر بھی کسی شمار میں نہیں ہوتے۔ آسمان کے نیچے بس ایک وہ ہوتے ہیں اور دوسرا ان کا پیر۔ چونکہ آج کل بعض پیروں نے خلافت کی منڈی بھی لگا رکھی ہے لہذا بہت سے بندگان نفس ایسے ہی پیروں کو ترجیح دیتے ہیں اور چند روز میں خلافت حاصل کر کے سارے غوثوں قطبوں کے سردار بن جاتے ہیں۔ پیر ان باصفا کی تربیت اور کاروباری مولویوں کے نصیحت کی بناء پر سب مریدوں کے نزدیک ان کے پیر کی بات حرف آخر اور پتھر پہ لکیر ہوتی ہے بلکہ پیر کا ایک اشارہ بھی وحی جتنی طاقت رکھتا ہے لہذا کوئی بڑے سے بڑا عالم بھی پیر صاحب کے اقوال زریں کو قرآن و حدیث کی کسوٹی پر پرکھنے کی جرات نہیں کر سکتا، ورنہ وہ بڑا بے ادب، جھوٹا اور گستاخ کہلائے گا۔
کچھ مرید اپنے پیر کا مرید ہونے کو حافظ و قاری ہونے سے بھی زیادہ باعث فضیلت سمجھتے ہیں اور اس طرح کلام اللہ کی توہین کے مرتکب ہوتے ہیں۔ کچھ مرید جو احکام شریعت کے قریب بھی نہیں پھٹکتے وہ پیر صاحب کی خدمت میں آئے روز کی حاضریاں لگوا کر جنت کی بکنگ کرواتے ہیں۔ تقریباً ہر پیر کا مرید دوسرے پیر کی خرابیاں اور اپنے پیر کی خوبیاں بیان کر کے اس کا مرید ہو جانے کا درس دیتا پھرتا ہے۔ اپنے پیر کی نسبت کو ہر کسی کے نام کے ساتھ لگاتے پھرنا گویا بہت بڑی نیکی اور خدمت دین سمجھا جاتا ہے۔ اگر ایک پیر کا مرید کسی دوسرے پیر کی تعریف کر دے تو اسے فوراً راندہ درگاہ قرار دے دیا جاتا ہے۔
پیروں کی جائیدادیں اور تعلقات
سینکڑوں ہزاروں مربع زمینیں، وسیع و عریض کاروبار، کروڑوں اربوں کے بینک بیلنس، مہنگی ترین گاڑیاں، مہنگے ترین علاقوں میں محلات اور کوٹھیاں، فائیو سٹارز ہوٹلوں کے کھانے اور رہائشیں شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ، سیاست کی آنیاں جانیاں، اعلیٰ سطح کے حکومتی وغیر حکومتی تعلقات، امیر ترین خانوادوں اور خاندانوں میں رشتے، ایسی سہولیات و تعیشات کہ بڑے بڑے وزیر بھی دیکھ کر رشک سے مر جائیں۔ کسی بھی حکومت کو ان سے کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔
ہر آنے والی نئی حکومت سرا وعلانیۃ ان کی آشیر باد حاصل کرتی ہے۔ انہیں مختلف عہدوں سے نوازا جاتا ہے، وزارتیں پیش کی جاتی ہیں، کانفرنسوں میں مہمان خصوصی بنایا جاتا ہے، غیر ملکی دورے کروائے جاتے ہیں، بیش بہا تحائف دیئے جاتے ہیں، بوقت ضرورت خزانوں کے منہ ان کے لئے کھول دیئے جاتے ہیں لیکن پھر بھی ان کی زبان پر یہی وظیفہ ہوتا ہے، نرخ بالا کن ارزانی ہنوز، ان کا پیٹ یہی صدائیں دیتا ہے شکم فقیراں تغار خدا ہر چہ آید فنا درفنا۔ ان کا سمندر سے بھی زیادہ ڈونگا دل پکار پکار کر یہی کہتا ہے هل من مزيد، هل من مزيد.
صاحب بہار شریعت مولانا امجد علی اعظمی لکھتے ہیں : ’’آج کل بہت سے لوگوں نے پیری مریدی کو پیشہ بنا لیا ہے، سالانہ مریدوں میں دورے کرتے ہیں اور طرح طرح سے رقمیں کھسوٹتے ہیں جن کو نذرانہ وغیرہ ناموں سے موسوم کیا جاتا ہے۔ بہت سے پیر ایسے بھی ہیں جو اس کے لئے جھوٹ اور فریب سے کام لیتے ہیں یہ (سب) ناجائز ہے۔
علامہ ابن جوزی لکھتے ہیں کہ بعض پیر کمانے کی طاقت رکھتے ہیں مگر وہ سارا دن اپنے آستانوں پر لوگوں سے خیرات وصول کرتے رہتے ہیں۔ ان کا دھیان ہر وقت اس طرف لگا رہتا ہے کہ کوئی عقیدت مند بھی آئے گا اور نذرانہ پیش کرے گا۔ حالانکہ شریعت کا واضح مسئلہ ہے کہ غنی اور قوی شخص کے لئے خیرات لینا جائز نہیں (کہ یہ بھیک ہے)
بہر حال پیری مریدی ایک خالصتاً نفع بخش کاروبار اور بہترین ذریعہ روزگار ہے۔ اس میں خسارے کا سودا بالکل نہیں ہے۔ کوئی بھی شخص پیر بن کے بیٹھ جائے اس کی جھگی کا خرچہ بغیر کسی محنت کے بیٹھے بٹھائے چلتا رہتا ہے بلکہ مزید آسامیاں پھنسانے کے لئے لنگر کے پیسے بھی وافر مقدار میں ملتے رہتے ہیں۔ اسی لئے اقبال نے کہا تھا :
نذرانہ نہیں سود ہے پیران حرم کا
پیر بننے کے چند نسخے
یقینا آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اتنا منافع بخش کاروبار یقینا بڑی محنتوں اور مشقتوں کے بعد ہی چلتا ہو گا، نجانے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہوں گے اور کہاں کہاں کی خاک چھاننی پڑتی ہوگی۔ حالانکہ پیر بننا اس دنیا کا آسان ترین کام ہے۔ اگر آپ کسی پیر خاندان یا سید خاندان سے تعلق رکھتے ہیں تو پھر تو آپ بنے بنائے سکہ بند پیر ہیں۔ پیری مریدی آپ کا خاندانی اور موروثی حق ہے، جسے کوئی مائی کا لعل بھی آپ سے چھین نہیں سکتا، ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آئے۔
اگر ایسا نہیں اور آپ تھوڑا بہت لکھنا پڑھنا جانتے ہیں تو پھر بازار سے عامل بنانے والی تعویذات کی کوئی کتاب خرید لیں اور دم درود جھاڑ پھونک کا سلسلہ شروع کر دیں۔ آپ کا یہ کاروبار برق رفتاری سے ترقی کرے گا، راتوں رات آپ کا نام پیران عظام کی فہرست میں شامل کر لیا جائے گا اور چند ہی دنوں بعد جہلاء کرام آپ کی دست بوسی کے لئے ایک دوسرے کو دھکے دے رہے ہوں گے۔
اگر یہ بھی نہیں تو کوئی ایسا شیخ طریقت ڈھونڈ لیجئے جو پانچ سات سبقوں کے بعد آپ کو خلافت دے ڈالے تب بھی آپ وہ القاب ومراتب حاصل کر لیں گے جن کا بڑے بڑے علماء کرام بھی تصور نہیں کر سکتے۔ پیر بن جانے کے بعد زندگی کے وارے نیارے تو پکے ہیں، مرنے کے بعد بھی قل خوانی، چہلم، عرس، مزار، خانقاہ اور اولاد کی سرپرستی وغیرہ کے متعلق فکر مند ہونے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں، سب کچھ خود بخود (Automatically) ہوتا چلا جائے گا۔ نماز وغیرہ پڑھنے کی ضرورت تو بالکل نہیں، کوئی پوچھے تو کہہ دیجئے کہ ’’مدینے میں پڑھتے ہیں‘‘۔ یہ جواب بھی ابتدائی ایام کے لئے ہے جو بعد میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ نماز وغیرہ تو مبتدی لوگوں کے لئے ہوتی ہے ہم جیسے منتہی لوگوں کو اس کی کیا ضرورت؟
پرہیز علاج سے بہتر ہے
ہم نے آپ کو نسخہ تو بتا دیا مگر پرہیز نہیں بتا سکے۔ یاد رکھئے علم دین سے پرہیز بے حد ضروری ہے۔ بارہ بارہ سال محنت کرنی پڑتی ہے، دن رات ایک کرنے پڑتے ہیں، اساتذہ کی جھڑکیاں سہنی پڑتی ہیں، مدرسہ کے قوانین اور نظم و ضبط کا خیال رکھنا پڑتا ہے، کھانا پینا حسب خواہش نہیں ملتا، جیب خرچ کی کمی ہوتی ہے اور امتحانات سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ پھر جب بندہ عالم بن جاتا ہے تو در در کی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں۔ مساجد میں مقتدیوں کی خوشامد، مدارس میں مہتممین کے نخرے، تقریریوں میں عوامی جذبات کا خیال، خانقاہوں میں پیروں کی تعریفیں، بازاروں میں لوگوں کے طعنے، آمدنی بھی کم، عزت بھی تھوڑی وغیرہ وغیرہ۔ اور اگر کبھی آپ کو حق گوئی و بے باکی کا شوق چرا گیا تو مسجد بھی گئی، مدرسہ بھی گیا، تقریریں بھی بند، پیروں کی بددعائیں بھی ساتھ، مریدوں کے ہتھے چڑھ گئے تو مالش بھی خوب، دوسرے مسلک والے تو ویسے ہی آپ کے مخالف ہیں اپنے مسلک والے بھی جوتے ماریں گے۔ کسی دانشور نے کہا تھا دوستوں سے تم مجھے بچا لو دشمنوں سے میں خود نمٹ لوں گا۔
اگر آپ درس و تدریس سے وابستہ ہیں تو جن شاگردوں کو آپ دس دس سال پڑھائیں گے اگر وہ کسی کے مرید ہوگئے تو آپ سے حاصل کی ہوئی ساری تعلیم کے متعلق برملا کہتے پھریں گے کہ یہ سب کچھ میرے پیر کے جوتوں کا صدقہ ہے۔ آپ کے پاس بھول کر بھی نہیں آئیں گے مگر پیر کے در پر آئے روز کی حاضریاں لگوائیں گے۔ آپ کی دعا میں کوئی اثر نہ پائیں گے مگر پیر کی دعا ایک دم اکسیر ہو گی۔ نذرانے پیش کریں گے تو پیر کی خدمت میں، آپ سے الٹا کچھ کھا پی کے جائیں گے۔ دعوت کریں گے تو آپ کو مفت بلانا بھی پسند نہیں کریں گے مگر پیر کو سپیشل پروٹوکول کے ساتھ بلائیں گے۔ اگر آپ اور پیر صاحب کبھی اکٹھے ہو گئے تو پہلے پیر کے قدموں کو چومیں گے پھر آپ سے ہاتھ ملائیں گے۔ جس پیر نے ساری عمر سوائے حاضریوں کے کچھ نہیں دیا اور ہزاروں روپے سمیٹتا رہا ہے اس کو بہترین نشست پہ بٹھائیں گے اور آپ جو کہ ساری عمر مغز ماری کرتے رہے ہیں اور تعلیم و تربیت کے مراحل سے گزار کر ایک مقام پہ لاکھڑا کیا ان کو پیر صاحب کے قدموں میں بٹھائیں گے۔ سٹیج پر پیر صاحب کے لئے خاص انتظام کیا جائے گا اور آپ کو صرف بیٹھنے کی جگہ مل جائے تو بھی غنیمت ہے۔ پیر کا کتا کہلانے میں بھی فخر محسوس کریں گے اور آپ کا شاگرد کہلانے میں بھی عار محسوس کریں گی۔ یہ سب تو وفادار شاگرد کی پھرتیاں تھیں اور اگر خدانخواستہ آپ کا شاگرد غدار نکلا تو پھر؟؟؟ لہذا عافیت اسی میں ہے کہ پیری مریدی کا پیشہ اختیار کریں اپنوں غیروں سب کی آنکھوں کا تارا بن جائیں گے۔ بڑے بڑے وزیر و مشیر اور دولت مند آپ کے قدموں میں بیٹھیں گے۔
لمحہ فکریہ
آج جو کچھ ان نام نہاد کاروباری پیروں اور نعت خوانوںکے پاس ہے سارا کا سارا سادہ لوح عوام اہل سنت کا ہے۔ یہ سب کچھ ان لوگوں کے ذاتی استعمال میں ہے، دین کو اس کا ذرہ برابر بھی فائدہ نہیں ہے۔ جو کچھ انہیں دیا گیا تھا وہ عقائدِ صحیحہ کے فروغ، دین کی سربلندی اور علم و عمل کی ترقی کی نیت سے دیا گیا تھا مگر اب جبکہ یہ آشکارا ہو چکا ہے کہ یہ لوگ دین کی خدمت کی بجائے شکم پروری کا کام کر رہے ہیں تو پھر علماء حق کا فرض بنتا ہے کہ وہ ان ’’مقدس‘‘ کاروباریوں کا مکمل احتساب کریں۔ یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ ان لوگوں کی عزت، عظمت، مال و دولت سب کچھ علماء کرام کی وجہ سے ہے۔ آج بھی اگر علماء کرام ان کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیں اور عوام کو حقائق سے آگاہ کرنا شروع کر دیں تو ان کاروباریوں کے تمام پلازے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی طرح دھڑام سے زمین پر آ گریں گے۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ مسلکِ اہل سنت وجماعت علم اور عمل کا نام ہے ان کاروباریوں کا تقدس برقرار رکھنے کا نام نہیں ہے۔ یہ تو وہی لوگ ہیں جن کے کالے کرتوتوں کی وجہ سے بدباطن اور بدعقیدہ لوگوں کو مسلک حق پر کیچڑ اچھالنے کا موقع مل رہا ہے۔
بت ہم کو کہیں کافر اللہ کی مرضی ہے
ان لوگوں کی منظم سازش کے نتیجے میں اب لوگوں کا علماء حق سے بھی اعتماد اٹھ چکا ہے اور ان کی سر عام تذلیل کی جا رہی ہے۔ راقم الحروف کو خود ایک جاہل پیر نے کہا کہ ’’جو مسئلہ ہم بتا دیں چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہو پتھر پہ لکیر ہوتا ہے، اب کوئی بڑے سے بڑا مفتی بھی صحیح مسئلہ بتائے تو مرید کو اس پر یقین نہیں آئے گا‘‘۔ دیگر مسالک میں صرف اور صرف علماء کو اہمیت حاصل ہے۔ ان کے لئے سب کچھ ان کا عالم ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے مدرسین معاشی حوالے سے پریشان نہیں ہوتے مگر ہمارے مسلک میں سب کچھ کاروباری پیر اور نعت خوان بنے بیٹھے ہیں اور مدرسین بے چارے انتہائی مفلوک الحال ہیں۔
عقائدِ صحیحہ کا فروغ اور دینی اقدار کی بقاء کی جنگ انہی علماء کو لڑنی پڑتی ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ علماء کرام اپنے مقام کو پہچانیں اور اس کا تحفظ کریں۔ میں کہا کرتا ہوں کہ جب وقت تھوڑا ہو تو سنتیں اور نفلیں چھوڑ دینی پڑتی ہیں اور فقط فرض ادا کئے جاتے ہیں۔ علم دین کا حصول فرض ہے اور باقی محفلیں وغیرہ زیادہ سے زیادہ مستحبات میں شامل ہیں۔ اس دور زوال میں اب مستحبات کا وقت نہیں رہا۔ جتنی جلدی ہوسکے علم کا فرض ادا کیا جائے، جگہ جگہ مدارس کھولے جائیں اور سابقہ صحیح دینی کام کرنے والے مدارس کو مضبوط کیا جائے۔ ایک محفل کا فائدہ زیادہ سے زیادہ چند دنوں کا ہوتا ہے مگر ایک مدرسہ صدیوں تک اپنی روشنی پھیلاتا رہتا ہے۔ اگر جگہ جگہ دینی مدارس قائم کر دیئے جائیں تو روشنی کا ایسا سیلاب آئے گا کہ اندھیروں کو سر چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی۔
عقیدہ “وحدت الوجود” کے باطل ہونے پر علما کا اتفاق ہے ، ان کا اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ یہ عقیدہ کفریہ اور شرکیہ ہے، چونکہ یہ عقیدہ ایسے نظریات پر مشتمل ہے جو حقیقی عقیدہ توحید جو کہ دین اسلام کا نچوڑ اور خلاصہ ہے اسے ختم کر دیتا ہے، اس لئے علما اس عقیدہ کو ختم کرنے اور اس کے خلاف محاذ قائم کرنے کی دعوت دیتے ہیں ۔
باطل عقائد میں سے ایک نظریہ “وحدت الوجود” یعنی یہ عقیدہ رکھنا کہ ہر موجود چیز بذات خود اللہ ہے، اس عقیدہ کے حاملین کو “اتحادیہ” بھی کہا جاتا ہے، یہ لوگ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی اپنی تمام مخلوقات کے ساتھ اس طرح ملا ہوا ہے کہ تمام موجودات متعدد وجود کی بجائے ایک ہی وجود بن گیا ہے !!
اس نظریے کہ باطل ہونے کے دلائل قرآن و حدیث اور عقلِ سلیم سے بے شمار تعداد میں ملتے ہیں، ان میں سے چند ایک یہ ہیں :
اللہ عزوجل فرماتا ہے:
{ وَجَعَلُوا لَهُ مِنْ عِبَادِهِ جُزْءاً إِنَّ الإِنسَانَ لَكَفُورٌ مُبِينٌ}
ترجمہ :اور ان لوگوں نے اللہ کے بندوں میں سے بعض کو اس کا جزو بنا ڈالا، بلاشبہ انسان صریح کفر کا مرتکب ہے ۔ [الزخرف:15]
ایک جگہ فرمایا:
{ وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَبًا وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ إِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ. سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ }
ترجمہ: نیز ان لوگوں نے اللہ اور جنوں کے درمیان رشتہ داری بنا ڈالی، حالانکہ جن خوب جانتے ہیں کہ وہ[مجرم کی حیثیت سے]پیش کئے جائیں گے ، اللہ ان سب باتوں سے پاک ہے جو یہ لوگ بیان کرتے ہیں ۔[الصافات:159]
دیکھیں: کیسے اللہ تعالی نے ان لوگوں پر کفر کا حکم لگایا ہے جنہوں نے اللہ کے بعض بندوں کو اس کا حصہ قرار دیا، اور بعض مخلوق کی اللہ تعالی کیساتھ رشتہ داری بیان کی ،تو اس شخص کا کیا حکم ہوگا جو خالق اور مخلوق کا ایک ہی وجود مانے!؟
ایک مسلمان سے کیسے ممکن ہے کہ وہ وحدت الوجود کا عقیدہ رکھے حالانکہ اس کا ایمان ہے کہ اللہ تعالی ہر چیز کا خالق ہے، وہ کیسے قدیم اور ازلی خالق کو اور نو پید مخلوق کو ایک کہہ سکتا ہے!! حالانکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَقَدْ خَلَقْتُكَ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ تَكُ شَيْئاً}
ترجمہ: پہلے میں نے تمہیں پیدا کیا حالانکہ تم معدوم تھے [مریم :9]
اور اللہ سبحانہ تعالی فرماتا ہے:
{ أَوَلا يَذْكُرُ الإِنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ يَكُ شَيْئًا }
ترجمہ: کیا انسان کو یہ یاد نہیں ہے کہ پہلے بھی ہم نے اسے پیدا کیا حالانکہ وہ معدوم تھا [مریم:67]
قرآن کریم کا مطالعہ کرنے والا قرآن مجید کے نظم اور خطاب میں موجود مسلمہ واضح حقائق جان لے گا کہ مخلوق اور خالق ایک چیز نہیں ہو سکتے؛ جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقًا مِنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ شَيْئًا وَلَا يَسْتَطِيعُونَ}
ترجمہ: اللہ کے سوا جن چیزوں کو وہ پوجتے ہیں وہ چیزیں آسمانوں اور زمیں سے رزق مہیا کرنے کا بالکل اختیار نہیں رکھتیں [النحل : 73]
چنانچہ جواس حقیقت کی مخالفت کرتا ہے، تو وہ قرآن اور دین کی حتمی اور فیصلہ کن نصوص کی مخالفت کرتا ہے ۔
مزید بر آں جو قباحتیں وحدت الوجود کے دعوے سے لازم آتی ہیں ،اس باطل عقیدے کی تردید کے لئے کافی ہیں ، جواس عقیدے پر ایمان لے آتا ہے تو اس کی حالت اسے بد کاری کے حلال اور ایمان و کفر کے درمیان برابری قرار دینے پر مجبور کر دے گی، کیونکہ ان کے وہم و گمان کے مطابق دعوی یہ ہے کہ عقائد کا انحصار ایک وجود کے ساتھ ایمان لانے پر ہے ، اس عقیدے سے یہ بھی لازم آئے گا کہ اللہ عز و جل کی گھٹیا ترین مخلوقات، چوپاؤں ، پلید اشیا وغیرہ کی طرف کی جائے ، اللہ تعالی ان کے شاخسانوں سے بہت بلند و بالا ہے ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“یہ کہنا کہ ہر چیز کا وجود اللہ تعالی کا وجود ہی ہے، یہ لادینیت کی انتہا ہے، مشاہدات، عقل اور شریعت سے اس عقیدے کی خرابی واضح ہے، اس قسم کی لا دینیت سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کی صفات کو ثابت کیا جائے اور اس کی مخلوقات سے مشابہت کی نفی کی جائے، یہی اللہ پر ایمان لانے والوں اور نیک اعمال کرنے والوں کا دین اور طریقہ کار ہے ”
“درء تعارض العقل و النقل “(1/283)
اور مزید کہتے ہیں:
” اتحادِ مطلق کا نظریہ وحدت الوجود کے قائلین کا ہے، انکا یہ دعوی ہے کہ مخلوق کا وجود اللہ ہی کا وجود ہے، یہ حقیقت میں [مخلوق کو ] بنانے والے[اللہ تعالی ]کی نفی اور اس کا انکار ہے، بلکہ یہ عقیدہ تمام شرکیات کا مجموعہ ہے ”
“مجموع الفتاوی “(10/59)
مزید کہتے ہیں:
“ایک عقیدہ “وحدت الوجود “جس کے مطابق : خالق اور مخلوق کا وجود ایک ہی ہے ، ابن عربی ،ابن سبعین ،تلمسانی اور ابن فارض وغیرہ اسی کے قائل ہیں، اس قول کا شرعی اور عقلی لحاظ سے باطل ہونا یقینی طور پر ثابت ہے”
“مجموع الفتاوی”(18/222)
اس عقیدے کے لوازم بیان کرتے ہوئے شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے کہا:
“اس-ابن عربی – کے مذہب کی حقیقت یہ ہے کہ تمام کائنات کا وجود-بشمول کتے، خنزیر، گندگی، پیشاب و پاخانہ ،کفار اور شیاطین – عین حق تعالی کاہی وجود ہے، اور کائنات کی تمام اشیا زمانہ قدیم سے ہی موجود ہیں، اللہ تعالی نے ان کو نئے سرے سے پیدا نہیں کیا، بلکہ اللہ تعالی کا وجود ان تمام چیزوں [یعنی تمام صاحب الوجود موجودات]میں ظاہر ہوا، اللہ کے لئے ممکن ہی نہیں ہے کہ ان ذوات کے علاوہ کسی اور چیز میں اپنے وجود کو ظاہر کرے، یہ تمام چیزیں احکامات کی شکل میں اس کی غذا ہیں اور وہ [حق تعالی]وجود کے ذریعے ان مخلوقات کی غذا ہے، اللہ ان کی اور یہ اللہ کی عبادت کرتی ہیں ،اور یہ کہ خالق کی ذات بعینہ مخلوق کی ذات ہے، اور حق تعالی کی ذات جو ہر نقص و عیب اور مشابہت سے پاک ہے وہ بعینہ ایسی مخلوق کی ذات ہے جو دوسروں سے مشابہت رکھتی ہے ،اور یہ کہ خاوند ہی بیوی ہے ،گالی دینے والا خود اپنی ذات کو ہی گالی دے رہا ہے ،اور یہ کہ بتوں کے پجاری در اصل اللہ ہی کی عبادت کر رہے ہیں، اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت ممکن ہی نہیں ہے ۔
اور یہ کہ اللہ تعالی کے فرمان:
{وَقَضَی رَبُّکَ أَلَّا تَعْبُدُوْا إِلَّا إِيَّاهُ}
ترجمہ: تیرے رب نے یہ حکم دیا ہے کہ صرف اسی کی عبادت کرو[الاسراء: 23]
اس میں “قَضَی” کا معنی ہے: “حکم دیا اور فیصلہ کیا” اور اللہ کا فیصلہ لامحالہ واقع ہو کر ہی رہتا ہے، چنانچہ ہر معبود میں [دراصل ]غیر اللہ کی عبادت نہیں ہے[بلکہ جس کی بھی عبادت ہو وہ دراصل اللہ ہی کی عبادت ہے ]اور یہ کہ صنم پرستوں کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے عبودیت کے دائرہ عمل میں سے کچھ کی عبادت کی ہے، اگر وہ ہر چیز کی عبادت کرتے تو کامل ترین عارفین [اللہ کی صحیح معرفت رکھنے والے لوگ]میں سے ہوتے، اور یہ کہ عارف کامل جانتا ہے کہ اس نے کس کی عبادت کی ہے اور [حق تعالی ] کس صورت میں ظاہر ہوا ہے تاکہ اس کی پرستش کی جائے، اور یہ کہ نوح علیہ السلام نے مذمت والے انداز میں اپنی قوم کی تعریف کی ہے، اور یہ کہ مخلوقات کی ذات بعینہ خالق کی ذات ہے، اور جناب ہارون علیہ السلام نے بچھڑے کی پوجا کرنے پر قوم کی مذمت کی تو موسی علیہ السلام کی طرف سے اظہار ناراضی کی وجہ صرف یہ تھی کہ ہارون علیہ السلام نے قوم پر تنگی اور سختی کی اور یہ بھی نہ جان سکے کہ انہوں نے تو صرف اللہ کی ہی عبادت کی ہے !!
اور یہ کہ جادوگروں نے فرعون کے اس قول :{أَنَا رَبُّکُمْ الْأَعْلَی} (کہ میں ہی تم سب کا معبود اکبر ہوں )[النازعات :24]اور {مَا عَلِمْتُ لَکُمْ مِنْ إِلَہٍ غَیْرِیْ}(میں اپنے سوا تمہارا اور کوئی معبود نہیں جانتا) [القصص:38]کی سچائی کو جان لیا تھا ۔
اسی طرح کی اور بہت سی باتیں ماننا لازم آئیں گی، جن کا اعتقاد کوئی بھی شخص نہیں رکھتا خواہ وہ مسلمان ہو یا یہودی یا عیسائی ہو، یا صابی اور مشرک، یہ تو صرف معطلہ کا مذہب ہے جو مخلوق کو بنانے والے اللہ تعالی کے وجود کے ہی منکر ہیں ،وہ اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ اللہ تعالی تمام جہانوں کا پالنہار ہے اور تمام مخلوقات کو بنانے والا ہے ۔فرعون اور قرامطہ باطنیہ فرقہ جو رب العالمین کے انکاری ہیں ،ان کے نظریات کی حقیقت اور مطلب یہی ہے ” انتہی
جامع المسائل “ساتوں ایڈیشن(1/247-248) واللہ اعلم.
جو شخص اپنے غلط نظریات پر بضد قائم رہے، اور اپنے خود ساختہ نظریات کی ترویج کرے تو اس کے بارے میں لوگوں کو باخبر کرنا، اور اسکی گمراہی و انحراف بیان کرنا ضروری ہے، اور جو شخص اپنے نظریات کی ترویج نہ کرے، اسکے قول و فعل سے تلاش ِحق آشکار ہو تو اسے نصیحت کی جائے، عقائد میں موجود خامی کی نشاندہی کی جائے، اور اس کیلئے اچھا انداز اپنایا جائے، امید واثق ہے کہ اللہ تعالی اسے قبولِ حق کی توفیق دے گا۔جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (دین نصیحت کا نام ہے) ہم نے کہا کس کیلئے؟ آپ نے فرمایا: (اللہ کیلئے، اللہ کی کتاب کیلئے، اللہ کے رسول کیلئے، مسلم حکمرانوں کیلئے، اور عام لوگوں کیلئے) مسلم: (55)
Jan 4, 2011 – آجکل جہاں اور بہت سے اسلامی مسائل میں ایک عام آدمی صحیح فیصلہ نہیں کر پارہا ان میں ایک اہم مسئلہ بیعت کا بھی ہے کہ وہ کس کے ہاتھ پر بیعت …
تعلیماتِ طریقت و شریعت سے بے بہرہ جعلی پیری مریدی … کسی جامع شرائط مرشد کی بیعت بھی ایک مستحب اور بابرکت کام ہے۔ ….. کا مقصد حیات اپنے پیر کی نظر میں دوسرے پیر بھائیوں کی حیثیت کو گرانا اور اپنی حیثیت کو بڑھانا ہوتاہے …
پیری مریدی کی شرعی حیثیت. خضر حیات. 01/25 #2. السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ کسی کو اپنا پیر بنانا اسکی مریدی میں رہنا. کیا یہ درست ہے؟؟؟ پیری مریدی …
اور(روز قیامت) رسول کہے گا کہ اے میرے پروردگار! بےشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا ﴿سورة الفرقان25:30﴾
Sectarianism, extremism, militancy and Intolerance are the main threat to the unity, peaceful coexistence and progress of Muslims. Allah says: “Be not like those who became divided into sects and who started to argue against each other after clear revelations had come to them. Those responsible for division and arguments will be sternly punished” (Qura’n;3:105).“.. Keep reading >>>
آج کے دور میں مسلمان کئی فرقوں میں بٹ چکے ہیں اگرچہ ان کی اکثریت اسلام کے بنیادی عقائد اور عبادات پر متفق ہے مگر فروعی اختلافات کی شدت نے نفاق کے بیج اس طرح بو دیئےہیں کہ انتشار دن بدن متشدت اوراضافہ پزیرہے- اس معاملہ میں اسلام دشمن قوتیں بھی ملوث ہیں مگر ان کو جوازوہ مسلمان مہیا کر رہے ہیں جودشمنوں کے ہاتھدانستہ یا نادانستہ طور پرکھلونا بن چکے ہیں- قرآن پر سب مسلمانوں کا ایمان ہے، جس کو سب مسلمان مکمل طور پر کلام اللہ تسلیم کرتے ہیں، یہی الله کی مظبوط رسی ہے جس کو الله تعالی مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیتا ہےاور یہی تفرقہ کے خلاف موثر ترین ڈھال ہے-
کیوں نہ سب اہل ایمان رسول اللهﷺ اورصحابہ کرام رضی اللہ کے دور کے مسلمان بن جائیں جو قرآن کو اسلامی علم کا بنیادی ماخذ مانتے تھے جس کا عملی نمونہ رسول الله ﷺ تھےجن کی سنت متواترمیں موجود تھی اور ہے۔ رسول الله ﷺ اور خلفاء راشدین نے اولین ضرورت کے تحت کلام اللہ، قرآن کو حفظ کے ساتھ ساتھ تحریر کی شکل میں محفوظ کرنے کا اہتمام خاص کیا، سنت رسولﷺ بھی موجود تھی- اسلام کے بنیادی عقائد و عبادات اور ان کی عملی شکل آپ ﷺ کے وصال پر غائب نہیں ہو گیئ تھیں- ایمان اور اسلام کے بنیادی ارکان اور ستون اپنی اصل میں اسی طرح موجود تھےجس طرح آج- کلمہ، نماز (صلاہ)، روزہ، حج ، زکات پرعمل درامد بھی ہو رہا تھا تو اب ایسا کون سا نیا ستون یا ایمان کا نیا جزو پیدا ہو گیا ہے جو تفرقہ کا باعث بن گیا؟ ہم جانتے ہیں کہ اسلام کے بنیادی عقائد اور عبادات میں نہ کوئی تبدیلی ہوئی ہے اور نہ ہی ایسا ہونا ممکن ہے، تو پھر جگھڑا کیوں؟
اللہ کےواضح احکامات کے باوجود اسلام میں فرقہ واریت کا زہر کیسے داخل ہوا؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئیے اسلام کی ابتدائی تاریخ کا مختصر جائزہ ضروری ہے >>>https://goo.gl/8ANxZ6